فلم ”خاموشی “ اور تحقیق مزید
اپنے مضمون ”اردو ماہیے کے بانی ۔ہمّت رائے شرما“ میں 1984ءاور 1991ءکے دو ادبی شواہد کی بنیاد پر فلم ” خاموشی“ کے ماہیے لکھنے کا سال 1936ءظاہر کرنے کے ساتھ میں نے لکھا تھا:
”جب تک کوئی نیا تحقیقی ثبوت نہیں ملتا تب تک فلم” خاموشی“ کے لئے شرما جی کے اردو ماہیے لکھنے کا سال 1936ءثابت ہے“۔
اس بیان کی رو سے کسی نئے تحقیقی ثبوت کی گنجائش موجود تھی جس سے اس تحقیق کی تصدیق بھی ہو سکتی تھی اور تردید بھی ہو سکتی تھی۔ اب ایک ایسا ٹھوس ثبوت سامنے آگیا ہے جس کے بعد ہم اعتماد کے ساتھ ہی نہیں تحدّی کے ساتھ یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہمّت رائے شرما جی نے 1936ءمیں فلم” خاموشی“ کے لئے اولین ماہیے پیش کئے تھے۔
نیا دستیاب ہونے ولا فیصلہ کن ثبوت پیش کرنے سے پہلے یہ وضاحت کردوں کہ میںنے فلم” خاموشی“ بننے کا سال معلوم کرنے کے لئے ممتاز موسیقار نوشاد سے استفسار کیا تو انہوں نے نے مجھے لکھا:
”جہاں تک فلم خاموشی کا تعلق ہے اس کے موسیقار چشتی صاحب ہی ہیں۔ وہ بفضل خدا حیات ہیں۔ آپ ان سے معلوم کر سکتے ہیں۔ موسیقار خیّام ان کے اسسٹنٹ تھے، وہ بھی اس معاملے میں زیادہ بہتر اور باوثوق اطلاع فراہم کرسکتے ہیں“۔
(اس خط پر نوشاد صاحب نے تاریخ درج نہیں کی لیکن لفافے پر باندرہ پوسٹ آفس کی مہر پر 7اپریل 1998ءکی تاریخ آسانی سے پڑھی جا سکتی ہے) ۔ نوشاد صاحب کے مشورہ کے مطابق میںنے خیام صاحب کو دو تین خطوط لکھے۔ جب میںنے ہمّت رائے شرما کو آگاہ کیا کہ تب چشتی صاحب کے اسسٹنٹ خیّام صاحب سے بھی فلم ”خاموشی“ کے سال کے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں لگا ہوا ہوں، تو اس پر شرما جی نے اپنے ایک خط میںلکھا:
”آپ نے مجھے لکھا ہے کہ آپ نے خیّام سے فلم”خاموشی“ کے بارے میںمعلومات مانگی ہیں۔ یہ پڑھ کر حیرت ہوئی بھلا خیّام کا”خاموشی“ سے کیا تعلق؟ ان کے قریبی رشتے دار غلام احمد چشتی صاحب البتہ فلم ”خاموشی“ کے موسیقار تھے۔ ہم لوگ ایک ساتھ ایک جگہ رہتے تھے۔ چشتی صاحب کے اسسٹنٹ کا نام تھا کالے خاں“
(مکتوب ہمّت رائے شرما بنام حیدر قریشی ، مورخہ20-10-98)
ہمّت رائے شرما جی کی بات درست تھی شاید اسی وجہ سے خیّام صاحب نے میرے بار بار لکھے گئے خطوط کے جواب ہی نہیں دیئے۔ ظاہر ہے جس بات کا انہیںعلم ہی نہیں تھا وہ مجھے کیسے بتاتے۔ تاہم میں نے فلمی دنیا سے مزید شواہد تلاش کرنے کی جدوجہد جاری رکھی۔ اس تلاش میںاس لئے بھی مشکلات پیش آرہی تھیںکہ فلم”خاموشی“ کلکتہ میںبنی تھی۔ تب فلموںکا گڑھ کلکتہ ہوا کر تا تھا۔ بمبئی میں فلمسازی کے ابتدائی تجربے ضرور ہونے لگے تھے۔ برادرم ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے بھی اپنے طور پر کوشش کی، تاہم ہمّت رائے شرما جی کی ہمّت سے ہی آخر کار ہمیں فیصلہ کن ثبوت مل گیا ہے۔ وہ ثبوت مجھے بھیجتے ہوئے 21دسمبر1998ءکے اپنے تحریر کردہ خط میں ہمّت رائے شرما جی لکھتے ہیں:
”آج سے ساٹھ باسٹھ سال پرانی فلم”خاموشی“ کی Bookletجو پرانے گودام کے ایک اسٹور سے پھٹی پرانی حالت میں مل گئی ہے یہ اسی رنگدار سرِ ورق کی فوٹوکاپی ہے۔ اس میں وہ سب کچھ درج ہے جس کی تلاش تھی ۔ یہ فوٹوکاپی بے حد اہم اور نایاب ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لئے بہت محنت کرنا پڑی۔ کافی رقم خرچ ہوئی کیونکہ اسے حاصل کرنے کے لئے خاص آدمی کو کلکتے بھیجنا پڑا“۔
سرِ ورق پر ہیروئن رمولا کی تصویر ہے۔ دائیں طرف اوپر انگریزی میں، درمیان میں ہندی میں اور نیچے اردو میںفلم کا نام ”خاموشی“ لکھا ہوا ہے اور آخر میںصرف انگریزی میں ڈائریکٹر آر۔سی۔تلوار کا نام لکھاہے۔ سرِورق کے اندر کی طرف فلم پروڈیوسر ، ڈائریکٹر ،کاسٹ اور اہم ٹیکنیشینز وغیرہ کے نام درج ہیں۔ یہ سارے نام انگریزی میںلکھے ہیں۔ پروڈیوسر ایل ۔ آر ۔ پرشر ہیں(ایل آر=لاہوری)”پروڈیوسر انڈردی بینر آف تلوار پروڈکشنز (انڈر نیو مینجمنٹ)مئی 1936ء“ درج ہے۔ انگریزی کے اصل الفاظ ہی یہاں پر درج کر دیتا ہوں:
Producer under the banner of….TALWAR PRODUCTIONS(Under new managment) may,1936
فلم ”خاموشی“ کی بک لیٹ پرمئی 1936ءکا اندراج یہ ثابت کر دیتا ہے کہ ہمّت رائے شرماجی نے 1936ءمیں پہلی بار اس فلم کے لئے اردو ماہیے لکھے ۔ ”مئی1936ئ“ سے ہمّت رائے شرما جی کے اس بیان کی تصدیق ہو تی ہے:
”میںنے پہلی بار اردو ماہیے پر فلم ”خاموشی“ میں گانا لکھا۔ اس وقت میری عمر سولہ سترہ برس کی ہوگی“
شرما جی 23نومبر 1919ءکو پیدا ہوئے تھے ، 23نومبر 1935ءکو وہ سولہ برس کے ہوگئے تھے اور 23نومبر 1936ءتک وہ ماہیے لکھ چکے تھے۔ تب ان کی عمر ساڑھے سولہ سال بنتی ہے جو سولہ اور سترہ کا درمیان ہے۔ خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی۔
مئی 1936ءمیں بک لیٹ چھپی ہے تو اس کے گیت اس سے بھی پہلے لکھے گئے ہوںگے۔ اس سے ان تمام معترضین کے منہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جاتے ہیں جو ہمّت رائے شرما جی کو اردو ماہیے کا بانی تسلیم کرنے کی بجائے حیلے بہانے سے ان کی خدمات کو دھندلا نے کی کوشش کر رہے تھے۔
ہمّت رائے شرما جی نے بغیر تاریخ درج کئے مجھے ایک خط لکھا تھا۔ یہ خط مجھے سات اپریل1998ءکو موصول ہوا تھا۔ چنانچہ میں نے اس خط کے اوپر یہ الفاظ لکھ کر اپنے دستخط کر دیئے تھے۔”یہ خط سات اپریل ۱۹۹۸ءکو موصول ہوا“میں اپنے مضمون”اردو ماہیے کے بانی۔ ہمّت رائے شرما “میں بھی اس خط کا ایک اہم حصہ شامل کرنا چاہتا تھا چونکہ شرما جی کی یادداشت پر مکمل بھروسہ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اس لیے میں تذبذب کی حالت میں رہا اور اپنے پہلے مضمون میں شرما جی کا ایک خاص بیان شامل نہیںکیا، لیکن اب مئی1936ءکا ثبوت مل جانے کے بعد پورے اعتماد کے ساتھ ان کا بیان شائع کر رہا ہوں۔ شرما جی میرے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں:
”ایک اور عجیب بات سنئے۔ ”خاموشی“ کی Bookletجب میںگھر لایا تواس وقت کا ردار صاحب ہمارے ڈرائنگ روم میں آرام فرما رہے تھے۔ دیو کی بوس کے اسسٹنٹ نند کشور مہرہ اور میرے بھائی صاحب(کیدار ناتھ شرما جی ۔ ناقل) بھی وہیں موجود تھے ۔ میاں کاردار نے میرے ہاتھ سے خاموشی کی Bookletلے لی اور پڑھنے لگے۔ پڑھتے پڑھتے مجھ سے کہا اوئے کا کا ایہہ تے ماہیئے جاپدے نے۔ اے ماہیئے لکھے ای۔ میں نے جواب دیا جی ہاں۔ وہ اس سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے کئی بار یہ ماہیئے پڑھے۔ غالباً ان سے متاثر ہو کر انہوںنے چراغ حسن صاحب سے ماہیے ثلاثی”باغبان“ فلم کے لئے لکھوائے ہوں گے“
اسی خط میں ہمّت رائے شرما جی نے یہ حقیقت بھی واضح کی ہے:
”استاد برکت علی خاں نے ”باغباں“ میں جو گیت گایا تھا وہ پنجابی ماہیا سے بالکل میل نہیں کھاتا تھا بلکہ بالکل کلاسیکی گانا تھا جسے ’جھنجھوٹی“ کہا جاتا ہے۔ یہ گانا بہت مشکل ہوتا ہے“۔
فلم”خاموشی “ کی Bookletمیں درج کوائف کے مطابق اسکرین پلے اور ڈائیلاگ امتیاز علی تاج۔ گیت کار ہمّت رائے۔ موسیقار جی۔ اے ۔چشتی، آرٹ ڈائرکٹر ہمّت رائے۔ اور اداکاروں کی لسٹ میں یہ نام شامل ہیںرمولا (ہیروئن) گیانی، رام دلاری، شیام (ہیرو)سندر سنگھ ، گاما، لیلیٰ مشرا، امرناتھ پاسان، منورما، آنند کشور، ہمّت رائے وغیرہ وغیرہ تھے۔
خاموشی کی Bookletمیںدرج گیتوں کے مکھڑے یہاں درج کردینا مناسب لگتا ہے۔ گیت نمبر1:دوگانا ہے اور ایک شہزادے اور شہزادی کی کہانی کو گا کربیان کیا ہے۔
ایک شہزادی کہ تھی بے حد حسیں
خوبرو، نازک بدن، خندہ جبیں
گیت نمبر2:
نین ہمارے باورے من کی ایک نہ مانیں
پریت کئے کیا ہوت ہے یہ پگلے کیا جانیں
اسی مکھڑے سے شروع ہونے ولا ایک گیت شرما جی کے مجموعہ کلام”شہاب ثاقب“ کے صفحہ نمبر103پر درج ہے لیکن مکھڑے کے بعد مجموعہ میں شامل گیت فلمی گیت سے بالکل مختلف ہے۔ غالباً اپنے فلمی گیت کے مکھڑے سے شرما جی نے نیا گیت تخلیق کیا ہے۔
گیت نمبر 3:
جھولا ڈالیں ڈار پر توڑیں جاکر آم
چلو چمیلی باغ میں کہے دیا لو رام
چل چل چل چل ۔ چل چل چمیلی باغ میں جھولا جھلائیںگے
فلم ”خاموشی“ میںہیرو ڈاکٹر پرکاش کے ایک دوست کا نام دیا لوہے۔ میرا اندازہ ہے کہ فلمی سچویشن کے مطابق یہ گیت ہیرو کے دوست دیا لورام پرپکچرائز کیا گیا ہوگا۔ چل چل چمیلی باغ میںجھولا جھلائیں گے۔ یہاں سے شروع ہونے والا گیت تو پتہ نہیں کب اور کیسے ہمارے بچپن میں شامل ہوگیا تھا۔ میںنے یہی گمان کیا کہ شاید یہ گیت میں نے اپنی امی اور خالہ سے سنا ہو۔ جب میں نے ہمّت رائے شرما جی کو اس سلسلے میں لکھا کہ یہ گیت تو ہم بچپن میں گایا کرتے تھے، مجھے کیا پتہ تھاکہ یہ آپ کی تخلیق ہوگی۔ تب شرما جی نے بڑی صاف گوئی سے مجھے لکھا:
”فلم ”خاموشی “ کا گانا چل چل چمیلی باغ میں میوہ کھلائیں گے، دراصل یہ بہت ہی پرانا لوک گیت ہے جسے ساٹھ ستر سال پہلے ہم لوگ بھی بچپن میں گایا کرتے تھے۔ اس کا پہلا مصرع وہی ہے جو پہلے سے تھا۔ البتہ اس کے بعد کے سب بول میرے لکھے ہوئے ہیں“
گیت نمبر 4:
گھبراتا ہے دل، لہراتا ہے دل، جب یاد کسی کی آتی ہے
روتی ہے گھٹا، جب پی کی صدا، ٹوٹی ہوئی لَے بن جاتی ہے
بقول ہمّت رائے شرما یہ گیت در اصل پنجابی”گِدا“ کی اردو شکل ہے۔ ”شہاب ثاقب ‘ ‘ کے صفحہ نمبر 101پر یہ پورا گیت شامل ہے۔
گیت نمبر5 :
نین تورے متوالے سجنیاں۔ نین تورے متوالے ۔ ہیں مدھ کے پیالے
یہ گیت دو گانا ہے۔ لڑکا اور لڑکی مل کر گاتے ہیں۔
گیت نمبر 6:چاندنی ہے موسمِ برسات ہے۔ آﺅڈیئر کیا سہانی رات ہے
یہ بھی دو گانا ہے۔
گیت نمبر7:
سرمست فضائیں ہیں
پیتم پریم بھری
پھاگن کی ہوائیں ہیں
یہ گیت ان تاریخی ماہیوں پر مبنی ہے جو اردو ماہیے کی بنیاد بن چکے ہیں۔Bookletمیں 6ماہیے گیت نمبر 7کے طور پر درج ہیں غالباً Bookletچھپنے تک صرف 6ماہیے ہی لکھے گئے تھے جبکہ ”شہاب ثاقب “ میں 10ماہیے شامل ہیں گویا باقی ماہیے Bookletکے دوران ہی لکھ لئے گئے تھے اور انہیں فلم میںشامل کر لیا گیا تھا۔ اس سلسلے میںیہ وضاحت ضروری ہے کہ ”شہاب ثاقب“ میںشامل پہلے پانچ ماہیے خاموشی کی Bookletمیں شامل نہیںہیں۔ وہ ماہیے یہاں دہرا دینا ضروری ہیں۔
۱۔
ایک بار تو مل ساجن
آکر دیکھ ذرا
ٹوٹا ہوا دل ساجن
۲۔
سہمی ہوئی آہوں نے
سب کچھ کہہ ڈالا
خاموش نگاہوں نے
۳۔
کچھ کھو کر پائیں ہم
دور کہیںجاکر
اک دنیابسائیں ہم
۴۔
یہ طرزِ بیاں سمجھو
کیف میں ڈوبی ہوئی
آنکھوں کی زباں سمجھو
۵۔
تارے گنواتے ہو
بن کر چاند کبھی
جب سامنے آتے ہوئے
ہمّت رائے شرما جی نے میرے نام اپنے خط محررّہ 18فروری1998ءمیں صراحت کے ساتھ لکھا تھا:
” یہ سبھی ماہیے فلم”خاموشی“ کے لئے ہی لکھے گئے تھے اور یہ سب کے سب میری کتاب”شہاب ثاقب“ کے صفحہ نمبر 85اور 86پر دج ہیں“۔
ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی نے اپنے تحقیقی سرمایہ ”اردو ماہیا کی روایت سے متعلق ہمّت رائے شرما کی وضاحت “ مطبوعہ سہ ماہی”کوہسار“ اگست 1997ءمیں لکھا ہے :” ایک تقریب میں درج ذیل بول میری سماعت سے ٹکرائے تو تجسس پیدا ہوا:
اک بار تو مل ساجن
آکر دیکھ ذرا
ٹوٹا ہوا دل ساجن“
کسی تقریب میں گائے گئے جو بول سن کر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے ہمّت رائے شرما جی کو دریافت کیا تھا وہ بظاہر”خاموشی“ کی Bookletیں شامل نہیںہیں لیکن مناظر صاحب نے اسی لے کو سن کر اپنی تحقیق کا آغاز کیا۔ گویا شرما جی کی یہ بات درست ہے کہ یہ سارے ماہیے گائے گئے تھے ۔ Bookletمیںشامل 6ماہیے درج ذیل ہیں:
۱۔
سرمست فضائیں ہیں
پیتم پریم بھری
پھاگن کی ہوائیں ہیں
۲۔
اشکوں میںروانی ہے
آنسو پی پی کر
مدہوش جوانی ہے
۳۔
کچھ کھو کر پاتے ہیں
یاد میں ساجن کی
یوں دل بہلاتے ہیں
۴۔
بھیگی ہوئی راتوں میں
ہم تم کھو جائیں
پھر پریم کی باتوں میں
۵۔
کیا اشک ہمارے ہیں
آنسو مت سمجھو
ٹوٹے ہوئے تارے ہیں
۶۔
دو نین چھلکتے ہیں
ساجن آجاﺅ
ارمان مچلتے ہیں
ان ماہیوں کے سلسلے میں تین ضروری وضاحتیں کردوں:
۱۔ Bookletکے ماہیا نمبر 3کا تیسرا مصرع”یوں دِل بہلاتے ہیں“۔” شہاب ثاقب“ میں”یوں جی بہلاتے ہیں“درج ہے۔
۲۔”شہاب ثاقب“ میں دس ماہیے شامل ہیں۔ پہلے پانچ وہی ہیں جو Bookletمیں شامل نہیں، لیکن گائے گئے تھے۔ بقیہ پانچ ماہیوں میں Bookletکے ماہیا نمبر4کو چھوڑ کر باقی سارے Bookletوالے ماہیے ہیں اور اسی ترتیب کے ساتھ ہیں۔
۳۔ فلم ”خاموشی“ کے لئے گائے گئے ہمّت رائے شرما جی کے اولین ماہیوں کی تعداد ابھی تک دس سمجھی جا رہی تھی لیکن Bookletکے ماہیا نمبر4سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ماہیا سہواً ”شہاب ثاقب“ میں شامل ہونے سے رہ گیا ہے۔ سو اب یہ گمشدہ ماہیا بھی دریافت ہو گیا ہے:
بھیگی ہوئی راتوںمیں
ہم تم کھو جائیں
پھر پریم کی باتوںمیں
اور اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمّت رائے شرما جی نے فلم”خاموشی“ کے لئے جو ماہیے لکھے تھے ان کی تعداد دس نہیں بلکہ گیارہ تھی۔ یہی ماہیے اردو ماہیے کا اولین نقش اور اردو ماہیے کی بنیاد ہیں۔
گیت نمبر 8:
جب سے نین پیا سنگ لاگے۔جاگے ہمرے بھاگ
یہ گیت ”شہاب ثاقب“ کے صفحہ 102پر دج ہے۔
گیت نمبر 9:
من کو کیسے بہلائیں ہم۔ یہ بپتا کسے سنائیں ہم
گیت نمبر10:
سرمست فضائیں ہیں
پیتم پریم بھری
ساون کی ہوائیں ہیں
گیت نمبر 10کے طور پر صرف دو ماہیے دیئے گئے ہیں۔ دوسرا ماہیا گیارہواں گمشدہ ماہیا ہے جو اب Bookletکے ذریعہ دریافت ہواہے۔ ممکن ہے یہاں صرف دو ماہیے درج کرنے کا مطلب یہ ہو کہ آخری مرحلے تک اس گیت کے لکھے جانے اور اس کے شامل کئے جانے کا انتظار ہو۔
”فلم خاموشی“ کی Bookletسامنے آنے کے بعد اردو ماہیے کے بانی ہمّت رائے شرما جی کی ماہیا نگاری کا سال1936ءثابت ہونے کی مزید تصدیق ہوگئی ہے اور ماہیے لکھے جانے کا مہینہ بھی کم از کم مئی (1936)تو ظاہرہی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ تحقیقی مواد آنے والے وقت میں ماہیے پر سنجیدگی سے کام کرنے والوں کے لئے مفیدثابت ہوگا۔
مطبوعہ اوراق لاہور