شیخ رحمٰن اکولوی
شیخ رحمان اکولوی، یکم جولائی ۱۹۵۱ کو اکولہ میں پیدا ہوئے۔ طنز و مزاح نگار کے طور پر مشہور ہیں۔ انھوں نے افسانے اور بچوں کے لئے کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ ’’بلا عنوان، الف سے قطب مینار، ناٹ آؤٹ، سر خاب کے پر، تبسم زیرِ لب‘‘ ان کی ظریفانہ نگارشات کے مجموعے ہیں۔ ان کے فنی و شخصی کوائف پر مشتمل کتاب شیخ رحمٰن اکولوی، ایک مطالعہ، مرتبہ یعقوب الرحمٰن منظرِ عام پر آ چکی ہے۔
شیخ رحمٰن ودربھ کے پیش رو مزاح نگاروں میں شامل ہیں۔
شیخ رحمٰن اکولوی نے عصری زندگی کی ناہمواریوں کو اپنی تحریروں میں طنز یہ انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کے ہاں مشاہدے کی گہرائی، اپنا مذاق اڑانے کا ظرف اور مزاحیہ صورتِ حال کو مبالغے کے ساتھ پیش کرنے کا ہنر موجود ہے۔
’’عکسِ شعور‘‘ اور ’’سنو بچو‘‘ اور ’’پیاری پیاری کہانیاں‘‘ ان کی دیگر کتابیں ہیں۔
اٹھنا بیٹھنا
شیخ رحمان اکولوی
پیدائش کے وقت انسان کا زیادہ تر وقت لیٹنے میں گزرتا ہے اور جب وہ دنیا سے اٹھتا ہے تو ہمیشہ کے لیے لیٹ جاتا ہے۔ سب سے پہلے وہ بیٹھنا اور پھر اٹھنا سیکھتا ہے اور اس کی زندگی متحرک ہوتی ہے۔ گویا بیٹھنا اٹھنا انتہائی اہم افعال ہیں ان کے بغیر زندگی کا تصور بھی محال ہے۔ بچے کے اٹھنے بیٹھنے ہی سے بزرگ اس کے مزاج کا، اس کے رجحان کا اندازہ کر لیتے ہیں۔ ایک بچہ نچلا نہ بیٹھتا تھا۔ سارے گھر میں اِدھر اُدھر دوڑا پھرتا اور تباہی پھیلاتا۔ کبھی پانی کی مٹکی پھوڑ دی کبھی صابن پانی میں ڈال دی۔ کبھی آئینہ توڑ دیا تو کبھی دودھ زمین پر گرا دیا۔ ایک بزرگ نے اس کی یہ حرکتیں دیکھی تو پیشن گوئی کر دی کہ یہ بچہ لیڈر بن کر ملک و قوم کا ستیا ناس کرے گا۔ یہ پیشن گوئی مستقبل میں صحیح ثابت ہوئی۔
لیڈر اور سماج سیوک اپنی بات منوانے کے لیے اور پبلسٹی حاصل کرنے کے لیے آخری حربے کے طور پر ’اَن شَن‘ پر بیٹھتے ہیں۔ اکثر و بیشتر اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن بعض اوقات پانسہ الٹا پڑ جاتا ہے اور لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اور جان بچانے کے لیے ساڑھی لپیٹ کر مجمع سے بھاگنا پڑتا ہے یا پھر بوکھلاہٹ میں الٹے سیدھے بیانات دینے پڑتے ہیں۔ مثلاً رشوت خور کو طمانچہ مارنا بری بات نہیں یا ’’کیا ایک ہی طمانچہ مارا۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
الیکشن میں کھڑے ہونے سے زیادہ بیٹھنے میں فائدہ ہے۔ بعض لیڈروں کا تو یہ باقاعدہ شریفانہ بزنس ہے۔ وہ کسی حلقہ انتخاب سے پرچہ نامزدگی بھر کر الیکشن میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور جن دو افراد میں کڑا مقابلہ ہوتا ہے ان دونوں ہی حضرات سے اچھی خاصی رقم اینٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان لوگوں کو پیسہ مل جاتا ہے (اور پبلسٹی تو مل ہی جاتی ہے۔) اس کے علاوہ الیکشن میں ہار کر ذلت نہیں اٹھانی پڑتی ہے جیتنے والے لیڈر کی قربت حاصل ہوتی ہے۔ جسے مختلف کام کروا کر کیش (Cash)کیا جا سکتا ہے۔ (اسے کہتے ہیں پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں۔)ایک صاحب نے الیکشن میں کھڑے ہونے اور بیٹھنے سے متعلق عجیب و غریب رویہ اپنایا۔ آپ نے بھی سنا ہو گا کہ ایک سردار جی (غالباً دہلی کے تھے۔) ہر الیکشن میں کھڑے ہو جاتے تھے اور خود اپنے ہی خلاف پرچار کرتے تھے کہ لوگ انھیں ووٹ نہ دیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ الیکشن جیتنے اور ہارنے والوں کے نام تو ذہنوں سے اتر گئے لیکن یہ سردار جی ہر خاص و عام کی یادداشت میں محفوظ ہو گئے۔ (اسے کہتے ہیں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا۔)
بیٹھنے کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ گھر میں کھانے کا کمرہ، مطالعہ کا کمرہ اور سونے کا کمرہ الگ سے ہو یا نہ ہو ایک عدد بیٹھک ضرور ہوتی ہے۔ یہ کمرہ داخلی دروازے سے لگا ہوتا ہے۔ اس کے کئی فائدے ہیں۔ آنے والا بیٹھک میں ہی رُک جاتا ہے۔ گھر کے اندرونی حصے تک اس کی رسائی نہیں ہوتی۔ گھر کے اندر کا ماحول ڈسٹرب نہیں ہوتا۔ جو سامان کی اَبتری، میلے کپڑوں کا بکھراؤ، بچوں کی دھینگا مستی اور بدتمیزی، عورتوں کا ایک دوسرے پر طعنہ زنی کرنا یا جلی کٹی باتیں کرنا ان سب سے مہمان نا آشنا ہوتا ہے۔ فیملی کی امیج خراب نہیں ہوتی، رسوائی نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ سخت نشین ہوتے ہیں بیٹھتے ہیں تو اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ایک دن ہم دفتر سے لوٹے تو دیکھا کہ بیگم پریشان دکھائی دے رہی ہیں۔ ہم نے وجہ پوچھی تو بولیں۔ ’’خالہ دو گھنٹوں سے آئی ہوئی ہیں اور لگاتار باتیں کیے جا رہی ہیں۔ اٹھنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ ان کی باتوں سے میرے سر میں درد ہونے لگا ہے۔ ’’پھر ہاتھ نچا کر بولیں۔ ’’آپ خود کو بہت اسمارٹ سمجھتے ہیں نا، ذرا ان خالہ سے نمٹ لو تو جانوں۔‘‘ ہم نے کہا۔ ’’بیگم یہ تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔‘‘ ہم نے خالہ کو سلام کیا اور حیرت بھرے لہجے میں ان سے کہا۔ ’’خالہ آپ یہاں بیٹھی ہیں اور وہاں نگر پالیکا والوں نے پچھلے دو گھنٹوں سے پانی چھوڑ رکھا ہے۔‘‘ خالہ نے جیسے ہی پانی کا سنا جھٹ سے روانہ ہو گئیں یہ بڑبڑاتے ہوئے۔ ’’تمہاری بیوی کی باتوں میں مجھے کچھ نہیں سوجھتا۔‘‘
بعض لوگ ایسے ہیں کہ جلدی بیٹھتے ہی نہیں۔ ہماری کتاب کا تھوڑا سا کام باقی تھا۔ ہم نے بائنڈر سے پوچھا۔ ’’کب تک ہو جائے گا یہ کام۔ اس نے کہا۔ ’’ساب! کرنے بیٹھوں گا تو یہ بس ایک گھنٹے کا کام ہے۔‘‘ اور واقعی اس نے وہ کام ایک گھنٹے میں نمٹا دیا، چھ مہینوں بعد۔
بعض لوگوں کو ٹھیک سے بیٹھنا بھی نہیں آتا۔ دولہے کی امّاں کا اور دولہن کے ابا کا، جو کہ پہلوان تھے، دلی ارمان تھا کہ دولہا گھوڑی پر سوار ہو کر عقد کے لیے آئے لہٰذا گھوڑی ہائر کی گئی دولہے راجا گھوڑی پر سوار، بینڈ باجا اور بارات کے ساتھ مقامِ عقد کی سمت بڑھے چلے جا رہے تھے۔ چورا ہے پر پٹاخے چھوٹنے لگے۔ پٹاخوں کی آواز سے گھوڑی بدک گئی اس نے دولہے میاں کو اچھال دیا۔ وہ زمین پر گر پڑے۔ بڑی مشکل سے گھوڑی کو قابو میں کیا گیا۔ پہلوان کو تاؤ آ گیا انھوں نے یہ کہہ کر رشتے کے خاتمے کا اعلان کر دیا جو نوجوان گھوڑی پر ٹھیک سے بیٹھ نہیں سکتا وہ پہلوان کی بیٹی کو کیسے ہینڈل کرے گا۔ کبھی کبھی صورتِ حال ایسی بھی ہو جاتی ہے۔ سکندر علی وجدؔ نے مشاعرہ میں غزل سنائی۔ جب وہ مقطع پر پہنچے:
دو سو برس میں وجدؔ و سراجؔ و ولیؔ کے بعد
اٹھے ہیں جھومتے ہوئے خاکِ دکن سے ہم
تو ایک منچلے نے فقرہ کسا۔ ’’جھومتے ہوئے اٹھنے میں دو سو برس لگ گئے سیدھے سیدھے اٹھتے تو شاید جلدی اٹھ جاتے۔‘‘
یہ تو ہمیں معلوم تھا کہ اسکول میں بچوں کی دی جانے والی سزاؤں کی ابتدا اُٹھک بیٹھک کرانے سے ہوتی ہے لیکن عشق میں عاشق کو اُٹھک بیٹھک کرنا پڑتا ہے یہ معلوم نہ تھا۔ دلؔ شاہ جہاں پوری کا یہ شعر دیکھئے:
نہ وہ آرامِ جاں آیا نہ موت آئی شبِ وعدہ
اسی دھُن میں ہم اٹھ اٹھ کر ہزاروں بار بیٹھے ہیں
’’بیکار بیٹھنا‘‘ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ بیکار بیٹھنے والے شخص کو کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ عاشق اور معشوق نے مصروف رہنے کے لیے کیا مشغلہ اپنایا ہے ملاحظہ فرمائیں:
وہ مشغولِ ستم ہیں اور ہم مصروفِ ضبط اے دل
نہ وہ بیکار بیٹھے ہیں نہ ہم بیکار بیٹھے ہیں (دلؔ شاہ جہاں پوری)
بیٹھنا اور اٹھنا، لازم و ملزوم ہیں جیسے بیوی کا شوہر کو ہر وقت شک کی نظر سے دیکھنا اور شوہر کا ہر وقت موقع کی تاک میں رہنا۔ ذرا سوچیے: اگر مرغی انڈوں پر نہ بیٹھے تو؟ خاص آدمی ’’چِکن‘‘ سے اور عام آدمی انڈے سے محروم ہو جائے گا اور ہماری حکومت جو آئے دن کہتی رہتی ہے کہ سنڈے ہو یا منڈے روز کھاؤ انڈے۔ وہ کیا کہے گی؟(کیا کرے گی) یہ قابلِ غور بات ہے کہ ہماری حکومت بس یہی ایک چیز عوام کو کھانے کے لیے کہتی ہے۔ شاید اس لیے کہ اسے بغیر روٹی کے بھی اُبال کر یا تل کر کھایا جا سکتا ہے۔ عوام ’’روٹی‘‘ کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔ جانوروں کے ہاں بھی اٹھنے بیٹھنے کی بڑی اہمیت ہے۔ عربی النسل گھوڑے کو دوسرے عام گھوڑوں پر اس لیے بھی فضیلت حاصل ہے کہ وہ کبھی بیٹھتا نہیں۔ ہمارا قلم بیٹھنا چاہتا ہے اس لیے رکھتے ہیں۔