نئی شاعری کی تحریک
اس کا حل ۱۹۶۰ء میں بعض اہلِ فکرو تخلیق نے تحریک کی صورت میں ڈھونڈا۔انھوں نے ضرورت محسوس کی کہ شاعری کے اسلوبیاتی عمل اور پیمانۂ اظہار میں تبدیلیاں لانے کی تحریک چلائی جائے۔اس تحریک کی کامیابی اورپھیلاؤکے مختلف امکانات پر غور کرنے کے بعد انھیں موضوعاتی شکل دے کر ان پر قلم اٹھایا جائے۔ اس ضمن میں شعراء میں سے سب سے زیادہ بلند آواز میں لسانی تشکیلات کا نعرہ افتخار جالب نے اپنی کتاب ‘‘مآخذ’’ کے دیباچے میں لگایا۔اس مقصد کے تحت لکھے یا لکھوائے گئے مقالات کی تعداد ۲۵ ہے جن معروف اہلِ قلم و دانش نے مقالات لکھے یا ان سے لکھوائے گئے اُن میں ڈاکٹر سید عبد اللہ، ڈاکٹر گوہر نوشاہی، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، احمد ندیم قاسمی، پروفیسر فتح محمد ملک، انیس ناگی، پروفیسر جیلانی کامران، پروفیسر صفدر میر، ظہیر کاشمیری اور افتخار جالب کے نام شامل ہیں۔ ان تمام مقالات کو افتخار جالب نے “نئی شاعری” کے نام سے کتابی شکل دی۔ افتخار جالب کی اس کتاب اور ان کے شعری مجموعے ’’مآخذ‘‘ کے دیباچے کو لسانی تشکیلات کی تحریک کے اصل مقصد و مدعا کی تفہیم کے حوالے سے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
۱۹۵۸ءکے مارشل لاء ۱۹۶۵ءکی پاک بھارت جنگ اور لسانی تشکیلات کی تحریک سے شاعری کے رائج اسلوب و الفاظ اور مقبول نظریات کے خلاف ایک زبردست رد، عمل سامنے ٓیا جس سے نہ صرف نئی بحثوں کا آغاز ہوابلکہ غزل کی ہیٔت و مستقبل کے بارے میں بعض تنقیدی حلقوں کی طرف سے خدشات کا اظہار بھی کیا گیا۔ کم و بیش یہی صورت حال ستر(۷۰ء) کی دہائی میں بھی برقرار رہی۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلی سیاسی گھٹن، سماجی بے ضابطگیاں ، ادبی سطح پر ہیئت واسلوب کے مروجہ معیارات سے انحراف، رائج لسانی و شعری ڈھانچوں میں توڑ پھوڑ جیسے رویوں نے مجموعی طور پرساٹھ کی دہائی کے تاثر کو جدلیاتی رنگ دیا۔
فنی سطح پر ساٹھ اورستر کی دہائیوں میں جو نمایاں تبدیلیاں ہوئیں ان میں اول تو نئی لسانی تشکیلات کے اثرات ہیں جن کے تحت فارسی مزاج کی بجائے اردو کا پاکستانی مزاج
وجود میں آیا۔تراکیب سے گریز اور اضافتوں سے بچنے کی شعوری کوششوں نے شاعری کی
زبان کو خاصا تبدیل کر دیا۔
(رشید امجد، ڈاکٹر، پاکستانی ادب کے نمایاں رجحانات[مضمون]، مشمولہ:پاکستان میں اردو ادب کے پچاس سال، مرتب: ڈکٹر نوازش علی، اشاعت دوم ۲۰۰۲ء، گندھارا، سید پور روڈ راولپنڈی، ص ۲۳)
لسانی تشکیلات کی تحریک سے محض دو سال پہلے یعنی۱۹۵۸ء کے مارشل لاء نے آزادئ فکر و قلم قدغن لگانے کی کوشش کی جسکے نتیجے میں ادیبوں کے ہاں علامتوں اور استعاروں میں بات کرنے کا رجحان فروغ پایا۔ فرد اپنے آپ کو ہر میدان میں محبوس اور مقید محسوس کرنے لگا۔ اظہار کے نئے طور طریقوں اور بیان کے جدید و موثر انداز اپنانے کی شعوری کوششیں عمل میں آنے لگیں۔ اہلِ فن و قلم کے ہاں اظہار کا ایمائی انداز پیدا ہو گیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو غزل میں ترقی پسند تحریک کے زیرِاثرجو راست طرزِاظہار رواج پا گیا تھا وہ مائل بہ زوال ہونے لگا۔تمثال کاری، علامت سازی اور علامتوں کے استعمال کا رجحان فروغ پانے لگا۔اس صورت حال کا مجموعی فائدہ اردو غزل کو یہ ہوا کہ اس کی رمزیت و ایمائیت اور اشاریت کو تقویت ملی جو کہ غزل کی داخلی اور خارجی جہات کو مزید نکھارنے اور چمکانے کا سبب بنی۔
اردوغزل کے اسلوب، موضوعات اور ڈکشن میں تغیر ضرور پیدا ہوا۔ ڈاکٹر رشید امجد نے اپنے مضمون”پاکستانی ادب کے نمایاں رجحانات” میں لکھا ہے :
۱۹۶۰ء کے قریب نئی لسانی تشکیلات کی بحث نے نظم کو زیادہ اور اس کے بعد افسانے کو
متاثر کیا۔غزل پر یہ اثر قدرے کم پڑا۔
(رشید امجد، ڈاکٹر، پاکستانی ادب کے نمایاں رجحانات [مضمون]، مشمولہ:پاکستان میں اردو ادب کے پچاس سال، مرتب: ڈکٹر نوازش علی، اشاعت دوم ۲۰۰۲ء، گندھارا، سید پور روڈ راولپنڈی، ص ۲۳)
ادبی سطح پر موضوعات و اسلوب دونوں میں تبدیلیاں واقع ہونے لگیں۔ غزل میں جدید موضوعات کو نئے عہد کے اسلوب بیان کے مطابق برتنے کا رجحان فروغ پانے لگا ہے۔ پاکستان میں بعض تخلیقی ادیبوں نے اپنے مشاہدات اور مافی الضمیرکے اظہار کے لیے نظم و غزل کے قدیم رائج الوقت لسانی پیمانوں میں بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس کی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ ہم جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ ایک خاص قدیم لسانی ڈھانچے کے مطابق ہے۔یہ قدیم لسانی پیمانہ صدیوں پہلے وجود میں آیا تھا اور صدیوں سے اس نے اردو شاعری کو خاص طور پر اردو غزل کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اس لسانی ڈھانچے کے سامنے آج کا شاعر مجبور ہے کہ وہ اپنے دور کے احساسات و مشاہدات و جذبات کواُس شکل و صورت اور ہیئت و لفظیات میں پیش کرے جو اسے قابلِ قبول ہو۔
افتخار جالب کے نزدیک شعر و ادب کی لسانیات کی از سر نو تشکیل اس لیے ضروری تھی کہ اب تک کی رائج الوقت زبان پر گرامر کی حکمرانی رہی ہے۔ بے شمار تبدیلیوں سے ہمکنار ہونے والی اردو مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے آج جبکہ ہمارے درمیان ہے تو تبدیلی کا یہ عمل رکنا نہیں چاہیے۔ زبان میں موجود تمام مواد کونئے سرے سے منظم ومربوط طور پربروئے کار لایا جانا چاہیے تاکہ شعر و ادب کی لسانیات میں وسعت آجائے۔ ان کے شعری مجموعے “مآخذ”کے دیباچے سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے :
شعروادب پر کب تک گرامروالے حکمران رہیں گے۔ ان سے نجات حاصل کرنا ہی چاہیے۔ وہ زبان جو ادبی وراثت میں مختلف ادوار کی ٹھوکروں ، ترقیوں ، پابندیوں اور زیبائش وآرائش سے مختلف طبائع کی ہنگامہ پروری، کور ذوقی یا خوش ذوقی سے ، تخریب، تعمیر، محنت، دسترس، نارسائی، کم فہمی اور ہیچ مدانی سے اور سننے والوں کی اجتماعی تلازماتی کیفیتوں ، گردوپیش، رنگارنگیوں ، طوائف الملوکیوں ، پریشانیوں اور مختلف مقامی اور غیر ملکی وسیلوں ، امنگوں ، سانچوں ، حکائتوں ، داستانوں اور ضرب المثلوں سے ہم تک پہنچی ہے اسے بعینہ برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔۔۔ لسانی طور پر جذب شدہ تمام مواد جب نئے سرے سے منظم ہوگا اور آج کی معنویت قبول کرے گا تو نئے راہیں کھلیں گی۔ نئی آواز اور پرانی سرگوشیوں کے ربط باہم سے جذبات کی لسانی حدود ایک نئے وسعت سے ہمکنار ہوں گی۔
(افتخار جالب (دیباچہ)، مآخذ، مکتبہ ادب جدید، لاہور، س ن، ص ۱۳)
متذکرہ بالانقطۂ نظرنے پاکستانی اردونظم اور افسانے پرواضح اثرات مرتب کیے۔۔ ‘‘اگرچہ افتخار جالب کی یہ تحریک اپنی شدت کے باعث کامیاب نہ ہو سکی تاہم غزل پر اس تحریک کے اثرات پڑے۔
(ارشد محمود ناشاد، ڈاکٹر، اردو غزل کا تکنیکی، ہیٔتی اور عروضی سفر، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۲۰۰۸، ص۲۴۷)
اس تحریک سے بعض ادیبوں میں احساس کی کم از کم زیریں سطح پرزبان سازی اور لسانی تشکیلات کی ایک لہر ضرور پیدا ہوئی۔شعری زبان اور ڈکشن کی تشکیل ِنو کا ایک احساس جزوی طور پر پاکستانی غزل کو ضرور عطا کیا۔ لسانی و فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو لسانی تشکیلات کی تحریک نے غزل کی پرانی لغت میں نئے الفاظ کی شمولیت نے بھی غزل کی زبان کو وسعت دی۔امیجز، پیکر تراشی اور تمثال کاری نے پرانے استعاراتی نظام کو یکسر بدل دیا۔
(رشید امجد، ڈاکٹر، پاکستانی ادب کے نمایاں رجحانات[مضمون]، مشمولہ: پاکستان میں اردو ادب کے پچاس سال، مرتب: ڈکٹر نوازش علی، اشاعت دوم ۲۰۰۲ء، گندھارا، سید پور روڈ راولپنڈی، ص ۲۳)
چنانچہ بعض شعرا کے یہاں اس نقطۂ نظر کو شعوری طور پر اپنانے کا رویہ بھی سامنے آیا اور کچھ کے یہاں لسانی تشکیلات کی ایسی صورتیں بھی پیدا ہوئیں جو ناقابلِ قبول حد تک نامانوس نہیں۔
ظفر اقبال کے شعری مجموعے ‘‘ گلافتاب’’ میں کیے گئے شاعرانہ تجربات اس ضمن میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ یہ تجربات خود ظفر اقبال کے بقول سیلف پیروڈائزیشن کی ایک صورت تھی۔
( ظفر اقبال، شاعری میں کومک ریلیف کا معاملہ (مضمون) مطبوعہ: (سہ ماہی) ادبیات، جلد ۱۸، شمارہ: ۷۶، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۷ء، ص۹۷)
سلیم احمد کے ہاں غزل کے جارحانہ انداز و آہنگ اور انجم رومانی کی غزل میں لفظیاتی اتار چڑھاؤ نیز جلیل الدین عالی کی غزلوں میں ‘‘فکِ اضافت’’ کی جو صورتیں ظہور پذیر ہوئیں انھیں بھی لسانی تشکیلات کی تحریک کے بنیادی مدعا کے تناظر میں دیکھنا بے جا نہ ہوگا۔
ظفر اقبال کا شعری مجموعہ ‘‘گلافتاب’’ لسانی تشکیلات کے حوالے سے قابلِ توجہ ہے۔ اس مجموعے میں شاعر نے شعوروادراک کی سطح پر شعری لسانیات اور زبان کے رائج الفاظ واسلوب میں تصرف کیا ہے۔اس تصرف کو ظفر اقبال نے باقاعدہ طور پر نظریاتی اساس بھی فراہم کی۔ان کا نقطۂ نظر اس حوالے سے یوں سامنے آیا۔
جن چشموں سے اس(اردو) زبان نے ابتدا میں توانائی حاصل کی اورجو ایک مدت تک اس پر روک دیے گئے تھے، میں نے انھیں پھر سے رواں کر دیا ہے کچھ کُلیوں کا احیا کیا ہے، کچھ وضع کیے ہیں۔
(ظفر اقبال، (فلیپ) گلافتاب، گورا پبلشرز لاہور، بار دوم ۱۹۹۵ء)
’’گلافتاب‘‘میں اضافت کے رائج طریقے، مصادر کی بناوٹ کے مرسوم پیانہ اور بعض لسانی اصولوں سے انحراف کی واضح صورتیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ شاعر پورے شعور وادراک کے ساتھ لسانی تشکیلات کے عمل کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ‘‘گلافتاب’’ لسانیات کی اصطلاح میں ایک ایسا لفظ ہے جسے Portmenseauکہا جاتا ہے۔ اس میں در اصل دو مختلف لفظ آپس میں مل کر مرکب بننے کے بجائے ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک نیا لفظ بنا لیتے ہیں۔ ادغام کے اسی عمل سے ظفر اقبال نے استفادہ کیا اور اردو میں لفظ سازی کی سعی کی۔ادغام کایہ عمل عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے حوالے سے بھی نامانوس نہیں۔
ظفر اقبال نے اپنے لسانی تجربات کے لیے جو تخلیقی مساعی کیں ان میں پہلی قابل ذکر کوشش فکِ اضافت ہے۔ (ارشد محمود ناشاد، ڈاکٹر، اردو غزل کا تکنیکی، ہیٔتی اور عروضی سفر، مجلس ترقی ادب ، لاہور ، ۲۰۰۸ء، ص ۱۷۶)
الف کو حرف اضافت کے طور پر استعمال کرنا کسی لسانی اصول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ظفر اقبال کے ہاں یہ رویہ بھی نظر آتا ہے مثلاً
سیدھے سیدھے شعر کہتے سب کو خوش آتے ظفر
کیا کیا جائے کہ اپنی عقل میں افتور تھا
۔۔۔
ویراں تھی رات چاند اپتھر سیاہ
تھایا پردۂ نگار سراسر سیاہ تھا
الف کا بطور حرف اضافت استعمال کسی لسانی اصول کے پیش نظر نہیں کیا گیا اور یہ زبان کی شکست و ریخت کے سلسلے میں ایک انتہا پسندانہ رویہ ہے۔
(ارشد محمود ناشاد، ڈاکٹر، اردو غزل کا تکنیکی، ہیٔتی اور عروضی سفر، مجلس ترقی ادب ، لاہور ، ۲۰۰۸ء، ص ۱۷۶)
یہاں اس نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ متذکرہ بالا رویہ اردو ہی کے ایک شاعر کا رویہ ہے۔شاعر اپنی زبان کے ساتھ بقولِ شمس الرحمن فاروقی اس طرح کھیل سکتا ہے جس طرح بچہ اپنی ماں کے بدن سے کھیل سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر وہ زبان میں تشدد اور توڑ پھوڑ بھی روا رکھتا ہے۔ (فاروقی، شمس الرحمن، طبع رواں منظر معنی اور بے شمار امکان(مضمون)، مشمولہ: اب تک،[کلیات ]ظفر اقبال، ص ۳۸)
اس میں شبہ نہیں کہ لسانی تشکیلات کے تجربات کے نتیجے میں کچھ ایسی صورتیں بھی سامنے آئیں جو غزل کے قارئین و ناقدین کے لیے نامقبول رہیں تا ہم مجموعی طور پر ان لسانی تجربوں نے اردو غزل کو فائدہ پہنچایا اور اسے اظہار کی نئی صورتوں سے روشناس کرایا۔ان تجربات کے نتیجے میں جدید غزل کو بیان کے وہ قرینے میسر آئے جن کے ذریعے اسے ماحول کی استبدادیت، سیاسی انتشار، سماجی گھٹن، اخلاقی قدروں کے زوال اور جنسی و معاشی مسائل جیسے موضوعات کوتمام تر شدتوں کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت حاصل ہوئی۔
***
تحریک اربابِ ذوق
حلقہ ارباب ذوق اردو ادب کی سب سے فعال تحریکوں میں سے ایک ہے جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔
بقول یونس جاوید:
”حلقہ اربابِ ذوق پاکستان کا سب سے پرانا ادبی ادارہ ہے یہ مسلسل کئی برسوں سے اپنی ہفتہ وار مٹینگیں باقاعدگی سے کرتا رہا ہے۔ جنگ کا زمانہ ہویا امن کا دور اس کی کارکردگی میں کبھی فرق نہیں آیا“
ایک اور جگہ یونس جاوید لکھتے ہیں:
” حلقہ اربابِ ذوق ایک آزاد ادبی جمہوری ادارہ ہے اور بحیثیت تنظیم اس کا تعلق کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے نہیں۔“
بقول سجاد باقر رضوی:
” حلقہ اربابِ ذوق ایک مدت مدید سے ادبی خدمات کرتا چلا آیا ہے۔
ادیبوں کی یہ جماعت ملک کی وہ جماعت ہے جو ادب اور ثقافت کو پروان چڑھاتی رہی ہے۔“
ترقی پسند تحریک اردو ادب کی ایک طوفانی تحریک تھی اس تحریک نے بلاشبہ خارجی زندگی کا عمل تیز کر دیا تھا چنانچہ اس تحریک کے متوازی ایک ایسی تحریک بھی مائل بہ عمل نظر آتی ہے جس نے نہ صرف خارج کو بلکہ انسان کے داخل میں بھی جھانک کر دیکھا جس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق“ ہے۔ حلقہ اربابِ ذوق اور ترقی پسند تحریک کو بالعموم ایک دوسرے کی ضد قرار دیا جاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ داخلیت اور مادیت و روحانیت کی بنا پر ان دونوں میں واضح اختلاف موجود ہے۔ ترقی پسندوں نے اجتماعیت پر زور دیا جبکہ حلقے والوں نے انسان کو اپنی شخصیت کی طرف متوجہ کیا، ایک کا عمل بلا واسطہ خارجی اور ہنگامی تھا جبکہ دوسری کا بلا واسطہ داخلی اور آہستہ ہے۔
آغاز
29 اپریل 1939ء کو سید نصیر احمد جامعی نے اپنے دوستوں کو جمع کیا جن میں نسیم حجازی، تابش صدیقی، محمد فاضل وغیرہ شامل ہیں اور ایک ادبی محفل منعقد کی۔ نسیم حجازی نے اس میں ایک افسانہ پڑھا اور اس پر باتیں ہوئیں اس کے بعد اس محفل کو جاری رکھنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا اور رسمی طور پر اس کا نام ”مجلس داستان گویاں‘’ رکھ دیا گیا بعد میں اس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق“ رکھ دیا گیا۔
اغراض و مقاصد
قیوم نظر نے اپنے انٹرویو میں اس تحریک کے جو اغراض و مقاصد بیان کیے گئے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
*1 اردو زبان کی ترویج و اشاعت
*2 نوجوان لکھنے والوں کی تعلیم و تفریح
*3 اردو لکھنے والوں کے حقوق کی حفاظت
*4 اردو ادب و صحافت کے ناسازگار ماحول کو صاف کرنا
ادوار
1 ابتدا سے میراجی کی شمولیت تک ( اپریل 1939ء سے اگست 1940ء تک)
2 میراجی کی شمولیت سے اردو شاعری پر تنقید کے اجرا تک (اگست 1940ء سے دسمبر 1940ء تک)
3 دسمبر 1940ء سے 1947ءمیں قیام پاکستان تک
4 1947 سے مارچ 1967ء میں حلقے کی تقسیم تک
5 مارچ 1967ء سے زمانہ حال 1976ء تک
پہلا دور
پہلے دور کی حیثیت محض ایک تعارفی دور کی ہے۔
دوسرا دور
دوسرا دور تشکیلی نوعیت کا ہے اس میں مضامین پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور حلقے کی مجالس میں تخلیقات کے لیے نئے تجربے پیش کرنے کا آغاز ہوا۔
تیسرا دور
تیسرا دور خاصا طویل ہے اس دور میں حلقے نے ایک منظم اور فعال تحریک کی صورت اختیار کی۔ حلقے کا نظریہ یہ تھا کہ ادب زندگی سے گہرا تاثر لیتا ہے۔ اس دور میں حلقے نے زندگی کی ان قدروں کو اہمیت دی جن کی صداقت دوامی تھی۔ اس کے علاوہ ادیب کو تخلیقی آزادی دی گئی۔ حلقے نے زندگی کے ساتھ بالواسطہ تعلق قائم کیا۔ اس دور میں جس بحث نے سب سے زیادہ اہمیت حاصل کی وہ ”ادب برائے ادب“ اور ”ادب برائے زندگی“ کی بحث تھی۔ اس دور میں نہ صرف شاعری نے ترقی کی بلکہ افسانے کی صنف میں بھی واضح تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے۔ تحریک کی تاثریت، علامت نگاری، وجودیت، وغیرہ کو جن سے ترقی پسند تحریک گریزاں تھی حلقہ اربابِ ذوق کے ادبا نے ہی اردو سے روشناس کرایا، تنقید کو اہمیت دی اور نئی نظم کی تحریک کو پروان چڑھایا۔
چوتھا دور
چوتھا دور 1947ء سے 1967ء تک پھیلا ہوا ہے۔ اس دور میں میراجی کی وفات ایک ایسا واقعہ ہے جس نے حلقہ ارباب ذوق کو شدت سے متاثر کیا حلقہ اس مرکزی فعال شخصیت سے محروم ہو گیا اب حلقے پر روایت کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ ہفتہ وار مجالس میں تنقید کا رخ ذاتیات کی طرف مڑنے لگا اس لیے جب ادبا کے احتساب، جواب طلبی اور خراج کا سلسلہ شروع ہوا تو حلقے کی تحریک بلا واسطہ طور پر متاثر ہونے لگی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی سیاسی پابندی نے بھی حلقے کو براہ راست متاثر کیا اس کے علاوہ نظریاتی تنقید کے برعکس عملی تنقید کا دور دورہ شروع ہونے لگا۔ ترقی پسند تحریک پر پابندی کے بعد ایک مرتبہ پھر ترقی پسند ادبا کی توجہ حلقے کی طرف مبذول ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حلقے پر ترقی پسند ادبا کا سیاسی تسلط آہستہ آہستہ مستحکم ہونے لگا اور پھر ادب کا فریم آہستہ آہستہ شکستہ ہو گیا اور اس کی بجائے سیاست کا فریم روز بروز مضبوط ہونے لگا۔ چنانچہ جب ادب پر سیاست غالب آگئی تو حلقہ دو الگ الگ حصوں میں بٹ گیا چنانچہ حلقے پر قابض انقلابی گروہ کو ”حلقہ اربابِ ذوق سیاسی“ کا نام دیا گیا اور دوسرا ”حلقہ اربابِ ذوق ادبی“ کہلانے لگا۔
حلقہ ارباب ذوق سیاسی
حلقہ اربابِ ذوق سیاسی نے تین سالوں میں حلقے کی قدیم روایت کو توڑنے اور نئی اقدار کو بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ ان کا نقطہ نظر مارکسی نظریات سے ماخوذ تھا اس لیے بدلے ہوئے حالات میں اس خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی اور حلقہ اربابِ ذوق میں ایک ایسی تحریک پیدا ہوئی جسے نو ترقی پسندی سے موسوم کرنا درست ہے۔ چنانچہ بہت سے نوجوان ادبا جو ابھی تک اپنے نظریات کی جہت متعین نہیں کر سکے تھے اس نئی تحریک میں شامل ہو گئے ان میں افتخار جالب کو اہمیت حاصل ہے۔ نو ترقی پسند ی کی تحریک شروع ہوئی تو انہوں نے نہ صرف اس تحریک میں شرکت اختیار کی بلکہ اپنے پرانے نظریات اور تخلیقات سے دست برداری کا اعلان بھی کر دیا۔ حلقے نے ترقی پسندی کو بالخصوص فروغ دیا چنانچہ اس دور میں حلقے نے قومی اور بین الاقوامی موضوعات کو زیادہ اہمیت دی۔ مباحثوں میں چونکہ سیاست کو بالخصوص توجہ حاصل ہوئی اس لیے اکثر اوقات تنقید نے ہنگامی حالات اختیار کر لیے۔ سیاسی حلقہ اربابِ ذوق کا کارنامہ ہے کہ اس نے بن لکھے دستور پر عمل کی روایت کو ختم کر دیا اور حلقے کے لیے ایک تحریری آئین منظور کروایا۔ اس دور میں سیاسی حلقے کا ایک اور کارنامہ وسیع المقاصد کا انعقاد بھی ہے۔ مندرجہ بالا بحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلقہ اربابِ ذوق سیاسی کا کردار بنیادی طور پر انقلابی ہے اور اس کے نظریات میں مادی خارجیت کو اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ اب اس تخلیقی عمل سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے سیاست کے عمل کا تابع ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں (72۔ 75) میں حلقہ ارباب ِ ذوق سیاسی نے نئے انقلابی اقدامات سے قدیم حلقے کی بیشتر روایات توڑ دیں لیکن تاحال کسی نئی روایت کو جنم نہیں دیا۔
حلقہ اربابِ ذوق ادبی تحریک
(1967ء تا 1975ء)
متذکرہ بالا تین سالوں میں ادبی حلقے نے پرانی روایات کو قائم رکھنے کی کوشش کی تاہم ایک بڑے ”کل“ سے کٹ جانے کے بعد ذاتی رنجشوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا ادبی حلقہ ان سے اپنا دامن نہیں بچا سکا۔ اس کوئی شک نہیں کہ ادبی حلقے کے ہفتہ وار اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہوئی چنانچہ ایک حلقے کے ادبا دوسرے حلقے میں بالعموم شریک ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ ادیب ایک حلقے میں غزل پڑھتا ہے اور اسی روز دوسرے حلقے میں نظم سنا آتا ہے شرکاء محفل کے وقت کا نصف اول ایک حلقے میں اور نصف ثانی دوسرے حلقے میں صرف ہوتا ہے اور سربرآوردہ ادبا بلا تخصیص دونوں حلقوں کی صدارتیں قبول کر لیتے ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ نظریاتی اختلاف کے باوجود دونوں حلقے ایک دوسرے کے ادبی حریف نہیں بن پائے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ادب میں آگے بڑھنے اور نیا نکتہ پیدا کرنے کا رجحان فروغ نہیں پاسکا۔ اس لیے ادبی حلقے کو سیاسی حلقے سے ممیز کرنا ممکن نہیں رہا اور اب یہ کہنا درست ہے کہ حلقے کی تقسیم نے ادب کو فائدہ پہنچانے کی بجائے نقصان پہنچایا۔ اور ادبا نہ صرف اپنی ذاتی پہچان سے محروم ہو رہے ہیں بلکہ اس گرد آلود فضا میں ان کا ادب بھی گدلا ہو رہا ہے۔ بلاشبہ حلقہ اربابِ ذوق میں ضابطے کی کارروائی تو اب بھی مکمل ہو رہی ہے لیکن مجموعی اعتبار سے اس فعال تحریک پر جمود اور یکسانی کی کیفیت طاری ہے اور اب یہ کسی نئے مرد راہ کی تلاش میں ہے۔
حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری
شاعری کے حوالے سے حلقہ اربابِ ذوق کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ بلاشبہ حلقے نے نئی نظم کو فروغ دینے میں قابل قدر خدمات سر انجام دی۔ حلقہ اربابِ ذوق کی ابتداءافسانہ خوانی سے ہوئی تھی میراجی نے اس کا رخ تنقید کی طرف موڑا۔ حلقے کے رفقاءمیں یوسف ظفر، قیوم نظر، تابش صدیقی اور حلقے کی مرکزی شخصیت میراجی کا شمار نئے شعراءمیں ہوتا ہے۔ اس لیے بہت جلد حلقے کا رخ شاعری کی طرف ہو گیا۔ حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری میں بنیادی اہمیت اس حقیقت کو حاصل ہے کہ شاعر خارج اور باطن دو دنیائوں میں آہنگ اور توازن کس طرح پیدا کرتا ہے۔ حلقے نے داخل کے اس نغمے کو جگانے کی کوشش کی اس لیے اس شاعری میں مشاہدے کی جہت خارج سے داخل کی طرف سفر کرتی ہے۔ چنانچہ حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری درحقیقت دھندلے اجالے سے حسن، نغمہ اور سحر پیدا کرنے کی شاعری ہے۔
جاری ہے