اطہر معز (گلبرگہ)
ناول کی طرح ناولٹ بھی اُردو میں مغربی ادب سے آیا ہے۔ارباب نقد و نظر کے نزدیک ابھی اس بات پر فیصلہ نہیں ہو پایا ہے کہ ناولٹ اور ناول میں فرق کس طرح پیدا کیا جاسکے۔اکثریت ان دونوں بیانیہ اصناف میں موجود طوالت کو پیمانہ بناتے ہوئے ے ناولٹ یا ناول قرار دیتی ہے ۔چونکہ یہ صنف بھی مغربی ادب سے اُردو میں آئی ہے چنانچہ اس کے اُردو نام کے بجائے اسے بھی اس کے مروجہ مغربی نام سے ہی یا دکیا جاتا ہے ۔ویسے یہ ضروری نہیں کہ ہم اسے ناولٹ کے نام ہی سے یاد کریں ہم اسے ناولچہ بھی کہہ سکتے ہیں اور یے ناولٹ سے نسبتاً آسان بھی ہے ۔ناول کے سلسلے میں اس کا اُردو نام مروج نہ کیا جاسکا۔تاہم ناولٹ کے سلسلے میں جو الُجھن پیدا ہو رہی ہے اسے رفع کرنے کی خاطر ہم اس کو ناولٹ کے بجائے ناولچہ کہہ دیں تو کوئی قباحت نہ ہوگی ۔ناولچہ(ناولٹ) کی تعریف مفکر کڈون نے اس طرح بیان کی ہے۔
’’فکشن کی وہ تخلیق جو ناول سے طوالت کے اعتبار سے کم ہو اور افسانے سے بڑی ہو جس میں معمولی قسم کا فکشن ہو اور معروف طریقۂ کار سے مدد لی گئی ہو اور اس میں واقعات کی مدد سے سسپنس پیدا کیا گیا ہو مگر ادبی معیار کم ہو ۔امریکہ میں اس قسم کے فکشن کو طویل افسانہ اور کہیں اسے افسانہ اور ناول کی درمیانی کڑی کے نام سے موسوم کیا جاتا رہا ہے‘‘ ۱
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فکشن میں ناولچہ کی تخلیق کی ضرورت کیوں کر محسوس کی گئی جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ ناولچہ اُردو ادب میں مغرب سے آیا ہے اور اس کے تخلیقی جواز کو مغربی ادب کے پیش منظر میں دیکھا جانا مناسب اور استدلالی طور پر صحیح ہوگا۔
سولہویں صدی میں جب مغر ب اپنے انقلابی دور سے گذررہا تھا تب مغربی معاشرے میں زندگی کے ہر شعبہ میں اس کے اثرات مرتسم ہونا شروع ہوئے جس کے نتیجے میں تہذیب و ثقافت ،سیاست،معاشرت اور مذہب میں بے شمار تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔سوچ و فکر کے دھارے بدل گئے۔ ادب کا منظر نامہ بدل گیا ۔انگریز ی ادب رومانس کی خیالی اور فرضی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا سے روشناس ہوا۔ موضوعات کے تنوع ،داخلیت کا اظہار ،خارجیت کا عکس اور انسنای زندگی سے جڑے مسائل کو فکشن میں جگہ ملی۔جس نے اس کی تخلیقی روایت کو استحکام بخشا اور متعدد لافانی ناول معرض وجود میں آئے جس نے انگریزی فکشن نگاری کو اعتبار بخشا۔سترہویں ،اٹھارہویں اور انیسویں صدی تک آتے آتے بعد کو آنے والے ناول نگاروں نے اپنے پیش روؤں کی روایت کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے انگریزی فکشن نگاری کو تقویت عطا کی ۔اظہار بیان ،نت نئے اسالیب ،ہئیت و تکنیک اور موضوع و مواد کے بے شمار پیرائے بیان نے ناول کے امکانات کو فزوں تر کردیا ۔مغربی ادب بالخصوص فکشن کے فروغ کے بارے میں ڈاکٹر صدیق محی الدین لکھتے ہیں
’’مغربی ادب اور بالخصوص فکشن میں نمایاں تبدیلی اور تغیر نشاۃ الثانیہ کے بعد رونما ہوتا ہے ۔نشاۃ الثانیہ مغرب میں ایسا پر اسرار سماجی وقوعہ ہے کہ جس نے زندگی کے ہر طرح کے شعبہ میں ایک طرح کی ہلچل مچادی اور یہیں سے سماجی اور ادبی سطح پر بھی رجحانات اور تحریکات کا آغاز ہوتا ہے ‘‘۲
ڈاکٹر صدیق محی الدین نے مغربی ادب میں ہوئی تبدیلی کا نشاۃ الثانیہ سے جوڑتے ہوئے اسے وسیع تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔دراصل مغربی نشاۃ الثانیہ کا زندگی کے ہر شعبہ پر اثر پڑا اور مغرب میں سیاسی ،سماجی،مذہبی اور ثقافتی و تہذیبی زندگی کی کایا پلٹ ہو گئی۔مغربی ناول نگاروں نے ان تبدیلیوں کو وسیع پیمانے پر اپنے ناولوں میں پیش کیا ۔ڈاکٹر عظیم الشان صدیقی لکھتے ہیں
’’ناول ادب کی جدید صنف ہے مغرب میں اس کا آغاز اٹھارویں صدی کے ربع اول میں اُس وقت ہوا جب کہ جاگیر دارانہ نظام دم توڑ چکا تھا اور اس کی جگہ جدید صنعتی عہد نے لے لی تھی جسے نشاۃ الثانیہ کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔چنانچہ ناول کے ایک سرے پر اگر قدیم رومانس ہیں تو دوسرے سرے پر جدید افسانہ ہے ناول ان دونوں کے درمیان کی کڑی ہے اگرچہ ناول کا سفر آج بھی جار ی ہے اور اس کا فن اخذ و قبول کے مراحل سے گذر رہا ہے لیکن اس میں ٹھہراؤ کی کیفیت واضح طور پر نظر آنے لگی ہے جسے کسی فن کا نقطۂ عروج کہہ سکتے ہیں ‘‘۳
مغربی نشاۃ الثانیہ کو اگر بقول ڈاکٹر صدیق محی الدین دو بڑے حصوں میں منقسم کر کے دیکھا جائے تو اس کا پہلا بڑا حصہ انقلاب فرانس اور دوسرا حصہ صنعتی انقلاب محیط نظر آئے گا۔فرانس کا انقلاب ایک تاریخی واقعہ ہے جس کی یوروپی سیاست میں بڑی اہمیت ہے ۔اس واقعہ میں یوروپ کی سیاسی و جغرافیائی سطح کو نئی جہت ملی اس کے اثرات ساری دنیا میں محسوس کیے گئے ۔اس انقلاب میں برطانوی سیاست کی چولیں ہلا ڈالیں۔دنیا بھر میں سلطنت برطانیہ کے خلاف ہنگامے ہونے لگے۔انقلاب فرانس نے آزادی و بھائی چارہ کا جو پیغام دیا اس کی بازگشت ساری دنیا میں سنی گئی۔دوسری طرف یوروپ میں صنعتوں میں مشینوں کے استعمال اور اس کے سماج و معاشرے پر پڑنے والے طاقتور اثرات اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل نے مغربی ادبیات میں جگہ بنائی اور مغربی ناول نگاروں نے اپنے عہد کی بھر پور زندگی کو پیش کیا اور اس کی صحیح عکاسی کی ۔صنعتی ترقی نے انسان کی سوچ و فکر کے دھارے کو یکسر بدل کر رکھ دیا جیسے جیسے علوم و فنون میں ترقی ہوئی اس کے ساتھ ساتھ انسانی ذہنی و فکری رویے بھی حالات کے مطابق تبدیل ہونا شروع ہوئے ۔بیسویں صدی میں کارل مارکس کے اشتراکی نظریات نے عالمی سطح پر اپنے اثرات چھوڑے جس کے زیر اثر مزدوروں میں اپنے حقوق کے دفاع اور زمیندار طبقے کے خلاف بیداری کی زبردست لہر اٹھی نے معیشت اور معاشرتی نظام کو تبدیلی سے دوچار کر دیا ۔بعد ازاں دنیا نے دو عالمگیر جنگوں کو بھگتا جس کی خوفناکیوں اور ہولناکیوں نے کئی دہوں تک ذہن انسانی کو دہلائے رکھا ۔مابعد جنگوں جن مختلف معاشی و سیاسی بحرانوں سے دنیا گذری اس کے اثرات بالخصوص جس طرح جنگ زدہ اور تباہ حال ایشیائی ممالک پر پڑے اسے بھی عالمی ادب میں بڑی فن کاری سے پیش کیا گیا۔
اوپر بیان کردہ حالات کے نتیجے میں ادیب کا متاثر ہونا فطری امر ہے ۔ادب میں کئی رجحانات اور تحریکیں آئے جس کے تحت ادیبوں نے اپنے اپنے نقاط نظر اور فن کاری و مشاہدات کو ادب کے حوالے سے پیش کیا ۔ادب کی تقریباً ہر صنف میں تجربے ہوئے ۔مغربی ادب چونکہ زیادہ مستعد اور ترقی یافتہ ہے چنانچہ ان تبدیلیوں کو میڈیا اور ٹکنالوجی کی مدد سے دنیا بھر میں محسوس کیا گیا اور مختلف زبانوں میں ادب کی مختلف اصناف میں مغربی اصناف کے طرز پر تجربے ہوتے گئے ۔یہی وہ اسباب و محرکات ہیں جنھوں نے اُردو میں ناولٹ یا ناولچہ کی راہیں ہموا ر کیں ۔
اُردو ادب میں بھی اس صنف کو فراخ دلی سے اپنایا گیا۔متعدد فن کاروں نے ناولچہ یا ناولٹ میں طبع آزمائی کی ۔سرشار ،نیاز فتحپوری،سجاد ظہیر، عزیزاحمد،کرشن چندر،منٹو عصمت چغتائی،خواجہ احمد عباس،سہیل عظیم آبادی ،شوکت صدیقی،راجندر سنگھ بیدی،رام لعل ،قرۃ العین حیدر ،قاضی عبدالستار ،جمیلہ ہاشمی ،جوگندر پال،آمنہ ابولحسن ،اقبال متین ،شفق،مظہر الزماں خاں،سلیم شہزاد وغیرہ نے بہترین ناولچے لکھے۔
ناقدین ادب نے ناولچہ کے تخلیقی جوازمیں یہ دلیل پیش کی ہے کہ عالمی سطح پر سیاسی ،معاشرتی ، صنعتی ،نظریاتی اور طبقاتی انقلابات آئے جس کے نتیجے میں ادبی رجحانات میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں یہ ادبی تبدیلیاں صرف برائے نام نہیں رہیں بلکہ ان کا دائرہ کار موضوعاتی،تجرباتی ،ہئیتی ،تکنیکی ،اُسلوبی، اور لسانی سطح تک پھیل گیا۔چنانچہ محولہ بالا اسباب و محرکات کی بنا پر ناولچہ جیسی صنف نے جنم لیا ۔فکشن لکھنے والوں نے بھی ناول کے مقابلے ناولچہ کو ترجیح دی اور ناقدین کے مطابق قاری بھی وقت کی کمی کے باعث ناولچہ کو ہی اہمیت دینے لگا۔اس سلسلے میں ڈاکٹر صدیق محی الدین کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے
’’خودفکشن کے تخلیق کار بھی وقت کی کمی کے باعث بسا اوقات ایک کامل تشکیل شدہ ناول لکھنے کی بجائے ناولٹ کی تخلیق کو اہمیت دینے لگے اور دوسری طرف اس برق رفتار اور مشینی دور میں قاری بھی طویل ناول کے مطالعے سے خود کو قاصر سمجھنے لگا ،دراصل یہ وقت کا ایک فطری اور لازمی تقاضہ ہے ۔جس طرح ناول کے آغاز کے وقت رومانس(داستان) کا رجحان ختم ہوا اور ناول نے ادب میں اپنی جگہ محفوظ کر لی تھی ،ٹھیک اسی طرح بیسویں صدی کے نصف آخر میں ناول نے اپنے نقطۂ عروج کو حاصل کر لیا تو ناول کا رجحان عام ہونے لگا اور اس کے ساتھ ہی مختصر افسانے نے بھی اپنے ارتقائی مراحل کو بہت سرعت کے ساتھ طے کر لیا اور ایک نئی صنف افسانچہ یا منی افسانہ بھی سامنے آیا ۔اُردو کے جدید افسانہ نگاروں میں جوگندر پال نے اس صنف کو تخلیقی اعتبار بخشا ۔غرض ناولٹ کا وجود اور تخلیقی جواز بڑی حد تک مذکورہ مضمرات میں دکھائی دیتا ہے ‘‘۳
۳: ڈاکٹر صدیق محی الدین ،اُردو ناولٹ کا مطالعہ ص ۲۹۔۳۰
ڈاکٹر صدیق محی الدین نے ناولچہ کے تخلیقی جواز کے لیے فکشن نگار اور قاری کے ہاں وقت کی کمی کو بطور دلیل پیش کیا ہے ۔یہ دلیل کچھ دیر کے لیے قبول کی جاسکتی ہے تا ہم کسی صنف کے تخلیقی جواز کو ثابت کرنے میں ناکام نظر آتی ہے اگر ڈاکٹر صدیق محی الدین کی اس دلیل میں صداقت ہے تو پھر ہم جوگندر پال ،قاضی عبدالستار،غیاث احمد گدی ،عبداللہ حسین ،عبدالصمد،غضنفر،شفق،مشرف عالم ذوقی،پیغام آفاقی،احمد صغیر و دیگر ناول نگاروں کے ناولوں کی مقبولیت کو کس خانے میں رکھیں؟،جن کے ناولوں کی آج بھی پذیرائی کی جارہی ہے ۔ڈاکٹر صدیق محی الدین ہوں یا ناولچہ کے دیگر نقاد ، کسی نے بھی ناول،افسانہ،اور ناولچہ کے درمیان حد فاضل کھینچنے کی شعوری کوشش نہیں کی ۔ناول اور ناولچہ یا پھر مختصر افسانہ میں فنی اعتبار سے متعدد مماثلتیں اور اختلافی اُمور ہیں ۔مثلاً اگر ہم ناول کے اجزائے ترکیبی پر نظر ڈالیں تو ہمیں ناول میں کہانی ،پلاٹ ،کردار ،مکالمے ،زماں و مکاں ،نظریہ حیات اور اُسلوب ملتے ہیں ۔مذکورہ بالا عناصر میں اگر کوئی عنصر ناول کی تخلیق کے دوران حذف ہوجائے تو اس سے قصہ،ناول کے زمرے سے خارج نہیں ہوتا۔مشہور انگریزی ناول نگار ورجینا وولف کے مطابق ناول کی صنف شتر مرغ کی طرح ہر چیز ہضم کر جاتی ہے ۔ناول میں زندگی کی سی لچک اور وسعت ہوتی ہے ۔اس کا کینوس بے حد وسیع ہوتا ہے ۔افسانے اور ناول میں یہ ایک بڑا فرق ہے ۔چونکہ ناول ایک منتشر صنف ادب ہے اور افسانہ اپنی کیفیت ،در و بست اور ہئیت کے اعتبار سے منضبط ہوتا ہے اور وحدت تاثر کو پیش کرتا ہے ۔ناول اور افسانہ کا دوسرا اہم فرق کرداروں کی پیش کش سے ہوتا ہے ۔افسانے میں کردار کے کسی ایک پہلو کو پیش کیا جاتا ہے اس کے لیے مختلف واقعات کی مدد سے کردار کے مخصوص پہلو کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔اس خصوص میں کرشن چندر اور منٹو کے افسانوں کے مختلف کرداروں کی پیش کشی اور اُنکے کرداروں کو نمایاں کرنے کے لیے پیش کردہ معاون واقعات کا سہارا لینے کی کوششوں کا ذکر ہی کافی ہے ۔
افسانہ اور ناول کے مابین مذکورہ بالا فرق کی وضاحت کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ ان دونوں کے بین بین ناولچہ کی حدود کا تعین کیا جاسکے ۔افسانے اور ناول کے اس فرق کو اگر تجزیاتی مطالعہ کی غرض سے دیکھا جائے اور اس کی مدد سے ناولچہ میں اُن مماثلتوں کو تلاش کیا جائے تو ہمیں بہ آسانی اندازہ ہوجائے گا کہ آخر ناولچہ کا تخلیقی جواز کیا ہوسکتا ہے ۔کیا ناولچہ کردار ،ہئیت اور فنی اعتبار سے افسانے اور ناول سے مماثل ہوسکتا ہے یا درمیان کی کوئی شئے بن کر رہ جاتا ہے ۔ کردار ،پیش کش اور تاثر کے لحاظ سے افسانے اور ناول کا اپنا اپنا مزاج ہوا ہے اور اگر ہم اس میں مماثلتیں تلاش کرتے ہیں تو یہ ہمیں اس اعتبار سے کبھی افسانے کے زمرے میں نظر آتا ہے اور کبھی ناول کے۔مگر افسانے اور ناول میں کچھ الگ بات ہوتی ہے اور ناولچہ ان کے بیچ اپنے جدا گانہ انداز سے اپنی الگ پہچان قائم رکھا محسوس ہوتا ہے ۔ان عناصر ترکیبی کا لحاظ کرتے ہوئے اگر ہم دیکھیں گے تو ہمیں افسانے اور ناول میں واضح فرق ملے گا اور رہا ناولچہ کے مقام کا تعین کا سوال تو ہمیں چاہییے کہ ہم اسے ناولٹ کے بجائے ناولچہ کا نام دیں جس سے لفظ ناولٹ سے پیدا ہونے والی الجھن کا ہی خاتمہ ہوجائے گا اور ہم بہ آسانی ناولچہ کو افسانے اور ناول کے بین بین پنپنے والی صنف متصور کر سکتے ہیں اور شاید اس کا مقام بھی یہی ہے۔ناول کی حتمی تعریف کے لیے ہمیں دیکھنا ہے کہ وہ کسی حقیقی زندگی کی عینی کسی خاص زماں و مکاں کی عکاسی کرتا ہے یا نہیں اور اس کا مرکزی قصہ شروع سے آخر تک ایک ہے یا نہیں ا ور اس کے مرکزی کردار اپنے آغاز سے کن کن ارتقائی مراحل سے گذرتے ہیں ۔
ناولچے پوری انسانی زندگی کو جیسا کہ ناول کی صفت رہی ہے پیش کرنے سے قاصر ہیں اور پھر ناولچوں میں دو چار سے زیادہ کردار نہیں ہوتے جن کے گرد قصہ بنا جاتا ہے باقی سب ذیلی بلکہ ضمنی کردار ہوتے ہیں ۔ناول کے ناقدوں کی جانب سے ناولچہ اور ناول میں وسعت میں کمی و بیشی کو اور تیز رفتار زندگی کی بدولت قاری کو کم سے کم وقت میں مناسب ادب دینے کا جواز پیش کرتے ہوئے جو فرق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ ٹھوس نہیں ہے بلکہ مذکورہ بالا گفتگو کی روشنی میں کمزور ثابت ہوتی ہے ۔ناول اور ناولچہ کی حدود کا تعین کرنے کے لیے ہمیں زیادہ ٹھوس اور سائنٹفک پہلو تلاش کرنے ہوں گے ۔اس سلسلے میں ڈاکٹر وزیر آغا نے بالکل صحیح لکھا ہے
’’ناولٹ نہ تو افسانے کی سی سادگی اور بلا واسطہ طریق کا غماز ہے اور نہ اس میں ناول کی سی پیچیدگی اور پھیلاؤ ہی پیدا ہوتا ہے لیکن انداز تشریح سے ایک نئی صنف کا وجود تو ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔ناولٹ کے بارے میں تھامس اُذل کی پیش کردہ شکل بھی زیادہ سے زیادہ اسے ناول کی ایک صورت قرار دے سکتی ہے اور بس! وہ اس طرح کہ کہانی میں اگر اثرات مرکز پر بلا واسطہ طریق سے پہنچیں تو یہ افسانے کا روپ ہوگا اور اگر بالواسطہ طریق سے پہنچیں تو ناول کا۔چونکہ اُذل کے قول کے مطابق ناولچہ میں اثرات بالواسطہ طریق اختیار کرتے ہیں لہٰذاہم زیادہ سے زیادہ اسے مختصر ناول کہہ کر پکار سکتے ہیں ۔بعینہٖ جس طرح بلاواسطہ طریق کی حامل کسی ایک کہانی کو ہم زیادہ سے زیادہ ایک طویل مختصر افسانے کا روپ دے سکتے ہیں پس بطور ایک علاحدہ صں ف ادب کے یہ تا حال کھٹائی میں ہے اور اس کی حڈود کا تعین کرنے سے پہلے ایک لحظہ کے لیے رکنے اور سوچنے کی اشد ضرورت ہے ‘‘۵
۵: ڈاکٹر وزیر آغا ،ناولٹ کا مسئلہ،مطبوعہ ماہ نامہ شاہ کار الہ آباد،ناولٹ نمبر شمارہ ۵۵ص۱۲،مدیر محمود احمد ہنر
طویل افسانے یعنی ناولچہ میں ناول کی طرح مختلف واقعات کی مدد سے مختلف اور متنوع اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ناول ایک ایسی ٹرین کے پہیوں کی مانند ہوتی ہے جو پٹریوں پر دوڑتے ہوئے مختلف قسم کی آوازیں پیدا کرتے ہیں جنھیں شمار کرنا تو مشکل ہوتا ہے لیکن اس میں نہ صرف یکسانیت ہوتی ہے بلکہ ردھم بھی محسوس ہوتا ہے اور ناول میں کہانی کا ٹیمپو بھی کسی قدر تیز ہوتا ہے ۔واقعات کی تیزی ماجرے کو تار عنکبوت کی طرح جکڑتی ہے اور کرداروں کے مختلف پہلوؤں کو اپنے زماں و مکاں کے تناظر میں پوری تفصیل کے ساتھ پیش کرتی ہے ۔جب کہ ناولچہ کا ٹیمپو قدرے سست رفتار ہوتا ہے ۔اس میں اگرچہ کردار ایک سے زائد ہوتے ہیں تا ہم اس میں ناول کی طرح کرداروں کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی ممکن نہیں ،بلکہ اُن کے چند پہلوؤں کو ہی پیش کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔
اُردو ادب کی ناولاتی تاریخ کی عمر لے دے کے دیڑھ سو برس یا اس سے اوپر ہوگی ۔اس پر مستزاد یہ کہ ناولچہ کی عمر کا شمار کرنا طفلانہ کوشش کے مترادف ہوگا ۔پھر بھی اُردو میں جتنے ناولچے لکھے گئے وہ اپنی جگہ نہ صرف کامیاب ہیں بلکہ اثر انگیز بھی ہیں۔
جوگندر پال کی ناولچہ نگاری کی اپنی جاندار اور شاندار روایت ہے جس کے مطالعہ سے قاری کے دل میں یہ شعور پیدا ہوتا ہے کہ ادب نہ خارجی زندگی کا عکاس ہے اور نہ مصور ،وہ تو باطنی الجھنوں اور محرومیوں کا علامتی اظہار ہے اور کہیں پیکری اظہار ۔ادب کبھی بھی خارجی زندگی سے اپنا رشتہ منقطع نہیں کرسکتا اور ایسا کرنا اس کے لیے سزاوار نہیں ۔کیونکہ خارج کے تضادات و تصادمات ہی داخلی زندگی میں ہلچل مچا دینے کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور اس طرح ادب ایک خاموش احتجاج بن جاتا ہے ۔
’’آمد و رفت ‘‘ میں جوگندر پال نے اُن مہاجر اور دوغلی نسل کے لوگوں کا ماجرا بیان کیا ہے جو دوہری شخصیت رکھتے ہوئے اپنے اندرون اور اصل کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں ۔جوگندر پال نے اس ناولچہ میں مشرق کے عشق کی داستان ہیرو کی زبانی بیان کی ہے ۔سارے ناولچہ میں پروفیسر مارگن کی شخصیت ایسی ہے کہ پردے کے پیچھے بیٹھے راوی کی نظر سے کسی موقع پر بھی ڈھکی چھپی نہیں رہتی۔راوی خلوت،جلوت،محفل،بزم غرض ہر جگہ مارگن کے ساتھ ہے ۔راوی کس کا کرب بیان کر رہا ہے ۔مارگن کا یا مارگن کی زبانی اپنا؟ یہ سوال اس پورے ناولچہ میں قاری کے ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے ۔
جوگندر پال کے ناولچوں میں اُن کا اُسلوب سب سے توانا ذریعہ ترسیل ہے ۔اس کی روانی اور تیزی قاری کو بہا کر لے جاتی ہے ۔بیانیہ میں ہر چند کہیں کہیں انسلاکاتی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے لیکن معتدل ٹیمپو اس ناگوار اثر کو ختم کردیتا ہے ۔اُن کے ناولچہ ’’آمد و رفت ‘‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمایے
’’میرے لیے میرا باپ اپنا بھوت سا ہے جس کی پوری شکل مجھے دکھائی نہیں دیتی ۔اب بڑی بڑی مونچھیں دکھائی دے رہی ہیں ،اب کٹے ہوئے ہاتھ ہوا میں لہرا رہے ہیں ،اب صرف ناک اُبھر آئی ہے ۔ میرا باپ مجھے آدھا بھی دکھائی نہیں دیتا ۔آدھا باپ کم از کم دیکھنے میں تو پورا تھا‘‘
حوالہ:جوگندر پال :آمد ورفت باب مارگن ،ناشر انڈین بکس پبلیکیشنز ،اورنگ آباد 1975ص4
جوگندر پال نے طنز سے جا بجا کام لیا ہے ۔ان کے طنز میں خنجر کی کاٹ تو نہیں لیکن سرکنڈوں جیسی چبھن ضرور ہے دیکھیے یہ اقتباس
’’ہمارے ہندوستان کی جمہوریت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے میڈم ،پوری ہتھنی کی ہتھنی ہے جنگلوں سے نکل کر ہماری شاہ راہوں کے عین درمیان آکھڑی ہوئی ہے ،ہماری ساری ٹریفک رکی پڑی ہے کہ یہ ہتھنی ذرا پالتو سی معلوم ہونے لگے اور ایک طرف ہٹ جائے تو آمد و رفت شرو ع ہو‘‘
حوالہ :جوگندر پال :باب بدستور فادر لینڈ ،درباب ایک
ناولچہ ’’آمد و رفت‘‘کہانی کی بُنت کے معاملے میں عام قاری کے لیے شاید باعث الجھن ہو ۔اس میں ڈرامائی یا اچانک وقع ہونے والے واقعات کا تصادم بھی نہیں ہے بلکہ خود کو تلاش کرنے والے ایک ایسے ہندوستانی کا ماجرا ہے جو بیک وقت ہندوستان کو تلاش کر رہا ہے اور اپنی تہذیب کو ڈھونڈ رہا ہے یا اس میں خود کو پتہ کر رہا ہے ۔پورا ناولچہ فکر انگیز الفاظ میں ڈوب کر لکھا گیا ہے جس میں ہجرت کے کرب کی ٹیسیں رہ رہ کر اُٹھتی ہیں۔جوگندر پال کے دو مزید ناولچے ’’بیانات ‘‘ اور ’’خواب رو‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی ،اُردو ناولچہ نگاری میں منفرد نام ہے ۔’’ایک چادر میلی سی‘‘ میں انھوں نے رانو کے کردار کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے قصے کے تانے بانے کو بُنا ہے ۔رانو کے اطراف تلوکا،منگل ، جنداں اور بڑی ہیں۔منگل کے اطراف سلامتے ،نواب اور اسمعیل ہیں۔بیدی نے کردار رانو کے جنسی پہلو ،اور شوہر کے چھوٹے بھائی سے شوہر کی موت کے بعد شادی کے لیے مجبور کیے جانے کے بعد ایک ہندوستانی عورت کی نفسیاتی کیفیت کو خوبی سے پیش کیا ہے ۔
شوکت صدیقی نے ’’کمین گاہ‘‘ میں رام بلی کو مرکزی کردار کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔رام بلی کا کردار ایک عجیب نفسیاتی تضاد کو پیش کرتا ہے ۔جسے Psychalogical Ironyکہا جاتا ہے ۔ ایک طرف تو وہ ایک جیالا اور نڈر ٹرک کلینر ہے جو اکیلا ہی کئی پر بھاری پڑتا ہے جو کبھی کبھی حقیقت سے دور لگتا ہے ۔دوسری طرف وہی جیالا ایک بڑے سیٹھ ترلوکی چند کے اشاروں پر ناچنے والا معمولی گرگا یا خودی کو بیچنے والا کرائے کا ٹٹو بن جاتا ہے ۔شوکت صدیقی کے اس ناولچہ ’’کمین گاہ‘‘ میں پلاٹ رام بلی اور اس کی سرگرمیوں اور ذیلی کرداروں کے گرد گھومتا ہے ۔تاثر کے اعتبار سے یہ ماجرا بھی اپنی طولات اور کرداروں کی بنا پر افسانے کی سرحد سے مس ہو کر ناولچہ کے زمرے میں جا داخل ہوتا ہے۔
تاثر اور کرداروں کے اعتبار سے اقبال متین کا ناولچہ ’’چراغِ تہہِداماں‘‘،ناول اور افسانے کے درمیان اپنی علاحدہ شناخت بنانے میں نہ صرف کامیاب ہے ۔بلکہ موضوع اور اُسلوب کی بن اپر اسے اُردو کے چند ہترین ناولچوں میں شمار کیا جائے گا ۔اس ناولچے کے کردا ر مختلف حیثیتوں سے ایک دوسرے کے مماثل تو نہیں ہیں تا ہم ہمسری ضرور کرتے ہیں ۔شانوجہ،کوشلیا،ڈئیر بالڈ اور پیارے لال کے کردار تاثر اور کمیت کے اعتبار سے خوب ہیں جن پر فن کار ن کافی محنت کی ہے ۔
’’کیمیائے دل‘‘جیلانی بانو کا کامیاب ناولچہ ہے ۔جس میں شہزاد آپا کے کردار کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔موضوع میں نیا پن کچھ بھی نہیں ہے لیکن جیلانی بانو نے یہاں اپنی فن کاری کے جوہر دکھاتے ہوئے ملتانی مٹی میں پچی کاری کا شاندار مظاہرہ کیا ہے ۔اس ناولچہ کے اختتام پر عورت کی ضد اور نئی قدروں کی آزاد روی کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے ۔انھوں نے ساری کہانی سلمیٰ کی زبانی بیان کی ہے
’’تین بتی کے راما‘‘ علی امام نقوی کا ناولچہ ہے جو فن اور اسلوب کے اعتبار سے بے حد انوکھا اور موضوع کے لحاظ سے سب سے جدا ہے ۔علی امام نقوی نے اس میں ممبئی کے گھریلو پیشہ افراد کی زندگیوں کی کامیاب عکاسی کی ہے ۔یہ لوگ گھروں میں خانساماں کا کام کرتے ہیں اور اوپر کے کام کاج بھی انھی کے ذمہ ہوتے ہیں ان لوگوں کو ممبئی کی زبان میں ’’راما ‘‘ کہا جاتا ہے ۔نقوی نے اس ناولچہ میں ممبئی کی عام بول چال کو کرداروں کے ذریعے بیان کیا ہے جو بھلی معلوم ہوتی ہے ۔طرز بیان حقیقت سے قریب نظر آتا ہے ۔یہ کہانی بھی افسانے اور ناول میں فرق پیدا کرتی ہے ۔اس میں وحدت تاثر نہ ہوتے ہوئے بھی غیر محسوس انداز میں پایا جاتا ہے ۔غریب راماؤں کی ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی،دکھ درد میں کام آنے اور محبت و خلوص کو انھوں نے خوبی سے درشایا ہے ۔فنی اعتبار سے یہ ایک کامیاب اور متاثر کن تخلیق ہے۔
غرض اپنی ماہئیت اور حدود سے بے خبر ناولچہ کا تخلیقی سفر جاری ہے ۔ناولچہ کی حدود اور اس کے فنی لوازم ،ناول اور افسانے سے کس قدر مختلف ہوسکتے ہیں یہ طے کرنا ناقدین کا کام ہے ۔کہانی کا کام بہر حال سفر کرنا ہے اور وہ اپنے فرائض سے بخوبی عہدہ برا ہو رہی ہے ۔کہانی انسان کی آخری سانس تک جاری رہے گی اس کی حیثیت بیک وقت انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی،وہ مقامی بھی ہے اور آفاقی بھی ۔ اور یہی اس کی انفرادیت ہے ۔