(Last Updated On: )
خالد حسن قادری(لندن)
اُٹھو اور اپنے دار و رسن مشکبو کرو
بہتر ہے خامشی سے کہ کچھ ہاؤ ہو کرو
درویش بے نیازِ غمِ خوب و زشت ہے
بے آبرو کرو اسے یا سُرخ رُو کرو
پھینکو اتار جامۂ پیوند کار کو
فرصت کہاں کہ بیٹھ کے اس کو رفو کرو
جائے اس طرف سے جلوسِ شہیدِ عشق
روشن تمام بام و در و کاخ و کُو کرو
یہ مصلحٹ سہی مگر اتنا کہاں دماغ
تحسینِ زلف بھی کرو اور موبمو کرو
غیروں کی طرح نام بھی پوچھو، یہ کون ہے
کب تک کسی کے حال کی یوں جستجو کرو
بے چشمِ اشک بار، نظر رُخ پہ ناروا
پہلے ہر اک نماز سے تازہ وضو کرو
ہم سادہ دل ہیں فنِ سخن پروری سے دور
جو گفتگو بھی ہم سے کرو دُوبدو کرو
حورو ملک بشر کے مقابل نہ ہو سکے
ہم سا جو کوئی ہو تو اسے روبرو کرو
شب خامشی سے تاروں کی چھاؤں میں کٹ گئی
اب کیا کسی سے وقتِ سحر گفتگو کرو
اک عمرِہجر بعد ملی فرصتِ وصال
اب آؤ اور قادریؔ کو سُرخ رُو کرو