اس کی آنکھیں کھلیں تو وہ ایک کشادہ کمرے میں موجود تھا ۔ یہ کمرہ کسی خواب کا منظر تھا ، قیمتی قالین ، خوبصورت ریشمی پردے ۔۔۔ حارث نے آنکھیں بند کر کے جیسے کچھ یاد کرنے کی سعی کی ۔ اسے یاد تھا کہ صوفی صاحب نے اسے وقت کے پیچھے بھیج دیا تھا ۔ اچانک کسی کے بولنے کی آواز آئی تو وہ جلدی سے ایک پردے کے پیچھے جا چھپا ۔ کچھ ہی دیر بعد دو لڑکیاں ہنستی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں ۔ ایک لڑکی لباس سے کوئی ملازمہ لگتی تھی جب کہ دوسری لڑکی کسی شہزادی کی طرح لگ رہی تھی ۔ قیمتی کپڑوں میں ملبوس ، خوبصورت چہرہ سر پر سجے تاج سے اور زیادہ کھل اٹھا تھا ، شیریں آواز ۔۔۔ غرض کیا تھا جس میں وہ کامل نہ تھی ۔ دونوں بیڈ کے قریب آکر رک گئیں تو شہزادی نے ادھر ادھر دیکھا جیسے کچھ محسوس کر رہی ہو پھر دوسری لڑکی کو مخاطب کرتے ہوئے بولی ۔
” اب تم جاؤ ہم آرام کرنا چاہتے ہیں ۔”
دوسری لڑکی سر جھکا کر آداب بجا لائی اور چلی گئی تو شہزادی نے آگے بڑھ کر خود دروازہ لاک کیا ۔
” کسی غیر شخص کی خوشبو پہچان لینا پائل کے لئے بہت آسان ہے۔” اتنا کہہ کر وہ دوبارہ بیڈ کے پاس جا رکی ۔” تم خود سامنے آنا پسند کرو گے یا میں تمہیں ڈھونڈ لوں ۔” وہ ادھر ادھر نظریں دوڑاتی ہوئی کہہ رہی تھی ۔
” پائل ۔۔؟؟ یہی تو نام بتایا تھا صوفی صاحب نے ۔ ” حارث نے ایک پل کو سوچا پھر سامنے آ گیا ۔ پائل کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی ۔
” تم بتانا پسند کرو گے کون ہو ۔؟ ”
” حارث ۔۔”
” اور یہاں آے کیوں ہو ۔؟ ” اس کا لہجہ بہت نرم تھا ۔
” مجھے صوفی نیاز نے بھیجا ہے ۔”
” صوفی نیاز ۔۔۔”پائل کی آنکھوں میں الجھن ابھری اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے حارث کو رکنے کا اشارہ کیا اور خود آنکھیں بند کرتے ہوئے زیر لب کچھ پڑھنے لگی ۔ چند لمحوں بعد جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے حارث کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔
” اوہ ۔۔۔ تم وقت کے اس پار سے آے ہو ۔” یہ سوال نہیں تھا لیکن لہجے میں کچھ اداسی تھی ۔
” آپ میری مدد کریں گی ناں ۔” حارث نے پر امید ہو کر اسے دیکھا ۔ پائل نے ایک گہری سانس لی ۔
” صوفی صاحب نے اسی لئے تمہیں میرے پاس بھیجا کیوں کہ میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں ۔”
” آپ انہیں جانتی ہیں ۔؟”
” سوال غیر ضروری ہے ۔”
” لیکن آپ تو مسلم ۔۔۔ مطلب مسلمان نہیں ہیں ۔۔” حارث نے پوچھا تو پائل نے فوراً اٹھ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے دروازے کی سمت دیکھا ۔
” اب یہ جملہ تمہارے منہ سے نکلا تو گلا دبا دوں گی ۔” اس کی آنکھوں میں موجود غصّہ حارث کو حیرت میں ڈال گیا ۔ پائل نے آنکھیں ایک لمحے کو بند کر کے کھولیں اور اسے چھوڑتے ہوئے پیچھے ہوئی ۔
” میں مومن ہوں اور میرا نام سیما ہے ۔”
” کیا ۔؟” حارث ایسے اٹھا جیسے کسی بچھو نے اسے ڈنک مارا ہو کیوں کہ پائل کی شکل بدل کر سیما میں تبدیل ہو رہی تھی ۔
” امپاسبل ۔” حارث شاکڈ رہ گیا ۔
” کچھ بھی امپاسبل نہیں ہوتا پیارے ۔” سیما مسکرا رہی تھی ۔” میں تمہارے وقت میں مر چکی ہوں لیکن اس وقت میں زندہ ہوں ۔”
” لیکن یہ سب کیسے ۔۔۔ میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا پلیز مجھے بتاؤ آخر ہو کیا رہا ہے ۔؟”
” بیٹھو سکون سے پہلے پانی پیو ۔” سیما نے اسے پانی سے بھرا ہوا گلاس پیش کیا ۔ حارث نے چند ایک گھونٹ لئے اور پھر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔
” اب بتاؤ ۔ ”
” بیشک انسان بہت جلد باز ہے ۔” سیما ہنس پڑی ۔” بتاتی ہوں لڑکے سنو ۔۔ یہاں کی رانی ساوتری کی شادی راج ویر سے ہوئی تھی لیکن یہ دونوں کی بیٹی پائل یعنی میں جن تھی کیوں کہ ساوتری خود بھی انسان نہیں ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ کافر ہے اور شادی کے کچھ دن بعد بیوہ بھی ہو گئی ۔” سیما بولتے بولتے کھو گئی ۔
” بیوہ کیوں ۔؟” حارث نے پوچھا ۔
” اس کا جواب میں نے تمہارے وقت میں تمہیں دیا تھا کہ انسان اور جن شادی کر بھی لیں تو انسان کے ساتھ کچھ نہ کچھ غلط ہوتا ہی ہے ۔ ساوتری سے شادی کے بعد میرے والد راج ویر ایک دن شکار کھیلنے گئے اور پتا نہیں کیسے ان کا گھوڑا بے قابو ہو گیا نتیجتاً وہ کھائی میں جا گرے ۔ میں بہت چھوٹی تھی اس وقت ۔۔۔ پھر مجھے ایک دن عفرا کے والد صوفی صاحب ملے ۔۔۔ میں نے دین سے آگاہی حاصل کی اور اپنے مذھب کو ترک کر کے اسلام قبول کر لیا ، یہاں وقت کے اس طرف کوئی یہ بات نہیں جانتا کہ میں سیما ہوں ۔ سب کو لگتا ہے میں پائل ہوں ۔” سیما رک گئی ۔
” تو تم مجھ سے ابھی اتنے اجنبی انداز میں کیوں بات کر رہی تھی ۔” حارث اسے دیکھتے ہوئے گویا ہوا ۔
” میں اس وقت میں مر چکی ہوں حارث اور اس وقت میں تم میرے لئے اجنبی تھے ۔۔۔ تبھی صوفی نیاز کا نام سن کر میں نے ان سے روحانی طور پر ملاقات کی اور تمہیں پہچان گئی ۔” سیما نے رسانیت سے کہا ۔
” اوہ ۔۔” حارث حیرت میں غرق ہوتا چلا جا رہا تھا ۔
” اب ہمیں یہ کرنا ہے کہ پہلے نارائن کے قتل کا پلان بنائیں ۔ اس کے لئے ہمیں نسناس سے ملاقات کرنی ہوگی ۔” سیما پرسوچ انداز میں بولی ۔
” یہ نسناس کون ہے ۔؟”
” کون ہے نہیں ۔۔۔ کیا ہے یہ پوچھو ۔” اس نے مزے لے کر کہا ۔
” مطلب ۔؟” حارث الجھ گیا ۔
” اتنی جلدی بھی کیا ہے ملا دوں گی ۔” سیما ہنستی ہوئی اٹھ گئی اور حارث الجھے ہوئے انداز میں یہی سوچتا رہا کہ آخر نسناس کیا ہے ۔؟
***