۱۹۹۸ءکا سال اردو ماہیے کے فروغ کے سلسلے میں گذشتہ تمام برسوں سے زیادہ اہم سال ثابت ہوا ہے۔ اردو دنیا میں ماہیے کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی۔ تخلیقی، تحقیقی، تنقیدی اور تجزیاتی ہر اعتبار سے ماہیے کو وسعت نصیب ہوئی۔ اس مختصر سے جائزہ میں سارے ماہیا نگاروں، مضمون نگاروں اور تبصرہ نگاروں کے نام شمار کرنے اور سارے اخبارات و رسائل کی فہرست تیار کرنے سے بھی مضمون بے حد طویل ہو جانے کا خدشہ ہے۔ اس لئے اردو ماہیے کی پیشرفت کو اجمالی طور پر ہی پیش کروں گا۔ ۱۹۹۷ءتک ماہیا نگاروں کی تعداد ایک سو تک پہنچی تھی، اس برس اس تعداد میں تقریباً دو گنا اضافہ ہوا ہے۔ ماہیا نگاری کی طرف متوجہ ہونے والے شعراءمیں اعزاز احمد آذر، انوار فیروز، عذر اصغر، بخش لائل پوری، سیما شکیب، نزہت سمن، ناصر نظامی، سرفراز تبسم، رﺅف خیر، شباب للت، پرکاش تیواری، سلطان سکون، شبہ طراز، امداد نظامی، حسن عسکری کاظمی، سلیم انصاری، شوکت ہاشمی، کلیم شہزاد، نیاز احمد صوفی اور ایسے ہی متعدد دیگر ناموں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس ادبی معیار کے شعراءماہیے کی طرف آ رہے ہیں۔ پہلے سے متحرک اور فعال ماہیا نگاروں میں امین خیال، احمد حسین مجاہد، عارف فرہاد، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، سلطانہ مہر، ثریا شہاب، شاہدہ ناز، یاسمین سحر، مسعود ہاشمی، انور مینائی، نذیر فتح پوری، شاہد جمیل، شرون کمارورما، ذوالفقار احسن، خاور اعجاز، سجاد مرزا، اسلم حنیف، یوسف اختر، ڈاکٹر صابر آفاقی، سعید شباب، قاضی اعجاز محور اور متعدد دیگر ماہیا نگار اس برس بھی تخلیقی لحاظ سے متحرک اور فعال رہے۔
۱۹۹۲ءسے گذشتہ برس تک ماہیے کے حوالے سے مجموعی طور پر ۴۵مضامین اور تبصرے شائع ہوئے تھے جبکہ صرف ۱۹۹۸ءمیں ۶۰سے زائد مضامین اور تبصرے شائع ہوئے ہیں۔ اہم مضامین میں ”اردو ماہیے کا ارتقائی جائزہ“ (ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی) ”پنجابی ماہیا“ (امین خیال)، ”اردو ماہیے میں موضوعات کا تنوع“ (ناصر عباس نیئر) ”اردو ماہیا ۔ عروضی تناظر میں“ (احمد حسین مجاہد) ”ماہیا ایک مطالعہ“ (گوہر شیخپوری) ”ماہیا اور اس کے اوزان“ (ناوک حمزہ پوری) ”اردو ماہیا بحث در بحث“ (ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی) ان مضامین کی بنیادی نوعیت کی اہمیت بنتی ہے۔ ان کے علاوہ اسلم حنیف، سلیم انصاری، رﺅف خیر، محمد وسیم انجم، اختر رضا کیکوٹی، شارق جمال، عارف فرہاد، اجمل جنڈیالوی، ذوالفقار احسن، انوار فیروز، اکبر حمیدی، کلیم شہزاد، سلیم احمد سلیم، ناصر احمد اور ڈاکٹر انور مینائی کے مضامین اور تبصرے بھی کسی نہ کسی زاویے سے اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ اس برس امین خیال، نذیر فتح پوری، مناظر عاشق ہرگانوی، زہیر کنجاہی، مسعود ہاشمی، قمر ساحری اور یوسف اختر کی ماہیا نگاری کے انفرادی تجزیئے کئے گئے۔
حلقہ ادب بھاگلپور کے زیر اہتمام گذشتہ برس اردو ماہیا کا پہلا مشاعرہ بہار ایگری کلچر کالج سبور میں ہوا تھا۔ اس برس ماہیا مشاعرے کی روایت مزید پروان چڑھی۔ انڈیا میں ناگپور اور کلکتہ میں ماہیا مشاعرے ہوئے۔ کلکتہ کے انڈین پریس کلب میں ہونے والے ماہیا مشاعرہ کی صدارت عبدالرزاق ملیح آبادی اور قیصر شمیم نے کی۔ پاکستان میں ایک ماہیا مشاعرہ سرگودھا میں ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر وزیر آغا نے کی۔ سیکرٹری کے فرائض ذوالفقار احسن نے ادا کئے۔ دوسرا مشاعرہ گوجرانوالہ میں ہوا۔ اس ماہیا مشاعرہ کی صدارت اردو اور پنجابی کے ممتاز شاعر اور اردو ماہیے کی تحریک کے روح رواں امین خیال جی نے کی۔ مہمان خصوصی لاہور کے خوبصورت شاعر نیاز احمد صوفی تھے اور اسٹیج سیکرٹری کے فرائض گوجرانوالہ کے معروف شاعر جان کاشمیری نے ادا کئے۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ ایسے مشاعروں سے ماہیا فہمی میں آسانی ہوگی۔ اردو ماہیے کو ادبی اور عوامی دونوں سطح پر مقبولیت حاصل ہوگی۔
اردو کے سب سے پہلے ماہیا نگار کی حیثیت سے ہمت رائے شرما کی اولیت کا دعویٰ اس برس مزید دلائل کے ساتھ مستحکم ہوا۔ ابھی تک اردو ماہیے کے پیش روﺅں میں قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی کے نام آتے تھے اس برس پرانی پاکستانی فلم ”حسرت“ کے ماہیوں کے شاعر کی حیثیت سے مقبول، ممتاز اور معتبر شاعر قتیل شفائی کا نام سامنے آیا۔ یوں ماہیے کے پیش روﺅں میں ایک اور باوقار ماہیا نگار کے نام کا اضافہ ہوا۔ اردو ماہیے کی تحریک کو مزید تقویت ملی۔ رستم نامی جو اوائل میں چند ماہیے کہہ کر غائب ہوگئے تھے اس برس پوری توانائی کے ساتھ ماہیے کے افق پر نمودار ہوئے۔٭
ماہیے کی مخالفت کے لحاظ سے بھی یہ سال خاصا اہم رہا۔ مخالفین نے بہتان طرازی سے لے کر کردار کشی تک کے سارے حربے آزما لئے۔ ہماری طرف سے جب بعض بہتانوں کے جواب میں لعنتہ اﷲ علی الکاذبین کہہ کر اپنی صفائی دی گئی اور مخالفین کو دعوت دی گئی کہ وہ بھی اسی طرح قرآنی الفاظ پڑھ کر اپنا بیان دہرائیں تو مخالفین اس کی جرات نہ کرسکے۔ کبھی نام بدل کر اور کبھی اعتراضات تبدیل کر کے مخالفت کا سلسلہ جاری رہا۔ ماہیے کی سہ مصرعی اور ڈیڑھ مصرعی ہیئت کا تنازعہ کھڑا کیا گیا لیکن سہ مصرعی ہیئت پر اعتراض کرنے والے مغلوب الغضب مخالفین کے تیروں کا رخ صرف ہماری طرف رہا۔ مساوی الوزن مصرعوں کے ثلاثی بطور ماہیا پیش کرنے والوں کو کسی نے میلی نظر سے بھی نہیں دیکھا۔ اس مخالفت کے نتیجہ میں مجھے دو مختلف سطحوں پر کام کرنے کی توفیق ملی۔ پنجابی میں سہ مصرعی ماہیے کی روایت کی تلاش میں مجھے ساٹھ کی دہائی میں ڈاکٹر روشن لال آہوجہ سے لے کر فارغ بخاری، تنویر بخاری، ڈاکٹر جمال ہوشیار پوری، علامہ یعقوب انور اور امین خیال تک پنجابی دانشوروں کی آراءسے پنجابی لوک گیت ماہیے کی ہیئت کو سمجھنے میں مدد ملی۔ علمی سطح پر اپنا مضمون ”پنجابی لوک گیت ماہیے کی تحریری ہیئت“ مکمل کر چکا ہوں اسے جلد ہی کسی اچھے ادبی رسالے میں اشاعت کے لئے بھیج رہا ہوں۔ دوسری سطح پر تمام مغلوب الغضب مخالفین کی ساری مخالفت کو تاریخی ریکارڈ کے طور پر اپنی نئی کتاب ”ماہیا ۔ علمی بحث سے غوغائے رقیباں تک“ میں یکجا کر رہا ہوں۔ یہ کتاب اسی برس میں دو تہائی مکمل کر چکا ہوں۔ اس کا سارا کریڈٹ ماہیے کے مخالفین کو جاتا ہے۔ ایک کرم فرما میری شدید مذمت کرتے ہوئے ڈیڑھ مصرعی ماہیے کہنے لگے اور وزن مکمل طور پر وہی اختیارکیا جس کے لئے ہم گذشتہ آٹھ برسوں سے ثلاثی نگاروں سے اختلاف کر رہے ہیں۔ اسی کرم فرما نے میری مذمت کے ساتھ سیما شکیب کے ثلاثی کا بھی بالواسطہ طور پر دفاع کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اسی برس موصوف کے ساتھ یہ تماشہ ہوگیا کہ سیما شکیب نے نہ صرف درست وزن میں ماہیے کہہ ڈالے بلکہ انہیں سہ مصرعی ہیئت میں شائع بھی کرا دیا۔ ماہیے کے مخالفین کے سارے بیانات چونکہ مکمل حوالوں کے ساتھ اپنی کتاب میں دے رہا ہوں اس لئے یہاں ان کے نام دینے کی بجائے صرف ان کے طرز عمل کی نشاندہی کر دی ہے۔ صحت مند اور مہذب اختلاف رائے کی ایک مثال احمد صغیر صدیقی نے قائم کی۔ ان کے بعض اعتراضات پر جب انہیں جواب دیا گیا تو انہوں نے مغلوب الغضب ہو جانے کی بجائے مہذب رویہ ظاہر کیا۔ انڈیا میں بھی ایک اختلافی رو چلی ہے لیکن وہاں مسئلہ یہ ہے کہ ماہیے کو اردو کے عروضی پیمانے کے مطابق کیسے ڈھالا جائے۔ اس سلسلے میں ناوک حمزہ پوری، شارق جمال، اسلم حنیف اور دیگر احباب اپنی اپنی سوچ کے مطابق کام کر رہے ہیں۔
ریڈیو پاکستان، راولپنڈی، آکاش وانی بھاگلپور، ریڈیو ڈوئچے ویلے اور اوفنر کنال ٹی وی چینل جرمنی پر اس برس اردو ماہیے کا تھوڑا بہت چرچا رہا۔ راولپنڈی ریڈیو سے عارف فرہاد اور مسعود ہاشمی متحرک رہے۔ راشد حمید کے ایک ریڈیائی انٹرویو میں بھی ماہیے کا ذکر آیا۔ زی ٹی وی کے مقبول ترین ڈرامہ ”امانت“ کی سال بھر کی ساری قسطوں میں ماہیے کی خوبصورت دھن سنائی دیتی رہی۔ گذشتہ برس پنجابی اخبار ”بھنگڑا“ گوجرانوالہ نے ماہیا ایڈیشن شائع کیا تھا۔ اس برس دو ماہی گلبن احمد آباد نے ضخیم ماہیا نمبر شائع کیا۔ اس نمبر کے علاوہ اس برس یوسف اختر کا ماہیوں کا مجموعہ شائع ہوا۔ ”دل حجرہ“ کے نام سے چھپنے والے اس مجموعہ کا پیش لفظ رشید نثار کا تحریر کردہ ہے جبکہ امین خیال کے تاثرات فلیپ پر درج ہیں۔ ڈاکٹر انور مینائی کا ماہیوں کا مجموعہ ”روپ نگر“ بھی اسی برس شائع ہوا۔ اس کے فلیپ پر ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی کی رائے درج ہے۔
جب کسی صنف میں شعرائے کرام کی بہت بڑی تعداد دلچسپی لیتی ہے تو اس کے معیار میں نشیب و فراز کے منظر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ غزل اور نظم کی طرح ماہیے میں بھی ایسا منظر دکھائی دینے لگا ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ماہیے کے سلسلے میں بعض دلچسپ اور نئے تجربے بھی کئے جانے لگے ہیں۔ اس برس اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما جی نے سات زبانوں میں ماہیے کہے۔ اردو، ہندی، پنجابی، بنگالی، گجراتی، مراٹھی اور فارسی کے ماہیوں میں سے اردو، بنگالی اور فارسی کے ماہیے یہاں پیش کئے دیتا ہوں-:
کچھ کر کے دکھاتی ہے ایکھن ای جاچھی نہ
رحمت مولا کی بندھو ایشے چھے
جب جوش میں آتی ہے ای دانڑاں تے پاچھی نہ
ایں محفل یاراں است
گلبن گل مے کند
چہ فصل بہاراں است
اسلم حنیف نے تضمینی ماہیے کہے ہیں اور اس میں بعض عمدہ ماہیے نکالے ہیں-:
کر میری بھی غم خواری آکاش میں کیسے اڑوں
ساجن ہوں تیرا غم سے رہا کردے
”اے بت کی پجن ہاری“ ”مجھ دل کے کبوتر کوں“
ابھی تک اردو ماہیے میں غزل کا ذکر تو آ رہا تھا لیکن اس برس رﺅف خیر کی ایک غزل میں پہلی بار ماہیے کا ذکر آیا ہے۔
رﺅف خیر روایت عزیز ہے جن کو
ترائیلے سے ہوئے خوش نہ ماہیے سے مرے
بیرون برصغیرمغربی ممالک میں بھی ماہیے کو مسلسل مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ امریکہ کی سلطانہ مہر، انگلینڈ کے بخش لائل پوری، ساحر شیوی اور عاصی کاشمیری، ہالینڈ کے ناصر نظامی، اٹلی کے ارشد اقبال آرش کے علاوہ جرمنی کے جاوید خاں، ثریا شہاب، طفیل خلش، اجمل پاشا، ارشاد ہاشمی اور بعض دیگر شعراءنے ماہیا نگاری کی طرف خصوصی توجہ کی ہے۔ ”گلبن“ کے ماہیا نمبر کے سلسلے میں ایک خصوصی تقریب ہائیڈل برگ میں ہوئی اس کی صدارت ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اردو کی استاد ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ نے کی، مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر صدیق الرحمٰن قدوائی تھے۔ گلبن کے ماہیا نمبر کے سلسلے میں ہی ایک تقریب بھاگلپور میں بھی ہوئی۔
پرانے رسائل و جرائد میں سے تخلیق لاہور، اسباق پونہ، ادب لطیف لاہور، عوامی منشور کراچی، سخنور کراچی، جنگ لندن، نوائے وقت راولپنڈی، ہوٹل ٹائمز اسلام آباد، وادی پاکستان گوجرانوالہ، ویکلی راوی بریڈ فورڈ اور ماہنامہ صریر کراچی کا ذکر کرنا ضروری ہے۔
اس برس ان رسائل اور اخبارات میں اردو ماہیا پہلی بار سامنے آیا۔ ماہنامہ کتاب نما دہلی، ماہنامہ شاعر بمبئی، ماہنامہ ایوان اردو دہلی، دو ماہی پرواز ادب پٹیالہ، روزنامہ پاکستان لندن، احساس نو لاہور، پاکستان لنک امریکہ۔
دو ماہی گلبن احمد آباد کے ماہیا نمبر کو ڈاکٹر وزیر آغا نے ایک ”تاریخی قدم“ قرار دیا تو شمس الرحمٰن فاروقی نے لکھا کہ ”ماہیا نمبر تو واقعی تاریخی حیثیت کا حامل ہو جانے کا امکان رکھتا ہے۔“ سہ ماہی ”کوہسار جرنل“ کے ہر شمارہ میں یوں تو بیشتر نئی اصناف کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے لیکن ماہیا کے فروغ کے سلسلے میں ”کوہسار“ کی خدمات کی خصوصی اہمیت بنتی ہے۔ ادبی مجلہ ”اوراق“ سے ماہیے کی تحریک کی ابتداءہوئی تھی۔ ”اوراق“ ماہیے کی ترویج واشاعت کے سلسلے میں آج بھی پیش پیش ہے۔ ماہیے کی بحث کو شخصیات کے خلاف زہر آلود کرنے کی بجائے ”اوراق“ نے بحث کو علمی رنگ میں بڑھانے پر زور دیا۔ شخصیات زیر بحث تو آتی ہیں لیکن ان کے افکار سے بحث کی جاتی ہے ان کے کردار پر، ان کی ذاتی زندگی پر بہتان طرازی کا گند نہیں پھینکا جاتا۔
کلکتہ کے پروفیسر مشتاق اعظمی ماہیے کے پی ۔ایچ ۔ڈی کے پراجیکٹ پر پہلے سے کام کر رہے ہیں۔ اب ویکلی ”میرٹھ میلہ“ کی اطلاع کے مطابق راجستھان یونیورسٹی کی ڈاکٹر جمیلہ عرشی نے ڈی لٹ کے پراجیکٹ پر کام شروع کر دیا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ماہیے کو تخلیق کاروں میں اور تنقید نگاروں میں مقبولیت ملنے کے ساتھ اعلیٰ علمی سطح پر بھی سنجیدگی سے لیا جانے لگا ہے۔ ماہیے کو اکیڈمک لیول پر اتنی اہمیت ملنے سے ماہیے کے تمام بہی خواہوں کو خوشی ہوگی۔
آخر میں ایک دلچسپ انکشاف۔ ہمت رائے شرما جی کو ماہیے کے بانی کی حیثیت سے دریافت کرنے والے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے لکھا ہے کہ ماہیے کے نام پر ثلاثی لکھنے کی موجودہ روش کا تعلق اسی کی دہائی سے نہیں بلکہ ستر کی دہائی سے ہے۔ تب فراز حامدی نے اس انداز کے ”ماہیے“ کہے تھے۔
طوفاں سے نہ ڈر پیارے
مرنا ہی اگر ٹھہرا
گھٹ گھٹ کے نہ مر پیارے
اور اب ڈاکٹر فراز حامدی ماہیے کے درست وزن کو اختیار کر کے پنجابی لے کے مطابق ماہیے کہنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر جمیلہ عرشی کے ماہیے پر ڈی لٹ کے پراجیکٹ کے نگران ڈاکٹر فراز حامدی ہیں۔ ان خوش کن خبروں کے ساتھ ۱۹۹۸ءمیں ماہیے کی پیشرفت کا یہ جائزہ مکمل کرتا ہوں۔
…. و من شر حاسد اذا حسدO
مطبوعہ: (۱) روزنامہ ”منصف“ حیدر آباد (انڈیا) ۹۹۔۱۔۱۰
(۲) روزنامہ ”جنگ لندن“ ۹۹۔۲۔۱۸
(۳) سہ ماہی ”کوہسار“ بھاگل پور، شمارہ مارچ ۱۹۹۹ئ
(۴) روزنامہ ”نوائے وقت“ اسلام آباد ۹۹۔۴۔۳۱
٭ معلوم ہوا ہے کہ احمد حسین مجاہد کے تحریک دلانے پر رستم نامی دوبارہ ماہیا نگاری میں تخلیقی لحاظ سے متحرک ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اضافی نوٹ
مشتاق اعظمی نے پی ایچ ڈی کر لی تھی۔جمیلہ عرشی کا ڈی لٹ کا پراجیکٹ مکمل نہیں ہو سکا۔یہ وضاحت بھی ضروری ہے کی ڈی لٹ کے لیے فراز حامدی کی نگرانی والی اطلاع غلط طور پر دی گئی تھی،ایسا کچھ نہیں تھا۔اسی طرح فراز حامد ی کے ستر کی دہائی میں مساوی الوزن ماہیے کہنے کا کوئی پکا ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔مجھے کہا گیا تھا کہ ریکارڈ میں مل جائے گا،بس ذرا ڈھونڈنا ہوگا۔لیکن پھر ایسا کوئی ریکارڈ سامنے نہیں لایا گیا۔اس حساب سے اگر زبانی جمع خرچ پر ہی انحصار کیا جائے تو ڈاکٹر صابر آفاقی نے مجھے ۱۹۹۲ءمیں ایبٹ آباد میں ہونے والی ایک ملاقات میں بتایا تھا کہ انہوں پچاس کی دَہائی میں ایسے ماہیے کہے تھے۔موجودہ ادیبوں میںجو باتیں محض زبانی دعوے پر مبنی ہیں،اگر وہ درست بھی ہوں تو ان پر اس وقت تک انحصار نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس کے ثبوت نہ مہیا کر دئیے جائیں۔
حیدر قریشی