(بزمِ فروغِ ادب کویت کی تحریک پر ایک جائزہ)
آج اردو زبان اپنے وجود کے تقریباً پانچ سو سال مکمل کر رہی ہے۔ اس زبان کی پارینہ تحریروں کا بیش تر حصہ محفوظ ہے اور کچھ ایسا ہے کہ وقت کی تبدیلی مقام اور مرکز کے بدلنے کے باوجود بہت قیمتی اور قابل اعتناء ہے۔ اردو ادب نے مختلف اصناف میں ایسے سفر کیا ہے کہ ہر سفر واضح سنگ میل رکھتا ہے۔ جہاں اردو غزل اپنی موہنی صورت کے سبب ہمیشہ آسان طور پر حاصل ہونے والی محبوبہ کی طرح رہی، وہیں نظم، مثنوی، مرثیہ، قصیدہ، قصہ گوئی، انقلابی نعرہ بازی، نعت، حمد و ثنا، نغمہ اور قوالی، ڈراما اور مکالمہ نگاری ہر صنف میں اور ہر سطح پر اپنے نمایاں نقوش ابھارتی رہی ہے۔ اردو کا استعمال ادب سے ہٹ کر اور بھی کئی عمدہ ترسیل کے واسطوں میں کافی کامیابی سے ہوتا رہا ہے۔ صحافت اور ارسال و ترسیل کے کارگر ذریعہ کے طور پر اردو نے کئی رول ادا کیے ہیں اور اس کی کامیابی محسوس کی گئی ہے۔ اشتہار کی زبان ہو یا فلم اور ٹی وی کے پروگرام اردو شوق سے بولی اور سمجھی گئی ہے۔ اردو کے ساتھ یہ بھی شرارت خوب ہوئی کہ اس کی کامیابی اور شناخت کو دوسری زبانوں خصوصاً ہندی اور پنجابی کے سر منڈھ دیا گیا۔
تو صاحب ہمیں نہ تو اردو کے مستقبل کے بارے میں کوئی مایوسی ہے نہ ہی دل سوز اندیشے۔ اردو کی تاریخ ہی کچھ ایسی ہے۔ جب معرض وجود میں آئی اور جوان ہوئی تو مغلیہ سلطنت اور اودھ کی نوابی مائل بہ زوال تھے، دربار کے قریب آئی تو دربار ناپید ہوتے چلے گئے۔ دکن میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اردو زبان ان متغیر حالات میں بھی دلوں میں اسی طرح جگہ کرتی رہی اور پھلتی، پھولتی رہی۔
آج اردو کی عالمی صورت حال کچھ یوں ہے کہ پاکستان کی سرکاری زبان ہے۔ ہندوستان کے کئی صوبوں کی سرکاری اول یا دوئم زبان ہے۔ کئی بین الاقوامی شہروں میں اس زبان کو چاؤ سے بولنے، لکھنے اور پڑھنے والے ملتے ہیں۔ اردو کا ایک بہت اہم مسئلہ یہ ہے کہ اردو کے بہت سے بولنے والے اور اردو شاعری کے رسیا اس زبان کے رسم الخط سے دور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ گرچہ ہر شہر اور ادبی مرکز میں ادبی انجمنیں، اردو اکیڈیمی، فروغ اردو، ترقی اردو اور اس نوع کے ادارے ملتے ہیں۔ آج اُردو کمپیوٹر سے آراستہ کمپوزنگ بھی ہو رہی ہے اور اردو کمپیوٹر کے ٹریننگ کورس بھی ہو رہے ہیں۔ کتابیں، رسائل اور اخبارات بھی کمپوز ہو کر زیور طبع سے آراستہ ہو رہے ہیں لیکن اردو رسم الخط سے آشنائی ناپید اور بعید ہوتی جا رہی ہے۔
الکٹرانک میڈیا کے فروغ سے مطبوعہ کتابوں اور تحریری مواد کی طرف سے رائج توجہ ہٹ جا رہی ہے۔ اسی لیے انگریزی ہو یا کوئی اور زبان ہو سب ہی اس صورت حال سے جوجھ رہے ہیں۔ اردو بھی اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔ چھپی ہوئی کتابیں اور اخبارات کا رواج بھی بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔
اردو کی شہرت کا ایک ذریعہ مشاعرہ بھی رہا ہے لیکن آج مشاعرہ ابتذال، سیاسی اکھاڑہ اور جملہ بازی کا مرکز بنتا جا رہا ہے جہاں سستی شہرت اور قبولیت عام کے لیے شاعر اور متشاعر دونوں ہی کوشاں ہیں۔ اچھی ادبی معیاری شاعری کے لیے آج نہ تو سامعہ راضی ہے نہ تو باصرہ موافق۔
وطن سے باہر رہنے والے اردو کے قلم کار معاشی زاویہ سے بہتری کے سبب دھڑا دھڑ کتابیں تصنیف و تالیف کر رہے ہیں اور طلب، مروجہ ادبی رویہ سے مبرہ ہو کر، خریداروں کے شوق سے بے اعتنا اپنی بغلوں میں کتابوں کے پلندے دبائے اہل کتاب بنے پھرتے ہیں۔ تنقید کا میدان تو بری طرح متاثر ہوا ہے۔ ہر نثر نگار اپنے آپ کو بزعم خود تنقید نگار سمجھتا ہے اور چند دریافت شدہ تراکیب کے استعمال کے وسیلے سے لفاظی، مرکبات اور مصطلحات سے پُر بلکہ آلودہ نثر لکھنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ تنقید کے فن میں کوئی مقام رکھتا ہے۔ اس ڈھونگ میں ارباب وطن بھی کچھ پیچھے نہیں۔ یعنی سراب نے چشمہ ہونے کا تماشا رچا رکھا ہے۔
اردو دنیا پر نظر ڈالیے تو اردو یونیورسٹیاں بھی ہیں کالج بھی، مدرسے اور ادارے بھی۔ لیکن ان کے زیرِ سایہ جس قسم اور معیار کی کتابیں سامنے آ رہی ہیں وہ کسی طرح اطمینان بخش نہیں۔ اردو کے ریسرچ اسکالر جن موضوعات پر ریسرچ کر رہے ہیں ان میں بیش تر از کار رفتہ، کرم خوردہ اور منہج ارتقا سے بعید تر ہیں۔ کسی مرحوم شاعر و ادیب پر ریسرچ ہو یا فراموش کردہ زبان یا لہجہ کی ساخت اور ہیکل پر بحث ہو یا سرسری نظر ڈالی تو بھلا اس سے مستقبل کا آرزو مند کیا پائے گا؟
اردو زبان مختلف مقامات، مختلف علاقوں اور مقامی زبانوں کے درمیان سیال میڈیم کی طرح روپ بدل لیتی ہے۔ ان حالات اور مقام سے متاثر ہو کر مستعملہ تراکیب، لفظیات، بول چال اور روزمرہ بھی داخل ہو جاتے ہیں۔ اگر سلیقہ مندی اور احتیاط سے انھیں برتا جائے تو اردو ڈکشن اور لسانی نظام میں توسیع کی جا سکتی ہے۔ اگر تعصب اور تنگ نظری سے احتراز کیا جائے تو کافی افادہ کیا جا سکتا ہے۔
اردو زبان کا مستقبل میرے خیال میں آج بھی تابناک ہے اور اس کا بھی وہی حال ہے جو دوسری سب زبانوں کا ہے جن کا ملازمت، دنیاوی کاروبار کے لیے ثانوی ہو گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس زبان کو اسی عز و شرف سے برتا جائے جس کی یہ حقیقی حق دار ہے۔ یہ زبان شہر کی اور تہذیب کی زبان ہے، اس زبان میں دینی اور تاریخی موضوعات پر بھی بڑا کام ہوا ہے۔ اس کام کی خاطر خواہ قدر کی جانی چاہیے۔
یہ جو اُمید لگائی جاتی ہے کہ حکومتی نظام، سرکاری ادارے اس کی استعانت کریں تو میں اس طرح کی سوچ کو کچھ قابل اعتنا نہیں سمجھتا۔
آپ ہی سوچیے کہ سرکاری امداد تعاون بھلا کسی زبان اور تہذیب کے تحفظ کے لیے کبھی کامیاب ذریعہ بنے ہیں؟ ہاں حکومتیں اپنے سیاسی مفاد اور تماشہ گری کے لیے درپردہ مقصد کو شاید اس طرح پوری کر لیں، اس نوع کی امداد سے کس طرح کے قلم کار، ادیب اور رسائل وجود پذیر ہوتے ہیں، ان کی فہرست دیکھی جا سکتی ہے، جس کے بارے میں کوئی فیصلہ دینا نہیں۔
میری رائے تو یہ ہے کہ اردو بولنے والے اور اس زبان میں ترسیل کو اہمیت دینے والے خود اس زبان کے ارتقا اور ترویج کے لیے دامے، درمے، قدمے، سخنے کام کریں۔ اپنے مصروف شب و روز اردو کے لیے ایک اہم اور مناسب وقفہ تفویض کر لیں اور پابندی سے کچھ نہ کچھ کام کرتے رہیں۔
جس طرح فن کار، کوزہ گر، گہر سفتن کاری گر، ہنر مند اپنے اپنے فن کے لیے خلوص اور دلجمعی سے جتن کرتے ہیں اس طرح اُردو والوں کو اپنے گھروں کی اس روشنی کی حفاظت کرنی ہو گی۔
مجھے یقین کامل ہے کہ اردو زبان یوں ہی زندہ و پائندہ رہے گی۔
٭٭٭