اردو زبان کی پیدائش، جائے پیدائش اور نشوونما کے بارے میں اردو کے عالموں، محققوں اور لسانیات دانوں نے اب تک کافی غور و فکر اور چھان بین سے کام لیا ہے جس سے اس موضوع پر اردو میں لسانیاتی ادب کا ایک وقیع سرمایہ اکٹھا ہو گیا ہے۔ اردو کے جن عالموں نے اس موضوع پر تحقیقی نقطۂ نظر سے کام کیا ہے ان میں حافظ محمود خاں شیرانی، سید محی الدین قادری زور، مسعود حسین خاں، عبدالقادر سروری، شوکت سبزواری اور گیان چند جین کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔
ان سے پیشتر میر امن، سرسیداحمد خاں، امام بخش صہبائی، محمد حسین آزاد، شمس اللہ قادری اور سید سلیمان ندوی جیسے اردو کے ادیب و عالم بھی اردو زبان کے آغاز و ارتقا کے بارے میں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر چکے تھے۔ ماضیِ قریب اور عہدِ حاضر کے بعض دیگر اہلِ علم و نظر بھی اردو کے آغاز و ارتقا کے مسائل اور اس کے تاریخی تناظر پر غور و خوض کرتے رہے ہیں، مثلاً مولوی عبدالحق نے اپنے بعض خطبات میں، پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی نے اپنی تصنیف ’’کیفیہ‘‘ میں، سیداحتشام حسین نے ’’ہندستانی لسانیات کا خاکہ‘‘ (جان بیمز) کے مقدمہ میں، جمیل جالبی نے ’’تاریخِ ادبِ اردو‘‘ (جلدِ اول) میں، سہیل بخاری نے ’’اردو کی زبان‘‘ میں اور شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنی حالیہ تصنیف ’’اردو کا ابتدائی زمانہ‘‘ میں اردو کی پیدائش، مرزبوم نیز اس کے تاریخی ارتقا اور تناظر کو اپنی فکرو تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔۔
اردو کے ان تمام ادیبوں، عالموں، محققوں اور ماہرینِ لسانیات کے خیالات و نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ اردو ایک مخلوط یا ’ملواں‘ زبان ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد شمالی ہندوستان میں معرضِ وجود میں آئی اور اس پر دہلی اور اس کے آس پاس کی بولیوں کے نمایاں اثرات پڑے۔ ان میں سے مسعود حسین خاں اردو کی پیدائش کو ’’دہلی اور نواحِ دہلی‘‘ سے، حافظ محمود خاں شیرانی ’’پنجاب‘‘ سے، سید سلیمان ندوی ’’وادیِ سندھ‘‘ سے ، اور سہیل بخاری ’’مشرقی مہاراشٹر‘‘ سے منسوب کرتے ہیں۔ اسی طرح محمد حسین آزاد کے خیال کے مطابق ’’اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے‘‘۔ گیان چند جین کے نظریے کے مطابق ’’اردو کی اصل کھڑی بولی اور صرف کھڑی بولی ہے‘‘۔ اور مسعود حسین خاں کی تحقیق کی روسے’’قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست دو آبہ کی کھڑی اور جمنا پار کی ہریانوی کے زیرِ اثر ہوئی ہے‘‘۔ علاوہ ازیں شوکت سبزواری اس نظریے کے حامل ہیں کہ اردو کا سرچشمہ ’’پالی‘‘ ہے۔ ان تمام عالموں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اردو ایک خالص ہندوستانی زبان ہے۔ اس کا ڈھانچا یا کینڈا یہیں کی بولیوں کے خمیر سے تیار ہوا ہے۔ اس کے ذخیرۂ الفاظ کا معتدبہ حصّہ ہند آریائی ہے، لیکن عربی اور فارسی کے بھی اس پر نمایاں اثرات پڑے ہیں۔ یہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے، کیوں کہ اس کی پیدائش کے دونوں ذمہ دار ہیں۔
یہ تھے اردو کے بارے میں اہلِ اردو کے خیالات و نظریات۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ غیر اردوداں طبقے بالخصوص انگریزی اور ہندی کے بعض عالموں اور دانشوروں کی اس بارے میں کیا ’سوچ‘ رہی ہے اور وہ کس زاویے سے اردو کے تاریخی تناظر پر غور کرتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں جن انگریزی مصنفین کی تحریروں کا جائزہ یہاں پیش کیا گیا ہے ان میں جارج اے۔ گریرسن، جان ایف۔ کی، سنیتی کمار چٹرجی، امرت رائے، الوک رائے اور بال گووند مشر کے نام خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ ہندی مصنفین میں چندر دھر شرما گلیری، ایودھیا پرشاد کھتری اور دھیریندر ورما کی تحریروں سے استفادہ کیا گیا ہے۔