حالیہ چند برسوں میں ماہیے کے وزن اور مزاج کی بحث نے نہ صرف پنجابی ماہیے کے خدوخال کو واضح کیا ہے بلکہ اردو ماہیے کو درست سمت میں لا کے اس کے دامن کو بھی وسیع کیا ہے۔ بمشکل پانچ سال کے عرصہ میں اس موضوع نے شعراءکرام کو اپنی طرف متوجہ کیا اور ماہیا نگاروں کی ایک بڑی تعداد کو درست وزن اور مزاج کی ماہیا نگاری کی طرف مائل کر دیا۔ ماہیے کے وزن کے سلسلے میں ابتداءمیں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ماہیا تین ہم وزن مصرعوں پر ہی مشتمل ہوتا ہے (۱) جب اردو دنیا کو بتایا گیا کہ ماہیے کا دوسرا مصرعہ، اس کے پہلے اور تیسرے مصرعہ سے ”ایک سبب“ کم ہوتا ہے (۲) تب ماہیے کی بحث کھل کر ہونے لگی چنانچہ بعض ادیبوں نے یہ موقف بیان کیا کہ ماہیے کے دونوں وزن درست ہیں۔ (۳) یعنی تینوں مصرعے ہم وزن بھی ہوسکتے ہیں اور دوسرے مصرعے میں ”ایک سبب“ کم بھی ہوسکتا ہے۔ بعض دوستوں نے پنجابی ماہیے کو اردو عروض پر جانچنے کے بعد یہ خیال ظاہر کیا کہ ماہیے کا دوسرا مصرعہ پہلے اور تیسرے مصرعہ سے ”ایک سبب“ کم بھی ہوسکتا ہے، ہم وزن بھی ہو سکتا ہے اور ”ایک سبب“ زائد بھی ہوسکتا ہے۔ (۴) ماہیے کے وزن کی بحث میں شریک بیشتر ادباءنیک نیتی سے درست نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے تاہم بعض احباب محض اس لئے مغالطے کا شکار ہوئے کہ پنجابی زبان میں اردو جیسے قواعد و ضوابط کی عدم موجودگی کے باوجود پنجابی ماہیے کو اردو کے لسانی پیمانے سے جانچنے کی کوشش کرتے رہے۔ پنجابی زبان میں لسانی قواعد و ضوابط کی عدم موجودگی کے باعث متعدد حروف کو شعری ضرورت کے مطابق گرا بھی لیا جاتا ہے اور زیادہ کھینچ کر لمبا بھی کرلیا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بعض دوستوں کو تینوں ہم وزن مصرعوں والے ماہیے بھی دکھائی دیئے۔ دوسرے مصرعہ میں ”ایک سبب“ کم والے بھی محسوس ہوئے اور دوسرے مصرعہ میں ایک سبب زائد والے بھی نظر آئے۔ میں نے اور بعض دیگر احباب نے اس سلسلے میں وضاحت کی تھی کہ پنجابی ماہیے کی ایک مخصوص دھن ہے اور اسی دھن سے اس کے اصل وزن کو دریافت کیا جاسکتا ہے۔ (۵) مسرت نذیر کے گائے ہوئے غیر فلمی ماہیوں اور فلم ”پھاگن“ میں گائے ہوئے محمد رفیع اور آشا بھوسلے کے ماہیوں کا متعدد بار حوالہ دیا جا چکا ہے یہاں دونوں کا ایک ایک ماہیا پھر درج کر رہا ہوں۔
چٹا ککڑ بنیرے تے تم روٹھ کے مت جانا
کاسنی دپٹے والیئے مجھ سے کیا شکوہ
منڈا صدقے تیرے تے دیوانہ ہے دیوانہ
(مسرت نذیر) (رفیع+آشا)
ان دونوں دھنوں کی بنیاد پر ماہیے کے یہ دو وزن دریافت ہوتے ہیں۔
۱۔ مفعول مفاعیلن ۲۔ فعلن فعلن فعلن
فعل مفاعیلن فعلن فعلن فع
مفعول مفاعیلن فعلن فعلن فعلن
بنظر غائر دیکھا جائے تو پہلا وزن دراصل دوسرے وزن کی تھوڑی سی بدلی ہوئی صورت ہے۔ یعنی۔
مفعولمفاعیلن
فعلم فاعی لن
مفعولمفاعیلن
سو ہم یہاں فعلن والے وزن کے حوالے سے ہی بات آگے بڑھائیں گے۔ ماہیے کے وزن کے سلسلے میں اب تک جو تین مختلف وزن بیان کئے گئے ہیں وہ تقطیع کر کے کچھ یوں ظاہر ہوتے ہیں۔
دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کم والا وزن-:
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
تینوں مصرعے ہم وزن ہونے والا وزن-:
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن
دوسرے مصرعے میں ایک سبب زائد والا وزن -:
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
اگر پنجابی ماہیوں کو اردو کے ضابطوں کے مطابق پرکھیں تو یقیناً دوسرے مصرعہ میں یہ تینوں صورتیں دکھائی دیتی ہیں بلکہ پہلے اور تیسرے مصرعوں کا وزن بھی خلط ملط ہوتا دکھائی دے گا۔ ایسا صرف اس لئے ہے کہ پنجابی زبان اردو جیسے لسانی ضابطے نہیں رکھتی اور حروف کو حسب ضرورت چھوٹا یا لمبا کر لیا جاتا ہے لیکن ماہیا بنیادی طور پر لوک گیت ہے۔ اس کی مخصوص دھن ہے اور اس کی دھن میں اس کا اصل وزن محفوظ ہے چنانچہ دھن سے ماہیے کے وزن کو دریافت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اوپر درج کئے گئے مسرت نذیر اور رفیع و آشا کے ماہیوں کی دھنوں پر ماہیے کے بیان کئے گئے تینوں اوزان کو گنگنانے کی کوشش کریں تو حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ صرف دوسرے مصرعہ میں ایک سبب کم والا وزن آسانی اور روانی سے گنگنایا جا سکتا ہے…. اس وزن کو گنگنایئے۔
فعلن فعلن فعلن
فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعلن
دھن یہ ہونی چاہئے۔
تم روٹھ کے مت جانا چٹا ککڑ بنیرے تے
مجھ سے کیا شکوہ یا کاسنی دپٹے والیے
دیوانہ ہے دیوانہ منڈا صدقے تیرے تے
اس دھن پر دوسرے مصرعہ میں صرف اڑھائی بار فعلن گنگنایا جا سکتا ہے۔ تین باریا ساڑھے تین بار فعلن ماہیے کی دھن میں آ ہی نہیں رہا۔ ماہیے کے وزن میں دوسرے مصرعہ کی نزاکت کو سمجھنے اور پرکھنے کی یہ بنیادی کلید ہے، اس سے ہی سارا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ یہاں ایک ضروری وضاحت بھی کر دوں۔ اردو میں ماہیا کہتے وقت بعض ایسے ماہیوں سے مغالطہ ہو سکتا ہے جن میں زحافات کی رعایت سے فائدہ اٹھایا گیا ہو…. مثلاً سعید شباب کا ایک ماہیا ہے۔
کب اس نے پکارا تھا
دل کی تھی خوش فہمی
اور وہم ہمارا تھا
اس میں دوسرا مصرعہ اردو قواعد کی رعایت کے مطابق درست وزن میں ہے۔ ”دل ک تھ خش فہمی“ ایسا جائز ہے لیکن فی الوقت خلط مبحث سے بچنے کے لئے میں نے سعید شباب کو مشورہ دیا تھا کہ وہ دوسرے مصرعہ میں سے لفظ ”تھی“ کو حذف کر کے اسے ”دل کی خوش فہمی“ کر لیں تاکہ ماہیے کے خدوخال کو واضح کرنے میں کسی بھی طرف سے ہونے والی امکانی کج بحثی سے بچا جا سکے۔ سو اصولاً ایسے ماہیے دونوں صورتوں میں درست ہیں اور ان سے ماہیے کے دوسرے مصرعہ کا ہم وزن ہونا ہر گز ثابت نہیں ہوتا۔
جن ادیبوں نے سنجیدگی سے ماہیے کی بحث میں مضامین یا خطوط کے ذریعے اپنا موقف پیش کیا ہے وہ تمام ادباءقابل احترام اور تحسین کے لائق ہیں کہ انہوں نے نیک نیتی سے اس مسئلے کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے تاہم بعض کرم فرماﺅں نے ”خطوط بازی“ کی سطح پر رہ کر اس بحث کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ حال ہی میں یہ کہا گیا ہے کہ ماہیے کی تو کئی اقسام ہیں۔ کہنے والے نے کوئی نئی بات نہیں کہی لیکن بات اس ڈھنگ سے کہی گئی ہے کہ اردو ماہیے کی قابل قدر پیشرفت کو گرد آلود کیا جاسکے حالانکہ میں دسمبر 1992ءکے ”صریر“ میں اس حوالے سے بھی یہ بات لکھ چکا ہوں۔
”ماہیا کی وہ صنف زیادہ مقبول اور معروف ہوئی جو تین مصرعوں پر مشتمل ہے۔ دوسری ہئیت کے ماہیے سننے والوں نے عام لوک گیتوں میں شمار کئے۔“
اردو میں تاحال پنجابی کا وہی ماہیا رائج اور زیر بحث ہے جو تین مصرعوں پر مشتمل ہے۔ کسی دوسری قسم کے ماہیوں کا ذکر کرنے والوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اصل بحث سے فرار کے لئے غلط بحث کرنے کی بجائے یا تو اپنے بیان کردہ ماہیوں کو اردو میں رائج کریں یا بحث کو اسی ماہیے تک محدود رکھیں جو اردو میں رائج ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو میں ماہیے کے وزن کی بحث اس طرح نکھر کر سامنے آ چکی ہے کہ اب پنجابی ادب کے سکالرز بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
جہاں تک ماہیے کے مزاج کا مسئلہ ہے اس سلسلہ میں کوئی حتمی بات کرنا اس لئے مشکل ہے کہ یہ زیادہ تر اپنے اپنے ذوق پر منحصر ہے۔ خود پنجابی میں ایسے ماہیے موجود ہیں جنہیں مزاج کی کسی خاص حد میں لانا مشکل ہے۔ مثلاً
باگے وچ دریاں نیں
اﷲ میاں پاس کرے
اساں فیساں بھریاں نیں
حمد، نعت، منقبت والے ماہیے اور زندگی کے تلخ مسائل والے پنجابی ماہیے بھی ۔۔۔۔اس مزاج سے خاصے مختلف ہیں جو پنجابی ماہیے کی عمومی پہچان ہے۔ ماہیے کے مزاج کے حوالے کو ماہیے کے موضوعات میں وسعت پیدا ہونے میں روک نہیں بننا چاہئے کیونکہ غزل بھی جو کل تک صرف عورتوں کی باتیں کرنے یا عورتوں سے باتیںکرنے تک محدود تھی ‘ آج اپنی بنیاد پر قائم رہتے ہوئے زندگی کے کتنے ہی موضوعات کا احاطہ کر چکی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ماہیا نگاروں کے ہاں عام طور پر ماہیے کا مزاج از خود آ سکتا ہے۔ بہ نسبت ان ماہیا نگاروں کے جو پنجاب سے تعلق نہیں رکھتے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے بعض ماہیا نگاروں نے بھی بڑے ہی بے رس ماہیے کہے ہیں اور پنجاب سے تعلق نہ رکھنے والوں نے ایسے ایسے ماہیے بھی کہے ہیں جو وزن اور مزاج دونوں لحاظ سے عمدہ اور خوبصورت ہیں۔ پہلے پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایسے ماہیا نگاروں کے ماہیے دیکھیں جو درست وزن کو اپنانے اور پنجابی ہونے کے باوجود پھیکے اور اوپرے سے ماہیے کہہ رہے ہیں۔
مجبور نہیں ہیں ہم آنکھوں میں سپنے ہیں
لوٹ کے آئیں گے بیرن دنیا میں
تم آنکھ نہ کرئیو نم یہ روگ ہی اپنے ہیں
——— ———-
اک تیری نشانی ہے سویا بھی نہیں جاگا
میری اکھین میں ہوش میں آ جاﺅ
دریا کی روانی ہے ابھی وقت نہیں بھاگا
——— ———-
یہ مثالیں کسی کی دل آزاری کے لئے نہیں دی گئیں اسی لئے میں نے ماہیا نگاروں کے نام نہیں دیئے۔ ان مثالوں سے محض یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ پنجابی ذہن اور دل رکھنے والے شاعر بھی ماہیے کے عمومی مزاج سے پرے ہو کر ماہیے لکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح غیر پنجابی ہونے کے باوجود ماہیے کہنے والے بھی ایسے ماہیے کہہ سکتے ہیں جو بڑی حد تک پنجابی مزاج کے مطابق ہیں۔ چند مثالیں دیکھ لیں۔
امواج کے دھاروں تک ہے رنگ بہت گہرا
اپنی کہانی ہے سرخی اناروں کی
طوفاں سے کناروں تک تکتی ہے ترا چہرہ
(نذیر فتح پوری۔ راجستھان) (انور مینائی۔ کرناٹک)
ساون کی فضاﺅں میں لفظوں پہ نہ جا بابا
خوشبو کا افسانہ عقل کی باتیں کیا
زلفوں کی گھٹاﺅں میں سن دل کی صدا بابا
(مناظر عاشق ہر گانوی۔بہار) (رشید اعجاز پونہ)
——— ———
اردو ماہیے کے معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے، ماہیے کے دامن کو وسیع کرنے کے عمل میں رکاوٹ ڈالے بغیر ماہیے کے مزاج کو برقرار رکھنے کی مثبت تلقین ساتھ ساتھ جاری رہنی چاہئے تاہم ماہیے کے موضوعات میں وسعت آنے سے نئے تجربات میں اگر بعض تجربات کچھ کچے اور ادھورے رہ جائیں تو انہیں برداشت کرلینا چاہئے کہ ایسے ادھورے اور کچے تجربات کے نتیجہ میں نئے اور بہتر تجربات کی راہیں بھی نکلیں گی یوں اس دور میں کئے جانے والے بیشتر تجربات آنے والے دور میں اردو ماہیے کی تاریخ کا ایک قیمتی حصہ قرار پائیں گے۔
گذشتہ چند برسوں میں اردو ماہیے کے درست وزن کو حیرت انگیز مقبولیت حاصل ہوئی۔ 40 سے زائد شعراءدرست وزن میں ماہیے کہہ چکے ہیں۔ اردو میں درست وزن کے ماہیا نگاروں کی ناتمام فہرست میں یہ نام آتے ہیں۔ قمر جلال آبادی، ساحر لدھیانوی، ڈاکٹر صابر آفاقی، امین خیال، پروین کمار اشک، یوسف اختر، نذیر فتح پوری، ضمیر اظہر (مرحوم)، رشید اعجاز (مرحوم)، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، انور مینائی، سعید شباب، قاضی اعجاز محور، فرحت نواز، منزہ اختر شاد، اجمل پاشا، ندیم شعیب، شجاعت علی راہی، غزالہ طلعت، عارف فرہاد، شاہدہ ناز، صدف جعفری، خاور اعجاز، حسن عباس رضا، رانا غلام شبیر، نذر عباس، قمر ساحری، آل عمران، رستم نامی، نیاز احمد مجاز، وقیع منظر، بقا صدیقی، افتخار شیخ، منظر نقوی، نوید رضا، تنویر نوازش، شبہ طراز، بسمہ طاہر، اجمل جنڈیالوی، ذوالفقار احسن، ایم اے تنویر، ارشد نعیم، طفیل خلش، بشارت احمد بشارت، طاہر مجید، احمد حسین مجاہد۔
ان میں بعض ایسے صاحبان ہیں جنہوں نے گنتی کے چند ماہیے کہے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جنہوں نے غلط وزن کی ماہیا نگاری کے ساتھ درست وزن میں بھی طبع آزمائی کرلی ہے۔ بعض ایسے ماہیا نگار ہیں جنہوں نے شروع میں غلط وزن میں ماہیے کہے، پھر اس وزن کو ترک کر کے اب صرف درست وزن میں ماہیا نگاری کر رہے ہیں۔ بعض ایسے دوست ہیں جنہیں وزن پر پوری گرفت حاصل نہیں چنانچہ ان کے ہاں ٹھیک وزن والے چند ماہیوں کے ساتھ بعض بے وزن اور بے ربط سے ماہیے بھی ملتے ہیں تاہم ان میں ایک بڑی تعداد ان ماہیا نگاروں کی ہے جو درست وزن کو اپنا کر اور ماہیے کے مزاج کو سمجھ کر ماہیا نگاری کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان میں بعض ایسے اہم ماہیا نگار بھی ہیں جو بنیادی طور پر پنجابی کے شاعر اور ادیب ہیں اور انہوں نے اردو میں ماہیے کہہ کر پنجابی کے تخلیق کاروں کا موقف تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ کر دیا ہے۔
پانچ برس کے مختصر عرصہ میں میرے ماہیوں کا مجموعہ ”محبت کے پھول“ منظر عام پر آ چکا ہے۔ بھارت سے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے ”رم جھم رم جھم“ کے نام سے 11 ماہیا نگاروں کا ایک اہم انتخاب مرتب کر کے چھاپ دیا ہے۔ پروفیسر قمر ساحری کے ماہیوں کا دیوان ”باد سبز“ اور نذیر فتح پوری کے ماہیوں کا مجموعہ ”ریگ رواں“ چھپنے کی خبریں بھی آ چکی ہیں۔ امین خیال، پروین کمار اشک، یوسف اختر، طفیل خلش، سعید شباب اور دیگر ماہیا نگاروں کے مجموعے بھی اگلے دو تین برسوں تک چھپ جانے کی توقع ہے۔ آخر میں چند ماہیا نگاروں کے خوبصورت اور زرخیز ماہیے دیکھ لیں۔ یہ چند ماہیے اردو میں ماہیا نگاری کی موجودہ صورتحال کے ساتھ آنے والے امکانات کی خبر بھی دے رہے ہیں۔
کہساروں میں ہیں کھائیاں
جاں کی اماں پاﺅں
کچھ عرض کروں سائیاں
(امین خیال)
——–
یہ حسن، یہ رعنائی تم آئے خیالوں میں
رب کی امانت ہے کتنے قریب تھے ہم
اے دلبر ہر جائی بیتے ہوئے سالوں میں
(ڈاکٹر صابر آفاقی) (طفیل خلش)
———
بچپن کی کہانی پر کھیتوں میں کھلی سرسوں
بنیادیں رکھیں ماہی نہیں آیا
بہتے ہوئے پانی پر آنا تھا اسے پرسوں
(یوسف اختر) (ضمیر اظہر)
گُل کا ہے نہ گلِ کا ہے بچپن کے کھیلوں کو
تم کو سنائیں کیا سائیں ہرا رکھے
یہ ماجرا دل کا ہے انگور کی بیلوں کو
(نذیر فتح پوری) (پروین کمار اشک)
———
رنگین کہانی دو یہ دکھ کے جھمیلے ہیں
اپنے لہو سے تم ہم دونوں اب تک
گلشن کو جوانی دو مل کر بھی اکیلے ہیں
(مناظر عاشق ہرگانوی) (انور مینائی)
———
آئے نہ نگاہوں میں ہر سمت اداسی ہے
آنکھیں بچھائی تھیں مل کے بچھڑ جانا
اس شوخ کی راہوں میں گو بات ذرا سی ہے
(سعید شباب) (احمد حسین مجاہد) ——— ———
سڑکوں پہ چلے تانگا تتلی کو اڑاﺅں میں
مانگا خدا سے جب پیار کے رنگ کئی
اک ساتھ ترا مانگا کس کس کو چھپاﺅں میں
(قاضی اعجاز احمد) (فرحت نواز) ——— ———
کتری ہوئی امبی ہے بستی کی بہاروں کے
آج اکیلی ہوں نغمے سے، گائے
اور رات بھی لمبی ہے کے دودھ کی دھاروں کے
(منزہ اختر شاد) (اجمل پاشا)
——— ———
اک نقش مٹانے میں آنکھیں سرہانے پر
جیون بیت گیا کھولیں گے ان کو
یادوں کو بھلانے میں لیکن ترے آنے پر
(ذوالفقار احسن) (خاور اعجاز)
——— ———
لج پیار کی پالی ہے رت بدلی ہے جاڑوں کی
یاد تری سجنا برف نہیں پگھلی
ایمان بنا لی ہے پر اونچے پہاڑوں کی
(تنویر نوازش) (غزالہ طلعت)
——— ———
چنری پہ کناری تھی اک پھول چنبیلی کا
لال پراندی بھی ملنا لگا اچھا
ہمراز ہماری تھی بچپن کی سہیلی کا
(عارف فرہاد) (شاہد ناز)
——— ———
حوالہ جات
۱۔ مکتوب وصی محمد وصی مطبوعہ سہ ماہی ”ابلاغ“ پشاور، اکتوبر تا دسمبر ۱۹۹۱ء
۲۔ ”اردو ماہیے“ افتخار احمد، مطبوعہ ماہنامہ ”تجدید نو“ لاہور، اسلام آباد، شمارہ اکتوبر ۱۹۹۲ء
”ماہیا اور اس کا دوسرا مصرعہ“ از حید قریشی، مطبوعہ ماہنامہ ”صریر“ کراچی،
شمارہ دسمبر ۱۹۹۲ء
۳۔ ”ماہیا اور اردو میں ماہیا نگاری“ از ناصر عباس نیر ، مطبوعہ”اوراق“ لاہور،
شمارہ مئی ، جون ۱۹۹۳ء
مکتوب ارشد نعیم، مطبوعہ ”تجدید نو“ لاہور، اسلام آباد، شمارہ اپریل ۱۹۹۳ء
”اردو ماہیے پر اوزان کی پابندی“ از ایم اے تنویر، مطبوعہ ماہنامہ ”صریر“ کراچی،
شمارہ جون، جولائی ۱۹۹۳ء
مکتوب نثار ترابی، مطبوعہ ”اوراق“ لاہور، شمارہ اگست ۱۹۹۵ء
۴۔ ”فاروق لودھی کے ہائیکو“ از پروفیسر عرش صدیقی ماہنامہ ”تجدید نو“ لاہور، اسلام آباد شمارہ دسمبر ۱۹۹۲ء
”ماہیا وزن اور فن“ از ریاض احمد، مطبوعہ ماہنامہ ”صریر“ کراچی
شمارہ جون، جولائی ۱۹۹۳ء
۵۔ ”اردو ماہیے“، از افتخار احمد، ۱۹۹۲ء
”ماہیا اور اس کا دوسرا مصرعہ“ از حیدر قریشی، ۱۹۹۲ء
”ماہیے کی تفہیم میں پیشرفت“ از سعید شباب، مطبوعہ ”صریر“ کراچی،
شمارہ جون، جولائی ۱۹۹۳ء
”مکتوب وحید انور“ مطبوعہ ماہنامہ ”صریر“ کراچی، شمارہ نومبر ۱۹۹۳ء
مکتوب ملاپ چند مطبوعہ ”اوراق“ لاہور، شمارہ نومبر، دسمبر ۱۹۹۳ء
”اردو میں ماہیا نگاری“ از حیدر قریشی، مطبوعہ ڈیلی جنگ لندن، شمارہ ۲جون ۱۹۹۴ء
(مطبوعہ : ماہنامہ ”شاہین“ کوپن ہیگن شمارہ دسمبر ۱۹۹۶ء، جنوری ۱۹۹۷ء
”اوراق“ لاہور، جنوری ۱۹۹۷ء)
٭٭٭٭٭٭