صباح الدین احمد
مرکب لفظ(Compound Word) کی تشکیل دو آزاد صرفیوں(Free Morphemes) کو ترکیب دینے سے عمل میں آتی ہے۔ اردو میں مرکب الفاظ کئی طرح سے تشکیل دیے جاتے ہیں اور ان کی متعدد قسمیں ہیں۔ لیکن اس مضمون میں صرف انھیں مرکباتِ لفظی کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے جو عربی فارسی سے آئے ہیں۔ ایسے مرکبات حسبِ ذیل ہیں:
۱۔ مرکبِ عطفی(Conjunctive Compound)
۲۔ مرکبِ اضافی(Genitive Compound)
۳۔ مرکبِ توصیفی(Attributive Compound)
۴۔ مرکبِ امتزاجی(Synthetic Compound)
۱۔ مرکبِ عطفی
یہ وہ مرکب ہے جو دو آزاد صرفیوں کے درمیان ’واوِ عطف‘ داخل کر کے تشکیل دیا جاتا ہے، اسی لیے اسے ’عطفی مرکب‘ یا ’مرکبِ عطفی‘ کہتے ہیں ، مثلاً رنج و غم، جان و مال، لیل و نہار، شب و روز، تر و تازہ، آب و ہوا، وغیرہ۔ ان مرکبات میں ’’و‘‘ (بمعنی ’اور‘) ’حرفِ عطف‘ ہے جو لفظِ ما قبل سے ملا کر ادا کیا جاتا ہے۔
مرکبِ عطفی کے دونوں اجزا ( آزاد صرفیے)، یعنی ’’و‘‘ سے قبل اور بعد میں آنے والے دونوں الفاظ عربی فارسی نژاد ہوتے ہیں جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے ظاہر ہے۔ معیاری اردو میں دو ہندی الاصل الفاظ کو حرفِ عطف سے جوڑ کر عطفی مرکب تشکیل نہیں دیے جاتے۔ اسی طرح ایک عربی یا فارسی لفظ اور ایک ہندی لفظ کو ’’و‘‘ سے ترکیب دے کر مرکبِ عطفی بنانے کی مثال بھی معیاری اردو میں نا پید ہے۔ مرکبِ عطفی کے دونوں اجزا جو دو آزاد صرفیوں یا الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں ، اسم بھی ہوسکتے ہیں اور صفت اور فعل بھی، مثلاً:
(۱)دونوں ا جزا اسم: شان و شوکت، علم و فن، دیرو حرم، شب و روز، صبح و شام، خواب و خیال، گل و بلبل، خاروخس، وغیرہ۔
(۲)دونوں اجزا صفت: تر و تازہ، نرم و نازک، سردو گرم، روشن و تابناک، حسین و جمیل، تنگ و تاریک، وغیرہ۔
(۳)دونوں اجزا فعل: آمدورفت، خوردو نوش، نوشت و خواند، دید و شنید، نشست و برخاست، خریدو فروخت، وغیرہ۔
۲۔ مرکبِ اضافی
یہ وہ مرکبِ ہے جو مضاف و مضاف الیہ سے مل کر بنتا ہے۔ اس کا پہلا جزو مضاف الیہ اور دوسرا جزو مضاف ہوتا ہے جس سے کا،کی، کے، کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے پہلے جزو کا آخری حرف بالکسر ہوتا ہے، یعنی اس کے نیچے زیر ( ِ ) ہوتی ہے جسے ’اضافتِ زیر‘ کہتے ہیں ، مثلاً خاکِ وطن (وطن کی خاک)۔ مرکبِ اضافی ہمزہ (ئ) اور یائے مجہول (بڑی ے) کے اضافے سے بھی تشکیل دیا جاتا ہے، مثلاً خانۂ خدا (خدا کا گھر)، بوئے گل (پھول کی مہک)، وغیرہ۔
(الف) فارسی مرکبِ اضافی
مرکبِ اضافی کی تشکیل کے مذکورہ تینوں قاعدے فارسی کے ہیں جن کی تفصیل درجِ ذیل ہے:
(۱)مرکبِ اضافی کا جزوِ اول جب مصمتے(Consonant) یا طویل مصوتے /ی/پر ختم ہوتا ہے تو اس کے آخری حرف کے نیچے زیر لگا دیتے ہیں جسے ’اضافتِ زیر‘ کہتے ہیں ، مثلاً دردِ دل، نبضِ بیمار، یادِ خدا، روزِ قیامت، غمِ دنیا، والیِ ریاَست، کرسیِ صدارت، ماضیِ قریب، وغیرہ۔
(۲)مرکبِ اضافی کا جزوِ اول جب ہائے مختفی پر ختم ہوتا ہے تو اس کے اوپر ہمزہ (ء) بنا دیتے ہیں ، مثلاً نعرۂ آزادی، وعدۂ فردا، خانۂ خدا، نشۂ دولت، نغمۂ بہار، کوچۂ یار، سانحۂ کربلا، وغیرہ۔
(۳)مرکبِ اضافی کا جزوِ اول جب طویل مصوتے(Long Vowel) –(ا) یا -(وٗ) پر ختم ہوتا ہے تو اس کے بعد یائے مجہول یا بڑی ’’ے‘‘ کا اضافہ کر دیا جاتا ہے، لیکن اس پر ہمزہ (ئ) بھی بنا دیا جاتا ہے، مثلاً صدائے دل، سزائے قید، تماشائے دنیا، بوئے گل، آبروئے وطن، خوئے دوست(۱)، وغیرہ۔
(ب)عربی مرکبِ اضافی
اردو میں مرکباتِ اضافی عربی قاعدے کے مطابق بھی ترکیب دیے جاتے ہیں۔ ایسے مرکبات میں جزوِ آخر کی ابتدا میں ’’ال‘‘ کا اضافہ کر دیا جاتا ہے، مثلاً دارالحکومت، شیخ الجامعہ، نورالاسلام، سحرالبیان، عبدالرزاق، عبدالستار، میلاد النبی، وغیرہ۔
اردو شعر و ادب میں مرکباتِ اضافی کا استعمال بکثرت پایا جاتا ہے۔ بعض اوقات دو دو یا تین تین اضافی مرکبات ایک ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں۔ غالبؔ نے تو اپنے ایک شعر میں چار مرکباتِ اضافی ایک ساتھ استعمال کیے ہیں۔ وہ شعر یہ ہے:
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
بعض اوقات دو مرکباتِ اضافی کو حرفِ عطف ’’و‘‘ سے جوڑ دیا جاتا ہے، مثلاً غالبؔ کا یہ شعر دیکھیے:
قیدِ حیات و بندِ غم، اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پائے کیوں
کبھی کبھی مرکبِ اضافی کو مرکبِ عطفی کے ساتھ ملا دیتے ہیں ، مثلاً اقبالؔ نے ’’پیمانۂ امروز و فردا‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے:
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں ، پیہم دواں ، ہر دم رواں ہے زندگی
۳۔ مرکبِ توصیفی
یہ وہ مرکب ہے جس کا جزوِ آخر صفت ہوتا ہے اور جزوِ اول موصوف۔ مرکبِ توصیفی بھی دو آزاد صرفیوں کو زیر، ہمزہ اور یائے مجہول (بڑی ’’ے‘‘) کے ساتھ ترکیب دینے سے بنتا ہے۔ لیکن ان کے معنی کا، کی، کے، کے نہیں ہوتے۔ اردو میں مستعمل تینوں اقسام کے مرکباتِ توصیفی یہ ہیں:
(۱)زیر سے مرکب، مثلاً روزِ سیاہ، گلِ سرخ، شبِ تاریک، روزِ روشن، سخنِ مختصر، حکایتِ لذیذ، تنِ نازک، وغیرہ۔
(۲)ہمزہ سے مرکب، مثلاً جادۂ مستقیم، دیدۂ نم، لقمۂ تر، شعلۂ جوالہ، بادۂ رنگین، خانۂ خالی، وغیرہ۔
(۳)یائے مجہول اور ہمزہ سے مرکب، مثلاً روٗئے زیبا، گفتگوئے خاص،جائے تنگ، ہوائے سرد، وغیرہ۔
۴۔ مرکبِ امتزاجی
یہ وہ مرکب ہے جس کے دونوں اجزا باہم اس طرح مخلوط ہوں کہ بہ ظاہر ترکیب کا گمان نہ ہو، مثلاً:
(۱)آسمان: یہ مرکب لفظ آسیا (بمعنی ’چکّی‘) کے جزوِ اول ’’آس‘‘ اور مانند (بمعنی ’مِثل‘) کے جزوِ اول ’’مان‘‘ سے مل کر بنا ہے، یعنی آس (یا)مان (ند)۔ ’’آسمان‘‘ کے لغوی معنی ہیں ، ’چکّی کے مثل یا مانند‘۔
(۲)آفتاب: یہ مرکب لفظ آفت اور آب کے امتزاج سے بنا ہے۔ یہ اصلاً ’’آفتِ آب‘‘ یعنی ’پانی کے لیے آفت‘ تھا جو کثرتِ استعمال سے ’’آفتاب‘‘ بن گیا، چوں کہ سورج کی شعاعوں سے پانی خشک ہو جاتا ہے، گویا سورج پانی کے لیے آفت ہوا۔ لہٰذا سورج کو اسی نام یعنی ’’آفتاب‘‘(آفتِ آب) سے پکارا جانے لگا۔
(۳)بغداد: عراق کے ایک شہر کا نام ہے۔ اصلاً یہ ’’باغِ داد‘‘ تھا۔ یعنی ’انصاف کا باغ‘، جہاں نوشیروانِ عادل بیٹھ کر انصاف کیا کرتا تھا۔ بعد میں ’’باغ‘‘ کا الف ساقط ہو گیا اور اضافتِ زیر بھی حذف ہو گئی جس سے باغِ داد، ’’بغداد‘‘ بن گیا۔
کتابیات:
۱۔ رشید حسن خاں ، اردو املا۔ دہلی: نیشنل اکادمی، ۱۹۷۴ء۔
۲۔ عبدالستار دلوی (مرتب)، اردو میں لسانیاتی تحقیق۔ بمبئی: کوکل اینڈ کمپنی، ۱۹۷۱ء۔
۳۔ مرزا خلیل احمد بیگ، آئیے اردو سیکھیں۔ علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ۱۹۹۵ء۔
***