ایمسٹرڈم میں ہمارا ایک دن کا قیام باقی تھا۔ اس کے بعد ہمارا واپسی کا سفر شروع ہو رہا تھا۔ ہمارا گروپ لندن سے روانہ ہوا تھا اور وہیں ہمارے سفر کا اختتام تھا۔ ایمسٹرڈم سے لندن واپسی کے سفر میں ہمارا کہیں قیام نہیں تھا۔ بلکہ اسی دن لندن پہنچ کر گروپ کے سب لوگوں نے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جانا تھا۔ ہمارے گروپ میں ایک جولی ہی تھی جو لندن میں رہتی تھی۔ باقی سب سیاحوں کا تعلق یورپ سے باہر کے براعظموں سے تھا۔ درحقیقت باقی تمام سیاحوں کا تعلق آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ، ساوٗتھ افریقہ، امریکہ اور کینیڈا سے تھا۔ اس میں ہم چند ایشیائی بھی شامل تھے جس میں میرا قیام آسٹریلیا میں تھا۔ دوسری دو بھارتی نژاد فیملیوں کا تعلق امریکہ سے تھا۔
پچھلے دو ہفتے اکھٹے گزارنے کے بعد ہم ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے سے جدا ہونے والے تھے۔ سفر کے ابتدائی اور زیادہ ترحصے میں جولی میرے ساتھ بہت زیادہ بے تکلف ہو چکی تھی۔ میرے ہنسی مذاق کو اس نے سنجیدہ لے لیا تھا جبکہ میں ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے میں اس سے دانستہ کھنچا کھنچا رہنے لگا۔ کچھ اس وجہ سے اور کچھ مولی کی وجہ سے جولی مجھ سے با قاعدہ ناراض ہو گئی۔ پچھلے دودن سے اس سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ اب جبکہ ہمارے سفر کا صرف ایک دن باقی تھا تو میں نہیں چاہتا تھا کہ یہ جولی کی ناراضگی پر اختتام پذیر ہو۔ اس لئے اس رات اظہر کے گھر سے واپسی کے بعد اپنے کمرے میں جانے سے پہلے میں نے جولی کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔
اس وقت رات کے ڈیڑھ بجے تھے۔ اس پورے سفر میں میرے ہمسفروں کا ایک خاص گروپ روزانہ رات کو بہت دیر سے سوتا تھا۔ جولی بھی ان میں سے ایک تھی۔ علاوہ ازیں ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی تو تھی کہ اسے سوتے سے اٹھا سکوں ۔ اس لئے میں نے بلا جھجھک دروازہ کھٹکھٹا دیا ۔ حسبِ توقع جولی نے دروازہ کھولنے میں تاخیر نہیں کی ۔ اگلی بات خلافِ توقع تھی۔ وہ دروازے کے سامنے کھڑی ہو گئی اور بولی ’’کیا بات ہے ۔کچھ کام ہے کیا؟ ‘‘
اس کے انداز میں ناراضگی نمایاں تھی۔ میں نے کہا’’ ہاں کام ہے۔ اسی لئے تو رات کے اِس وقت تمھارے پاس آیا ہوں‘‘
اس نے اپنی جگہ سے ہلے بغیر کہا ’’لیکن مجھے نیند آرہی ہے۔ میں سونا چاہتی ہوں‘‘
’’ آج تمہیں اتنی جلدی نیند کیسے آگئی۔ پہلے تو نیند کی پرواہ نہیں کرتی تھیں۔ بہر حال مجھے اندر آنے دو۔میں تمھارا زیادہ وقت نہیں لوں گا‘‘
جولی کے رویے اور انداز میں ذرہ بھی تبدیلی نہیں آئی’’ آج میں کچھ زیادہ تھکی ہوئی ہوں۔ جو بات کرنی ہے صبح کر لینا‘‘
میں جھنجلا گیا لیکن اپنے آپ کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا’’ کم آن جولی ! دوستوں سے اس طرح ناراض نہیں ہوتے۔ میں اس خوشگوار سفر کا اختتام تمھاری ناراضگی کی حالت میں نہیں چاہتا،اس لئے چند باتیں کرنے آیا ہوں ‘‘
جولی اس مرتبہ کافی دیر تک مجھے دیکھتی رہی اور پھر دروازہ کھلا چھوڑ کر واپس اندر چل دی۔ میں اس کے پیچھے پیچھے اس کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ اس نے میری طرف جیسے دیکھا ہی نہیں جا کر بستر پر بیٹھ گئی۔ میں ا س کے بستر کے ساتھ لگے صوفے پر جا بیٹھا۔ تھوڑی دیر تک ہم دونوں خاموش رہے۔ جولی اپنے بستر پر بیٹھی سامنے والی دیوار کو گھورتی رہی اور میں اُسے۔ بالآخر میں نے کہا’’ اپنے مہمان کو کافی نہیں پلاوٗ گی‘‘
جولی نے اپنی جگہ سے ہلے بغیر کہا’’ اس نے تمھیں کافی نہیں پلائی جس کے ساتھ رات گزار کر آئے ہو‘‘
’’ کم آن جولی! معلوم نہیں تم کیا بات کررہی ہو! میں اپنے ایک پاکستانی دوست کے گھر تھا۔ وہیں سے آرہا ہوں‘‘
’’میں پہلے ہی بہت بے وقوف بن چکی ہوں، اب تمھاری باتوں پر یقین نہیں کروں گی۔ پچھلے دو دن تم نے مولی کے ساتھ گزارے ہیں۔ تم اتنی جلد بدل جائو گے مجھے یقین نہیں آتا ۔یہ میری بے و قوفی تھی کہ تمھاری باتوں میں آگئی‘‘
’’ جولی آخر تم کہنا کیا چاہتی ہو !میں نے تمھیں کبھی بے و قوف بنانے کی کوشش نہیں کی۔ میں تو محض اس تفریحی سفر کو خوشگوار انداز میں گزارنے کی کوشش کر تا رہا ہوں ۔اس لئے سبھی ساتھیوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا رہتا تھا‘‘
’’ تو یہ سب مذاق تھا؟‘‘ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔اس کی بڑی بڑی آنکھیں ڈبڈبائی نظر آرہی تھیں۔
’’جولی ہم سب مسافر ہیں۔ کوئی کس ملک سے آیا ہے اور کوئی کس سے۔ پرسوں سب نے ہمیشہ کے لئے الگ ہو جانا ہے۔ پھر شاید ہی زندگی میں ایک دوسرے سے مل پائیں ۔ مسافروں کی دوستیاں ہمیشہ عارضی ہوتی ہیں۔ پھر بھی ہم نے اکھٹے بہت اچھا وقت گزارا ہے۔ اگر میری کسی بات یا عمل سے تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے یا نادانستگی میں تمھاری دلآزاری ہو ئی ہے تو میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ لیکن میری نیت پر شک نہ کرو۔ میں تمھیں ایک اچھی دوست کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھنا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم بھی ہنسی خوشی مجھے الوداع کرو۔ تم خود ہی سوچو اس سفر کا اختتام تو ایک دن ہونا تھا۔ اس کے بعد ہم سب نے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جانا ہے‘‘
جولی کی غزالی آنکھوں میں رُکے موتی اس کے رخساروں پر ڈھلک آئے ۔ اس کا سرخ و سپید حسین چہرہ آنسووٗں میں بھیگنے لگا۔ وہ بستر پر بیٹھی بیٹھی پہلے آنسووٗں سے اور پھر ہچکیوں سے رونے لگی ۔ میں اس خلافِ توقع سچو ایشن کے لئے تیار نہیں تھا۔ جولی جیسی کھلنڈری لڑکی سے مجھے اتنی زیادہ سنجیدگی کی توقع نہیں تھی۔ اس صورتِ حال میں مجھے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میرا رد عمل کیا ہونا چاہییے ۔ جولی کے معاملے میں میراکوئی قصور نہیں تھا۔ ہمدردی کے چند بولوںاور ہنسی مذاق کے علاوہ میں نے اُس سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کی تھی جس سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو۔ تاہم اس کے گھر یلو حالات ایسے تھے کہ وہ کٹی پتنگ کی طرح پہلے ہی ادھر اُدھر ڈول رہی تھی۔ میں نے اس کی طرف محض دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا، وہ نہ جانے کیا سمجھ بیٹھی تھی۔
آسٹریلیا کی بظاہر بہت تیز طرار نظر آنے والی لیکن دراصل اس بھولی بھالی لڑکی کے سامنے کوئی واضح مستقبل نہیں تھا۔ اس لئے وہ عارضی سہاروں پرتکیہ کرنے لگی تھی۔ اپنے ملک میں اس کے ساتھ نا خوشگوار واقعات پیش آئے تو وہ سکون اور اچھے ساتھی کی تلاش میںدنیا کے دوسرے سرے پر واقع یورپ کے سب سے بڑے شہر لندن میں پہنچ گئی۔ مگر وہاں بھی اسے تلخ تجربوں کے سواکچھ ہاتھ نہیں آیا ۔ شاید اسی غم کو غلط کرنے کے لئے وہ اس سفر پر نکلی تھی۔ یہاں بھی اس کی جلد باز طبیعت نے خود ہی فیصلے کئے اور خود ہی پچھتاوے کی آگ میں سلگنے لگی۔ مجھے غم اس بات کا تھا کہ وہ پہلے ہی ٹوٹی ہوئی تھی اور یہ نیا دھچکا اُسے میری ذات سے ملا تھا۔ میں جو سب کو خوش رکھنے کے چکر میں گھن چکر بنا رہتا تھاکسی کا دل ٹوٹنے کا باعث بن گیا تھا۔
میں کافی دیر تک اُسے سمجھاتا رہا۔ میری باتوں سے بظاہر وہ کچھ پر سکون ہو گئی۔
بعد میں اپنے کمرے میں آ کر سونے کی تیاری کرنے لگا۔جولی کی وجہ سے میں پریشان ہو گیا تھا۔ اسی وجہ سے کافی دیر تک سو بھی نہیں سکا۔ صرف ایک بات مثبت تھی کہ جولی جتنی جلدی کسی سے رشتہ استوار کرتی تھی اتنی جلدی اسے توڑ بھی دیتی تھی۔ میں امید کر سکتا تھا کہ جلد اُسے کوئی اچھاہمسفر مل جائے اور وہ پرانے دکھ بھلا کر خوشیوں کے نئے سفر پر چل پڑے۔کافی دیر تک کروٹیں بدلنے کے بعد باِلآخر نیند کی دیوی مجھ پر مہربان ہو گئی۔
آج ایمسٹرڈم میں ہمارا آخری دن تھا۔ رات بہت دیر سے سونے کے باوجود میں صبح دس بجے تیار ہو کر نکل پڑا۔ آج میری منزل ایمسٹرڈم کا سب سے بڑا میوزیم رجکس تھا۔ اس ہوٹل میں لنچ اور ڈنر تو نہیں لیکن ناشتہ مفت تھا۔ دوسرے لفظوں میں ناشتے کے لئے رقم ہوٹل کے کرائے میں شامل تھی۔ ناشتے کا وقت دس بجے تک تھا۔ دس بجے کے بعد ریسٹورنٹ بند ہو جاتا تھا اور عملہ لنچ کی تیاری کرنے لگتا تھا۔ میں جب ریسٹورنٹ میں پہنچا تو دس بجنے میں دو تین منٹ باقی تھے۔ ہمارے گروپ کے زیادہ تر لوگ ناشتے سے فارغ ہو چکے تھے۔ خلافِ توقع جولی بھی ان میںشامل تھی ۔حالانکہ وہ بھی بہت دیر سے سوئی تھی۔ مگر صبح سویرے اٹھ کر ناشتے سے فارغ ہو چکی تھی۔ گروپ کے سبھی ساتھیوں سے ہیلو ہائے ہوئی۔ وہ اپنے اپنے پروگرام کے مطابق گھومنے پھرنے نکل پڑے۔ جولی نے مجھے دیکھا تو کمرے میں جانے کی بجائے واپس میری میز پر آبیٹھی ۔رات کے واقعے کے آثار اس کے چہرے پر نظر نہیں آرہے تھے جو میرے لئے اطمینان بخش امر تھا۔ میں نے پوچھا ’’کچھ لو گی؟‘‘
’’ناشتہ تو میں کرچکی ہوں ، تمھارا ساتھ دینے کے لئے کافی لے لیتی ہوں ‘‘
میں نے میز پر رکھے کافی پاٹ سے کپ میں کافی انڈیلی۔ ایک چمچ چینی ڈالی اور تھوڑا سا دودھ ملا کر کپ اس کے آگے رکھ دیا۔ اس وقت ریستوران میں ہمارے علاوہ دوسرا کوئی مہمان نہیں تھا ۔صرف سٹاف تھا،جو ہمارے جانے کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے جلدی جلدی سینڈوچ بنایا اور کافی کے گھونٹ لے کر اسے حلق میں اتارنے کی کوشش کرنے لگا۔ ناشتے کے دوران ہمارے درمیان خاموشی رہی۔ میں جب ناشتے سے فارغ ہو گیا اور سگریٹ سلگا کر کافی کی چسکیاں اور سگریٹ کے کش لینے لگا تو جولی نے آہستہ سے کہا’’ سوری طارق! مجھے اپنی گزشتہ رات والی باتوں پر شرمندگی ہے‘‘
تھوڑے وقفے کے بعد بولی ’’ تم بالکل صحیح کہہ رہے تھے۔ ہم سب مسافر ہیں اور جلد ی بچھڑ جائیںگے۔ ایسے میں کسی عارضی ہم سفر سے ایسی توقعات باندھنا سوائے نادانی کے کچھ نہیں ۔ یہ محض میر ی نادانی اور جلد بازی تھی۔ اس میں تمھارا کوئیقصور نہیں ہے۔ تمھارے ساتھ ناراض ہونا بالکل غلط تھا۔ اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں۔ رات میں نے پی ہوئی تھی، اس لئے جو منہ میں آیا کہتی چلی گئی۔ امید ہے کہ تم نے میری باتوں کا برا نہیں منایا ہوگا‘‘
’’ہرگز نہیں‘‘ میں نے جولی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھکر کہا ’’ہم دوست ہیں اور دوستوں میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ ایک دوسرے سے توقعات باندھنا اوربعض توقعات کا پورا نہ ہونا ،یہ سب چلتا رہتا ہے۔ دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور رنجشوں سے درگزر کیا جائے۔ میں نے تمھاری باتوں کا بالکل برا نہیں منایا بلکہ مجھے خود اس بات کا دکھ ہے کہ میری ذات تمھاری دلآزاری کا باعث بنی‘‘
’’ نہیں اس میں تمھارا قصور ہرگز نہیں ہے۔ میرے حالات ہی ایسے ہیں کہ عارضی سہاروں پر تکیہ کرنے لگ جاتی ہوں۔ مجھے اب احساس ہو گیا ہے کہ یہ طریقہ غلط ہے۔ رشتے اتنی جلدی اور یکطرفہ نہیں بنتے۔ اس کے لئے وقت درکار ہوتا ہے اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ میری طبیعت میں جلد بازی بہت زیادہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ مجھے ٹھنڈے دل سے اپنے حالات کا ماضی اور حال کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد مستقل کے لئے کوئی لائحہ عمل طے کروں گی۔ مجھے ابھی یہ تک معلوم نہیں ہے کہ میرا مستقبل کیا اور کہاں ہے۔ جس مقصد کے لئے آسٹریلیا چھوڑا تھا وہ ختم ہو چکا ہے ۔ اگرچہ لندن میرا پسندیدہ شہر ہے لیکن یہاں میرا کوئی مستقبل نہیں۔ کوئی اپنا نہیں ہے۔ اپنے آبائی وطن سے ہزاروں میل دور اس ملک میں نہ جانے کب تک اکیلی پڑی رہوں گی۔ مجھے سوچنا ہے اور فیصلہ کرنا ہے۔ آج سے قبل کبھی میں نے ٹھنڈے دل و دماغ سے اپنے مستقبل کے بارے میں غور نہیں کیا۔ لیکن اب کروں گی۔ لائف پارٹنر کے بارے میں بھی جو جلد بازی پہلے کرتی آئی ہوں، اب ایسا نہیں ہوگا۔ اب مناسب وقت اور مناسب شخص کا انتظار کروں گی۔ شاید یہی مجھے کرنا چاہیے ‘‘
جولی کی طویل بات کا میں نے مختصر جواب دیا’’ یہی مناسب ہے‘‘ پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا’’ مجھے تمھاری باتیں سن کر خوشی ہو رہی ہے۔ تم اگر سنجیدگی اور تحمل سے اپنی زندگی کا فیصلہ کرو تو وہی درست فیصلہ ہو گا۔ یہ امر میرے لئے باعثِ اطمینان و مسرت ہے کہ میری طرف سے تمھار ا دل صاف ہے اور تمھارے دل میں میرے لئے کوئی رنجش باقی نہیں ہے۔ ہم پہلے کی طرح اچھے دوست ہیں اور رہیں گے۔‘‘
’’ آف کورس ‘‘جولی نے کہا ’’میں تم جیسے اچھے دوست کو ہمیشہ یاد رکھوں گی۔ تم نے میری سوچ بدل کر میرے اندر خود اعتمادی اور قوت فیصلہ پیدا کرنے میں مدد کی ہے‘‘
میں نے اٹھتے ہوئے کہا’’ اب چلنا چاہیے۔میرا دوست انتظار کر رہا ہو گا‘‘
جولی نے کہا’’ہاں ضرور ! میں ابھی تو کمرے میں جارہی ہوں۔ رات کو نیند پوری نہیں ہوئی اس لئے تھوڑا آرام کروں گی۔ سہ پہر کو باہر نکلوں گی‘‘
ان ہاتھوں اور دماغوں پر رشک اور حیرت ہوتی ہے
جولی سے الگ ہو کر میں ہوٹل سے باہر نکلنے لگا تو استقبالیہ کلرک لڑکی نے’’ ایکسکیوزمی سر‘‘ کہہ کر میرے بڑھتے قدموں کو روک دیا۔ میں واپس استقبالیہ کاوٗنٹر کے پاس گیا اور اس فربہی مائل خوبصورت ڈچ لڑکی سے کہا ’’جی کہیے ‘‘
’’سر! آپ کے لئے میسج ہے۔ آپ کی گائیڈ مولی نے صبح فون کیا تھا۔ انہوں نے یہ فون نمبر دیا ہے اور آپ کو رِنگ بیک کرنے کے لئے کہا ہے‘‘
میں نے اس سے فون نمبر لیا اور اس کا شکریہ ادا کر کے باہر آگیا۔ جولی سے میں نے کہا تھا کہ میرا دوست انتظار کر رہا ہے۔ حالانکہ اظہر سے میرا شام کا وقت طے تھا ۔اس صبح میں اکیلا میوزیم جانا چاہتا تھا۔ جولی سے بمشکل معاملہ نمٹ پایا تھا۔دوبارہ اس کے ساتھ دن گزارنا مناسب نہیں تھا۔ان حالات میں احتیاط لازمی تھی۔ورنہ جولی کو دوبارہ جذباتی پن کا دورہ پڑسکتا تھا۔ جولی سے تو معاملہ خوش اسلوبی سے نمٹ گیاتھا ۔لیکن اس کی ہم قافیہ مولی سے کل سے بات نہیں ہوئی تھی۔ مجھے اس کی دعوت کا شکریہ بھی ادا کرنا تھا۔لیکن کل اظہر کے ساتھ اتنا مصروف رہا کہ وقت ہی نہیں مل سکا تھا۔ اب فون نمبر بھی مل گیا تھا اور مولی کا پیغام بھی۔ اب فون نہ کرنا بد اخلاقی تھی اور کسی حسینہ سے بد اخلاقی کا میں ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے جیب سے سکے نکالے اور ہوٹل کے باہر موجود پبلک فون سے مولی کا نمبر ملانے لگا۔ دو گھنٹیوں کے بعد ہی مولی نے فون اٹھا لیا۔رسمی علیک سلیک کے بعد حسب توقع ِاس نے گلہ کیا ’’ اس دن ہم نے اکٹھے اتنی اچھی شام گزاری لیکن اس کے بعد تم نے فون تک نہیں کیا۔لگتا ہے وہ شام تمھیں اتنی پسند نہیں آئی‘‘
’’ نہیں ! یہ بات نہیں مولی! اُس شام کا خمار تو ابھی تک نہیں اُترا۔ وہ میری زندگی کی یادگار شاموں میں سے ایک تھی ۔ اسے کیسے بھول سکتا ہوں ۔ تاہم کل کا سارا دن ایک دوست کے ساتھ مصروفیت میں گزرا اس لئے تمھیں فون نہیں کر سکا‘‘
’’ تو پھر آج کی شام کے بارے میں کیا خیا ل ہے۔ ویسے بھی یہ تمھارے ٹور کی آخری شام ہے۔ کل کے بعد معلوم نہیں ہماری ملاقات کبھی ہو سکے گی یا نہیں۔ اگر تم فارغ ہو تو میں تمھیں گھمانے کے لئے کسی دوسری جگہ لے جا سکتی ہوں‘‘
میرے تصور میں مولی کے ساتھ گزری اس شام کا ہر لمحہ فلم کی طرح چلنے لگا۔ مولی نے اس دن مہمان نوازی کی حد کر دی تھی۔ دوسرے تمام سیاحوں کو نظرا نداز کر کے اس نے میرے اوپر جو خصوصی مہربانی کی تھی وہ نہ صرف اس کے لئے نئی بات تھی بلکہ میرے لئے بھی سر پرا ئز تھا۔ مولی کے ساتھ گزری اُس شام کا خمار واقعی میرے دل و دماغ میں اب تک چھایا ہواتھا۔ لیکن آج شام کے کھانے کی دعوت گل خان نے دی ہوئی تھی۔ اس مصروف کاروباری پاکستانی نے جس محبت اور خلوص سے بلایا تھا، میں اسے ٹھکرانے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ ویسے بھی وعدہ کر کے پیچھے ہٹنے کا میں قائل نہیں۔ حتی الامکان وقت کی پابندی کی بھی کوشش کرتا ہوں۔ آسٹریلیا میں رہ کر کچھ اور سیکھا ہو یا نہیں، مقامی لوگوں سے وقت کی پابندی ضرور سیکھی ہے۔ حالانکہ ہمارے پاکستانی بھائیوں کی اکثریت پر آسٹریلین لوگوں کی اس اچھی عادت کا زیادہ اثر نہیں ہو سکا ۔ آسٹریلیا میں ہونے والی پاکستانی تقریبات ہمیشہ مہمانوں کے دیر سے آنے کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہو جاتیہیں۔ بعض اوقات آسٹریلیا کے وفاقی اور صوبائی وزراء آکر انتظار کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ہمارے لوگ وقت پر نہیں آپاتے اور تقریب دیر سے شروع ہوتی ہے۔ ان وزراء، پارلیمنٹ کے ممبران اور دیگر آسڑیلوی مہمانوں پر پاکستانیوں کے متعلق منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سلسلہ اسی طرح جاری ہے اور شاید آیندہ بھی رہے گا۔ شاید ہماری اگلی نسل ہم سے بہتر رویہ اور انداز اپنا سکے۔
مولی کی آفر سے شروع ہونے والے خیالات کا سلسلہ میرے دماغ میں آگے سے آگے بڑھتا جارہا تھا۔ اس نے میرے خیالات کی اس ر وکو روک دیا ۔وہ پوچھ رہی تھی’’ کیا سوچنے لگ گئے۔ لگتا ہے تمھیں میرے ساتھ جانا پسند نہیں ہے؟‘‘
’’ نہیں مولی! تمھارے ساتھ جانا میری دِلی تمنا ہے۔ میری سوچنے کی وجہ بھی یہی ہے ۔ کیونکہ تم نے جس محبت سے بلایا ہے میرا دل اور میری زبان دونوں انکار کرنے سے قاصر ہیں ۔مجبوری یہ ہے کہ آج شام کا ڈنر ایک پاکستانی دوست کے ساتھ طے ہے۔ مجھے اگر پہلے معلوم ہوتا کہ آج تم فارغ ہو اور مجھے وقت دے سکتی ہو تو میں اس دوست سے وعدہ نہیں کرتا۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ کیا کروں۔ کیونکہ اس کے ساتھ اتنی بے تکلفی نہیں ہے کہ اسے منع کر سکوں ۔دوسری طرف مجھے تمھارا خیال بھی آرہا ہے کہ میری معذرت پر تم ناراض نہ ہو جائو‘‘
مولی نے کہا’’ اگر تم مصروف ہو تو میں ہرگز ناراض نہیں ہوں گی ۔میں نے تو یہ سوچ کر فون کیا تھا کہ تمھیں کوئی نئی جگہ دکھا سکوں‘‘
’’ تمھاری بہت مہربانی مولی! کاش کہ میں فارغ ہوتا ‘‘میرا رویہ معذرت خواہانہ تھا
’’ تم ڈنر سے کس وقت فارغ ہو گے؟میں تمھیں وہاں سے پک کر سکتی ہوں۔ ہم کہیں بیٹھ کر کافی پی سکتے ہیں۔ ویسے ایمسٹرڈم میں رات میں جانے والی بھی کئی جگہیں ہیں ‘‘
’’مولی مجھے بہت افسوس ہے لیکن میں تمھیں وقت نہیں بتا سکتا ۔کیونکہ ہم پاکستانیوں کے کھانے اکثر گھنٹوں طویل ہو جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں وہاں مہمان ہوں۔کھانا شروع کرنے اور ختم کرنے کا اختیار میزبان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس لئے رات وہاں سے کسی وقت فارغ ہوں گا، اس کا مجھے ہر گز علم نہیں ہے۔ ورنہ تمھیں ضرور بتا دیتا ۔ تا ہم میرے پاس تمہارا فون نمبر ہے۔ اگر میں جلدی فارغ ہو گیا تو تمہیںفون کر کے بتا دوں گا ۔اگر بہت دیر ہو گئی تو پھر کل صبح ملاقات ہو گی‘‘
’’ بالکل ٹھیک ہے‘‘ مولی نے کہا ’’تم اگر کسی کے ساتھ جارہے ہو تو ظاہر ہے وقت تمہارے کنڑول میں نہیں ہو گا۔ میںتمہاری مجبوری کو سمجھتی ہوں ۔ تمہارے ساتھ یہ شام نہ گزار کر مجھے مایوسی تو ہو گی لیکن اب کیا کیا جاسکتا ہے۔ اگر جلدی فارغ ہوجائو تو مجھے فون ضرور کرنا ۔میں رات کو ویسے بھی دیر سے سوتی ہوں‘‘
’’ ضرور! میں ایسا ہی کروں گا۔ اب مجھے اجازت دو۔پھر بات ہو گی‘‘
مولی نے خدا حافظ کہا تو میری جان میں جان آئی۔ کسی حسینہ کی ایسی دعوت کو ٹھکرانا آسان نہیں ہے۔ پھر مولی جیسی عورت جو بہت سمجھدار اور ہوشیار بھی تھی، اس سے نمٹنا اور بھی مشکل مرحلہ تھا۔ خدا خدا کر کے میں اس معاملے سے بھی خوش اسلوبی سے نمٹنے میں کامیاب رہا تھا۔
ہالینڈ میں عموماً اور ایمسٹرڈم میں خصوصاً بے شمار میوزیم ہیں۔ کسی بھی سیاح کے لئے سب عجائب گھروں کی سیر تقریباًناممکن ہے۔ اس لئے سیاحوں کو اس بات کا فیصلہ کرناپڑتا ہے کہ وہ کس عجائب گھر کو دیکھیں اور کسے چھوڑیں ۔ رِجکس( (Rijksہالینڈ کا سب سے بڑا اور مشہور ترین میوزیم ہے۔ تقریباً ایک ملین افراد سالانہ ا س کی سیر کرتے ہیں۔ میں اس دورے میں اتنے سارے میوزیم دیکھ چکا تھا کہ اب ان سے اکتا سا گیا تھا۔ تاہم ایمسٹرڈم میں رہ کر میں رجکس کو نظر انداز نہیںکر سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہالینڈ میں اپنے قیام کے آخری دن میں اس شہرہِ آفاق میوزیم جا پہنچا۔ حسبِ توقع وہاں سیاحوں کا بہت زیادہ رشتھا۔ ٹکٹ لینے کے لئے ایک لمبی قطار میں کھڑے ہو کر تقریباً آدھ گھنٹہ انتظار کرنا پڑا۔ میوزیم کے اندر جانے کے لئے انتظامیہ نے سیاحوں کے دس دس افراد پر مشتمل گروپ بنا کر ہر گروپ کے ساتھ ایک گائیڈ کو مختص کیا ہواتھا۔ ہماری گائیڈ پکی عمر کی ایک خوش گفتار خاتون تھی۔ اسے نہ صرف اس میوزیم کے نوادرات کے بارے میں مکمل معلومات تھیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر متعلقہ فن کے علم پر بھی عبور حاصل تھا۔
رجکس اپنی بڑی بڑی نمائشوں ، سکالرشپ اور ریسرچ کے لئے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ میوزیم میں مشہور ڈچ پینٹرز ریمبرائٹ، ورمیر ، فرینئر ہال ، جان اسٹین اور بیرسٹر کے شہ پارے موجود ہیں ۔یہ پینٹنگز فنِ مصوری کے گراں قدر شہ پارے ہیں۔ ان مشہور فن کاروں کا فن ایک ایک تصویر میں بولتا نظر آ رہا تھا۔ سیاح جس پینٹنگ کو بھی دیکھتے عش عش کر اٹھتے۔ان تصاویر میں زیادہ تر مناظر قدیم ڈچ تہذیب و تمدن کی عکاسی کر تے ہیں۔ کچھ تصاویر اتنے پرانے دور کو زندہ کر رہی تھیںجب انسان جدید سہولتوں سے بہرہ ور نہیں ہوا تھا۔ جب بجلی کی روشنی، برقی پنکھے، برقی یاگیس کے چولہے ، جدید دور کی کاریں اور رسل وسائل کے جدید وسائل نہیںتھے تو اس وقت اس خطے کے لوگ کیسی زندگی بسر کرتے تھے، ان تصاویر کو دیکھ کر اس کاخوب اندازہ ہوتا تھا۔بعض پینٹنگز ایسی تھیں کہ انہیں دیکھتے دیکھتے انسان خود ماضی میں پہنچ جائے۔ وہ لالٹین کی روشنی ، ہاتھ سے جھلنے والے پنکھوں اور لکڑیاں جلا کر حرارت حاصل کرنے والے لوگوں کو دیکھ کر خود کو اس منظر کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ تہذیب ِ رفتہ کو تصورات کے سہارے کینوس پر اس طرح منتقل کرنا کہ دیکھنے والا خود کو اس منظر کا حصہ محسوس کرنے لگے، ان فن کاروں کا کمال تھا۔ دوسرے لوگوں کے برعکس میرے لئے اس میوزیم کی بہت سی چیزیں عجیب نہیں تھیں بلکہ یہ چیزیں میں نے وطنِ عزیز میں استعمال کی ہوئی تھیں ۔مثلاََ لالٹین ، دستی پنکھے ،لکڑی کے ایندھن سے گرم ہونے والے تنور ،کنوئیں میں لٹکانے والے مشکیزے ، ہاتھ سے چلنے والی آٹا پیسنے والی چکی اور ایسی ہی کئی اور چیزیں پاکستان میں اب بھی استعمال ہو رہی ہیں جو یورپ میں صرف عجائب گھروں میں ملتی ہیں ۔
اس میوزیم میں ان مشہور و معروف مصوروں کی پینٹنگز کے علاوہ دیگر بہت سے پرانے اور نئے فن کاروں کے ہاتھ کے بنے فن کے رنگا رنگ نمونے آنکھوں کو خیرہ اور دماغ کو حیرت زدہ کرنے کے لئے موجود تھے۔ اس میں پتھر اور لکڑی کے بے شمار مجسمے ، دیدہ زیب فرنیچر، پرانے زمانے کے ہتھیار، بحری جہازوں کے نمونے اور بدھا کے مجسمے اور معلوم نہیں کیا کچھ تھا۔اس میوزیم میں آکر انسان خود کو دنیا سے الگ اور فن کے سمندر میںڈوبا محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایک ایک فن پارہ نظروں سے دل میں اترتا چلا جاتا ہے۔ آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں نہ وہ لب پر آسکتا ہے اور نہ قلم اس کا ا حاطہ کر سکتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ ہر فن پارے کو دیکھتے چلے جائیں۔ انہیں دیکھ کر حیرت کا ایک سمندر دماغ میں موجیں لینے لگتا ہے۔ ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جنہوں نے یہ سب کچھ تخلیق کیا ہے۔ بعض فن پارے تو ایسا حیرت انگیز فن پیش کرتے ہیں کہ بنانے والا انسان نہیں بلکہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق محسوس ہوتا ہے۔
عجائب گھر اسی لئے عجائب گھر کہلاتے ہیں کیونکہ یہاں فن کار ہاتھوں کا ناقابل ِیقین اور حیرت انگیز کام محفوظ ہوتا ہے۔ یہ فن کارعام لوگوں سے مختلف، انتہائی حساس اور غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ایسے لوگ روز روز نہیں پیدا ہوتے ۔
رجکس سے نکلا تو شام کے چار بج چکے تھے۔ باہر بہت سہانا موسم تھا۔ بادلوں کے ٹکڑے فضا میں تیرتے کبھی نزدیک آتے اور کبھی دور چلے جا رہے تھے۔ ہوا میں خنکی خوشگوار محسوس ہو رہی تھی۔ یورپ کے اس دورے میں مجھے وہاں کے موسم کی تغیر پذیری عجیب محسوس ہوئی۔ وہاں موسم کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔ کبھی سورج پوری آب و تاب سے چمکتا نظر آتا۔ صرف منٹوں کے وقفے کے بعد یہ ایسے غائب ہو جاتا ہے جیسے رات ہو گئی ہو۔ لمحوں میں بادل گھنگور گھٹا بن کر چھا جاتے ہیں۔ بارش شروع ہوتی اور منٹوں میں ختم بھی ہو جاتی ہے۔ سورج پھر کہیں سے نمودار ہو کر ضیاء پاشی کرنے لگتا ۔پل میں تولہ اور پل میں ماشہ والا موسم ہے۔ خوش قسمتی سے میرے دورے کے دوران زیادہ وقتموسم خشک رہا ۔بارش ہوتی بھی تھی تو تھوڑے سے وقفے کے لئے۔ وہ بھی اتنی نرم کہ اس کی پرواہ نہ ہو۔ درجہ حرارت خوشگوار ہونے کی وجہ سے بارش اتنی بری محسو س نہیںہوتی تھی۔
ایمسٹرڈم شہر کے اس مرکزی حصے میں گھومتے گھومتے میں نے موسم کے کئی رنگ دیکھ ڈالے۔ اس دوران ایک برگر شاپ سے برگر لے کر پیٹ کی آگ بجھائی اور پھر چلتا ہی چلا گیا۔ مجھے اس علاقے کا علم تھا اور نہ اپنی منزل کا پتا۔ موسم کی خوش مزاجی، نظاروں کی فراوانی اور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نظاروں کو نظروں میںسمونے کی ہوس مجھے کشاں کشاں لئے چلی جار ہی تھی۔ گھنٹوں چلنے کے بعد بھی تھکن کا احساس نہ تھا۔ یکایک مجھے وہ علاقہ کچھ مانوس سا محسوس ہوا ۔دریا،اس کے اوپر بنا پل،اس کے سامنے ریستوران اور آراستہ دکانیں، ایسے لگا کہ جیسے میں نے انہیں دیکھ رکھا ہو۔
جہاں دِل کی صدا لے جائے
میرے دماغ میں یکایک ایک روشنی سی چمکی۔ مجھے یاد آگیا کہ یہ ایمسٹرڈم کا بدنام زمانہ سرخ روشنی والا علاقہ ہے۔
میں اپنے گروپ کے ساتھ یہاں پہلے بھی آچکا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس دن ہم رات کے اندھیرے اور مصنوعی روشنیوں میں یہاںآئے تھے اور آج سورج ہم ر کاب تھا۔ اس دن ہم نے صرف ایک آدھ گلی کا چکر لگایا تھا۔ آج پل پار کر کے میں کسی دوسری گلی میں چلا جار ہا تھا ۔ گلی الگ تھی لیکن مناظر وہی تھے۔ دن کی روشنی میں بھی عریاں عورتیں شیشے کی دیواروںکے پیچھے کھڑی اشاروں سے دعوتِ گناہ دے رہی تھیں۔ گلی کے دونوں جانب فٹ پاتھوں کے ساتھ لگے شیشے کے شو کیسوں میں قدرتی لباس میں ملبوس یہ عورتیں فحش حرکتیں کرتیں گاہکوں کو لبھاتی اور پھسلاتی نظر آرہی تھیں۔ اس پورے علاقے میں جہاں تک جائو، جہاںتک نظر دوڑائو،یہی مناظر نظر آرہے تھے۔اس بازار میں راتیں اور دن سب برا بر ہیں۔ گاہک بھی ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ انہیں عیاشی کے مواقع فراہم کرنے والی بے شمارحسین و جمیل عورتیں بانہیں پھیلائے ہر وقت محوِ انتظار رہتی ہیں۔ میں اس بازار میں آگے سے آگے بڑھتا چلا گیا۔ ایک جیسے مناظر دیکھ دیکھ آنکھیں اکتا سی گئیں۔ اشاروں اور زبان سے دعوتِ عشرت دینے والی عورتوں سے بچتا بچاتا اور مولی کی ہدایت کے مطابق اپنے بٹوے کا خاص خیال رکھتا ہوا میں خاصا دور نکل آیا۔
دراصل اس بازار میں آتے ہی مجھے بٹ صاحب کے ریسٹورنٹ کا خیال آگیا تھا ۔ وہ یہیں کہیں واقع تھا ۔ میں نے سوچا کہ آج ایمسٹرڈم میں اپنے قیام کے آخری دن بٹ صاحب اور اگر ممکن ہو تو ان کے دوستوں سے بھی ملاقات کرتا چلوں ۔ میرے پاس وقت بھی تھا اور دل بھی چاہ رہا تھا کہ ان بھولے بھالے اور پرخلوص پاکستانیوں کو آخری دفعہ مل لوں ۔پھر شاید زندگی میں کبھی ملاقات ہو یا نہ ہو۔ لیکن اس بازار میں خاصا گھومنے کے بعد بھی بٹ صاحب کا ریسٹورنٹ کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ کئی گھنٹے چلنے کے بعد اب تھکن محسوس ہونے لگی تھی۔ یہ تھکاوٹ اس وجہ سے بھی محسوس ہونے لگی تھی کہ میں جن کی تلاش میں تھا اُن کا اتا پتا نہیں مل رہا تھا۔ میرے پاس بٹ صاحب کا فون نمبر بھی نہیں تھاورنہ کہیں سے اُنہیں فون کر لیتا۔
اچانکمیری نظر گھڑی کی طرف اُٹھی۔ ساڑھے سات بج چکے تھے۔ سات بجے اظہر نے مجھے ہوٹل سے پک کرنا تھا۔ وہاں سے ہم نے کسی ریستوران میں جانا تھا جہاں گل خان کے ساتھ ڈنر تھا۔ میں تشویش میں مبتلا ہو گیا۔ میراہوٹل یہاں سے خاصا دُور تھا او ر راستے کا بھی علم نہیںتھا۔ میں پہلے ہی لیٹ ہو چکا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اظہر ہوٹل میں میرا انتظار کر رہا ہوگا۔ اظہر کا موبائل نمبر میرے پاس موجود تھا۔ میں نے ٹیکسی لے کر ہوٹل جانے کے بجائے اظہر کو فون کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ مجھے یہاں سے بھی پِک کر سکتا تھا۔
اظہر نے فوراً ہی فون اٹینڈ کیا۔ میری آواز سنتے ہی گرجتے ہوئے بولا ’’کہاں ہو تم؟ میں آدھے گھنٹے سے یہاں ہوٹل میں تمھارا انتظار کر رہا ہوں‘‘
’’ میں وہاں ہوںجہاں مجھ کو میر ی خبر نہیں‘‘
’’ پہلیاں نہیں بجھوائو اور بتائو کہاں ہو۔وہاں گل خان ہمارا انتظار کر رہا ہوگا‘‘
میں نے معصومیت سے کہا۔ ’’میں سچ کہہ رہا ہوں! مجھے نہیں معلوم کہ میں کہاں ہوں ۔ وہ تم نے فرازؔ صاحب کا شعر نہیں سنا؟
دشتِ غربت میں تمھیں کون پکارے گا فرازؔ
چل پڑو خود ہی جدھر دِل کی صدا لے جائے
مجھے علم تھا کہ اظہر کا پارہ چڑھ رہا ہوگا۔ وہی ہوا، وہ پھٹ پڑا ’’مجھے معلوم ہے تم کہاں ہو۔ تم جہنم میںہو گے کیونکہ وہی تمھارا دائمی ٹھکانہ ہے۔ اب بتائو گے یا مار کھائو گے‘‘
’’ دیکھ لو!تمہاری سنگت کی وجہ سے کہاں جانا پڑ گیا۔ ویسے یہ جگہ جہنم کی نشانیوں پر پوری نہیں ا ُ ترتی۔ کیونکہ یہاں تو ہر جانب خوبصورت حوریں ہیں ۔اچھے اچھے پکوانوں کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ ہشاش بشاش ہیں اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں جسم و جاں کو فرحت پہنچا رہی ہیں۔ جہنم کی یہ نشانیاں تو ہرگز نہیں بتائی گئی تھیں۔یہاں تو معاملہ اس کے برعکس محسو س ہورہا ہے‘‘
میں آج اظہر کو چڑا نے پر تلا ہواتھا۔ وہ بھی سمجھ گیا کہ غصہ کرنے سے معاملہ سدھرے گا نہیں۔ اس لئے قدرے نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے بولا ’’طارق! مذاق بند کرو ۔ گل خان مصروف آدمی ہے۔ اُسے اس طرح انتظار کرا نا مناسب نہیں ہے۔ جلدی سے بتا دوکہاں ہو۔ اگر ہوٹل سے دور ہو تو بھی جگہ بتائو، میں وہیں سے پِک کر لیتا ہوں۔‘‘
’’یار! میری بات تمھیں سمجھ کیوں نہیں آرہی۔ جگہ کا ہی تو مجھے علم نہیں ہے۔ ہاں علاقہ تمھارا پسندیدہ ہے اور منظر تمھارے من پسند ہیں۔ہر جانب حسینائیں راہوں میں آنکھیں بچھائے اور جسموں کو قدرتی لباس سے سجائے ہر خاص و عام کو دعوتِ نظارہ دے رہی ہیں۔ اس منظر میں بس ایک ہی کمی ہے کہ تم یہاں نہیں ہو۔ اور سب سے غلط بات یہ ہے کہ ایک شریف آدمی بھٹکتا بھٹکتا یہاں آگیا ہے جسے واپسی کے راستے کا بھی علم نہیں ہے‘‘
’’ او !شرافت کے ازلی دشمن! تم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور دن کے اُجالے میں بھی وہاں پہنچ گئے۔ شرافت نام کی کوئی چیز ہے تمھارے اندر یا آسٹریلیا سے روانہ ہوتے وقت وہیں چھوڑ آئے تھے‘‘ اظہر کو موقع مل گیا تھا۔
میں نے کہا’’ ایک اجنبی ملک میں ایک اجنبی مسافر راستہ بھٹک کر کہیں پہنچ جاتا ہے تو اس کی شرافت پر شک نہیں کرنے لگتے بلکہ اس کی مدد کرتے ہیں‘‘
’’ مدد تو میں تمھاری ایسی کروں گا کہ تم یاد رکھو گے۔ایک دفعہ مجھے وہاں آلینے دو ۔تمھیں ریستوران کے بجائے گھر ا با جی کے پاس لے کر جائو ں گا ۔ تمھاری وہ دُرگت بنوائوں گا کہ ساری شرافت ناک کے راستے باہر آجائے گی۔ غضب خدا کا ! ایک شریف خاندان کے لڑکے ہو کر یہاں کیا گل کھلا رہے ہو‘‘
’’ کون سے گل کا ذکر کر رہے ہو؟ اپنے دوست کا، جس کے ساتھ ڈنر کرنا ہے۔ اس کو میں نے کیا کھلانا ہے، وہ خود کھیل اور کھا چکا ہے۔ ویسے بائی دا وے تم وہیں کھڑے باتیں بناتے رہو گے یا مجھے لینے کے لئے آرہے ہو ‘‘میں نے اظہر سے پوچھا
’’میں اس علاقے کے نزدیک پہنچ گیا ہوں۔ اب ذرا سی تکلیف کرو اور گلی کا نام اور نزدیکی بلڈنگ کا نمبر بھی بتا دو اگر یہاں سے جانے کا دل کر رہا ہے تو۔ لگتا تو نہیں ہے کہ تم رات کو یہاں سے واپس جانا چاہوگے۔ تمھارا بس چلے تو وہیں ڈیرہ ڈال لو‘‘
اظہر کی بک بک کے دوران میں نے اردگرد نظر دوڑائی۔ گلی کا نام تو کہیں نظر نہیں آیا تا ہم سامنے والی بلڈنگ پر 26 نمبر لکھا دکھائی دیا ۔ فون بند کئے بغیر اپنے پاس سے گزرنے والے ایک سائیکل سوار کو روک کر میں نے گلی کا نام دریافت کیا۔ اس نے جو نام بتایا وہ مجھے بالکل سمجھ نہیں آیا ۔ میری درخواست پر اس نے فون لے کر اظہر کو وہ نام بتا دیا۔ میں نے فون واپس لے کر اس شریف آدمی کا شکریہ ادا کیا اور اظہر سے پوچھا’’کچھ سمجھ میں آیا یا میری طرح تمھارے سر سے بھی یہ نام گزر گیا ہے‘‘
اظہر نے کہا’’ میں سمجھ گیا ہوں۔ نزدیکی بلڈنگ کا نمبر بھی بتادو تو میں جلدی وہاں پہنچ جاوٗں گا‘‘
میں نے اسے نمبر بتا دیا اور فون بند کر کے اس کا انتظار کرنے لگا۔
پاک تندوری ریسٹورنٹ ایمسٹرڈم کا سب سے اچھا پاکستانی ریسٹورنٹ ہے۔ ریستوران کا ہال پاکستانی کلچر پر مبنی خوبصورت تصاویر سے سجا ہوا ، کشادہ اور انتہائی صاف ستھر ا ہے۔ ہم ہال کے اندر داخل ہوئے تو یکلخت جیسے ایک بالکل نئے ماحول کا حصہ بن گئے ۔ باہر اگر یورپین کلچر تھا تو اندر پوری طرح پاکستانی تہذیب و تمدن جلوہ افروز تھی۔ پاکستانی موسیقی کی مدھر دھنیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ داتا دربار لاہور کی بڑی سی تصویر سامنے والی دیوار پر آویزاں تھی۔ ان کے علاوہ فیصل مسجد اسلام آباد کی تصویر،شمالی علاقہ جات کے قدرتی حسن سے مالا مال مناظر،دیہاتی میلوں کی چند تصاویر اور ایسے ہی کئی اور ہمہ جہت اور ہمہ رنگ مناظر ریستورانوں کی دیواروں پر خوبصورتی سے آویزاں تھے۔ ان مناظر کے درمیان بیٹھ کر اور پاکستان کی لوک موسیقی کی دُھنیں سن کر انسان خود کو یورپ کی بجائے پاکستان میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ پاک تندروی ریسٹورنٹ کے ویٹر تعلیم یافتہ اور انتہائی شائستہ واقع ہوئے۔ وہ اُردو ، ڈچ اور انگریزی روانی سے بولنے پر قادر تھے۔
میں اور اظہر وہاں پہنچے تو گل خان ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے تاخیر پر معذرت کی تو اس نے خوش دلی سے کہا’’ کوئی بات نہیں، آپ زیادہ لیٹ نہیں ہوئے۔ ویسے بھی اس ریستوران کا مالک اور عملہ سب میرے واقف ہیں۔ آپ کے آنے تک میں ان سے گپ شپ کر رہا تھا۔ آپ سنائیں آپ کی سیر کیسی جارہی ہے اور کیسا لگا ہمارا یہ شہر ؟ ‘‘گل خان نے موضوع بدلتے ہوئے کہا
’’ بہت اچھا! بہت پسند آیا۔ جہاں تک سیر کا تعلق ہے، اس کی تو کوئی حد نہیں ہوتی۔ اتنے بڑے شہر کے لئے جتنے بھی دن ہوں ،کم ہیں۔ پھر بھی کچھ خاص خاص مقامات اور علاقے میں نے دیکھے ہیں۔ ایمسٹرڈم میںبھی لندن کی طرح بہت سے تاریخی اور یادگار مقامات ہیں۔ صدیوں پرانے کلچر کو زندہ اور محفوظ رکھا ہوا ہے اس شہر نے ۔یہ یقیناَ ان کی اپنے ماضی اور اپنے تاریخی ورثے سے محبت کا ثبوت ہے۔ اپنی روایات اور اپنے مشاہیر کو زندہ جاوید رکھنے کی بھرپور اور شعوری کوشش کی ہے ان لوگوں نے۔ یہ کام صرف زندہ قومیںکرتی ہیں۔ خود کو، اپنے ماضی کو، اپنی روایات کو، ماضی کے کارناموں کو اور اپنی صدیوں پرانی تہذیب و تمدن کو محفوظ رکھ کر بجا طور پر یہ قوم فخر کی مستحق ہے‘‘
میری باتیں گل خان غور سے سن رہاتھا۔ میری بات ختم ہوئی تو بولا ’’میں اپنے کاروبار میںا لجھا رہتا ہوں۔ بڑے دنوں بعد اس قسم کی گفتگو سننے کا موقع مل رہا ہے اور بہت اچھا لگ رہا ہے۔ آپ کی بات بالکل درست ہے۔ آج کے ڈچ کو اپنی قوم کے ماضی پر فخر ہے۔ اور کیوں نہ ہو۔ یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ ڈرائیو کریں تو چند گھنٹوں میں آدمی پورے ملک میں گھوم لے۔ آبادی بھی اتنی زیادہ نہیں ہے۔ لیکن اس چھوٹے سے ملک نے دنیا کے تمام براعظموں پر اپنی فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ اُس دور کے ذرائع رسل وسائل او رہالینڈ کے سائز کو مد نظر رکھیں تو ان کی کامیابیاں حیرت انگیز ہیں‘‘
’’ وہ سب تو دُرست ہے۔ لیکن وہ گزری نسلوں کے کارنامے ہیں۔آج کی ڈچ قوم کیا کر رہی ہے اور اقوامِ ِعالم میں وہ کہاں کھڑے ہیں؟‘‘ میں نے گل خان سے پوچھا
گل خان جس کا تعلق پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقے سے ہے۔جس نے بچپن پہاڑوں کی گو دمیں بکریاں چراتے گزارا ہے اور جو آج یورپ کے اس ترقی یافتہ ملک کے مرکز میں بہت بڑے کاروبار کا مالک ہے، اس کے پاس میرے سوال کا جواب تیار تھا’’ آج کی ڈچ قوم بھی کچھ کم نہیں ہے ۔ آجکل جنگوں اور ملکوں کو فتح کرنے او ر وہاں پر اپنی کالونیاں بنانے کا رواج نہیں ہے۔ لیکن معاشی اور سیاسی طور پر دنیا میں اپنا سکہ جمانے کا رواج آج بھی قائم ہے۔ ڈچ معاشی طور پر مضبوط اور سیاسی طور پر آزاد قوم ہے۔ وہ بغیر کسی دبائو کے اپنے قومی مفا د کے مطابق فیصلے کر نے میں آزاد ہیں۔ آزادی سے دوسرے ممالک سے تعلقات قائم کرتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑے آزادانہ فیصلے کرکے اپنے قومی تشخص اور ایک آزاد اور خود مختار قوم کا کردار ادا کرتے ہیں‘‘ گل خان نے شستہ اور رواں اُردو میں اپنی بات جاری رکھی’’ اگر چہ آج بیسویں صدی کے خاتمے پر یورپ قریب سے قریب تر ہو رہا ہے لیکن ڈچ اپنی شناخت اور اپنے ثقافتی ورثے کو ہر صورت میں زندہ رکھنا چاہیں گے۔ وہ کسی بڑے سیٹ اپ میں شامل ہو کر بھی اپنی انفرادیت اور اپنی پہچان کو ختم کرنے پر کبھی تیار نہیں ہو گے۔ آج جب یورپ اکھٹا ہو رہا ہے، ہالینڈ بھی باقی اقوامِ یورپ کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ وہ کبھی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد نہیں بنائیں گے اور نہ ہی ہٹ دھرمی سے خود کو یورپ سے الگ رکھیں گے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی آزاد انہ حیثیت کو ہر صورت میں برقرار رکھیںگے۔ دوسری طرف ہالینڈ معاشی طور پر انتہائی مضبوط ملک ہے۔ اس کی برآمدات کا دائرہ پوری دنیا میں پھیلا ہو اہے۔ زرعی ترقی کے لئے یہ دنیا بھر کے لئے قابلِ تقلید ملک ہے۔ قدرت نے اس ملک کو ہر نعمت سے دل کھول کر نوازا ہے ۔ ان قدرتی نعمتوں اور مضبوط معیشت کا ثمر ہر ڈچ تک پہنچ رہا ہے۔ دولت کی تقسیم منصفانہ ہے۔ یہاں رہنے والے ہر مرد و زن کو ملک کی معیشیت سے اتنا حصہ مل رہا ہے کہ وہ بہت اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ ملک کا سیاسی اور حکومتی نظام بھی ایسا ہے کہ ہر فرد کی یہاں اہمیت ہے اور اس کی آواز سنی جاتی ہے۔ یورپ کے دوسرے جمہوری ممالک کی طرح عدلیہ اور پریس مکمل طور پر آزاد ہے۔ سیاست دان عوام کی صحیح ترجمانی کرتے ہیںاور ا ن کی دسترس میں رہتے ہیں۔ لوگوں کے مسائل بہت کم ہیں اور جو ہیں حکومتی ادارے تن دہی سے انہیں حل کر نے میں لگے رہتے ہیں۔ اس لئے عوام کو شکایت کا زیادہ موقع نہیں ملتا‘‘
گل خان کی بات ختم ہوئی تو میں نے دوسرا سوال داغ دیا ’’ہالینڈ میں آپ جیسے تارکین ِوطن اور ہالینڈ میں آکر بسنے والے نئے شہریوں کے ساتھ کیا رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ حکومتی یا انفرادی سطح پر کسی تعصب کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا؟‘‘
’’حکومتی سطح پر تو ہمیں ہالینڈ کے پرانے شہریوں کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ باہر سے آنے والے ہنر مند اور کاروباری افراد کو حکومت خو ش آمدید کہتی ہے۔ تا ہم انفرادی سطح یا بعض اداروں کی جانب سے گاہے بگاہے تعصب کا مظاہرہ ہو جاتاہے۔ مجموعی طور پر ڈچ ایک مہذب قوم ہے۔ اگر کوئی تعصب کا اظہار کرتا بھی ہے تو اس میں شدت پسندی ہر گز نہیں ہوتی۔ عمومی طور پر ان میں برداشت اور خوش اخلاقی پائی جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو باہر سے آکر یہاں بڑے بڑے کاروباروں کے مالک بن جانے والے لوگوں سے حسد تو ہوتی ہے لیکن وہ اس کا اظہار کرنے میں احتیاط کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اتنی عصبیت نیچرل ہے اور کوئی بھی قوم اس سے مستشنیٰ قرار نہیں دی جا سکتی‘‘
گل خان سے گفتگو کے دوران اس ریستوران کے سمارٹ اور خوش لباس ویٹر ہمارے آگے مختلف ڈشیں سجاتے جا رہے تھے۔ گل خان نے ہمارے آنے سے پہلے آرڈر دے رکھا تھا۔ اس نے ہماری پسند کی ڈشیں معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میز پر ہرڈش آچکی تھی۔ یہ کھانا اتنا زیادہ تھا کہ تین کے بجائے تیرہ ا فراد کے لئے کافی تھا ۔ جب ہم نے کھانا شروع کیا تو پتہ چلا کہ یہ کسی ماہر باورچی کے ہاتھوں کا کمال ہے۔ ہر ڈش لاجواب تھی۔ انتہائی لذیذ اور نفاست پر مبنی تازہ تازہ بنی ڈشیں اشتہا انگیز تھیں۔ لیکن ڈشیں اتنی زیادہ تھیں کہ ہم ان میں سے صرف چند کو چکھ سکے۔ گل خان کا اصرار تھا کہ ہر ڈش کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ ہم اگر ایسا کرتے تو ہمارے پیٹ کے ساتھ بے انصافی ہو جاتی۔ سفر کے دوران طبیعت خراب ہو جائے تو وہ عذاب سے کم نہیں، اس لئے احتیاط لازم تھی ۔ پھر بھی اس رات پاک تندوری میں ہم تینوں سے اتنی احتیاط روا نہیں رکھی جاسکی۔
ہمارا علاقہ پتھر کے دور کی عکاسی کرتا ہے
گل خان پیدائشی طور پر قبائلی علاقے سے تعلق رکھتا تھا ۔ مہمان نوازی ان کی روایت کا حصہ ہے ۔اب تو اس پر خدا کا خصوصی فضل بھی تھا ۔لہذا اسے اپنی روایت نبھانے میں کوئی امر مانع نہیں تھا۔ کھانے کے دوران اور اس کے بعد ہمارے درمیان ہالینڈ اور آسٹریلیا کی باتیں ہوتی رہیں۔ گل خان اور اظہر مجھے ہالینڈ کے بارے میں بتاتے رہے۔ گل خان کے سوال پر میں نے انہیں آسٹریلیا کے بارے میں کچھ معلومات بہم پہنچانے کی کوشش کی۔ کھانے اور سویٹ ڈش کے بعد پشاوری قہوے کا دور چلا۔ گل خان کے بارے میں کچھ مزید جاننے کے لئے میرے دل میں سوالات کلبلا رہے تھے۔ لیکن اس سنجیدہ مزاج بزنس مین سے میری اتنی بے تکلفی نہیں تھی کہ اس سے نجی نوعیت کے سوال کر سکوں ۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ اظہر نے گل خان سے پوچھ لیا ’’خان صاحب! آپ کے آبائی علاقے کے آج کل کیا حالات ہیں؟ میں نے سنا ہے کہ وہاں لوگ کافی مشکل زندگی گزارتے ہیں۔ اب اس میں کچھ بہتری آرہی ہے یا نہیں؟ ‘‘
گل خان یہ سوال سن کر سنجیدہ بلکہ اداس نظر آیا ۔ اس اداسی کی وجہ اس کے جواب میں پنہاں تھی’’ پہلے سے یقیناً بہت بہتر ہے ۔لیکن اب بھی ہمارا علاقہ یورپ کے اس ترقی یافتہ معاشرے کے مقابلے میں پتھر کے دور کی عکاسی کرتا ہے ۔ یورپ کو چھوڑیئے، پاکستان کے میدانی علاقوں کی نسبت بھی یہ علاقہ ترقی کی منزلوں میں بہت ہی پیچھے ہے۔ ابھی تک ہم بہت سی بنیادی سہولتوں سے آشنا تک نہیں ہوئے ۔ بہت سارے گاوٗں تعلیم ، علاج معالجہ، بجلی اور رسل و رسائل کی بنیادی سہولتوں سے مکمل طور پر محروم ہیں ۔ سکول دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے جہالت کا اندھیرا آبادی کے وسیع حصے پر اب بھی سایہ فگن ہے ۔ لوگ بیمار ہوتے ہیں تو دیسی ٹوٹکوں اور دم درود سے ہر مرض کورفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوائیں ہیں نہ ڈاکٹر ، ہیلتھ سینٹر ہیں اور نہ اسپتال ، سڑکیں ہیں اور نہ موٹر گاڑیا ں ۔ ان حالات میں لوگ کسمپرسی کی حالت میںبستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ غربت اتنی ہے کہ وہاں اکثریت کودو وقت کا کھانا بھی دستیاب نہیں ۔ پینے کے لئے صا ف پانی نہیں۔ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے بہت سارے گاوٗں سردیوں کے چھ چھ ماہ پوری دنیا سے کٹے رہتے ہیں۔ گویا وہاں بہت سے لوگ ابھی تک صدیوں پرانی سہولتوں پر گزارہ کر رہے ہیں۔ ان تک نئے زمانے کی روشنی پہنچی ہے او ر نہ ہی جدید سہولتوں سے انہیں کوئی چھوٹا سا حصہ ملا ہے‘‘
گل خان نے اسکردو او راس کے نواح میں پھیلے پہاڑی علاقے میں دیہات کے باسیوں کے طرزِ حیات اور مسائل پر جو روشنی ڈالی اس سے میں اور اظہر بھی اداس ہوگئے ۔اداسی کا یہ ماحول رفع کرنے اور گل خان کے بارے میں مزید جاننے کے لئے میں نے پوچھا’’ گل خان ! جیسا کہ آپ نے بتایا کہ اس علاقے میں تعلیمی سہولیات اور ذرائع رسل و رسائل ناکافی ہیں۔ یہ سہولتیں آج سے بیس پچیس سا ل قبل جب آپ وہاں رہتے تھے تو مزید کم ہوں گی ۔ ان حالت میں ان پہاڑوں کی گود میں پرورش پا کر بھی آپ جدید تعلیم کے حصول کی منزلوں تک کیسے پہنچ پائے اور پھر ان برف سے ڈھکے پہاڑوں سے نکل کر یورپ کے اس انتہائی ترقی یا فتہ شہر میں ایک کامیاب بزنس مین کی منزل تک کیسے پہنچے۔ یہ یقیناً حیرت انگیز اور قابلِ رشک کامیابیاں ہیں۔ ہمیں ان کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟ ‘‘
میرا سوال سن کر گل خان کے چہرے سے اُداسی زائل ہو گئی اور وہ مسکرانے لگا ۔ مسکراتے مسکراتے وہ کچھ سوچ بھی رہا تھا۔ شاید یہسوچ رہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کروں۔ اس کے بعد گل خان نے ہمیں اپنی پوری کہانی سنائی۔یہ کہانی قدرے طویل ہے اور میرے سفر نامے سے براِ ہِ راست متعلق بھی نہیں۔اس کے باوجود میں اسے احاطہِ تحریر میں لا کر اس سفرنامے کا حصہ بنا رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گل خان جیسے کردار خال خال ملتے ہیں۔گل خان نے نا مساعد حالات کے باوجود اپنی ہمت، محنت اور جدوجہد سے جو مقام حاصل کیا وہ ہمارے نوجوانوں کے لئے ایک روشنمثال ہے۔جو لوگ شارٹ کٹ کے ذریعے راتوں رات کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں، اُن کے کے لئے بھی گل خان کی کہانی سبق آموز ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ شارٹ کٹ کمزوروں اور بزدلوں کا طریقہ ہے ۔ درست راستہ قدرے طویل او ر صبر آزما ہو سکتا ہے، مگر اصل کامیابی اسی راستے سے ملتی ہے۔اس کہانی سے دوسرا سبق یہ ملتا ہے کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔ مصمم ارادے اورعملِ پیہم سے مشکل ترین منزل بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔بالآخر گل خان نے اپنی کہانی شروع کی۔
’’ گیارہ سال کی عمر تک میں ضلع لداخ میں واقع اپنے چھوٹے سے گاوٗں سے باہر نہیں نکلا تھا۔ پچیس گھروں پر مشتمل یہ چھوٹا سا گاوٗں ہی میری دنیا تھی۔ اس کے باہر کوئی اور دنیا بھی ہے، اس کا مجھے بالکل علم نہیں تھا۔ ہمارا گاوٗں لداخ کے قصبے اور سڑک سے دور پہاڑ پر واقع تھا۔ جدید سہولتوں کا وہاں نام و نشان تک نہیں تھا۔ گاوٗں کے لوگ کھیتی باڑی کرتے اور مویشی پالتے تھے۔ انہی سے جو تھوڑی بہت آمدنی ہوتی تھی، ان کا گزارہ ہوتا تھا۔ مکئی کی روٹی ،دالیں اور سبزیاں لوگوں کی خوراک تھی۔ اس کی بھی اتنی قلت تھی کہ بمشکل دو وقت کھا سکیں ۔ حالانکہ ہم لوگ بھیڑ بکریاں پالتے تھے لیکن ان کا گوشت کھانے کی استعداد نہیں رکھتے تھے ۔ کیونکہ وہ ہمارا ذریعہ معاش تھیں۔ ہاں کبھی کبھار کوئی بکری بیمار ہو جاتی یا کوئی جنگلی درندہ اسے زخمی کر دیتا تو اسے ذبح کیا جاتا ۔ اس دن پورا گاوٗں گوشت کی چند بوٹیوں سے ضیافت اڑاتا۔
گرمیاں تو پھر بھی آسانی سے گزر جاتیں،لیکن موسم سرما اس علاقے کے باشندوں کے لئے ایک طویل امتحان بن کر آتا۔ سردیوں میں بر ف باری سے راستے بند ہو جاتے ۔ جنگل سے لکڑیاں کاٹنا بھی دو بھر ہو جاتا۔ انسان تو انسان، ہماری بھیڑ بکریاں اور مویشی بھی قید ہو کر رہ جاتے ۔ مہینوں تک ہم گھروں میں بند رہتے۔ گرمیوں میں جو کچھ کمایا ہوتا اور جو غلہ جمع ہوتا، اسی سے گھٹ گھٹ کر سردیوں کا پورا موسم گزارنا پڑتا تھا۔ کچے اور ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں سردی عذاب بن کر رگوں میں اترتی رہتی۔ لکڑیاں جلا جلا کر سردی سے بچنے کی کوشش کرتے ۔ پہاڑوں کے باسی ہونے کے باوجود لکڑی بھی وافر مقدار میں ہمیں میسر نہیں تھی۔ اول تو ان سوکھے پہاڑوں پر درخت کچھ زیادہ نہیں تھے ۔ جوتھے، وہ کچھ خانوں کی ملکیت تھے۔ان سے لکڑی قیمتاً خریدنی پڑتی تھی۔ غریب لوگوں کے پاس اتنی رقم کہاں تھی کہ اپنی مرضی کی مقدار حاصل کر پائیں۔ اس لئے وہ جلانے کی یہ لکڑی سوچ سمجھ کر اور کفایت شعاری سے خرچ کرتے تھے۔ ورنہ عین سردیوں میں ختم ہونے کا اندیشہ رہتا تھا۔
پورے گاوٗں میں ایک ہی دکان تھی اور وہ ہماری تھی۔ یہ دکان میرے دادا کے زمانے سے چلی آرہی تھی ۔ دادا کے گزرنے کے بعد میرے بابا نے اس کاروبار کو جاری رکھا۔ کاروبا ر کیا تھا، بمشکل دال روٹی حاصل کرنے کا ذریعہ تھا۔ کاروبار سے زیادہ بابا گاوٗں کے لوگوں کی خدمت کی نیت سے یہ کام کررہے تھے۔ کیونکہ اگر گاوٗں میں یہ واحد دکان بھی نہ ہوتی تو لوگ اشیائے ضرورت کے لئے کہاںبھٹکتے پھرتے ۔ ہمارے گاوٗں کے لوگ ان پڑھ تو تھے ہی اس پر مستزاد انتہائی سادہ لوح اور تو ہم پرست بھی تھے۔ دکانداری ان میں سے کسی کے بس میں تھی نہ اُن کا مزاج اس کے لئے موافق تھا۔ آج بھی جب ہمارے علاقے میں سڑک بن گئی ہے۔ سڑک کے کنارے ہوٹل ، چائے خانے اور دکانیں عام ہو گئی ہیں۔ ان دکانوں کے مالک ہزارہ ، پشاور ، مردان، صوابی اور پنجاب کے لوگ ہیں۔ دکانداری اور کاروبارہمارے علاقے کے لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ علاوہ ازیں وہ اسے اتنا اچھا بھی نہیں سمجھتے۔ ان کے خیال میں یہ ہندو بنئے کا کام ہے۔
اسی طرح موجودہ دور میں بھی وہاں اکثریت اپنے بچوں کو تعلیم دلانے اور زمانے کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر چلنے کی قائل نہیں ہے۔ جہالت ، توہم پرستی، دیرینہ دشمنیاں، قتل برائے انتقام ، خواتین کے حقوق کی تلفی ، بچیوں کی کم عمری میں شادی ،بے تحاشا اولاد پیدا کرنا اور کام سے جی چرانا،یہ سب کچھ آج بھی وہاں ہور ہا ہے۔ اگرچہ گاہے گاہے اور کوئی کوئی اس دائرے سے باہر نکل رہا ہے لیکن یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
میں اپنے گاوٗں کے بارے میں بتا رہا تھا۔ جس طرح گاوٗں کی واحد دکان ہماری تھی، اسی طرح گاوٗں کا واحد فرد جو اُردو لکھ پڑھ سکتا تھا، وہ میرا بابا تھا۔ پورے گاوٗں میں کسی نے خط لکھوانا یا پڑھوانا ہو ،یہ کام میرے بابا سے لیا جاتا تھا۔ گویا گاوٗں کے باہر کی دنیا سے رابطے کا ذریعہ میرا بابا تھا ۔ورنہ گاوٗں کے لوگ تو مہینوں اور سالوں تک گاوٗں سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ سال میں صر ف چند مرتبہ گاوٗں کے کچھ لوگ ہمارے نزدیک ترین قصبے (یا نسبتاً بڑے گاوٗں ) میں جاتے تھے۔ یہ قصبہ اگرچہ تقریباً تیرہ میل کے فاصلے پر واقع ہے لیکن دشوار گزار راستہ ہونے کی وجہ سے اس سے کہیں دور لگتا ہے۔
گائوں سے باہر نکلنے کا ایک موقع تو سالانہ میلے کا ہے۔ یہ میلہ ہر سال جون میں اس قصبے سے ملحق واقع ایک بزرگ کے مزار پر منایا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ میلہ تین دن تک جاری رہتا ہے لیکن اصل اور بڑا میلہ آخری دن ہوتا ہے۔ اس میلے کی خاص بات یہ ہے کہ اس موقع پر نہ صرف اس قصبے کے تمام مر د و زن اور بچے یہاں جمع ہوتے ہیں بلکہ گرد و نواح کے متعدد دیہات کے سیکڑوں لوگ بھی جوق در جوق اس میںشرکت کرتے ہیں ۔ یوں لوگ پہاڑوں میں گھرے اپنے اپنے گاوٗں سے باہر نکل کر سا ل میں ایک مرتبہ دوسرے لوگوں سے مل پاتے ہیں۔
اس میلے میں مختلف کھیلوں کے مقابلے شائقین کی دلچسپی کے مرکز ہوتے ہیں۔ ان میں گھوڑ دوڑ، پولو، کتوں، مرغوں او ر بٹیروں کی لڑائی، تیر اندازی اور اسی طرح کے دوسرے دیہی کھیل لوگوں کو پورے سال کی بوریت اور یکسانیت سے نکال کر تازہ دم کر دیتے ہیں۔ اس میلے میں لو گ خرید و فروخت بھی کرتے ہیں۔ کپڑے، عورتوں کے نقلی زیورات اور چوڑیاں (اصل سونے کے زیورات وہاں شاذو نادر ہی لوگ خریدنے کے متحمل ہو سکتے ہیں) مٹھائیاں ، مسالہ جات ، جوتے، آلاتِ کا شتکاری ، بھیڑوں کی اون کترنے کی قینچیاں اور دیگر متعدد اشیاء اس میلے میں لگے عارضی اسٹالوں پر سجی شائقین کی دلچسپی کا مرکز ہو تی ہیں۔ اس سالانہ میلے میں کاشتکاروں کی دلچسپی کا مرکز مویشیوں کی منڈی بھی ہوتی ہے جہاں لوگ اپنی بھیڑ بکریاں فروخت کرتے ہیں۔ کاروباری لوگ بھیڑ بکریاں خرید کر بڑے شہروں اور پنجاب میں پہنچاتے اور منافع کما تے ہیں۔ اس طرح یہ میلہ اس علاقے کے ہر فرد کے لئے انتہائی دلچسپی اور تفریح کا حامل ہوتا ہے۔ لوگ پورا سال اس کا انتظار کرتے ہیں ۔
اس میلے کے علاوہ ہمارے گاوٗں کے لوگ انتہائی مجبوری کے عالم میں شاذونادر گاوٗں سے باہر اس قصبے تک جاتے ہیں۔ یہ مجبوری عموماََ اس وقت پیش آتی ہے جب شدید بیمار لوگوں کو قصبے میں واقع اس سیکڑوں میل کے دائرے میں واحد ڈسپنسری تک پہنچانا ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ اگر مریض قدرے بہتر حالت میں ہوتا ہے تو اسے گدھے پر بٹھا کر وہاں لے جایا جاتا ہے۔ اونچا ، نیچا اور انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہ سفر بہت سست اور مریض کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ زیادہ تر مریضوں کی اس مشکل سفر سے تکلیف مزید بڑھ جاتی ہے ۔ بارہ تیرہ میل کا یہ سفر پورے دن میں بمشکل مکمل ہوتا ہے ۔ جس دن گاوٗں کے کسی فرد یا مریض کو قصبے جانا ہوتا ہے وہ کئی دن پہلے سے تیاری شروع کر دیتا ہے۔
یہ سفر ہمیشہ منہ اندھیرے شروع ہوتا ہے اور گرمیوں کے طویل دنوں میں بھی بمشکل سورج ڈوبنے تک قصبے پہنچ پاتے ہیں۔ مناسب جوتے نہ ہونے اور پہاڑی پتھروں پر چلنے سے ان کے پاوٗں زخمی اور جسم تھک کر چور ہو جاتا ہے۔ قصبے میں ایک مسافر خانہ ہے جو دراصل بڑی مسجد کا حصہ ہے۔ اس مسافر خانے میں مسافروں کی مفت رہائش اور طعام کا انتظام ہے۔ اس کا اہتمام علاقے کے امراء اور خانوں نے کیا ہے۔ اس مسافر خانے میں ایک رات قیام کے بعد لوگ قصبے میںدرپیش اپنے کام نبٹاتے ہیں۔ خریداری وغیرہ کرتے ہیں۔ دوسری رات بھی مسافرخانے میں گزار کر علیٰ الصبح گاوٗں واپسی کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ قصبے میں واقع واحد سرکاری ڈسپنسری میں کوئی باقاعدہ ڈاکٹر نہیں ہے۔ وہاں صرف ایک کمپونڈر ہے جو اپنی سمجھ کے مطابق اور دستیاب دواوٗںمیں سے کچھ دے دیتا ہے۔
گاوٗں کے مریضوں کی دوسری قسم کو قصبے لے جانے کا کام اس سے کہیں زیادہ مشکل ، پُر خطر اور بعض اوقات جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ یہ وہ مریض ہوتے ہیں جو زیادہ بیمار ہونے کی وجہ سے گدھے پر بیٹھ کر سفر نہیں کر سکتے۔ ایسے مریضوں کو قصبے لے جانے کا ذریعہ چارپائی ہوتی ہے۔ چارپائی کو اٹھانے کے لئے کم از کم چار صحتمند جوان درکار ہوتے ہیں۔ مریض کی چارپائی کو اٹھا کر پہاڑوں کی چٹانوں ، ڈھلوانوں اور انتہائی دشوار گزار نشیب و فراز پر سفر کرنا دِل گردے کا کام ہے۔ چارپائی اٹھانے والو ں میں سے ایک کا پاوٗں پھسل جائے تو وہ دوسروں کو بھی سیکڑوں فٹ گہری کھائیوں میں دھکیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ سفر مشکل ، تکلیف دہ اور انتہائی طویل ہوتا ہے۔ خصوصاََ جان بلب مریض کے لئے مزید تکلیف دہ ہوتا ہے۔ لیکن لوگ امید کے سہارے یہ سفر بھی کر گزرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ امید کا یہ چراغ اکثر سحر ہونے سے پہلے ہی گُل ہو جاتا ہے۔
قصبے سے رابطے کے یہ ذرائع بھی گرمیوں کے موسم تک محدود ہیں۔ موسم سرما میں یہ سلسلہ بھی منقطع ہو جاتا ہے۔ خصوصاً برف باری کے مہینوں میں ہمارا رابطہ باقی پوری دنیا سے منقطع ہو جاتا ہے۔ ایسے میں لوگ بیمار ہوتے ہیں تو بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ گاوٗں میں ٹونے ٹوٹکوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ۔گاوٗں کے لوگ دواوٗں کے نام اور اس کے استعمال سے ناواقف ہیں۔ ایسے میں درد کم کرنے والی دوائی بھی کسی سے نہیں ملتی۔ اس وقت مریضوں اور ان کے لواحقین پر کیا گزرتی ہے۔ یہ وہی لوگ جانتے ہیںجوان حالات سے گزرتے ہیں۔
میں نے اپنے گاوٗں اور اس کے حالات پر یہ روشنی اس لئے ڈالی ہے تا کہ آپ کو بتا سکوں کہ میرا بچپن کس ماحول میں گزرا۔ گیارہ سال کی عمر تک میرے لئے کل کائنات یہ گاوٗں ہی تھا۔ گیارہ سال کی عمر میں میں پہلی مرتبہ اپنے بابا کے ساتھ میلے میں گیا تو حیران و پریشان رہ گیا کہ دنیا اس گاوٗں سے باہر بھی واقع ہے۔ اتنے سارے لوگ ایک جگہ اکھٹے دیکھ کر میری عقل دنگ رہ گئی ۔ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اور تعجب سے میلے اور لوگوں کے جم غفیر کو دیکھتا رہا۔ لوگوں نے اچھے اچھے ملبوسات پہنے تھے۔ سجی ہوئی بڑی بڑی دکانیں، رنگ برنگی مٹھائیاں اور کھیل تماشے۔ یہ سب میرے لئے خواب جیسا تھا۔ اس وقت مجھے یہ بالکل معلوم نہیں تھا کہ یہ میلہ اور یہ لوگ اتنی بڑی دنیا اور دنیا کے بڑے بڑے شہروں کے مقابلے میں ایک تنکے کے برابر بھی نہیں ہیں۔
یہ میرے ذہنی اور جسمانی سفر اور مشاہدے کی حیرت انگیز ابتدا تھی ۔ اس کے بعد جو سفر شروع ہو وہ اب تک جاری ہے۔ کچھ دیکھا ہے اور بہت کچھ دیکھنا باقی ہے۔ لیکن میں اور میری بساط اس قابل کہاں کہ دنیا دیکھ سکوں ۔ واپس اپنے گاوٗں اور اس کے باسیوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ وہ لوگ اب بھی بقیہ دنیا سے سیکڑوں ہزاروں سال پیچھے ہیں ۔ اگرچہ شاہراہ ِریشم سے ہمارے علاقے میں انقلابی تبدیلی آئی ہے۔ بقیہ دنیا سے رابطہ پہلے کی نسبت کہیں آسان ہو گیا ہے۔ سڑک کے کنارے واقع گاوٗں ، قصبے اور شہر کچھ ترقی کر گئے ہیں۔ لوگ بھی قدرے خوشحال ہو گئے ہیں۔لیکن پہاڑوں پر واقع ہمارا گاوٗں اور اس جیسے بے شمار دوسرے گاوٗں اب بھی دئیے کی روشنی کے سہارے زندہ ہیں۔ وہاں نہ برقی روشنی اور نہ علم کی روشنی پہنچی ہے۔ اسپتال ، دوائیں اور ڈاکٹر کچھ بھی نہیں۔ سکول اب بھی بارہ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ لوگوں کا ذریعہ معاش اب بھی وہی بھیڑ بکریاں اور ٹوٹی پھوٹی کاشتکاری ہے۔ غربت، جہالت ، بیماریاں اور بے روزگاری لوگوں کی زندگی کا جزوِ لا ینفک ہیں ۔ نہ جانے کب ان کی زندگی بدلے گی! بدلے گی بھی یا نہیں‘‘
گل خان اپنی کہانی بیان کرتے کرتے جذباتی ہو گیا۔ اس کی آواز بھرا گئی۔ آنکھیں نم ہو گئیں۔ اس نے رومال سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔ میز پر رکھے پانی کے گلاس سے چند گھونٹ لئے اور اپنی کہانی کو جاری رکھا’’ معاف کرنا!میں جذبات کی رو میں بہہ گیا ۔دراصل انسان چاہے ترقی کے جتنے زینے طے کر لے، کہاں سے کہاں پہنچ جائے، وہ اپنی اصل سے کبھی منہ نہیں موڑ سکتا ۔ اپنی جائے پیدائش ، اپنی زمین اور اپنے لوگوں کو کبھی نہیں بھلا سکتا۔میں نے آج کی ترقی یا فتہ دنیا دیکھی ہے اور اپنے لوگوں کی کسمپرسی کو بھی اپنے آنکھوں سے دیکھا ہے۔ان کی بے بسی ، مجبوری اور لاچاری سے اچھی طرح واقف ہوں۔ ان کا خیال آتا تو میری طبیعت میں ایک ا ُبال سا آجاتا ہے۔ کاش کہ وہ بھی باقی دنیا کی مانند ایک اچھی، خوشحال اور پرسکون زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔
یقینِ محکم اور عملِ پیہم کی زندہ مثال
میں نے اسی گاوٗں میں آنکھ کھولی۔ بچپن اس کی گلیوں میں کھیلتے گزرا ۔ گیارہ سال کی عمر تک میرے مشاغل میں بکریاں چرانا، ایندھن کی لکڑیاں اکھٹا کرنا اور دکان میں اپنے بابا کی مدد کرنا شامل تھا۔ اس دوران بابا نے مجھے قرآن پاک پڑھنا سکھادیا تھا۔ علاوہ ازیں گنتی اور پہاڑے بھی یاد کروا د یئے۔ تھوڑی بہت اُردو بھی سکھا دی۔مجھے تھوڑا تھوڑا اُردو پڑھنا آیا تو میں نے بابا سے مزید کتابیں منگوالیں۔ یہ ابتدائی جماعتوں کی اور آسان کتابیں تھیں۔ جو میں نے اپنی کوششوں سے پڑھنا سیکھ لیں ۔ بابا کی اُردو اور عام تعلیم محدود تھی۔ مجھے اگر کوئی بات سمجھ نہیں آتی تو کبھی تو وہ مجھے سمجھا دیتے اور کبھی ان کے لئے بھی یہ مشکل مسئلہ بن جاتا۔ دراصل بابا نے اسکردو کے ایک دینی تعلیم کے ادارے میںتین سال گزارے تھے۔ ان تین سالوں میں انہوں نے قرآن پاک کے ساتھ ساتھ ابتدائی اُردو بھی سیکھ لی تھی ۔ بعد میںگاوٗں کے ماحول میں وہ اُردو بہتر ہونے کی بجائے مزید کمزور ہو گئی۔
بابانے جب دیکھا کہ مجھے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے تو انہوں نے مجھیلداخکے ایک اسکول میں داخل کروانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ فیصلہ اتنا آسان نہیں تھا ۔سب سے بڑی رکاوٹ ہماری روایتیں تھیں۔ گاوٗں کے اکثر لوگ اسے غیر ضروری قرار دیتے تھے ۔ دوسری مشکل معاشی تھی ۔دکان سے اور کاشتکاری سے ہماری اتنی آمدنی تھی کہ بمشکل دو وقت کا کھانا مہیا ہو تاتھا۔ ایسے میں دوسرے قصبے میں مجھے ٹھہرانے اور سکول کے اخراجات کہاں سے آتے۔ اللہ بھلا کرے، یہ مسئلہ بابا کے ایک دوست خان محمد نے حل کردیا۔ چاچا خان محمدلداخ میں رہتے تھے۔ بابا دکان کے لئے سودا سلف لانے جاتے تو چاچا خان محمد سے ملاقات ہوتی تھی۔ یہ ملاقاتیں دوستی میں تبدیل ہو گئیں۔ ان کی یہ دوستی میرے لئے نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوئی۔چا چا خان محمد نے نہ صرف مجھے اسکول میں داخل کروا یا بلکہ اپنے گھر میں رکھا۔
سکول کے ہیڈ ماسٹرنے میر ی عمر اور ابتدائی علم دیکھ کر مجھے براہ ِراست پانچویں میں داخل کر لیا۔ اگلے چھ سال میں نے لداخ میں چاچا خان محمد کے گھر میں گزارے اورمیڑک پاس کر لیا۔ چا چا خان محمد کا ایک بیٹا جہانداد خان تقریباً میرا ہم عمر تھا۔ اس نے میرے ساتھ آٹھویں تک پڑھا اور پھر اسکول چھوڑ دیا۔ میرے بابا کی طرح چا چا خان محمد کی بھی دکان تھی لیکن خاصی بڑی تھی۔ پرچون خریدنے والے گاہکوں کے علاوہ چھوٹے دکاندار بھی چا چا سے مال خرید تے تھے۔ چا چا روز مرہ ضرورت کی اشیاء کے علاوہ کپڑے اور جوتے بھی فروخت کرتا تھا۔ یہ اشیاء وہ اسکردو اور دوسرے مقامی علاقوں سے لاتا تھا۔ کبھی کبھار وہ راولپنڈی سے بھی مال لاتا تھا۔ میں اور جہانداد اسکول کے بعد دکان میں چاچا خان محمد کی مدد کرتے تھے۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ میں دکانداری کے امور سے بھی آشنا ہوتا چلاگیا۔ میڑک کرنے کے بعد بھی میری حصولِ تعلیم کی پیاس نہیں بجھی تھی۔ اب یہ مسئلہ آڑے آگیا کہلداخ میں ان دنوں کالج نہیں تھا۔
ایک مرتبہ چاچا خان محمدکپڑا خریدنے پنڈی جانے لگا تومیں نے اس کے ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی۔ اس نے کہا’’ بیٹا! یہ طویل اور دشوار گزارسفر ہے۔ جیپ اور پھر ٹرک کے ذریعے کئی دن کے سفر کے بعد پنڈی پہنچا جاتا ہے۔ یہ سفر مشکل اور تمھارے لئے غیر ضروری ہے‘‘
اس وقت میں نے اپنے دل میں چھپی خواہش چاچا پرظاہر کر دی ’’چاچا! اگر آپ اجازت دیں تو میں پنڈی جا کر نوکری کے لئے قسمت آزمائی کرنا چاہتا ہوں۔ اگر موقع ملا تو آگیپڑھائی بھی جاری رکھوں گا‘‘
چا چا نے میری طرف دیکھا اور کہا ’’مگر بیٹا! اس کی اجازت تو تمھیں اپنے بابا سے لینی چاہیے‘‘
’’ ان سے میں نے اجازت لے لی ہے۔ بابانے کہہ دیا ہے کہ مزید تعلیم اور اپنے بہتر مستقبل کے لئے تم جو کچھ بھی کرنا چاہو، کر سکتے ہو۔ ویسے بھی چا چا! میٹرک کرنے کے بعد میں اپنے گاوٗں یا یہاںلداخ میں کیا کروں گا ۔میںاسی لئے یہاں رُکا ہوا ہوں کہ موقع ملے تو کہیں اور جا کر کوشش کر سکوں‘‘
چا چا خان محمد جو مجھے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتا تھا، کہنے لگا’’ اگر یہ بات ہے تو میں تمھیں پنڈی ضرور لے کر جاوٗں گا۔ لیکن بیٹا پنڈی مہنگا شہر ہے او روہاں میری جان پہچان بھی کچھ زیادہ نہیں ہے ۔ تم وہاں جا کر رہوگے کہاں؟ اور نوکری نہ ملی تو خرچہ کہاں سے پورا کرو گے؟ ‘‘
میں نے کہا ’’چاچا! اللہ مالک ہے۔ اللہ نے اگر آپ کو وسیلہ بنایا ہے تو وہ آگے بھی کوئی وسیلہ ضرور بنائے گا‘‘
چاچا خان محمد میرے نزدیک آیا۔ میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولا’’ بیٹا! اگر تمھارا ارادہ اتنا پختہ اور خدا پر یقین اتنا کامل ہے تو میں کون ہوتا ہوں تمھیں روکنے والا۔ تم گاوٗں جا کر اپنے بابا اورا ماں سے مل کر آئو۔ اس کے بعد میں تمھیں پنڈی ضرور لے کر جاوٗں گا‘‘
چا چا کی ہدایت کے مطابق میں گاوٗں گیا۔ بابا اور ماں سے ملا اور ان کی اجازت لے کر واپس لداخ آگیا۔
چاچا پنڈی جانے کی اس طرح تیاری کر رہا تھا جیسے کوئی دوسرے دیس جاتا ہے۔ ان دنوں مخصوص قسم کی جیپیں اس راستے پر چل سکتی تھیں لیکن ان کا کرایہ ہمارے بس سے باہر تھا۔ اس لئے زیادہ تر سفر ہم نے گھوڑوں پر کیا۔ اس کے بعد مجبوراً جیپ اور آخر میں بس کا سہارا لینا پڑا ۔ جس نے تیسرے دن ہمیںپنڈی پہنچایا۔ پنڈی اور راستے میں آنے والے بڑے بڑے شہر دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ اچھے اچھے گھر، رنگ برنگی موٹر گاڑیاں ، چمکتی سڑکیں، بڑی بڑی دکانیں اور بے شمار لوگ دیکھ کر مجھے ایسے لگا کہ میں کسی نئی دنیا میں آگیا ہوں۔ پنڈی میں چاچا خان محمد راجہ بازار کی کچھ مخصوص دکانوں سے مال خریدتا تھا۔ ان میںسے کپڑے کی ایک بڑی دکان کے مالک صلاح الدین صاحب سے چا چا کی اچھی علیک سلیک تھی۔ چا چا نے صلاح الدین صاحب سے میرے متعلق بات کی۔ میری کہانی سن کر صلاح الدین صاحب خاصے متاثر ہوئے۔ دراصل وہ بہت خدا ترس انسان تھے۔ صلاح الدین صاحب نے مجھے اپنی دکان میں ملازمت دے دی اور اپنے چند دوسرے ملازموں کے ساتھ رہائش کا بندوبست بھی کر دیا۔
پنڈی کے علاقے ٹنچ بھاٹہ میں دو کمرے کے چھوٹے سے مکان میں شفٹ ہونے کے بعد میرے نئے سفر کا آغاز ہو گیا۔ پہلی تنخواہ ملتے ہی میں نے ایف اے کی کتابیں خرید لیں ۔ اگلے ہی مہینے میں نے گورڈن کالج میں داخلہ بھی لے لیا۔ صلاح الدین نے کمال شفقت سے میری ڈیوٹی کے اوقات اس طرح مقرر کئے کہ میں روزانہ کالج جانے کے قابل ہو گیا۔ کالج کے بعد دکان پر جاتا، رات گئے تک دکان پر کام کرتا، رات گھر جا کر پہلے کھانا کھاتا اور دیر تک پڑھائی کر تا رہتا۔ اس طرح زندگی کے شب و روز ماہ و سال میں تبدیل ہوتے چلے گئے ۔ چند سالوں میں میں نے بی اے اور پھر اکنامکس میں ایم اے کر لیا۔ اس دوران صلاح الدین صاحب میرے اوپر اتنا اعتماد کرنے لگے تھے کہ دکان میرے حوالے کر کے کہیں بھی چلے جاتے۔ میں نے نہ صرف دکانداری کے امور سیکھ لئے تھے بلکہ کاروبار کے باقی گر بھی جان گیا تھا۔ اب میر رول اس دکان کے عام ملازم کا نہیں بلکہ مینجر کا تھا۔
صلا ح الدین صاحب کی ایک ہی اولاد ان کی بیٹی تھی جو شادی کر کے اپنے میاں کے ساتھ سعودی عرب چلی گئی۔ صلاح الدین نے اب تک جو کچھ کمایا تھا وہ ان کی بقیہ زندگی کے لئے کافی تھا۔ اس لئے وہ دکان ختم کر کے ریٹائر منٹ کی زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ ان کی صحت بھی اب جواب دیتی جا رہی تھی۔ ان حالات میں کاروبار کو سنبھالنا ان کے لئے مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔ انہوں نے دکان بیچنے کا فیصلہ کیا تو سب سے بڑا دھچکا مجھے لگا ۔ اکنامکس میں ایم اے کرنے کے بعد بھی میں نے کسی اور نوکری کے لئے کبھی نہیں سوچا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ صلاح الدین صاحب کو میری ضرورت تھی اور میں انہیں اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی میرا رجحان ہمیشہ بزنس کی طرف ہی رہا ۔میں نے جب بھی اپنے مستقبل کے بارے میں سوچا تو اپنے کاروبار کے بارے میںہی سوچا۔ شاید اس وجہ سے کہ کاروبار میرے خون میں شامل تھا اور میری پرورش کا حصہ تھا۔
صلاح الدین صاحب کی نوکری چھوڑنے کے بعد میں نے اپنی دکان کھولنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے راجہ بازار میں ہی دکان کرائے پر لینے کی تگ و دو شروع کر دی۔ اس کے لئے میں نے کچھ بچت بھی کر رکھی تھی۔ مگرجب وقت آیا تو معلوم ہوا ہے کہ یہ رقم اس مقصد کے لئے ناکافی ہے۔ جتنی رقم میرے پاس تھی اس سے مضافاتی علاقوں میں تو کوئی دکان لی جا سکتی تھی لیکن راجہ بازار جیسے مہنگے کاروباری علاقے میں ایسا ممکن نہیں تھا۔ صلاح الدین صاحب میرے ارادے اور میری تگ و دو سے واقف تھے۔ ایک دن کہنے لگے’’ گل خان! تم دکان لینا چاہتے ہو اور میں بیچنا چاہتا ہوں۔ ادھر اُدھر جانے کی بجائے تم یہی دکان کیوں نہیں لے لیتے‘‘
میں نے کہا’’ میاں صاحب! یہ دکان لینا میرے بس سے باہر ہے ۔ میرے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے۔ میں چھوٹی اور نئی دکان ڈھونڈ رہا ہوں ۔ آ پ کی دکان بڑی اور چلتی ہوئی ہے۔ اس کی قیمت اورگُڈوِل کا مجھے اندازہ ہے۔ اس لئے میں نے اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچا‘‘
میاں صاحب نے کہا ’’گل خان! تم جانتے ہو کہ اس دکان کو نقد فروخت کرنا میرے لئے چنداںمشکل نہیں ہے لیکن اگر تم خرید و گے تو مجھے ایسا لگے گا کہ دکان میرے ہی پاس ہے۔ اس لئے میں نے سوچ لیا ہے کہ دکان تمھارے حوالے کر دوں گا۔ یہ چلتا ہوا منافع بخش کاروبار ہے۔ چند سالوں میں تھوڑی تھوڑی کر کے تم اس کی قیمت ادا کر دینا‘‘
صلاح الدین صاحب ایک نیک اور محبت کرنے والے انسان تھے، اس کا تو مجھے پہلے سے علم تھا ۔لیکن کاروباری آدمی ہونے کے باوجود اتنی دریا دلی کا مظاہرہ کریں گے، یہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آج کے نفسانفسی والے دور میں جہاں ایک بھائی دوسرے بھائی پر اعتماد نہیں کرتا ۔ اور اکثر ہم ایک دوسرے کے اعتبار پر پورے بھی نہیں اترتے ۔ اس دو ر میں ایسے انسان کم ملیں گے ۔میں اس مہربان صفت ا نسان اور ان کے اہل خانہ کے دل میں اپنے بارے میں بدگمانی کا شائبہ تک آنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ اس لئے میں نے انہیں تجویز پیش کی’’ میاں صاحب ! آپ میرے اوپر اتنا بڑا احسان کر رہے ہیں کہ میں ساری زندگی اس کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ کاروباری اصولوں سے ہٹ کر میرے ساتھ آپ کی خصوصی شفقت ہے۔ میں آپ کی پیشکش میں تھوڑی سی ترمیم کرنا چاہوں گا۔ ہم اس دکان کا آج کا مارکیٹ ریٹ طے کر لیتے ہیں۔ میں یہ رقم آپ کی آفر کے مطابق تھوڑی تھوڑی کر کے ادا کر دوں گا۔ جب تک یہ رقم مکمل طور پر ادا نہیں ہوتی،اس وقت تک میں اس کاروبار کے نصف کا مالک ہوں گا۔بقیہ نصف آپ کے نام پر رہے گا ۔ کاروبار کا پچاس فیصد منافع میںآپ کو ادا کرتا رہوں گا ۔ میرے قیمت ادا کرنے کے بعد آپ دکان میرے نام کر سکتے ہیں‘‘
صلاح الدین صاحب نے احتجاج کیا’’ لیکن بیٹا! میںپچا س فیصد منا فع کا حقدار نہیں ہوں کیونکہ دکان تو تم چلاوٗ گے‘‘
’’ میاں صاحب! یہ میر ی شرط ہے۔ اگر آپ کو منظور ہے تو میں دکان لوں گا ورنہ نہیں‘‘
بالآخر صلاح الدین صاحب کو میری شرط ماننی پڑی۔ اگلے تین سال میں میں نے صلاح الدین صاحب کو دکان کی پوریقیمت بمع پچاس فیصد منافع کے ادا کر دی۔ انہوں نے دکان میرے نام کردی۔ میں نے اس دکان کے اوپر دو منزلیں مزید تعمیر کروائیں۔ ایک فلور پر مردانہ، دوسرے پر زنانہ اور تیسرے پر بچوں کے ملبوسات سجائے گئے۔ پاکستانی کپڑے کے علاوہ میں نے درآمد شدہ ملبوسات بھی بیچنے شروع کر دیئے۔ میرے اسٹور پر آنے والے ہر فرد کے لئے اتنی ورائٹی موجود ہوتی کہ کوئی شخص خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔ ہر قیمت اور ہر کوالٹی کا لباس وہاں موجود تھا۔ آہستہ آہستہ یہ دکان مشہور ہوتی چلی گئی ۔صبح سے لیکر رات گئے تک لوگوں کا تانتا بندھا رہتا۔ میر اکام دکان کے ملازمین کو کنڑول کرنا اور اشیائے فروخت کا مناسب اسٹاک جمع رکھنا تھا۔ اس سلسلے میں میں کراچی اور لاہور تو اکثر جاتا ہی رہتا تھا ، گاہے گاہے یورپ بھی جانا شروع کر دیا۔ وہاںسے جدید ترین فیشن کے ملبوسات خرید کر نہ صرف میں اپنے اسٹور پر رکھتابلکہ شہر کے دیگر کئی دکانداروں کو بھی سپلائی کرتا ۔
اب میں نہ صرف یورپ سے ملبوسات درآمد کرتا تھا بلکہ پاکستانی ملبوسات کو ان ممالک میں برآمد بھی کرنے لگا۔میں جب بھی یورپ جاتا تو یہ محسوس کرتا کہ وہاں کاروبار کی بہت گنجائش ہے۔ یورپ کے لوگوں کا طرزِ زندگی اس طرح کا ہے کہ وہ کاروبار کے لئے زیادہ وقت نہیں نکال پاتے۔ ایمسٹرڈم میں پنڈی کے میرے چند دوست موجود تھے۔ شروع میں ان کی وجہ سے میں نے یہاں کا رخ کیا تھا۔ پھر جب درآمد برآمد کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا تو میں نے یہاں اپنا آفس ، اپنا ویئر ہا وٗس اور اپنے نمائندے تعینات کر دیئے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ میں خود یہاں شفٹ ہو گیا ۔ شروع میں چند سال ملبوسات کی درآمد اور برآمد کا کاروبار جاری رکھا ۔پھر ایک بڑے شاپنگ چین میں پارٹنر شپ کر لی۔ اب یہ شاپنگ چین سو فیصد میرے پاس ہے ۔ اس کا سلسلہ نہ صرف پورے ہالینڈ میں بلکہ جرمنی، فرانس اور سوئٹزر لینڈ تک پھیلا ہواہے۔ یہ سب ا للہ کا کرم اور والدین کی دعائوں کا نتیجہ ہے۔ میں اپنے گائوں کے لئے جو کچھ کر سکتا تھا ،وہ کیا ہے۔ میرے گائوں میں ایک ڈسپنسری اور سکول میرے خرچ پر چل رہا ہے۔ لیکن یہ ناکافی ہے۔ ابھی تک وہاں کوئی سڑک نہیں بنی۔ علاوہ ازیں یہ صرف میرے گائوں کے مسائل نہیں ہیں، اس علاقے میں ایسے بے شمار گائوں ہیں جو ان مسائل سے دوچار ہیں ‘‘
آسٹریلیا بر اعظم ا فریقہ کا کوئی ملک ہے کیا؟
رات گیارہ بجے اظہر نے مجھے ہوٹل ڈراپ کیا۔ اس وقت بھی دن کی روشنی باقی تھی۔ یورپ میں سورج ڈوب جانے کے بعد بھی کافی دیر تک اس کی روشنی باقی رہتی ہے۔ اظہر نے بہت تپاک سے الوداعی معانقہ کیا ۔ میں اسے خدا حافظ کہہ کر ہوٹل میں داخل ہو گیا۔ آج ہمارے گروپ ٹور کی آخری رات تھی ۔ مجھے یقین تھا کہ گروپ کے لوگ بار میں بیٹھے الوداعی ڈرنک پی رہے ہوں گے۔ میں بار میں پہنچا تو توقع کے مطابق تقریباً سارے سیاح وہاں موجود تھے۔ مجھے دیکھا تو جسٹن نے نعرہ لگایا۔ دوسرے بھی میری طرف دیکھ رہے تھے۔ جسٹن اور جوزی کے ساتھ فرینک ، مسز فرینک ، جولی، جان اور خلاف توقع ہماری گائیڈ مولی بھی بیٹھی تھی۔ دوسروں کو ہیلو ہائے کہتا میں جسٹن اور جوزی کے ٹیبل پر جا بیٹھا ۔ جوزی نے حسبِ معمول ہنستے ہوئے کہا ’’کہا ںرہے ناٹی بوائے! تمھیں تو دو تین دن سے دیکھا ہی نہیں۔ لگتا ہے ہالینڈ میںتمھارے بہت سارے دوست ہیں‘‘
جولی نے کہا’’ ہاں! طارق کو نئے دوست بنانے کا شوق ہے۔ ایسے میں پرانے دوستوں کے لئے وقت نکالنا مشکل ہو ہی جاتا ہے‘‘
میں نے کہا’’ ایسی بات نہیں ہے ۔ ہم لوگ تو اکھٹے ہی ہیں لیکن ایمسڑڈم اور ان لوگوں سے پھر جانے کب ملنا ہو۔ ویسے بھی سیاح نئی جگہوں اور نئے لوگوں سے ملتے رہیں تو سیاحت کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اسی میں سفر کا حسن ہے‘‘
جوزی نے شرارت سے کہا’’ حسن تو تمھارے اردگرد بھی موجود ہے، اتنی تلاش کی کیا ضرورت ہے‘‘
جوزی کا اشارہ جولی کی جانب تھا۔
’’ سفر میں ہر قدم اور ہر مقام پر ایک سے ایک حسین اور دلکش مقام آتاہے۔ ہم اس سے آنکھیں پھیر تو نہیں سکتے ‘‘میںنے بات بدلتے ہوئے کہا’’ ہاں تم اور جسٹن آپس میں اتنے گم رہتے ہو کہ ادھر اُدھر دیکھنے کے لئے تمھارے پاس فرصت نہیں‘‘
جسٹن جو لگتا تھا کہ اس وقت تک خاصا ڈرنک ہو چکا تھا، اس نے اٹھ کر جوزی کو گلے لگا لیا اور اُسے چومنا شروع کر دیا۔ کہنے لگا’’ میرے لئے تو ساری خوبصورتیاں اور سارے جہاں کا حسن جوزی کے بدن، اس کے ہونٹوں ، اسکے گالوں اور اس کی آنکھوں میں ہے۔ مجھے کہیں اور دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘
میں نے ادھر اُدھر دیکھا تو جانجی اور مشی کونے کی ایک میز پر بیٹھے جسٹن اور جوزی والا سین دُہرا رہے تھے۔ جوزی نے جسٹن کا گرمجوشی سے ساتھ دیا۔ تھوڑی دیرتک وہ خواب گاہ والے مناظر کی ریہرسل کرتے رہے۔ پھر انہوں نے اٹھ کر ناچنا شروع کر دیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو ایسے چمٹایا ہوا تھا کہ یک جان و دو قالب ہو گئے تھے۔ بدن کے ساتھ بدن اور گال کے ساتھ گال چِپکیتھے۔ وہ ہم سب کو بھی ساتھ دینے کے لئے کہہ رہے تھے۔ کوئی اور نہیں اٹھا ، خلافِ توقع جانحی اور مشی اٹھ کر ان کا ساتھ دینے لگے۔ یہ دونوں جوڑے ناچنے پر کم اوراپنے پارٹنرز پر زیادہ توجہ دے رہے تھے۔
اچانک ایک میز سے ڈاکٹر رمیش اور اس کی بیوی اٹھے۔ وہ بھی ان کے ساتھ آکر ناچنے لگے۔ ڈاکڑ رمیش کے ساتھ بچے بھی تھے، اس لئے وہ رات کو ہمارے ساتھ کم ہی بیٹھتے تھے۔ آج آخری رات وہ بچوں کو کمرے میں چھوڑ کر ہمارے ساتھ موجود تھے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے دوسرے کئی جوڑے ڈانسنگ فلور پر محو ِرقص ہو گئے ۔ بار مین نے موسیقی کی لے تیز کر دی اور رنگ برنگی جلنیبجھنے والی روشنیاں آن کر دیں۔ تمام جوڑے اپنے اپنے انداز میں محوِ رقص تھے۔ کسی کے قدم موسیقی کی لے کے مطابق نہیں تھے سوائے ڈاکٹر رمیش اور اس کی بیوی کے۔ ڈاکٹر رمیش اور اس کی بیوی جوان تھے۔ خصوصاً مسز رمیش پتلی کمر اور نازک جسم کی مالک تھی۔ دوسروں کے برعکس اس جوڑے نے ایک دوسرے کو چمٹایا ہوا نہیں تھا بلکہ ایک دوسرے کے سامنے قدم سے قدم ملا کر اور تال سے تال ملا کر اس طرح رقص کر رہے تھے کہ ایک خاص رِدم سا پیدا ہو گیا۔ انہیں دیکھ کر باقی جوڑے سست پڑ گئے اور بالآخر کھڑے ہو کر انہیں دیکھنے لگے۔ ڈاکڑ رمیش اور مسز رمیش نے بھی محسوس کر لیا کہ وہ اس وقتسارے ہال کی نگاہوں کا مرکز ہیں، اس لئے ان کے رقص میں تیزی آتی چلی گئی۔ وہ آنکھوں میں آنکھوں ڈالے تیز موسیقی کی لے پر اس طرح تھرک رہے تھے کہ ان کی ٹانگیں بجلی کر طرح حرکت کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر رمیش نے اپنی بیوی کی نازک کمر پر ہاتھ رکھا ہوا تھا جبکہ مسز رمیش نے رمیش کے کندھے پر ہاتھ جمایا ہوا تھا۔
کافی دیر تک یہ ماہر رقص جوڑا اپنے فن کا مظاہرہ کر تا رہا۔ باقی لوگ مبہوت ہو کر محوِ تماشا بنے رہے۔ جب وہ رُکے تو ہال تالیوں سے گونج اُٹھا ۔ میں اپنی سیٹ سے اٹھا، ڈاکٹر رمیش سے ہاتھ ملایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی میز پر لے آیا ۔ پانڈے اور اس کی بیوی بھی ایک میز پر بیٹھے ہوئے تھے۔میں انہیں بھی وہیں لے آیا۔ سوئٹزرلینڈ کے ہوٹل میں ہماری تلخ بحث کے بعد ڈاکٹر رمیش اور خصوصاً پانڈے مجھ سے کھینچے کھنچے رہتے تھے۔ میں نے کہا’’ مولی! سوئٹزرلینڈ میں اس دن تم نے ایسا موضوع چھیڑدیا تھا کہ ہمارے درمیان تلخی سی آگئی تھی۔ آج پھر تم ہمارے درمیان موجود ہو ۔سفر کے اس اختتام پر میں نہیں چاہتا کہ ہمارے دِلوں میں کوئی میل باقی رہے۔ یہ سفر رنگوں، روشنیوں ، خوبصورتیوں اور محبتوں سے عبارت ہے۔ اس کے ماتھے پر نفرت کا ہلکا سا داغ بھی باقی نہیں رہنا چاہیے۔ سیاست کی باتیں اہل ِسیاست پر چھوڑتے ہیں۔ ہمارا کام محبت کو عام کر نا ہے ۔ اس محبت کا پیغام میں باقی سب ساتھیوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رمیش اور مسٹر پانڈے کو بھی دیتا ہوں اور ان سے بھی کہتا ہوں کہ اپنے دل میں کوئی رنجش لے کر امریکہ نہ لوٹیں، بلکہ اچھی یادیں لے کر جائیں‘‘
پانڈے کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیا۔ اس کے چہرے سے خشونت غائب گئی اور اس کی جگہ نرمی سی پھیل گئی۔ اس کی آنکھیں بھی نم سی نظر آنے لگیں۔ اچانک اس نے اٹھ کر مجھے گلے لگا لیا اور اُردو میںبولا’’ آف کورس ! ہم اچھے دوست ہیں ۔ کوئی غلط فہمی نہیں ہے اور میر ا دل بالکل صاف ہے‘‘
اس کی دیکھا دیکھی ڈاکٹر رمیش بھی اُٹھ کر گلے ملا’’ آئی ایم سوری! میرا اُردو اچھا نہیں۔ اینی وے وی آر فرینڈ اگین‘‘
مولی اور دوسرے ساتھیوں نے تالیاں بجا کر ہماری صلح کی داد دی۔ صلح کی خوشی میں ایک ایک ڈرنک سب کے لئے منگایا گیا۔ مولی نے کہا’’ یہ ڈرنک میری طرف سے ہے۔ آج آپ لوگوں کے سفر کی آخری رات ہے، اسے خوب انجوائے کریں۔ ہم میں سے زیادہ تر ایک دوسرے سے دوبارہ شاید نہ مل پائیں، اس لئے اس رات کو یادگار بناتے ہیں۔ میں بہت عرصے سے ٹور گائیڈ کا کام کر رہی ہوں۔ کسی بھی گروپ یا اس کے کسی ایک فرد سے میری کبھی اتنی وابستگی نہیں ہوئی جتنی آپ لوگوں سے ہوئی ہے۔ آپ لوگوں سے بچھڑنے کا مجھے بھی دکھ ہو گا ۔ خوشی اس بات کی ہے کہ یہ سفر انتہائی خوشگوار ماحول میں گزرا۔ اس کی وجہ آپ لوگ ہیں ۔آپ سب اتنے اچھے، ملنسار اور خوشگوار طبیعت کے مالک ہیں کہ اس سفر کا لمحہ لمحہ ایک یادگار بن گیا ہے ۔مجھے امید ہے کہ آپ سب بھی اس سفر سے لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ ہماری کمپنی کے بے شمار ٹور پیکج ہیں جو سال کے بارہ ماہ جاری رہتے ہیں۔ آئندہ بھی اگر سیرو سیاحت کا ارادہ ہو توٹریفالگر کو یاد رکھئے ۔ دوسری دفعہ ٹور پر آنے والے سیاحوں کو ہماری کمپنی دس فیصد کی رعایت دیتی ہے‘‘
مولی نے الوداعی تقریر میں کمپنی کی مشہوری کا فریضہ بھی ادا کر دیا تھا۔ جسٹن جو کافی دیر سے خاموش بیٹھا تھا،چپ نہ رہ سکا ’’مولی ہم نے آسٹریلیا سے آکر یورپ کی سیر کر لی، اب تمھاری باری ہے۔ تم آسٹریلیا آوٗ ،ہم تمھیں وہاں کی سیر کرائیں گے‘‘
مولی نے کنکھیوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا’’ جسٹن ! آسٹریلیا سے تم اکیلے نہیں آئے ہو۔ کسی اور نے تومجھے یہ دعوت نہیں دی۔ ویسے میںآسٹریلیا کبھی نہیں گئی۔ میری خواہش بھی ہے وہاں جانے کی ۔ دیکھئے کب جانا ہوتا ہے‘‘
میں نے کہا’’ جب خواہش ہے تو اتنا سوچنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں اور جسٹن تمھیں سڈنی اور اس کے نواح کی سیر کروادیں گے۔ جان ملبورن میں رہتا ہے، وہ تمھیں ملبورن دکھا دے گا۔ کوئنز لینڈ اکیلی چلی جانا۔ وہاں کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں، تمھارا پورا خیال رکھیں گے‘‘
مولی نے ہنستے ہوئے کہا’’ یہ تو زیادتی ہے۔ میں نے تم لوگوں کو آدھا یورپ دکھا دیا اور آپ صرف اپنا شہر دکھا کر مجھے اکیلا چھوڑدیں گے‘‘
میں نے کہا’’ مولی! تم شاید آسٹریلیا کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی۔ آسٹریلیا یورپ کی طرح نہیں ہے۔ ہمارے شہر اور ریاستیں ایک دوسرے سے اتنے فاصلے پر ہیں کہ جیسے ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانا پڑ جائے ۔ پرتھ کو ہی لے لو۔ سڈنی سے ہوائی جہاز پر چار پانچگھنٹے لگ جا تے ہیں ۔ کینز جو کوئنز لینڈ کا مشہور تفریحی مقام ہے سڈنی سے چار گھنٹے کے ہوائی سفر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس لئے ہم میں سے زیادہ تر نے پور ا آسٹریلیا نہیں دیکھ رکھا ہے۔ اس کے مقابلے میں یورپ کے ممالک ایک دوسرے سے اتنے جڑے ہوئے ہیں کہ ایک ملک کے دارلحکومت سے پتھر پھینکیں تو دوسرے ملک کے دارلحکومت تک پہنچ جاتا ہے۔ صبح نکلو تو پانچ چھ ملکوں کی سیر کر کے شام کو گھر واپس آجاوٗ‘‘
ڈاکٹر رمیش نے کہا’’ یہی حال امریکہ کا ہے۔ اتنا بڑا ملک ہے کہ کسی بھی سیاح کے لئے پورا امریکہ دیکھنا تقریباً نا ممکن ہے۔ خودبے شمار امریکن ایسے ہوں گے جو امریکہ کی باون ریاستوں میں نہیں گئے ۔ جو لوگ امریکہ کے ایک سرے میں پیدا ہوئے ہیں انہیں دوسرے سرے پر واقع ریاستوں کا علم بھی نہیں ہے‘‘
میں نے کہا’’ امریکنوں کو اپنے ملک کے بارے میں تو شاید علم ہو لیکن امریکہ سے باہر کے ممالک کے بارے میں ان کا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ میرے ایک آسٹریلین دوست لا س اینجلس اولمپک کے دوران اپنے اخبار کی کوریج کے لئے وہاں گئے ۔ ایک رات جب وہ دوسرے صحافیوں کے ساتھ ایک ہوٹل میں بیٹھے تھے تو ان کے ایک امریکن کولیگ نے ان سے پوچھا’’ تم امریکہ کی کس ریاست سے آئے ہوکیونکہ تمھارا تلفظ مختلف ہے‘‘
میرے آسٹریلین دوست نے کہا’’ میں امریکن نہیں ہوں بلکہ آسٹریلیا سے آیا ہوں‘‘
ان کے امریکن ساتھی نے کہا’’ آسٹریلیا بر اعظم ا فریقہ کا کوئی ملک ہے کیا؟ ‘‘
’’نہیں! آسٹریلیا بذاتِ خود براعظم ہے اوربہت بڑا ملک ہے ‘‘
امریکن نے پوچھا ’’لیکن یہ کہاں واقع ہے؟‘‘
میرے دوست نے کہا’’ آپ اگر آسٹریلیا کے بارے میں نہیں جانتے تو اس کا حدود اربعہ کیا سمجھیں گے۔ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں اگلی اولمپک گیمز ہوں گی‘‘
امریکن صاحب بولے’’ اوہ اچھا! جہاں کینگرو ہوتے ہیں۔ سڈنی کا نام میں نے سنا ہے لیکن آج پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ وہ آسٹریلیا میں ہے‘‘
پانڈے نے بتایا’’ دراصل اس میں امریکنوں کا اتنا قصور نہیں ہے۔ وہاں کا میڈیا بین الاقوامی خبریں اور حالاتِ حاضرہ بالکل نہیں دکھاتا۔ امریکہ سے باہر بڑے سے بڑا واقعہ ہو جائے میڈیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ اخبارات اور ٹی وی صرف امریکہ کے اندر کی خبریں دکھاتے ہیں۔ اس طرح عام امریکن امریکہ سے باہر کے حالات و واقعات جان ہی نہیں پاتا‘‘
میں نے کہا’’ یہ شکایت تو ہمیں اپنے آسٹریلین میڈیا سے بھی ہے۔ ایک تو وہاں ٹی وی چینل بہت زیادہ نہیں ہیں جو ہیں وہ بھی زیادہ تر مقامی خبروں تک محدود رہتے ہیں۔ اخبارات کا دائرہ بھی اپنے اپنے شہروں اور آسٹریلیا کے مقامی حالات تک محدود رہتا ہے۔ سوائے ایس بی ایس ٹی وی اور ریڈیو کے جو بین الاقوامی خبریں اور حالات کسی حد تک سناتے اور دکھاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میںمیں جب پاکستان میں رہتا تھا تو مجھے یاد ہے کہ ٹی وی اور اخبارات باقاعدگی سے بین الاقوامی خبریں اور حالاتِ حاضرہ دکھاتے اور شائع کرتے تھے۔ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امریکہ یا آسٹریلیا کے عوام کو باہر کی خبروں سے اتنی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ اس لئے انہیں وہی کچھ مہیا کیا جاتا ہے جو وہ پڑھنا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اور بھارت کے عوام رہتے اپنے اپنے ملکوں میں ہیں لیکن وہ یورپ ، امریکہ اور آسٹریلیا کے بارے میں اتنا جانتے ہیں کہ شاید مقامی لوگوں کو بھی اتنا علم نہ ہو۔ اس کی مثال میں اس طرح دیتا ہوں کہ آسٹریلیا جانے سے پہلے بھی مجھے علم تھا کے آسٹریلیا کے امیر ترین آدمی کا نام کیری پیکر ہے۔ وہ سڈنی میں رہتا ہے۔ وہ چینل نائن کا مالک ہے اور کھیلوں کا شوقین ہے۔ اس کے علاوہ آسٹریلیا کے مختلف شہروں کے بارے میں مجھے اچھی خاصی معلومات تھیں‘‘
مسز مارگریٹ جو تھوڑی دیر پہلے آکر ہمارے ساتھ بیٹھی تھیں، کہنے لگیں’’ پاکستان اور بھارت کے لوگوں کو آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بارے میں اتنا علم ہے کہ مجھے حیرانی ہو تی ہے۔ میں پاکستان اور ہندوستان کئی دفعہ گئی ہوں اور بہت سے لوگوں سے ملاقات رہی ۔ کرکٹ میر ا سب سے بڑا شوق ہے اور اس کے لئے میں نے لمبا عرصہ گھر سے باہر کرکٹ ٹیم کے ساتھ گزارا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے لوگوں سے جب میری ملاقات ہوتی ہے تو وہ کرکٹ اور کرکٹ کے پرانے کھلاڑیوں کے بارے میں ایسی ایسیباتیں بتاتے ہیںکہ میں دنگ رہ جاتی ہوں۔ وہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے پرانے کھلاڑیوں ، ان کے ریکارڈز اور دیگر معلومات ایسے بتاتے ہیں جیسے یہ سب کچھ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہو۔ اس کے مقابلے میں ہمارے نیوزی لینڈ کے عا م لوگ اپنے سپر سٹارزسے بھی اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ دوسرے ممالک اور ان کے سٹار کھلاڑیوں کے بارے میں جاننا تو بہت دور کی بات ہے۔ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ پاکستان اور بھارت کے اخبارات بین الاقوامی خبروں کی بہت اچھی کوریج دیتے ہیں۔ میں جب پاکستان اور انڈیا میں ہوتی تھی تو نیوزی لینڈ کی اہم خبریں باقاعدگی سے پڑھتی تھی ‘‘
ڈاکڑ رمیش نے کہا’’ اب حالات بدل رہے ہیں۔ اب مقامی اخبارات اگر بین الاقوامی خبریں شائع نہ کریں تو ہم انٹر نیٹ سے انڈیا کے اخبارات پڑھ لیتے ہیں۔ اس طرح اخبارات کی کمی محسوس نہیں ہوتی‘‘ میں نے کہا’’یہ بات کسی حد تک درست ہے۔ لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ امریکہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے عام لوگ تو ان خبروں سے مستفید نہیں ہوتے۔ وہ مختلف ممالک کی ویب سائٹ پر جا کر ان کے اخبارات پڑھنے سے تو رہے ۔ یہی خبریں ان کے اپنے اخبارات اور ٹی وی پر نظر آئیں تو وہ ان سے ضرور فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ آج کے دور میں جب دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر تی جارہی ہے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے اپنے علاقوں سے باہر نکل کر پوری دنیا کے حالات و واقعات سے باخبر رہیں ۔ اس طرح اگرضرورت پڑے تو ان ممالک کے لوگوں کی مددبھی کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو دنیا ایک عالمگیر برادری کی شکل اختیار کر لے گی۔ دنیا کے ایک خطے کے لوگ دوسرے خطے کے حالات واقعات سے واقف ہو کر ان کے درد آشنا بن سکتے ہیں۔ اگر کوئی ملک دوسرے ملک پر زیادتی کرے تو پوری دنیا اس پر اخلاقی اور معاشی دباوٗ ڈال کر اسے اس کام سے باز رکھ سکتی ہے۔ بنیادی مسئلہ بین الاقوامی حالات سے مکمل واقفیت کا ہے ۔ اس کی سب سے زیادہ ضرورت امریکہ ، یورپ ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے عوام کو ہے کیونکہ ان ملکوں کے بہت سے لوگ دوسرے کئی ملکوں کے نام تک نہیں جانتے‘‘
جب ہم گفتگو کر رہے تھے تو دوسری میزوں پر براجمان ہمارے زیادہ تر ساتھی بھی اٹھ کر ہماری میز کے اردگر د بیٹھ گئے تھے۔ رات کا ایک بجنے کو تھالیکن کسی کا سونے کا موڈ نہیں تھا۔ سبھی کو ایک دوسرے سے بچھڑنے کا غم تھا۔ وہ اس آخری رات کے زیادہ سے زیادہ لمحات اکھٹے گزارنے کے خواہشمند تھے۔ سائوتھ افریقن بوڑھا باب جو اکثر الگ تھلگ رہتا تھا آج وہ بھی ہمارے پاس بیٹھا تھا۔اس نے گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے کہا’’ یہ مسئلہ صرف امریکہ ،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈتک محدود نہیں ،ساوٗتھ افریقہ میں بھی میڈیا کا رویہ اس سے ملتا جلتا ہی ہے۔ بقیہ دنیا اوران کے اہم مسائل سے ہمارے عوام زیادہ باخبر نہیں ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازعے کی سب سے بڑی وجہ یعنی مسئلہ کشمیر سے میں بالکل بے خبر تھا ۔میں یہ تو جانتا تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان چپقلش جاری رہتی ہے لیکن اس کی اصل وجہ اس دن آپ لوگوں کی بحث سے معلوم ہوئی ۔ اگر اس عمر میں مجھے علم نہیں تھا تو نئی نسل تو ان بین الاقوامی مسائل سے بالکل لاعلم ہے‘‘
شاید یہ دُنیا ہی چھوڑنی پڑے
جولی جو اس سنجیدہ گفتگو سے کچھ بور سی ہونے لگی تھی، کہنے لگی’’ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہم لوگ اس مقولے پر عمل کرتے ہیں’’ نو نیوز از گڈ نیوز ‘‘۔جس طرح بے خبری بری ہے اسی طرح زیادہ باخبری بھی اچھی نہیں۔ دنیا میں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ آدمی اگر ہر ایک کے غم میں گھلنا شروع ہو جائے تو اس کی زندگی تو غموں سے عبارت ہو کر رہ جائے۔ یہ سنجیدہ گفتگو بہت ہو گئی ،اب موضوع تبدیل کرنا چاہئے۔ مولی سے پوچھنا چاہیے کہ ہمارے گروپ میں کیا خاص بات ہے کہ ہم تمھارے لئے ناقابل فراموش بن گئے ہیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ دوسرے گروپ اور اس میں شامل افراد بھی ہماری طرح ہی ہوں گے۔پھر ان میں اور ہم میںکیا فرق ہے کہ تمھیں ہمارے بچھڑنے کا اتنا دُکھ ہو رہا ہے‘‘
جولی کے سوال میں پوشیدہ طنز کو سمجھنا میرے اور مولی کے لئے مشکل نہیں تھا۔ باقی سیاح اسے ایک عام سوال ہی سمجھے۔ مولی گھاٹ گھاٹ کا پانی پئے ہوئے تھی۔ اس نے بلا تامل جواب دیا’’ ایک گائیڈ کی حیثیت سے سیاحوں کے تمام گروپ میرے لئے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ گائیڈ کی حیثیت سے ناپسندیدگی کے اظہار سے میں گریز کرتی ہوں۔ احترام اور عزت سب کی کرتی ہوں۔ تا ہم کسی گروپ میں ایک یا ایک سے زیادہ افراد کو اگر پسند کرتی ہوں تو اس کے اظہار میں مجھے کوئی جھجھک نہیں ہے ۔ آپ کے گروپ میں بھی ایسے ا فراد ہیںجنہیں میں دوست کی حیثیت سے پسند کرنے لگی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اس گروپ سے میری وابستگی معمول سے ہٹ کر اور زیادہ ہوگئی ہے اور آپ لوگوں سے بچھڑنے کا دکھ بھی ہو گا ۔لیکن یہ زندگی ہے۔ اس میں یہ سب چلتا رہتا ہے‘‘
مولی کے بھرپور جواب سے جولی کو مزید سوال کرنے کی ہمت نہیں ہوئی لیکن مولی کے لئے اس کے دل میں جو گرہ پڑی تھی وہ ختم نہیں ہوئی۔ جسٹن جو ہنسنے اور ہنسانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا تھا، کہنے لگا ’’لگتا ہے مولی مجھے پسند کرنے لگی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کے اظہار کے لئے یہ آخری موقع ہے۔ اسے ضائع نہ کرو اور مجھے بتا دو ۔کم از کم ایک رات تو اکھٹے گزار سکیں گے‘‘
سب مسکرانے لگے۔ مولی نے کہا ’’پہلے جوزی سے پوچھ لو! اگر وہ اجازت دیتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘
’’ اگر جسٹن کو میرے ہاتھوں مرنے کا شوق ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے‘‘ جوزی نے مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا
جسٹن بولا ’’مولی میر ی جان! یہ ظالم زمانہ ہمیں ملنے نہیں دے گا ۔تم اپنے کمرے میں جا کر غمگین گیت سن کر میری کمی پوری کرنے کی کوشش کرنا اور میں بھی رات بھر ٹھنڈی آہیں بھرتا رہوں گا‘‘
جوزی نے ہاتھ اٹھا کر کہا’’ تم کمرے میں چلو تو سہی، میں تمھاری سانسیں ہی بند کردوںگی۔ پھر نہ ٹھنڈی نہ گرم، سانس لینے کے قابل ہی نہیں رہو گے ‘‘
میں نے روئے سخن مارگریٹ کی طرف کرتے ہوئے کہا’’ مارگریٹ اس گروپ میں باب کی طرح تمھارے کئی ہم عمر اولڈ بوائے ہیں۔ تم نے اب تک ان میں سے کسی کو پسند نہیں کیا؟‘‘
مارگریٹ نے ہنستے ہوئے کہا’’ باب اولڈ بوائے ہو سکتا ہے میں تو صرف گرل ہوں۔ ویسے تو تم بھی اکیلے ہو، میرے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ‘‘
’’خیال بہت نیک ہے۔ میں تمھیں اکیلا دیکھتا ہوں تو میرا دل کڑھتا ہے۔ میں اپنے ہاتھوں سے تمھارے ہاتھ پیلے کرنا چاہتا ہوں اگر تم اجازت دو آنٹی!‘‘
’’ آنٹی! یہ آنٹی کون ہے ؟ مسز مارگریٹ نے اپنے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا ’’میں تمھیں پروپوز کر رہی ہوں او رتم مجھے آنٹی کہہ رہے ہو ۔ تم ذرا بھی رومانٹک نہیں ہو طارق‘‘
’’ تم نے نوٹ نہیں کیا !جب تم مجھے پروپوز کر رہی تھیں تو باب کے سینے پر چھریاں چل رہی تھیں۔ کیوں ایک بے گناہ کے خون سے ہاتھ رنگنا چاہتی ہو۔ یہ سفر ختم ہونے سے پہلے تم باب کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کیوں نہیں کر دیتیں‘‘
باب فوراََبولا’’ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اگر مارگریٹ ہاں کر دے تو میں سائوتھ افریقہ چھوڑ کر نیوزی لینڈ آکر رہنے کے لئے تیار ہوں۔ ویسے میں اتنا بوڑھا میں بھی نہیں ہوں۔ مارگریٹ اگر تم خود کو گر ل سمجھتی ہے تو میں خود کو ٹین ایجر محسوس کرتا ہوں۔ اگر کوئی شک ہے تو آج کی رات آزما کر دیکھ لو‘‘
مارگریٹ نے ہنستے ہوئے کہا ’’میرے پاس کسی کی تجہیز و تکفین کے لئے پیسے نہیں ہیں اس لئے میں تمھیں آزمانے کا رسک نہیں لے سکتی‘‘
جسٹن نے کہا’’ مارگریٹ تم باب کے ساتھ زیادتی کر رہی ہو۔وہ تمہارے لئے اپنا ملک تک چھوڑنے کے لئے تیار ہے اور تم ہو کہ اس کی قدر ہی نہیں کر رہیں۔ ویسے باب تم واقعی مارگریٹ کے لئے ساوٗتھ افریقہ چھوڑ سکتے ہو؟‘‘
باب اس دفعہ بولا تو قدرے غمگین سا تھا’’ میں اگر سائوتھ ا فریقہ میں رہا تو شاید یہ دنیا ہی چھوڑنی پڑے۔ اس سے تو بہتر ہے کہ ملک چھوڑ کر کہیں اور جا بسوں۔شاید چند سال اور جینے کے لئے مل جائیں۔ اگر مارگریٹجیسی ساتھی ہو تو یہ چند سال خوشگوار بھی گزر سکتے ہیں‘‘
لگتا تھا کہ ہمارے مذاق میں باب سنجیدہ ہو گیا تھا۔ مارگریٹ سے اسے دلچسپی ہو یا نہ ہو لیکن ایک بات یقینی تھی کہ وہ اپنی اولاد کے ہاتھوں بہت دُکھی تھا۔ اس نے ایک روز مجھے بتایا تھا کہ اس کے بیٹے اس کے مرنے کا ایسے انتظار کر رہے ہیں جیسے گدھ قریب المرگ جانور کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ اسے اندیشہ تھا کہ بیٹے اپنے ہاتھوں اسے موت کے منہ میں دھکیل سکتے ہیں۔انہیں اپنے بوڑھے باپ سے زیادہ اس کی دولت سے دلچسپی تھی۔ یہ دولت انہیں اس وقت تک نہیں مل سکتی تھی جب تک ان کا باپ حیات تھا۔ اسی لئے وہ جلد از جلد باپ کا جنازہ اٹھتادیکھناچاہتے تھے۔ باپ کو بھی بیٹوں اور بہووٗں کی نیت کا علم تھا۔ وہ اپنی محنت کی کمائی ان سنپولیوں کو دینے کی بجائے خو دپر خرچ کر کے مرنا چاہتا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ بیٹے اگر اس کی ذرہ سی بھی قدر کرتے، اس کی خبر گیری رکھتے اور سب سے بڑھ کر اسے اپنا باپ سمجھتے تو وہ سب کچھ خوشی سے ان کے حوالے کر دیتا۔ لیکن جس طرح وہ اولاد کے بجائے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ اس حالت میں انہیں اپنی جائیداد اور روپیہ پیسہ دینا مجھے ہرگز گوارا نہیں ہے۔ میں یہ جائیداد اپنی چھٹیوں، تفریحات اور دیگر مشاغل پرخرچ کر کے مروں گا۔ اگر پھر بھی یہ ختم نہ ہوئی تو کسی رفاعی ادارے کے نام کردوں گا ۔لیکن اس ناخلف اولاد کو ہرگز نہیں دوں گا‘‘
جوزی نے ماحول کو رنجیدہ ہوتے دیکھا تو کہا’’ باب ! اگر تم اپنی جائیداد اور روپیہ پیسہ کسی ادارے کو دینا چاہتے ہو تو ایک نہایت ہی مستحق ادارے کا پتا میں تمھیں بتاسکتی ہوں ۔اس کا نام ہے جسٹن اینڈ جوزی ۔ اس نیک کام کا آغاز تم ابھی ہمارے لئے ڈرنک خرید کر کر سکتے ہو ۔ اس کے علاوہ جب اور جتنا خرچ کرناچاہو ہم تمھارا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے تیار ہیں ۔آخر دوست ہی دوست کے کام آتا ہے‘‘
باب نے اٹھتے ہوئے کہا’’ تمھارے نام نہاد ادارے کے لئے میں ایک ڈرنک ضرور خرید سکتا ہوں بلکہ یہاں بیٹھے سب ساتھیوں کے لئے اگلا ڈرنک میری طرف سے ہے ۔ جہاں تک جائیداد اور روپے پیسے کا تعلق ہے تو ایسے ادارے میرے بیٹے بھی کھول کر بیٹھے ہیں ۔لیکن میرے خیال میں کچھ بہتر ادارے بھی ہیںجو تم لوگوں سے زیادہ مستحق ہیں ‘‘
باب جسٹن، جوزی اور دوسرے ساتھیوں کے لئے ڈرنک کے پیسے دے کر آگیا۔ ڈرنک آگئے ۔محفل پہلے کی طرح گرم رہی، ہنسی مذاق چلتا رہا ، وقت گزرنے کا علم ہی نہیں ہوا، آخر مارگریٹ نے کہا ’’تین بج چکے ہیں۔ صبح آٹھ بجے ہم نے روانہ ہونا ہے۔ لندن پہنچ کر بہت سے ساتھی اپنا سفر جاری رکھیں گے۔کیا خیال ہے ابھی چل کر تھوڑا آرام نہ کر لیں ورنہ کل سارا دن نیند ستاتی رہے گی‘‘
کسی کا اُٹھنے کودل نہیں چاہ رہا تھا ۔ بادل ِنخواستہ ہم ایک دوسرے سے جدا ہو کر اپنے اپنے کمروں کی طرف چل پڑے۔ کمرے میں پہنچ کر میں نے لباس تبدیل کیا ،دانتوں پر برش کیا ،ابھی سونے کے لئے لیٹا ہی تھا کہ دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ اٹھ کر دروازہ کھولا تو مولی سامنے کھڑی تھی ۔ اندر آتے ہی بولی’’ طارق! تم بہت بے مروت ہو۔ میں ساری شام تمھارا انتظار کرتی رہی لیکن تم نہیں آئے۔ تم نیچے سے اٹھ کر اوپر چلے آئے، یہ بھی نہیں پوچھا کہ میں یہاں کیوں آئی تھی۔ میرا آج یہاں کوئی کام نہیں تھا‘‘
’’آئی ایم سوری مولی ! تم جانتی ہومیں دعوت سے بہت دیر سے فارغ ہوا تھا اس لئے تمھیں فون نہیں کیا۔ میرے خیال میں گروپ کے ساتھ ساتھ تمھارا بھی ہر ہوٹل میں کمرہ بک ہوتا ہے ۔ کیا اس ہوٹل میں نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں ! دوسرے شہروں میں ہمارا قیام ہو تو وہاں میرا کمرہ بک ہوتا ہے، یہاں ایمسٹرڈم میں چونکہ میرا گھر ہے، یہاں نہیں ہے۔ لگتا ہے تم بہت تھکے ہوئے ہو۔ اب ہم کہیں جا بھی نہیں سکتے۔ میں ٹیکسی لے کر گھر چلی جاتی ہوں۔ صر ف چار پانچ گھنٹے ہی تو باقی ہیں، وہ گزار کر صبح واپس آجاوٗں گی‘‘
’’ مولی مجھے بہت افسوس ہے کہ تمھیں میرا اتنا انتظار کرنا پڑا۔میں بھی مجبور تھا۔ ورنہ تمھارے ساتھ جا کر مجھے خوشی ہوتی‘‘
میں نے مولی کو گل خان اور اس کے ڈنر کے بارے میں بتایا تووہ کہنے لگی’’ میں نے گل خان کے بارے میں اخبار میں کئی آرٹیکل پڑھے ہیں۔ وہ ہالینڈ کا ایک بڑا بزنس مین ہے۔اگر مجھے علم ہوتا کہ تم اس Legend سے ملنے جارہے ہو تو میں بھی تمھارے ساتھ چلتی۔ اس گریٹ آدمی سے مل مجھے بھی خوشی ہوتی۔ اینی وے اب میں چلتی ہوں، صبح ملاقات ہو گی‘‘
’’ مولی کل ہم جدا ہو جائیں گے۔ پھر شاید کبھی ملاقات نہ ہولیکن ایک بہت اچھی دوست کی حیثیت سے تم ہمیشہ میرے دل میں رہو گی۔تم نے جو کچھ میرے لئے کیا ہے، اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں‘‘
’’ طارق ایسے تو نہ کہو! دوستی میں تھینک یو اور پلیز کی گنجائش نہیں ہوتی۔ میں نے وہی کیا جو میرا دل چاہا، کسی پر احسان نہیں کیا‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا’’ کبھی سڈنی آئی تو تو تم بدلہ چکا لینا‘‘
’’ضرور! سڈنی میں تم میری مہمان ہو گی‘‘ میں نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا
رات بھیگ چلی تھی ۔ میری آنکھوں سے نیند بھی چلی گئی۔ ایمسٹرڈم میں یہ میری آخری رات تھی۔ ہوٹل کی بارھویں منزل کی کھڑکی کے باہر مکمل سناٹا تھا۔ آسمان پر ستارے خاموشی سے زمین کو دیکھ رہے تھے۔ کبھی کبھار ائیر پورٹ سے جہاز اُڑتا تو میری کھڑکی کے سامنے رنگ برنگی روشنیاں بکھیرتا آسمان کی وسعتوں میں گم ہوجاتا۔ پورا ایمسٹرڈم سو رہا تھا۔ کھڑکی کے بالکل سامنے آسمان پر دو ستارے ایک دوسرے سے محو ِگفتگو نظر آ رہے تھے۔ جوں جوں رات بھیگتی جا رہی تھی ان کا درمیانی فاصلہ گھٹتا جارہا تھا۔ حتیٰ کہ وہ دو کی بجائے ایک نظر آنے لگے۔ بند آنکھوں میں کئی منظر دھندلانے لگے ۔