اسکو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا آنکھیں بمشکل کھلنے کے قابل ہوئیں تو اجنبی نظروں سے کمرہ کو دیکھا جو جدید طرز کی زیب و آرائش کے ساتھ ہوا تھا سائیڈ پہ بنا دروازہ اٹیج واش روم کا پتا دیتا تھا نیلے بلبکی مدہم روشنی پورے کمرہ میں پھیلی ہوئی تھی اسکے دیکھنے کے ارتقاز کو بھاری بھرکم مردانہ آواز نے اپنی جانب مبذول کیا۔۔۔۔۔۔
مس سحرش اٹھ گئیں آپ؟؟؟؟
سحرش نے گردن گھما کر آواز کی جانب دیکھا:
کون ہو تم ؟؟؟ تتم کو میرا نام کیسے پتا چلا ؟ تم یہاں کیوں لائے ہو مجھے ۔۔۔۔؟؟؟
سحرش نے خوف زدہ انداز میں پوچھا۔۔۔۔۔
” صبر رکھو سب پتا چل جائے گا ۔۔۔۔”
اس نے کمال اطمینان سے سحرش کو جواب دیا:
بشیر بشیر ؟؟؟
” جی صاحب جی؛ ”
“کھانے کا بندوبست کرو ۔۔۔۔”
جی ابھی لایا صاحب ؟؟
“دیکھو تم جو بھی ہو میں تمھیں نہیں جانتی” مجھے جانے دو میرے گھر والے انتظار کررہے ہوں گے ؟؟؟
“بھول جاو ان سب کو اب تم یہاں سے کہیں نہیں جاسکتی۔۔ ”
سحرش نے چکراتے سر کو تھامتے ہوئے کہا:
“کیوں کیوں نہیں جاسکتی تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے میں جاونگی ۔۔ ”
سحرش مشتعل ہو کر دروازے کی جانب لپکی اس سے پہلے کہ وہ کمرہ سے باہر نکلتی جہانگیر نے اسکے بازو سے پکڑ کر جھٹکے سے اپنی جانب کیا-
تمہیں ایک بات سمجھ نہیں آتی کیا کیا کہا ہے میں نے ۔۔۔
گرجدار آواز سحرش سہم گئ ۔۔۔
“وہ وہ ۔۔۔ م۔۔۔۔مج۔۔مجھے ج۔۔۔۔ا۔۔۔۔جا۔۔۔نے رو ۔۔۔۔ ”
۔سحرش کے ہاتھ میں جہانگیر کی انگلیاں کھب گئیں تھیں تکلیف اور ڈر سے بولا ہی نہیں جارہا تھا ۔۔ اتنے میں دروازہ پر دستک ہوئی وہ ہنوز اسی پوزیشن میں کھڑا تھا ۔۔۔
صاحب جی یہ ناشتہ ؟؟؟
“ہممم رکھ دو ۔۔۔ اور جاتے ہوئے دروازہ بند کرتے جانا ۔۔۔۔ ”
سحرش نے سنا تو زور لگا کر اپنا بازو اسکے شکنجے سے چھڑایا اور ڈور کر اس سے دو فٹ دور ہوئی
” ۔۔۔۔۔ تم تم۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔ٹھیک نہیں کررہے ہو ۔۔۔ میں نے کیا بگاڑا ہے ۔۔۔۔۔”
سحرش کو لگا جیسے کہیں غلط ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔ اسکی انکھوں میں خوف ہلکورہ لے رہے تھے ۔۔۔۔۔
“فلحال تو ابھی تم کھانہ کھاو اور اس چھوٹے سے ذہن پر زور مت ڈالو -”
انگلی اس کے سر پر رکھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“لے جاو اپنا کھانہ یہ حرام کا کھانہ اپنے پاس رکھو میں نہیں کھاوں گی۔۔۔”
سحرش نے چلاتے ہوئے کہا۔
وہ جو باہر جارہا تھا اپنے قدم وہیں روک لیے اور پلٹ کر اسکے پاس آیا
کیا کہا حرام کا کھانہ؟؟ تمہارے باپ کی طرح نہیں ہوں آئی سمجھ ؟؟
“اور اگر اپنی خیریت چاہتی ہو تو چپ چاپ کھانہ کھاو ۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر میں نکاح ہے ہمارا۔۔۔”
یہ کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرہ سے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔
“کیا نکاح ۔۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا میں کسی بھی حالت میں نکاح نہیں کروں گی ۔۔ میرے ماں باپ کا کیا حال ہوگیا ہوگا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔”
کھانہ ویسے کا ویسا رکھا تھا اسے تو اپنی عزت کی اور اپنے گھر والوں کی پرواہ تھی بھوک کی
کسے پرواہ تھی ۔۔۔۔
ٹھوڑی ہی دیر میں ایک ملازمہ اسکا نکاح کا جوڑا اور زیوارات لئے اندر کمرہ میں آئی ۔۔۔ بی بی جی یہ پہن لیں صاحب جی نے بھیجے ہیں ۔۔۔ سحرش نے اسے خونخوار نظروں سے دیکھا جیسے اسکا ہی سارا قصور ہو ۔۔۔
” دفع ہو جاو یہاں سے بتادو اپنے صاحب جی کو میں مر جاوں گی لیکن ان سے نکاح نہیں کروں گی ۔۔۔ ”
حلق کے بل چیخنے سے اسکے گلے میں خراش پڑھ گئ تھی ۔۔۔۔۔۔
ملازمہ نے برائیڈل کا سامان بیڈ پر رکھا اور چلی گئ ۔۔۔۔۔ اسکو گئے ہوئے دو سیکنڈ بھی نہیں ہوئے اور جہانگیر تن فن کرتا ہوا چلا آیا۔۔۔۔۔
کیا بکواس کرکے گیا تھا میں ایک دفعہ کی بات کیوں نہیں سنتی ہو تم؟؟؟
میں تمہارے کسی حکم کی پابند نہیں ہوں میں کوئی ان پرھ یا جاہل گوار انیسویں صدی کی لڑکی نہیں ہوں جو تم سے ڈر جاوں گی ۔۔۔۔
اسکو پانی پیئے بھی پتا نہیں کتنے گھنٹے ہوگئے تھے لیکن پھر بھی اس نے زور سے بولنا چاہا ۔۔۔۔۔۔۔
“ٹھیک ہے تمہاری مرضی ہے نہیں کرنا نکاح تو نا سہی لیکن رہنا تو تمہیں یہیں ہیں بغیر کسی رشتہ کے ہی سہی ۔۔۔۔۔۔۔ ”
سحرش کو اس سے اس قدر ذلالت کی امید نہیں تھی وہ بے دم سی ہو کر جہاں کھڑی تھی وہیں بیٹھ گئ جیسے سارے راستہ بند ہوگئے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔جہانگیر اس پر ایک نظر ڈال کر چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے ہوئے قدموں سے وہ بیڈ کی طرف آئی اور بھاری لباس اٹھا کر واش روم میں چلی گئ ۔۔۔۔ جو بھی تھا اسے اپنی عزت نفس جان سے زیادہ عزیز تھی جہانگیر نے کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا تھا ۔۔۔۔۔۔
وہ واش روم سے نکلی تو بیوٹیشن اسکے انتظار میں کھڑی تھی وہ چپ چاپ وہاں اکر بیٹھ گئ اور بیوٹیشن میک اپ کرنے لگی۔۔۔۔
” تو تم نفس کے غلام نکلے میں بھی تمہیں بتاوں گی تم کیسے اپنی حوس پوری کرو گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
سوگوار حسن پر میک اپ اس پر عروسی قیمتی جوڑا جو دیکھنے میں ہی لاکھوں کا لگ رہا تھا اس پر نازک سا قیمتی زیور اس پر سج کر اور جگمگ کررہا تھا سامان سے ہی جہانگیر کی حیثیت کا اندازہ ہورہا تھا لیکن اسے ان سب سے کوئی سروکار نہیں تھا جب دل ہی نہ ہو تو لاکھوں کا ہو یا کڑوروں کا ہو سب بے معنی لگتا ہے اسے اپنے گھر جانے کی لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔
نکاح کے بعد جب سب کمرہ سے چلے گئے تو وہ جلدی سے واش روم کی جانب گئی وہ جہانگیر کےسارے ارادوں پر پانی پھیرنے کا طے کر چکی تھی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
جہانگیر جب کمرہ میں آیا تو سحرش اپنے پرانے حلیئے میں نظر آئی البتہ چہرہ پر پانی کے قطرے ابھی بھی موجود تھے ۔۔۔۔
جہانگیر کو اندازہ تھا کچھ ایسا ہی ہوگا ۔۔۔
ہاں تو مسز جہانگیر کیسا لگ رہا ہے ۔۔۔۔ ؟؟
سحرش نے اس کو جواب دینا ضروری نہیں سمجھا اور اسکی طرف سے رخ پھیر گئ۔۔۔
۔ وہ اسکے قریب اکر بیٹھا اور وہ جھٹکے سے بیڈ سے اتر گئ۔۔۔۔
جہانگیر کو اسکی اس حرکت پر اپنی توہین کا احساس ہوا ابھی وہ جوابی کروائ ہی کرنے لگا تھا کہ اسکا موبائل تھرتھرایہ اس نے موبائل کو کان سے لگایہ۔۔ اسکے چہرے کے اتار چڑہاو سے پتا چل رہا تھا کہ یقینن کوئی سیریس بات تھی ۔۔۔۔۔۔
مجھے ابھی جانا ہے لیکن تم فکر نہ کرو بہت جلد ملاقات ہوگی یہ کہہ کر وہ کمرہ سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جس موقع کی تلاش میں تھی وہ موقع مل گیا تھا جہانگیر کو گئے ہوئے دو گھنٹے ہوگئے تھے باہر سے بھی کوئی بولنے کی آواز نہیں ارہی تھی رات کا ادھا پہر ہو رہا تھا سب سو رہے تھے اس نے سوچا اس سے اچھا موقع نہیں ملے گا گھر جاکر وہ جہانگیر پر ذبردستی نکاح کا کیس کردے گی ۔۔۔
وہ اٹہی اور ڈوپٹہ ٹھیک کرکے اپنے گرد اوڑھا اور کھڑکی کھولی ہوا کا جھوکا اسے چھو کے گزرا اس نے گہرائی دیکھنا چاہی لیکن گھپ اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہ آیا لیکن پھر بھی اللہ کا نام لے کر کودی اور دلخراش چیخ نے پرسکون ماحول میں ارتعاش پیدا کردیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بی بی جی یہ کیا کرلیا اپنے صاحب جی ہمیں چھوڑیں گے نہیں۔۔۔۔
ملازمہ اسکی چیخیں سن کر ڈور کر گھر کے پیچھلے حصے میں گئ جہاں سے چیخوں کی آواز اراہی تھی۔۔۔۔
سحرش روئے جارہی تھی درد ہی اتنا ہو رہا تھا اس سے کھڑا بھی نہیں ہوا جارہا تھا ۔۔۔ تھوڑی دیر میں جہانگیر بھی پہنچ گیا تھا اور اب سارے ملازم اس کے عتاب کا نشانہ بنے ہوئے تھے ۔۔۔ اب اسکا رخ سحرش کی طرف تھا جو اپنا پاوں پکڑے روئے جا رہی تھی ۔۔۔ لب بھینچ کر اس نے ملازمہ کو ڈاکٹر کو لانے کا کہا اور خود جھک کر سحرش کو اپنے بازووں میں اٹھایا اور کمرہ میں بیڈ پر لاکر بٹھایا ۔۔۔۔۔