آزر نے آئمہ کو اس کے والدین کے گھر چھوڑا اور وہاں سے سیدھا آفس چلاگیا جاتے وقت آزر نے آئمہ سے کہا کہ وہ جب تک چاہے اپنے ماں باپ کے گھر رک سکتی ہے جس پر آئمہ نے کہا کہ وہ دو دن بعد اسے لینے اجائے یہ سن کر آزر وہاں سے چلا گیا وہ اندر آنا چاہتا تھا مگر آفس سے ضروری کام کی وجہ سے نہیں جاسکا۔
آئمہ گھر کے اندر داخل ہوئی سامنے اس کی ماں کھڑی تھی
آئمہ نے بھاگ کر جاکر اپنی ماں کو گلے سے لگایا۔
آئمہ کی ماں نے آئمہ کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا: ارے آئمہ بیٹا تم کیسی ہو ماں کی جان؟؟؟
آئمہ نے کہا: ٹھیک ہو امی آپ کیسی ہے؟؟؟
آئمہ کی ماں نے کہا: میں بلکل ٹھیک ہو بیٹا۔
آئمہ نے کہا: ابو کہا ہے؟؟؟
آئمہ کی والدہ نے کہا: وہ اپنے کمرے میں آؤ آکر ملو اپنے ابو سے آجاؤ۔
یہ سن کر آئمہ اپنے والد کے کمرے میں گئ آئمہ کے والد نے آئمہ کو دیکھا اور فوراً جاکر آئمہ کو سینے سے لگا اور اس کے سر پر بوسہ دیا اور کہا: میری جان میری لاڈلی بیٹی کیسی ہو؟؟؟
آئمہ نے کہا: ٹھیک ہو بابا آپ کیسے ہے؟؟؟
آئمہ کے والد نے کہا: میں تو ٹھیک ہی تھا مگر تمہیں دیکھ کر اب میں اور بھی ٹھیک ہوگیا ہو۔
یہ سن کر سب مسکرا دیے۔
آئمہ کی والدہ نے کہا: بیٹا تم اکیلی آئ ہو آزر نہیں آیا ساتھ؟؟؟
آئمہ نے کہا: نہیں امی آزر کو آفس میں ایک ضروری کام تھا اسی لئے وہ نہیں آئے وہ مجھے باہر چھوڑ کر ہی چلے گئے۔
یہ سن کر آئمہ کی والدہ نے کہا: اوووو اچھا۔
آئمہ کے والد نے کہا: آج میری بیٹی اتنے دنوں بعد آئ ہے آج ہم سب اسی خوشی میں باہر کھانا کھانے جائے گے.
یہ سن ن کر آئمہ کی والدہ نے کہا: ارے واہ یہ آئیڈیا تو بہت اچھا ہے۔
آئمہ نے کہا: ٹھیک ہے۔
یہ سن کر آئمہ کے والد نے کہا: چلو ٹھیک ہے پھر تم دونوں تیار ہو میں نیچے جاکر گاڑی نکالتا ہو۔
یہ کہہ کر وہ نیچے چلا گیا جبکہ آئمہ اور اسکی ماں تیار ہونے لگی تھوڑی دیر بعد وہ دونوں تیار ہوکر نیچے گاڑی کی طرف گئ۔
گاڑی میں آئمہ کا والد ان کا انتظار کرہا تھا آئمہ اور اس کی والدہ گاڑی میں بیٹھی اور پھر وہ سب وہاں سے سیدھا ایک ریسٹورنٹ گئے وہ ریسٹورنٹ آئمہ کا فیورٹ ریسٹورنٹ تھا آئمہ جب چھوٹی تھی تب سے وہ اسی ریسٹورنٹ آتی تھی
آئمہ اور اس کے والدین اندر داخل ہوئے اور ایک ٹیبل کے ارد گرد جاکر بیٹھ گئے وہ سب باتیں ہی کرہے تھے کے اچانک آئمہ کی نظر ساتھ والے ٹیبل پر پڑی جہاں پر علی بیٹھا تھا
علی بھی اپنے دوستوں کیساتھ وہاں کھانا کھانے آیا ہوا تھا
جب آئمہ نے علی کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئ کیونکہ علی نے بھی آئمہ کو دیکھ لیا تھا۔
اس سے پہلے کے علی کچھ کرتا آئمہ نے اپنے والدین سے کہا: امی ابو چلے چلتے ہیں کسی اور ریسٹورنٹ یہاں مجھے بہت گھبراہٹ ہورہی ہے چلے۔
آئمہ کی والدہ نے کہا: ارے بیٹا یہ ریسٹورنٹ تو تمہارا فیورٹ ہے اس ریسٹورنٹ کے علاوہ تو تم کسی اور ریسٹورنٹ جاتی ہی نہیں ہو کیا ہوا؟؟؟
آئمہ نے کہا: امی میری طبیعت خراب ہورہی ہے چلے یہاں سے۔
آئمہ کے والد نے کہا: اچھا اچھا بیٹا چلو۔
یہ سن کر وہ سب وہاں سے اٹھ کر چلیں گئے۔
علی اٹھ کر انکے پیچھے تک گیا مگر تب تک وہ وہاں سے چلے گئے تھے۔
علی نے سوچا کہ آئمہ کی تو شادی ہوگئ ہے ازر کیساتھ تو پھر وہ یہاں اپنے ماں باپ کیساتھ کیا کرہی ہے ضرور کچھ ہوا ہے یہ سوچتے سوچتے اچانک علی کے company کا boss وہاں پر آگیا اس نے علی سے کیا: کیا ہوا علی کہاں گم ہو؟؟؟
علی نے کہا: آوو کچھ نہیں سر بس ایسے ہی۔
علی کے boss نے کہا: اچھا چلو پھر کھانا کھاتے ہیں۔
علی نے کہا: جی جی چلے۔
علی کا boss اصل میں “”آزر کا بڑا بھائ عثمان تھا””
وہ اپنی کمپنی کی ترقی کی وجہ سے ایک پارٹی celebrate کرنے آئے تھے۔
جب آئمہ وہاں پر تھی تب عثمان وہاں پر موجود نہیں تھا وہ وہاں لیٹ پہنچا تھا جب آئمہ لوگ وہاں سے چلے گئے تھے۔
دوسری طرف آئمہ گاڑی میں بیٹھی دل ہی دل میں اللہ کا شکریہ ادا کرہی تھی کہ اس نے اس کی مدد کی اگر آج علی کچھ کرتا تو وہ اپنے ماں باپ کے سامنے شرمندہ ہوجاتی اور ریسٹورنٹ میں بھی تماشہ لگ جاتا کیونکہ علی کچھ بھی کرسکتا تھا۔
اور اوپر سے عثمان بھی وہاں پر آگیا تھا بس اللہ نے بچا لیا تھا۔
گاڑی میں آئمہ کی ماں آئمہ سے پوچھ رہی تھی کہ کیا ہوا۔
آئمہ نے کہا: کچھ نہیں امی وہاں بہت گھبراہٹ ہورہی تھی۔
آئمہ کی والدہ نے کہا: بیٹا اگر زیادہ ہورہی ہے تو ڈاکٹر کے پاس چلے۔
آئمہ نے کہا: نہیں امی رہنے دے اسکی کوئ ضرورت نہیں ہے
بس اب گھر چلتے ہے مجھے آرام کی ضرورت ہے۔
یہ سن کر وہ سب واپس گھر پہنچ گئے آئمہ اپنے کمرے میں گئ اور ظہر کی نماز ادا کی اور اللہ کا شکریہ ادا کر کر کے کہ اللہ نے اسے بچالیا اسکی عزت بچالی۔
نماز ادا کرکے اس نے آزر کو فون کیا
آزر نے فون اٹھایا اور کہا: ہاں آئمہ کیسی ہو؟؟
آئمہ نے کہا: ٹھیک ہو۔
آزر نے کہا: کیا ہوا اتنا دکھی دکھی سا کیوں بول رہی ہو؟؟؟
آئمہ نے کہا: آزر آج میں امی ابو ریسٹورنٹ کھانا کھانے گئے تھے کہ وہاں پر علی بھی موجود تھا۔
یہ سن کر آزر حیران ہوا اور کہا: اچھا پھر کیا ہوا؟؟؟
آئمہ نے کہا؛ بس اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتا میں نے امی ابو سے کہا کہ یہاں سے چلتے ہے مجھے یہاں گھبراہٹ ہورہی ہے بس پھر ہم سب وہاں سے چلے گئے اللہ سے رو رو کر شکریہ ادا کرہی ہو کہ اس نے میری عزت بچائی ورنہ علی تو کچھ بھی کرسکتا تھا۔
آزر نے کہا: ہمممم اچھا کیا اور ویسے بھی اگر علی کچھ کرتا تو اس نے میرے ہاتھوں سے بچنا نہیں تھا۔
آئمہ نے کہا: چھوڑو آزر۔
آزر نے کہا: اچھا۔
وہ دونوں کافی دیر تک باتیں کرتے رہیں پھر آزر نے کام میں مصروفیات کی وجہ سے کال کاٹ دی آئمہ نے موبائل چارجنگ پر لگانے لگی کہ اسے ایک unknown number سے کال آئ۔
آئمہ نے کال اٹھائ اور کہا: ہاں کون؟؟؟
آگے سے آواز آئ: میں ہو علی!!!
آئمہ کال کاٹنے لگی کہ علی نے کہا: دیکھوں آئمہ کال مت کاٹنا پلیز بس میری ایک بات سن لو۔
آئمہ نے کہا: کیا؟؟؟
علی نے کہا: آئمہ تم جانتی بھی تھی کہ میں تم سے محبت کرتا ہو تو پھر تم نے آزر سے شادی کیوں کی اسی وجہ سے کہ میں آزر جتنا امیر نہیں ہو میرا خاندان نہیں ہے اسی وجہ سے اگر تم مجھے ایک موقع دیتی تو میں تمہارے لئے دنیا کی ہر خوشی تمہارے پیروں میں لاکر ڈھیر کردیتا۔
آئمہ نے کہا: میرا نسیب لکھا جاچکا ہے اور اب تم میری ہنسی خوشی زندگی برباد کرنے پہ تلے ہوئے ہو دیکھو میں تمہیں آخری دفعہ سمجھا رہی ہو کہ اب مجھے کبھی کاک مت کرنا نہیں تو میں اور آزر تمہیں اندر کروا دے گے۔
یہ کہہ کر اس نے کال کاٹ دی۔
علی کو بہت دکھ ہوا وہ اپنے آفس پر ہی بیٹھا تھا۔
مگر اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ دیواروں کی بھی کان ہوتے ہیں۔
کیونکہ اس کے آفس کے دروازے سے باہر عثمان کھڑا تھا جو کہ یہ سب کچھ سن رہا تھا اور اسے اب کی بار ساری کہانی کا پتا چل چکا تھا اور وہ بہت خوش بھی تھا۔
اصل میں ریسٹورینٹ سے سیدھا وہ سب کام پر ہی آگئے تھے اور علی نے جاتے ہی سم بدل کر آئمہ کو کال کی تھی جو کہ عثمان نے سن لی اور وہ بہت خوش تھا۔۔۔۔
دو دن گزر گئے آئمہ کو لینے آزر آیا تھا آئمہ بہت پریشان تھی
کیونکہ اسے ڈر لگ رہا تھا کہ اگر وہ واپس گئ تو عثمان اس
کے پھر سے پیچھے پڑ جائے گا۔
آزر آئمہ کے ماں باپ سے ملا کچھ دیر وہی بیٹھا پھر جب آئمہ واپس گھر جانے کے لئے تیار ہوگئی پھر آزر اور آئمہ وہاں سے چلے گئے۔
آئمہ خاموش گاڑی میں بیٹھی تھی وہ آزر کو سب بتانا چاہتی تھی مگر عثمان کی دھمکیوں سے ہر بار ڈر جاتی
تھی کیونکہ عثمان نے بات ہی ایسی کی تھی۔
آزر نے آئمہ کو دیکھا اور کہا: ارے آئمہ کیا ہوا تم اتنی چپ کیوں ہو؟؟؟
آئمہ نے چونک کر آزر کی طرف دیکھا اور کہا: ہاں کچھ نہیں۔
آزر نے کہا: پھر اتنی خاموش کیوں ہو؟؟؟
آئمہ نے کہا: ویسے ہی امی ابو کے گھر سے پھر سے جاتے وقت تھوڑا دکھ ہورہا ہے۔
آزر نے کہا: چلو جی یار تمہارا جب دل کرے تم اپنے ماں باپ کے گھر جاسکتی ہو مگر پلیز میرے سامنے ایسے دکھی سا منہ بناکر مت بیٹھا کرو میں تمہیں ہمیشہ خوش رکھنا چاہتا ہوں۔
یہ سن کر آئمہ مسکرا دی۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں گھر پہنچ گئے آزر نے آئمہ کو کہا: آئمہ تم اندر جاؤ میں ایک کام نپٹا کر آتا ہو۔
آئمہ نے کہا: کیسا کام؟؟؟
آزر نے کہا: یار وہ گارڈ کافی دنوں سے اپنے گھر بیمار پڑا ہے آج اس کا مجھے فون آیا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اسے اپنے علاج کے لئے کچھ پیسوں کی ضرورت ہے بس میں وہی اسے دینے جارہا ہو۔
یہ سن کر آئمہ کو بہت اچھا لگا اس نے کہا: بہت اچھی بات ہے ٹھیک ہے تم جاؤ جلدی آجانا۔
یہ سن کر آزر وہاں سے چلاگیا۔
آئمہ گھر کے اندر داخل ہوئی سامنے عثمان کھڑا تھا۔
آئمہ نے عثمان کو دیکھا اور وہ کافی ڈر گئ وہ چپ چاپ نیچے منہ کرتے ہوئے اپنے کمرے کے جانب بڑھی کے عثمان اس کے ٹھیک سامنے کھڑا ہوگیا۔
آئمہ نے عثمان کی طرف دیکھا اور نہایت غصے سے کہا: یہ کیا کر رہے ہو تم ہٹو میرے راستے سے۔
یہ سن کر عثمان مسکرایا اور آئمہ کو سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوئے کہا: راستے سے ہٹنے کے لئے تھوڑی کھڑا ہوا ہو میری جان۔
آئمہ نے کہا: دیکھو تم باز آجاؤ ورنہ میں۔
عثمان نے آئمہ کی بات ٹوکتے ہوئے کہا: ورنہ ورنہ کیا کرو گی تم بولو۔
یہ سن کر آئمہ نے نیچے منہ کرلیا۔
عثمان نے کہا: دیکھوں مجھے تم بہت اچھی لگتی ہو تم بہت خوبصورت ہو ہروقت تمہارے خیالوں میں ہی میں گم رہتا ہو دیکھو آزر ابھی گھر پر نہیں ہے اور امی ابو بھی پڑوس کے گھر گئے ہیں اب اس وقت تم اور میں گھر پر اکیلے ہیں۔
ابھی وہ اور کچھ بولتا آئمہ کافی ڈر گئ وہ وہاں سے باہر کی جانب بھاگنے لگی کہ عثمان اس سے پہلے دروازے کے پاس پہنچ گیا اور دروازہ بند کردیا۔
آئمہ نے روتے ہوئے کہا: دیکھوں پلیز مجھے جانے دو تمہیں خدا کا واسطہ ہے پلیز جانے دو۔
عثمان اس کے قریب گیا اور اس کے بازوؤں کو کس کے پکڑ لیا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا: اتنا حسین موقع میں ایسے کیسے جانے دے سکتا ہو۔
آئمہ نے چھوٹنے کی بہت کوشش کی مگر وہ نا چھوٹ سکی کیونکہ عثمان نے اسے بہت مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔
عثمان پوری طرح سے وحشی بن چکا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے اندر شیطان آگیا ہو۔
آئمہ رو رو کر کہہ رہی تھی کہ مجھے چھوڑ دو تمہیں خدا کا واسطہ ہے چھوڑ دو مگر اس نے اسکی ایک نا سنی۔
عثمان نے آئمہ کا گلہ زور سے پکڑا اور کہا: اگر تم نے شور مچایا تو میں تمہاری جان نکال دو گا۔
آئمہ نے اس کے ہاتھ پر زور سے اپنے دانتوں کی مدد سے کاٹا جس کی وجہ سے عثمان چیخا اور اس کی گرفت کمزور پڑگئ آئمہ نے اپنے آپکو چھڑایا اور اپنے کمرے کی طرف بھاگی عثمان کو مزید غصّہ آیا وہ بھی اس کے پیچھے کی طرف بھاگا آئمہ اپنے کمرے میں داخل ہوئی اور دروازہ بند ہی کرنے لگی کے عثمان نے زور سے دروازے کو دھکا مارا
جس کی وجہ سے آئمہ زمین پر گر گئ عثمان کمرے میں داخل ہوا اس نے آئمہ کو اٹھایا اور اسے بیڈ پر دھکا دیا۔
عثمان نے کہا: تمہاری اتنی ہمت کے تم نے مجھے نقصان پہنچایا اب دیکھنے میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہو۔
آئمہ چیخی مگر اس نے آئمہ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اس دن
عثمان آئمہ کی عزت کیساتھ خوب کھیلا وہ پوری طرح سے جانور بن چکا تھا اور ایسے ہی وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...