صبح زوہیب کی آنکھ کسی کے منمناہٹ سے کھلی عنودگی کی حالت میں وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ آواز کس کی ہے۔۔ کچھ ہوش و حواس میں آنے پر اس نے پلٹ کر دیکھا عثمان اس کے کمرے میں چکر کاٹتا موبائل کان سے لگائے باتیں کر رہا تھا۔
زوہیب:” کیا یار بھائی منگنی آپ نے کی ہے صبح صبح نیند میری حرام کرنے آگئے” اس نے خوابیدہ آواز میں عثمان کو مخاطب کیا۔
عثمان:” صبح صبح۔۔۔۔۔ او بھائی صاحب دوپہر کے 1:30 بج رہے ہے۔۔” اس نے فون کان سے ہٹا کر تردید کی۔
زوہیب:” تو میں نے کونسا ملک فتح کرنے جانا ہے، سونے دیں”
زوہیب نے تیزی سے کہا اور دوبارہ سر ڈھانپتے ہوئے آنکھیں بند کر لی اور عثمان کال پر باتیں کرتا باہر نکل گیا۔
جس وقت زوہیب کی دوبارہ آنکھیں کھلی سوا 2 بج رہے تھے۔ حسب معمول وہ سب سے پہلے موبائل دیکھنے لگا۔ سوشل اکاونٹس دیکھنے کے بعد وہ کال لاگ میں گیا اور ٹھٹک گیا۔
زوہیب:” یہ کس کا نمبر ہے جس پر اتنی کالز کی گئی ہے ” وہ سوچتے ہوئے اٹھ بیٹھا ایک یاد اس کے ذہن میں لہرائی، اسے رات کو اپنا موبائل مسکان کو دینا یاد آیا ” hmmmm تو یہ مسکان کا نمبر ہے” اس نے خوشی سے مسکرا کر نمبر سیف کیا اور فریش ہونے چلا گیا۔
جس وقت وہ نہا کے نکلا تو 3 بج گئے تھے۔ ڈریسنگ ٹیبل کے آگے کھڑے ہو کر بال بنائے پھر پرفیوم لگا کر کمرے سے باہر آیا۔ سیڑھیاں پھلانگتا جب نیچے آیا تو لاؤنج اس وقت خالی پڑا تھا سب کھا پی کر واپس آرام کرنے کمروں میں جا چکے تھے۔
زوہیب:” مما۔۔۔۔۔ میں دوستوں کے ساتھ باہر جا رہا ہوں” اس نے پورچ کی طرف جاتے بلند آواز میں کہا۔
مما:” زوہیب کھانا تو کھا کے جا۔” زوہیب نے کچن سے آتی مما کی آواز سنی۔
زوہیب:”دوستوں کے ساتھ کھا لوں گا مما۔۔۔۔ بائے”
اس نے لاؤنج کی سیڑھیاں عبور کی۔ سہہ پہر کی تپتی دھوپ میں اس کی آنکھیں چندیا گئی۔وہ sunglasses پہنتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ہارن بجا کے چوکیدار کو گیٹ کھولنے کی اطلاع دی۔ چوکیدار اپنے کواٹر سے بھاگتا ہوا آیا اور گیٹ کھول دیا۔ اس نے کار ریورس کرنا شروع کی اور گیٹ پار کر کے سڑک پر لے آیا۔ چوکیدار نے موودب انداز سے ہاتھ اٹھا کے سلام کیا۔ زوہیب نے مسکرا کر جواب میں سر کو خم دیا اور کار تیزی سے بڑھا دی۔
****************
شام کے وقت حارث صاحب اپنے گھر کے لان میں بیٹھے تھے۔ نائلہ بیگم ان کو چائے پیش کر کے اندر کی طرف بڑھ گئی۔
حارث صاحب:” آو شکیل بیٹھو۔ بیگم ایک کپ چائے اور لانا۔”
انہوں نے شکیل صاحب کو اپنی طرف آتے دیکھ کر مخاطب کیا اور بیگم کو ان کے لیے چائے لانے کی ہدایت دی۔
*****************
حارث صاحب، سب سے بڑے ہے۔ یہ سب 5 بہن بھائی ہیں۔ سب شادیاں کر کے اپنی اپنی زندگیوں میں settled ہیں۔
دوسری بہن رخسانہ اپنی فیملی کے ساتھ دوبئی میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے بعد شکیل صاحب ہے جو اپنے بڑے بھائی حارث صاحب کے ساتھ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں اور چھوٹی دونوں بہنیں مہرین اور ھاجرہ کراچی میں مقیم ہیں۔
اس کہانی کے مرکزی کرداروں میں حارث صاحب اور نائلہ بیگم کے 2 بچیں ہیں، بڑا بیٹا عرفان اور بیٹی مسکان۔
حارث صاحب ریٹائرڈ پروفیسر ہے اور عرفان سرکاری ملازم کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ مسکان کالج میں سال دوم کی سٹوڈنٹ ہے۔
شکیل صاحب اور ثمرین آنٹی کے 3 بچیں ہیں۔ شکیل صاحب بینک میں مینجر ہے۔ بڑا بیٹا خرم جو دوبئی میں کاروبار کرتا ہے اور رخسانہ کا داماد بھی ہے۔ بیٹیاں کومل اور ستارہ۔
کومل ماسٹرز کی ڈگری کر رہی ہے اور ستارہ مسکان کے ہمراہ کالج سٹوڈنٹ ہے۔
دونوں بھائیوں نے اپنے اولاد کو خاصی توجہ سے تربیت دی ۔ انہیں دنیا کے سارے طور طریقے بتانے کے ساتھ دینی اور دنیاوی تعلیم بھی دلائی۔ انہیں وقت کے ساتھ ساتھ چلنا سکھایا اور اتفاق سے رہنے کی تلقین کرتے رہیں۔
حارث صاحب اور شکیل دونوں ہی میانہ روی اور عدل و انصاف کے قائل ہیں۔ گھر کا نظام و ضبط دونوں کے باہمی تعاون سے چلتا ہے۔
ثمرین آنٹی اور زہرا سہیل آپس میں بہت پکی سہیلیاں ہے اور اپنی دوستی کو ہمیشہ کے لیے برقرار رکھنے اپنے بچوں کا رشتہ کروا دیا ۔ سہیل احمد اور زہرا کی بڑی بیٹی مریم اپنے میاں اور 2 بچوں سمیت اسلام آباد میں رہتی ہے دوسرا بیٹا عثمان اور سب سے چھوٹا زوہیب ہے۔
سہیل احمد بزنس مین ہے اور بڑا بیٹا عثمان بھی ان کے ساتھ بزنس سے منسلک ہے جبکہ زوہیب نے حال ہی میں گریجویشن مکمل کی ہے۔
عثمان کو 2 مہینے بعد بزنس کے سلسلے میں ملک سے باہر جانا ہے اور ان کے فیملی کی خواہش تھی کہ جانے سے پہلے عثمان اور کومل کی شادی کردی جائے تو اگلے مہینے کی 22 تاریخ کو شادی طے پائی۔
****************
وہ رات کے کھانے کے بعد اپنے بیڈروم میں آئی اور کل کالج جانے کی تیاری کرنے لگی۔
مسکان:” یا اللہ assignment تو بنایا ہی نہیں” اس نے افسوس سے منہ بنائے کہا۔
” تم واقعی بہت بھلکر ہو مسکان” اسے اپنے آپ پر غصہ آرہا تھا، وہ دل میں بڑبڑائی۔
“اب کیا کروں مس تو پورے کلاس کے سامنے ڈانٹے گی۔” اس نے سوچتے ہوئے وال کلاک دیکھی جو 9 بجا رہی تھی۔
” چلو ابھی وقت ہے جلدی سے کچھ نا کچھ لکھ لیتی ہوں” وہ تیز تیز ہاتھ پیر چلاتے assignment کا سامان نکال کر لکھنے بیٹھ گئی۔
****************
شام کو وہ دوستوں کے ساتھ پکنک پوائنٹ پر بیٹھا کولڈرنگ کے سپ لے رہا تھا جب غیر ارادی طور پر واٹس اپ پر مسکان کی پروفائل دیکھا۔ اس کے نام کے ساتھ online لکھا دیکھ کر وہ میسج ٹائپ کرنے لگا۔
زوہیب:” نہیں نہیں مجھے بنا اجازت اسے میسج نہیں کرنا چاہیے کہیں اسے برا نہ لگے” اس نے میسج واپس مٹاتے ہوئے سوچا اور پھر سے اپنے فرینڈز کی طرف متوجہ ہوا۔
وہ رات دیر سے گھر آیا اور سیدھا بیڈروم میں چلا گیا۔ کپڑے تبدیل کر کے بیڈ پر لیٹا۔ تھکن سے اس کے سر میں درد شروع ہوگیا تھا۔ ایک دفعہ پھر اس نے مسکان کو میسج کرنے کا سوچا۔
زوہیب:” نہیں اس وقت بہت دیر ہوگئی ہے وہ سو گئی ہوگی” یہ سوچتے اس نے اپنا ارادہ ترک کیا۔
سر درد میں مزید اضافہ ہورہا تھا۔ اسے آنکھیں کھلی رکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑھ رہا تھا۔ اس نے موبائل رکھا۔ آنکھیں بند کی اور سو گیا۔
*************
اگلے چند روز معمول کے گزرے۔ وہ صبح کالج جاتی دن میں سوجاتی شام میں کالج کا پڑھتی اور رات تک ستارہ کے ساتھ رہتی پھر آکر سوجاتی۔ اگلے دن پھر وہی روٹین۔ اس کے ذہن سے زوہیب کا خیال پوری طرح مہو ہو چکا تھا۔ اگلے شام کو اسے کومل اور ستارہ کے ساتھ شاپنگ کے لیے جانا تھا وہ دلچسپی سے اپنی شاپنگ سوچتے سوچتے سوگئ۔
وہی دوسری جانب زوہیب بھی اپنے سکالرشپ کے کاموں میں مصروف تھا لیکن مسکان کو بھولا نہیں تھا دن کے کسی پہر، رات کے کسی لمحے، وہ اسے یاد ضرور کرتا۔ اس نے کئی دفعہ مسکان کو میسج کرنے کا سوچا لیکن پھر کسی خیال سے ارادہ رد کر دیتا۔ وہ کسی بھی قیمت، مسکان پر اپنا امپریشن خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مگر دل پر قابو رکھنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔
زوہیب:” بہتر ہے میں آمنے سامنے جا کر مل لوں۔ اس سے یہ بھی clear ہوجائے گا کہ اس کی میرے بارے میں کیا رائے ہے”
آخر اس نے کل مسکان سے ملنے کا فیصلہ کیا۔
**************
صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلی۔ کلاک پر وقت دیکھ کر وہ برق رفتاری سے اٹھی اور جلدی سے فریش ہونے واشروم میں گھسی۔ وہ ستارہ کو اسے سنانے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی نہ ہی آج اپنا موڈ خراب کرنا چاہتی تھی وہ شاپنگ پر جانے کے لیے خاصی خوش تھی۔ کالج یونیفارم پہن کر وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آئی اور بنا برش کئے بال مڑوڑ کر جوڑا بنایا۔ بیگ اٹھائے وہ کمرے سے باہر آئی۔
بابا ناشتہ کرنے میں مصروف تھے ۔ امی لان میں چوکیدار کو سودا لانے کی ہدایت دے رہی تھی۔ بھابھی سعد کو بیگ پکڑاتی عرفان بھائی کے ساتھ سکول کے لیے رخصت کر کے لاؤنج میں داخل ہوئی۔
حارث صاحب:” مسکان ناشہ کر کے جاو” انہوں نے مسکان کو ہڑبڑی میں دیکھ کر کہا ۔
مسکان:” بابا دیر ہورہی ہے باقی کالج میں کھا لوں گی” اس نے جوس کا گلاس پیتے ہوئے کہا۔
ستارہ” اسلام علیکم تایا ابو” ستارہ لاؤنج کے دروازے پر ہی کھڑے کھڑے سلام کیا۔
حارث صاحب:” وعلیکم السلام، آو ستارہ تم بھی ناشتہ کرو”
ستارہ:” شکریہ تایا ابو میں ناشتہ کر کے آئی ہوں۔ چلے مسکان” اس نے مسکان کو اشارہ کیا۔
مسکان:” ہاں چلو۔۔۔۔ بائے بابا” اس نے ٹوسٹ کا ٹکرا منہ میں ڈالا اور تیزی سے ستارہ کے ساتھ نکل گئی۔
ستارہ اور مسکان ہم عمر تھیں۔ کزن ہونے کے ساتھ ساتھ بیسٹ فرینڈز بھی تھیں ہر وقت لڑتی رہتی لیکن ایک دوسرے کے بغیر گزارہ بھی نہیں تھا ۔دونوں ایک ہی کالج میں پڑھتی تھیں۔ ستارہ آرٹ سٹوڈنٹ تھی اور مسکان اکنامکس کی۔ کسی بھی موقع پر اگر ایک کو دوسرے کی ضرورت ہوتی تو دوسری ہر حال میں حاضر ہوتی۔
کالج میں دونوں اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ پہنچی اور جلدی سے کلاس میں جا بیٹھی۔
ستارہ:” تم آج کل کچھ زیادہ ہی لاپروہ نہیں ہوگئی ہو۔ دھیان کہاں رہتا ہے تمہارا؟ کہیں کسی افیر کے چکر میں تو نہیں پڑھ گئی ہو؟” اس نے بریک کے دوران مسکان کو کندھے پر تھپڑ مار کر پوچھا۔
مسکان:” نہیں یار کیا بات کر رہی ہو میں کیوں افیر چلانے لگی اور گھر پر پتہ چلا تو جان سے مار دینگے مجھے” اس نے بھوکلا ہوئے انداز میں کہا۔
ستار:”اور تم نے شاپنگ لسٹ بھی نہیں بنائی ہوگی”
مسکان:” بنائی ہے بیگ میں ہے چھٹی کے وقت دکھاو گی وہی تو کرتی رہی ہوں رات کو اسی لیے صبح دیر ہوگئ۔” اس نے اطمینان سے وضاحت دی۔
چھٹی ہونے کے بعد دونوں بس سٹاپ تک پیدل چلتی باتوں میں مگن تھی۔ مسکان، ستارہ کو لسٹ دکھا رہی تھی۔
زوہیب:”ہائے۔۔۔۔۔” وہ مسکراتا ہوا ان کے سامنے آیا
ستارہ:” ہائے۔۔۔۔ زوہیب آپ یہاں؟” اس نے رک کر حیرت سے پوچھا۔ مسکان بھی ابرو اچکا کے دیکھنے لگی۔
زوہیب:” ہاں وہ۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ ایک دوست سے ملنے آیا تھا” اس نے مسکان پر نظریں جمائے ہوئے بہانہ بنایا۔
ستارہ:” گرلز کالج میں لڑکے نہیں پڑھتے” ستارہ نے سوالیہ نظروں سے اسے گھورا۔
زوہیب:” hmmmm نہیں وہ۔۔۔۔۔۔ اااہ وہ پڑھاتا ہے”
زوہیب اسے مکمل نظر انداز کئے مسکان سے بات کرنے کا موقع تلاش کر رہا تھا۔
مسکان نے سر جھکاے قدم بڑھائے تو وہ بھی ساتھ چلنے لگا
ستارہ:” اچھا کس مضمون کا استاد ہے۔” ایک کے بعد دوسرا سوال پوچھا گیا۔
زوہیب:”کون؟” اس نے بے دھیانی میں کہا۔ کچھ دیر پہلے کا اپنا بہانہ اسے بھول گیا تھا۔
ستارہ:” ارے آپ کا دوست جو ہمارے کالج میں پڑھاتا ہے اور کون” ستارہ کو زوہیب کے بی حس دماغ پر شاک لگا اور مسکان نے اپنی ہنسی چپھانے کے لیے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...