اردو میں ساحر لدھیانوی اور قمر جلال آبادی کی درست وزن کی ماہیا نگاری کی روشن مثالیں موجود ہونے کے باوجود اسی کی دہائی میں غلط وزن کی ماہیا نگاری ہوتی رہی۔ نوے کی دہائی کے آغاز میں اردو ماہیے کو اصل وزن کے مطابق کرنے کی بحث دیکھتے ہی دیکھتے ایک تحریک کی صورت اختیار کر گئی۔ ۱۹۹۰ءسے ۱۹۹۵ءتک بحث مباحثہ کا ایک دور چلا۔ اب پلٹ کر دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ۱۹۹۶ءکا سال پہلے پانچ برسوں کے مقابلے میں اردو ماہیے کے لئے کئی پہلوﺅں سے زیادہ متحرک، فعال اور اہم سال ثابت ہوا ہے۔ ابھی تک ماہیا نگاروں میں امین خیال، ضمیر اظہر، نذیر فتح پوری، رشید اعجاز، شجاعت علی راہی، منزہ اختر شاد، غزالہ طلعت، صدف جعفری، فرحت نواز، انور مینائی، یوسف اختر، افتخار شفیع اور سعید شباب تخلیقی لحاظ سے نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ ۱۹۹۶ءمیں اس فہرست میں مزید کئی قابل قدر شعراءکا اضافہ ہوا۔ پروین کمار اشک، قاضی اعجاز محور، مناظر عاشق ہرگانوی، پروفیسر صابر آفاقی، احمد حسین مجاہد، شوکت مہدی، مشتاق شاد، یونس احمر، ندیم شعیب، طفیل خلش، اجمل پاشا اور آل عمران کے نام اس سلسلے میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
اس برس درست وزن کی ماہیا نگاری کے فروغ کے ساتھ ماہیے کے مزاج کا مسئلہ نمایاں ہوا بعض دوستوں نے بجا طور پر اس طرف توجہ مبذول کرائی۔ وزن کے تعلق سے ۱۹۹۵ءکے آخر میں نثار ترابی کا ایک تفصیلی خط ”اوراق“ میں شائع ہوا تھا۔ اس خط میں انہوں نے ماہیے کے لئے دونوں اوزان کو درست قرار دیا تھا۔ ”اوراق“ کے اس سے اگلے شمارے میں جو ۱۹۹۶ءکے شروع میں آیا، میرا طویل خط شائع ہوا جس میں پنجابی ماہیے کے اصل وزن کو دلائل کے ساتھ واضح کیا گیا اور نثار ترابی سے بحث کو جاری رکھنے کی توقع کی گئی لیکن ”اوراق“ کے اس سے اگلے شمارے میں انہوں نے معنی خیز خاموشی اختیار کرلی۔ ۱۹۹۵ءکے آخر ہی میں حمایت علی شاعر نے ماہیے کا غلط وزن اختیار کرنے والوں پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ گذشتہ برس ارشد نعیم نے اس پر خلط مبحث کی کوشش کی۔ وہ اپنے دو سال پہلے ریکارڈ پر موجود موقف سے منحرف ہوگئے اس کے باوجود خود درست وزن کے ماہیے لکھتے رہے۔ حمایت علی شاعر کے خط سے شروع ہونے والی بحث گذشتہ برس ”تجدید نو“ میں جاری رہی۔ خلط مبحث کرنے والے کے صریح جھوٹ واضح طور پر نشان زد کئے گئے۔ ایسے مباحث کے نتیجہ میں عارف فرہاد جیسے خوش فکر شاعر درست وزن کی ماہیا نگاری کی طرف آ گئے۔ دیگر شعراءمیں مشتاق احمد، ذوالفقار احسن اور شاہدہ ناز قابل ذکر ہیں جو پورے غوروخوض کے بعد درست وزن کی ماہیا نگاری کی طرف مائل ہوئے۔
گذشتہ برس ماہنامہ ”صریر“ کے سالنامہ میں ڈاکٹر بشیر سیفی کا مضمون ”اردو ماہیا تحقیقی مطالعہ“ شائع ہوا۔ اس مضمون میں انہوں نے یہ اصولی موقف تسلیم کرلیا ہے کہ ماہیے کا اصل وزن اس کی دھن میں موجود ہے۔ یہ وہی موقف ہے جس پر ہم شروع سے زور دیتے آ رہے ہیں تاہم ڈاکٹر بشیر سیفی نے اپنے مضمون میں یک رخی تحقیق پیش کی اور تصویر کا دوسرا رخ دیدہ دانستہ چھپانے کی کوشش کی۔ ان کے اس غیر محققانہ طرز عمل کی واضح نشاندہی میں نے اپنے جوابی مضمون ”ماہیے کے حوالے سے چند معروضات“ میں کر دی ہے۔ دیگر مضامین میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا ”حرف اول“، انور مینائی کا ”ماہیے۔ ایک مطالعہ“ اور سعید شباب کا ”اردو ماہیے“ اہمیت کے حامل ہیں ان مضامین میں پنجابی ماہیے کے اصل وزن کو واضح کرنے کے ساتھ اردو میں اسی وزن کی پابندی پر اصرار کیا گیا۔ میرا ایک پرانا مضمون جو پہلے ”صریر“ میں چھپ چکا تھا ”ماہیا اور اس کا دوسرا مصرعہ“ بھارت سے دوبارہ شائع ہوا۔ میرے دو مضامین ”پنجابی لوک گیت۔ ماہیا“ اور ”ماہیے کے وزن کا مسئلہ“ روزنامہ جنگ لندن نے شائع کئے۔ ایک اور مضمون ”اردو ماہیا۔ کل اور آج“ ماہنامہ شاہین (ڈنمارک)میں شائع ہوا جس میں میں نے وزن کے ساتھ ماہیے کے مزاج کے مسئلے پر بھی وضاحت کے ساتھ اپنا موقف بیان کیا۔ ماہیوں کے مجموعہ ”محبت کے پھول“ کا پیش لفظ بھی ماہیے پر میرے مضامین کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان تمام مباحث کے ساتھ ساتھ گذشتہ برس ماہیا نگاروں کی ایک بڑی تعداد تخلیقی سطح پر عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہی۔
میرے ماہیوں کا مجموعہ ”محبت کے پھول“ ۱۹۹۶ءمیں شائع ہوا۔ یہ پنجابی ماہیے کے وزن کے مطابق اردو میں ماہیوں کا اولین مجموعہ ہے۔ اسی برس پروفیسرقمر ساحری کا ”باد سبز“ بھی سامنے آیا۔ اسے ماہیے کا پہلا دیوان کہنا مناسب ہے کہ قمر ساحری نے الف سے ے تک حروف تہجی کے لحاظ سے ماہیا نگاری میں اپنے فن کا اظہار کیا ہے۔ ایک اور کتاب پچھلے سال ”رم جھم رم جھم“ کے نام سے شائع ہوئی۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے اسے مرتب کیا۔ ان کے مبسوط اور تفصیلی دیباچے کے ساتھ اس کتاب میں 11 ماہیا نگاروں کے ماہیوں کا انتخاب شامل کیا گیا۔ اس انتخاب کو اردو ماہیے کا عطر کہا جاسکتا ہے۔ اس انتخاب میں پاکستان کے چھ ماہیا نگار ضمیر اظہر، امین خیال، عارف فرہاد، یوسف اختر، سعید شباب اور حیدر قریشی اور انڈیا کے پانچ ماہیا نگار پروین کمار اشک، نذیر فتح پوری، انور مینائی، یونس احمر اور مناظر عاشق ہرگانوی شامل ہیں۔
سلطان حیدر علی کی سرزمین کرناٹک کے شہر بنگلور سے شائع ہونے والے اردو کے ممتاز اخبار روزنامہ ”پاسبان“ نے گذشتہ برس اپنی ۴نومبر کی اشاعت میں ادبی ایڈیشن کو ماہیے کے لئے مخصوص کر دیا۔ اگرچہ اس پر ماہیا نمبر کے الفاظ نہیں لکھے گئے لیکن اسے کسی روزنامہ کے ادبی ایڈیشن کا پہلا ماہیا نمبر کہا جاسکتا ہے۔ اس کے ادبی ایڈیشن کے مدیر نے ”کچھ ماہیے کے تعلق سے“ کے زیر عنوان اپنا ادارتی نوٹ لکھا۔ سعید شباب، انور مینائی اور حیدر قریشی کے تین مضامین کے ساتھ۔ ڈاکٹر فہیم اعظمی، مظہر امام، ڈاکٹر وزیر آغا اور وحید انور کے تاثرات کو ”ماہیا اور مشاہیر ادب کی آرائ“ کے تحت شامل کیا گیا۔ اس خصوصی اشاعت میں ان ماہیا نگاروں کے درست وزن کے ماہیے شائع کئے گئے ہیں۔ امین خیال، ضمیر اظہر، مناظر عاشق ہرگانوی، یوسف اختر، پروین کمار اشک، صدف جعفری، انور مینائی، اجمل پاشا، بسمہ طاہر، غزالہ طلعت، خاور اعجاز، بقا صدیقی ، آل عمران، ندیم شعیب، ایم اے تنویر، افتخار شفیع، حسن عباس رضا، ارشد نعیم، شبہ طراز، نذر عباس اور حیدر قریشی۔
ماہنامہ ”صریر“ کے مارچ ۱۹۹۶ءکے شمارہ میں ڈاکٹر انور سدید کا پچھلے برس کا طویل سالانہ ادبی جائزہ شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے ماہیے کو ایک الگ شعری صنف کے تحت پیش کیا اور پنجابی ماہیے کے وزن کے مطابق اردو میں ماہیے کہنے کے رجحان کی مقبولیت کا اعتراف کیا۔ گذشتہ برس بعض ادیبوں کے انٹرویوز میں بھی ماہیے کا تذکرہ آتا رہا۔ ثریا شہاب نے جنگ لندن میں چھپنے والے ایک انٹرویو میں اردو ماہیا نگاری کا پنجابی ماہیے کے وزن کے مطابق کئے جانے کا سوال اٹھایا، ڈاکٹر وزیر آغا نے ”تجدید نو“ میں چھپنے والے ایک انٹرویو میں وزن کی درستی کی تحریک کی تاریخی حیثیت کا اقرار کرتے ہوئے ماہیے کے مزاج کی طرف توجہ دلائی، بی بی سی لندن کے لئے نعیمہ ضیاءالدین سے عارف وقار نے سویڈن میں ایک انٹرویو لیا جس میں ماہیے کا ذکر خیر آیا، ریڈیو ڈوئچے ویلے، جرمنی سے نشر ہونے والے میرے ایک انٹرویو میں بھی ماہیے کا ذکر ہوا اور بھارتی ٹیلی ویژن بنگلور دور درشن سے انور مینائی کا ایک انٹرویو ٹیلی کاسٹ ہوا جس میں اردو ماہیے کا تفصیلی تذکرہ ہوا۔
سال گذشتہ میں اردو ماہیے کے فروغ کے سلسلہ میں جن ادبی رسائل اور اخبارات نے اہم کردار ادا کیا، ان کی نامکمل فہرست کچھ یوں ہے۔
ماہنامہ اوراق لاہور، سہ ماہی اقدار کراچی، ماہنامہ تخلیق لاہور، سہ ماہی ارتکاز کراچی، ماہنامہ تجدید نو لاہور، اسلام آباد، ماہنامہ صریر کراچی، دو ماہی گلبن احمد آباد، انڈیا، سہ ماہی تکمیل انڈیا، ماہنامہ عوامی منشور کراچی، ماہنامہ شاہین کوپن ہیگن ڈنمارک، روزنامہ جنگ لندن، روزنامہ پاسبان بنگلور، ویکلی راوی بریڈ فورڈ، پاکستان ٹوڈے امریکہ، یہ صرف ان رسائل اور اخبارات کے نام ہیں جو مجھے جرمنی میں دستیاب ہو سکے ہیں۔ یقیناً ان کے علاوہ بھی بعض رسائل اور اخبارات نے ماہیے کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا ہوگا۔ ایسے تمام رسائل اور اخبارات بھی لائق تحسین ہیں۔ ان کے نام یہاں درج نہ ہونا محض ان تک میری نارسائی ہے۔
اس مختصر سے جائزہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پنجابی لوک گیت ماہیا اردو ادب میں آ کر اپنے وزن اور مزاج، جسم اور روح کے ساتھ اردو کی ایک نئی شعری صنف کے طور پر مسلسل مستحکم ہو رہا ہے۔ ۱۹۹۶ءمیں اس چھوٹے سے پودے نے اپنے تناور درخت بننے کے امکان کو اجاگر کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اردو ماہیا اپنے پنجابی خدوخال اور مزاج کے ساتھ نئے تخلیقی اظہار سے اردو شاعری کے وقار میں اضافے کا موجب بنے گا اور ۱۹۹۷ءکا سال اپنے اختتام پر گواہی دے گا کہ اردو ماہیے نے ۱۹۹۶ءسے بھی آگے کا سفر طے کرلیا ہے۔
سعید شباب کے تازہ مضمون ”اردو ماہیے“ کے آخری الفاظ کو اپنی دعا بناتے ہوئے یہ جائزہ ختم کرتا ہوں۔
”خوشی کی بات ہے کہ ماہیے کے مزاج اور خدوخال کی بحث جیسے جیسے آگے بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے شعراءکرام ماہیے کے اصل وزن کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ غلط وزن میں ماہیے کہنے والوں کی تعداد اب گھٹ کر رہ گئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے شعراءکرام کے ذریعہ اردو ماہیا دوسری اصناف ادب کے دوش بدوش وقار کے ساتھ اکیسویں صدی میں داخل ہو سکے گا“
(ایں دعا از من و از جملہ جہانِ ادب آمین باد!)
(مطبوعہ ۔ روزنامہ ”نوائے وقت“، راولپنڈی، شمارہ ۔ ۵فروری ۱۹۹۷ئ)
٭٭٭٭