مسعود احمد جھانپڑ،
ناگپور
۱
اس کی گلی سے آج گزر جائیں ہم تو کیا
تڑوا کے ہاتھ پاؤں سدھر جائیں ہم تو کیا
گھر میں ہماری بیوی ہی قابو میں جب نہیں
باہر جو سب کے کان کتر جائیں ہم تو کیا
لوفر کی طرح زندگی اپنی گزار کر
زندہ ہیں ہم تو کیا ہیں، جو مر جائیں ہم تو کیا
جب وقت تھا تو بھَیڑ کی صورت بنے رہے
بے وقت مثلِ شیر بپھر جائیں ہم تو کیا
پاپوں کے گہرے تال سے اک لاش کی طرح
پھر ڈوبنے کے بعد ابھر جائیں ہم تو کیا
چندہ یتیم خانے کا کر کر کے رات دن
اپنی بھی جیب مال سے بھر جائیں ہم تو کیا
کر سی ہمارے نام کی ہے کام کی نہیں
بیٹھے رہیں تو کیا جو اتر جائیں ہم تو کیا
جھانپڑؔ دکھائی دیتے ہیں تگڑے ضرور ہم
جا کر مقابلے میں پسر جائیں ہم تو کیا
(ماہنامہ شگوفہ، جولائی ۱۹۹۴)
۲۔
داؤں اپنا جب چلا دیتی ہے موت
اچھے اچھوں کو ہلا دیتی ہے موت
صرف اک کمزور کی کیا بات ہے
بارہ رستم کے بجا دیتی ہے موت
آپ چاہیں کتنا بھی میک اپ کریں
رنگ چہرے کا اڑا دیتی ہے موت
ہو گیا ہے جو تکبر کا مریض
عاجزی اس کو سکھا دیتی ہے موت
مال و زر پر جو اکڑتا ہے اسے
ناچ تگنی کا نچا دیتی ہے موت
زیست پر اپنی نہ جھانپڑؔ ناز کر
زیست کو جھانپڑ لگا دیتی ہے موت
(ماہنامہ شگوفہ، جنوری۱۹۹۸)