عبدالعزیز خاں
اردو میں تشکیلِ الفاظ کے کئی طریقے رائج ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ جس سے بکثرت اردو الفاظ بنتے ہیں ، ’تعلیقیوں‘ (Affixes) کا استعمال ہے۔ تعلیقیے ’بامعنی لسانی روپ‘(Meaningful Linguistic Forms) ہوتے ہیں ، لیکن یہ کبھی تنہا استعمال نہیں کیے جاتے۔ ان کا وقوع ہمیشہ ’آزاد روپ‘ (Free Forms) کے ساتھ ہوتا ہے جسے ’آزاد صرفیہ(Free Morpheme) بھی کہتے ہیں۔ آزاد صرفیے کو ’لفظ‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ تعلیقیے چوں کہ تنہا استعمال نہیں کیے جاتے اور اپنے وقوع کے لیے آزاد روپ کے محتاج ہوتے ہیں ، اس لیے انھیں ’پابند روپ‘ (Bound Forms) کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اردو میں ’’لا‘‘ بمعنی ’نہ‘ / ’نہیں ‘ ایک پابند روپ ہے۔ اس کا استعمال آزاد روپ کے ساتھ ہوتا ہے جیسے، لا وارث، لا علاج، لاثانی، وغیرہ۔ اسی طرح ’’ور‘‘ بمعنی ’والا‘/ ’رکھنے والا‘ بھی ایک پابند روپ ہے اور آزاد روپ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسے، طاقت ور، جانور، نامور، وغیرہ۔ ان مثالوں میں ’’لا‘‘ اور ’’ور‘‘ دونوں تعلیقیے ہیں ، لیکن ان کی حیثیت پابند روپ کی ہے۔
جو لفظ خالص آزاد روپ یا آزاد صرفیے پر مشتمل ہوتا ہے، اسے ’سادہ لفظ‘ (Simple Word) کہتے ہیں ، مثلاً علاج، جان، نام، وغیرہ۔ اور جو لفظ آزاد روپ اور پابند روپ کو ملا کر تشکیل دیا جاتا ہے، اسے ’پیچیدہ لفظ‘ (Complex Word) کہتے ہیں ، مثلاً لاوارث، طاقت ور، جانور، وغیرہ۔ اگر دو آزاد روپ یا دو آزاد صرفیے ایک ساتھ ترکیب دیے جائیں تو ایسے لفظ کو ’مرکب لفظ‘(Compound Word) کہیں گے،مثلاً: خوب صورت، خرگوش، ڈاک گھر وغیرہ۔
تعلیقیے لفظ کی ابتدا میں بھی واقع ہوسکتے ہیں اور لفظ کے آخر میں بھی۔ اردو میں بعض تعلیقیے لفظ کی درمیانی حالت میں بھی واقع ہوتے ہیں۔ انھیں بنیادوں پر تعلیقیوں کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں:
۱۔ سابقے(Prefixes)
۲۔ لاحقے(Suffixes)
۳۔ و سطیے(Infixes)
۱۔ سابقے
سابقے وہ تعلیقیے ہیں جن کا استعمال لفظ کی ابتدائی حالت میں ہوتا ہے۔ یہ الفاظ آزاد روپ (آزاد صرفیے) ہوتے ہیں ، اور قواعد کی رو سے یہ اسم بھی ہو سکتے ہیں اور صفت اور فعل بھی۔ اردو میں عربی اور فارسی سے مستعار لیے گئے سابقوں کی تعداد بے شمار ہے، لیکن ہندی الاصل سابقے بھی اردو میں بکثرت استعمال کیے جاتے ہیں۔
(الف) عربی و فارسی سابقے:
= لا (= نہ، نہیں ): لاوارث، لا علاج، لازوال، لاثانی، لاجواب۔
= ذی (= والا، رکھنے والا): ذی روح، ذی شان، ذی علم، ذی وقار، ذی استعداد۔
= نا (=نہ، نہیں ): ناراض، نا ممکن، ناامید، نابالغ، نا پسند، نا مکمل، نادار، نا بینا، نا معلوم۔
= بد (=برا): بدنام، بد اخلاق، بد مزاج، بدتمیز، بدکردار، بدقسمت، بدصورت، بدذوق۔
= با (=ساتھ): با عزت، با ادب، با مقصد، با حیا، باقاعدہ۔
= پُر (=بھرا ہوا): پر اثر، پر درد، پر جوش، پر زور، پر مغز، پر نم۔
= نو (=نیا، تازہ): نونہال، نوعمر، نوجوان، نو مشق۔
= ہم (=شریک، ساتھی): ہم سفر، ہم وطن، ہم راز، ہم دم، ہم خیال، ہم درد۔
(ب) ہندی الاصل سابقے:
= اَ (=نہ،نہیں ): اٹل، ا مَر، ا تھاہ، اکارت۔
= اَن (=نہ ، نہیں ): انجان، ان پڑھ، ان ہونی۔
= نِ (=نہ ، نہیں ): نڈر، نِکما، نہتھا، نڈھال۔
= بہ (=کئی): بہروپ، بہروپیا۔
۲۔ لاحقے
لاحقے وہ تعلیقیے ہیں جن کااستعمال لفظ کے آخر میں ہوتا ہے۔ سابقوں کی طرح اردو میں لاحقے بھی عربی اور فارسی سے بکثرت مستعار لیے گیے ہیں ، لیکن ہندی الاصل لاحقوں کی تعداد بھی اردو میں کم نہیں ہے۔
(الف) عربی وفارسی لاحقے:
= ہ (لاحقۂ تانیث): شاعرہ، معلمہ، ادیبہ، عزیزہ، فن کارہ، اداکارہ، ملکہ، محترم، صاحبہ۔
= ی (یائے نسبتی) : آسمانی، حیوانی، انسانی، ملکی، قمری، شمسی، آبی، خیالی۔
= ات (لاحقۂ جمع) : خیالات، سوالات، جوابات، حالات، کمالات، باغات، درجات، کلمات ذرّات۔
= ین (لاحقۂ تثنیہ): والدین، زوجین، کونین، قبلتین، عیدین۔
= گار (=کرنے والا): گناہ گار، خدمت گار، طلب گار۔
= ستان (=جگہ): گلستان، ریگستان، نخلستان، ادبستان۔
= گاہ (=جگہ): آرام گاہ، شکارگاہ، سیرگاہ، خواب گاہ، عیدگاہ۔
= گر (=کرنے والا): رفوگر، بازی گر، نوحہ گر، فتنہ گر۔
= کدہ (=جگہ،گھر): آتش کدہ، مے کدہ، بت کدہ، ماتم کدہ، غم کدہ، دولت کدہ۔
= مند (=والا، رکھنے والا): ہُنر مند، فکرمند، دولت مند، عقل مند، دانش مند، حاجت مند، صحت مند، خرد مند۔
(ب) ہندی الاصل لاحقے:
= انا (=لاحقۂ ظرفی): گھرانا، مُہانا، ٹھکانا، تلنگانا۔
= انی (=لاحقۂ تانیث): شیخانی، ٹھکرانی، دیورانی،جٹھانی۔
= ن (=لاحقۂ تانیث): دھوبن، مالن، بھنگن، گھسیارن۔
= ی (=لاحقۂ تانیث): لڑکی، بکری، بلّی، لنگڑی، اندھی۔
= بھر (= لاحقۂ مقداری): دن بھر، پیٹ بھر، گھڑی بھر، رتی بھر، سیر بھر، عمر بھر۔
= ری (= لاحقۂ فاعلی): پجاری، بھکاری، جواری۔
= نی (=لاحقۂ تانیث): اونٹنی، شیرنی، فقیرنی، ڈومنی۔
= ر/ار (=لاحقۂ فاعلی): لوہار، سنار، چمار،کمھار۔
۳۔ وسطیے
وسطیے ان تعلیقیوں کو کہتے ہیں جن کا وقوع لفظ کی ابتدائی اور آخری حالتوں کو چھوڑ کر درمیانِ لفظ کہیں بھی عمل میں آسکتا ہے۔ ایسی صورت میں وسطیے کے تداخل سے اس لفظ کی تمام سابقہ آوازیں اسی ترتیب سے برقرار رہتی ہیں۔ اردو میں و سطیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ یہ صرف چند عربی الفاظ میں ہی پائے جاتے ہیں ، مثلاً:
= ا (=وسطیۂ جمع) : تصاویر (کلمۂ واحد: تصویر)، تقاریر (تقریر)، تجاویز (تجویز)، تدابیر(تدبیر)، تفاسیر (تفسیر)، تراکیب (ترکیب)، مساجد (مسجد)، محافل (محفل)۔
= تشدید+ ا (وسطیۂ فاعلی): نقاش (نقش)، عکّاس (عکس)، نبّاض (نبض)، قہّار (قہر)، جبّار (جبر)۔
کتابیات:
۱۔ شوکت سبزواری، اردو لسانیات (ا لہٰ آباد: اسرار کریمی پریس، ۱۹۸۲ء)۔
۲۔ گیان چند جین، لسانی مطالعے ( نئی دہلی: ترقیِ اردو بورڈ، ۱۹۷۳ء)۔
۳۔ مرزا خلیل احمد بیگ، اردو کی لسانی تشکیل، تیسرا ایڈیشن (علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ۲۰۰۰ء)۔
***