ڈاکٹر عبدالرشید(دہلی)
مدیر اعلیٰ:ڈاکٹر فرمان فتح پوری
بیسویں صدی میں اردو لغت نگاری کا اہم کارنامہ ’اردو لغت (تاریخی اصول پر)‘ ہے۔ اس لغت میں اردو کی قدیم ترین لغات سے لے کر جدید ترین فرہنگوں تک کے تمام الفاظ و محاورات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہزارہا الفاظ، تراکیب اور محاورات مع امثال ایسے بھی درج ہیں جو متداول لغات میں موجود نہیں تھے۔ یہ بلاشبہ ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے۔سب جانتے ہیں کہ لغت نگاری ایک مشکل فن ہے اور اس کا پہلا اصول یہ ہے کہ لغت تمام اغلاط سے پاک ہو لیکن ایسا لگتا ہے کہ پیش نظر ’اردو لغت‘ میں کتابت کی غلطیوں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاسکی۔
اردو لغت میں بعض مقامات پر سنسکرت، پراکرت اور ہندی نژاد الفاظ کا املا بھی غور طلب ہے۔ اس سلسلے میں اربابِ لغت نے ’تعارف‘ میں اپنی مجبوری کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے :
’’جہاں تک ہندی نژاد الفاظ کی اشتقاق نگاری کا تعلق ہے، ظاہر ہے کہ ایسے اشخاص جنھیں سنسکرت کا منتہی کہا جاسکے ہمارے یہاں تقریباً ناپید ہیں۔‘‘
اردو لغت میں جس وسیع پیمانے پر کام ہورہا تھا اور جس معیار کی لغت تیار ہورہی تھی ایسی صورت میں سنسکرت وغیرہ الفاظ کی اشتقاق نگاری میں پڑوسی ملک کے ماہرین سے مدد لی جاسکتی تھی۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ وہاں ان زبانوں کے ماہرین ’تقریباً ناپید‘ تھے مگر ’اردو لغت‘ میں انگریزی الفاظ کی املا میں غلطیوں کا کیا جواز ہے؟ اردو لغت (جلد سیزدہم) میں مندرج انگریزی الفاظ ملاحظہ فرمائیں (یاد رہے کہ یہاں صرف لفظ ’علم‘ کے ذیل میں درج انگریزی الفاظ کی مثالیں پیش کی جارہی ہیں) :
علم العلاج : THERAPEVTICS
علم اللغات بالمقابلہ : COMPERATIVE PHILOLOGY
علم المعاشرت : SOCIOLOGGY
علم النفس : PHYCHOLOGY
علم آثار قدیمہ : ARCHACOLOGY
علم موسم : MELEROLOGY
علم نقشہ گری : CARTOGGRAPHY
’اردو لغت‘ میں ہر لفظ کی سند میں اساتذہ کی مثالیں پیش کی گئی ہیں لیکن کہیں کہیں ایسی مثالیں بھی درج ہیں جن میں زبان و بیان محلِ نظر ہے،مثلاً لفظ ’شاخ‘ کے ذیل میں درج جدید تر مثال :
شاخ : ایک چڑیا اوپر درخت کی شاخ سے اڑ کر اُس کے اوپر بیٹھ گئی۔ ۱۹۸۳ء ساتواں چراغ (جلد دوازدہم)
اس طرح کی مثالوں سے بہرحال چشم پوشی ہی کرنی چاہیے کیوں کہ اس سلسلے میں اربابِ لغت نے اپنی مجبوری کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے :
’’لفظوں کے استعمال کی مثالوں کے جو تیرہ چودہ لاکھ کارڈ مرتّب کرائے گئے تھے وہ علی العموم ایسی سطح کے لوگوں نے لکھے تھے جنھوں نے املا کی بے شمار غلطیاں کی تھیں اور اقتباسات کی عبارتیں جوں کی توں نقل کرنے کے بجائے جس طرح ان کا جی چاہا نقل کردی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ازسرِنو پریس کاپی تیار کی جانے کی قلیل مدت میں مثالوں کے ہزارہا کارڈوں کا اصل کتابوں سے مقابلہ ممکن نہ تھا۔ بایں ہمہ اسی کم سے کم مدت میں زیادہ سے زیادہ مثالیں ان کے مآخذ سے مقابلہ کرکے درج لغت کی گئیں، جس کے بعد یہ تو اطمینان ہوگیا ہے کہ کوئی مثال غلط درج نہیں ہوئی۔ یہ اور بات ہے کہ کسی مقام پر الفاظ ادھر سے اُدھر ہوگئے ہوں۔‘‘
گویا مثالوں میں لفظوں کا ’اِدھر سے اُدھر ہوجانا‘ کوئی اہم بات نہیں ہے۔ اس طرح کے بیانات سے اردو لغت کا علمی وقار کم ہوتا ہے۔یہ تو محض ضمنی اشارے تھے جن کی طرف خصوصی توجہ ضروری تھی۔ اس مضمون کا بنیادی مقصد اردو لغت کی اہم ترین خصوصیت یعنی ’تاریخی اصول‘ پر چند معروضات پیش کرنا ہے۔ تاریخی اصول سے اصلاً کیا مراد ہے اس کے بارے میں ’اردو لغت‘ سے درج ذیل اقتباسات ملاحظہ ہوں :
’’لفظ کے مفہوم کی ہر شق کے ساتھ اس کے استعمال کی مثالیں ہر دور کے مصنّفین کی تصانیف سے یا اخبارات اور رسائل کے مضامین سے اقتباس کرکے درج کی گئی ہیں ․․․مثالوں کے اندراج میں عموماً قدیم تر اور جدید تر مثالوں کو ترجیح دی گئی ہے تاکہ لفظ کی تاریخ متعین ہوسکے؛ لیکن بعض مقامات پر ابہام سے بچنے کے لیے یا اور کسی مقصد سے اس کے خلاف بھی عمل کیا گیا ہے۔قدامت کے اعتبار سے اس لغت میں تیرہویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک کے ذخیرۂ ادب سے مثالیں درج کی گئی ہیں، اس طرح یہ لغت اردو میں الفاظ کے تقریباً سات سو پچاس (یا اس سے بھی زیادہ) برس کی تاریخ مرتّب کرتا ہے۔‘‘
․․․جہاں تک ممکن ہوا ہے ہم نے اس لغت میں اس کا اہتمام کیا ہے کہ جہاں قدیم ترین یا اولین شہادت، سند یا حوالہ دستیاب نہیں ہوا وہاں جہاں تک رسائی ممکن ہوئی ہے مثالیں فراہم کی گئی ہیں۔ عام طور پر تین مثالوں کو شامل کیا گیا ہے۔ قدیم مثالوں میں قدیم تر اور جدید میں جدید تر مثالوں کو ترجیح دی گئی ہے ․․․
سب سے پہلے تاریخی اعتبار سے اردو ادب کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا۔ تین دور اس لیے کافی سمجھے گئے کہ اردو کوئی کہنہ سال زبان نہیں ہے۔ پہلا دور جسے عمومی طور پر دکنی اردوکا دور کہنا چاہیے، ولی اورنگ آبادی پر ختم ہوجاتا ہے۔ دوسرا دور غالبؔ اور تیسرے دور میں غالبؔ اور اس کے ہم عصروں کے بعد سے لے کر آج تک کے مصنّفین شامل ہیں۔ اس بات کا لحاظ بھی رکھا گیا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو برصغیر کے ہر علاقے کی اردو تصانیف سے استفادہ کیا جائے۔ تقسیم ادوار کے لحاظ سے یہ ضروری تھا کہ ہر لفظ کے ہر معنی کی ہر دورسے کم از کم ایک سند یعنی کل تین سندیں درج کی جائیں اور جہاں تک استعمال میں قدرے تنوع ہو وہاں تین سے زیادہ بھی۔ چناں چہ ممکن حد تک اس کی پابندی کی گئی۔‘‘
درج بالا اقتباسات قدرے طویل سہی لیکن ان سے ’اردو لغت‘ میں ’تاریخی اصول پر‘ مبنی اصول و ضوابط کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ کسی لفظ، ترکیب یا محاورے کے بارے میں یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ یہ لفظ، ترکیب یا محاورہ اردو کے کسی ایک دور سے مخصوص ہے، نہایت مشکل ہے جب کہ امکان یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے بھی وہ لفظ یا محاورہ مستعمل رہا ہو۔ میں پچھلے دس بارہ سال سے فارسی میں اردو محاورات کے تراجم پر مواد اکٹھا کررہا ہوں اور اس دوران اچھے خاصے محاورات جمع ہوگئے ہیں۔ میں نے اپنے کام کے آغاز میں اردو کے کلاسیکی متون سے محاورات تلاش کیے اور بعدمیں اردو کی معروف اور کم معروف لغات سے مقابلہ کیا تو ان میں سے بیشتر ان فرہنگوں میں موجود تھے لیکن بعض محاورے ایسے بھی تھے جو کسی لغت میں درج نہیں تھے۔ آخر میں ’اردو لغت‘ (تاریخی اصول پر) کے مطالعے کا موقع ملا اور میں نے اپنے مطالعے میں ’اردو لغت‘ سے بھرپور استفادہ کیا۔ اگر ’اردو لغت‘ کا مطالعہ نہ کرتا تو شاید بعض محاوروں تک رسائی بھی ناممکن ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’اردو لغت‘ میں ہزاروں کتابوں سے محاورات اخذ کیے گئے ہیں ان میں بہت سے نادر مخطوطات اور کتابیں ایسی ہیں جن کے نام بھی پہلی بار ’اردو لغت‘ کے وسیلے سے معلوم ہوئے جب کہ میں نے تو چند کتابوں کو اپنے مطالعے کی بنیاد بنایا تھا اور میرے پاس ’اردو لغت‘ کے مقابلے میں مٹھی بھر کارڈ ہیں۔
لیکن جب ’اردو لغت‘ سے محاوروں کو نقل کرنا شروع کیا تو حیرت ہوئی کہ بعض محاورے ’اردو لغت‘میں درج ہونے سے رہ گئے ہیں اور چند ایسے محاورے بھی تھے جو ’اردو لغت‘ میں مندرج مثالوں سے قدیم تر تھے۔ اس تبصرے میں ایسے ہی بعض محاورات کی قدیم تر مثالیں پیش کی جارہی ہیں لیکن اس کے باوجود ان مثالوں کو حتمی تصور نہیں کیا جاسکتا۔ تحقیق کی راہیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں اور اس میں حرفِ آخر نام کی کوئی چیز نہیں۔ یہاں اردو لغت سے بطور نمونہ ایک مثال پیش کی جارہی ہے اور اس نمونے کے بعد ایسی قدیم تر مثال بھی درج ہے جو میرے مطالعے میں آئی۔ مضمون میں طوالت سے بچنے کے لیے ’اردو لغت‘ میں درج محاورہ اور مندرج مثال کے شاعر یا ادیب کا نام اوربریکٹ میں سن دیا جارہا ہے اور اس کے بعدقدیم تر مثال دی جارہی ہے جس میں سنین ’اردو لغت‘ سے اخذ کیے گئے ہیں :
اردو لغت (جلد دوم) : آنکھ دکھانا : ف مر؛ محاورہ = آنکھیں دکھانا۔
۱۔ معالج سے آنکھ کا معائنہ کرانا، آنکھ اس غرض سے سامنے کرنا کہ مخاطب اسے دیکھے، آنکھ کی نمائش کرنا:
باغ میں اس کو بہت دھیان ہے خوشی چشمی کا آنکھ نرگس کو ذرا اپنی دکھاتے جانا
۱۸۶۱ء : کلیاتِ اختر، واجد علی شاہ
آنکھ اس ادا سے اس نے دکھائی کہ ہم نے شوقؔ چپکے سے اپنا مے کا بھرا جام رکھ دیا
۱۹۲۵ء : شوق قدوائی
۲۔ چشم نمائی کرنا، غصہ کرنا، ڈرانے دھمکانے کے لیے گھورنا، کڑی نگاہ ڈالنا :
فرشتے آنکھ دکھا کر کسے ڈراتے ہیں قتیل چشم ہیں، مارے ہوئے نظر کے ہیں
۱۸۳۶ء : ریاض البحر
لیکن جب آکے آنکھ دکھاتا ہے قرض خواہ حیلے بہانے پر بھی ہے مجبور آدمی
۱۹۴۴ء : عرش و فرش
۳۔ رُکھائی یا بے مروّتی برتنا :
جب لے چکے دل کو تم تو دکھلائی وہ آنکھ جس آنکھ نے کیفیت سجھائی کیا کیا ۱۸۰۹ء : جرأتؔ
لطف کی پہلے تو امید دلائی اے حر جب پڑا وقت تو اب آنکھ دکھائی اے حر
۱۹۶۳ء : مرثیۂ منظور رائے پوری
۴۔ منع کرنا :
گلشن میں گل سے کر رہی ہے شوخ چشمیاں نرگس کو چل کے آنکھ دکھائیں حضور آپ
۱۸۳۲ء : دیوانِ رندؔ
ساقیا دل میں جو توبہ کا خیال آتا ہے دور سے آنکھ دکھاتا ہے ترا جام مجھے ۱۹۱۵ء : جانِ سخن
۵۔ آنکھوں آنکھوں میں اشارہ کرنا، آنکھ کے اشارے سے بات سمجھانا :
منہ پھیر کے ایک مسکرائی آنکھ ایک نے ایک کو دکھائی ۱۸۳۸ء : گلزارِ نسیم
۶۔ مقابلے میں شکست دینا، زیر کرنا :
راہیِ قمر در نجف تھا جو سفر کو ہر ذرّۂ رہ آنکھ دکھاتا تھا گہر کو ۱۸۹۱ء : مرثیۂ شمیم
’دم خم جوانی کو شرمندہ کرتے تھے بڑھاپے کو آنکھ دکھاتے تھے چہرہ بارعب تھا۔‘ ۱۹۱۲ء : یاسمین
بہ طور جمع :
حضرت دل کیا کرتے ہو شکوہ آنکھیں دکھانے کا ان سے کچھ نہ کہو تقدیر میں جو دیکھنا ہے سو دیکھو تم
۱۸۵۶ء : کلیاتِ ظفرؔ
شوق سے آنکھیں دکھاؤ مجھے کچھ رنج نہیں شعبدہ یہ بھی تو اک گردشِ ایام کا ہے
۱۹۲۱ء : اکبرؔ
درج بالا مثالوں میں ’آنکھ دکھانا‘ کے ذیل میں قدیم ترین مثال جرأتؔ (۱۸۰۹ء) کی دی گئی ہے حالاں کہ اس سے پیشتر بھی یہ محاورہ مستعمل رہا ہے۔ درج ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں :
حاتمؔ (۱۷۷۴ء)
اگر تو آنکھ دکھادے چمن میں نرگس کو تو ایک آن میں یک دست یک قلم نہ رہے
سجادؔ(۱۷۹۲ء)
کیوں دکھاتا ہے آنکھ نرگس کو اور کیا مرگئے ہیں سب بیمار
حسرتؔ جعفر علی (۱۷۸۵ء)
جوں ہی رونے لگا میں دیکھ اس کو بس وُہیں شوخ نے دکھائی آنکھ
اور بہ طور جمع یعنی ’آنکھیں دکھانا‘ کی قدیم ترین مثال ’کلیاتِ ظفر‘ (۱۸۵۶ء) سے اخذ کی گئی ہے جب کہ اس سے پہلے بھی اس محاورے کی مثالیں موجود ہیں :
شاہ قاسم (سراجؔ [۱۷۳۹ء] کا ہم عصر) :
ہمارا طفل دل کرتا ہے شوخی سجن اس کو ذرا آنکھیں دکھانا
حاتمؔ (۱۷۷۴ء) دیوان زادہ :
رہے نئیں ہوش ان میں بات کہنے کا ترے آگے دکھا دے جا کے میخانے میں مستوں کو اگر آنکھیں
میرؔ (۱۸۱۰ء) :
دل کھول کے مل چلیے جو میرؔ سے ملنا ہے آنکھیں بھی دکھاتے ہو پھر منہ بھی چھپاتے ہو
ذوقؔ (۱۸۵۴ء) :
مسجد میں اس نے ہم کو آنکھیں دکھا کے مارا کافر کی دیکھو شوخی گھر میں خدا کے مارا
بہرحال اس طرح کی فروگزاشتوں سے ’اردو لغت‘ جیسی ضخیم اور غیر معمولی لغت کی اہمیت کسی طرح کم نہیں ہوتی، خاص طور پر اس لیے کہ جب بھی ہم برصغیر کی سطح پر اردو کے کسی موضوع پر کام کرنے کا منصوبہ بنائیں گے تو تمام ممکنہ مآخذ کی فراہمی ہمارے سامنے ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ بنی رہے گی۔ پاکستان میں کام کرنے والوں کے لیے ہندوستانی مآخذ اور ہندوستان میں کام کرنے والوں کے لیے پاکستانی مآخذ تک رسائی اکثر انتہائی دشوار اور کبھی کبھی لاینحل مسئلہ بن سکتی ہے اور بنتی ہے جہاں پھر اچھے سے اچھے کام میں اس طرح کی فروگزاشتوں کا در آنا ایک فطری سی بات ہے۔