تحریری طور پر اظہار خیال کے دو طریقے ہیں:1شاعری 2نثر علامہ اقبال بنیادی طور پر ایک شاعر تھے، اور ان کے خیالات کا اظہار زیادہ تر شاعری ہی میں ہوا۔ شعر و شاعری کی بہرحال کچھ حدود ہیں اور بعض تقاضے بھی۔ شعر میں دو اور دو چار کی طرح بات حسابی طریقے سے اور دو ٹوک انداز میں بیان نہیں کی جا سکتی کہ ایہام اور اختصار ایک درجے میں شاعری کا فنی تقاضا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شاعری میں بعض اہم مسائل مثلاً قومی و معاشی مسائل زیادہ وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان نہیں کئے جا سکتے۔ اس کے برعکس اعلیٰ درجے کی نثر میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ اس میں پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی جا سکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑے شاعر کو بھی ایک سطح پر نثر میں اظہار خیال کی ضرورت پیش آتی ہے، چنانچہ علامہ اقبال کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا اور انہوں نے اکثر و بیشتر موضوعات پر نثر میں بھی اپنے خیالات کا اظہار ضروری سمجھا۔
علامہ اقبال کی اردو نثر کی مختلف صورتیں ہیں، ان کے نثری ذخیرے میں خاصا تنوع ہے۔ ’’علم الاقتصاد‘‘ اور ’’ تاریخ تصوف‘‘ کے علاوہ بہت سے مقالات و مضامین، سینکڑوں مکاتیب اور متعدد دیگر نثر پارے (دیباچے، تقاریظ اور آراء وغیرہ) یہ تمام نثری سرمایہ ان کے افکار کو سمجھنے میں ممد و معاون ہے۔
اقبال کا مطالعہ زیادہ تر ان کے شعری سرمائے کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ ان پر لکھی جانے والی ہزاروں کتابوں اور مضامین کا تعلق زیادہ تر ان کی شاعری سے ہے۔ اور عقیدت مندان اقبال نے ان کی نثری سرمائے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی، حالانکہ ان کی شاعری کو سمجھنے کے لئے بھی ان کے نثری سرمائے کا بغور مطالعہ ضروری ہے۔ اقبال نے جن موضوعات پر اپنی شاعری میں اظہار خیال کیا ہے، ان پر عموماً نثر میں بھی قلم اٹھایا ہے۔ شعر کی تفہیم ایک ذوقی مسئلہ ہے، جبکہ نثر کو تھوڑی سی کوشش کے بعد آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے اور مصنف کے مدعا تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
جس زمانے میں علامہ اقبال نے اپنی پہلی باقاعدہ نثری تصنیف’’ علم الاقتصاد‘‘ لکھنے کا آغاز کیا (1901-02ئ) عین اسی زمانے میں انہوں نے مضمون نویسی بھی شروع کر دی تھی۔ ان کا پہلا مضمون’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ مخزن کے شمارہ جنوری1902ء میں شائع ہوا اور یہ سلسلہ 1902ء سے 1938ء تک وقفے وقفے کے ساتھ جاری رہا۔ اس دوران میں انہوں نے متعدد موضوعات پر مضامین تحریر کئے۔
اقبال کی نثری تخلیقات پر زیادہ کام شاید اس وجہ سے نہ ہو سکا کہ علامہ اقبال نے بذات خود اپنے نثری سرمائے کو کوئی خاص اہمیت نہ دی۔ ان کے شب و روز شاعری کی تخلیق میں گزرے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں شاعری کے متعدد مجموعے شائع کئے، لیکن اپنے نثری سرمائے کی جمع و ترتیب کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔ یہ بات تو ہم جانتے ہیں کہ اقبال کو نثر نگاری سے ویسی رغبت نہ تھی، جیسی انہیں شعر گوئی سے تھی، پھر چونکہ وہ ایک مصروف انسان تھے، اس لئے اتنی فرصت بھی نہ ملی کہ وہ مضمون نویسی کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوتے یا اپنے نثری سرمائے کو جمع کر کے چھاپ دیتے۔ انہوں نے بیشتر مضامین فرمائشوں پر تحریر کئے یا پھر بعض اعتراضات کا جواب دینے کے لئے تحریر کئے۔ بہرحال علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں کوئی نثری مجموعہ شائع نہیںکرایا، اور نہ عقیدت مندان اقبال میں سے کسی کو اس کا خیال آیا، نتیجتہً اقبال کی وفات تک ان کا کوئی نثری مجموعہ منظر عام پر نہ آیا۔ اس طرح قارئین اقبال ایک مدت تک علامہ اقبال کی اردو نثر سے تقریباً نا آشنا رہے۔
اقبال کے نثری مجموعوں کی اشاعت کا خیال سب سے پہلے احمدیہ پریس حیدر آباد دکن کے تصدق حسین تاج کو آیا، انہوں نے ’’ مضامین اقبال‘‘ کے نام سے 1944ء میں اقبال کا پہلا نثری مجموعہ مرتب کر کے چھاپا اور اس طرح یہ سلسلہ چل نکلا، آئندہ صفحات میں ہم اقبال کے نثری مجموعوں کا تفصیلی تعارف پیش کریں گے۔
مضامین اقبال (طبع اول)
علامہ اقبال کے نثر پارے ایک عرصہ تک یکجا صورت میں نظروں سے اوجھل رہنے کے بعد پہلی مرتبہ 1944ء میں ’’ مضامین اقبال‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئے۔ ’’ مضامین اقبال‘‘ کی ترتیب و اشاعت کا سہرا احمدیہ پریس کے تصدق حسین تاج کے سر ہے۔ انہیں علامہ اقبا کی شعری و نثری تخلیقات سے شروع شغف رہا، اس سے قبل بھی وہ علامہ اقبال کی بعض تخلیقات شائع کر چکے تھے۔
یہ مجموعہ مضامین، اقبال کے شعری مجموعوں کی تقطیع پر شائع ہوا مسطر انیس سطری ہے۔ سرورق اور فہرست کے دو اوراق شمار نہیں کئے گئے۔ دیباچہ (از: غلام دستگیر رشید، بہ عنوان :’’ صبح امید‘‘ ) کے دس صفحات کا شمار الف ب ج د۔۔۔۔ سے ہے۔ متن مضامین صفحات: 1تا204پر محیط ہے۔ غلام دستگیر رشید نے اپنے دیباچے میں اقبال کے اسلوب پر شاعرانہ انداز میں تبصرہ کیا ہے۔ کتابت خوبصورت ہے، قلم درمیانہ استعمال کیا ہے۔ اکثر مضامین پر تمہیدی نوٹ باریک قلم سے درج کئے گئے ہیں ۔ جن سے اصل مضامین اور تمہید میں فرق واضح ہو گیا ہے۔ اکثر جگہ قدیم املا اختیار کیا گیا ہے۔
’’ مضامین اقبال‘‘ میں اقبال کے چودہ نثر پارے شامل ہیں، ان میں سے نصف انگریزی مضامین کے اردو تراجم ہیں اور نصف اردو مضامین ہیں، تفصیل اس طرح ہے:
1زبان اردو: یہ مضمون ڈاکٹر وائٹ برجنٹ صاحب کے انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے، جو علامہ اقبال نے ’’ مخزن‘‘ کی درخواست پر تحریر کیا تھا۔
2 اردو زبان پنجاب میں: یہ مضمون علامہا قبال نے کسی صاحب کے اعتراض کے جواب میں تحریر کیا تھا۔
3 قومی زندگی: یہ ایک فکری مضمون ہے اور ’’ مخزن‘‘ میں قسط وار شائع ہوتا رہا۔
4دیباچہ مثنوی اسرارخودی: یہ علامہ اقبال کی فارسی مثنوی ’’ اسرار خودی‘‘ کا دیباچہ ہے۔
5دیباچہ مثنوی رموز بیخودی: یہ بھی فارسی مثنوی کا دیباچہ ہے، یہ مثنوی 1918ء میں شائع ہوئی تھی، لیکن ’’ مضامین اقبال‘‘ میں اس کا سنہ اشاعت درج نہیں ہے۔
6 دیباچہ پیام مشرق: یہ کتاب1923ء میں شائع ہوئی تھی، لیکن اس کا سنہ اشاعت بھی درج نہیں۔
7 فلسفہ سخت کوشی: ڈاکٹر نکلسن کے نام اقبال کے ایک طویل مکتوب مورخہ 24جنوری 1921ء کا اردو ترجمہ ہے (ترجمہ: از چراغ حسن حسرت )1؎ یہی ترجمہ ’’ اقبال نامہ‘‘ حصہ اول (ص:474-457) میں بھی شامل ہے۔ مرتب نے اس کا سنہ اشاعت بھی درج نہیں کیا، حالانکہ یہ معلوم کیا جا سکتا تھا۔
8 جناب رسالت مابؐ کا ادبی تبصرہ: یہ Our Prophet’s Criticism of Contemporary Arabian Poetry کا اردو ترجمہ ہے۔ اصل مضمون پہلی بار لکھنو کے New Era(28جولائی1917ئ) میں شائع ہوا۔ بعد میں اس کا اردو ترجمہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فن شعر کے مبصر کی حیثیت میں‘‘ ستارۂ صبح لاہور (18اگست1917ئ) میں چھپا۔2؎
9ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر: یہ The Muslim Community کا اردو ترجمہ ہے۔ مترجم مولانا ظفر علی خان ہیں۔
10 خطبہ صدارت آل انڈیا مسلم لیگ منعقدہ الہ آباد، دسمبر1930ئ: اصل خطبہ انگریزی میں ہے سید نذیر نیازی نے اس کا اردو ترجمہ کیا۔
11ختم نبوت: Islam and Ahmadism کا اردو ترجمہ ہے، مترجم میر حسن الدین ہیں۔
12جغرافیائی حدود اور مسلمان: علامہ اقبال نے یہ مضمون مولانا حسین احمد مدنی کے جواب میں تحریر کیا تھا۔
13 دیباچہ مرقع چغتائی: اصل تحریر انگریزی میں ہے، اس کا ترجمہ جناب غلام دستگیر رشید نے کیا تھا۔
14 تقریر انجمن ادبی، کابل: جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے یہ علامہ اقبال کی کابل (افغانستان) میں کی گئی ایک تقریر ہے۔
اس طرح ’’ مضامین اقبال‘‘ میں نثر پاروں کی کل تعداد چودہ بنتی ہے، مگر اردو نثر پارے تعداد میں صرف آٹھ ہیں، جن میں سے تین دیباچے (اسرار خودی، رموز بیخودی اور پیام مشرق) اور ایک تقریر ہے، جو ہمارے مقالہ کے اس باب کی حدود میں نہیں آتے، اس طرح اردو مضامین (زبان اردو، اردو زبان پنجاب میں، قومی زندگی، جغرافیائی حدود اور مسلمان) کی تعداد صرف چار رہ جاتی ہے، جبکہ اصل تعداد خاصی زیادہ ہے (جیسا کہ بعد میں ’’ مقالات اقبال‘‘ کی اشاعت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے) چونکہ مرتب کو کل چودہ نثری تحریریں دستیاب ہو سکیں، اس لئے انہوں نے وہی پیش کر دیں، حالانکہ ذرا اسی تگ و دو سے وہ علامہ کے مزید مضامین دستیاب کر سکتے تھے، کیونکہ 1944ء میں ایسا کرنا زیادہ آسان تھا۔ا س زمانے میں شائقین اقبال کی بھاری تعداد بقید حیات تھی اور علامہ اقبال کے قریبی دوست احباب سے استفادہ کیا جا سکتا تھا، لیکن افسوس ہے کہ مرتب نے اس سہولت سے استفادہ نہ کیا، جس کی وجہ سے وہ نہ تو اقبال کے مضامین زیادہ تعداد میں حاصل کر سکے اور نہ حاصل شدہ مضامین اور نثر پاروں کے ماخذ اور سنین کا تعین کر سکے۔ ایسا کرنا بے حد ضروری تھا کہ یہ علامہ اقبال کے مضامین کا پہلا مجموعہ تھا۔ بہرحال مجموعی طور پر تصدق حسین تاج کی یہ کاوش قابل تحسین ہے کہ انہوں نے علامہ اقبال کے مضامین ایک مجموعے کی صورت میں چھاپنے میں پہل کی۔ نقل متن میں انہوں نے خاصی احتیاط سے کام لیا ہے، لیکن کہیں کہیں تصرفات بھی کئے ہیں، ان تصرفات کا جائزہ ہم آئندہ صفحات میں لیں گے۔
’’ مضامین اقبال‘‘ (طبع دوم):
’’ مضامین اقبال‘‘ کا دوسرا ایڈیشن1985ء میں تصدق حسین تاج کے صاحبزادے اقبال حسین کی دلچسپی سے شائع ہوا۔ اس ایڈیشن میں پہلے ایڈیشن کے چودہ مضامین اور تین نئے نثر پاروں کا اضافہ کیا گیا۔ اس ایڈیشن کی ترتیب کچھ یوں ہے: سر ورق اور فہرست مضامین کے دو صفحے اور تیسرا صفحہ جس پر علامہ کی تصویر اور ان کی فارسی رباعی (سرور رفتہ باز آید کہ ناید) ہے، شمار میں نہیں لایا گیا۔ پیش لفظ (از: تصدق حسین تاج) اور علامہ اقبال کی حالات زندگی (ماخوذ از: اردو انسائیکلو پیڈیا، فیروز سنز لاہور، دوسرا ایڈیشن 1968ئ) کے تقریباً دو صفحات بھی شمار میں نہیں لائے گئے۔ غلام دستگیر رشید کا دیباچہ بہ عنوان:’’ صبح امید‘‘ صفحات الف ب ج د پر درج ہے۔ مضامین کا متن ص:1تا281پر محیط ہے۔ ’’ مضامین اقبال‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں چونکہ چودہ مضامین شامل تھے، اس لئے متن ص:204تک ختم ہو جاتا تھا۔ دوسرا ایڈیشن تین نثر پاروں کے اضافوں کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اس لئے متن ص:281پر ختم ہوتا ہے۔ مرتب نے اس کی وضاحت کر دی کہ ص: پر ’’ ختم شد‘‘ کے الفاظ حذف کئے جاتے ہیں۔
’’ پیش لفظ‘‘ میں مرتب نے مختلف لوگوں کے تعاون اور دلچسپی کا ذکر کرتے ہوئے جناب غلام دستگیر رشید کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے ’’ مضامین اقبال‘‘ کے اولیں ایڈیشن کا دیباچہ لکھا تھا اور تصدق حسین تاج سہواً ان کا شکریہ ادا نہ کر سکے تھے۔ اس ایڈیشن میں علامہ اقبال کی حالات زندگی کے سلسلے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں او رماخذ’’ اردو انسائیکلو پیڈیا‘‘ بتایا گیا ہے، اس کی وجہ مرتب نے یہ بیان کی ہے کہ علامہ اقبال کے سنہ پیدائش کے بارے میں مختلف آراء ملتی ہیں، لیکن انہوں نے انسائیکلوپیڈیا کو ترجیح دی۔ مرتب نے ابتداء میں علامہ اقبال کی جو فارسی رباعی درج کی ہے، اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’ عام طور پر اقبال کے شعر میں سرود رفتہ لکھا گیا ہے، مگر میری تحقیق سرود رفتہ ہے۔‘‘ 3؎
اس ایڈیشن میں اضافہ شدہ نثر پاروں کا تعارف کچھ یوں ہے۔
1اقبال کے ایک غیر مطبوعہ انگریزی خطبہ کا اردو ترجمہ: یہ انگریزی خطبہ علامہ اقبال نے اورینٹل کانفرنس منعقدہ لاہور1928ء کے شعبہ عربی و فارسی میں پڑھا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ محمد داؤد رہبر، بی اے (آنرز) نے کیا۔
2خطبہ صدارت: آل انڈیا مسلم کانفرنس اجلاس منعقدہ لاہور21مارچ1931ء میں یہ خطبہ دیا گیا۔
3حیات بعد موت کا اسلامی نظریہ: علامہ اقبال کا یہ مضمون The Muslim Revival بابت ماہ ستمبر1932ء میں شائع ہوا۔ اس کا ترجمہ ڈاکٹر صادق حسن نے کیا ہے۔
اس طرح ’’ مضامین اقبال‘‘ کی دوسری اشاعت میں نثر پاروں کی کل تعداد سترہ ہو جاتی ہے، لیکن اردو نثر پاروں کی تعداد میں اضافہ خاطر خواہ نہیں ہوا، کیونکہ نئی تحریروں میں سے دو انگریزی نثر پاروں کے تراجم ہیں۔ صرف ایک تحریر (خطبہ صدارت) اردو کی ہے۔ ہمارے مقالے کے اس باب کا موضوع’’ اقبال کے اردو مضامین‘‘ ہے اور اس میں ترجمہ شدہ مضامین، دیباچے اور تقاریر وغیرہ شامل نہیں ہیں۔ اس طرح اردو مضامین کے حوالے سے ’’ مضامین اقبال طبع اول و دوم‘‘ میں اردو مضامین کی تعداد پانچ بنتی ہے، یعنی1زبان اردو، 2اردو زبان پنجاب میں، 3قومی زندگی، 4 جغرافیائی حدود اور مسلمان، 5خطبہ صدارت
مقالات اقبال (طبع اول):
’’ مضامین اقبال‘‘ کی اشاعت کے بیس برس بعد1963ء میں سید عبدالواحد معینی نے ’’مقالات اقبال‘‘ کے نام سے اقبال کے مضامین شائع کیے۔ سر ورق ص: اپر، انتساب (بہ نام: جاوید اور منیرہ) ص:3 پر اور ص:4خالی ہے۔ فہرست مضامین ص:5 اور 6مقدمہ (بہ عنوان: جسارت، از : ڈاکٹر سید عبداللہ) ص7تا18پیش لفظ (از: سید عبدالواحد معینی) ص: الف ب ج د۔۔۔۔۔۔ پر ہے، اور متن کتاب از سر نو ص: 1سے 247تک ہے، آخر میں تین صفحات کا صحت نامہ درج ہے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ نے مقدمہ میں علامہ کی نثر نگاری کی مختلف خصوصیات بتائی ہیں، اور یہ بھی بتایا ہے کہ علامہ کے مضامین کا آغاز1902ء سے ہوا، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ پہلا مضمون کون سا لکھا گیا۔ مرتب نے پیش لفظ میں علامہ کی شخصیت اور فکر میں ان کے نثری مضامین کی اہمیت پر بحث کی ہے، اور ’’ مقالات اقبال‘‘ میں شامل مقالات کے ماخذ کا ذکر کیا ہے۔ ’’ مقالات اقبال‘‘ کی ترتیب و تدوین کے وقت مرتب کے پیش نظر جو مقصد تھا،ا سے وہ اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’ اس مجموعے کی ترتیب شروع کرتے وقت مقصد یہ تھا کہ اس میں علامہ کے صرف اردو مضامین کو شامل کیا جائے تاکہ علامہ کے بیش بہا خیالات کے ساتھ ان کے اردو انشاء پردازی کے جوہر بھی عیاں ہوں اور اس باکمال شخصیت کی اردو نثر نگاری کا کمال بھی آشکار ہو۔ انگریزی مضامین کا مجموعہ زیر ترتیب ہے اور تائید ایزدی شامل حال رہی تو علیحدہ شائع کیا جائے گا۔ مگر علامہ کے دو انگریزی کے مضامین فی الحال صرف اردو ترجمہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں اور یہ ترجمے علامہ نے خود نہیں کئے تھے۔ پھر بھی ان مضامین میں علامہ نے کچھ ایسی اہم اور حکیمانہ باتیں بیان کی ہیں کہ ہم ان بزرگوں کے شکر گزار ہیں جن کی کوششوں سے یہ مضامین کم از کم ترجمہ کی شکل میں محفوظ ہیں۔۔۔۔۔4؎‘‘
ان مضامین کے سلسلے میں مرتب آگے چل کر لکھتے ہیں:
’’ ان دونوں مضامین (ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر، اسلام میں خلافت) کے اس مجموعہ میں شامل کرنے سے ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ قارئین کرام کا اصل انگریزی مضامین کے تجسس کا ذوق برقرار رہے گا۔ اصل مضامین کے مل جانے پر ان ترجموں کو اس مجموعے سے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔‘‘ 5؎
اب ہم ’’ مقالات اقبال‘‘ طبع اول میں شامل مضامین کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں۔ اس مجموعہ مضامین میں شامل بیشتر تحریریں قبل ازیں ’’ مضامین اقبال‘‘ میں شائع ہو کر سامنے آ چکی ہیں۔ اس لئے ہم یہاں ان کا ذکر نہیں کریں گے۔ یہاں یہ وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ مرتب نے ’’ مضامین اقبال‘‘ میں سے صرف اردو مضامین اس مجموعہ مضامین میں شامل کئے ہیں (سوائے دو مضامین کے جن کے اردو تراجم شامل کئے گئے ہیں) ’’ مقالات اقبال‘‘ میں اضافہ شدہ مضامین کا تعارف کچھ یوںہے:
1بچوں کی تعلیم و تربیت: یہ علامہ اقبال کا پہلا مضمون ہے، جو اردو میں لکھا گیا اور ’’ مخزن‘‘ جنوری 1902ء میں شائع ہوا۔
2اقبال کے دو خطوط ایڈیٹر ’’ وطن‘‘ کے نام،1905ئ: اگرچہ یہ خطوط ہیں، جو ایڈیٹر’’ وطن‘‘ کو عدن اور کیمرج سے لکھے گئے اور ان کا شمار نثر پاروں کی ذیل میں نہیں ہوتا، لیکن مرتب نے اس کی شمولیت کی وجہ اس طرح بیان کی ہے:
’’ علامہ کے دو خطوط جو علامہ نے 1905ء میں ایڈیٹر صاحب ’’وطن‘‘ لاہور کو عدن اور کیمرج سے لکھے تھے دراصل خطوط نہیں ہیں، وہ اردو انشاء پردازی کے اعلیٰ ترین نمونے ہیں اور اس زمانہ کے سفر انگلستان کے حالات ہیں۔ ان دونوں خطوں میں علامہ کی دلچسپ شخصیت کے سمجھنے میں اتنی مدد ملتی ہے کہ یہ ہی مناسب سمجھا گیا کہ ان کو اس مجموعہ میں شامل کر لیا جائے۔ دوسری وجہ ان کے شامل کرنے کی یہ بھی ہے کہ فی الحال یہ خطوط کسی شائع شدہ مجموعہ میں شامل بھی نہیں کئے گئے ہیں۔ ان کی اشاعت صرف جریدۂ اقبال لاہور میں ہوئی ہے۔‘‘ 6؎
مرتب نے ان خطوط کو شامل کرنے کی جو پہلی وجہ بتائی ہے وہ کچھ زیادہ معقول نہیں، کیونکہ علامہ اقبال کی شخصیت تو ان کے تقریباً ہر خط میں جھلکتی ہے، ان دو خطوط کو مجموعہ مضامین میں شامل کرنے سے تو باقی خطوط کی شمولیت کے سلسلے میں بھی اسی قسم کا جواز پیدا کیا جا سکتا ہے۔ دوسری وجہ محض اس حد تک صحیح ہے کہ یہ مکتوب، خطوط کے کسی مجموعے میں اب تک شامل نہ تھے، اس لئے انہوں نے اس مجموعہ مضامین میں شامل کر لیا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ مکتوب ایک بار ’’جریدۂ اقبال‘‘ میں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکے تھے تو پھر انہیں اس مجموعے میں شامل کرنے کی کیا تک بنتی ہے۔ بنیادی طور پر ’’ مقالات اقبال‘‘ مکاتیب کا مجموعہ نہیں، بلکہ مضامین کا مجموعہ ہے اور مضامین کے مجموعے کو صرف مضامین تک ہی محدود رکھا جاتا تو بہتر تھا۔
3خلافت اسلامیہ 1908ئ: اصل مضمون انگریزی میں تھا، اس کا ترجمہ چودھری محمد حسین نے کیا ہے۔ اس مضمون کے سلسلے میں مرتب نے ’’ پیش لفظ‘‘ میں لکھا ہے:
’’ انگلستان کے قیام کے دوران علامہ نے ایک مضمون اسلام میں خلافت، کے موضوع پر سپرد قلم کیا تھا اور یہ مضمون لندن کے مشہور سائیکلوجیکل ریویو، میں1908ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کا ترجمہ اخبار وکیل، امرتسر میں شائع ہوا تھا۔ مگر یہ ترجمہ اقبال کو پسند نہیں تھا۔ لہٰذا غالباً علامہ کے اشارہ سے چودھری محمد حسین نے دوبارہ اس کا ترجمہ کیا، یہ ترجمہ علامہ نے بہت پسند کیا۔‘‘ 7؎
لیکن ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں کہ ’’ خلافت اسلامیہ‘‘ Political Thought in Islam کا ترجمہ ہے، جو لندن کے رسالہ Sociological Review میں شائع ہوا۔ بعد ازاں The Hindustan Review (الہ آباد، دسمبر1910ء اور جنوری 1911ئ) اور پھر Muslim Outlook(1922ئ) میں چھپا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ سید عبدالواحد معینی نے اس کا عنوان ’’ اسلام میں خلافت Islam and Khilafat بتایا ہے، جو درست نہیں۔ در حقیقت یہ ایک ہی مضمون ہے جو تین بار مختلف رسائل میں طبع ہوا۔ اس کا اردو ترجمہ (از: چودھری محمد حسین) ’’ خلافت اسلامیہ‘‘ کتابچے کی شکل میں لاہور سے شائع ہوا۔ 8؎ اس طرح ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ خلافت اسلامیہ Political Thought in Islam کا اردو ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی 9؎نے بھی بلا تحقیق اس نثر پارے کے سلسلے میں ’’ مقالات اقبال‘‘ کے مرتب کی غلطی کو دہرایا ہے۔‘‘
4ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر1910ئ: اگرچہ یہ مضمون ’’ مضامین اقبال‘‘ میں چھپ کر سامنے آ چکا ہے، لیکن اس مضمون کے سلسلے میں مرتب کی غلطی قابل اصلاح ہے، وہ ’’ پیش لفظ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ علامہ نے 1910ء میں جو لیکچر علی گڑھ میں Islam as a Social and Political Ideal پر دیا تھا اس کا ترجمہ مولانا ظفر علی خاں جیسے عالم بے بدل اور ادیب بے مثل نے کیا تھا، اور مولانا نے علامہ کی موجودگی میں یہ ترجمہ اسلامیہ کالج لاہور کے برکت علی ہال میں پڑھ کر سنایا۔ لہٰذا ایک طرح سے اس ترجمہ کی صحت کی دو گونہ ضمانت ہمارے پاس موجود ہے، لہٰذا یہ ہی مناسب خیال کیا گیا کہ اس ترجمہ کو اس مجموعہ میں شامل کر لیا جائے۔‘‘ 10؎
مرتب نے ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کو انگریزی مضمون Islam as a Social and Political Ideal کا اردو ترجمہ بتایا ہے، جبکہ علی گڑھ لیکچر کا عنوان The Muslim Community تھا، جس کا اردو ترجمہ (از: مولانا ظفر علی خاں) ’’ ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ کے عنوان سے کئی جگہ چھپ چکا ہے۔
5پین اسلام ازم :1911ء کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں سجاد حیدر یلدرم کی تحریک پر مولانا شبلی نعمانی نے علامہ اقبال کو پھول پہنائے اور تقریر بھی کی۔ا س کے جواب میں علامہ اقبال نے بھی جو چند کلمات فرمائے وہ اس عنوان سے شائع ہوئے۔
6 ایک دلچسپ مکالمہ 1914ء : یہ تصوف کے موضوع پر ایک دلچسپ مکالمہ ہے، جو محمد دین فوق نے علامہ اقبال سے مختلف سوالات کے ذریعے کیا تھا۔
7اسرار خودی اور تصوف: اکثر لوگوں نے اس امر کی شکایت کی تھی کہ علامہ اقبال نے تصوف کی مخالفت کی ہے، لیکن علامہ نے اس مضمون میں تفصیل سے خودی اور تصوف پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ مضمون ’’ وکیل‘‘ امرتسر15جنوری1916ء کے شمارے میں شائع ہوا۔
8 سر اسرار خودی 1916ئ: یہ مضمون علامہ اقبال نے خواجہ حسن نظامی کے مضمون کے جواب میں تحریر کیا ہے۔
9تصوف وجودیہ: یہ مضمون’’ وکیل‘‘ امرتسر12دسمبر1916ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ علامہ نے چند مضامین میں نبی کریمؐ کی اس پیشین گوئی پر بحث کی تھی کہ تین فرقوں کے بعد میری امت میں سمن کا ظہور ہو گا۔ یہ مضمون اس سلسلے کی دوسری کڑی ہے۔
10جناب رسالتمابؐ کا ادبی تبصرہ 1917ئ:’’ مضامین اقبال‘‘ میں بھی شامل ہے اور اس میں اسے انگریزی مضمون بتایا گیا ہے، لیکن ’’ مقالات اقبال‘‘ کے مرتب نے’’ پیش لفظ‘‘ میں اس مضمون کے ضمن میں اس قسم کے جملے تحریر کئے ہیں:
’’ اکثر احباب کا خیال تھا کہ ستارۂ صبح، میں جو مضمون مولانا ظفر علی خاں نے شائع کیا تھا وہ شاید انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے مگر اغلب یہ ہے کہ اردو کا مضمون علامہ نے مولانا ظفر علی خاں کی درخواست پر ستارۂ صبح کے لئے اردو میں لکھا۔‘‘ 11؎
ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مرتب کے اس بیان کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس مضمون کے اردو اور انگریزی متون کا موازنہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو الگ مضامین نہیں، بلکہ اردو متن انگریزی تحریر کا ترجمہ ہے۔ 12؎
یہ بات درست ہے کہ ’’ جناب رسالتمابؐ کا ادبی تبصرہ‘‘ در حقیقت انگریزی مضمون Our Prophet’s Criticism of Contemporary Arabian Poetry ہی کا ترجمہ ہے۔ یہ امر یقینا غور طلب ہے کہ اس مضمون کی اشاعت کے فوراً بعد علامہ اقبال نے اسی موضوع پر اردو زبان میں مضمون لکھ دینے کی درخواست پر عمل کس طرح کر لیا، جبکہ مضمون نویسی ان کا میدان خاص نہ تھا، بلکہ وہ کسی نہ کسی مجبوری کے تحت مضمون لکھنے پر آمادہ ہوتے تھے۔ چنانچہ مرتب کی اس مضمون کے سلسلے میں قیاس آرائی بعید از قیاس ہے۔
11محفل میلاد النبیؐ: یہ ایک تقریر ہے، جو علامہ اقبال نے میلاد النبیؐ کی کسی محفل میں کی تھی۔ اس تقریر کی رپورٹ’’ زمیندار‘‘ لاہور میں شائع ہوئی تھی۔ جناب دستگیر رشید نے یہ تقریر’’ زمیندار‘‘ کے صفحات سے لے کر اپنے مجموعہ’’ آثار اقبال‘‘ میں شائع کی تھی۔’’ آثار اقبال‘‘ سے نقل کر کے، مرتب نے’’ مقالات اقبال‘‘ میں اسے شامل کر لیا۔
12تقاریظ رب تصانیف جناب فوق مرحوم: یہ محمد دین فوق کی تین تصانیف:’’ امتحان میں پاس ہونے کا گر‘‘ حریت اسلام اور’’ سوانح علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی‘‘ پر علامہ اقبال کی مختصر تقاریظ ہیں۔’’ مقالات اقبال‘‘ میں ان تقاریظ کے آخر میں3دسمبر1924ء درج ہے۔
13 اراکین انجمن حمایت اسلام کے نام: یہ بھی ایک تقریر ہے۔ اس تقریر کا ماخذ اور سنہ اشاعت درج نہیں ہے۔
14اسلام اور علوم جدیدہ: علامہ اقبال کو محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس منعقدہ 1911ء کے تیسرے جلسے کی صدارت فرمائی تھی، اس جلسے میں خواجہ کمال صاحب نے ’’ اسلام اور علوم جدیدہ‘‘ کے موضوع پر تقریر کی تھی۔ اس تقریر کے اختتام پر علامہ نے چند مختصر اور جامع کلمات ارشاد فرمائے، جس سے اسلام کا تعلق علوم جدیدہ کے ساتھ واضح ہوتا ہے۔
15خطبہ عیدالفطر: اقبال کا یہ خطبہ1932ء کی عید الفطر کے موقع پر انجمن اسلامیہ پنجاب لاہور نے فیروز پرنٹنگ ورکس لاہور سے پمفلٹ کی صورت میں چھپوا کر تقسیم کیا تھا۔
اس طرح ’’ مقالات اقبال‘‘ کے اولین ایڈیشن میں’’ مضامین اقبال‘‘ کی نسبت نئے نثر پاروں کی تعداد خاصی زیادہ ہے، اگرچہ ان اضافہ شدہ نثر پاروں میں سے باقاعدہ اردو مضامین زیادہ نہیں ہیں، کیونکہ ان میں بیشتر انگریزی مضامین کے تراجم، تقاریر اور خطبات ہیں۔ ہمارے مقالے کے اس باب کا تعلق چونکہ تراجم، خطبات اور تقاریظ سے نہیں بلکہ اردو مضامین سے ہے، اس لئے اب ہم متذکرہ بالا نثر پاروں میں سے صرف اردو مضامین کا تعین کرتے ہیں، مثلاً: بچوں کی تعلیم و تربیت، اسرار خودی اور تصوف، سر اسرار خودی، تصوف وجودیہ، اسلام اور علوم جدیدہ، خطبہ عیدالفطر، گویا اضافہ شدہ تیرہ نثر پاروں میں سے اردو مضامین کی تعداد چھ ہے۔
مقالات اقبال (طبع دوم):
’’ مقالات اقبال‘‘ دوسری مرتبہ 1988ء میں شائع ہوئی۔ اس اشاعت پر مرتبین کی حیثیت سے سید عبدالواحد اور محمد عبداللہ قریشی کے نام درج ہیں۔ سر ورق کے لئے دو صفحات استعمال کئے گئے ہیں۔ انتساب، حسب سابق جاوید اور منیرہ کے نام ہے۔ اس اشاعت میں صفحات کے شمار نمبر میں تبدیلی کی گئی ہے کہ سر ورق کے پہلے صفحے کو ص: 1قرار دیا گیا ہے اور باقی صفحات اسی طرح مسلسل شمار کئے گئے ہیں۔ متن کتاب ص33تا 376پر مشتمل ہے۔ آخر میں تین صفحات کے ’’صحت نامہ‘‘ کو حذف کر دیا گیا ہے۔
’’ مقالات اقبال‘‘ کی دوسری اشاعت میں تقریباً نو نثر پاروں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ لیکن مرتبین نے اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ عبداللہ قریشی نے ’’ مقالات اقبال‘‘ کی اس اشاعت میں کس حد تک معاونت کی ہے۔ بہرحال ہم اضافہ شدہ مضامین کا تعارف پیش کرتے ہیں:
1علم ظاہر و علم باطن: علامہ کا یہ مضمون اخبار’’ وکیل‘‘ (امرتسر) کے 28جون1916ء کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔ یہ ان مضامین کی ایک کڑی ہے جو ’’ اسرار خودی‘‘ کی اشاعت کے بعد معترضین کے جواب میں انہوں نے تحریر کئے تھے۔ یہ مضمون’’ انوار اقبال‘‘ (مرتبہ: بشیر احمد ڈار) میں بھی شامل ہے۔
2اسلام اور تصوف: یہ مضمون انگریزی میں ہے اور ہفتہ وارNew Era میں28جولائی 1917ء کو شائع ہوا۔
3اسلام ایک اخلاقی تصور کی حیثیت میں: مرتب نے اس مضمون کو انگریزی مضمون کی تلخیص بتایا ہے، لیکن انگریزی مضمون کا عنوان اور سنہ اشاعت نہیں بتایا۔
4شریعت اسلام میں مرد اور عورت کا رتبہ: دسمبر1928ء میں علامہ اقبال مدراس تشریف لے گئے تو مدراس میں اپنے تین روزہ قیام میں اراکین سوسائٹی گورنمنٹ محمڈن کالج اور انجمن خواتین اسلام مدراس نے آپ کی خدمت میں سپاسنامے پیش کئے۔ انجمن خواتین اسلام نے دو شنبہ 7جنوری 1929ء مطابق29رجب1347ء کو ٹاکرس گارڈن مدراس میں جو سپاسنامہ پیش کیا اس کے جواب میں حضرت اقبال نے یہ تقریر کی۔ 13؎ یہ تقریر ’’ گفتار اقبال‘‘ (ص:75) میں بھی شامل ہے۔
5حکمائے اسلام کے عمیق مطالعے کی دعوت: یہ انگریزی میں صدارتی خطبہ ہے، جو علامہ اقبال نے اورینٹل کانفرنس لاہور کے شعبہ عربی و فارسی کے اجلاس منعقدہ 1928ء میں دیا تھا۔
6حکمرانی کا خدا داد حق: یہ علامہ اقبال کے اس انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ ہے Devine Right to Rule کے عنوان سے لاہور کے انگریزی ہفتہ وار Light کے رسول نمبر میں30 اگست1928ء کو شائع ہوا تھا۔ اس کا ترجمہ پروفیسر ابوبکر صدیقی (گورنمنٹ کالج جھنگ) نے کیا ہے۔ 14؎
7لسان العصر اکبر کے کلام میں ہیگل کا رنگ: یہ انگریزی مضمون Touch of Hegalianism in Lisanul Asar Akbar کا اردو ترجمہ ہے۔
8 افغانستان جدید: یہ پیش لفظ ہے، اور انگریزی میں ہے۔ محمد عبداللہ قریشی کی فرمائش پر پروفیسر ابوبکر صدیقی نے اس کا ترجمہ کیا۔
9 اسلام کا مطالعہ زمانہ حال کی روشنی میں: یہ ایک خط ہے، جو علامہ اقبال نے 14نومبر1923ء کو سید محمد سعید الدین جعفری کے نام لکھا تھا۔
اس طرح ’’ مقالات اقبال‘‘ کی دوسری اشاعت میں اضافہ شدہ نو نثر پاروں میں سے اصلاً اردو مضمون صرف ایک (علم ظاہر و علم باطن) ہے۔ باقی تمام کے تمام نثر پارے یا تو تقاریر، پیش لفظ یا خط کی صورت میں ہیںیا پھرکسی انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ یا تلخیص ہیں۔ اس جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ مقالات اقبال‘‘ (طبع اول و دوم) میں اصلاً اردو مضامین کی تعداد سات بنتی ہے۔
سید عبدالواحد معینی نے طبع اول کے ’’ پیش لفظ‘‘ میں تحریر کیا تھا کہ یہ مجموعہ مضامین، علامہ کی نثری تخلیقات پر مشتمل ہے، لیکن اس میں دو انگریزی مضامین کے تراجم او رخط کو شامل کیا گیا تھا، جس کی وضاحت کر دی گئی تھی اور یہ تحریر کیا گیا تھا کہ ان مضامین کے اصل متن مل جانے پر ان تراجم کو متن سے خارج کر دیا جائے گا۔ 15؎ مگر یہ امر باعث تعجب ہے کہ ’’ مقالات اقبال‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میں سات انگریزی مضامین کے تراجم اور ایک خط شامل ہے، لیکن اس تراجم کی شمولیت کی وجوہ کہیں تحریر نہیں کی گئیں، حالانکہ یہ بے حد ضروری تھا۔
محمد عبداللہ قریشی نے ’’ حکمائے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت‘‘ اور’’ علم ظاہر و باطن‘‘ وغیرہ مضامین’’ انوار اقبال‘‘ سے نقل کئے ہیں، کیونکہ بشیر احمد ڈار نے ان مضامین پر جو تمہیدی نوٹ لکھے ہیں، محمد عبداللہ قریشی نے انہیں جوں کا توں نقل کر لیا ہے، مگر قوسین میں’’ انوار اقبال‘‘ کے بجائے مرتب نے اپنا حوالہ دیا ہے۔ یہ علمی دیانت کے منافی ہے، جس کا ازالہ ہونا چاہئے۔
محمد عبداللہ قریشی نے اس اشاعت میں اضافہ شدہ نثر پاروں کے ماخذ کا تذکرہ نہیں کیا، جبکہ یہ آسانی سے معلوم کیا جا سکتا تھا کہ یہ نثر پارے ابتدا کہاں کہاں چھپے اور مرتب نے کن ذرائع سے استفادہ کیا۔ متن میں بہت سے تصرفات کئے گئے ہیں۔ضروری حواشی اور توضیحات کا اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مرتب نے کسی مقام پر بھی اس کی وضاحت نہیں کی۔
انوار اقبال:
یہ بنیادی طور پر مضامین کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ اس میں علامہ اقبال کی متفرق تحریریں شامل ہیں، مثلاً: خطوط، تقاریظ، مضامین، تقاریر، بیانات وغیرہ۔ اس مجموعہ نثر میں خطوط کی تعداد زیادہ ہے ، جس کا جائزہ ہم خطوط کے باب میں لیں گے۔ یہاں ہم صرف اس مجموعہ نثر میں شامل مضامین کا ذکر کریں گے، یہ مضامین اپنی نوعیت کے اعتبار سے خاصے اہم ہیں۔ ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:
1سودیشی تحریک اور مسلمان:ـ’’ زمانہ‘‘ کانپور کے ایڈیٹر نے 1906ء کے آغاز میں سودیشی تحریک کے متعلق چند سوالات مرتب کئے اور ان کو مختلف مفکرین، ادیب اور سیاسی رہنماؤں کے پاس بھیجا۔ یہ سوالات1906ء کے شمارے میں شامل کئے گئے۔ علامہ اقبال کا جواب، جو انہوں نے کیمرج سے بھیجا تھا۔ مئی 1906ء کے شمارے میں شائع ہوا۔
2اقبال سے مجید ملک کی ملاقات کا حال: اس میں مجید ملک نے علامہ اقبال سے اپنی ایک ملاقات کا حال بیان کیا ہے، یہ چونکہ اقبال کا تحریری نثر پارہ نہیں ہے، اس لئے اس کا شمار مضامین کی ذیل میں نہیں کیا جا سکتا۔
3مذہب اور سیاست کا تعلق: اقبال جب لیکچروں کے سلسلے میںمدراس گئے تو 7جنوری 1929ء کو مدراس کے ایک اخبار’’ سوراجیہ‘‘ کے نمائندے نے آپ سے مذہب اور سیاست کے تعلق پر سوال کیا۔ اقبال نے اس سوال کا تفصیل سے جواب دیا۔ اس جواب کا متن تو نہیں مل سکا، البتہ اس کا جو حصہ محمد دین فوق کی کتاب’’ مشاہیر کشمیر‘‘ (29جولائی1930ئ) میں طبع ہوا وہ ’’انوار اقبال‘‘ میں شامل کیا گیا۔ چونکہ یہ بھی ایک باقاعدہ مضمون نہیں ہے اور اس کا متن بھی دستیاب نہیں ہے، اس لئے اسے بھی ہم مضامین کی ذیل میں نہیں لا سکتے۔
4اقبال کی تقریر: یہ چونکہ تقریر ہے، اس لئے ہمارے موضوع سے خارج ہے۔
5نبوت پر نوٹ: مسئلہ نبوت پر اقبال کی یہ دونوں تحریریں جناب سید نذیر نیازی کو بھیجی گئی تھیں۔ جب اقبال نے قادیانی تحریک کے خلاف بیان دیا تو ا س بیان پر مختلف حلقوں کی طرف سے اعتراضات شائع ہوئے۔ ان اعتراضات کی روشنی میں اقبال نے اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی اور یہ دونوں تحریریں اسی سلسلے میں ہیں۔
6حکمائے اسلام کے عمیق تر مطالعے کی دعوت: یہ اصل میں انگریزی زبان میں ایک صدارتی خطبہ تھا۔ اس کا ترجمہ ماہنامہ ’’ صوفی‘‘ کے مارچ1931ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ دوسرا ترجمہ داؤد رہبر نے کیا جو اورینٹل کالج میگزین اگست1947ء میں طبع ہوا۔ یہ ترجمہ بھی ہمارے موضوع سے خارج ہے۔
7علم ظاہر و علم باطن: یہ مضمون علامہ اقبال نے ’’ اسرار خودی‘‘ کی اشاعت کے بعد معترضین کے جواب میں تحریر کیا، اور یہ مضمون اخبار’’ وکیل‘‘ (امرتسر) کے 28جون 1916ء کے پرچے میں شائع ہوا تھا۔
8مسلمانوں کا امتحان: محمد دین فوق نے ایک دن اقبال سے اسلامی تصوف سے متعلق چند سوالات کئے۔ اقبال کے جوابات کو انہوں نے مختصراً اپنے ہفتہ وار اخبار کشمیری (14جنوری 1913ئ) میں عنوان بالا سے شائع کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال’’ اسرار خودی‘‘ کی تصنیف میں مشغول تھے۔ ’’ تربیت خودی‘‘ کے دوسرے مرحلے ضبط نفس کے عنوان کے تحت اقبال نے ان ہی شعائر اسلام کی افادیت ایک دوسرے رنگ میں بیان کی۔ 16؎
اسی طرح ’’ انوار اقبال‘‘ میں اردو مضامین کی تعداد چار ہے، یعنی 1سودیشی تحریک، 2 نبوت پر نوٹ ، 3 علم ظاہر و علم باطن اور4مسلمانوں کا امتحان۔
اقبال کے نثری افکار:
عبدالغفار شکیل نے علامہ اقبال کے نایاب کلام کو کتابی صورت میں’’ نو اور اقبال‘‘ کے نام سے علی گڑھ سے شائع کیا۔ اس کتاب کی تحقیق کے دوران میں انہیں علامہ اقبال کے کچھ مضامین مختلف رسائل سے ملے، جو انہوں نے نقل کر لئے اور بعد میں انہیں ’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں چھاپ دیا۔ 17؎ اس مجموعہ مضامین کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے:
سر ورق ص:1، انتساب (بہ نام: پروفیسر اسلوب احمد انصاری) ص:5ص6خالی، پیش لفظ (از: خلیق انجم) ص:7 تا8 عرض مرتب ص:9 تا15متن کتاب ص17سے 282 تک محیط ہے۔ کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں اردو مضامین اور دوسرے حصے میں انگریزی مضامین کے تراجم کو پیش کیا ہے۔ مضامین کو دو حصوں میں تقسیم کرتے وقت مرتب نے کچھ زیادہ تحقیق سے کام نہیں لیا کیونکہ حصہ اول میں تین تحریریں (شعبہ تحقیقات اسلامی کی ضرورت، اسلامیات، سال نو کا پیغام) بھی انگریزی تحریروں کے تراجم ہیں۔ اگر انہیں اس بات کا علم ہوتا تو وہ یقینا ان تین تحریروں کو بھی حصہ دوم میں شامل کرتے۔
’’ پیش لفظ‘‘ میں خلیق انجم اس کتاب کو ’’ مضامین اقبال‘‘ کے بعد دوسری کتاب قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ’’ مضامین اقبال، کے بعد شاید کوئی مجموعہ مضامین شائع نہیں ہوا‘‘ 18؎ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ’’ مضامین اقبال‘‘ کے بعد اقبال کے مضامین کے کئی مجموعہ شائع ہو چکے تھے، مثلاً: مقالات اقبال (1963ئ) ’’ انوار اقبال‘‘ (1967ئ) ، گفتار اقبال (1969ئ) جبکہ ’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ 1977ء میں شائع ہوئی، خلیق انجم نے اور مرتب نے بھی اس کتاب میں شامل نثر پاروں کی تعداد تینتیس بتائی ہے، جبکہ فہرست میں مضامین کی تعداد35بنتی ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ مضامین کے شمار29کے بعد باقی مضامین کو پھر نمبر28سے شمار کیا گیا ہے۔ کتابت کی اس غلطی کی طرف کسی نے توجہ نہیں کی۔
مرتب نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس کتاب میں شامل مضامین کو پہلے پہل متعارف کروا رہے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے، جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ اس مجموعہ مضامین سے قبل ’’ مضامین اقبال‘‘ کے علاوہ تقریباً تین مجموعے شائع ہو چکے تھے، چنانچہ اس مجموعے میں شامل تقریباً تمام نثر پارے ایسے ہیں جو کہیں نہ کہیں ضرور شائع ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے اس مجموعے میں شامل مضامین کی تفصیل بتائی ہے اور نشاندہی کی ہے کہ کون کون سا نثر پارہ کہاں کہاں چھپا ہے۔ 19؎ ڈاکٹر صاحب کے تفصیلی جائزے سے یہ امر سامنے آتا ہے کہ اس مجموعہ مضامین میں شامل صرف دو تحریریں ایسی ہیں، جو کسی اور مجموعے میں شامل نہیں ہیں (اسلامی یونیورسٹی، اور علم الانساب) باقی تمام مضامین ایک سے زیادہ بار مختلف جگہ شائع ہو چکے ہیں۔ اس طرح مرتب کا یہ دعویٰ کہ اس مجموعے میں شامل بیشتر نثری مضامین نایاب و کم یاب ہیں، اور یہ نایاب و کمیاب مضامین کسی مجموعے میں شامل نہیں، باطل ہو جاتا ہے۔ مرتب اس مجموعے کے ماخذ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ اس مجموعے میں جو مضامین یکجا کئے گئے ہیں، وہ مخزن، زمانہ، وکیل، سہیل، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، صوفی، خطیب، کشمیری میگزین، احسان وغیرہ رسائل اور مضامین اقبال، حرف اقبال آثار اقبال وغیرہ نایاب کتابوں سے یکجا کر لئے گئے ہیں۔ پہلی بار علامہ اقبال کے اتنے مضامین یکجا پیش کئے جا رہے ہیں اس سے پہلے کسی مجموعے میں اقبال کے اتنے مضامین یکجا نہیں پیش کئے گئے۔ ‘‘ 20؎
یہ امر باعث تعجب ہے کہ مرتب نے اس مجموعے میں شامل مضامین کے ماخذ میں ’’ مقالات اقبال‘‘ ’’ انوار اقبال‘‘ اور’’ گفتار اقبال‘‘ کا ذکر نہیں کیا، حالانکہ بیشتر نثر پارے مذکورہ مجموعوں سے اخذ کئے گئے ہیں۔ مرتب نے ’’ مضامین اقبال‘‘ ’’ حرف اقبال‘‘ اور’’ آثار اقبال‘‘ کو’’ نایاب‘‘ کتابیں قرار دیا ہے، جبکہ یہ کتابیں دستیاب ہو جاتی ہیں۔ مرتب نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ علامہ اقبال کے اتنے مضامین پہلی بار یکجا صورت میں پیش کئے جا رہے ہیں، گویا ان کے نزدیک ضخامت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ مرتب کا کہنا ہے کہ یہ نایاب مضامین پرانے اخبارات و رسائل سے اخذ کئے گئے ہیں، مگر تمام تحریروں کے بارے میں یہ بات صحیح نہیں ہے۔ بہت سی تحریریں مرتب نے ثانوی ذرائع سے اخذ کی ہیں، مثلاً: ’’ اسرار خودی‘‘ طبع اول کا دیباچہ انہوں نے اصل کتاب سے نہیں بلکہ ’’ مضامین ا قبال‘‘ سے نقل کیا ہے، لیکن اس کا حوالہ نہیں دیا۔ اسی طرح ’’ سال نو کا پیغام‘‘ ’’ حرف اقبال‘‘ (ص:222تا225) سے ماخوذ ہے۔
یہ کتاب لیتھو میں چھپی ہے اور کتابت بھی کسی اچھے خوش نویس سے نہیں کرائی گئی، چنانچہ متن میں جا بجا اغلاط نظر آتی ہیں۔ متن میں بعض جگہ پوری پوری سطریں غائب ہیں، لیکن ان کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ علاوہ ازیں متن میں جگہ جگہ تصرفات و ترامیم کی گئی ہیں، مگر مرتب نے کہیں بھی اس کی وجہ بیان نہیں کی۔ متن کا جائزہ ہم آئندہ صفحات میں لیں گے۔
ہمارے مقالے کے اس باب کا موضوع چونکہ اقبال کے اردو مضامین ہیں، اس لئے جب ہم اس نقطہ نظر سے اس مجموعے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس مجموعے میں اقبال کا کوئی نو دریافت نثر پارہ نظرنہیں آتا۔ دو نثر پارے جو پہلی بار سامنے آئے ہیں وہ بھی اصلاً اردو مضامین نہیں ہیں، مثلاً: ’’اسلامی یونیورسٹی‘‘ اور’’ علم الانساب‘‘ وغیرہ ان میں سے اول الذکر تقریر ہے جو علامہ اقبال نے ترکی کے مشہور ادیب اور شاعر خالد خلیل کے ایک سوال کے جواب میں لکھی۔ مرتب نے اس خط کا ماخذ نہیں بتایا، اس طرح ان دو نثر پاروں کی اہمیت بھی ہمارے موضوع کے حوالے سے صفر ہے، چنانچہ ’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں کوئی مضمون ایسا نہیں جو اصلاً اردو نثری مضمون ہو اور وہ پہلی بار اس مجموعے میں شائع ہوا ہو۔
جب ہم مذکورہ بالا تمام مجموعوں (مضامین اقبال، مقالات اقبال طبع اول و طبع دوم، انوار اقبال اور اقبال کے نثری افکار) کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان میں اقبال کی تقریباً ہر طرح کی تحریریں ملتی ہیں، لیکن چونکہ ہمارے موضوع سے اقبال کی ہر قسم کی تحریریں متعلق نہیں ہیں، اس لئے ہم ان مجموعوں میں شامل صرف اردو مضامین کی تعداد کا تعین کرتے ہیں۔ یعنی اردو مضامین کی تعداد سترہ بنتی ہے، مثلاً:
1بچوں کی تعلیم و تربیت، 2زبان اردو، 3اردو زبان پنجاب میں،4 قومی زندگی، 5جغرافیائی حدود اور مسلمان، 6خطبہ صدارت (1931ئ)،7اسرار خودی اور تصوف، 8سر اسرار خودی، 9 تصوف وجودیہ، 10 اسلام اور علوم جدیدہ، 11خطبہ عید الفطر، 12علم ظاہر و علم باطن، 13 ایک دلچسپ مکالمہ، 14 سودیشی تحریک او رمسلمان، 15 نبوت پر نوٹ1, 2, 3, 16 مسلمانوں کا امتحان، 17 شریعت اسلام میں مرد اور عورت کا رتبہ۔
اب ہم مندرجہ بالا اردو مضامین کا پس منظر، تعارف اور متن کا جائزہ پیش کرتے ہیں:
1بچوں کی تعلیم و تربیت: یہ علامہ اقبال کا پہلا مضمون ہے، جو اردو زبان میں تحریر کیا گیا اور ’’مخزن‘‘ جنوری 1902ء میں شائع ہوا۔
متن کا مطالعہ:
نمبر شمار
صفحہ
اصل متن ’’مخزن ‘ جنوری 1902
صفحہ
مقالات اقبال (طبع اول)
صفحہ
اقبال کے نثری افکار، مارچ
صفحہ
مقالات اقبال (طبع دوم)
1
22
شاگرد
1
شاگردوں
17
شاگرد
33
شاگردوں
2
22
ہوتے
1
ہوتے
17
ہوئے
33
ہوتے
3
22
پڑ کر
2
پڑ کے
18
پڑ کر
34
پڑ کے
4
22
دیویں
2
دیں
18
دیویں
34
دیں
5
22
مجا او مصفا
2
مجاد و مصفا
18
مجاد و مصفا
34
مجاد و مصفا
6
32
فرائض
2
جادے
18
جاوے
34
جائے
7
23
جاوے
2
جاوے
18
جاوے
34
جائے
8
23
ہی کے وساطت
2
ہی کی وساطت
18
ہی کے وساطت
43
ہی کی وساطت
9
23
افراد سوسائٹی
2
افراد سوسائٹی
18
افراد اور سوسائٹی
34
افراد اور سوسائٹی
10
23
خیالی ہی نہیں ہے۔۔۔
2
خیالی ہی نہیں ہے
19
خیالی ہی نہیں ہے۔۔
35
خیالی ہی نہیں ہے۔۔۔
11
24
ہر حیوان میں پائی جاتی ہے۔۔
3
ہر حیوان میں پائی جاتی ہے۔
19
ہر حیوان میں پائی جاتی ہے۔۔
35
ہر حیوان میں پائی جاتی ہے
12
24
ماں باپ کو اس سے تکلیف۔۔۔
3
ماں باپ کو اس سے تکلیف۔۔۔
19
ماں باپ کو اس سے تکلیف۔۔
36
ماں باپ کو اس سے تکلیف۔۔۔
13
24
تنگ آتے ہیں۔۔۔
3
تنگ آتے ہیں۔۔
19
تنگ آتے ہیں۔۔۔
36
تنگ آتے ہیں۔۔۔
14
25
طویل نہ ہوں
4
طویل نہ ہوں۔۔۔
20
طویل نہ ہوں۔۔۔
37
طویل نہ ہوں۔۔۔
15
25
پڑھتے وقت۔۔۔
4
پڑھتے وقت۔۔۔
20
پڑھتے وقت۔۔۔
37
پڑھتے وقت۔۔۔
16
25
اشیاء خارجی ۔۔۔
4
اشیاء خارجی۔۔۔
20
اشیاء خارجی۔۔
37
اشیاء خارجی۔۔۔
17
25
ہاتھوں میں دیدی جائے۔۔
5
ہاتھوںمیں دیدی جائے۔۔۔
20
ہاتھوں میں دیدی جائے۔۔۔
37
ہاتھوں میں دیدی جائے۔۔۔
18
25
شے مذکور اس کے
5
شے مذکور اس کے
21
شے مذکور کو اس کے
37
شے مذکور اس کے
19
26
اقل درجہ کے مصور
5
اعلیٰ درجے کے مصور۔
21
اقل درجہ کی مصور۔۔
37
اعلیٰ درجے کے مصور۔۔
20
26
بچے میں بڑوں کی نقل کرنے کا
5
بچے میں بڑوں کی نقل کرنے کا
21
بچے میں بڑوں کی نقل کا
38
بچے میں بڑوں کی مدد کرنے کا
21
26
ذرا بڑا ہوتا ہے
5
ذرا بڑاہوتا ہے۔۔۔
21
ذرا بڑاہوتا ہے۔۔۔
38
ذرا بڑا ہو جاتا ہے۔
22
26
لگا دئیے
5
لگا دئیے
21
پگا دئیے
38
لگا دئیے
23
26
کہانی تو
6
کہانی تو
21
کہانی تو
38
کہانی تو
کہہ دو۔۔
کہہ دو۔۔
دیدو۔۔۔
کہہ دو۔۔
24
36
اور کچھ پڑھنا۔۔
6
اور پڑھنا۔۔۔
21
اور کچھ پڑھنا۔۔۔
38
اور پڑھنا۔۔۔
25
27
اندر رکھنے کی
6
اندر رکھنے کی۔۔
22
اندر رکھنے کی۔۔۔
39
اندر رکھنے کی
26
27
کاغذ کی کشتیاں یا ’’دن رات ‘‘ بنایا
دن رات بنایا
یا دن رات بنایا
دن رات بنایا
27
27
علامات بھی ظاہر۔۔
6
علامات بھی ظاہر۔
22
علامات ظاہر۔۔ ظاہر۔۔۔
39
علامات بھی
28
27
نظمیں یاد کرائے۔۔
6
نظمیں یاد کرائے۔۔۔
22
نظمیں یاد کرائے۔۔
39
نظمیں یاد کرائے۔۔
29
28
نمایاں اور ظاہر اختلافات
7
نمایاں اور ظاہری اختلافات
23
نمایاں اور ظاہر اختلافات
40
نمایاں اور ظاہری اختلافات
30
28
شے کا اس۔۔
8
شے کا اس۔۔
32
شے اس
41
شے کا اس۔۔۔
31
29
بعض وجوہات سے اچھا ہوا ہو۔
8
بعض وجوہ سے اچھا ہوا مگر
23
بعض وجوہات سے اچھا ہوا مگر
41
بعض وجوہ سے اچھا ہو مگر۔۔۔
32
29
علم کے انداز کے ساتھ ترقی کرتے
8
علم کے انداز کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے
24/ 23
علم کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے
41
علم کے انداز کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے
33
29
ابتدا سے ہی بچے میں۔۔۔
8
ابتداء سے ہی بچے میں۔۔۔
24
ابتداء سے ہی اپنے بچوں میں۔۔۔
41
ابتداء سے ہی بچے میں۔۔۔
34
29
عادت انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں۔۔
8
عادت انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں۔۔
24
عادت انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں۔۔
41
عادت انہی چھوٹی چھوٹی باتوں۔۔۔
35
29
بڑہتے
9
بڑہتے
24
بڑھتے۔۔
42
بڑھتے
36
30
قابل بنانا انہیں کی۔۔۔
9
قابل بنانا انہیں کی۔۔
24
قابل بنانا ان ہی کی
42
قابل بنانا انہی کی
37
30
جو قدر کہ ہونی چاہیے۔
9
جو قدر ہونی چاہیے
24
جو قدر کہ ہونی چاہیے۔۔
42
جو قدر ہونی چاہیے۔۔
38
30
تمام قسم کی ترقی کا۔۔
9
تمام قسم کی ملکی ترقی کا
25
تمام قسم کی ملکی ترقی کا۔۔۔
42
تمام تر ملکی ترقی کا۔۔۔
28
30
نتیجہ یقینا یقینا پہ ہو۔۔۔
9
نتیجہ یقینا تہ ہو۔۔۔
25
نتیجہ یقینا ۔۔۔ یہ ہو
42
نتیجہ یقینا یہ ہو
مندرجہ بالا متن کے تفصیلی جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تینوں مجموعوں میں اس مضمون کے سلسلہ میں کسی نہ کسی حد تک تصرفات کئے گئے ہیں۔ ان میں بعض تصرفات بالکل بے جا ہیں اور بعض قابل قبول بھی ہیں، مثلاً: بعض جگہ اصل متن میں ’’ کے‘‘ کو’’ کی‘‘ کر دیا گیا ہے، جو صحیح ہے۔ اسی طرح بعض الفاظ کا املا قدیم املا کے مطابق ہے، مگر بعض جگہ اصل متن کے برخلاف زائد الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور اکثر جگہ اصل متن کے کئی الفاظ بلا ضرورت حذف کر دیے گئے ہیں۔
’’ مقالات اقبال‘‘ (طبع اول و دومـ)اور’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں سے ہمیں موخر الذکر میں’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ کا متن، اصل متن کے قریب معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ اس میں کتابت کی بہت سی اغلاط ہیں اور کہیں کہیں اصل متن میں تصرفات بھی کئے گئے ہیں لیکن ان کی تعداد بہ نسبت’’ مقالات اقبال‘‘ طبع اول و دوم کے کم ہے۔ عبدالغفار شکیل نے براہ راست اصل متن سے استفادہ کیا ہے، مگر مرتب کا یہ دعویٰ کہ یہ مضمون پہلی بار اس مجموعہ مضامین میں شائع ہو رہا ہے، درست نہیں ہے۔ اس سے قبل یہ مضمون ’’ مقالات اقبال طبع اول‘‘ میں شائع ہو چکا تھا۔ شاید مرتب کی نظر سے یہ مجموعہ نہیں گزرا، ورنہ وہ اس قسم کا دعویٰ ہرگز نہ کرتے۔
(2)ز بان اردو:
اصلاً یہ ایک انگریزی مضمون ہے، جسے ڈاکٹر وائٹ برجنٹ نے تحریر کیا تھا۔ یہ مضمون چونکہ ہماری مشرقی زبان (اردو) سے متعلق تھا، اور خاصا اہم تھا، اس لئے شیخ عبدالقادر کی درخواست پر علامہ اقبال نے اسے ترجمہ کیا۔ یہ مضمون’’ مخزن‘‘ ستمبر1902ء میں اس نوٹ کے ساتھ چھپا:
’’ ڈاکٹر وائٹ برجنٹ صاحب نے جس کو لسنہ مشرقیہ کے ساتھ بالخصوص دلچسپی ہے، انگریزی زبان میں ایک مختصر سا مضمون اردو زبان پر لکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا علم و فضل ہماری تعریف کا محتاج نہیں۔ ان کی عالمانہ گفتگو اور وسیع ہمدردی کو اگر صیاد خلق کہا جائے تو ہر طرح سے زیبا ہے اس مضمون کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ اردو زبان کی بانکپن نے مغربی فضلاء کو بھی اپنا گرویدہ کر لیا ہے۔ ہماری درخواست پر ہمارے دوست شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے جنہیں اس مضمون کی کاپی ڈاکٹر صاحب موصوف نے تحفتہً دی تھی، اسے ناظرین مخزن کے لئے ترجمہ کر کے بھیجتے ہیں۔‘‘ 21؎
’’ مخزن‘‘ میں شائع ہونے کے بعد یہ مضمون یکے بعد دیگرے کئی مجموعوں مثلاً’’ مضامین اقبال‘‘ مقالات اقبال طبع اول و دوم اور’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں چھپا اب ہم ان مجموعوں میں شامل اس مضمون کا موازنہ اصل متن سے کرتے ہیں:
متن کا مطالعہ:
ستمبر 1902ء
مئی 1963ء
مارچ1977ء
نمبر شمار
صفحہ
اصل متن ’’مخزن‘‘
صفحہ
مضامین اقبال (طبع اول و دوم)
صفحہ
مقالات اقبال (طبع اول و دوم)
صفحہ
اقبال کے نثری افکار
صفحہ
مقالات اقبال طبع دوم 1988ء
1
1
جس کو
1
جن کو
11
جن کو
26
جن کو
43
جن کو
2
1
اردو زبان کی
1
اردو زبان کی
11
اردو زبان کے
26
اردو زبان کے
43
اردو زبان کے
3
1
مغربی فضلا کو
1
مغربی فضلاء کو
11
مغربی فضا کو
26
مغربی فضلاء کو
43
مغربی فضا کو
4
1
ہوئی ہے
1
ہوئی ہے
11
ہوئی ہے
26
ہوئی
43
ہوئی ہے
5
1
ذکاوت اور اس کی قوت انتظام
1
زکاوت اور اس کی قوت انتظام
11
ذکاوت اور اس کی قوت انتظام
26
ذکاوت اور اس کی قوت انتظام
43
ذکاوت اور قوت انتظام
6
1
دار الخلافت کبھی شہر دہلی
1
دار الخلافت کبھی شہر دہلی۔
12
دار الخلافت کبھی شہر دہلی
27
دار الخلافہ کبھی دہلی
44
دار الخلافت کبھی شہر دہلی
7
1
مذکور کی زمانے
2
مذکور کی زمانے
12
مذکور کے زمانے
27
مذکور کے زمانے
44
مذکور کے زمانے
8
1
میں یہی برج بھاشا۔
2
میں یہی برج بھاشا
12
میں یہی برج بھاشا
27
میں برج بھاشا
24
میں بھی برج بھاشا
9
2
سیکھنی
2
سیکنی
12
سیکھئی
27
سیکھنی
44
سیکھنی
10
2
عہد سے
2
عہد سے
12
عہد سے
27
عہد میں
44
عہد سے
11
2
زبانوں کی
2
زبانوں کی
12
زبانوں کی
27
زبانوں کی
44
زبان کی
12
2
سپاہی روز مرہ
2
سپاہی روز مرہ
12
سپاہی جنکو روز مرہ
27
سپاہی کو روز مرہ
44
سپاہی جن کو روز مرہ
13
2
ساتھ برتاؤ کرنا پڑتا
2
ساتھ برتاؤ کرنا پڑتا۔
12
کے ساتھ واسطہ پڑتا
27
ساتھ برتاؤ کرنا پڑتا
44
ساتھ واسطہ پڑتا
14
2
ہندی مغربی
2
ہندی مغربی
12
ہندی مغربی
27
ہندی مغربی
44
ہندی مغربی
15
2
تو محمدیہ
2
تو محمدیہ
12
تو یہ محمدیہ
27
تو محمدیہ
44
تو یہ محمدیہ
16
2
تک ہی
2
تک ہی
12
تک ہی
27
تک
44
تک ہی
17
2
زبان کی تدریجی نشوونما
2
زبان کی تدریجی نشوونما
12
زبان کی تدریجی نشوونما
27
زبان کی تدریجی نشوونما
44
زبان کی تدریجی نشوونما
18
2
شائع
2
شیائع
13
شائع
27
شائع
45
شائع
19
2
تصانیف ادبیہ
3
تصانیف ادبیہ
13
تصانیف ادبیہ
28
تصانیف ادبیہ
45
تصانیف ادبیہ
20
2
مستحق نہیں ہے
3
مستحق نہیں ہے
13
مستحق نہیں ہے
28
مستحق نہیں ہے
45
مستحق نہیں ہے
21
3
نشوونما میں
3
نشوونما میں
13
نشوونما میں
28
نشوونما
45
نشوونما میں
22
3
کسی تبدیل کے
3
کسی تبدیل کے
13
کسی تبدیلی کے
28
کسی تبدیل کے
45
کسی تبدیلی کے
23
3
ایسی طرز تحریر کو اختیار
3
ایسی طرز تحریر اختیار
13
ایسا طرز تحریر اختیار
28
ایسی طرز تحریر کو اختیار
45
ایسا طرز تحریر اختیار
24
3
مطابق تھے
3
مطابق تھے
13
مطابق ہے
28
مطابق ہے
45
مطابق ہے
25
3
قوی اسباب
3
قوی اسباب
13
قوی اسباب
28
قوی اسباب
49
قوی اسباب
26
3
1832ء سے
3
1832ء سے
13
1832ء سے
28
1832ء سے
46
1832ء سے
27
3
ڈف صاحب کی مساعی جملیہ سے
3
ڈف صاحب کی مساعی جمیلہ سے شروع ہوئی
13
ڈف صاحب کی مساعی جمیلہ سے شروع ہوئی
28
ڈف صاحب کے مساعی جمیلہ سے ہوئی
46
ڈف صاحب کی مساعی جمیلہ سے شروع ہوئی
28
3
کی زبانوں پر
3
کی زبانوں پر
13
کی زبان پر
28
کی زبانوں پر
46
کی زبان پر
29
3
نہیں ہوئے
3
نہیں ہوئی
14
نہیں ہوئی
28
نہیں ہوئے
46
نہیں ہوئی
30
3
کے درمیان ممالک
4
کے درمیان ممالک
14
کے درمیان ممالک
29
کے درمیان ممالک
46
کے درمیانی ممالک
31
4
لاکہہ
4
لا کہہ
14
لاکھ
29
لاکھ
46
لاکھ
32
4
باوجود اس
4
باوجود اس
14
باوجود ان
29
باوجود اس
46
باوجود ان
33
4
اوردھ
4
اودھ
14
اودھ
29
باوجود اس
46
باوجود ان
34
4
حیدر آباد 270 400=
4
حیدر آباد 270 400=
14
حیدر آباد 120 400=
29
حیدر آباد 270 400=
47
حیدر آباد 120 400=
35
4
بمبئی 130 1222=
4
بمبئی 130 1222=
14
بمبئی 1310222
29
بمبئی 130 1222=
47
بمبئی 1310 222=
36
4
میزان 8004183=
4
میزان 8004183=
14
میزان 801384
29
میزان 8004183=
47
میزان 8004183=
37
4
مدراس کے
5
مدراس کے
15
مدراس میں
29
مدراس کے
47
مدراس میں
38
4
جزئی طور پر
5
جزئی طور پر
15
جزوی طور پر
29
جزئی طور پر
47
جزوی طور پر
39
5, 4
ایک کروڑ55 لاکھ مسلمان بنگالی
5
ایک کروڑ55 لاکھ مسلمان بنگالی
15
ایک کروڑ5 لاکھ مسلمان بنگالی
29
ایک کروڑ55 لاکھ مسلمان بنگالی
47
ایک کروڑ5 لاکھ مسلمان بنگالی
40
5
ہندی اصل کی ہے
5
ہندی اصل کی ہے
15
ہندی اصل کی ہے
29
ہندی اصل کی ہے
47
ہندی اصل ہے
41
5
متمیز تصور کرنا
5
متمیز تصور کرنا
15
متمیز تصور کرنا
30
متمیز کرنا
47
متمیز تصور کرنا
42
5
اس امر کو
5
اس امر کو
15
اس بات کو
30
اس امر کو
48
اس بات کو
43
5
تک ہی محدود
5
تک ہی محدود
15
تک محدود
30
تک محدود
48
تک محدود
44
5
معمولی مقامی بولی کو
5
معمولی مقامی بولی کو
15
معمولی مقامی بولی کو
30
معمولی مقامی بولی کو
48
معمولی مقامی بولی کو
45
5
پس اردو بلحاظ صرف و نحو کے ہندی الاصل ہے جس میں کچھ ماروا ڈی اور پنجابی اجزاء بھی شامل ہیں اور بلحاظ الفاظ واصطلاحات
5
پس اردو بلحاظ صرف و نحو کے ہندی الاصل ہے جس میں کچھ مارواڑی اور پنجابی اجزاء بھی شامل ہیں اور بلحاظ الفاظ و اصطلاحات
15
اور بلحاظ الفاظ و اصطلاحات ہیں اور بلحاظ الفاظ اصطلاحات
30
پس اردو بلحاظ صرف و نحو جس میں کچھ مارواڑی اور پنجابی اجزاء بھی شامل ہیں اور بلحاظ الفاظ
48
اور بلحاظ الفاظ و اصطلاحات کے ہندی الاصل ہے
46
6
وغیرہ جو محنت
16
وغیرہ محنت
30
وغیرہ محنت
48
وغیرہ محنت
47
2
ترجمہ ہیں
6
ترجمہ ہیں
16
ترجمہ ہے
30
ترجمہ ہیں
48
ترجمہ ہے
48
6
کے تعلیم یافتہ
6
کے تعلیم یافتہ
16
کے تمام تعلیم یافتہ
30
کے تعلیم یافتہ
48
کے تمام تعلیم یافتہ
49
6
فی زمانا
6
فی زمانا
16
فی زمانہ
31
فی زمانہ
49
فی زمانہ
50
6
موجودہ اردو اخبارات
6
موجودہ اردو اخبارات
16
موجودہ اردو اخبارات
31
اردو اخبارات
49
موجودہ اردو اخبارات
51
6
صحیح ہے
6
صحیح ہے
16
صحیح ہے
31
صحیح نہیں
49
صحیح ہے
52
6
پنجابی اور راجپوتانہ کے
6
پنجابی اور راجپوتانہ کے
16
پنجابی اور راجپوتانہ کی
31
پنجابی اور راجپوتانہ کی
49
پنجاب اور راجپوتانہ کی
53
7
ہمسایہ زبانوں پر
7
ہمسایہ زبانوں پر
17
ہمسایہ زبان پر
31
ہمسایہ زبانوں پر
50
ہمسایہ زبان پر
54
7
انگریزی زبان کے ساتھ
7
انگریزی زبان کے ساتھ
17
انگریزی کے ساتھ
31
انگریزی زبان کے ساتھ
50
انگریزی کے ساتھ
55
7
جب کہ
7
جب کہ
17
کہ
31
جب کہ
50
کہ
56
7
شستگی، بانکپن اور
7
شستگی بانکپن اور
17
شستگی اور
32
شستگی، بانکپن اور
50
شستگی اور
57
7
اے
7
اے
17
اے
32
ارے
50
اے
58
7
ان گرانما یہ
7
ان گرنما یہ
17
ان گرنما یہ۔۔
32
گرنمایہ
50
ان گرانمایہ۔۔
مندرجہ بالا متن کے تفصیلی جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس مضمون میں ’’ مضامین اقبال‘‘ کی نسبت’’ مقالات اقبال طبع اول و دوم‘‘ اور ’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں تحریفات و تصرفات زیادہ کئے گئے ہیں اور ان کی وضاحت نہیں کی گئی۔’’ مقالات اقبال‘‘ طبع اول، ص:15اور مقالات اقبال طبع دوم:ص48پر اصل متن کا ایک جملہ کلی طور پر محذوف ہے۔ بعض تصرفات ’’ طبع اول‘‘ میں کئے گئے ہیں مگر طبع دوم میں جوں کا توں رہنے دیا گیا ہے (مندرجہ بالا تفصیلی جائزے میں یہ فرق ملاحظہ کیا جا سکتا ہے) علاوہ ازیں ’’ مقالات اقبال طبع اول و دوم‘‘ میں کئی جگہ اصل متن کے برخلاف نیا پیراگراف شروع کیا گیا ہے، جبکہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی بعض جگہ پیراگراف واوین میں درج کر دیے گئے ہیں، حالانکہ اصل متن میں اس کا اہتمام نہیں کیا گیا۔
’’ مضامین اقبال‘‘ میں تصرفات و ترمیمات زیادہ نہیں کی گئیں، البتہ اس میں بہت سے الفاظ قدیم املا کے مطابق ہیں۔ متن کے اس موازنے میں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ مرتب تصدق حسین تاج نے اصل متن کو پیش نظر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں یہ مضمون اصل متن کے بے حد قریب معلوم ہوتا ہے۔
’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں اکثر و بیشتر مقامات پر جا و بیجا تصرف کئے گئے ہیں، اکثر جگہ الفاظ کی املا درست نہیں ہے۔ بعض جگہ الفاظ سہوراً رہ گئے ہیں، کئی مقامات پر الفاظ بڑھا دیے گئے ہیں۔ بیشتر جملوں میں الفاظ بدل دیے ہیں، جس سے اصل مفہوم بدل کر رہ گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس مضمون میں جہاں اصل متن کے مطابق پیراگراف بنانے چاہئے تھے، وہاں نہیں بنائے گئے اور جہاں ان کی ضرورت نہ تھی،وہاں نئے پیراگراف بنا دیے گئے۔ تحقیق کے اعتبار سے اس مجموعے میں شامل ’’ زبان اردو‘‘ کا متن ناقص ہے اور محقق کی کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔
اصل متن میں بھی کئی الفاظ ایسے ہیں، جنہیں کتابت کی غلطی کہا جا سکتا ہے، مثلاً: بار آور زن (بار آور زن)، اور زماننا (زمانا، زمانہ) موزون (موزوں) اوردھ (اودھ) وسائیل (وسائل) وغیرہ۔ ان الفاظ کی دیگر مجموعوں میں تصحیح کر دی گئی ہے، اس کے علاوہ کئی الفاظ قدیم املا میں ہیں، انہیں بھی موجودہ املا کے مطابق لکھ دیا گیا ہے۔ اگرچہ اس سے عبارت میں روانی تو پیدا ہو گئی ہے، مگر اصل متن مجروح ہو گیا ہے۔ اس قسم کی ترمیمات کی وضاحت اگر ابتداء میں یا حاشئے میں کر دی جاتی تو زیادہ بہتر تھا، اس طرح اصل متن مشکوک نہ ہونے پاتا۔
اردو زبان پنجاب میں:
یہ مضمون کسی صاحب کے اعتراض کے جواب میں تحریر کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال کے کلام پر عموماً یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ زبان کی نزاکتوں کا خیال نہیں رکھتے، مزید یہ کہ ان کی زبان، اہل زبان کے مطابق نہیں ہے۔ مگر علامہ اقبال نے اس مضمون میں جس طرح اساتذہ کے کلام سے مثالیں پیش کی ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف زبان آشنا تھے بلکہ انہیں الفاظ و محاورات کے استعمال پر عبور بھی حاصل تھا۔ اس مضمون کا انداز بیان اتنا شائستہ اور مہذب ہے کہ یہ قطعی گمان نہیں گزرتا کہ اسے کسی اعتراض کے جواب میں رقم کیا گیا ہے۔ یہ مضمون ’’ مخزن‘‘ اکتوبر1902ء میں اس نوٹ کے ساتھ چھپا:
’’ عنوان مندرجہ بالا سے گو یہ مفہوم ہو سکتا ہے کہ اس مضمون میں پنجاب اور ہندوستان کی اردو کے متعلق ایسی بحث ہو جسے ہم ناگوار کہہ سکتے ہیں اور جس سے ہم گریز کرنا پسند کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ نہیں اس میں بعض محاورات زبان کے متعلق اساتذہ کلام سے استناد کر کے جتایا گیا ہے کہ ان کا کس کس طرح استعمال جائز ہے اور ان کے استعمال پر جو اعتراضات ہوئے تھے ان اعتراضات سے بریت کی کوشش کی گئی ہے۔ جس تحقیق سے شیخ محمد اقبال نے اس مضمون میں کام لیا ہے وہ قابل داد ہے اور اسے اس بحث کا خاتم سمجھنا چاہئے۔‘‘ 22؎
’’ مخزن‘‘ میں شائع ہونے کے بعد یہ مضمون ’’ مضامین اقبال‘‘ مقالات اقبال طبع اول و دوم اور’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں یکے بعد دیگرے شائع ہوا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس مرتب نے کس حد تک اصل متن کو پیش نظر رکھا ہے،اور کس نے ثانوی ذرائع سے کام لیا ہے۔ چنانچہ اب ہم تفصیل سے اس مضمون کے متن کا موازنہ پیش کرتے ہیں:
اکتوبر 1902ء
مضامین اقبال
مئی 1963ء
مارچ 1977ء
1988ء
نمبر شمار
صفحہ
اصل متن ’’مخزن‘‘
صفحہ
طبع اول و دوم
صفحہ
مقالات اقبال طبع اول
صفحہ
اقبال کے نثری افکار
صفحہ
مقالات اقبال طبع دوم
1
25
اردو کے متعلق
8
اردو کے متعلق
19
اردو کے متعلق
23
اردو سے متعلق
51
اردو کے متعلق
2
25
اس مضمون میں کام لیا
8
اس مضمون میں کام لیا
19
کام لیا
33
اس مضمون میں کام لیا
51
کام لیا
3
25
خاتم
8
خاتم
19
خاتمہ
33
خاتمہ
51
خاتمہ
4
25
قسم کی معیار خود بخود قائم ہو جاتی ہے
9
قسم کی معیار خود بخود قائم ہو جاتی ہے
20
قسم کا معیار خود بخود قائم ہو جاتا ہے
34
قسم کی معیار خود بخود قائم ہو جاتی ہے
52
قسم کا معیار خود بخود قائم ہو جاتا ہے
5
25
وقتاً فوقتاً اختراع
9
وقتاً فوقتاً اختراع
20
وقتاً اختراع
34
وقتاً فوقتاً اختراع
52
وقتاً فوقتاً اختراع
6
26
اردو زبان جامع مسجد
9
اردو زبان جامع مسجد
20
اردو جامع مسجد
34
اردو زبان جامع مسجد
52
اردو جامع مسجد
7
26
اخذ کرے تو
10
اخذ کرے تو
21
اخذ کئے جائیں گے
34
اخذ کرے تو
53
اخذ کئے جائیں تو
8
26
وغیرہ کے لئے ہیں
10
وغیرہ کے لئے ہیں
21
وغیرہ لے لیے ہیں
35
وغیرہ کے لیے ہیں
53
وغیرہ لے لیے ہیں
9
26
میرے اور ناظر کے اشعار پر کیے ہیں۔ میں نے یہ جواب اس وجہ سے نہیں لکھا کہ صاحب تنقید نے میرے یا میرے دوست حضرت ناظر کے کلام کو اپنی
10
میرے اور ناظر کے اشعار پر کیے ہیں۔ میں نے یہ جواب اس وجہ سے نہیں لکھا کہ صاحب تنقید نے میرے یا میرے دوست حضرت ناظر کے کلام کو اپنی
21
میرے اور ناظر کے اشعار پر کیے ہیں۔ میں نے یہ جواب اس وجہ سے نہیں لکھا کہ صاحب تنقید نے میرے یا میرے دوست ناظر کے کلام کو اپنی
35
میرے اور ناظر کے کلام کو اپنی
53
میرے اور ناظر کے اشعار پر کیے ہیں۔ میں نے یہ جواب اس وجہ سے نہیں لکھا کہ صاحب تنقید نے میرے یا میرے دوست حضرت ناظر کے کلام کو اپنی اپنی
10
27
فن تنقید کا پہلا
10
فن تنقید کا پہلا
21
فن کا پہلا
35
فن تنقید کا پہلا
53
فن کا پہلا
11
27
اس لفظ کو
11
اس لفظ کو
22
اس لفظ کو
36
اسی لفظ کو
54
اس لفظ کو
12
27
غیر متغیری لکھنا
11
غیر متغیر لکھنا
22
غیر متغیر لکھنا
36
غیر متغیر لکھنا
54
غیر متغیر لکھنا
13
28
مرزا داغ دام فیصد
11
مرزا داغ دام فیفہ
22
مرزا داغ دام فیضہ
36
مرزا داغ دام فیصد
54
مرزا داغ فیضہ
14
28
اکابر شعرائے حال و قدیم
12
اکابر شعرائے حال و قدیم
23
اکابر شعرائے حال و قدیم
37
اکابر شعراء کے حال و قدیم
55
اکابر شعرائے حال و قدیم
15
28
کوئی صفت
12
کوئی صفت
24
کسوٹی صفت
37
کوئی صفت
55
کسوٹی صفت
16
28
بجز جام جہاں میں کئے پیمانے کو کیا کہئے
12
بجز جام جہاں میں کہتے پیمانے کو کیا کہے
23
جز جام جہاں بیں کے پیمانے کو کیا کہئے
37
بجز جام جہاں میں کئے پیمانے کو کیا کہئے
55
بجز جام جہاں بین کے پیمانے کو کیا کہتے ہیں
17
28
مرکب تام
12
مرکب تام
23
مرکب تمام
37
مرکب تام
55
مرکب تمام
18
29
یہ ہے کہ کہنا تجھے کے ساتھ
13
یہ ہے کہ کہنا
24
یہ ہے کہ تجھے کے ساتھ
38
یہ ہے کہ کہنا تجھے کے ساتھ
57
یہ ہے کہ تجھے کے ساتھ
20
29
کبھی مستعمل نہیں ہوتا لہٰذا
13
کبھی مستعمل نہیں ہوتا لہٰذا
24
کبھی استعمال نہیں ہوتا لہٰذا
38
کبھی مستعمل نہیں ہوتا لہٰذا
57
کبھی استعمال نہیں ہوتا لہٰذا
21
29
آزاد نہیں ہیں
13
آزاد نہیں ہیں
25
آزاد نہیں ہیں
38
آزاد نہیں
57
آزاد نہیں ہیں
22
30
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
13
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
25
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں
38
کیا عدم ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں
57
کیا مدح ہے یہ جو تجھے ہم شاہ کہیں ہیں
23
30
میں وہ خاک
13
میں وہ خاک
25
میں وہ خاک
38
میں خاک
58
میں وہ خاک
24
30
ان لالہ رخاں کو
14
ان لالہ رخاں کو
25
ان لالہ رخوں کو
38
ان لالہ رخاں کو
58
میں وہ خاک
25
31
شعر پر کیا تھا
14
شعر پر کیا تھا
26
شعر پر کیا تھا
39
شعر پر کہا تھا
59
شعر پر کیا تھا
26
31
اصول فن قافیہ
15
اصول فن، فن قافیہ
27
اصول فن قافیہ
40
اصول فن قافیہ
60
اصل فن قافیہ
27
26
قافیہ میں ایطائے خفی
15
قافیہ میں ایطائے خفی
27
قافیہ میں ایطائے خفی
40
قافیہ میں کے خفی
60
قافیہ میں ایطائے خفی
28
32
میں سے ہے
15
میں سے ہے
27
میں ہے
40
میں سے ہے
60
میں ہے
29
32
اختلاف روی
16
اختلاف روی
28
اختلاف روی
40
اختلاف رومی
61
اختلاف روی
30
32
راہ میں کچھ جو۔۔
16
راہ میں کچھ جو
28
راہ میں کچھ جو
40
میں وجہ کچھ جو
61
راہ میں کچھ جو
31
32
ہم سے ظاہر میں دو
16
ہم سے ظاہر وہ
28
ہم سے ظاہر وہ
41
ہم سے ظاہر وہ
61
ہم سے ظاہر میں وہ
32
32
ادق اور حال کا ہے
16
اوق اور حال
17
اوق اور حال
41
اوق اور حال
61
اور اور حال
33
33
اختلاف ردی ہے
16
اختلاف ردی کا ہے
17
اختلاف ردی کا ہے
41
اختلاف ردی کا ہے
62
اختلاف ردی کا ہے
34
33
حدائق البلاغت فرماتے
17
حدائق البلاغت میں فرماتے
29
حدائق البلاغت میں فرماتے
41
حدائق البلاغت میں فرماتے
26
حدائق البلاغت میں فرماتے
35
33
حروف قید قریب المخرج
17
حروف قید قریب المخرج
29
حروف قید قریب المخرج
41
حروف قریب المخرج
26
حروف قید قریب المخرج
36
34
بردمد
18
بردمد
30
ببردمد
42
بردمد
63
ببردمد
37
34
درست نہیں ہے
18
درست نہیں ہے
30
درست نہیں ہے
42
درست نہیں
64
درست نہیں ہے
38
35
جو کچھ اکابر شعراء
19
جو کچھ اکابر شعراء
31
جو کچھ اکابر شعراء
42
جو اکابر شعراء
65
جو کچھ اکابر شعراء
39
35
صفا کر دیا کس نے
19
صفا کر دیا کس نے
33
صفا کر دیا جس نے
42
صفا کر دیا کس نے
66
صفا کر دیا جس نے
40
36
ہمچدان عرض کرتا ہے
20
ہمچدان عرض کرتا ہے
33
ہمچدان ان پر اعتراض کرتا ہے
43
ہمچدان عرض کرتا ہے
27
ہمچدان ان پر عرض کرتا ہے
41
36
رسالہ لیکر پڑھئے
20
رسالہ لے کر پڑہیے
34
رسالہ اٹھا کر پڑھے
44
رسالہ لے کر پڑھئے
67
رسالہ اٹھا کر پڑھئے
42
36
استعارۂ بے تکلف ہے
20
استعارۂ بے تکلف
34
استعارۂ بے تکلف
44
استعارہ بے تکلف
68
استعارۂ بے تکلف
43
37
تخیل کا مقلد نہیں
21
تخیل کا مقلد نہیں
34
تخیل کا مقلد نہیں
45
تخیل کا مقالہ نہیں
68
تخیل کا مقلد نہیں
44
37
نغمہ یا حی شود مارا
21
نغمہ یا حی شود مارا
35
نغمہ یا حی شود مارا
46
نغمہ یاصی شد مارا
69
نغمہ یا حی شود مارا
45
37
اس قسم کے استعارے
21
اس قسم کے استعارے
35
اس قسم کے استعارے
46
اس کے استعارے
69
اس قسم کے استعارے
46
47
آپ سرشتہ انصاف
21
آپ سرشتہ انصاف
35
آپ سر رشتہ انصاف
46
آپ سرشتہ انصاف
69
آپ سر رشتہ انصاف
47
37
ہاتھ سے نہ دینگنے
21
ہاتھ سے نہ دینگے
35
ہاتھ سے نہ دیں گے
46
ہاتھ سے نہ جانے دیں گے
69
ہاتھ سے نہ دیں گے
48
38
جب وہ ماہرو
22
جب وہ ماہرو
35
جب وہ ماہ رو
46
جب وہ ماہر
69
جب وہ ماہ رو
49
38
وہ دس منزل میں
22
وہ دس منزل میں
36
وہ دس منزل میں
47
وہ کس منزل میں
70
وہ دس منزل میں
50
39
اب آپ خود
23
آپ خود
37
آپ خود
48
آپ خود
71
آپ خود
51
39
تارو رہر جا
23
تارورہا جا
47
تارور ہرجا
48
تاروہرجا
72
تارورہاجا
52
39
اپنے فہم قاصر کے مطابق
23
اپنے مہم قاصر کے مطابق
37
اپنے فہم کے مطابق
48
اپنے فہم کے
72
اپنے فہم قاصر کے مطابق
53
39
وہ صحیح ہے
23
وہ صحیح ہے
37
وہ صحیح ہے
48
وہ صحیح ہی ہے
72
وہ صحیح ہے
54
39
حرف گیری اسی محاورے تک جن میں اس محاورہ کا صحیح استعمال ہے
24
حرف گیری اس محاورے تک جن میں اس محاورے کا صحیح استعمال ہے
38
حرف گیری اس محاورے تک جس میں اس محاورے کا صحیح استعمال ہے
48
حرف گیری اس محاورہ اس فائدہ تک جن میں اس محاورے کا صحیح استعمال ہے
72
حرف گیری اس محاورے تک جس میں اس محاورے کا صحیح استعمال موجود ہے
55
40
کیا تعجب ہے کہ
24
کیا تعجب ہے کہ
38
کیا تعجب ہے کہ
49
کیا تعجب کہ
72
کیا تعجب ہے کہ
56
40
مجھے نہ زباندانی کا
24
مجھے نہ زبان دانی کا
38
مجھے زبان دانی کا
49
مجھے نہ زبان دانی کا
73
مجھے زبان دانی کا
اس مضمون کے متن میں بہت زیادہ تصرفات و ترمیمات کی گئی ہیں، حتیٰ کہ ’’ مضامین اقبال‘‘ کے متن میں بھی تصرفات و محذوفات کی خاصی تعداد ہے۔ ’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں تو اغلاط و تصرفات کی بھرمار ہے۔ اس میں جگہ جگہ کتابت کی اغلاط نظر آتی ہیں، مثلاً شاخی (شافی) ہاسبان (پاسبان) شالگاں (شایگان) قریب المخرخ (قریب المخرج) وغیرہ۔ اس مجموعہ مضامین میں متعدد جگہ ایسے الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہے، جو بے جوڑ اور بلا ضرورت ہیں۔ اس تفصیلی جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو ترامیم یا تصرفات ہمیں ’’ مضامین اقبال‘‘ کے متن میں نظر آتی ہیں، وہی جوں کی توں ’’ مقالات اقبال طبع اول و دوم‘‘ اور’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ میں دہرا دی گئی ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ مقالات اقبال‘‘ اور’’ اقبال کے نثری افکار‘‘ کے مرتب نے ثانوی ذرائع سے استفادہ کیا ہے۔
علامہ اقبال کے اردو مضامین کے مزید متن دستیاب نہیں ہو سکے، اس لئے ان کے متن کا جائزہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ جن مضامین کے متون کا جائزہ لیا گیا ہے، ان سے اس امر کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مختلف مجموعہ ہائے مضامین میں اصل متن کے برخلاف متعدد تبدیلیاں کی گئی ہیں اور صحت متن کا خیال نہیں رکھا گیا۔
٭٭٭
علامہ اقبال کے اردو مضامین کی اہمیت
علامہ اقبال نے اردو میں مضامین لکھنے کا سلسلہ اپنی پہلی علمی تصنیف’’ علم الاقتصاد‘‘ (1901-02ئ) کے ساتھ ہی شروع کر دیا تھا۔ ابتداء میں آپ کے مضامین ’’ مخزن‘‘ میں شائع ہوئے۔’’ مخزن‘‘ کی رومانی تحریک سے علامہ اقبال کسی حد تک متاثر تھے۔ ’’ مخزن‘‘ کا دور اردو نثر نگاری کی تاریخ میں دبستان سرسید کی نثر کے بعد، لطیف رومانی رد عمل کا دور ہے۔ دبستان سرسید کے رفقاء محض مدعا نگاری پر زور دیتے تھے، جس سے عبارت بعض اوقات بوجھل اور ثقیل ہو جاتی تھی، نتیجتہً اس ثقالت اور پھیکے پن کی وجہ سے مدعا و مقصد قاری تک پر اثر طریقے سے نہیں پہنچ پاتا تھا۔ چنانچہ ’’ مخزن‘‘ سے تعلق رکھنے والے ادیبوں نے اپنی نثر کو زیادہ پر تاثیر بنانے کے لئے تخیل کی چاشنی اور لطف بیان کا عنصر نثر میں داخل کیا اور ہلکے پھلکے مضامین لکھ کر اردو نثر میں ایک نے ذوق کی بنیاد ڈالی۔
علامہ اقبال بھی ’’ مخزن‘‘ تحریک سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ان کی بعض نثری تحریروں کا جھکاؤ دبستان سرسید کی طرف بھی ہے، مگر بیشتر نثری تحریریں مقصدیت کے ساتھ ساتھ سادہ وسلیس، دلچسپ اور لطیف ہیں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ تو یہاں تک لکھتے ہیں:
’’ اردو نثر میں رومانی تحریک کا بانی یا اس کا سب سے بڑا علمبردار کوئی بھی ہو، یہ ماننا پڑتا ہے کہ اقبال بھی اس رومانی تحریک کے اولیں پیشروؤں میں سے ہیں، جس کے بڑے بڑے رہنماؤں نے بیسویں صدی کے ربع اول میں رومانیت کے پر شور اور پر خروش نمونے ادب اردو کو دیے۔‘‘ 22؎
اس طرح علامہ اقبال کی ابتدائی نثری تحریریں ’’ مخزن‘‘ میں شائع ہوئیں۔ ان پہلا مضمون 1902ء میں ’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ کے عنوان سے ’’ مخزن‘‘ میں چھپا اور مضامین کا یہ سلسلہ 1905ء تک جاری رہا۔ 1905ء میں آپ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے انگلستان تشریف لے گئے۔ انگلستان میں آپ نے زیادہ تر انگریزی میں مضمون نویسی کی۔ وطن واپس آنے پر علامہ اقبال مضمون نویسی کی طرف باقاعدہ توجہ نہ دے سکے، کیونکہ آپ وکالت کے پیشے سے منسلک ہو گئے تھے۔ علاوہ ازیں ان کی بیشتر توجہ ’’ اسرار خودی‘‘ کی طرف مبذول رہی۔ مضمون نویسی ان کے لئے ثانوی درجہ رکھتی تھی، انہوں نے نثر میں جو کچھ بھی لکھا کسی نہ کسی مجبوری کے تحت لکھا، ورنہ بنیادی طور پر وہ ایک شاعر تھے اور ان کی ساری توجہ شعر و شاعری کی تخلیق میں ہی صرف ہوتی تھی، اس سلسلے میں سید عبدالواحد معینی لکھتے ہیںـ:
’’ جو کچھ لکھا گیا، وہ وقت کے تقاضوں سے لکھا گیا تھا۔ لہٰذا ان مضامین کی تعداد محدود ہے مگر تعداد کی کمی ان مضامین کی اہمیت اور اردو ادب میں ان کے مقام پر کوئی اثر نہیں ڈال سکی۔‘‘ 23؎
اقبال کے مذکورہ بالا سترہ اردو مضامین کو ان کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، اسی اعتبار سے ہم ان کا جائزہ بھی لیں گے:
عملی و عمرانی مسائل:
1بچوں کی تعلیم و تربیت، 2قومی زندگی، 3سودیشی تحریک اور مسلمان، 4 شریعت اسلام میں مرد اور عورت کا رتبہ، 5 خطبہ صدارت، 5 خطبہ صدارت (1931ئ) ، 6خطبہ عید الفطر 1932ئ، 7 نبوت پر نوٹ1,2 ، 3 جغرافیائی حدود اور مسلمان1938ء
لسانیات:
1زبان اردو 2 اردو زبان پنجاب میں
تصوف اور اسرار خودی کی بحث:
1مسلمانوں کا امتحان، جنوری 1913ء ، 2ایک دلچسپ مکالمہ 1914ئ، 3 اسرار خودی اور تصوف، 4 سر اسرار خودی، 5 علم ظاہر و علم باطن، 6 تصوف وجودیہ
متفرق:
1اسلام اور علوم جدیدہ
ملی و عمرانی مسائل۔۔۔۔ اہمیت اور تبصرہ:
علامہ اقبال کو عنفوان شباب سے ہی ملی اور عمرانی مسائل و امور سے گہری دلچسپی رہی ہے، جس کا اظہار وہ نظم و نثر25؎ دونوں میں بیک وقت کرتے رہے ہیں۔ نثر میں انہوں نے انگریزی اور اردو زبان میں متعدد مضامین لکھے۔ ان میں بعض مضامین خاصے تفصیلی ہیں اور بعض مختصر ہیں، مگر اختصار کے باوجود اہم ہیں۔ (انگریزی مضامین یا ان کے تراجم ہمارے موضوع سے خارج ہیں، اس لئے ہم ان پر یہاں بحث نہیں کریں گے۔)
علامہ اقبال کی شخصیت کا اہم پہلو، ان کا ’’ درد و سوز‘‘ تھا، وہ ایک درد مند دل کے مالک تھے، جو اپنی قوم کی دگرگوں حالات پر کڑھتا رہتا تھا۔ وہ قوم کی تہذیبی، معاشی، اخلاقی و معاشرتی حالت کو بہتر بنانے کے لئے ہمہ وقت مصروف رہتے تھے اور تقریر و تحریر کے ذریعے قوم کو اپنی حالت سنوارنے پر اکساتے رہتے تھے، غلام دستگیر رشید لکھتے ہیں:
’’ اقبال ادب و فلسفہ کے علاوہ عمرانیات کے نہایت بالغ نظر عالم اور ماہر ہیں قوموں کے عروج و زوال کے اصول اور قوانین پر ان کی دور رس نظر ہے۔ حکمت ایمانی اور مصلحت عمرانی کا مطالعہ ایک دوسرے سے تعلق کی روشنی میں خوب کیا ہے۔‘‘ 26؎
عمرانی مسائل میں علامہ اقبال تعلیم کے مسئلے کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔ انہوں نے تقریباً ہر نثری مضمون پر تعلیم کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے ایک تفصیلی مضمون ’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ بچوں کی بہتر تعلیم اور بہتر تربیت کا مسئلہ آج بھی زیر غور ہے، علامہ اقبال بھی اس مسئلے کی گھمبیرتا سے بخوبی واقف تھے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ بچوں کی تعلیم اور ان کی بہتر تربیت ایک دشوار امر ہے کیونکہ تمام قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم ہے، اگر بچوں کی ابتدائی تعلیم تشنہ رہ جائے تو ملک کا مستقبل مخدوش ہو جاتا ہے کہ قوم کے مستقبل کی باگ ڈور آج کے بچے کل کے بڑوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ ایک ٹیکنیکی موضوع ہے، جس میں بچے کی نفسیات کو مدنظر رکھ کر اس کی تعلیم و تربیت کے مختلف امور سے بحث کی گئی ہے۔ اس مضمون کی غایت اقبال کے الفاظ میں یہ ہے:
’’ اس مضمون کی تحریر سے ہماری یہ غرض ہے کہ علمی اصولوں کی رو سے بچپن کا مطالعہ کر کے یہ معلوم کریں کہ بچوں میں کون کون سے قواء کا ظہور پہلے ہوتا ہے اور ان کی تعلیم و تربیت کس طرح ہونی چاہئے، ہم ایک ایسا طریقہ پیش کرنا چاہتے ہیں جو محض خیالی ہی نہیں ہے بلکہ ایک قابل عمل طریق ہے۔ جس سے بچوں کی تعلیم کے لئے ایسے آسان اور صریح اصول ہاتھ آ جاتے ہیں جن کو معمولی سمجھ کا آدمی سمجھ سکتا ہے اور ان کے نتائج سے مستفید ہو سکتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ناظرین ان سے فائدہ اٹھائیں گے اور اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم میں ان اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھیں گے۔‘‘ 27؎
چنانچہ علامہ اقبال نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے دس گیارہ علمی اصول وضع کئے ہیں اگرچہ یہ علمی موضوع ہے، مگر انداز بیان سادہ اور دلچسپ ہے۔ علامہ اقبال بذات خود ایک تعلیم یافتہ انسان تھے۔ انہوں نے قدیم طریقہ تدریس اور جدید طرز تعلیم دونوں سے استفادہ کیا تھا اور اندرون ملک و بیرون ملک درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ بھی رہے۔ محمد احمد خاں لکھتے ہیں:
’’ تعلیم کا مسئلہ ہی ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے انہیں عملی طور پر زندگی بھر سابقہ پڑتا رہا۔ ظاہر ہے کہ ایک مفکر کی حیثیت سے جو کچھ انہوں نے اس مسئلے پر سوچا، اس کو عملی طور پر برتنے کا انہیں موقع بھی ملا اور اس طرح جو تجربات انہیں حاصل ہوئے ان پر غور و خوض کر کے انہوں نے نتائج بھی اخذ کیے۔‘‘ 28؎
غرض اس مضمون میں انہوں نے جو اصول وضع کئے، ان کے پیچھے ان کا تجربہ مشاہدہ کار فرما تھا۔ اگرچہ یہ مضمون1902ء میں لکھا گیا لیکن اقبال ابتداء سے ہی بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔
یہ مضمون چونکہ عوام کے مفاد کے نقطہ نظر سے لکھ اگیا ہے، اس لئے اس میں علمی اصطلاحات (مدرکات، تصدیقات، مقابلہ تصورات) کے ساتھ ساتھ سادہ اور عام فہم مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار لکھتے ہیں:
’’ اس خالص علمی اور ٹیکنیکی بحث میں مصطلحات تعلیمی کے علی الرغم اقبال نے سادہ، سلیس اور دلنشین انداز میں فلسفہ تعلیم کی باریکیوں کو خوش اسلوبی سے سلجھایا ہے اور وضاحت کے لئے گرد و پیش کی زندگی کے مشاہدات سے ایسی چھوٹی چھوٹی جزئیات پیش کی ہیں جو بعض مقامات پر تصور نما بن کر ایک مصور ادیب کے مو قلم کا کرشمہ بن گئی ہیں۔‘‘ 29؎
علامہ نے اس مضمون میں جا بجا گفتگو اور مکالمے کا پیرایہ بیان اختیار کیا ہے۔ اکثر جگہ انداز تشریحی اور مدرسانہ نوعیت کا ہے، مگر ناگوار نہیں گزرتا۔ مضمون کے آخر میں علامہ اقبال معلم کے مرتبے اور اس کے فرائض کا تعین کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ معلم حقیقت میں قوم کے محافظ ہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کی قدرت میں ہے، سب محنتوں سے اعلیٰ درجہ کی محنت اور سب کار گذاریوں سے زیادہ بیش قیمت کار گزاری ملک کے معلموں کی کار گزاری ہے معلم کا فرض تمام فرضوں سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسی کے ہاتھ میں ہے اور تمام قسم کی ملکی ترقی کا سرچشمہ اسی کی محنت ہے۔‘‘ 30؎
’’ قومی زندگی ‘‘ ایک جذباتی انداز کا مضمون ہے، مگر مصنف نے جذبات و تخیل کی رو میں بہہ کر حقیقی مسائل کو نظر انداز نہیں کیا، ان حقیقی اور تلخ حقائق کو درد مندانہ پیرائے میں سادگی و سلاست اور روانی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا نقشہ فکری انداز میں کھینچا ہے، ڈاکٹر عبادت بریلوی کا کہنا ہے:
’’ اس میں تاریخ، عمرانیات اور فلسفے کا علم، باعتبار موضوع گہرائی کی لہر سی دوڑاتا ہے۔ واقعات عالم کے محرکات اور اس کے نتائج پر علامہ کی نظر بڑی گہری ہے۔‘‘ 31؎
جذبے اور عقل کا خوشگوار امتزاج اس مضمون کا خاصا ہے۔ اس کی اہمیت کا احساس آغاز ہی میں ان سطور سے ہو جاتا ہے، جہاں مصنف اقوام عالم کی تاریخ کے اس نازک دور میں قلم اور تلوار کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ ایک زمانہ تھا جب کہ اقوام دنیاکی باہمی معرکہ آرائیوں کا فیصلہ تلوار سے ہوا کرتا تھا اور یہ فولادی حربہ دنیائے قدیم کی تاریخ میں ایک زبردست قوت تھی۔ مگر حال کا زمانہ ایک عجیب زمانہ ہے جس میں قوموں کی بقا ان کے افراد کی تعداد، ان کے زور بازو اور ان کے فولادی ہتھیاروں پر انحصار نہیں رکھتی، بلکہ ان کی زندگی کا دار و مدار اس کاٹھ کی تلوار پر ہے جو قلم کے نام سے موسوم کی جاتی ہے۔‘‘ 32؎
علامہ اقبال نے تمہیداً اس مقالہ میں دور حاضر کے انقلابات کا ذکر کیا ہے اور اس بات کا تقاضا کیا ہے کہ پس ماندہ قومیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی بقا کے لئے نئے نئے سامان بہم پہنچائیں۔ اس کے بعد وہ ان قوموں کا ذکر کرتے ہیں جو محنت، کوشش، تنظیم اور جدوجہد کے ذریعے معمولی حیثیت سے بلند مقام پر پہنچی ہیں۔ یہاں وہ قدیم اقوام میں سے بنی اسرائیل اور پارسی اقوام کا ذکر کرتے ہیں کہ جو صدہا سال کے مصائب جھیلنے اور پنے وطن سے بے وطن ہونے کے باوجود آج بھی زندہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دو قوموں نے انقلاب زمانہ کے تقاضوں کو سمجھا اور صنعت و تجارت کے وسائل اختیار کر کے حالات کا مقابلہ کیا۔ جدید اقوام میں وہ ایشیا میں جاپانی اور یورپ میں انگریز قوم کی مثالیں دیتے ہیں۔ صنعت و تجارت میں ترقی اور اصلاح تمدن نے 36سال کی مختصر مدت میں جاپان کی کایا پلٹ دی۔
قدیم و جدید اقوام کی ترقی کے اسباب کا ذکرکرنے کے بعد وہ ہندوستان کی مایوس کن حالات کا نقشہ کھینچتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ قوم اپنی عظمت و بزرگی کے باوجود اپنی معمولی معمولی ضروریات کے لئے اقوام غیر کی محتاج ہے، لکھتے ہیں:
’’ یہ بد قسمت قوم حکومت کھو بیٹھی ہے، صنعت کھو بیٹھی ہے، تجارت کھو بیٹھی ہے۔ اب وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے۔‘‘ 33؎
اس ضمن میں مسلمانوں کے مختلف طبقات کے رویے، یعنی علماء کی فرقہ آرائی، امراء کی عیش پرستی اور عوام کی جاہلانہ رسوم پرستی کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ پھر جاپان کی تاریخ کے حوالے سے مسلمانوں کو اجتماعی جدوجہد، ایثار و محنت کی تلقین کی ہے اور قومی تعمیر نو کے لئے اصلاح تمدن اور تعلیم عام کا لائحہ عمل پیش کیا ہے۔ چونکہ اصلاح تمدن کا تعلق مذہب سے ہے لہٰذا مقالہ نگار نے نہایت محتاط لفظوں میں فقہ اسلامی کی تدوین جدید کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ 34؎ اس سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ اقبال نوجوانی کے زمانے سے ہی مذہب و ملت کے اہم مسائل پر پوری ذمہ داری اور بصیرت کے ساتھ گفتگو کر سکتے تھے اور یہ مسئلہ زندگی کے آخری ادوار میں بھی ان کے سنجیدہ غور و فکر کا موضوع بنا۔
اصلاح تمدن کے سلسلے میں حقوق نسواں، تعلیم نسواں اور اصلاح رسوم کے مسائل پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ اصلاح تمدن کے بعد قومی تعلیم کے بارے میں انیسویں صدی کے رہنماؤں کے مسلک کے برخلاف، ضروریات زمانہ کے مطابق سائنس، ٹیکنالوجی اور صنعت و تجارت پر زور دیا ہے۔ 35؎ اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
’’ وہ مصاف زندگی جو آج کل اقوام عالم میں شروع ہے اور جس کے نتائج بعض اقوام کی صورت میں یقینا خطرناک ہوں گے، ایک ایسی جنگ ہے جس کو مسلح سپاہیوں کی ضرورت نہیں، بلکہ اس کے سپاہی وہ ہنرمند دستکار ہیں جو خاموشی کے ساتھ اپنے اپنے ملک کے کارخانوں میں کام کر رہے ہیں ہندوستانیوں اور خصوصاً مسلمانوں کو تعلیم کی تمام شاخوں سے زیادہ صنعت کی تعلیم پر زور دینا چاہئے۔ میں صنعت و حرفت کو قوم کی سب سے بڑی ضرورت خیال کرتا ہوں اور اگر میرے دل کی پوچھو تو سچ کہتا ہوں کہ میری نگاہ میں اس بڑھئی کے ہاتھ جو تیشے کے متواتر استعمال سے کھردرے ہو گئے ہیں، ان نرم نرم ہاتھوں کی نسبت بدرجہا خوبصورت اور مفید ہیں جنہوں نے قلم کے سوا کسی اور چیز کا بوجھ کبھی محسوس نہیں کیا۔‘‘36؎
اسلوبیاتی سطح پر یہ مقالہ اپنے دامن میں بہت سی فنی خصوصیات سمیٹے ہوئے ہے۔ جذبے اور فکر کی آمیزش نے اس مضمون کے اسلوب میں سلاست اور روانی پیدا کر دی ہے۔ خیالات کا ایک بہاؤ ہے جس میں بے ساختہ طور پر بعض برجستہ فقرے تصویر پیرائے میں نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں کہ جنہیں ادبی لحاظ سے خیال افروز کہا جا سکتا ہے، 37؎ مثلاً:
’’ برق جس کی مضطربانہ چمک تہذیب کے ابتدائی مراحل میں انسان کے دل میں مذہبی تاثرات کا ایک ہجوم پیدا کر دیا کرتی تھی، اب اس کی پیام رسانی کا کام دیتی ہے۔ سٹیم اس کی سواری ہے اور ہوا اس کے پنکھے جھلا کرتی ہے۔‘‘ 38؎
تشبیہہ کی مثال ملاحظہ کیجئے:’’ لڑکا خواہ منگنی سے پہلے اپنے سسرال کے گھر میں جاتا ہی ہو، منگنی کے بعد تو اس گھر سے ایسی پرہیز کرنی پڑتی ہے جیسے ایک متقی کو مے خانے سے۔‘‘ 39
غرض یہ کہ مقالہ گہرے ملی و عمرانی مسائل کے ساتھ ساتھ اسلوبیاتی خصوصیات بھی رکھتا ہے۔
’’ سودیشی تحریک اور مسلمان‘‘ علامہ اقبال کا ایک فکری اور حقیقت پسندانہ نوعیت کا مضمون ہے۔ اس تحریک کے سلسلے میں انہوں نے جوش سے نہیں ہوش سے کام لیتے ہوئے اس کی افادیت اور نقصان پر اجمالاً روشنی ڈالی ہے۔
منشی دیا نرائن نگم، مدیر رسالہ ’’ زمانہ‘‘ (کانپور) نے سودیشی تحریک کے متعلق اپریل 1906ء کے شمارے میں ایک سوال نامہ شائع کیا، اور اسے خاص طور پر مسلمان مفکروں، ادیبوں اور رہنماؤں کے پاس اظہار خیال کے لئے بھیجا۔ علامہ اقبال ان دنوں کیمرج میں تھے۔ رسالہ پہنچتے ہی انہوں نے کیمرج سے جواب بھیجا، اور اقتصادی نقطہ نظر سے مسئلے کے تمام پہلوؤں پر بھرپور تبصرہ کیا۔
اب ہم اقبال کے جواب کے اہم نکات اجمالاً پیش کرتے ہیں۔ علامہ اقبال ملک میں صنعتی ترقی کے زبردست حامی تھے، انہوں نے اپنے مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ میں بھی اس پہلو پر خاص زور دیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے وہ اسی خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ سودیشی تحریک ہندوستان کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر ملک کے لئے جس کے اقتصادی اور سیاسی حالات ہندوستان کی طرح ہو مفید ہے، اس سے ملک میں خوشحالی بڑھے گی اور اقتصادی حالات درست ہوں گے۔ لیکن انہیں افسوس ہے کہ موجودہ تحریک منفی تحریک ہے، لہٰذا وہ اس جوش و خروش کو ’’ طفلانہ حرکات‘‘ قرار دیتے ہیں، لکھتے ہیں:
’’ بھلا یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے کہ امریکہ اور جرمن کی چیزیں خریدو مگر انگلستان کی چیزوں کو ہندوستان کے بازاروں سے خارج کر دو۔ اس طریق عمل سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ انگلستان سے ہم کو سخت نفرت ہے نہ یہ کہ ہم کو ہندوستان سے محبت ہے۔‘‘ 40؎
اقتصادی نقطہ نظر سے وہ اس قسم کی تحریک کو غیر مفید بلکہ ناقابل عمل سمجھتے ہیں، کیونکہ مغربی خیالات اور تعلیم کی اشاعت سے ہماری ضروریات کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے اور بعض اشیاء ایسی ہیں جنہیں ہمارا ملک سر دست تیار نہیں کر سکتا ، اس لئے اس بات کی کوشش کرنا کہ ہمارا ملک ہماری ضروریات پوری کرنے میں خود کفیل ہو جائے سراسر جنوں ہے۔
سودیشی تحریک کو عملی صورت دینے کے لئے علامہ نے کچھ آرا فراہم کی ہیں، علاوہ ازیں اس تحریک کی کامیابی کے لئے سرمائے کی فراہمی کے مسئلے کے بارے میں بھی اہم تجاویز پیش کی ہیں۔
اقبال کی رائے میں اگر سودیشی تحریک صحیح خطوط پر چلائی جائے، یعنی ملکی صنعتوں کو فروغ دیا جائے اور ملکی مصنوعات کے مقابلے میں کسی تخصیص یا امتیاز کے بغیر بیرونی مصنوعات کا مقاطعہ کیا جائے، تو اس کی کامیابی میں مسلمانوں کا بھی فائدہ ہے۔ اپنے بیان کے آخر میں وہ اس تحریک کی کامیابی کے لئے صبر و استقلال، مناسب منصوبہ بندی اور عملی تنظیم پر زور دیتے ہیں، غرض اقبال کی یہ مختصر تحریر: ’’ ان کے متوازن، سائنٹیفک تجزیاتی انداز فکر اور ان کی بے باکی و بے ریائی کا آئینہ ہے۔‘‘ 41؎
مضمون ’’ شریعت اسلام میں مرد اور عورت کا رتبہ ‘‘ علامہ اقبال کے عورتوں کے بارے میں تصورات سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مرد کو عورت پر فوقیت حاصل ہے اور عورت درجے او رمرتبے میں مرد سے کمتر ہے۔ علامہ اقبال کا موقف ہے کہ اسلام میں مرد و زن میں قطعی مساوات ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے قرآنی آیت:الرجال قوامون علی النساء پیش کی اور فرمایا کہ عربی محاورے کی رو سے اس کی یہ تفسیر صحیح معلوم نہیں ہوتی کہ مرد کو عورت پر فوقیت حاصل ہے۔ عربی گرائمر کی رو سے قائم کا صلہ علی پر آئے تو معنی محافظت کے ہو جاتے ہیں۔ قرآن حکیم کی ایک اور آیت ھن لباس لکم وانتم لباس لھن کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لباس بھی محافظت کے لئے ہوتا ہے مرد عورت کا لباس ہے۔ دیگر کئی لحاظ سے بھی مرد اور عورت میں کسی قسم کا فرق نہیں۔
علامہ اقبال نے قرون اولیٰ کی عورتوں (حضرت عائشہؓ ) کی مثالیں دیں کہ وہ مردوں کے دوش بدوش کام کیا کرتی تھیں، البتہ اسلام کے نقطہ نظر سے مرد اور عورت کے فرائض الگ الگ ہیں۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتاکہ عورت ادنیٰ ہے اور مرد اعلیٰ۔ اسلام میں سب سے پہلے عورتوں کے حقوق کا تعین کیا گیا۔ عورت بچوں کی وراثت، علیحدہ جائیداد کا حق رکھتی ہے۔ جبکہ یورپ اپنی تمام تر مادی ترقی کے باوجود عورتوں کو مساوی حقوق دینے میں اسلام سے پیچھے ہے، بلکہ اب تو یورپین قومیں اس سلسلے میں اسلام کا تتبع کر رہی ہیں۔
علامہ اقبال’’ آزادی نسواں‘‘ کے خلاف تھے، کیونکہ اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی تھیں، جیسا کہ انہوں نے انگلستان اور ترکی کی مثالیں دے کر واضح کیا ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ عورت پردے میں رہ کر بھی جائز اور نمایاں کام کر سکتی ہے۔ عورتوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے انہوں نے اسلامی قانون کی عدالتیں قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے، تاکہ عورتوں کے طلاق کے مسائل اور تعداد ازدواج کے مسائل پر بہتر طریقے سے غور کیا جا سکے۔ اس موضوع پر علامہ اس سے بیشتر بھی اپنے مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ میں تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں عورتوں کے مسائل سے گہری دلچسپی تھی۔
علامہ اقبال نے عورتوں کے لئے بہترین اسوہ حضرت فاطمہ الزہراؓ کی ذات قرار دی ہے، علاوہ ازیں بہترین راہنمائی کے لئے انبیاء کے طریقے سے رجوع کرنے کی تلقین کی ہے۔ وہ عورتوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریں، تاکہ مرد کو ان کے حقوق غصب کرنے کا موقع نہ ملے، لکھتے ہیں:
’’ اگر عورتیں اپنے حقوق کی حفاظت پر پورے طور سے آمادہ ہو جائیں اور وہ حق جو شریعت اسلامی نے عورتوں کو دے رکھے ہیں، آپ مردوں سے لے کر رہیں، تو میں سچ کہتا ہوں کہ مردوں کی زندگی تلخ ہو جائے ۔‘‘ 42؎
اس نثر پارے کا انداز سادہ، دلچسپ اور رواں ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ کہنے والا ایک جذب کے عالم میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہے۔ خیالات کا ایک بہاؤ ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے نصیحت آموز فقرے، واقعات اور قرآنی آیات قاری کے دل میں گھر کر جاتی ہیں۔
علامہ اقبال نے 21مارچ1931ء میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے اجلاس منعقدہ لاہور کی صدارت کی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے ایک طویل اور تجزیاتی خطبہ پیش کیا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے خاصا اہم ہے۔
اس خطبہ میں علامہ نے اپنے بہت سے نظریات کی وضاحت کی ہے۔ کانگرس کی پالیسیوں، مہاتما گاندھی کے سیاسی حربے، حکومت برطانیہ کے صوبہ سرحد اور کشمیر کے بارے میں کئے گئے ہیں فیصلوں اور مضمون کے آخر میں کچھ تجاویز پیش کی ہیں۔ اس خطبہ کا بہ نظر غائر مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ علامہ اقبال برصغیر میں رونما ہونے والے سیاسی حالات و واقعات سے پوری طرح باخبر تھے اور نہ صرف باخبر تھے بلکہ سیاست میں دلچسپی بھی رکھتے تھے، فرماتے ہیں:
’’ سیاسیات کی جڑیں انسان کی روحانی زندگی کے اندر جاگزیں ہوتی ہیں اسی لئے میں سیاسیات سے دلچسپی لیتا ہوں، میں قومیت (نیشنلزم) کے خلاف ہوں جیسا کہ یورپ میں اس سے مفہوم لیا جاتا ہے۔‘‘ 43؎
غرض یہ خطبہ اس دور کے سیاسی حالات و واقعات کو جاننے کے لئے خاصا اہم ہے۔
’’ خطبہ عید الفطر‘‘ میں علامہ اقبال نے اس اسلامی تہوار کے منانے کی غرض و غایت پر پر تاثیر انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ عید الفطر ماہ رمضان کے بعد آتی ہے، یہ ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، جو وہ ان روزے داروں کو عطا کرتا ہے، جنہوں نے اس کی اطاعت و خوشنودی کی خاطر ماہ رمضان کے پورے روزے رکھے۔ علامہ اقبال لکھتے ہیں:
’’ بے شک مسلم کی عید اور اس کی خوشی اگر کچھ ہے تو یہ کہ وہ اطاعت حق یعنی عبدیت کے فرائض کی بجا آوری میں پورا نکلے، اور قومیں بھی خوشی کے تیوہار مناتی ہیں مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم ہے جو خدائے پاک کی فرمانبرداری میں پورا اترنے کی عید مناتی ہو۔‘‘ 44؎
روزہ ایک اجتماعی عبادت ہے، اس سے پوری ملت کو اقتصادی اور معاشرتی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ آنحضور ؐ نے عید الفطر کی نماز کی ادائیگی کے لئے عید گاہ میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا، تو ساتھ ہی صدقہ عیدالفطر ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔ علامہ کہتے ہیں:
’’ حق یہ ہے کہ زکوٰۃ اور اصول تقسیم وراثت کے بعد تیسرا طریق اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم کرنے کا جو اسلام نے تجویز کیا صدقات کا تھا اور ان صدقات میں سب سے بڑھ کر صدقہ فطر کا، اس لئے کہ یہ صدقہ ایک مقررہ دن پر تمام قوم کو ادا کرنا ہوتا ہے۔‘‘ 45؎
علامہ اقبال نے روزے کے انفرادی اور اجتماعی فائدوں پر روشنی ڈالی ہے، اور یہ بتایا ہے کہ روزے ماہ رمضان سے اس لئے مختص کئے گئے کہ اس مہینے میں احکام الٰہی کا نزول شروع ہو اتھا، یعنی اصل بات قوم کی اقتصادی اور تمدنی زندگی کی مجموعی اصلاح کے متعلق تھی۔
آخر میں علامہ اقبال مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج سے تم یہ عہد کر لو کہ قوم کی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کی جو غرض قرآن حکیم نے اپنے ان احکام میں قرار دی ہے، اس کو تم ہمیشہ مدنظر رکھو گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمانان پنجاب شرع قرآنی کے پابند ہو جائیں تو وہ اس وقت قرض کی جس لعنت میں مبتلا ہیں، اس سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمان فضول خرچی اور مال و جائیداد کے جھوٹے مقدمے عدالتوں میں لے جانا چھوڑ دیں،ر شوتوں میں روپیہ ضائع نہ کریں تو اس سے نہ صرف قرض کا کثیر حصہ کم ہو جائے گا بلکہ اسی روپیہ سے وہ اپنی تجارت اور اپنی صنعت کو بھی فروغ دے سکیں گے۔
گویا اس خطبے میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کے صرف اقتصادی پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ خطبہ کا اندازہ مدرسانہ ہے۔ اپنی بات کو مدلل بنانے کے لئے اپنے گرد و پیش کی مثالیں دی ہیں اور انہیں قرآن پاک کے حوالے سے ثابت کر کے یہ دکھایا ہے کہ اگر مسلمان اسلام کے زریں اصولوں کو مدنظر رکھیں تو وہ بہت سی خرابیوں اور برائیوں سے بچ سکتے ہیں۔
’’ نبوت پر نوٹ(1) (2)‘‘ علامہ اقبال کا ایک معلومات افزا اورتشریحی نوعیت کا مضمون ہے، جو انہوں نے قادیاتی تحریک کے خلاف تحریر کیا تھا۔ اس میں علامہ نے نبوت کے دو اجزاء بتائے ہیں اور کہا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ مجھ میں ہر دو اجزا نبوت کے موجود ہیں، یعنی یہ کہ مجھے الہام وغیرہ ہوتا ہے اور میری جماعت میں داخل نہ ہونے والا کافر ہے تو وہ شخص کاذب ہے۔46؎
نبوت کے سلسلے میں اپنے دوسرے نوٹ میں وہ وحی کا مقابلہ عقل سے کر کے وحی کا مقام متعین کرتے ہیں، اور اس کے علاوہ وحی کے Function کا تعین کرتے ہیں۔ یہ ایک معلوماتی نثر پارہ ہے، جس کے مطالعہ سے جہاں ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، وہاں اس بات کا بھی قائل ہونا پڑتا ہے کہ علامہ اقبال قرآنی تعلیمات اور اسلام کے بنیادی مسائل پر خاصا عبور رکھتے ہیں۔
’’ جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ اقبال کا آخری نثری مضمون تھا، جو ان کی وفات سے محض چند ماہ پہلے لاہور کے ایک روزنامے ’’ احسان‘‘ میں شائع ہوا۔ یہ مضمون اس امر کی شہادت ہے کہ اقبال نے اسلام، وطنیت اور برصغیر میں مسلمانوں کی سیاست کے بارے میں جو موقف ولایت سے واپسی پر اختیار کیا تھا، آخری وقت تک وہ اس کی اشاعت و استحکام میں لگے رہے اور اس پر جب اور جس جانب سے بھی کوئیو ار ہوا، اس کا جواب دینے اور اپنے موقف کی سچائی اور حقانیت ثابت کرنے کے لئے انہوں نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ 47؎
علامہ نے یہ مضمون انڈین نیشنل کانگریس کے ہم نوا مولانا حسین احمد مدنی کے اس بیان کے جواب میں لکھا کہ:’’ اقوام اوطان سے بنتی ہیں۔‘‘ علامہ نے مولانا حسین کے اس بیان پر حیرت اور تعجب کا اظہار کیا اور مشہور قطعہ تحریر فرمایا، جس کا ایک مصرع یہ تھا
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
لیکن حسین احمد مدنی اس مصرعے میں لفظ’’ ملت‘‘ اور’’ وطن‘‘ کے فرق میں الجھ گئے اور اپنی بات پر اڑے رہے، تو علامہ اقبال کو ناچار نثر کا سہارا لینا پڑا۔
اس مضمون میں علامہ اقبال نے ایک بار پھر جدید وطنیت کی انسانیت کش اصل کو بے نقاب کیا ہے، اور ا س کے مقابلے میں اسلام نے نسل آدم کو جن انسانی بنیادوں پر متحد ہونے کی عملاً دعوت دی ہے، اس کی حقیقت بڑے موثر دلائل کے ساتھ بیان کی ہے:
’’ جو کچھ قرآن سے میری سمجھ میں آیا ہے۔ اس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں، بلکہ عام بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے۔ جو اس کے قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔۔۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ قومی ہے، نہ نسلی ہے، نہ انفرادی نہ پرائیویٹ بلکہ خالصتاً انسانی ہے اور اس کا مقصد باوجود تمام فطری امتیازات کے عالم بشریت کو متحد و منظم کرنا ہے۔ ایسا دستور العمل قوم اور نسل پر بنا نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ 48؎
مضمون کے درمیانی حصے میں اقبال نے ’’ ملت‘‘ اور’’ قوم‘‘ کی فرضی تفریق پر بہت دلچسپ اور ایمان افروز بحث کی ہے، اور مرحوم حسین احمد مدنی اور ان کے ہم خیالوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے محکم دلائل پیش کئے ہیں۔
مضمون کے آخری دو پیراگراف میں اقبال نے اپنے موقف کو اس قدر و اشگاف لفظوںمیں بیان کیا ہے کہ اس سے واضح تر الفاظ کا ملنا دشوار ہے۔ علامہ اقبال نے بے جھجک اور بلا خوف یہ کہا کہ ہمیں ایسی ’’ آزادی‘‘ ہرگز ہرگز مطلوب نہیں جس میں ہماری حیثیت غیر یقینی یا بے آبرومندانہ ہو۔ یہی حقیقت پسندی، جرات پسندی اور بے باکی اقبال کو بے شمار دوسرے مسلمان ’’ رہنماؤں‘‘ اور سیاست دانوں سے ممتاز کرتی ہے، کہتے ہیں:
’’ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کنیتہً نہیں تو ایک بڑی حد تک دار الاسلام بن جائے۔ لیکن اگر آزادی ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دار الکفر ہے ویسا ہی رہے، یا اس سے بھی بد تر بن جائے، تو مسلمان ایسی آزادی وطن پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتا ہے ایسی آزادی کی راہ میں لکھنا، بولنا، روپیہ صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا، جیل جانا، گولی کا نشانہ بننا سب کچھ حرام اور قطعی حرام سمجھتا ہے۔‘‘
غرض ملی و عمرانی مضامین کے جائزے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قومی زندگی کے مختلف موضوعات کو پیش کرنے کے لئے اقبال نے جو نثر لکھی، وہ اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے کہ اس میں کسی قسم کا الجھاؤ اور ابہام نہیں ہے۔ اس میں صفائی اور صاف گوئی، بے خوفی اور بے باکی کی خصوصیت ہیں۔ علامہ اقبال نے قومی و ملی اور فلسفیانہ موضوعات کو جس انداز میں پیش کیا ہے وہ اردو مضمون نگاری کی روایت میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔
لسانیات۔۔۔۔۔ اہمیت اور تبصرہ:
علامہ اقبال نے قومی و ملی موضوعات کے علاوہ زبان اور لسانی معاملات پر بھی اپنی نثر میں اظہار خیال کیا ہے۔ ان موضوعات نے علامہ اقبال کو ماہر لسانیات اور ایک اچھا نقاد بھی ثابت کر دیا ہے۔ 49؎
لسانیات کے موضوع پر ان کا پہلا مضمون 1902ء کے ’’ مخزن‘‘ میں شائع ہوا۔ یہ مضمون خود علامہ اقبال نے نہیں لکھا بلکہ ڈاکٹر وائٹ برجنٹ کے مضمون کا ترجمہ ہے، جو اقبال نے شوق اور دلچسپی سے کیا۔ ظاہر ہے کہ اس مضمون میں جو خیالات پیش کئے گئے ہیں، وہ علامہ اقبال کے نہیں ہیں، لیکن مضمون کے ترجمے سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس موضوع کے ساتھ خاص دلچسپی ہے، اور اسی دلچسپی کی وجہ سے انہوں نے یہ ترجمہ کیا ہے۔
یہ مضمون چونکہ ترجمہ ہے، اس لئے اس موضوع پر علامہ اقبال کے خیالات کی وضاحت نہیں ہو سکتی۔ البتہ اس میں اسلوب کی کئی خصوصیات نظر آتی ہیں، یعنی یہ کہ ترجمہ طبع زاد کا گمان ہوتا ہے، کیونکہ ترجمے کا انداز شستہ اور رواں ہے۔ شاید اتنی روانی اصل متن میں موجود نہ ہو ، جتنی کہ اس ترجمے کو پڑھ کر محسوس ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علامہ ا قبال اردو زبان کی باریکیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔
’’ اردو زبان پنجاب میں‘‘ کے عنوان سے علامہ اقبال کا ایک مضمون ’’ مخزن‘‘ میں چھپا۔ اس مضمون سے زبان اور لسانی معاملات پر خاصی روشنی پڑتی ہے۔ علامہ اقبال کی شہرت جیسے جیسے پھیلتی گئی، ان کے مداحوں اور معترضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ اکثر لوگوں کو اس بات پر اعتراض تھا کہ اقبال زبان و بیان کی نزاکتوں کا خیال نہیں رکھتے، یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں بہت سے الفاظ گرائمر کی رو سے صحیح نہیں ہیں۔علامہ اقبال اگرچہ اس قسم کے اعتراضات کی بالعموم پرواہ نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کا مدعا و مقصد عوام تک اپنی بات پہنچانا تھا، نہ کہ اسلوب کی خوبیاں گنوانا۔ ویسے بھی وہ اپنے آپ کو روایتی شعراء سے الگ تصور کرتے تھے، اس لیے وہ اس امر کو خاطر خواہ نہ سمجھتے تھے کہ محض الفاظ کی خاطر شاعری کی جائے۔ علامہ پر جب اس قسم کے اعتراضات کی تعداد بڑھنے لگی تو انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ اس کا شافی جواب دیں چنانچہ انہوں نے یہ مضمون لکھا، اس سے علامہ کے خیالات کی وضاحت زیادہ صراحت سے ہو جاتی ہے۔
یہ مضمون ا گرچہ اعتراض کے جواب میں لکھا گیا ہے، لیکن انداز ایسا ہے کہ ناگوار نہیں گزرتا۔ اعتراض کا جواب دینے کے لئے وہ جس طرح سے اساتذہ کے اشعار کا حوالہ دیتے ہیں، وہ زبان کے گہرے شعور اور فن شاعری کے اصولوں سے گہری واقفیت کے مظہر ہیں۔
مضمون کے ابتدائی حصہ میں علامہ اقبال کہتے ہیں کہ آج کل بعض لوگ اہل پنجابیوں کی ہنسی اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پنجابی غلط اردو پھیلا رہے ہیں۔ علامہ اقبال کا موقف یہ ہے کہ جو زبان ابھی بن رہی ہو، اس کے متعلق صحت و عدم صحت کا معیار قائم کرنا درست نہیں ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر کا کہنا ہے کہ یہ مقالہ محض اس لئے اہم نہیں کہ اس میں ایک ’’ منصف مزاج پنجابی‘‘ نے دہلوی اور لکھنوی اساتذہ کے اشعار کو اعتراضات کے جواب میں بطور سند پیش کیا، اس کی اصل اہمیت اس امر میں مضمر ہے کہ علم اللسان کا ماہر نہ ہوتے ہوئے بھی اقبال نے تبدیلی زبان کے عمل سے آگہی کا ثبوت دیا ہے۔ 49؎ علامہ اقبال لکھتے ہیں:
’’ ابھی کل کی بات ہے اردو زبان جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں تک محدود تھی مگر چونکہ بعض خصوصیات کی وجہ سے اس میں بڑھنے کا مادہ تھا، اس واسطے اس بولی نے ہندوستان کے دیگر حصوں کو بھی تسخیر کرنا شروع کیا اور کیا تعجب ہے کہ کبھی تمام ملک ہندوستان اس کے زیر نگیں ہو جائے۔ ایسی صورت میں یہ ممکن نہیں کہ جہاں جہاں اس کا رواج ہو وہاں کے لوگوں کا طریق معاشرت، ان کی تمدنی حالات اور ان کا طرز بیان اس پر اثر کیے بغیر رہے۔ علم السنہ کا یہ ایک مسلم اصول ہے جس کی صداقت اور صحت تمام زبانوں کی تاریخ سے واضح ہوتی ہے، اور یہ بات کسی لکھنوی یا دہلوی کے امکان میں نہیں ہے کہ اس اصول کے عمل کو روک سکے۔‘‘ 51؎
اقبال زبان اور تہذیب و تمدن کی باہمی اثر پذیری کو تسلیم کرتے ہیں۔ زبان کا مزاج متعین کرنے میں معاشرتی حالات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ الفاظ کے اخذ و قبول اور رو و متروک کا عمل ان ہی حالات کا مرہون منت ہے۔ تمدنی حالات کے نتیجے میں زبان میں نئے نئے الفاظ شامل ہوتے رہتے ہیں اور اس عمل کے منطقی نتائج کے خلاف مزاحمت، زبان کی نشوونما اور ذخیرہ الفاظ میں اضافے کو روکنے کے مترادف ہوتی ہے۔ اسی لئے اقبال اردو میں پنجابی الفاظ کے استعمال پر اعتراضات کے جواب میں تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ 52؎
علامہ اقبال نے اپنے خطوط میں زبان کے بارے میں بعض بصیرت افروز باتیں کی ہیں۔ چنانچہ مولوی عبدالحق کو 9ستمبر1937ء کے ایک مکتوب میں اس خیال کا اظہار کیا ہے:
’’ زبانیں اپنی اندرونی قوتوں سے نشوونما پاتی ہیں اور نئے نئے خیالات و جذبات کے ادا کر سکنے پر ان کی بقا کا انحصار ہے۔‘‘ 53؎
اسی طرح سردار عبدالرب نشتر کے نام19اگست1923ء کو لکھے گئے، خط میں جو کچھ لکھا اسے زبان کے بارے میں خود اقبال کا اپنا موقف بلکہ بطور ایک تخلیقی فنکاران کا منشور بھی قرار دیا جا سکتا ہے:ـ
’’ زبان کو میں ایک بت تصور نہیں کرتا، جس کی پرستش کی جائے، بلکہ اظہار مطالب کا ایک انسانی ذریعہ خیال کرتا ہوں۔ زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ ہاں تراکیب کے وضع کرنے میں مذاق سلیم کو ہاتھ سے نہ دینا چاہیے۔‘‘ 54؎
علامہ اقبال نے اپنے ایک اور مضمون ’’ قومی زندگی‘‘ میں قانون ارتقاء کے نقطہ نظر سے بات کرتے ہوئے اس کا زبانوں پر اطلاق کر کے زبان میں نئے الفاظ کی اہمیت اور ضرورت کا احساس کرایا ہے:
’’ ایک زمانہ تھا جب یونانی، لاطینی اور سنسکرت وغیرہ زندہ زبانیں تھیں، مگر اب ایک عرصہ سے یہ زبانیں بے جان ہو چکی ہیں۔ ان کی موت کا راز اس قانون کا عمل ہے اور خود پنجابی زبان جس کو ہم روز مرہ استعمال کرتے ہیں، اس سے روز بروز متاثر ہو رہی ہے۔ سینکڑوں الفاظ ہیں جو تعلیم یافتہ لوگوں کے روز مرہ استعمال میں ہیں مگر اس زبان میں موجود نہیں۔اظہار خیالات کے جدید طریق ہماری عقلی ترقی کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہ زبان ان کے ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ایسے حالات میں یہ لازم ہے کہ اس زبان کا حشر وہی ہو جو اور قدیم زبانوںکا ہوا ہے۔‘‘ 55؎
اس مضمون میں علامہ اقبال نے اعتراضات کے جو جواب دیے ہیں ان سے اس موضوع پر علامہ اقبال کے علم، شعور اور بصیرت کی وضاحت ہوتی ہے۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے جو انداز اختیارکیا ہے، اس سے تہذیب و شائستگی کا اظہار ہوتا ہے۔
اقبال کے بارے میں عام طور پر یہ تاثر ملتا ہے کہ انہیں حسن بیان کے لواز اور صنائع بدائع وغیرہ کا اول تو شعور ہی نہ تھا یا اگر شعور تھا تو انہوں نے کبھی ان سے خصوصی دلچسپی کا اظہار نہ کیا۔سید عابد علی عابد ’’ شعر اقبال‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ جن صنائع لفظی و معنوی کا ذکر بلاغت کی کتابوں میں کیا گیا ہے، وہ تمام کی تمام علامہ اقبال کے کلام میں موجود ہیں۔‘‘
چنانچہ علامہ اقبال کے کلام کا تجزیہ صنائع بدائع کے لحاظ سے بھی کیا گیا ہے۔ نذیر احمد نے اپنی تالیف ’’ اقبال کے صنائع بدائع‘‘ سے ثابت کیا ہے کہ اقبال نے شاعری کے فنی محاسن کی طرف سے شعوری توجہ نہ کرتے ہوئے بھی صنائع بدائع کی کل ستر (70) اقسام استعمال کی ہیں۔ اس اے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال زبان کی نزاکتوں سے ناآشنا نہ تھے۔ ڈاکٹر سلیم اختر اس مقالہ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اردو زبان پنجاب میں، اس لحاظ سے بے حد اہم تحقیقی مقالہ ہے کہ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ا قبال کو نہ صرف الفاظ کے تخلیقی استعمال کا سلیقہ تھا بلکہ اس معاملے میں ان کی معلومات اور مطالعہ کسی اہل زبان شاعر سے فروتر نہ تھا۔‘‘ 56؎
بہرحال موضوع کے اعتبار سے علامہ اقبال کا یہ مضمون بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے زبان کے بارے میں علامہ کے خیالات کا اظہار واضح انداز میں ہوتا ہے۔
تصوف اور اسرار خودی۔۔۔ اہمیت اور تبصرہ:
علامہ اقبال نے تصوف کے موضوع پر بھی متعدد مضامین لکھے۔ انہیں ابتدا ہی سے صوفیانہ ماحول ملا تھا۔ انہوں نے عجمی و عربی تصوف کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا تھا۔
’’ مسلمانوں کا امتحان‘‘ اس عنوان کے تحت علامہ اقبال نے ’’ تربیت خودی‘‘ کے دوسرے مرحلے ضبط نفس کو ایک مختلف انداز میں پیش کیا ہے۔ اسی زمانے میں علامہ اقبال ’’ اسرار خودی‘‘ کی تصنیف میں مشغول تھے۔ اس مثنوی میں بھی انہوں نے ضبط نفس کے تحت اشعار درج کیے ہیں۔
علامہ ا قبال اس نثر پارے میں کہتے ہیں کہ انسانی زندگی، اسلامی نقطہ نظر سے قربانیوں کا ایک عظیم الشان سلسلہ معلوم ہوتی ہے۔ یہاں علامہ اقبال نے اسلامی ارکان کے حوالے سے یہ بات واضح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کس کس طرح آزماتا ہے، مثلاً:ـ اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات ایسے مقرر کئے ہیں، جن میں انسان آرام کا طالب ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ و صدقات مقرر کئے ہیں کہ میرے بندے میری راہ میں اپنا مال خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اس مختصر تحریر کے آخر میں علامہ اقبال لکھتے ہیں:
’’ غرض ارکان اسلام کی پابندی مسلمانوں کا ایک عظیم ا متحان ہے اور دراصل اسی کا نام اسلامی تصوف ہے کیونکہ شعائر اسلام کی پابندی سے روح کو وہ تدریجی تربیت حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس میں تبتیل الا اللہ کی قابلیت پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘ 57؎
غرض علامہ اقبال نے اپنی اس مختصر مگر جامع تحریر میں نماز، زکوٰۃ و صدقات کا ذکر کیا ہے، دقیق اور ثقیل الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا، بلکہ سادہ و دل نشین انداز میں اپنے افکار کا اظہار کیا ہے۔
’’ ایک دلچسپ مکالمہ‘‘ تصوف کے موضوع پر ہے، جو محمد دین فوق نے علامہ اقبال سے مختلف سوالات کے ذریعے تصوف اور ضرورت مرشد کے متعلق کیا تھا۔ا س مکالمے سے تصوف کے بارے میں اقبال کے بہت سے افکار و خیالات کی وضاحت ہوتی ہے۔ یہ مکالمہ خاصا دلچسپ ہے، جیسا کہ اس کے عنوان سے بھی ظاہر ہے۔ اب ہم علامہ اقبال کے چند جوابات کا خلاصہ پیش کرتے ہیں جو انہوں نے مختلف سوالات کے جواب میں دئیے۔
جب علامہ سے یہ سوال کیا گیا کہ صوفیوں سے مسلمانوں کو کیا فائدہ پہنچا؟ تو انہوں نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ صوفیوں نے انسانوں کو انسان اور مسلمانوں کو مسلمان بنایا اور انہوں نے مسلمانوں کی اخلاقی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔
ایک سوال کے جواب میں علامہ نے فرمایا کہ اسلامی تصوف رہبانیت کے سخت خلاف ہے۔ قانون الٰہی تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے لو لگانے کے ساتھ ساتھ دنیاوی امور کی طرف بھی توجہ دی جائے اور اپنے گھر بار، اہل و عیال کا خاص خیال رکھا جائے۔ اسی طرح علامہ اقبال نے عرس کی رسم، عرس کا مقصد، اولیاء کی کرامات، قبروں پر جانا اور پیر و مرشد کی ضرورت کے سوالات کے جواب میں انتہائی معلومات افزا جوابات تحریر فرمائے ہیں۔
علامہ اقبال نے ’’ اسرار خودی‘‘ میں ادب اور تصوف کے بارے میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے حافظ کی شاعری اور افلاطون کے فلسفے پر خاص طور پر نکتہ چینی کی تھی، چونکہ حافظ کی شاعری ذوق عمل کے لئے تباہ کن تھی، اس لئے علامہ نے اسے مسلمانوں کے لئے خطرناک قرار دیا ہے۔ مگر کچھ لوگ علامہ اقبال کے نقطہ نظر کو صحیح طور سے نہ سمجھ سکے اور اعتراضات کی بوچھاڑ کر دی چنانچہ علامہ اقبال نے اپنے موقف کی وضاحت کے لئے اردو نثر میں چند مضامین لکھے۔
اس سلسلے کا پہلا مضمون ’’ اسرار خودی اور تصوف‘‘ ہے جو15جنوری 1916ء کے ’’ وکیل‘‘ (امرتسر) میں شائع ہوا تھا۔ اس میں حافظ کی شاعری اور مسئلہ وحدت الوجود کا ذکر کیا کہ وہ کس طرح اسلامی فکر و ادب میں یونانی اثرات کے ذریعے داخل ہوا۔ اس مضمون کی ابتدا میں علامہ اقبال لکھتے ہیں:
’’ اس وقت اس قدر عرض کر دینا کافی ہو گا کہ یہ تحریک غیر اسلامی عناصر سے خالی نہیں اور میں اگر مخالف ہوں تو صر ف ایک گروہ کا، جس نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر بیعت لے کر دانستہ یا نا دانستہ ایسے مسائل کی تعلیم دی ہے جومذہب اسلام سے تعلق نہیں رکھتے۔ حضرات صوفیہ میں جو گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ پر قائم ہے اور سیرت صدیقی کو اپنے سامنے رکھتا ہے، میں اس گروہ کا خاک پا ہوں اوران کی محبت کو سعادت دارین کا باعث تصور کرتا ہوں۔‘‘ 58؎
گویا اس سے واضح ہو گیا ہے کہ اقبال اسلامی تصوف کے نہیں بلکہ غیر اسلامی تصوف کے خلاف ہیں۔
وحدت الوجود کے سلسلے میں جہاں انہوں نے دیگر فارسی شعراء کے اشعار نقل کئے ہیں وہاں ایک پنجابی شاعر وحید خاں پٹھان کا ذکر کیا ہے جو کسی ہندو جوگی کا مرید ہو کر فلسفہ ویدانت کا قائل ہو گیا تھا۔ اس تبدیلی خیال و عقیدہ نے جو اثر اس پر کیا ہے، اسے وہ خود بیان کرتا ہے:
تھے ہم پوت پٹھان کے دل ول دیں موڑ
شرن پڑے رگناتھ کے سکیں نہ تنکا توڑ
یعنی میں پٹھانت ھا اور فوجوں کے منہ موڑ سکتا تھا، مگر جب سے رگناتھ جی کے قدم پکڑے ہیں، یا بالفاظ دیگر یہ معلوم ہوا ہے کہ ہر چیز میں خدا کا وجود جاری و ساری ہے، میں ایک تنکا بھی نہیں توڑ سکتا۔ کیونکہ توڑنے میں تنکے کو دکھ پہنچنے کا احتمال ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ کاش وحید خاں کو یہ معلوم ہوتا کہ زندگی نام ہی دکھ اٹھانے اور دکھ پہنچانے کی قوت رکھنے کا ہے۔ زندگی کا مقصد زندگی ہے نہ کہ موت۔ اس طرح وحید خاں کی مثال سے اقبال کا موقف بخوبی واضح ہو جاتا ہے اور ان کی بات ہر کسی کی سمجھ میں آ جاتی ہے۔
حافظ کے متعلق اپنے بیان میں اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ان کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیتے وقت اپنے آپ کو اس عقیدت سے الگ رکھنا چاہئے جو صوفیانہ مشاغل کے باعث بعض لوگوں کو حافظ کی ذات سے پیدا ہو جاتی ہے۔’’ اسرار خودی‘‘ کے متعلقہ اشعار سے مقصود ادبی تنقید تھی، حافظ کی ذات کو زیر بحث لانا ہرگز مطلوب نہ تھا۔ اقبال، حافظ کی شاعرانہ عظمت کے منکر نہ تھے، مگر اس کی شاعری نے جو کم ہمتی، پست اخلاقی اور یوں کہئے کہ ایک طرح کی توہم پرستی کو مسلمان معاشرے میں جنم دیا ہے، اقبال اس کے شدید مخالف تھے۔ اس بحث کے ضمن میں ایک جگہ اقبال نے اپنے نقطہ نظر کی مندرجہ ذیل الفاظ میں وضاحت کی ہے:
’’ شاعرانہ اعتبار سے میں حافظ کو نہایت بلند پایہ سمجھتا ہوں۔ جہاں تک فن کا تعلق ہے یعنی جو مقصد اور شعراء پوری غزل میں بھی حاصل نہیں کر سکتے، خواجہ حافظ اسے ایک لفظ میں حاصل کرتے ہیں۔ اس واسطے کہ وہ انسانی قلب کے راز کو پورے طور پر سمجھتے ہیں۔ لیکن فردی اور مادی اعتبار سے کسی شاعر کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے لئے کوئی معیار ہونا چاہئے۔ میرے نزدیک وہ معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں ممد ہیں تو وہ شاعر اچھا ہے اور اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو کمزور اور پست کرنے کا میلان رکھتے ہیں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبار سے مضرت رساں ہے۔‘‘ 59؎
اس مضمون کا انداز بیان اس قدر دلچسپ اور پیرایہ بیان اس قدر دھیما ہے کہ جس پر نکتہ چینی کی جا رہی ہے، شاید وہ بھی پڑھے تو اس کو تکلیف نہ ہو آخری جملے خاص طور سے پڑھنے کے قابل ہیں یعنی یہ کہ حافظ کی دعوت موت کی طرف ہے، جس کو وہ اپنے کمال فن سے شیریں کر دیتے ہیں تاکہ مرنے والے کو اپنے دکھ کا احساس نہ ہو۔
دوسرا مضمون ’’ سر اسرار خودی‘‘ خواجہ حسن نظامی کے چند اعتراضات کے جواب میں لکھا گیا تھا۔ اس مضمون سے ’’ اسلام اور تصوف‘‘ کے موضوع پر مزید روشنی پڑتی ہے اور بے عملی اور دنیا سے کنارہ کشی (راہبانیت) کے خلاف اقبال اور اسلام کا موقف واضح تر ہوتا ہے۔ اس مضمون سے ضمناً ہم کو یہ جاننے کا موقع بھی ملتا ہے کہ اقبال کے خلاف اٹھائے گئے اعتراضات کا حدود اربعہ کیا تھا اور معترضوں کے جواب میں اقبال کس بردباری اور عالمانہ وقار کا ثبوت دیا کرتے تھے
تیسرا مضمون’’ علم ظاہر و علم باطن‘‘ بھی’’ اسرار خودی‘‘ کے معترضین کے جواب میں تحریر کیا گیا صوفیائے اسلام میں ایک گروہ ایسا ہے جو شریعت اسلامیہ کو علم ظاہر کے حقارت آمیز خطاب سے تعبیر کرتا ہے اور تصوف سے وہ باطنی دستور العمل مراد لیتا ہے، جس سے سالک کو فوق الادراک حقائق کا عرفان یا مشاہدہ ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال ایسے صوفیوں کے گروہ کے سخت خلاف ہیں، چنانچہ وہ تفصیل سے مختلف علماء اور قرآنی آیات کے حوالے سے علم ظاہر اور علم باطن کے موضوع پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس مضمون سے بھی رہبانیت کے مسئلے کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے۔ یہ مضمون ظاہر کرتا ہے کہ علامہ اقبال جہاں معترضین کے اعتراضات کا مدبرانہ انداز میں جواب دینا جانتے ہیں، وہاں انہیں دلائل و براہین سے قائل کرنا بھی جانتے ہیں۔ یہ خصوصیت ان کی علمیت کی دلیل ہے۔
’’ تصوف وجودیہ‘‘ میں نبی کریم ؐ کی اس پیشین گوئی پر بحث کی گئی ہے کہ تین قرنوں کے بعد میری امت میں سمن کا ظہور ہو گا۔ اس مضمون میں اقبال نے ’’ سمن‘‘ کے الفاظ کی وضاحت جس تحقیقی انداز میں کی ہے وہ اپنی جگہ بے حد اہم ہے۔
اس مضمون میں اگرچہ ایک نہایت سنجیدہ اور علمی مسئلے کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور عبارت باوجود یہ کہ رواں و سلیس نہیں ہے، مگر گراں بار نہیں ہے، اکتاہٹ کا احساس کہیں نہیں ہوتا بلکہ اس کا انداز اس قدر دلچسپ ہے کہ جوں جوں آگے بڑھتے جاتے ہیں، تجسس بڑھتا جاتا ہے۔ اپنی بات کی وضاحت میں مثالیں پیش کرتے ہیں، جس سے لطف اور دلچسپی دوبالا ہو جاتی ہے اور قاری مصنف کے اسلوب بیان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
متفرق ۔۔۔۔۔ اہمیت اور تبصرہ:
اس حصے میں صرف ایک نثری مضمون ’’ اسلام اور علوم جدیدہ‘‘ شامل ہے یہ نثری تحریر اگرچہ مختصر ہے ، مگر اس مختصر سی تحریر سے اسلام اور علوم جدیدہ کے مابین تعلق کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ اقبال کا کہنا ہے:’’ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اسلام مغربی تہذیب کے تمام عمدہ اصولوں کا سرچشمہ ہے۔‘‘ 60؎
علامہ اقبال یورپین مفکرین کے اس قول پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اسلام اور علوم جدیدہ یکجا نہیں ہو سکتے۔ حالانکہ یورپ میں علم کا چرچا مسلمانوں ہی کی یونیورسٹیوں سے ہوا تھا۔ بڑے بڑے یورپی فلاسفر مثلاً: بیکن، ڈی کارٹ، اورمل وغیرہ کے فلسفہ کی بنیاد تجربہ اور مشاہدہ پر ہے۔ حتیٰ کہ ڈی کارٹ کا اصول (Method) غزالیؒ کی احیاء العلوم میں موجود ہے۔ علاوہ ازیں راجر بیکن خود ایک اسلامی یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ تھا۔ جان اسٹوارٹ مل نے منطق کی شکل پر جو اعتراض کیا ہے، بعینہ وہی اعتراض امام فخر الدین رازیؒ نے بھی کیا تھا اور مل کے فلسفہ کے تمام بنیادی اصول شیخ بو علی سینا کی مشہور کتاب ’’ شفائ‘‘ میں موجود ہیں۔ غرض زندگی کے ہر اچھے پہلو پر اسلام نے گہرا اثر ڈالا ہے اور علم جدیدہ کی بنیاد جن اصولوں پر ہے، وہ مسلمانوں کے فیض کا نتیجہ ہیں۔
مختصر یہ کہ علامہ اقبال کے اردو مضامین اپنے اندر مقصدیت کے ساتھ ساتھ دیگر فنی محاسن بھی رکھتے تھے۔ ان مضامین میں یکسانیت، پھیکا پن اور خشکی کا غلبہ نہیں ہے، بلکہ رومانی تحریک کے زیر اثر مقصدیت کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی چاشنی اور تخیل کی کار فرمائی بھی نظر آتی ہے، جس سے مضامین میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ روانی اور سلاست بھی پیدا ہو گئی ہے۔
علامہ اقبال کے لئے مضمون نویسی اگرچہ ثانوی حیثیت رکھتی تھی، اس کے باوجود انہوں نے متنوع موضوعات پر سیر حاصل مضامین یادگار چھوڑے ہیں۔ ان مضامین سے علامہ اقبال کے بعض مبہم اور مشکل تصورات معین اور واضح ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض مجمل نکات مفصل توجیہات کے آئینہ میں اجاگر ہوتے ہیں۔ علامہ اقبال کے اردو مضامین اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ بہ قول ڈاکٹر غلام دستگیر رشید آخر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں:
’’ مضامین اقبال اردو ادب کے عظیم الشان انقلابی مظاہر ہیں۔ یہ ترقی پسند ادب کا معیار ہیں۔ دلیل راہ ہیں۔ ایک صحیح اور پختہ ادبی نصب العین کا سنگ بنیاد ہیں۔ ان مضامین کی اشاعت اردو نثر میں انقلاب پرور اور ترقی پسند حکیمانہ ادب کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ یہ مضامین ہمیں احتساب کائنات کے حکیمانہ طریقے سمجھاتے ہیں، انسانی مسائل پر فکر و تدبر کے سلیقہ سے آشنا کرتے ہیں۔‘‘ 61؎
٭٭٭
حواشی
1تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص336
2ایضاً، ص336
3پیش لفظ مضامین اقبال طبع دوم
4 پیش لفظ، مقالات اقبال، طبع دوم ص:ع
5کتاب مذکورہ، ص:ف
6 ’’ مقالات اقبال ‘‘ پیش لفظ ص:’’ ط‘‘
7’’ مقالات اقبال‘‘ ص:ف
8 تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:341
9 اقبال کی اردو نثر، ص:88
10’’ پیش لفظ‘‘ ص:ف
11 ’’ پیش لفظ‘‘ ص:ع
12تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، ص:342
13مقالات اقبال، طبع دوم، ص:318
14 مقالات اقبال، طبع دوم،ص:351
15 مقالات اقبال (طبع اول) ص:ف
16’’ انوار اقبال‘‘ ص:278
17 اقبال کے نثری افکار،ص:10
18 کتاب مذکور، ص:8
19 تصانیف اقبال کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ، صفحات:353, 352, 351
20اقبال کے نثری افکار، ص:15
21مخزن، ستمبر1902ئ، ص1
22’’ مخزن‘‘ اکتوبر1902ء ص:25
23مقدمہ ( بہ عنوان: جسارت) مقالات اقبال، طبع دوم، ص:11
24 ’’ پیش لفظ‘‘ مقالات اقبال، طبع دوم، ص23
25’’ بانگ درا‘‘ کی نظم ’’ سید کی لوح تربت‘‘ جنوری 1903ء ص:52 اور نظم بعنوان: ’’شاعر‘‘ دسمبر1903ء ص61عمرانی مسائل کے سلسلے میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
26مقدمہ (بہ عنوان: صبح مراد) مضامین اقبال، ص5
27 مقالات اقبال، طبع اول، ص:2, 3
28 اقبال اور مسئلہ تعلیم، از: محمد احمد خاں، ص:7
29 اقبال کا اسلوب نگارش، ص:17
30مقالات اقبال، طبع اول، ص:9
31 اقبال کی اردو نثر، از: ڈاکٹر عبادت بریلوی، ص:185
32مقالات اقبال، طبع دوم، ص74
33 ایضاً، ص87
34 عروج اقبال، از: ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، ص:183
35ایضاً، ص:184
36 مقالات اقبال، طبع دوم، ص:98, 99
37 اقبال کا اسلوب نگارش، از: ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، ص:22
38 مقالات اقبال، طبع دوم، ص75
39 ایضاً، ص:95
40انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار27, 28
41 عروج اقبال، از:ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی، ص349
42مقالات اقبال، طبع دوم، ص:325
43مضامین اقبال، مرتبہ: تصدق حسین تاج، ص:243
44 مقالات اقبال، طبع دوم، ص:283
45ایضاً، ص:283-4
46 انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار، ص46, 45
47 اقبال کی عظیم نثر، مشہولہ: حیات اقبال کا ایک جذباتی دور اور دوسرے مضامین، ازـ: پروفیسر محمد عثمان ص:170
48 مضامین اقبال، ص:183
49 اقبال کی اردو نثر، از: ڈاکٹر عبادت بریلوی، ص:193
50اقبال کی نثر کا مزاج، از: ڈاکٹر سلیم اختر، مشہولہ: سہ ماہی’’ اقبال‘‘ ص:97
51مضامین اقبال، ص:9
52اقبال کی نثر کا مزاج، از: ڈاکٹر سلیم اختر، مشہولہ: سہ ماہی’’ اقبال‘‘ ص:ـ97
53اقبال نامہ، مرتبہ : شیخ عطاء اللہ (حصہ دوم) ص:85
54ایضاً (حصہ اول) ص:56
55مقالات اقبال، طبع دوم، ص:79
56 اقبال کی عظیم نثر، مشہولہ: مجلہ سہ ماہی ’’ اقبال‘‘ ص:ـ97
57انوار اقبال، مرتبہ: بشیر احمد ڈار، صـ:279
58 مقالات اقبال، طبع دوم، ص:206
59ایضاً، ص206
60مقالات اقبال، طبع دوم، ص:206
61مضامین اقبال، مرتبہ: تصدق حسین تاج، ص: ب
٭٭٭