زبان کسی قوم کی شناخت ہے اور اس قوم کی تمدنی اور تہذیبی تاریخ کو سمجھنے کے لئے ایک اہم وسیلہ بھی ……اردو اس اعتبار سے منفرد زبان ہے اس کا دائرہ کسی خاص گروہ تک محدود نہیں بلکہ یہ زبان ہندوستان کی سرزمین پر پنپنے والی ایک عظیم مشترکہ تہذیب کی میراث ہے۔ وہ عظیم مشترکہ تہذیب جو پنجاب کے لہلہاتے کھیتوں میں ، گنگ و جمن کے شاداب میدانوں میں اور گجرات و دکن کے زرخیز علاقوں میں پروان چڑھتی رہی، جس نے عظیم ہندوستان کے طول و عرض میں محبت، رواداری اور یگانگت کے جذبے کو بیدار کیا…….
اس محبت اور یگانگت کے جذبے نے جہاں ایک دوسرے کے رسوم و رواج اپنانے کی طرف متوجہ کیا، وہیں لسانی بنیادوں ہر بھی لین دین ہوا اور ایک ایسی زبان وجود میں آئی جو وقت کی ضرورت تھی اور ہندوستان کے طول و عرض میں استعمال کئے جانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ لہجے ضرور مختلف رہے ، انداز بھی مختلف رہا، علاقائی اثرات کی وجہ سے ایک مقام کی بولی اور دوسرے مقام کی بولی میں نمایاں فرق نظر آیا…….لیکن زبان کی تشکیل و فروغ میں نہ علاقہ حائل ہوا اور نہ قواعد کے سخت گیر اصول ……اردو اپنے طور پر بڑھی، اپنے طور پر اس نے دوسری زبانوں سے اثرات قبول کئے اور آہستہ آہستہ اس قابل ہوئی کہ اس میں ادبی کارنامے ظہور پذیر ہو سکیں۔
ماہرین لسانیات نے جب اردو کے آغاز کے نظریوں پر غور کرنا شروع کیا تو ان کے لئے ہندوستان کے مخصوص تمدنی اور تہذیبی پس منظر کا مطالعہ بھی ضروری بن گیا۔ آغاز کے مختلف نظریوں کو پیش کرنے والے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو با ضابطہ طور پر لسانیات کے طالب علم نہیں رہے۔ میر امّن اور محمد حسین آزاد کو ماہرین لسانیات میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ باہمی میل جول کو دونوں نے اہمیت دی اور اردو زبان کے آغاز کے سلسلے میں ان کا پیش کیا ہوا نظریہ کہ یہ زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور اسکے آس پاس کے علاقوں میں پروان چڑھی ….بہت دنوں تک جوں کا توں مانا گیا۔
نصیرالدین ہاشمی نے اردو کے تمدنی پس منظر پر غور کیا تو انہیں ملا بار کے ساحلوں پر عربوں اور ہندوستانیوں کا باہمی میل جول بہت اہم نظر آیا۔ چنانچہ انہوں نے دکن کو اس زبان کا مولد قرار دیا۔ سلیمان ندویؔ نے سندھ کو بنیاد مانا اور اردو کے آغاز کو محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے سے جوڑ کر ملی جلی تہذیب کے نقطۂ اولین کو متعین کرنے کی کوشش کی۔ حافظ محمود شیروانی نے پنجاب کے سر اس زبان کے آغاز کا سہرا باندھا…… گریرسن نے بھی اردو کو ملی جلی تہذیب کا پرتو قرار دیا تھا ……. اس نے اردو کو کسی خاص علاقے ، بولی یا پرا کرت سے متاثر ثابت کرنے کی بجائے کئی بولیوں اور زبانوں سے متاثر بتایا۔ لیکن بعد میں اس نے اردو کے آغاز کو دوآبہ اور روہیل کھنڈ کے علاقے تک محدود کر دیا…..شوکت سبزواری نے اختلاط یا باہمی میل جول کے نظریے کو سرے سے رد کر دیا ان کا خیال تھا کہ زبان پہلے سے موجود ہوتی ہے اور دوسری زبانوں کے اثر سے وہ طاقتور اور بہتر اظہار کی حامل بن سکتی ہے ….. لیکن دوسری زبانوں کے اثر سے ایک نئی زبان کا وجود میں آنا ممکن نہیں ہے۔ شوکت سبزواری اور سہیل بخاری نے اردو کو کھڑی بولی کا بدلا ہوا روپ قرار دیا۔ اورپروفیسر گیان چند نے بھی اسی نظریہ کو اہم قرار دیا۔ اور اردو کے آغاز کو دلی، بجنور اور مرادآباد کے علاقوں تک محدود کر کے کھڑی بولی سے اس زبان کا ناطہ جوڑ دیا۔ جبکہ عبدالحق نے کھڑی بولی کا مفہوم گنواروں کی بولی لیا……کھڑی میں روٹی کو رٹیّ کہنے یا درمیان کے حروف علت کو دبانے رواج عام ہے۔ شایداس وجہ سے انہوں نے اسے گنواروں کی یا جاہلوں کی زبان قرار دیا ……جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کھڑی بولی کا بھی اپنا ایک پس منظر ہے ….. مشرقی انبالہ، سہارنپور، میرٹھ، مظفر نگر وغیرہ کھڑی بولی کے علاقے ہیں۔ اور مسعود حسین کان کے مطابق ان علاقوں میں بولی جانے والی زبان کے علاوہ ہریانی میں بھی لفظ کے درمیانی حروف علت گرانے اور مشدد الفاظ استعمال کرنے کا رواج تھا اور ہے ……گویا یہ خاص انداز جغرافیائی اثرات کا تابع بھی ہو سکتا ہے …..لیکن آہستہ آہستہ دلی کے بازاروں اور محلوں میں اردو زبان نے نزاکت اپنائی۔ کرخت لہجہ اور مکروہ انداز خارج کر دیا گیا۔ لکھنؤ نے اس کی نزاکت میں اور اضافہ کیا اور ایک مخصوص لوچ سے اردو کو سنوارا جو صرف اسی زبان کا حصہ تھا اور اس زبان کے لکھنوی دبستان سے تعلق رکھتا تھا۔
قبل ازیں گوالیار ایک عرصے تک بلاغت اور فصاحت کے معاملے میں اہم مانا جاتا رہا۔ ’’سب رس‘‘میں وجہی نے ’’گولیار کے چاتراں ‘‘ کا ذکر کر کے اور ان کے زباں و بیان کے انداز کو سراہتے ہوئے خود اپنے طرز انشا کی بھی ستائش کی ہے کہ اس طرح نظم و نثر کو آپس میں ملا کر کسی نے نہیں لکھا۔ گولیار کے فصحاء کی افضلیت خان آرزو سے بھی ثابت ہوتی ہے اور وہ بھی گوالیاری کو مستند جانتے ہیں۔ لیکن محمد شاہ رنگیلا کے عہد میں دہلی کے قلعہ معلیٰ کی زبان اور امرا اور شرفاء کی زبان مستند قرار دی گئی کیونکہ اب اس زبان میں نکھار آ چکا تھا۔ اس زبان کے محاورے اور روز مرہ میں جھٹکے دار گنوار انداز کے بجائے لوچ اور مٹھاس کو اہمیت دی جانے لگی……. اور پھر لکھنؤ نے اس زبان کی تزئین کا کام اپنے سر لیا تو اور بھی نکھار آ گیا۔
ان تمام باتوں کے باوجود اس ایک حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اردو زبان کی بنیاد یگانگت اور آپسی محبت پر قائم ہے۔ کئی فرقوں اور لسانی گروہوں میں بٹا ہوا ہونے کے باوجود ہندوستان کا تمدنی مزاج ایک با ضابطہ سماج کا پروردہ ہے۔ یہاں رشتوں کا اعتبار بھی ہے اور پڑوسی، ہم محلہ، ہم وطن اور اسی طرح کے دوسرے سماجی رشتوں کی بھی اہمیت ہے۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا اپنے ذاتی مفاد سے زیادہ اہم مانا جاتا ہے۔ اس طرح کے سماجی رشتوں کو مضبوط کرنے اور ترسیل و ابلاغ کی اہم خدمت انجام دینے کے لئے جس زبان کی ضرورت ہو سکتی ہے اس میں یہ قوت بھی ہونی چاہئے کہ بنیادی طور پر اس میں تنگ نظری نہ ہو….. دوسری تہذیبوں سے ، دوسرے علاقوں اور سماجوں کے تمدنی اثرات سے ، دوسری زبانوں کے لسانی تنوع سے آسانی کے ساتھ گھل مل سکے۔ اور یہ خصوصیات اگر کسی زبان میں بدرجہ اتم موجود نظر آئیں تو وہ صرف اردو تھی اور اردو ہی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ یہ زبان آسانی سے مقبول ہوتی گئی۔ اس کی بنیاد کھڑی بولی ہے یا برج، سندھی ہے یا پنجابی، یہ بحث تو لسانیات کے علماء نے تقریباً ختم کر دی اور حتمی طور ہر کھڑی بولی کو اردو کا ابتدائی روپ قرار دیا ….. لیکن اہم بات یہ ہے کہ کھڑی بولی پر بھی دوسرے علاقوں کی بولیوں کے اثر پڑے ، عربی وفارسی نے بھی اثر جمایا، باہمی تعلقات نے زبان کو تجارتی ضرورت سے آگے بڑھا کر سماجی ضرورت بنا دیا اور اردو میں شکل بنتی گئی۔ ملا وجہی نے دکن میں سب رس لکھی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ بادشاہ نے اس سے قصۂ حسن و دل کو عام فہم زبان میں بیان کرنے کی خواہش کی تھی۔ ادھر شمال میں فضلی نے کربل کتھا لکھی تو اس کے پیچھے یہ جذبہ کارفرما تھا کہ ان عورتوں کے لئے واقعات کربلا موثر انداز میں لکھے جائیں جو فارسی سے واقف نہ ہوں …..گویا عوام کی گھریلو بول چال کی زبان سب رس اور کربل کتھا کی زبان تھی۔ یعنی اردو کا جو ابتدائی روپ ہے وہ کم پڑھے لکھے عوام کی بول چال بلکہ گھریلو خواتین کی گفتگو سے مستعار ہے اور دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اس زبان میں شاعری کرنا گویا ایک طرح سے پوچ بات تھی۔ وہ تو ولی نے شمالی ہند کو بتایا کہ اس زبان میں بھی وہی اتنی صلاحیت ہے کہ فارسی شاعری کے کندھے سے کندھا ملاسکے …….اپنی زبان کے ساتھ تحقیر کا یہ رویہ اس وقت ختم ہو گیا جب اس زبان کو سرکاری سرپرستی مل گئی۔ لیکن وہی رویہ آج پھر سے لوٹ آیا جب یہ محسوس ہوا کہ معاشی طور پر یہ زبان اتنی معاون ثابت نہیں ہو سکتی جتنی کہ علاقائی زبان یا بین الاقوامی زبان…….!
کبھی وہ دور بھی تھا کہ انگریزوں کو اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لئے اردو زبان کا سیکھنا ضروری تھا۔ فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات کو کون نظرانداز کر سکتا ہے ….. اور اردو ادب کو جو سلیس پیرایۂ اظہار ملا اس کی افادیت اور اثر آفرینی کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے ……! لیکن انگریزی کا غلبہ رفتہ رفتہ اتنا بڑھ گیا کہ ہماری روزمرہ کی گفتگو میں سینکڑوں ایسے الفاظ در آئے جو انگریزی کے تھے اور ہم نے ان کا اردو متبادل ڈھونڈ نے کی بجائے بہتریہی سمجھا کہ ان الفاظ کو جوں کا توں قبول کر لیا جائے۔ اردو کے تمدنی پس منظر کی بازیافت کرتے ہوئے جب ہم آج کے دور تک پہنچتے ہیں تو یہ محسو ہوتا ہے کہ اس سکڑتی ہوئی دنیا میں خالص زبان کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے۔ اس بات کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ کس زبان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ ترسیل و ابلاغ کے ذرائع استعمال کرتے ہوئے کسی زبان کو زبردستی سرپر تھوپنے کی کوشش کی گئی، وہاں اس عمل کے خلاف بیزاری کا جذبہ بھی نشو ونما پاتا رہا ہے۔ کیونکہ زبان کا مقصد صرف ادبی تخلیقات پیش کرنا نہیں ہے۔ زبان کا مقصد یہ بھی نہیں کہ بھاری بھرکم غیرمانوس قسم کے الفاظ استعمال کر کے اپنی علمیت کا احساس پیدا کیا جائے۔ زبان تو ہمارے سماج کی ایک اہم ضرورت ہے جس کے بغیر تعلقات کو فروغ دینا تو کجا ان کو باقی رکھنا بھی ممکن نہیں اور اردو زبان آج کل ایسی ہی کشمکش سے دوچار ہے۔
***