قصہ کہنا یا سننا ہر زمانہ میں انسان کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ قصہ یا کہانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانی تاریخ۔ قصہ تو وہیں شروع ہوا تھا جب قدرت نے آدم علیہ السلام و حوا کی تخلیق کی اور فرشتوں کو ان کی برتری کا سبب بتایا۔ پھر ایک ’کُن، کی آواز کے ساتھ اس وسیع و عریض کائنات کا وجود عمل میں آیا اور انسان کو اس زمین پر خدا نے اپنا خلیفہ مقرر کیا اور تمام مخلوقات پر اُسے فضیلت کا شرف بخشا۔ جب انسان نے اس زمین پر قدم رکھا تو وہ بالکل اجنبی تھا۔ بھوک کا احساس ہوا تو وہ غذا کی تلاش میں نکل پڑا۔ جانوروں کا شکار کیا اور ان کے گوشت اور مختلف طرح کے پھلوں، پتوں سے اپنی بھوک مٹائی۔ سر چھپانے کیلئے غاروں میں پناہ گزیں ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے طرز زندگی میں تبدیلی آنے لگی اپنی زندگی کو سنوانے اور خوب سے خوب تر کی جستجو نے اُسے مصروف رکھا لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ اپنی عقل کے بل بوتے پر اس نے اس کائنات کے سربستہ رازوں سے آہستہ آہستہ پردہ چاک کرنا شروع کیا۔
جب شام کو تھکے ہارے انسان سستانے کیلئے بیٹھے ہونگے تو اپنے دن بھر کے تجربات و مشاہدات ایک دوسرے کو سنائے ہوں گے۔ یہ انسانی فطرت رہی ہے کہ وہ اپنے کارنامے دوسروں کو سناکر خوش ہوتا ہے۔ ابتداء میں انسان نے اپنی حرکات و سکنات و مختلف بے ہنگم آوازوں کے ذریعہ اپنے خیالات، جذبات و احساسات کی ترسیل کی ہو گی لیکن اس کے منہ سے نکلنے والی بے معنی آوازوں نے جب ایک عرصہ کے بعد پہچان بنا لی اور وہ بات کرنے کے قابل ہو گیا اور جب وہ اپنی ذات سے نکل کر کائنات سے آشنا ہونے لگا تو اُس نے اپنے جذبات، احساسات، خیالات کی ترسیل اچھے انداز میں کی ہو گی۔ اس طرح قصہ گوئی کی واضح ابتداء وہیں سے ہوئی ہو گی جبکہ انسان نے اپنی صحرا نوردی اور خانہ بدوشی کے قصہ ایک دوسرے کو سنائے ہوں گے۔
’’تاریخی ماخذات کی رو سے دو ہزار سال قبل مسیح سے باقاعدہ قصہ گوئی اور داستان طرازیوں کے نشانات ملتے ہیں ‘‘ ۱؎
قصہ یا کہانی انسانی شعور اور نفسیات سے وابستہ رہی ہے۔ کہانی انسان کے ساتھ اس وقت بھی تھی جب کہ وہ جنگلوں میں رہا کرتا تھا اور سماج کی شیرازہ بندی نہیں ہوئی تھی اور کہانی اس وقت بھی ساتھ رہی جب انسان نے تہذیب و تمدن کا لبادہ اوڑھ کر مدنی زندگی اختیار کی۔ سماج اور معاشرے وجود میں آئے۔ اور انسان نے اپنی ترقی اور برتری کے جھنڈے زمین و آسمان میں گاڑے۔ اور یہ کہانی اس وقت بھی اس کے ساتھ ہے جب ہر لمحہ اُسے نئے جہانوں اور نئے افقوں کی تلاش ہے۔
انسان کا جب مشاہدہ بڑھا تو اس نے دیکھا کہ سورج میں گرمی کی ایسی طاقت ہے جو پانی کو بھانپ بنا دیتی ہے۔ اس نے طوفانی ہواؤں کو دیکھا جو کہ مضبوط پیڑوں کو اکھاڑ پھینکتی ہیں۔ اس نے آگ کی طاقت کو دیکھا جو کہ ہر چیز کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے اس طرح کی طاقتوں کے آگے وہ اپنے آپ کو بے بس پاکر ان کے آگے اپنا سر خم کر دیا اور ان کے بارے میں طرح طرح کے عقائد اس کے دل میں جاگزیں ہونے لگے۔ آہستہ آہستہ مذاہب وجود میں آنے لگے اور وقت گزرنے کے بعد ان سے متعلق مختلف قصے روایتوں کے سہارے آگے بڑھتے رہے یہ وہی قصے ہیں جنہیں ہم دیو مالا یا اساطیر کہتے ہیں یہ قصے کسی نہ کسی طرح ہماری مقدس کتابوں میں ہی پیش ہوئے ہیں۔ جسے وید، اُپنشد، پران وغیرہ کے قصے رامائن، مہابھارت کے قصے وغیرہ۔ ’’ہندوستان میں براہمن کے قصے کی ابتداء ایک ہزار سال قبل مسیح سے سو قبل مسیح تک متعین کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ یہ ویدوں کی روایات و حکایات کا ہی حصہ ہیں ‘‘۔ ۲؎
دنیا کے بیشتر مذاہب کی مقدس کتابوں میں حقیقت و راستی کی باتوں کے ساتھ ساتھ بہت سی ایسی کہانیاں ملتی ہیں جو انسان کے زمانہ طفولیت میں خلق ہوئی تھیں اور جن سے اس عہد کے انسان کے متعلق بہت سے حقائق سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔
جیسے جیسے انسانی شعور بالیدہ ہونے لگا اور زندگی کے کینوس نے وسعت اختیار کی ویسے ویسے کہانی بھی بالیدہ ہوئی اور کئی رنگوں اور کئی خوشبوؤں کو اپنے دامن میں سمیٹے مختلف انداز میں ہمارے سامنے آتی رہی۔ انسان کا ماحول، اس کے تجربے، اس کا فلسفہ حیات، اس کی ادراک حقیقت کے طریقے، محبت و نفرت کے معیار، عمل اور رد عمل کے محرکات اور طرز اظہار کے طریقے ہر عہد میں بدلتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کہانی نے بھی وقت کے تغیرات کے ساتھ چولا بدلا، کبھی قصہ یا کہانی بن کر، کبھی تمثیل یا حکایت بن کر کبھی داستان بن کر اور کبھی ناول بن کر اپنی پہچان کراتی رہی۔ صالحہ عابد حسین کے بموجب :
’’کہانی جو کبھی طلسم ہوشربا، بن کر ہزاروں صفحوں پر پھیل جاتی ہے اور کبھی داستانوں کا روپ دھارتی ہے کبھی ’فسانہ، آزاد، جیسا طویل ناول بن جاتی ہے اور کبھی ایک چادر میلی سی، کے رنگ میں کہانی اور ناول کے بیچ کی کڑی، کبھی آگ کا دریا، کی طرح طول طویل اور کبھی ایسی مختصر جسم میں بعض جملے ہوں، اس کے ہزاروں روپ ہیں قوس قزح کی طرح‘‘۔ ۳؎
انسان نے اس طرح کی حکایات میں جدت پیدا کی اور کہانی در کہانی داستان کہنے کا طریقہ ایجاد کیا اور ’’طلسم ہوشربا‘‘ ’’داستان امیر حمزہ‘‘ وغیرہ جیسی داستانیں وجود میں آئیں۔
داستان کہانی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ انسان نے اپنے روز مرہ کے قصوں کو تخیل، حیرت و استعجاب، رومان اور محیر العقول واقعات و فوق فطرت عناصر کو جذبات کے ساتھ طوالت سے پیش کیا تو وہ داستانیں ہو گئیں۔ انسان اپنے ابتدائی دور میں فطرت پر پوری طرح غالب نہیں آ سکا تھا۔ وہ خونخوار درندوں کا شکار ہو جاتا تھا۔ کسی بیماری کے سبب موت کو وہ کسی روح کی کارگزاری سمجھتا تھا، علم کی کمی سے وہ طرح طرح کے مصائب و آلام کا شکار ہو جاتا اور مختلف طرح کے توہمات اس کے دل میں گھر کر جاتے۔ اس طرح اس کے قصوں میں جن، دیو، بھوت، پریت جگہ پانے لگے۔ انسان ہمیشہ سے خواہشات کا پتلا رہا ہے اور اس کی بہت سی خواہشات کی تکمیل حقیقی زندگی میں نہیں ہو پاتی۔ لیکن وہ اسے خوابوں کی دنیا میں پورا ہوتا دیکھتا۔ اس نے اپنی قوت تخلیہ سے ایسے سنہرے خواب دیکھے جن کی حقیقی زندگی میں تکمیل ممکن نہیں تھی۔ جن طاقتوں سے وہ حقیقی زندگی میں زیر ہو جاتا تھا انہیں داستانوں میں شکست دیتا اور اس کی مدد کیلئے ہوائی قالین، کل کا گھوڑا، مددگار تعویذ اور ایسی ٹوپی جس کے پہننے سے انسان سب کی نظروں سے غائب ہو جاتا، یہ اور اسی طرح کے کئی فسانوی عناصر ہوتے جو انسان کو طاقتور بلاؤں اور قوتوں کو شکست دینے میں مدد کرتے۔
داستانوں کے فروغ میں ایک فراری جذبہ بھی کارفرما تھا۔ لوگوں کی دنیا سپنوں کا سنسار تھی جو تلخیوں سے پناہ دیتی تھی یہاں پہنچ کر بے بسی اور بے کسی سے خلاصی ہو جاتی تھی بقول ڈاکٹر گیان چند جین:
’’یہاں کوئی بلا موجود نہ تھی جو تھیں انہیں زیر کر لیا گیا تھا ہیرو اور اس کے رفیقوں کی فتح داستان کے ہیرو کی فتح ہے ‘‘۔ ۴؎
اپنی عملی زندگی کی ناکامیوں کے بعد لوگ داستانوں میں غرق ہو جاتے اور اپنا غم غلط کرتے۔ داستانوں کا تعلق اس زمانے سے ہے جس وقت انسان کے پاس فرصت و فراغت کے لمحات تھے۔ شام کے اوقات میں لوگ مل بیٹھتے۔ ایک داستان گو ہوتا جو بادشاہ وقت اور عوام دونوں کو داستان کے سحر میں جکڑے رکھتا اور ہر شب داستان کو ایسے موڑ پر لا کر روکتا کہ اگلے دن لوگ تجسس میں کہ اب کیا ہو گا، پھر سے داستان سننے جمع ہو جاتے۔ داستان میں افیون کا سامزہ ہوتا تھا۔ لوگ اس نشے میں کھو کر خواب و خیال کی جنت میں چلے جاتے اور تخیل کے ذریعہ اونچی پروازیں اڑاتے۔ بقول وقار عظیم:
’’ یہ داستانیں بزم احباب میں سنائی جاتی تھیں، جہاں ’’ یاران با صفا‘‘ اس لئے یکجا ہوتے تھے کہ تخیل کی بنائی ہوئی حسین و جمیل دنیا کے نظاروں میں گم ہو کر اپنے اوپر خود فراموشی کی ایک کیفیت طاری کرسکیں ‘‘۔ ۵؎
داستانیں سننے سنانے کا یہ سلسلہ کئی دن جاری رہا۔ اس طرح ’’الف لیلی‘‘ ’’طلسم ہوشربا‘‘ جیسی طول طویل داستانیں وجود میں آئیں۔
داستانوں کا ایک اہم عنصر ان میں مافوق الفطرت عناصر، محیر العقول واقعات کی موجودگی ہے۔ ان کے بغیر کسی داستان کا وجود ممکن نہیں۔ داستانوں میں رزم بھی ہوتی ہے اور بزم بھی۔ اس میں جا بجا طلسماتی فضا بھی ہوتی ہے اور عیاری اور چالاکی بھی یہاں مافوق الفطرت عناصر داستانوں میں تحیر اور دلچسپی کا اضافہ کرتے ہیں۔ داستانوں کی مقبولیت کا ایک اور راز اس میں استعمال کی گئی قوت متخیلہ ہے۔ جس کے سہارے اونچی اڑانیں بھری گئیں ہیں اور نئے اور نامعلوم جہانوں کی سیر کی گئی ہے اور سارے ہفت خوان پلک جھپکتے میں طئے ہو جاتے ہیں، داستانیں، قصہ در قصہ کی ٹیکنیک پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اس میں کوئی مربوط پلاٹ نہیں ہوتا، اس کا مقصد سوائے قصہ گوئی کے اور کچھ نہیں۔
داستانیں چونکہ بادشاہوں، امراء کی فرمائش پر سنائی جاتی تھیں اور داستان گو دربار سے متعلق ہوتے تھے، چنانچہ داستانوں کے ہیرو ایسے جواں مرد ہوتے ہیں جو طاقت ہمت، جود و سخاوت، محبت، ایثار، حسن ہر چیز میں عدیم المثال ہیں اور ایسی جن کے حسن کی دونوں جہاں میں مثال ملنی مشکل ہو۔ عموماً داستانوں میں عشقیہ جذبہ کار فرما ہوتا اور اسی عشق کے جذبے میں داستانوں کے کردار در بدر ٹھوکریں کھاتے پھرتے۔ یا کبھی داستانوں میں کسی مقدس چیز کی تلاش مقصود ہوتی ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اس ضمن میں لکھتے ہیں :
’’کبھی یہ تلاش کسی پھول کی ہوتی ہے جو پھول بھی ہے اور کوئی بڑی بے مثل حسینہ بھی جیسے بکاولی، ’’روبن ڈی لاروز‘‘ کا گلاب، یہ ایک طرح سے راز عشق یا راز حیات یا راز حسن کی تلاش بھی ہے کبھی تلاش کے قصوں میں ہیرو کا مقصود کوئی ظرف مقدس یا نایاب پتھر ہے جو اعلیٰ ترین شوکت و شان شاہانہ کا رمز ہے ‘‘۔ ۶؎
داستانوں کی ایک اہم خصوصیت یہ رہی ہے کہ اس کا انجام ہمیشہ طربیہ ہوتا ہے۔ ’’کوئی داستان المیہ پر ختم نہیں ہوتی‘‘۔ ۷؎
داستانوں میں انسانوں کو شکست نہیں ہوتی۔ اگر انسان کو شکست ہوتی تو اس کے خواب چکنا چور ہو جاتے۔ چنانچہ داستانوں کا انجام طربیہ ہوتا ہے۔ داستانوں کا آخری جملہ بہت معنی خیز اور توجہ طلب ہوتا ہے۔ داستان سرا کا آخر میں یہ کہنا کہ ’’جس طرح ان کے دن پھرے اسی طرح خدا ہمارے دن بھی پھیر دے ‘‘۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ داستان گو اور داستان کے سننے والے اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہیں اور ایسی زندگی چاہتے ہیں جس کے سنہرے خواب انہوں نے داستان میں دیکھے تھے ‘‘۔ ’’باغ و بہار‘‘ کی آخری سطریں اس بات کی گواہی دیتی ہیں۔
’’الہی جس طرح چاروں درویش اور پانچواں بادشاہ آزاد بخت اپنی مراد کو پہنچے اسی طرح ہر ایک نامراد کا مقصد دلی اپنے کرم اور فضل سے برلا‘‘۔ ۸؎
داستانوں کی تہذیبی و معاشرتی اہمیت بھی ہے۔ ان سے قدیم دور کی معاشرت کا پتہ چلتا ہے۔ داستانوں کی اسی اہمیت کی وضاحت وقار عظیم یوں کرتے ہیں ‘‘۔
’’جس طرح غزل میں ہمارے مشرقی مزاج کے اکثر نازک اور پیچیدہ پہلوؤں کا عکس ہے۔ اسی طرح داستانیں ہماری تہذیبی زندگی اور اس کے بیشمار گوشوں کی مصور اور ترجمان ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ان کی ہر سطر میں تقریباً دیڑھ سو برس کی معاشرت، تہذیب اور انداز فکر و تخیل کا رنگ صاف چھلکتا نظر آتا ہے ‘‘۔ ۹؎
اردو زبان کی تاریخ پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اردو کا ابتدائی ادب شعر و شاعری پر مشتمل تھا۔ جنوبی ہند میں جہاں اردو زبان اپنے آغاز سے لے کر ۴۰۰(چارسو) برس تک پلتی بڑھتی ہے مثنوی نگاری کو خوب عروج حاصل ہوا، ان مثنویوں میں بھی داستانی طرز کے قصے نظم کئے جاتے تھے۔ اردو نثر جو کہ مسجع و مقفی عبارت آرائی سے آزاد نہیں ہوپائی تھی، اس میں ابتدائی کوششیں جاری تھیں، قطب شاہی عہد کے ایک شاعر و ادیب ملا وجہی نے ۱۰۴۵ھ میں دکنی زبان میں ’’سب رس‘‘ لکھی۔ جس کا ماخذ قصہ حسن و دل یا فتاحی نیشاپوری کی ’’دستورعشاق، ہے۔ ’’سب رس‘‘ کو داستان نویسی کا اولین نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ داستان تمثیلی انداز میں لکھی گئی تھی۔ لیکن حقیقی داستان گوئی کا زمانہ انیسویں صدی کے آغاز سے نصف تک ہے جب کہ شمالی ہند میں داستان نگاری شباب پر تھی۔ یہ زمانہ ہندوستان کی تاریخ میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ انگریزوں کے قدم ہندوستان میں مضبوطی سے جم گئے تھے، جو کچھ چھوٹی چھوٹی سلطنتیں جیسے اودھ، رام پور وغیرہ تھیں ان کے بادشاہ اور امراء انگریزی سرکار کے دست نگر اور کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے، اصل اقتدار انگریزوں کے ہاتھ چلا گیا تھا، صرف وضع داری باقی رہ گئی تھی، نوابان لکھنو کے زیر سرپرستی بے عملی اور عیش کوشی و عیش پرستی کو فروغ ملا، وقت گذاری کیلئے جہاں طرح طرح کے کھیل ایجاد ہوئے وہیں شعر و ادب میں جدتیں پیدا ہوئیں۔ درباروں سے شعراء ادیب منسلک تھے، چنانچہ اس عہد میں اکثر داستانیں لکھی گئیں۔ داستانوں کے فروغ کی ایک وجہہ فورٹ ولیم کالج کا قیام بھی ہے۔ اس کالج کا قیام1800ء میں عمل میں آیا جس میں انگریز ملازمین کی تعلیم و تربیت ہندوستانی زبان میں کی جاتی تھی تاکہ نظم و نسق چلانے میں سہولت ہو، چنانچہ ڈاکٹر جان گلکرائیسٹ نے جہاں علمی و ادبی کتابوں کا ہندوستانی زبان میں صاف و سلیس ترجمہ کروایا وہیں فارسی اور سنسکرت کی بیشتر اہم داستانوں کو صاف و سلیس زبان میں ترجمہ کرایا تاکہ انہیں پڑھ کر انگریز ملازمین ہندوستانی تہذیب و معاشرت سے واقف ہوسکیں۔
فورٹ ولیم کالج کے آغاز سے داستان نگاری کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ فورٹ ولیم کالج کی مشہور و معروف داستانیں میر امن کی ’’باغ و بہار‘‘ یا ’’قصہ چہار درویش‘‘ ہے، جو انہوں نے 1801ء میں تصنیف کی، میرا من نے کوئی نیا قصہ نہیں لکھا بلکہ ’’نو طرز مرصع‘‘ کو جو کہ فارسی میں تھی اردو زبان میں صاف و سلیس انداز میں اس طرح لکھا کہ اس کی دلچسپی دوبالا ہو گئی، اس داستان کی سب سے اہم خاصیت میرا من کا خاص اسلوب نگارش ہے۔ نثر کے اس دور میں جبکہ مقفی و مسجع عبارت آرائی کا دور دورہ تھا میرا من کی یہ ابتدائی کوشش تھی، جس نے اردو نثر کو سادگی و سلاست کی راہ دکھائی، میرا من کے علاوہ حیدر بخش حیدری نے ’’طوطا کہانی‘‘ 1801ء میں اور ’’آرائش محل‘‘1802ء میں تصنیف کیں، خلیل علی خان اشکؔ نے 1801ء میں داستان امیر حمزہ تصنیف کی، اسی زمانے میں بہادر علی حسینی نے ’’نثر بے نظیر‘‘ مظہر علی خان ولا اور للو لال نے ’’بیتال پچیسی‘‘ کاظم علی جواں اور للو لال کوی نے ’’سنگھاسن بتیسی‘‘ تصنیف کیں۔ یہ اس عہد کی مشہور و مقبول داستانیں تھیں پریس کے ایجاد ہونے کے بعد مشہور داستانوں کے دفتر کے دفتر شائع ہو کر مقبولیت دوام حاصل کرتے رہے، اسی زمانے میں انشاء اﷲ خان انشاء نے ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ اور ’’دریائے لطافت‘‘ لکھا، جس کی اہم خصوصیت ان میں ہندوستانی عناصر کا ہونا ہے۔ اس کے علاوہ محمد بخش مہجور کی ’’نورتن‘‘1814ء میں سرورؔ کی ’’فسانہ عجائب‘‘ نیم چند کھتری کی ’’گل صنوبر‘‘1837ء میں لکھی گئی داستانیں مشہور ہوئیں۔ غالبؔ کے زمانہ میں بھی داستانیں بڑے شوق سے پڑھی اور سنائی جاتیں تھیں۔ غالبؔ کی داستانوں سے دلچسپی کا اظہار ان کے ایک خط سے ہوتا ہے۔
’’مرزا غالب رحمۃ اﷲ علیہ ان دنوں خوش ہیں۔ پچاس ساٹھ جزو کے کتاب امیر حمزہ کی داستانیں اور اسی قدر حجم کی ایک جلد بوستان خیال کی آ گئی ہے۔ سترہ بوتلیں بادہ ناب کی تو شک خانہ میں موجود ہیں دن بھر کتاب دیکھا کرتے ہیں رات بھر شراب پیا کرتے ہیں ‘‘ ۱۰؎
دہلی، اودھ، رام پور، بنارس، حیدرآباد کے درباروں میں بادشاہ و امراء کے زیر سرپرستی اس دور میں داستانوں کو خوب فروغ ہوا۔ اور بوستان خیال، داستان امیر حمزہ، طلسم ہوشربا اور الف لیلیٰ جیسی ضخیم داستانیں بھی لکھی گئیں اور بیتال پچیسی، سنگھاسن بتیسی، طوطا کہانی اور انشائے نورتن جیسی مختصر داستانیں بھی۔
1857ء کے بعد ہندوستان کے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور معاشی حالات میں بڑا تغیر آیا۔ اس سال انگریزوں کے خلاف پہلی جنگ آزادی لڑی گئی جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا۔ اس جنگ میں ہندوستانیوں کو شکست ہوئی۔ رہی سہی چھوٹی چھوٹی سلطنتیں بھی انگریزوں کے قبضے میں چلی گئیں۔ اس جنگ میں شکست سے عوام کے حوصلے پست ہو گئے اور ان کی سیاسی، سماجی، معاشرتی، تہذیبی زندگی میں بڑا تغیر آیا، جاگیردارانہ نظام کے خاتمہ سے امراء کو اپنی وضع داری نبھانا مشکل ہو گیا تھا۔ معاشرہ کی اس شکست کا اثر ادب پر بھی پڑا، اور اس بات پر زور دیا گیا کہ ادب کے ذریعہ زندگی کی کشمکش کو پیش کیا جائے اس تعلق سے حالیؔ لکھتے ہیں۔
’’ہر بات کا ایک محل اور ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ عشق و عاشقی کی ترنگیں اقبال مندی کے زمانہ میں تھیں، اب وہ وقت گیا، عیش و عشرت کی رات گذر گئی، اور صبح نمودار ہوئی۔ اب لنگڑے اور بھاگ کا وقت نہیں رہا، جو گئے کی الاپ کا وقت ہے ‘‘۔ ۱۱؎
اسی بیداری کے جذبہ و احساس کو لے کر سرسید احمد خان نے ایک تحریک چلائی جسے تاریخ میں علیگڑھ تحریک کے نا م سے جانا جاتا ہے۔ سرسید نے اپنے رفقاء کی ایک جماعت بنائی تھی۔ جس میں حالیؔ، آزادؔ، نذیر احمدؔ، محسن الملکؔ، وقار الملکؔ وغیرہ ذی شعور لوگ شامل تھے۔ انہوں نے ادب کے مختلف اسالیب کو اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا، اور ادب برائے زندگی کے نظریہ کو فروغ دیا۔ اس طرح قوم میں بیداری کی روح پھونکی، چنانچہ جہاں حالیؔ، آزادؔ نے قومی و نیچرل شاعری کی بنیاد ڈالی وہیں نذیر احمد قدیم داستانی قصوں کے بجائے ایسے قصے لکھے جس میں زندگی اور اس کے مسائل کا بیان ہو۔
اس طرح غیر شعوری طور پر لکھے گئے نذیر احمد کے یہ اصلاحی قصے اردو ناول کے ابتدائی نقوش بن گئے ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں :۔
’’انیسویں صدی کے آخری ربع میں ناولوں کا دور شروع ہو جاتا ہے نذیر احمدؔ نے پہلا ناول لکھ کر داستان کو پیغام مرگ سنادیا‘‘۔ ۱۲؎
ناول کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ ناول کیا ہے ؟ اور کیوں اور کیسے وجود میں آیا۔ ؟
’’ناول دراصل اطالوی (ITALIAN) زبان کے لفظ (NOVELLA) سے مشتق ہے جو انگریزی کے توسط سے اردو میں آیا‘‘۔ ۱۳؎ ۔ انگریزی میں لفظ NOVEL نئے کے معنوں میں استعمال ہوتا رہا ہے چونکہ ناول قدیم طرز کے قصوں سے جدا ہے اور اس میں ایک نیا پن پایا گیا ہے، اس لئے اسے ناول کہا گیا ہے۔ مغرب کے بیشتر ادیبوں نے ناول کی مختلف تعریفیں کی ہیں۔ ای۔ ایم فارسٹر نے ناول کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ
’’ناول ایک خاص طوالت کا نثری قصہ ہے ‘‘۔ ۱۴؎
ہنری جیمس رقم طراز ہے :
’’ناول اپنی وسیع ترین تعریف میں زندگی کا شخصی اور راست اثر ہے ‘‘۔ ۱۵؎
لیکن یہ تعریفیں ناول کا مکمل احاطہ نہیں کرتیں، سہیل بخاری ناول کی تعریف یوں کرتے ہیں :۔
’’ناول اس نثری قصے کو کہتے ہیں جس میں کسی خاص نقطہ نظر کے تحت زندگی کی حقیقی اور واقعی عکاسی کی گئی ہو‘‘۔ ۱۶؎
آل احمد سرورؔ کے بموجب :
’’ناول ایک بیانیہ فارم ہے اس میں ایک مثالی عمل ہوتا ہے۔ جس کی موضوعی اہمیت ہے۔ اور جو اس کے ساتھ مخصوص ہے، ناول معصومیت کے عالم سے Typical تجربے کی منزل تک کے سفر کا بیان ہے۔ اس نادانی جو بڑے مزے کی چیز ہے۔ یہ آدمی کو زندگی کے واقعی روپ کے عرفان تک لاتی ہے ‘‘۔ ۱۷؎
اس سلسلہ میں ڈاکٹر یوسف سرمست نے بڑی اچھی بات کہی، وہ لکھتے ہیں کہ :
’’ناول کا فن زندگی کو پیش کرنا ہے اس کی باز تخلیق کرنا ہے، لیکن خود زندگی بڑی ہی بے کراں اور بے کنار چیز ہے، اس کا کوئی اور ہے نہ چھور، ناول کی تمام تر کوشش زندگی کو بھرپور طریقے پر پیش کرنے پر مرکوز ہوتی ہے، اور زندگی کو کوئی حد بندی نہیں کی جا سکتی اس کو محدود نہیں کیا جا سکتا، اس لئے ناول کی بھی کوئی جامع اور مانع تعریف نہیں کی جا سکتی‘‘۔ ۱۸؎
ناول فسانوی ادب کی وہ صنف سخن ہے جس میں بیانیہ انداز ہوتا ہے، قصہ اور واقعیت کے ساتھ زندگی کے ایک یا کئی پہلوؤں کو ایک مقصد ایک نقطہ نظر کے تحت پیش کیا جاتا ہے اسی لئے ناول کو زندگی کی روشن کتاب ’’تہذیب کا عکاس نقاد اور پاسبان کہا گیا، کیونکہ اس میں انسان کی حقیقی زندگی کو صداقت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ ناول کا فن انسانی معاشرے کی سرگرمیوں اور ان سے پیدا ہونے والی مختلف کیفیتوں کو پیش کرتا ہے ناول میں تخیل کے برخلاف حقیقت پر زور دیا جاتا ہے زندگی کے مسائل کا بیان اور ان کا حل پیش کیا جاتا ہے لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر زندگی سے ایک ناول نگار بھی تجربات حاصل کرتا ہے اور ان حاصل شدہ تجربوں کو ایک مخصوص نقطہ نظر کیساتھ فنی پیرائے میں ڈھالتا ہے۔ ہر ناول نگار کا نقطہ نظر یا نظریہ حیات جدا جدا ہوتا ہے۔ نذیر احمد مذہبی نقطہ نظر کے حامل تھے، راشد الخیری نے عورت کی مظلومیت کا بیان کیا ہے۔ سرشار کی نظر میں دنیا میں بے فکر ے لوگ زیادہ ہیں، شرر کے ناولوں کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ابھرتا ہے کہ عیسائی کے مقابلے میں مسلمان زیادہ جری اور بہادر ہیں۔ ’رسواکی ’’امراؤ جان‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ طوائفوں میں بعض پاک دامن بھی ہوا کرتی ہیں، کرشن چندرکا خیال اگر سیاسی انقلاب پر قائم ہے تو سعادت حسن منٹو جنسیات سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں غرض ہر ناول نگار کا نقطہ نظر جدا جدا ہوتا ہے۔ موضوعات کے لحاظ سے ناول کی کئی قسمیں ہیں۔ لیکن انہیں عموماً دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک رومانی دوسرے نفسیاتی۔ رومانی ناولوں میں واقعات پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور اس سے حظ، تفریح، اصلاح یا مسرت آفرینی کا کام لیا جاتا ہے۔ اس میں عام طور سے مسائل پر بحث نہیں ہوتی، بلکہ اس کا رجحان عجائب نگاری، مثالیت پسندی، محبت شعاری، بزم آرائی، جنگ آرائی، حسن آفرینی غرض ایسے پہلوؤں کی جانب رہتا ہے جہاں تخیل کے ذریعہ اونچی اڑانیں بھری جا سکتی ہیں، اس سے متعلقہ اقسام میں عشقیہ، علمی، تبلیغی، جاسوسی، تاریخی، مہماتی، سیاحتی، سائنسی وغیرہ ناول ہیں۔ اس کے برعکس ناول کی دوسری بڑی قسم نفسیاتی ناولوں میں تخیل کو اتنی آزادی نہیں، یہاں حقیقت نگاری زیادہ ہوتی ہے، ناول نگار پابند ہوتا ہے اس میں معاشرت، سیرت و کردار اور نفسیاتی تجزئیے ہوتے ہیں۔ یہ ناول کسی ملک کی رسم و رواج، آداب و قواعد، مشاغل و معمولات اور عقائد و رجحانات وغیرہ کی گویا اس کی معاشرت کی ہو بہو تصویر کشی کرتے ہیں یا کسی شخص کی سیرت بیان کرتے ہیں اور اس کی داخلی اور خارجی زندگی کا تصادم دکھاتے ہوئے کردار کے ارتقاء کو بیان کرتے ہیں۔ یا تحلیل نفسی کے ذریعہ لاشعور کی گتھیاں سلجھاتے ہیں۔
ناول کے کچھ فنی لوازم ہوتے ہیں جن کے بغیر ایک کامیاب ناول کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ناول کیلئے موضوع کا ہونا ضروری ہے۔ موضوع کے انتخاب کے بعد ہی ناول نگار اپنے نقطہ نظر کی حد بندی کرسکتا ہے۔ ایک اچھا پھیلا ہوا مربوط پلاٹ ناول کی کامیابی کا ضامن ہوتا ہے، ناول میں قصہ پن یا واقعیت کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر ناول میں دلچسپی قائم نہیں رہ سکتی۔ خلوص مقصد اور منطقی تسلسل ناول کا اہم عنصر ہے۔ ناولوں میں کردار ہوتے ہیں جو قصے کو آگے بڑھاتے ہیں کرداروں کا تعلق حقیقی زندگی سے ہونا چاہئے۔ کامیاب کردار وہ ہوتے ہیں جو ناول نگار کے ہاتھوں کٹھ پتلی نہیں بنتے۔ کردار نگاری کے علاوہ منظر نگاری، مکالمے، زبان و بیان، اتحاد، زمان و مکان، نظریہ حیات یہ چند عناصر ہیں جن کے ایک خاص تناسب میں ملنے سے ایک ناول کی تشکیل ہوتی ہے ان عناصر میں اعتدال ایک اچھے ناول کی نشانی ہے۔
مغرب میں ناول نگاری کا آغاز اٹھارویں صدی عیسوی ہی میں ہو چکا تھا۔ اس سے قبل وہاں ایسے قصے لکھے جاتے تھے جو رومانس کے نام سے مشہور تھے۔ جس میں تخیل کے سہارے حسین زندگی کے مرقعے کھینچے گئے تھے۔ لیکن یورپ کے صنعتی انقلاب نے وہاں ایک عظیم انقلاب برپا کیا اور زندگی تغیرات سے دوچار ہوئی۔ زندگی کی تیز رفتاری، ترقی نے جہاں معاشرت میں تبدیلی ہوئی اس کا اثر وہاں کے ادب پر بھی پڑا۔ اور تخیلی قصوں کی جگہ حقیقی زندگی کو ادب میں پیش کیا جانے لگا۔ اور ناول نگاری کا آغاز ہوا، چنانچہ انگریزی کا پہلا مکمل ناول سیمویل رچرڈسن کا ’’پامیلا‘‘ ہے۔ ہندوستان میں اس کے لگ بھگ سوبرس بعد ناول نگاری کا آغاز ہوتا ہے۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد یہاں کی زندگی میں بڑا تغیر آیا، زندگی کی متزلزل بنیادوں کو سہارا دینے اور انہیں مضبوطی عطا کرنے کیلئے چند مصلحین قوم اٹھ کھڑے ہوئے، اور انہوں نے زندگی اور ادب دونوں میں اصلاح کے کام شروع کئے، اسی سلسلے میں نذیرؔ احمد کا نام اہم ہے۔ جنہوں نے قدیم طرز کی قصہ گوئی کو ترک کرتے ہوئے ایسے قصے لکھنے شروع کئے جس میں حقیقی زندگی کے مسائل کا بیان ہو، چنانچہ ۱۸۶۹ء میں انہوں نے اپنا پہلا ناول ’’مراۃ العروس‘‘ تصنیف کیا، اردو کے محققین میں اردو کے پہلے ناول نگار کے تعین کے سلسلے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے، بعض محققین نذیر احمدؔ کو پہلا ناول نگار مانتے ہیں اور بعض مولوی کریم الدین کو جنہوں نے ایک تمثیلی قصہ ’’خط تقدیر‘‘ کے نام سے لکھا تھا۔ جس کی اشاعت ۱۸۶۴ء میں عمل میں آئی۔ محمود الہیٰ مولوی کریم الدین کو اردو کا پہلا ناول نگار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ’’انہوں (مولوی کریم الدین) نے نہ صرف یہ کہ اردو میں پہلی بار ناول لکھا بلکہ اسے سماج کے مختلف طبقوں کا نمائندہ بنانے کی کوشش کی‘‘۔ ۱۹؎
تاریخی اعتبار سے ’’خط تقدیر‘‘ کو ’’مراۃ العروس‘‘پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن اردو کے بیشتر ناقدوں نے نذیر احمد کو ہی اردو کا پہلا ناول نگار مانا ہے حالانکہ نذیر احمد کے ناول بھی موجودہ ناول کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے، اسی لئے احسن فاروقی انہیں تمثیلیں کہتے ہیں :۔
’’ان تصنیفات کے واقعی پہلو پر نظر کرتے ہوئے ان کو ناولیں بھی کہہ دیا گیا ہے اور یہ غلطی عام ہو گئی ہے کہ مولانا اردو کے پہلے ناول نگار ہیں ان کی تصنیفات اسقدر کھلی ہوئی تمثیلیں ہیں کہ ان کو ناول کہنے والوں پر تعجب ہوتا ہے یہ بنیادی طور پر تمثیلیں ہیں ‘‘۔ ۲۰؎
نذیر احمد کے ناولوں میں بیشتر کردار مختلف اوصاف کے حامل ہیں اور ان میں ایک طرح کی مثالیت دکھائی دیتی ہے اس کے باوجود ان کے قصوں کو تمثیلیں کہہ کر ان کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا اور بقول وقار عظیم:۔
’’یہ صحیح ہے کہ نذیر احمد کے قصے اس مفہوم میں ناول نہیں ہیں جو ہم نے مغرب سے لیا ہے، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ ناول کی داغ بیل انہی قصوں نے ڈالی‘‘۔ ۲۱؎
اور بقول ہارون ایوب کے :
’’اردو ناول نگاری میں نذیر احمد پہلے ناول نگار ہیں جنہوں نے کہانی اور کرداروں کو ان کے حقیقی روپ میں پیش کیا‘‘۔ ۲۲؎
نذیر احمد کے ناولوں میں بے شک وہ فنی لوازم نہیں جو کہ ایک ناول کیلئے ضروری خیال کئے جاتے ہیں لیکن نذیر احمد نے ایک نئے طرز کی بنیاد ڈالی تھی۔ اس لئے ان لوازم کی تلاش نذیر احمد کے ہاں پوری نہیں ملتی۔ نذیر احمد نے اصلاح کا بیڑہ اٹھایا تھا، اور معاشرہ کی بدحالی، اخلاق کی درستگی، تعلیم و تربیت کو درست کرنے کیلئے، انہوں نے اپنی بچیوں کو یہ قصے لکھ کر دئیے اور جب یہی قصے ۱۸۶۹ء میں ’’مراۃ العروس‘‘ کے نام سے چھپ کر شائع ہوئے تو انہیں قبولیت دوام حاصل ہوئی، اس طرح کی مقبولیت کے بعد انہوں نے اور کتابیں لکھنی شروع کیں، جن میں ناول کے فنی لوازم آتے گئے۔ نذیر احمدؔ نے بہت سے ناول لکھے جن میں ’’مراۃ العروس‘‘ ’’بنات النعش‘‘ ’’توبۃ النصوح‘‘ ’’ابن الوقت‘‘ ’’محصنات‘‘ ’’ایامیٰ‘‘’’ رویائے صادقہ‘‘’’ منتخب الحکایات‘‘ شامل ہیں۔ ’’مراۃ العروس‘‘ میں واعظانہ رنگ پورے طور پر دکھائی دیتا ہے اس میں دو متضاد لڑکیوں کے کرداروں کو پیش کرتے ہوئے نذیر احمد نے درس و تدریس کا کام بڑے سلیقہ سے لیا ہے۔ ’’بنات النعش‘‘ میں ’’مراۃ العروس‘‘ کا رنگ غالب ہے، ’’توبۃ النصوح‘‘ میں اور ’’ابن الوقت‘‘ میں مغرب پرستی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے اسلام کی بڑائی کا ذکر ہے۔ ’’ابن الوقت‘‘ کے کردار ’’حجۃ الاسلام‘‘ میں خود نذیر احمد کی جھلک دکھائی دیتی ہے کردار کی نفسیاتی پیشکشی کے لحاظ سے ان کا ناول ’’فسانہ مبتلا‘‘ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
نذیر احمد کے ناولوں کے کرداروں کا تعلق حقیقی زندگی کے مختلف طبقات سے ہے۔ قدیم قصوں میں صرف طبقہ امراء کے کردار ہوا کرتے تھے۔ نذیر احمد کے ناولوں میں عوام پہلی مرتبہ شامل ہوتے ہیں۔ ان ناولوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ اردو کے پہلے ناول ہیں جو بچوں اور بچیوں کے پڑھنے کے لئے لکھے گئے۔ عورتوں کی تعلیم کی نذیر احمد کو بہت فکر تھی وہ سمجھتے تھے کہ تربیت اولاد اور اصلاح رسوم کا کام اس وقت تک انجام نہیں دیا جا سکتا جب تک عورتوں میں تعلیم عام نہ ہو۔ انہوں نے اپنے ناولوں کے ذریعہ دینداری، خدا پرستی اور اصلاح معاشرہ کی تبلیغ کی۔ نذیر احمد قدیم تہذیب کے پرستار تھے، انہوں نے مغربی تہذیب کی یلغار کو روکنا چاہا، نذیر احمد نے اپنے ناولوں کے ذریعہ اور اکبرؔ نے اپنی طنزیہ شاعری کے ذریعہ مغرب کی بے جا رسوم و بگڑی ہوئی تہذیب کا خوب مذاق اڑایا۔ لیکن نذیر احمد تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کرتے تھے۔ نذیر احمد چونکہ ابتدائی ناول نگار ہیں اس لئے ان کے ہاں کچھ فنی خرابیاں واضح دکھائی دیتی تھیں۔ ان کے ناولوں کے پلاٹ کمزور ہیں۔ واقعیت اور قصہ پن کم اور وعظ و نصیحت کے لکچر زیادہ ہوتے ہیں اس کے باوجود ان کے کرداروں میں تعمیر کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ ان کے ناولوں کی زبان سلیس اور با محاورہ ہے۔
حقیقت میں نذیر احمد کے ناول داستانوں سے انحراف کرتے ہوئے اردو ادب میں ایک نئے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اردو ناول نگاری کو بعض ایسی مستحکم روایات دیں کہ آج بھی اردو ناول نگاری ان سے کسی نہ کسی طرح استفادہ حاصل کر رہی ہے۔
ناول کے اس تشکیلی دور میں نذیر احمد کے بعد بڑا نام پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ہے۔ جنہوں نے متعدد ناول لکھے جن میں ’’کڑم دھڑم‘‘ ’’کامنی‘‘ ’’رنگے سیار‘‘’’طوفان بدتمیزی‘‘’’سیرکہار، جام سرشار، پچھڑی دلہن، ’ پی کہاں، اور ’چنچل نار‘‘ شامل ہیں۔ مگر ان کا ناول ’’فسانہ آزاد‘‘ بہت مقبول ہوا جو کہ اودھ پنچ میں طویل عرصہ تک قسط وار شائع ہوتا رہا۔ ’’فسانہ آزاد‘‘ اس عہد کا شاہکار ہے۔ سرشار نے اس ناول میں آخری زمانہ کے لکھنو کی تہذیب و تمدن کا حقیقی نقشہ کھینچا ہے۔ اس عہد کی محفلوں، مجلسوں، بازاروں، میلے ٹھیلوں، تعزیہ داری، عرسوں اور مشاعروں کی سیر کراتے ہوئے سرشار نے زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں چھوڑا جس سے ہم متعارف نہ ہوں۔ وقار عظیم، سرشار کے ناول نگاری کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’سرشار اردو کے پہلے ناول نگار ہیں، جنہوں نے زندگی کے پھیلاؤ اور اور اس کی گہرائی پر احاطہ کرنے کی طرح ڈالی اور اردو ناول کو اس کے بالکل ابتدائی دور میں ایک ایسی روایت سے آشنا کیا جسے فنی عظمت کا پیش خیمہ کہنا چاہئے۔ سرشار نے لکھنوی معاشرے کو اپنا موضوع بنایا اور اس موضوع کو منتخب کرنے کے بعد اس بات کو اپنا منصب جانا کہ اس معاشرے کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کی اس طرح مصوری کریں کہ دیکھنے والے ان سب پہلوؤں کو جیتا جاگتا اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں ‘‘۔ ۲۳؎
’’فسانہ آزاد‘‘ میں کرداروں اور واقعات کی بھیڑ بھاڑ دکھائی دیتی ہے، آزادؔ اور خوجی کے کردار بہت مشہور ہوئے۔ خوجی کے کردار کے پس منظر میں اس عہد کے لکھنوی مزاج اور تہذیب و معاشرت پر ایک طنز بھی ہے جس میں تلخی کی جگہ قہقہے ہیں۔ ’’فسانہ آزاد‘‘ میں معاشرتی پہلوؤں اور واقعات کے سوا کوئی دوسرے فنی عنصر مکمل نہیں۔ اس میں کوئی واضح پلاٹ نہیں۔ قصہ کا آغاز، ارتقاء کشمکش اور انجام جسے منطقی تسلسل کہتے ہیں وہ نہیں ہے۔ یہ ایک طرح کا مہماتی ناول ہے جس میں مختلف کرداروں کے واقعات کا بیان ہوا ہے۔ ان واقعات میں کیا؟ اور کیوں ؟ کے بجائے دلچسپ واقعات، ہنسی مذاق چٹکلے، لطیفے، فقرے بازیاں، دلچسپی بڑھاتے ہیں اپنی طوالت کے پیش نظر اسے داستان کے سلسلے سے ملانا چاہئے، لیکن اپنی حقیقت نگاری واقعات کے بیان، کرداروں کی تخلیق کے اعتبار سے ناولوں میں حصہ پاتا ہے۔ سرشار کے بعد اس دور کے تیسرے بڑے ناول نگار عبدالحلیم شرر ہیں انہیں تاریخی ناول نگاری کا بانی کہا جاتا ہے، تاریخی ناول نگار تاریخ کا ایک شعور رکھتا ہے، اور بعض تاریخی واقعات اور کرداروں کو اپنے ناولوں میں بطور پس منظر استعمال کرتا ہے۔ نذیر احمد نے اصلاح معاشرہ کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، شرر نے اسے جاری رکھا، شرر کا اس بات پر ایقان تھا کہ اسلاف کے شاندار کارناموں کو یاد دلاکر اخلاف میں ایک نئی قوت عمل، ولولہ اور جوش پیدا کیا جائے، چنانچہ انہوں نے تاریخ اسلام کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا، اس کی ایک وجہہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ انگلستان اور یوروپی ممالک کی سیاحت کے دوران انہوں نے آ سکاٹ کے تاریخی ناول ’’طلسمان‘‘ کا مطالعہ کیا تو اس کا گہرا اثر ان پر پڑا۔ ان کا تاثر تھا کہ اس ناول میں اسلام کا مذاق اڑایا گیا۔ چنانچہ انہوں نے رد عمل کے طور پر جوابی ناول لکھنے کا عزم کیا۔ تاکہ اسلام کی عظمت اور سربلندی کو دکھلایا جائے، پھر ایسے ناول لکھے جن میں اسلامی تاریخ کے اوراق ماضی تازہ کئے گئے تھے۔ شرر کے ناولوں میں یہ شعوری مقصد نمایاں ہے، شرر انگریزی جانتے تھے، اور انہوں نے اپنے ناولوں میں انگریزی ناول کے فن کو پوری طرح برتا، واقعات کے بیان میں انہوں نے مسلمان فوجوں کے جاہ و جلال، شان و شوکت کا تذکرہ بڑے زور و شور سے کیا۔ ان کے ناولوں میں مکالمے طویل ہوتے ہیں، مسلمان ہی ان کے ناولوں کے ہیرو ہیں، اور وہ ہی ہمیشہ فتح یاب اور ظفر مند ہوتے ہیں، شرر نے تاریخی ناولوں کے کردار اور واقعات و مقامات تاریخ سے لئے ہیں، لیکن انہیں پیش کرنے میں مقامی فضا اورمقامی رنگ کو اختیار کیا، جسے تاریخی ناول نگاری کا عیب سمجھا جاتا ہے۔ اس عیب سے قطع نظر ان کے ناول فن پر پورے اترتے ہیں، شرر کے ناولوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ ان کی پہلی کاوش ’’ملک العزیز ورجنا‘‘۱۸۸۸ء میں قسط وار چھپی اور مکمل ہوئی۔ ۲۴؎
یہ ناول اور ان کے دوسرے ناول ’’حسن انجلینا‘‘ ’’منصور موہنا‘‘ ان کے مشہور رسالے ’’دل گداز‘‘ میں قسط وار شائع ہوئے۔ شرر کے ناولوں میں ’’ایام عرب‘‘ ’’فلورا فلورینڈا‘‘ ’’فتح اندلس‘‘’’حسن کا ڈاکو‘‘ اور’’فردوس بریں ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ناول ’’فردوس بریں ‘‘ کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ منظر نگاری اور کردار نگاری اس ناول میں اعلیٰ پائے کی ہے، ’’شیخ علی وجودی‘‘ کا کردار فن کاری کا نمونہ ہے۔ انہوں نے بعض اصلاحی ناول بھی لکھے جیسے ’’دربار حرام پور‘‘ ’’آغا صادق کی شادی‘‘ اور ’’بدرالنساء کی مصیبت‘‘ لیکن انہیں مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود شرر نے اپنی ناول نگاری کے ذریعہ فن کے مسلمہ اصول پیش کئے۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں پر تکلف منظر نگاری، رنگین اشعار زبان کے لطف، چاشنی اور چٹخارے اور ایک خاص قسم کی انشاء پردازی کو بہترین انداز میں ناولوں میں سمویا ہے، وقار عظیم کے بموجب:
’’ مغربی فن کی مبادیات اور مشرقی مزاج کی شوخی اور رنگینی کا امتزاج شرر کی قائم کی ہوئی روایت ہے، اور اس روایت کی پیروی اور تقلید ہمارے ناول نگاروں نے جتنی زیادہ کی ہے کسی اور روایت کی نہیں کی‘‘۔ ۲۵؎
بیسویں صدی کے اس دور میں جس میں نذیر احمد، سرشاراور شرر نے ناول نگاری کی۔ ان کے اہم رجحانات ہندوستان کی سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی زندگی سے وابستہ رہے اور اپنے ناولوں میں ان اثرات کو نمایاں کیا۔ ادب چونکہ خلاء میں تخلیق نہیں ہوتا، اس لئے معاشرہ، تہذیب و تمدن کے اثرات اس پر اثرانداز ہوتے ہیں، انسانی زندگی کے تغیرات کا اثر براہ راست ادب پر پڑتا ہے، حالانکہ ناول کے ارتقاء کی ابتدائی کڑیاں داستان گوئی سے وابستہ ہیں، لیکن یہاں کے وہ سیاسی، سماجی اور معاشی انقلاب ہی تھے جنہوں نے ادب کو گریز، فرار، تفریح اور عیش پرستی سے نکال کر اسے حقیقت پسندی، عمل اور جدوجہد کے دائرے میں داخل کیا۔ 1857ء کے بعد جب لوگوں کی آنکھیں کھلیں اور حقائق نظر آنے لگے تو ادب میں بھی زندگی کے حقائق پیش ہونے لگے اور اس حقیقت کے پیش کرنے کیساتھ ماضی کی عظمتیں بھی دکھائی گئیں تاکہ حال کی پستی کا احساس ہوسکے۔ جہاں نذیر احمد نے اپنے ناولوں سے اصلاح معاشرت کا کام لیا وہیں شرر نے مسلمانوں کی تاریخی عظمت کو بیان کرتے ہوئے اپنے دور کے لوگوں کی پستی و زبوں حالی کا ذکر کیا اور انہیں خواب غفلت سے جگانے کا کام کیا۔ سرسید نے بعض سیاسی اور معاشی مصلحتوں کے پیش نظر ’’مغرب کی پیروی‘‘ پر زور دیا۔ وہ رجحان ادب میں بھی آیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اکبر کے ذریعہ مغرب بیداری اور مشرق پرستی پر چوٹیں بھی جاری رہیں، نئی اور پرانی اقدار کی کشمکش کے یہ رجحانات اس دور کے ناولوں میں پوری طرح نظر آتے ہیں۔
اس دور میں حالی نے بھی اصلاحی رنگ میں ایک ناول ’’مجالس النسائ‘‘ لکھا۔ لکھنو میں ’’اودھ پنچ‘‘ کے ایڈیٹر منشی سجاد حسین کی کتابیں جس میں ’’حاجی بغلول، ’’طرح دار لونڈی‘‘ ’’میٹھی چھری‘‘ ’’کایا پلٹ‘‘ ’’شیخ چلی‘‘ ’’احمق الذین‘‘ ’’پیاری دنیا‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ناول کی ساخت پر لکھی گئی۔ منشی سجاد حسین کے علاوہ نواب سید محمد آزاد جن کا ناول ’’نوابی دربار‘‘1878ء اور جوالا پرشاد برق کے ناولوں کے ترجمے جن میں ’’مار آستین‘‘ اور ’’پرتاپ روہنی‘‘ مشہور نام ہیں۔
نذیر احمد کی قائم کردہ روایتوں کے آگے بڑھانے والے ان کے ہی ایک عزیز راشدالخیری ہیں۔ نذیر احمد، راشد الخیری کے پھوپا تھے، ان کی ذہنی تربیت میں نذیر احمد کا بڑا ہاتھ تھا ان کے ناول دراصل ’’توبۃ النصوح‘‘ اور ’’بنات النعش‘‘ کے سلسلے کی کڑیاں ہیں، انہوں نے بھی نذیر احمد کی طرح لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کو اپنے ناولوں کا خاص موضوع بنایا۔ انہوں نے خاص طور پر ان مصائب و آلام کا ذکر کیا جن میں خواتین اس وقت گرفتار تھیں۔ عورتوں کی مظلومی ان کی توہم پرستی، کینہ پروری اور مہم رسومات کو ختم کرنے کیلئے انہوں نے آواز اٹھائی چونکہ ان کے ناولوں کا انجام اکثر و بیشتر المیہ پر ہوتا تھا اس لئے انہیں ’’مصور جذبات‘‘ مصور الم اور ’’مصور غم‘‘ کہا گیا اس کے باوجود ان کے ہاں غم کا وہ پر اثر اور آفاقی تصور نہیں جو ایک المیہ میں ہوتا ہے۔ وہ اس تاثر کو پوری طرح ابھار نہیں سکے، ان کی تصانیف میں ’’صبح زندگی‘‘ ’’شام زندگی‘‘ ’’نوحہ زندگی‘‘ ’’عروس کربلا‘‘ ’’سیدہ کا لال‘‘ ’’منازل سائرہ‘‘ ’’حیات صالحہ‘‘ نوبت پنچ روزہ‘‘ ’’سیلاب اشک‘‘ جوہر عصمت، تحفہ شیطان‘‘ ’’بنت الوقت‘‘ ’’نانی ہشو‘‘ ’’بیلہ میں میلہ‘‘ وداع خاتون‘‘ ’’شب زندگی‘‘ اور ماہ عجم‘‘ قابل ذکر ہیں۔ راشد الخیری نے پہلی مرتبہ ان ناولوں میں عورت کے مسائل کو عورت کی نظر سے دیکھا اور ایک مخصوص طبقہ کی ہمدردانہ حمایت کی روش ڈالی۔ اس دور کے دوسرے ناول نگاروں میں سجاد حسین کسمنڈوی، محمد علی طیب، قاری سرفراز حسین عربی اور دوسرے ناول نگاروں نے ناول کی روایتوں کو فروغ دینے کی کوشش کی، مگر بحیثیت مجموعی ان میں کوئی ناول کے فکر و فن کی ترقی کی طرف قدم نہیں بڑھا سکا، اس کے فوراً بعد مرزا سوا کی ناول نگاری کا دور سامنے آتا ہے، مرزا محمد ہادی رسوا عام طور سے ’’امراؤ جان ادا‘‘ کے مصنف کی حیثیت سے تاریخ ادب میں مشہور ہیں، ان کا ناول1899ء میں شائع ہوا۔ رسوا نے جملہ پانچ ناول لکھے جن کے نام یہ ہیں۔ ’’افشائے راز’’ ’’اختری بیگم‘‘ ’’ذات شریف‘‘ ’’شریف زادہ‘‘ ’’امراؤ جان ادا‘‘ یہ تمام ناول معاشرتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی آئینہ داری کرتے ہیں لیکن ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ فنی طور پر ان کی بہترین تخلیق ہے، کہنے کو تو اس ناول میں ’’امراؤ جان‘‘ نامی ایک لکھنوی طوائف کا قصہ ہے۔ طوائفوں کا ذکر پہلے ناولوں میں بھی ملتا ہے لیکن اس ناول میں رسوا نے لکھنو کے انحطاط پذیر معاشرے وہاں کی تہذیب کی اس کے علاوہ جذبات انسانی کی مصوری کا کمال دکھایا ہے۔ ڈاکٹر مجتبیٰ حسین لکھتے ہیں :
’’اس ناول (امراؤ جان ادا) میں طوائف نہ صرف ایک سماجی علامت ہے بلکہ وہ معصومیت کا المیہ بن جاتی ہے۔ یہاں معصومیت اغوا کی جاتی ہے بیچی جاتی ہے مجروح کی جاتی ہے اور آخر میں بھلا دی جاتی ہے اس طرح یہ ناول خیر و شر کی بڑی علامت بن جاتا ہے ‘‘۔ ۲۶؎
یہ ناول فنی اعتبار سے ایک کامیاب ناول ہے قصہ میں ترتیب ربط اور تسلسل ہے۔ کردار نگاری پورے عروج پر ہے، ناول کا پلاٹ سلجھا ہوا ہے، زبان و بیان کے لحاظ سے بھی یہ ایک بے عیب تصنیف ہے۔ ’’امراؤ جان‘‘ اس ناول کا سب سے اہم کردار ہے۔ جس کی شخصیت اور سیرت کا فنی نقطہ نظر سے تجزیہ کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ اردوناولوں کا پہلا بڑا اور مکمل کردار ہے۔ رسوا نے اس ناول میں امراؤ جان کی ذہنی کیفیات، قلبی واردات اور نفسیاتی حالات کی آئینہ داری فنکارانہ مہارت اور خوش اسلوبی کے ساتھ کی ہے۔ اور بقول اسلم آزاد:
’’حقیقت یہ ہے کہ مرزا رسوا کا ناول ’’امراؤ جان ادا‘‘ اردو ناول کی کلاسیکی سرمائے اپنے فنی محاسن کے اعتبار سے ایک امتیازی درجہ رکھتا ہے ‘‘۔ ۲۷؎
اس ناول میں پہلی مرتبہ جس انداز میں انسانی نفسیات کا ماہرانہ تجزیہ کیا گیا ہے وہ اس سے قبل کے ناولوں میں نہیں ملتا۔ ابواللیث صدیقی کے بموجب:
’’امراؤ جان ادا، کو اردو میں نفسیاتی ناول کا پہلا کامیاب نمونہ قرار دیا جاتا ہے ‘‘۔ ۲۸؎
ایک طوائف کی زندگی میں کوئی شایان شان بات نہیں ہوتی کہ انہیں ناول میں بیان کیا جائے لیکن رسوا کی ’’امراؤ جان‘‘ حقیقت میں طوائف نہیں تھی بلکہ حالات کا شکار ہوئی تھی، رسوا نے اس کی زندگی میں پیش آئے مختلف حالات کا نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے انہیں واقعات کے پس منظر میں بیان کیا۔ اس اعتبار سے ’’امراؤ جان ادا‘‘ اردو میں ایک منفرد ناول ہے، اور بقول وقار عظیم:
’’رسوا نے فلسفیانہ فکر، نفسیاتی تجزیہ، ادبی اور شاعرانہ ذوق اور فنی حسن ترتیب کو یکجا کر کے ’’امراؤ جان ادا‘‘ کو ناول نگاری کے فن میں بلندی، تعمق، ہمہ گیری، لطافت و نزاکت اور ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ تاثیر کی اقدار کا حامل بنا دیا اور اس ناول نگاری کا فن پہلی مرتبہ اس عروج پر پہونچا جہاں فلسفے اور شاعری کا اعلیٰ قدریں پوری طرح ایک دوسرے کی ہم نوا اور ہم عناں نظر آتی ہیں ‘‘۔ ۲۹؎
اسی موضوع پر قاضی سرفراز حسین کا ناول ’’شاہد رعنا‘‘ بھی ہے۔ جو1898ء میں شائع ہوا چنانچہ بہت سے ناقدین فن نے ان دونوں میں مماثلت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ کہا گیا کہ رسوا نے ’’امراؤ جان‘‘ کو ’’شاہد رعنا‘‘ کے طرز پر لکھا، اس تعلق سے پروفیسر یوسف سرمست لکھتے ہیں :
’’شاہد رعنا، اور ’’امراؤ جان ادا‘‘ میں شروع سے اخیر تک بیشمار مماثلتیں پائی جاتی ہیں ‘‘۔ ۳۰؎
لیکن رسوا نے ان مماثلتوں کے باوجود اپنے مخصوص فنکارانہ انداز سے اس میں ایسی جدت پیدا کی ہے کہ یہ مماثلتیں کمزور پڑ جاتی ہیں، ابو اللیث صدیقی کہتے ہیں :
’’دونوں قصوں میں کہیں کہیں مماثلت ہے لیکن ’’امراؤ جان ادا‘‘ فنی اعتبار سے ’’شاہد رعنا‘‘ سے بالکل الگ ہے قاضی سرفراز حسین ایک مصلح اور مرزا رسوا ناول نگار ہیں دونوں ناولوں کا خاتمہ ہی اس کا تصفیہ کرنے کیلئے کافی ہے ‘‘۔ ۳۱؎
مرزا رسوا کے دور کے ہی ایک قابل ذکر ناول نگار مرزا سعید ہیں جن کے ناول ’’خواب مستی‘‘(1905ء) اور ’’یاسمین‘‘(1908ء) میں زندگی کے معاشرتی بحران کو پیش کیا گیا ہے۔ معاشرے میں توازن، اخلاقی اقدار کیلئے مذہب کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور مذہب سے بیگانگی اور بیزاری سے کس طرح معاشرے میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اس کا تذکرہ ناول کے فنی حدود میں رہ کر کیا گیا۔
ناول نگاری کے اس دور میں حقائق زندگی کے اور زندگی کے مسائل کو پیش کیآ گیا۔ تحلیل نفسی کے ذریعہ کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ کیا گیا۔ جہاں رسوا، مرزا سعید، راشد الخیری اور دوسرے ناول نگار نئی اور پرانی قدروں کو باقی رکھنے کی کوشش کر رہے تھے، وہیں ایک حلقہ میں ان قدروں سے بیزارگی اور ان سے بغاوت کا رجحان بھی پرورش پا رہا تھا، یہ انسانی زندگی کی فطرت رہی ہے کہ وہ ہمیشہ تغیرات دیکھنا پسند کرتی ہے، ایک طرح کی چیزوں کو مسلسل گوارا نہیں کرتی۔ ادب میں بھی ایک عہد کے بعد قدیم رجحانات کی جگہ نئے اور متضاد رجحانات جگہ پانے لگے۔ چنانچہ حقیقت پسندی کے ایک دور کے بعد ادب میں رومانی و جمالیاتی رنگ جگہ پانے لگا۔ اردو میں رومانی و جمالیاتی تحریک مغربی ادب سے آئی۔ رومانیت کی اہم خصوصیت حقیقی زندگی سے فرار کی خواہش ہے۔ تخیل کے حسین سپنوں کے سہارے حسن کی پرستش ہونے لگی۔ ایک ایسی دنیا کی خواہش اور تمنا کی گئی جس میں محبت اور عشق کی آزادی ہو، جمال پرستی میں عورت کے ظاہری حسن کے تذکرے خوب کئے گئے، اس طرح کے ادب کو ’’ادب لطیف‘‘ کہا گیا۔ مغربی ممالک میں جہاں زندگی ایک مخصوص ڈگر پر چل رہی ہے اس طرح کے قصے عام تھے ہمارے بعض ادیبوں نے ترجموں کے ذریعہ رومانی اثرات کو اردو ادب میں پیش کیا۔ رومانیت کوئی تحریک نہیں، یہ مختصر عرصہ کیلئے اردو ادب میں آئی، لیکن ناول کے وسیع کینوس نے ایک مرتبہ پھر ادب میں مختصر جگہ بنا لی، رومانی ادیبوں میں سجاد حیدر، یلدرم اور نیاز فتح پوری مشہور ہیں، انہوں نے ترکی ادب کی تحریروں کو اپنے مخصوص اسلوب میں اس انداز سے پیش کیا کہ یہ ترجمہ نہیں لگتیں، سجاد حیدر یلدرم نے رومانی افسانے زیادہ لکھے۔ لیکن نیاز کے دو ناول اس سلسلہ میں مشہور ہیں جن میں پہلا ’’ایک شاعر کا انجام ‘‘(1913ء) میں اور دوسرا ’’شہاب کی سرگذشت‘‘ ایک بہتر ناول ہے۔ اس میں جذباتیت زیادہ ہے فنی پختگی کی کمی محسوس ہوتی ہے، ’’شہاب کی سرگذشت‘‘ ایک بہتر ناول ہے اس میں اسلوب زیادہ نکھرا ہوا دکھائی دیتا ہے اس ناول میں نیاز صاحب نے ازدواجی زندگی کے اہم مسئلہ کو اٹھایا ہے ایک کردار ’’شہاب ‘‘ کی نفسیاتی کشمکش کو پیش کیا گیا ہے، زندگی کے بعض تجربوں کو شاعرانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے خاص طور پر اس ناول کے خطوط، لباس اور مناظر کی تصویر کشی، رقص کے وقت اعضاء کی جنبش کا مصورانہ بیان ہوا ہے نیاز نے اپنے ناولوں میں اپنے نظریات اور اپنی انشاء پردازی کے جوہر دکھائے اور یوسف سرمست کہتے ہیں :
’’نیاز نے اردو ناول کی اہم خدمت انجام دی اور اس کو نہ صرف ایک نئی وسعت سے روشناس کرایا بلکہ اپنی رومانی بغاوت سے آئندہ آنے والے ناول نگاروں کے انقلابی رجحانات کیلئے راستہ صاف کیا‘‘۔ ۳۲؎
نیاز کے اس رومانی رنگ کو آگے بڑھاتے ہوئے کرشن پرشاد کول نے ایک ناول ’’شاما‘‘ لکھا۔ علی عباس حسینی نے اپنا پہلا ناول ’’قاف کی پری‘‘ (1919ء) میں لکھا، رومانی تحریروں کا خاص وصف ان کا دلچسپ اسلوب نگارش ہے، جس کی بدولت ان تحریروں کو مقبولیت حاصل ہوئی۔
بیسویں صدی کے ابتدائی ربع اول میں ہندوستان میں سیاسی بیداری بڑھ گئی تھی۔ جدوجہد آزادی تیز ہو گئی تھی پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہو چکا تھا، اس دور کی ناول نگاری ہندوستان کی سیاسی اور سماجی زندگی کی تبدیلیوں کی آئینہ دار ہے۔ مغرب و مشرق کی تہذیبوں کے تصادم کے اثرات ادب میں بھی نمایاں ہوئے۔ مغربی تہذیب کے اثرات نے ہندوستان کو بعض پرانی فرسودہ روایات سے آزاد کرایا اور ایک نیا اور صحت مند شعور بخشا۔ ہندوستان کی بیشتر آبادی گاؤں اور دیہاتوں میں رہتی بستی تھی۔ ایک بڑے انقلاب کے لئے ان دیہاتوں کو آزادی کے مقصد سے آگاہ کرانا ضروری تھا، چنانچہ گاندھی جی نے گاؤں گاؤں سفر کیا اور دیہاتیوں کے سینوں میں آزادی کی چنگاری بھڑکائی اور انہیں آزادی کی نعمتوں اور برکتوں سے واقف کروایا۔ اس دور کی اردو ناول نگاری میں بھی ایک بڑا نام ’’پریم چند‘‘ کا ملتا ہے جنہوں نے اپنی ناول نگاری کے ذریعہ ان دیہاتوں میں رہنے والوں کی زندگی سے متعلق مسائل کو پیش کیا۔ پریم چند کی ناول نگاری اردو ناول میں ایک اہم موڑ رکھتی ہے اس لئے یوسف سرمست کے بموجب ’’پریم چند اردو ناول میں ایک عہد کی حیثیت رکھتے ہیں ‘‘۔
پریم چند کی ناول نگاری بیس پچیس سال کے عرصہ پر محیط ہے اور ان کے ناولوں میں کم و بیش وہ سبھی رجحانات دکھائی دیتے ہیں جو اس وقت کی ناول نگاری میں رائج تھے پریم چند کے ناولوں کے موضوعات میں دیہات یا دیہاتی زندگی ایک اہم عنصر ہے۔ ان کے ناولوں میں جہاں ایک مظلوم مزدور، کسان کی زندگی کی کشمکش ملتی ہے وہیں جابر زمیندار ٹھیکہ دار، سرمایہ دار کے مظالم کی داستان بھی ملتی ہے۔ انہوں نے پسماندہ ہریجن طبقہ کیلئے بھی آواز اٹھائی ہے، اور سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کی استحصال پسندانہ سازشوں سے غریب عوام کو آگاہ کرایا۔ پریم چند نے اپنے ناولوں میں پرانی فرسودہ رسوم و روایات کی برائیاں بیان کی ہیں، مذہبی ٹھیکہ داروں کے بے جا قیود سے لوگوں کو آگاہ کرایا، دیہاتی زندگی کے ساتھ ساتھ پریم چند نے ’’شہری بابو‘‘ ’’مل مزدور‘‘ شہروں کی تیز رفتار زندگی اور شہری لوگوں کے مسائل کا اپنے ناولوں میں تذکرہ کیا۔ پریم چند کے ناولوں کے موضوعات بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ پریم چند نے اپنی طویل ناول نگاری کے دور میں حسب ذیل ناول لکھے۔
(۱) اسرار معاہد۔ (۲) ہم خرما و ہم ثواب۔ (۳) جلوہ ایثار۔ (۴) بیوہ۔ (۵) بازار حسن۔ (۶)گوشۂ عافیت۔ (۷) نرملا۔ (۸) غبن۔ (۹) چوگان ہستی۔ (۱۰) پردہ مجاز۔ (۱۱) میدان عمل۔ (۱۲) گئودان۔ (۱۳) منگل سوتر۔
پریم چند کے ابتدائی ناولوں میں ہندو معاشرہ کی بری رسومات کا ذکر ملتا ہے وہ پجاریوں اور مہنتوں کی اصلی زندگی کو بے نقاب کرتے ہوئے ان کے زہریلے اثرات سے معاشرہ کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں، ہندوسماج میں بیوہ عورت کی حالت زار کو انہوں نے اپنے ناول ’’ ہم خرما و ہم ثواب‘‘ میں پیش کیا۔ یہ ناول1906ء کے قریب لکھا گیا۔ بعد کے آنے والے ناولوں میں پریم چند کی ناول نگاری کا کینوس وسعت اختیار کر لیتا ہے اور وہ پورے ہندوستانی معاشرہ کی اصلاح میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ اپنے ناول ’’بازار حسن‘‘ میں انہوں نے ایک مجبور طوائف ’’سمن‘‘ کی زندگی کو پیش کرتے ہوئے سماجی، اخلاقی اور اقتصادی پس منظر میں معاشرہ کی خرابی کو پیش کیا، ان کے ناولوں ’’ گوشہ عافیت‘‘ ’’چوگان ہستی‘‘ اور ’’میدان عمل‘‘ میں سیاسی بیداری اور حصول آزادی کی جدوجہد دکھائی دیتی ہے اور گاندھی جی کی تعلیمات کی تائید ملتی ہے۔
ناول ’’گئودان‘‘ میں پریم چند اپنی ناول نگاری کی معراج پر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ناول 1934-35ء میں لکھا گیا، پریم چند کے ناقدین نے اسے نہ صرف پریم چند کا بلکہ اردو کا ایک کامیاب ناول قرار دیا ہے۔ اسے ہندوستانی زندگی کا المیہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ’’گئو دان‘‘ ایک کسان ’’ہوری‘‘ کا المیہ ہے جو اپنی ساری زندگی سماج و معاشرہ کی قید و بند سہتے ہوئے مصیبتوں میں گذارتا ہے، وہ محنت کرتا ہے لیکن اس کا صلہ زندگی بھر نہیں ملتا، پریم چند نے فنکاری سے اسے پیش کیا ہے فنی اعتبار سے بھی یہ ایک کامیاب ناول ہے کردار نگاری اعلیٰ پیمانے کی ہے۔
پریم چند شاید پہلے ناول نگار ہیں جنہوں نے مقصدیت اور فن دونوں کو اپنے ناولوں میں کامیابی کیساتھ برتا۔ انہوں نے اپنی مقصدیت کو کبھی فن پر غالب دکھائی نہیں دیا، ان سے پہلے کے ناول نگاروں کی مقصدیت ان کے فن پر غالب دکھائی دیتی ہے، پریم چند کے ابتدائی ناولوں میں بعض خامیاں واضح دکھائی دیتی ہیں، جیسے کمزور بنیادوں پر ناول کی تعمیر، واقعات کی بھرمار یا ان کے بے جا استعمال کمزور کرداروں کی پیشکشی وغیرہ لیکن گئودان تک پہونچتے پہونچتے وہ ان خامیوں پر قابو پا جاتے ہیں۔
بہرحال پریم چند نے اپنی ناول نگاری کے ذریعہ ہندوستانی معاشرہ ہندوستانی معاشرہ کی حقیقی تصویر کشی کی ہے پہلی مرتبہ انہوں نے نچلے طبقے کی محنت کش عوام کو اپنے ناولوں کا ہیرو بنایا۔ جہاں انہوں نے سماج کے عدم توازن کو دور کرنے کی کوشش کی وہیں اپنے ناولوں کے ذریعہ آزادی کے حصول کے جذبہ کو ابھارا۔ اور اردو ناول کو ایک جامع روایت دی۔ وقار عظیم کے خیال میں :
’’پریم چند کے ناول اردو ناول کی تاریخ میں زندگی اور فن کی عظمت اور بلندی کے بہترین مظہر ہیں، پریم چند سے اچھے اچھے ناول نگاروں نے فن کی جو روایت قائم کی تھی پریم چند نے نہ صرف اسے ایسے امکانات کا حامل بنایا کہ اجتماعی اور انفرادی زندگی کا کوئی موقع اور فکر، احساس اور جذبہ کی کوئی پیچیدگی اس کیلئے بیگانہ نہیں رہی، پریم چند کے ناول بیک وقت ٹالسٹائے کی وسیع النظری اور ڈکنس کی مردم شناسی کے حامل ہیں۔ اور مشرقی مزاج کے صحیح آئینہ دار بھی‘‘۔ ۳۳؎
پریم چند کے دور میں ہندوستان میں سیاسی و سماجی بیداری کی لہر تیز ہو گئی تھی، ایک طرف سیاست دانوں کے ذریعہ حصول آزادی کی جدوجہد زور پکڑتی جا رہی تھی دوسری طرف ادب میں بھی نئے خیالات، نئے تجربات ہونے لگے تھے، ہندوستان میں صرف سیاسی آزادی کو ہی بنیاد نہیں بنایا گیا تھا بلکہ اس کے ساتھ سماجی اور معاشی حالات کی بہتری بھی ضروری سمجھی جاتی تھی، سائنس کی ترقی نے بہت سی فرسودہ رسوم و روایات کے طلسم توڑے، مذہب سے بیگانگی بڑھنے لگی، سماجی، مذہبی، اخلاقی اصول و ضوابط سے بیزارگی اور بغاوت کے جذبہ عام ہونے لگے، یہی باغیانہ خیالات ترقی پسند تحریک کے آغاز کے ساتھ شدت اختیار کر لیتے ہیں یہ ایک طرح کی روحانی بے چینی تھی، جس کا تذکرہ اس دور کی ناول نگاری میں زیادہ ملتا ہے، خارجی حالات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ کرداروں کی داخلی کیفیات، نفسیاتی کشمکش کا اظہار ملتا ہے۔
روس کے ’’اکتوبر انقلاب‘‘ کے بعد ساری دنیا میں مارکس کے نظریات عام ہوئے اور ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اشتراکیت کے نظریہ کو فروغ ہوا۔ اردو ناولوں میں بھی اسے پیش کیآ گیا۔ ناول کی ہیئت میں تبدیلی واقع ہوئی اور اندرونی جذبات و احساسات پر زیادہ زور دیا جانے لگا اس دور میں ناول ڈائری اور خطوط کے انداز میں لکھے گئے۔ اس طرز پر قاضی عبدالغفار نے دو ناول ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘1932ء میں اور ’’مجنون کی ڈائری‘‘1934ء میں لکھے۔ ل۔ احمد نے ’’فسانہ محبت‘‘ روائداد نگاری کی ٹیکنیک پر لکھا۔
ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کے آغاز سے قبل ہی لندن میں مقیم چند ہندوستانی طلبہ جن میں سجاد ظہیر، ملک راج آنند وغیرہ شامل ہیں ترقی پسندی کی بنیادیں ڈال چکے تھے۔ جہاں 1935ء میں ترقی پسند مصنفین کے عنوان سے ترقی پسند ادب لکھ رہے تھے۔ ہندوستان میں اپریل1936ء میں لکھنو میں ترقی پسند تحریک کی پہلی کانفرنس پریم چند کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ جس میں پریم چند نے اپنا تاریخی خطبہ پڑھا اور ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کا نعرہ بلند کیا ترقی پسند مصنفین نے اشتراکیت کو فروغ دیتے ہوئے جاگیردارانہ نظام کے خاتمہ پر زوردیا۔ ادب کے فرسودہ ڈھانچوں کو توڑ کر یہ باور کرایا گیا کہ ادب کا مقصد تفریح نہیں ادب کو افادی ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقی زندگی کا آئینہ دار ہونا چاہئے۔
حقیقت نگاری ترقی پسند تحریک کی امتیازی خصوصیت ہے اگرچکہ نذیر احمد سے لے کر پریم چند تک سب کے پاس حقیقت نگاری کے اچھے نمونے ملتے ہیں لیکن ترقی پسند تحریک میں حقیقت نگاری ایک نئی مفہوم کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ حقیقت نگاروں نے خوبصورتی، بدصورتی، برائی، اچھائی کو جوں کا توں پیش کرنے کی کوشش کی، ادیبوں کو آزادی حاصل تھی، اس آزادی نے بعض ایسی باتوں کو بھی عام کر دیا جو اب تک شجر ممنوعہ سمجھی جاتی تھی، عریاں نگاری اور جنسی خیالات کو پیش کرتے ہوئے ادیبوں نے حقیقت نگاری کے مفہوم کو وسعت دی۔ تحلیل نفسی کے ذریعہ کرداروں کی زندگی کا نفسیاتی تجزیہ کیا گیا، اور فرائڈ کے نظریات کو ادب میں کافی اہمیت دی گئی، اس کی ابتدائی مثال ’’انگارے ‘‘ کا وہ افسانوی مجموعہ ہے جس میں لکھنے والوں نے آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سماج و معاشرہ کی اندرونی گھٹن کو باہر نکالنے کی کوشش کی۔ ’’انگارے ‘‘ کے افسانوں میں جذباتیت زیادہ ہے لیکن ترقی پسندی کی طرف یہ واضح قدم ہے۔
ترقی پسند تحریک کی نمایاں خصوصیت حقیقت نگاری ہے۔ اگرچہ حقیقت نگاری کسی نہ کسی صورت میں نذیر احمد سے لے کر پریم چند تک سب ہی کے پاس ملتی ہے لیکن اپنی نمایاں ترین میں یہ اس تحریک کے ساتھ ہی اردو میں فروغ پآ سکی۔ حقیقت نگاری کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ اس دور کے ادیب داخلی اور خارجی دونوں زندگیوں کو پیش کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ترقی پسند ادیبوں پر مارکس اور فرائڈ کے نظریات کا بہت اثر رہا، مارکس کے زیر اثر خارجی زندگی، ماحول اور معاشرہ کی زندگی پر اثرات کا تجزیہ ہونے لگا اور فرائڈ کے زیر اثر انسان کی داخلی زندگی کی کشمکشوں، اس کی خواہشات و جذبات کی حقیقت منظر کشی کی جانے لگی۔ اس لئے نفسیات کے مطالعہ کو اہمیت دی گئی۔ فرائڈ کے نظریہ کے مطابق انسان خواہشات کا پتلا ہے۔ اس کی بہت سی خواہشات کی تکمیل نہیں ہوپاتیں۔ اور اس کے لاشعور میں دبی رہتی ہیں اور جب کبھی موقع ملتا ہے یہ خواہشات مختلف ذرائع سے اپنی تشفی کا سامان کر لیتی ہیں۔ فرائڈ ادب کو بھی جنسی خواہشات کی تسکین کا ذریعہ مانتا ہے ایک تخلیق کاراپنی نامکمل خواہشات کی تکمیل اپنی ادبی تخلیق کے ذریعہ کرتا ہے۔ جس میں ہر طرح کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔ فرائڈ کے نظریات نے ترقی پسند ادب کو بہت متاثر کیا۔ اور پس پردہ رہنے والی باتوں اور جنس سے متعلق موضوعات کو کھل کر تخلیقات میں پیش کیا جانے لگا۔ اس سلسلہ میں عریاں نگاری کو فروغ حاصل ہوا۔ شروع میں عریاں نگاری میں فحش نگاری داخل ہو گئی تھی۔ لیکن بعد میں اس میں فنی پختگی آتی گئی۔
جدید ناول نگاروں نے کرداروں کی نفسیاتی تحلیل کرتے ہوئے اس کی زندگی کے دوسرے واقعات کیساتھ جنسی جذبات کو بھی پیش کیا، کیونکہ جنسی جذبہ کی بدولت ہی انسانی کردار کی تعمیر و تخریب ہوتی ہے۔ یونگ کے مطابق :’’فرائڈ سے پہلے کوئی بھی بات جنس نہیں ہوسکتی تھی لیکن فرائڈ کے بعد ہر بات جنسی بن گئی‘‘۔ ۳۴؎
چنانچہ اس دور کے ناول نگاروں نے اپنی تخلیقات میں جنس کے مختلف پہلوؤں کو پیش کرتے ہوئے اس سے متعلق بہت سی پیچیدگیوں کو دور کرنے کی سعی کی۔ اپنے جذبات کی تسکین کیلئے عریاں نگاری ہو تو وہ فحش بن جاتی ہے لیکن پختہ قلمکاروں کے ہاں یہ حقیقت نگاری کی معراج بن جاتی ہے۔ عصمت، منٹو، عزیز احمد ایسے ہی پختہ لکھنے والے تھے۔
عزیز احمد کی ناول نگاری بھی کم و بیش ترقی پسند خیالات پر ہی مشتمل ہے، اردو ناول کی تاریخ میں عزیز احمد کے ناول ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں آنے والے ابواب میں عزیز احمد کی ناول نگاری کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا جا رہا ہے۔