(Last Updated On: )
ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﺘﻨﯽ ﺍﺫﯾﺖ ﺩﮮ سکتے تھے
ﺗﻢ ﻧﮯ ﺩﯼ۔۔۔۔ﺍﺏ ﺗﻢ ﺩﯾﮑﮭﻮ گﮯ
ﻣﯿﺮﺍ ﺻﺒﺮ۔۔۔ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ۔۔۔!!
ﺟﺎﺅ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺳﮯ ۔۔۔
ﺍﭘﻨﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﯿﺎ۔۔۔۔۔۔
ارمان کو آج اجالا کے طنز یاد آرہے تھے۔۔۔
تم بھی پل پل تڑپو گے ارمان جیسے میں تڑپ رہی ہوں۔۔۔
تم اپنے سارے رشتے کھودو گے۔۔۔۔ان بارہ دنوں میں جتنا تم اپنے بھائ کے لیے تڑپےہو اتنا میں بھی تڑپی ہوں اپنے بھائ کے لیے۔۔۔۔
نہیں نہیں میں نہیں تڑپونگا اجالا ۔۔۔۔ارمان اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھے چلا رہا تھا۔۔
علی جو پانی پینے کے لیے نیچے جا رہا تھا ارمان کی چیخیں سن کےاسکے کمرے کی جانب چلا گیا۔۔۔
ارمان ارمان ہوش کر۔۔۔ارمان کانوں پہ دونوں ہاتھ رکھے زمین میں بیٹھا چلا رہا تھا۔۔۔
عل علی اسکی بددعائیں مجھے مار دیں گی میں تڑپ رہا ہوں علی مجھے صبر نہیں ہورہا۔۔می میں کیا کروں۔۔۔
صبر کر میرے بھائ ادھر بیٹھ۔۔۔علی ارمان کو زمین سے اٹھا کے بیڈ کے بیٹھا دیا۔۔۔
اجالا یاد آرہی ہے نا ۔۔۔
نہیں۔۔۔۔
اسکی محبت یاد آرہی ہے
نہیں ۔۔۔۔
جھوٹ مت بول مجھ سے چھپانے کی ضرورت نہیں ہے میں سب جانتا ہوں اجالا اور تیرے بارے میں۔۔۔تو اجالا سے بہت محبت کرتا ہےنا۔۔۔۔
نہیں میں محبت نہیں کرتا اس سے اسکے بھائ نے میرے بھائ کو مارا۔۔۔۔۔۔۔۔
خرم نے نہیں مارا ارحم کو اور یہ بات تو بھی اچھے سے جانتا ہے اور میں بھی۔۔۔۔
بس تو تسلیم نہیں کر رہا اس بات کو کہ ارحم کو جنید نے مارا ہے۔۔۔۔
ارحم کو جنید نے نہیں مارا جنید ایسا کر ہی نہیں سکتا۔۔
ارحم کو خرم نے مارا ہے۔۔۔
ارمان اب بھی اپنی بات پہ قائم تھا۔۔۔۔۔۔۔
یہی بات میری آنکھوں میں دیکھ کے بول۔۔۔۔
کتنا اپنے دل کو بہلائے گا ارمان مت کر یار ایسا اجالا سے معافی مانگ لے تو نے ایک جنید کی خاطر اجالا کو بہت تکلیف دی ہے تیرا دل کہتا ہے کہ خرم مجرم نہیں ہے لیکن تو وہ بات زبان پہ نہیں لا سکتا۔۔۔تو ڈرتا ہے کہ اگر تو دل کی بات زبان پہ آئ تو اجالا تجھے چھوڑ کے چلی جائے گی۔۔۔تو نے بھی اجالا کی باتوں میں سچائ دیکھی ہے اور میں نے بھی۔۔۔ہم دونوں جانتے ہیں کہ اجالا کا ایک ایک لفظ سچ تھا۔۔۔۔
علی کی بات پہ ارمان بے بس ہوگیا۔۔۔۔
علی۔۔۔میں چاہ کر بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرپارہا ہے ارحم ہمیں چھوڑ کے چلا گیا۔۔۔
تو تو کیا گھر میں کوئ بھی تسلیم نہیں کر رہا کیونکہ ارحم کی باڈی نہیں ملی۔۔۔علی صرف سوچ ہی سکا یہ بات ۔۔۔۔۔
مجھے اجالا بہت یاد آتی ہے میں نے اپنے ساتھ ساتھ اسے بھی بہت تکلیف دی ہے۔۔۔۔میں پل پل تڑپا ہوں علی مجھے صبر چائ ہے میں نے اجالا کے ساتھ بہت غلط کیا۔۔۔۔
ارمان اب بھی کچھ نہی بگڑا تو اجالا سے معافی مانگ لے۔۔۔۔
کیا وہ مجھے معاف کرےگی۔۔۔۔
کیوں نہیں ہم سب اجالا کو بہت اچھے سے جانتے ہیں اسکا دل بہت بڑا ہے۔۔اچھا کل تو نے آفس جانا ہے کل بہت اہم میٹنگ ہے سو وہ میٹنگ تو نے اٹینڈ کرنی ہے اب سوجا صبح جلدی اٹھنا ہے۔۔۔۔
*************♡*********
ارمان کیوں کیا تم نے ایسا کیا میری باتوں پہ تمہیں اعتبار نہیں تھا تم نے جنید پہ اعتبار کر لیا اور مجھے اپنے قابل نہیں سمجھا میری محبت ہی کا مان رکھ لیتے ۔۔۔تم تو میری معافی کے بھی لائق نہیں ہو ارمان نفرت ہے مجھے تم سے
محبّت چیز ہی ایسی ہے۔۔۔۔
انسان کو اگر ایک بار ہو جاۓ تو مجبور کر کے رکھ دیتی ہے۔۔۔”
انسان رو دھو کے بھی۔۔۔دل چور چور کر کے بھی اسی در پر جانا پسند کرتا ہے۔۔۔۔ جہاں سے مسلسل دھتکارا جا رہا ہو۔۔۔۔۔”
اس اذیت میں جیتے جیتے اس اذیت کو زندگی کا حصہ بنا لیتا ہے۔۔۔اور پھر ایک وقت اتا ہے جب یہی اذیت اس کے جینے کا سہارا بن جاتی ہے۔۔۔!!!
سنا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے
اسے کہنا سوتے ہم بھی نہیں
سنا ہے وہ چھپ کے روتا ہے
اسے کہنا ہنستے ہم بھی نہیں
سنا ہے مجھے بہت یاد کرتا ہے
اسے کہنا بھولے ہم بھی نہیں
سنا ہے وہ وفا کا دعوی کرتا ہے
اسے کہنا بے وفا ہم بھی نہیں۔۔۔۔
**************♡**********
آو ارمان ناشتہ کرو آج تو میرا بچہ خود آیا ہے۔۔۔
اسلام وعلیکم دادی۔۔۔
وعلیکم سلام میرا بچہ کیسا ہے۔۔۔
الحمداللہ ۔۔۔ارمان اتنا کہہ کے اپنی کرسے پہ بیٹھ گیا اپنے برابر رکھی کرسی کو دیکھی تو بے اختیار ارحم یاد آیا ۔۔۔۔
بیٹا ناشتہ کرو۔۔۔۔
امی اس کرسی کو یہاں سے ہٹا دیں مجھے ارحم بہت یاد آتا ہے یا پھر مجھے ارحم کی ایک ایک چیز سے دور کردیں ورنہ میں مر جاونگا۔۔۔
نہ میرے بچے ایسا نہیں کہتے۔۔۔
ارمان ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کے صوفے پےبیٹھ گیا۔۔۔
جنید۔۔۔۔۔جنید سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا ارمان کی پکار سے وہیں رکھ گیا۔۔۔
جی۔۔۔
مجھے آج کی میٹنگ کی فائل دو آج کی میٹنگ میں خود کرونگا۔۔۔۔۔
جنید میں کچھ کہہ رہا ہوں۔۔۔جنید جو ارمان کی بات پے پریشان ہوگیا ارمان کی دوبارہ آواز پہ ہوش میں آیا۔۔۔
جی جی ۔۔جنید ارمان کے پاس آکے فائل ارمان کو دے دی۔۔۔۔
ارمان بھائ۔۔۔۔
ہوں۔۔۔
میں نے کل رات ایک فیصلہ کیا ہے کہ آج کے بعد میں آپ کے ساتھ آفس سمبھالونگا۔۔۔۔راحم نے جنید پہ بم پھوڑا
لیکن راحم تم تو بینک ۔۔۔۔
راحم نے جنید کی بات بیچ میں کاٹی ۔۔۔۔
بینک کا ارحم اور میں نے سوچا تھا لیکن اب وہ نہیں رہا تو میں اب بھائ کے ساتھ بزنس کرونگا یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔۔۔۔بھائ آپ گاڑی میں بیٹھیں میں آتا ہوں۔۔
ارمان جنید اور علی تینوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔۔۔۔
***********♡*******
چاروں اپنے آفس پہنچے تو جنید نے بتایا کہ میٹنگ خرم کے آفس میں ہے۔۔۔چاروں خرم کے آفس پہنچ گئے۔۔۔خرم اپنے کولیگ کے ساتھ بات کر رہا تھا سامنے ارمان علی راحم جنید پے نظر پڑھ گئ۔۔۔۔
اسلام و علیکم خرم نے سب سب باری باری ہاتھ ملایا۔۔۔
آپ لوگ بڑی جلدی آگئےابھی دس پندرہ منٹ ہیں میٹنگ اسٹارٹ ہونے میں۔۔۔۔خرم چاروں کو لے کے میٹنگ روم کی جانب بڑھ گیا۔۔
اندر قدم رکھا کے اجالا کی آواز ارمان کے کانوں میں گونجی ۔۔۔
بھائ دیکھو میں نے سب ریڈی کر دیا آپ چیک کر۔۔۔
اجالا جیسے پلٹی سامنے دشمن جان کو دیکھ کے ٹھٹھک گئ ۔۔۔ارمان اجالا کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
ہاں اجالا تم کیا کہہ رہی تھی۔۔خرم نے اجالا کو مخاطب کیا۔۔۔۔۔
بھائ آپ چیک کر لیں میں آپکے روم میں جارہی ہوں۔۔۔
خرم راحم اور علی تینوں ڈیوائس چیک کرنے لگ گئے ارمان ابھی تک اسی پوزیشن میں تھا۔۔۔اجالا ارمان کے پاس سے گزرنے لگی تو ارمان نے اجالا کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔
اجالا نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور باہر نکل گئ۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد میٹنگ ختم ہوئ تو اجالا اندر آئ ۔۔۔
آو اجالا بیٹھو یہاں ۔۔۔اجالا خرم کی برابر والی کرسی ہے بیٹھ گئ سامنے ارمان بیٹھا تھا۔۔۔
چلیں۔۔۔۔راحم نے کہا تو اجالا سمجھی شاید میری وجہ سے وہ مزید رکھنا نہیں چارہا ۔۔۔
اجالا وہاں سے اٹھ کے باہر چلی گئ۔۔۔۔
ایکسیوز می ابھی آیا خرم بھی اجالا کے پیچھے چلا گیا۔۔۔
اینی پرابلم گڑیا ۔۔۔
خرم نے پیار سے پوچھا۔۔۔
بھائ مجھے گھر جانا ہے آپ بھی میرے ساتھ گھر چلیں
میں آپ کو مزید ادھر نہیں رہنے دونگی۔۔۔
اجالا میں اپنے کولیگ کو یوں بیچ میں چھوڑ کے تمہارے ساتھ گھر تو نہیں جاسکتا نہ اگر تمہیں جانا ہے تو ڈرائیور کے ساتھ چلی جاو۔۔۔
بھائ میں آپکو اکیلے نہیں چھوڑوں گی اس شخص کا کوئ بھروسہ نہیں۔۔۔
بس میٹنگ ختم ہوگئ نہ آپ ان سب کو یہاں سے بھیج دیں یا پھر آپ میرے ساتھ چلیں۔۔۔
اجالا تمہیں آخر پرابلم کیا ہے میں کوئ چھ سال کا بچہ نہیں ہوں جو وہ جہاں کہے وہاں اسکے ساتھ چل لوں۔۔
بھائ مجھے اس شخص سے پرابلم ہے میں اسکا چہرہ تو کیا اسکی آواز نہیں سننا چاہتی اگر آپ نے نہیں جانا تو پلیز مجھے گھر ڈراپ کروادیں۔۔۔
ارمان جو باہر اجالا کے پیچھے آ رہا تھا اس کی باتیں سن کے واپس پلٹ گیا۔۔۔
اچھا تم یہیں رکھو میں ڈرائیورسے کہتا ہوں۔۔
خرم واپس اندر آگیا ڈرائیور کو کال کر کے بلایا۔۔۔
اسلم اجالا کو گھر چھوڑ آو ۔۔۔
راحم باہر گیا سامنے اجالا نے راحم کو دیکھ کے رخ موڑ دیا۔۔
کیسی ہو۔۔۔
اجالا حیرانگی سے راحم کی طرف دیکھ رہی تھی وہ جو سوچ رہی تھی کے راحم بھی اسکو برا بھلا کہے گا لیکن وہ تو اسکا حال بوچھ رہا ہے۔۔۔
ٹھ ٹھیک ہوں تم سناو ۔۔۔
راحم کی آواز سن کے اجالاکی آنکھوں میں پانی آگیا ۔۔۔۔
ہوبہو ارحم جیسا چہرہ ارحم جیسی آواز بس ارحم اور راحم کی آنکھوں میں فرق تھا۔۔۔۔
میں بھی ٹھیک ہوں اب کب آو گی ہمارے گھر۔۔۔تم تو راستہ ہی بھول گئ۔۔۔
راحم اداسی سے بولا۔۔۔
ہوں کوشش کرونگی آنے کی۔۔۔
اجالا اتنا کہہ کے باہر چلی گئ کیوں کہ ارمان باہر آگیا تھا ۔۔۔۔
اجالا جیسے گاڑی میں بیٹھنے لگی ارمان نے دروازے پہ اپنا ہاتھ رکھ لیا۔۔۔
وہ ارمان کی اس حرکت پہ تلملا کے رہ گئ۔۔۔۔
اس نے ایک جھٹکے سے ارمان کا ہاتھ ہٹایا اور گاڑی میں بیٹھ گئ۔۔۔
اجالا کی کار جاتے دیکھ ارمان اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔۔۔
************♡***********
ارمان یار یہ کیا حرکت تھی تیری وجہ سے ہمیں خرم کے سامنے شرمندگی ہوئ
پہلے ہی ہم اس سے شرمندہ ہیں بتاکےآجاتا کسی کو بتائے بغیر آگیا۔۔۔
ارمان کے یوں کسی کو بتائے بغیر گھر آنا علی کو ناگوار گزرا تھا۔۔۔۔
ارمان دوپہر کے وقت لاؤنچ میں صوفے پہ سر ٹکائے آنکھین بند کیے بیٹھا تھا
بس ایسئ دل نہیں لگ رہا تھا تو بس جلدی آگیا۔۔
اجالا سے معافی مانگی؟۔۔۔۔۔۔
وہ ارمان کا لہجہ دیکھ کے شانت ہوگیا۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔
اس نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔۔۔
کیوں۔۔
دوبارہ سوال پہ ارمان مکراو ہنسا۔۔۔۔
اس نے موقعہ ہی نہیں دیا وہ میری شکل کیا میری آواز تک سننا نہیں چاہتی پھر میں کیسے معافی مانگتا وہ تو مجھے اپنی معافی کے بھی قابل نہیں سمجھتی۔۔۔
اس کی بات پہ علی چپ ہوگیا۔۔۔۔
شعر سنے گا؟۔۔۔ارمان علی جانب دیکھ کے بولا۔۔
علی ارمان کو شکی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ پاگل واگل تو نہیں ہوگیا اس حالت میں بھی شعر سوج رہا ہے۔۔۔
سنا دے۔۔۔۔۔
ان سے بچھڑ کر کچھ یوں وقت گزارا
کھبی زندگی کو ترسے کھبی موت کو پکارا ۔۔۔
ارمان۔۔۔۔۔ارمان کے شعر سنانے سے علی نے غصے سے ارمان کی جانب دیکھا۔۔۔
ہاہاہہااہا کیا ہوا۔۔۔
ارمان تو اپنے آپ کو کیوں اذیت دے رہا ہے بند کر یار خود کو اذیت دینا کبھی کبار تو مجھے تیری حالت پہ شک ہوجاتا ہے کہ کہیں تو پاگل تو نہیں ہوگیا۔۔۔۔۔
علی غصے میں وہاں سے اٹھ گیا۔۔۔
میرا بچہ یہاں تنہا کیوں بیٹھا ہے ۔۔۔دادی ارمان کے برابر والے صوفے پے بیٹھ گئیں۔۔۔
دل بھـی آباد ہـے اک شہـــر خـاموشاں کی طرح،
ہـر طـرف لـوگ ہیـں مگـر عــالـم تنہـائی ہـے۔۔۔
ارمان یہ کیا تماش لگایا ہوا ہے بند کرو اپنی شاعری۔۔آمنہ بیگم غصے سے بولیں ۔۔۔۔۔
وہ صوفےسے اٹھا۔۔۔۔اپنی امی کے پاس گیا۔۔۔۔
یہ تماشے سرِ بازار بہت ہوتے ہیں
اچھی آنکھوں کے خریدار بہت ہوتے ہیں۔۔
ایک تو دل بھی لگائے سے نہیں لگتا ہے
دوسرا شہر میں تہوار بہت ہوتے ہیں۔۔
زندہ لاشوں کا یہاں سوگ نہیں کرتا کوئی
مرنے والوں کے عزادار بہت ہوتے ہیں۔۔
عشق دریا سے کوئی پار کہاں ہوتا ہے
ڈوبنے کے لیے تیار بہت ہوتے ہیں۔۔
جاں سے جانا تو ہے پھر جان سے جانا دلبر
زندہ رہنے کے بھی آزار بہت ہوتے ہیں
اس نے آنکھوں کو سختی سے بند کیا۔۔۔۔
ارمان بس کرو بچے خود کو کتنی تکلیف دو گے ۔۔۔
دادی صوفے سے اٹھ کے ارمان کے پاس گئیں۔۔۔۔
دادی یہ تکلیف بہت کم ہے ابھی آگے مجھے جو تکلیف ہوگی نا وہ آپ سب سے دیکھی نہیں جائے گی۔۔۔ اس نے مجھے بددعا دی ہے تڑپنے کی مجھے سکون چائ ہے دادی۔۔۔
وہ اتناکہہ کے دادی کے گلے لگ کے پھر سے رونے لگ گیا۔۔۔۔
دادی۔۔۔میرا سر پھٹ رہا ہے میرا دل بند ہو رہا ہے مجھ سے سانس نہیں لی جاتی دادی میں کیا کروں مجھے سکون چاہئیے ۔۔۔مجھے میری محبت اور میرا بھائ لادیں دادی۔۔۔۔
ارمان آج پھر بچوں کی طرف پھوٹ پھوٹ کے رونے لگ گیا۔۔۔۔
ارمان روتے روتے بہوش ہوکے صوفے پی گرگیا
ارمااااان ۔۔۔۔۔علی بھاگ کے گیا۔۔
ارمااان میرے بچے آنکھیں کھولو۔۔۔
ہوسٹل لے کے جانا پڑے گا جنید تم ایمبولینس بلاوو ۔۔
پیشنٹ اب خطرے سے باہر ہے۔۔۔
ان کا شدید کسی ذہنی پریشانی کی وجہ سے نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے ۔۔۔۔
فرحان صاحب اور علی تیزی سے ارمان کے اٹینڈنٹ ڈاکٹر کی طرف بڑھے تھے۔۔۔
جو ابھی ابھی آئی۔ ۔سی ۔۔یو سے باہر آیا تھا۔۔۔
کب تک ہوش میں آ جائے گا ۔؟؟
فرحان صاحب نے بے قراری و بے چینی سے دریافت کیا تھا ۔۔۔
جبکہ ارحم کی آنکھیں مسلسل آنسوں ضبط کرتے کرتے سرخ مائل ہو چکی تھیں۔۔۔۔
کچھ گھنٹوں بعد ان کو روم میں شفٹ کر دیا جائے گا۔۔۔۔
امید پوری ہے کہ رات تک یہ ہوش میں آ جائیں گی۔۔۔
*****************
ایک گھنٹے بعد ارمان کو روم میں شفٹ کردیا تھا
علی اور راحم اندر گئے۔۔۔۔
ایسے کیا رخ موڑے کھڑے ہو مجھ سے بات بھی نہیں کروگے ۔۔۔۔
ارمان ہلکاسا مسکرایا ۔۔۔۔
چپ کر دل تو چاہ رہا ہے ایک لگاوں تجھے شزم تو آتی نہیں ہے ایک مضبوط آدمی ہو کے اس ہاسٹل کے بیڈ پہ مریضوں کی طرح لیٹا ہوا ہے۔۔۔علی آج بہت غصے میں تھا۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔
بہت مـــــــضبوط تھے ہم مگــــر وہ کہتے ہیں نہ محـــــــبت اچھـے اچھـــــوں کو اجــــاڑ دیتی ہے۔
بس ارمان میں تیری زبان کاٹ دونگا اگر اب تو نے شعر سنایا۔۔۔
علی غصے سے کہہ کے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔
۔بھائ بس کردیں دیکھیے ہاتھ جوڑ رہا ہوں خود کو اتنی تکلیف مت دیں ایک بھائ تو کھو چکا ہوں دوسرا کونے کی اور ہمت نہیں ہے ۔۔۔راحم نے ارمان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے ۔۔۔۔۔۔
**********♡***********
علی ہوسٹل سے گھر آیا جیسے اپنے کمرے میں جانے لگا ارمان کے کمرے سے کھٹ پٹ کی آواز آنے لگ گئ۔۔۔
یہ کمرے میں کون ہے
علی نے ہلکا سا دروازہ کھولا سامنے جنید ارمان کی الماری میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا
جنید ۔۔۔علی کی آواز پہ جنید اچھل گیا۔۔۔
ارمان کے روم میں کیا کر رہے ہو
علی نے تفتیش نظروں سے دیکھا۔۔۔
آ ۔۔وہ ۔۔۔۔فا ۔فائل ڈھونڈ رہا تھا مل نہیں رہی ۔۔۔میٹنگ کی فائل ۔۔۔
جنید سچ مچ گھبرا گیا تھا۔۔۔
آج کی فائل تو راحم کے پاس ہے تم نے خود اسے دیتھی ۔۔۔
علی کی بات پہ جنید کے پسینے چھوٹ گئے۔۔۔۔
یار اتنی ٹینشن ہے میرے ذہن سے نکل گیا تھا ۔۔۔۔جنید نے بات بنائ ۔۔۔۔
ہاں ٹینشن تو مجھے بھی ہے گھر میں اتنا سب کچھ ہوگیا ۔۔۔علی نے اداسی سے کہا۔۔۔
ارمان اب کیسا ہے۔۔۔جنید نے پوچھا۔۔۔
ہاں اب ٹھیک ہے ۔۔فائل مل گئ؟
ہاں راحم سے لےلونگا۔۔۔جنید اتنا کہہ کے باہر چلا گیا۔۔۔۔
جنید کے جانے کے بعد علی نے ارمان کا روم لاک کیا پھر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔
مجھے کیوں اجالا کی باتوں میں سچائ نظر آرہی تھی۔۔۔
اس وقت جنید کا اجالا کی باتوں پہ گڑبڑانہ۔۔۔
۔کچھ تو ہے اور اجالا نے کہا کہ وہاں ان تین کے علاوہ پانچ لوگ موجود تھے خرم، اجالا ،ارحم اور چوتھا آدمی وہ جس کی پسٹل سے گولی چلی تھی تو یہ پانچواں آدمی کون تھا ۔۔۔۔
میرے خیال سے ابھی مجھے اس جگہ جا کے چھان بین کرنی ہوگی کہ آخر ماجرہ کیا ہے۔۔۔
علی گاڑی کے چابی اٹھا کہ نیچے چلا گیا۔۔۔
راحم مجھے تیری مدد چائ ہے۔۔۔علی نیچے آیا سامنے واحم سے بولا۔۔۔
جی بھائ بولیں۔۔۔۔کیا مدد کروں میں آپکی ۔۔۔۔
ادھر نہیں تم میرے ساتھ چلو۔۔۔۔علی راحم کو باہر لے گیا۔۔۔
بھائ آخر بتائیں تو صحیح ہوا کیا ہے اور آپ مجھے کہاں لے کے جا رہے ہیں۔۔۔
راحم میری بات دیہان سے سنو اس دن جو کچھ اجالا نے کہا مجھے اسکی باتوں میں سچائ نظر آئ ہے تو میں پتا لگوانے کی کوشش کر رہا ہوں اسی لیے ہمیں وہاں جانا ہوگا جہاں یہ سب واقعہ پیش آیا۔۔۔
علی کی بات پہ راحم اداس ہوگیا۔
۔۔
علی یار مجھے وہاں مت لے کے جا مجھ سے برداشت نہیں ہوگا۔۔۔
راحم پلیز کسی کی زندگی کا سوال ہے دل مضبوط کر
اتنا کہہ کے علی نے گاڑی بھگا دی۔۔۔
ایک گھنٹے بعد راحم اور علی اس جگہ پہنچے۔۔۔
یہاں اس جگہ واقعہ ہوا تھا ادھر ارحم کھڑا تھا اور ادھر خرم ۔۔خرم ادھر کھڑا تھا تو پسٹل کی گولی کا پچھلا حصہ ادھر ہی ہونا چاہیے راحم تم بھی ڈھونڈو۔۔۔۔
علی نے راحم سے کہا۔۔۔
یہاں کی تو کوئ صفائ نہی کرتا پھر گولی کا پچھلا حصہ ادھر یہیں کہیں موجود ہونا چاہئے
راحم اور علی گولی کا پچھلا حصہ ڈھونڈنے لگ گئے دس منٹ بعد راحم کو گولی نظر آئ۔۔۔
علی یہ رہی ۔۔۔۔۔
راحم جیسے اٹھانے لگا علی نے وہیں روک دیا۔۔۔۔
ایک منٹ ہاتھ مت لگانا علی رومال سے وہ چیز اٹھائ ۔۔۔۔اس کو تو وہاں ہونا چائیے جہاں خرم کھڑا تھا پھر یہ یہاں کیسے
بھائ شاید ہوا سے اڑ کے یہاں آگئ ہو۔۔۔۔
راحم نے کہا۔۔۔
یہ کوئ کاغذ ہے نہیں جو ہوا سے اڑ کے ادھر آجائے خرم کی جگہ سے کم از کم ادھر کا فاصلہ دو منٹ کا ہے اور اگر ہوا سے چلے تو اسے ادھر ارحم کی جگہ پہ جانا چائ تھا ۔۔۔مطلب اجالا نے ٹھیک کہا کہ گولی پیچھے سے چلی ہے۔۔۔۔
علی کی بات پہ راحم نے ہامی بھری۔۔۔۔
میں یہاں گول دائرہ بنا دیتا ہوں یہ جگہ ہمارے کام آئے گی علی نے باری باری پہلے ارحم، خرم اجالا اور جہاں گولی کا پچھلا حصہ ملا وہاں گول دائرہ بنادیا۔۔۔
واہ بھائ تمہیں تو سی آئ ڈی میں ہونا چائ ہے۔۔۔
راحم نے علی کی کمر ہے تھپکی دی۔۔۔
تبھی تو آرمی جوائن کر رہا ہوں۔۔۔
اب چلو اس سے پہلے کے کوئ ہمیں یہاں دیکھ لے۔۔۔۔۔
ایک گھنٹے بعد علی اور راحم پولیس اسٹیشن موجود تھے جہاں خرم کو رکھا گیا تھا۔۔۔
اسلام و علیکم علی صاحب آئیں تشریف رکیں۔۔۔
وعلیکم سلام۔۔۔
کیا پیئیں گے ٹھنڈا یا گرم۔۔
جی شکریہ ہم یہاں ضروری کام سے آئے ہیں۔۔۔
جی جی بولیں۔۔۔
پہلے یہ بتائیں ہمارے گھر سے آپ کے پاس کوئ آیا تھا۔۔۔
علی نے پوچھا۔۔۔
ہاں آپ کا بھائ آیا تھا وہ جنید نام کا لڑکا ارحم کے کیس کے متعلق پوچھنے آیا تھا کہ قاتل کا پتا چلا تو ہم نے کہا کہ کیس تو کب کا بند ہوگیا ہے۔۔۔۔
اچھا ہم وہاں گئے تھے جہاں ارحم کی دیتھ ہوئ وہاں سے ہمیں یہ گولی کا پچھلا حصہ ملا ہے آپ کے پاس خرم کی پسٹل ہے نا تو پتا لگوائیں کے یہ گولی خرم کے پسٹل کی ہے۔۔۔
علی نے ایک پیکٹ سامنے کیا ۔۔
جی آپ ہمیں پندرہ منٹ دیں۔۔۔اسلم۔۔۔۔
جی سرجی۔۔۔ ۔
یہ گولی لے کے جاو اور پتا لگاواو کہ خرم کی پسٹل کی ہے۔۔۔۔
*************♡************
پندرہ منٹ بعد اسلم آیا۔۔۔
سر جی یہ خرم صاحب کی پسٹل کی نہیں ہے۔۔۔اسلم کے کہنے سے علی اور راحم نے خوشی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔
مطلب وہاں کوئ اور بھی موجود تھا ۔۔۔علی نے انسپیکٹر کو ساری کہانی بتا دی گولی کا جس جگہ سے ملنا ۔۔۔
اجالا کی باتیں کہ وہاں تین نہیں پانچ لوگ تھے۔۔۔
سر ہم یہ کیس دوبارہ اوپن کروانا چاہتے ہیں لیکن اس کیس کا کسی کو پتا نہیں چلنا چائ ہے ارمان کو بھی نہیں اور خاص طور پہ جنید کو بھی نہیں ۔۔۔اب ہمارا سیدھا سیدھا شک جنیدپہ جاتا ہے ۔۔۔
علی صاحب اب ہمیں یہ پتا لگوانا ہے کہ یہ گولی کا پچھلا حصہ کس پسٹل کی ہے ایک بار بتا چل جائے قاتل خود بہ خود سامنے آجائے گا۔۔۔اب ہمارا سیدھا سیدھا شک جنید پہ جاتا ہے۔۔۔۔ہم گھر پہ نظر رکھیں گے جنید پہ اور آپ باہر نظر رکھنا کہ وہ کہاں کہاں جاتا ہے کس سے ملتا ہے۔۔۔۔علی انسپکٹر کو سمجھا کے راحم کے ساتھ آگیا
*************♡*************
علی یار اب کیا فائدہ ہمارا نقصان تو ہوگیا اب قاتل کو سزا دلوانے کا کوئ فائدہ نہیں ارحم تو واپس نہیں آجائے گا۔۔۔۔
ہاں ارحم ہمیں چھوڑ کے چلا گیا اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ اب کبھی بھی نہیں آئے گا لیکن میں اس قاتل کو نہیں چھوڑونگا ۔۔۔۔۔اس کی وجہ سے تین لوگوں کی زندگی برباد ہوئی ہے۔
**********♡********