نیاز فتح پوری
نیاز فتح پوری کے افسانے اس بناوٹی وجود اور غیر حقیقی زندگی کی سب سے بڑی مثالیں ہیں”شاعر کا انجام “ ”شباب کی سرگزشت“ کے طرز تحریر اور اسلوب فکر میں ”گیتانجلی “ سکے روحانی ہم آہنگی جاتی ہے۔ وہی شکل وہی انداز بیان اور تمناپسندی، وہی بات سے بات پر وجد کرنے اور ہرچیز کو اس طرح دیکھنے کی کوشش جیسے اس کا ماورائی وجود ہے اور وہی حسن و عشق کے بارے میں فلسفیانہ طرز خیال۔ ان سب چیزوں نے اردو افسانہ کو بڑی مدت تک متاثر رکھا ہے۔
ان کی ابتدائی تحریروں میں رومانیت کا غلبہ ہے۔ ارضی چیز نہیں ملتی، ماروائی چیزیں ملتی ہیں۔ کردار نگاری میں بھی ماورائی یکسانی ملتی ہے۔ ان میں عام انسانی کردار وں کی نوک پلک انداز و ادا اور ارتقاءنہیں ملتا۔ شروع سے لے کر آکر تک ایک بنیادی نغمہ ہے جو شخصیت پر حاوی ہے۔ ان کا پنا کوئی لہجہ زبان اور اندازِگفتگو نہیں۔ یہ سب نیاز کی سجی سجائی بے حد ادبی زبان ہے۔ اندا ز بیان کا انداز مکالموں کی عبارت سے ہوتا ہے۔ یہ نثر غالب، بیدل ذدہ شاعری کے مماثل ہے۔ مناظر فطرت کا بے حد جذباتی بیان اور وفور شوق، تشبیہ اور استعارے کی بہتا ت کے ساتھ ملتا ہے۔
حجاب امتیاز علی
حجاب امتیار علی کی شعریت اس سے بھی زیادہ آراستہ اور ماورائی ہے اور اس میں جذبات کیفراوانی اور حسن معصوم کی دلکشی ہے۔ ان کے ہاں تحیر کا عنصر ہے۔ حجاب کی کہانیاں ایک خاص انداز میں واحد متکلم کے صیغے میں لکھی گئی ہیں اور ان کے سب کردار کم و بیش جانی پہچانی شخصیتیں ہیں۔ روحی ان کا اپنا نام ہے جسے وہ ارضی سرزمین کی خوشگوار سیاحت میں ساتھ رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر یزدانی، شہزادہ مشہدی ایسے نام ہیں جو ان کے قاری کے دوست اور آشنا ہوں۔
مجنوں گورکھ پوری
مجنوں گورکھپوری نے نیاز فتح پوری کے زیرا ثر افسانہ نگاری شرو ع کی۔ ان کا سب سے پہلا افسانہ ”زیدی کا حشر، ہے جو شہاب کی سرگزشت سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مجنوں کے افسانوں میں رومانیت کی ایک سنبھلی ہوئی شکل ملتی ہے۔ اس میں جذبے کے وفور کے ساتھ ساتھ تشکیک کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ دوسرے رومانوی ادیبوں کی طرح مجنوں گورکھپوری کے کردا ر بھی غیر دلچسپ کاروباری دنیا میں گھری ہوئی اجنبیت ار تصور پرست روحیں ہیں جو یہاں خواب دیکھنے آتی یں اور جن کی تعبیر میں درد و الم کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ان کے ہاں جذبہ ہے جو ناکامیوں سے تھک کر خود اپنے آپ کو تباہ کر لیتا ہے۔ ان کا ہیرو وقت سے پہلے جوان ہو گیا ہے۔ اور جب وہ اپنے معصوم تصورات کو شکست ہوتے دیکھتا ہے تو خود بھی اپنے آپ کو تکلیف دینے اور عذاب میں مبتلا کرنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ یگانہ، ثریا، ناصری ،سب اپنی شکست کی آوازیں ہیں۔ مجنوں کی کہانیوں میں محبت، ناکامی کا دوسرا نام ہے جس کی سزا اور پاداش سوائے گھل گھل کر مرنے کے اور کچھ نہیں۔
غرض یہ کہ مجنوں کا انداز ِبیان نیاز اور خلیقی دونوں سے زیادہ سلجھا ہوا ہے۔ اس میں دشوار شاعرانہ نثر کی فراوانی نہیں۔ وہ قصے بیان کے انداز میں لکھتے ہیں۔ لیکن بات بات میں شعرپڑھنا اور موقع بے موقع اشعار نقل کرنا ان کے رومانوی طرز تحریر کی خصوصیت ہے۔ اکثر ان کے کردار اشعار میں گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے افسانے جذباتی سپردگی کے آئینہ دار ہیں، جنہوں نے اردو افسانہ نگاری پر بڑا اثر ڈالا ہے۔
اس کے علاوہ ناول کے حوالے سے قاضی عبدالفغار نے رومانوی طرز کو نئے حسن سے آشنا کیا۔ “لیلی کے خطوط” فنی حیثیت سے نال نہیں کہلا سکتے ہیں۔ لیکن ان میں جذبات کی فروانی اور خطابت کا جوش ہے اور اس لحاظ سے وہ مکمل رومانوی تخلیق ہیں۔
انجمن پنجاب تحریک
سال1857کے ہنگامے کے بعد ملک میں ایک تعطل پیدا ہو گیا تھا۔ اس تعطل کودور کرنے اور زندگی کو ازسر نو متحرک کرنے کے لیے حکومت کے ایماءپر مختلف صوبوں اور شہروں میں علمی و ادبی سوسائٹیاں قائم کی گئیں ہیں۔ سب سے پہلے بمبئی، بنارس ،لکھنؤ، شاہ جہاں پور، بریلی اور کلکتہ میں ادبی انجمنیں قائم ہوئیں۔ ایسی ہی ایک انجمن لاہور میں قائم کی گئی جس کا پور ا نام ”انجمن اشاعت مطالب ِ مفیدہ پنجاب “ تھا جو بعد میں انجمن پنجاب کے نام سے مشہور ہوئی۔
انجمن کا قیام جنوری 1865ءمیں عمل میں لایا گیا۔ اس انجمن کے قیام میں ڈاکٹر لائٹر نے نمایاں خدمات انجام دیں۔ لاہور میں جب گورنمنٹ کالج لاہور قائم ہواڈاکٹر لائٹر اس کالج کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر لائٹر کو نہ صرف علوم مشرقی کے بقاءاور احیاءسے دلچسپی تھی بلکہ انہیں یہ بھی احساس تھا کہ لارڈ میکالے کی حکمت عملی کے مطابق انگریزی زبان کے ذریعے علوم سکھانے کا طریقہ عملی مشکلات سے دوچار تھا۔ ان باتوں کی بناءپر ڈاکٹر لائٹر نے اس خطے کی تعلیمی اور معاشرتی اصلاح کا فیصلہ کیا۔ اور انجمن اشاعت مطالب مفیدہ پنجاب کی داغ بیل ڈالی ۔
مقاصد۔ رکنیت
انجمن پنجاب کے پہلے جسلے میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی وہ سرکاری ملازم، روسا ءاور جاگیردار وغیر ہ تھے۔ لیکن جلد ہی اس کی رکنیت عام لوگوں کے لیے بھی کھول دی گئی۔ اس انجمن کے اعزازی دائمی سرپرست پرنس آف ویلز تھے جب کہ سرپرست گورنر پنجاب تھے۔ اس انجمن کے اراکین کی تعداد 250 تھی ۔
انجمن کے جلسے
انجمن کا اہم کام مختلف مضامین پر ہفتہ وار مباحثوں کا سلسلہ شروع کرنا تھا۔ چنانچہ جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو یہ اس قدر کامیاب ثابت ہوا کہ اس کی بازگشت سرکاری ایوان میں بھی سنی جانے لگی۔ اس انجمن کے جلسوں میں پڑھے گئے مضامین پر بحث و نظر کی عام اجازت تھی۔ جب کہ انجمن پنجاب کا جلسہ خاص بالعموم انتظامی نوعیت کا ہوتا تھا۔ اور اس میں صرف عہدہ دار شریک ہوتے تھے۔ لیکن جلسہ عام میں شریک ہونے اور دانشوروں کے مقالات سننے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ اس لیے انجمن پنجاب کی تحریک میں زیادہ اہمیت جلسہ عام کو حاصل تھی۔ اس انجمن کے ابتدائی جلسوں میں مولوی محمد حسین آزاد، پنڈت من پھول، ڈاکٹر لائٹز، بابو نوبین چندر رائے، بابو شاما چرن، مولوی عزیز الدین اور پروفیسر عملدار حسین وغیرہ نے مضامین پڑھے۔ ان میں سے بیشتر مضامین انجمن کے رسالے میں طبع ہوئے۔
محمدحسین آزاد انجمن کے لیکچرز
انجمن کے جلسوں میں جو دانشور مضامین پڑھتے تھے، ان میں سے سب سے زیادہ مضامین محمد حسین آزاد کے پسند کیے گئے۔ اس لیے ڈاکٹر لائٹز نے انہیں انجمن کے خرچ پر مستقل طور پر لیکچرر مقرر کرنے کی تجویز منظور کروائی۔ جب محمد حسین آزاد کا تقرر اس عہدے پر کیا گیا۔ تو آزاد نے موثر طور پر اپنے فرائض ادا کیے اور انجمن پنجاب کو ایک فعال تحریک بنا دیا۔ بحیثیت لیکچرار انجمن پنجاب میں محمد حسین آزاد کے ذمے یہ فرائض تھے کہ جو مضامین جلسوں میں پڑھے جانے والے پسند کیے جاتے تھے ان کو عوام میں مشہور کرنا، ہفتے میں دو تین لیکچر کمیٹی کے حسب منشاءپڑھنا، تحریری لیکچروں کو سلیس اور دلچسپ اردو میں پیش کرنا اور انجمن کے رسالے کی طباعت اور ترتیب مضامین وغیرہ کی درست شامل تھے۔
ان فرائض کی وجہ سے انجمن میں انھیں ایک کلیدی حیثیت حاصل ہو گئی۔ لیکچروں کی ترتیب و تنظیم، مجالس کا اتنظام، مضامین کی قرات اور اشاعت غرض کہ انجمن پنجاب کے تمام امور عملی انجام دہی، آزاد کی ذمہ داری تھی۔ آزاد نے اس حیثیت سے اتنی عمدہ خدمات انجام دیں کہ محمد حسین آزاد ادبی پیش منظر پر نمایاں ہو گئے۔
محمد حسین آزاد نے انجمن کے جلسوں میں ایک جدت یہ کی انہوں نے جلسے کے اختتام پر روایتی مشاعرے کا اضافہ کر دیا تھا۔ اس سے عوامی دلچسپی زیادہ بڑھ گئی تھی۔
انجمن کے مشاعرے
انجمن پنجاب کی شہرت کا سب سے بڑا سبب انجمن کے مشاعرے تھے۔ انجمن پنجاب کے مشاعروں کا آغاز مئی 1874ءکو ہوا۔ کہا جاتا ہے۔ کہ مشاعروں کی بنیاد کرنل ہالرائیڈ ناظم تعلیمات پنجاب کی تحریک سے ہوئی۔ اس زمانے میں غزل کو زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ جبکہ غزل کے بارے میں آزاد کا خیال تھا کہ غزل کی طرز میں ایک خیال اول سے آخر تک اچھی طرح تضمین نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ محمد حسین آزاد نے انجمن پنجاب کے اجلاس منعقدہ 1876ءمیں ایک لیکچر بعنوان ”خیالات درباب نظم اور کلام کے موزوں کے۔ “دیاتھا۔ اور اختتام پر اپنی مشہور نظم ”شب قدر“ پڑھ کر سنائی۔ اس نظم سے مقصود یہ ظاہر کرنا تھا کہ اگر شاعر سلیقہ رکھتا ہو تو ہجر و صال ”عشق و عاشقی، شراب و ساقی اور بہار و خزاں کے علاوہ مناظر فطرت کو بھی شاعری کا موضوع بنایا جاسکتا ہے۔ آزاد کی تقریر اور ان کی نظم اس قدر دل پزیر تھی کہ جلسے کے اختتام پر محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر کرنل ہالرائیڈ نے اس کی بے حد تعریف کی اور فرمایا: ”اس وقت مولوی صاحب نے جو مضمون پڑھا اور رات کی حالت پر اشعار سنائے وہ بہت تعریف کے قابل ہیں۔ یہ نظم ایک عمدہ نظام کا طرز ہے جس کا رواج مطلوب ہے۔ “
کرنل ہالرائیڈ کے آخری جملے سے بالعموم یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ نظم جدید کی ترویج کرنل ہالرائیڈ کے ایما پر ہوئی۔
مشاعروں کا پس منظر
مشاعروں کا سیاسی پس منظر یہ بتایا جاتا ہے کہ ٧ اگست 1881ءکو وائسرائے ہند نے ملک کے مختلف صوبہ جات کے پاس ایک آرڈیننس بھیجا جس میں کہا گیا تھا کہ سرکاری سکولوں میں مسلمانوں کی قدیم زبانوں اور نیز دیسی زبانوں کی تعلیم دی جائے۔ مسلمان اساتذہ مقرر کیے جائیں اور عربی فارسی کی تعلیم میں اضافہ کیا جائے۔خیال کیا جاتا ہے کہ وائسرے ہند کے اس حکم کی تعمیل میں پنجاب کے گورنر نے جب سرکاری سکولوں میں پڑھائی جانے والی اردو کتابوں کو دیکھا تو انہوں نے ان کتابوں میں نظموں کی کمی کو محسوس کیا۔ اس کمی کی بناءپر گورنر نے دیسی نظموں کی ترویج کی خواہش ظاہر کی۔ گورنر کی خواہش کوعملی جامہ پہنانے کے لیے پنجاب کے ناظم تعلیمات کرنل ہالرائیڈ نے اردو نظم کے سلسلے میں مشاعروں کی تحریک شروع کرنے کا ارارہ کیا اور اس ضمن میں انہوں نے محمد حسین آزاد کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جو اس وقت ناظم تعلیمات پنجاب کے دفتر سے منسلک تھے ۔
جدت
انجمن پنجا ب کے زیر اہتمام جو مشاعرے منعقد کیے جاتے تھے۔ ان میں ایک نئی جدت کی گئی تھی کہ ان مشاعروں کے لیے طرح مصرع نہیں دیا جاتا تھا بلکہ نظموں کے عنوان مقرر کیے جاتے تھے اور شعراءحضرات ان موضوعات پر طبع آزمائی کرتے اور ان موضوعات پر نظمیں لکھ کر لاتے اور مشاعرے میں سناتے۔
مشاعروں کی تفصیل
انجمن پنجاب کے مشاعروں کا آغاز 1874ءمیں ہوا۔ پہلا مشاعرہ ٣ مئی 1874ءکو منعقد ہوا۔ اس مشاعرے کے لیے کرنل ہالرائیڈ کی تجویز کے مطابق نظم کا موضوع ”برسات رکھا گیا۔ اس مشاعرے میں مولانا حالی نے پہلی بار شرکت کی اور اپنی مشہور نظم”برکھا رت“ سنائی تھی۔ محمد حسین آزاد نے بھی برسات کے موضوع پر نظم سنائی تھی۔ مولانا الطاف حسین حالی اور محمد حسین آزاد کے علاوہ اس پہلے مشاعرے میں شرکت کرنے والے شعراءمیں الطاف علی، ذوق کاکوروی وغیر ہ شامل تھے۔
اس مشاعرے کے انعقاد کے بعد انجمن پنجاب کے زیر اہتمام موضوعی مشاعروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مشاعروں کا سلسلہ 30 مئی 1874ءسے شروع ہواور مارچ 1875ءتک جاری رہا۔ اس دوران کل دس مشاعرے ہوئے اور جن موضوعات پر مشاعروں مے ں نظمیں پڑھ گئیں ان میں برسات، زمستان، امید، حب وطن، امن، انصاف، مروت، قناعت، تہذیب اور اخلاق شامل تھے۔
ان مشاعروں میں شرکت کرنے والے شعراءکے ناموں پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی کے علاوہ کوئی دوسرا صف اول کا شاعر شریک نہیں ہوا۔ حالی بھی انجمن کے صرف چار مشاعروں میں شریک ہو سکے تھے۔ کیونکہ بعد میں وہ دہلی چلے گئے تھے۔ ان مشاعروں میں مولانا الطاف حسین حالی نے جو نظمیں پڑھی تھیں ان کے نام یہ ہیں۔ ”برکھا رت“، ”نشاط امید“ ”حب وطن“ اور ”مناظر رحم انصاف “۔
لاہور سے دلی چلے جانے کے باوجود مولانا الطاف حسین حالی نے نظمیں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ چنانچہ انھوں نے جو نظمیں لکھیں ان میں مسدس حالی، مناجات بیوہ ،چپ کی داد اور شکوہ ہند، واعظ و شاعر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
انجمن پنجاب کے مشاعروں میں محمد حسین آزاد نے جو نظمیں پڑھیں ان میں شب قدر، صبح امید، ابر کرم خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ انجمن پنجاب کے مشاعروں کے ذریعہ نظموں کا ایک وافر ذخیرہ جمع ہو گیا۔ جس نے آنے والے دور میں نظم کی تحریک اور جدید شاعری کے رجحان کی رہنمائی کی۔
ادب پر اثرات
انجمن پنجاب نے ادب پر جو گہر ے اثرا ت مرتب کیے۔ ان کا مختصر ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ابتداءمیں ذکر ہو چکا ہے۔ کہ انجمن پنجاب کے قیام کا بنیادی مقصد قدیم مشرقی علوم کا احیا اور باشندگان ملک میں دیسی زبان کے ذریعے علوم مفیدہ کی اشاعت وغیرہ تھی۔ اس کے لیے طریقہ کار یہ اپنایا گیا کہ انجمن کے جلسوں میں مضامین پڑھے جاتے تھے اور اس طریقہ کار کا بڑا فائدہ ہوا۔ اور اردو ادب پر اس کے دوررس اثرات مرتب ہوئے۔
مجلسی تنقید کی ابتدا
انجمن کے جلسوں میں پڑھے گئے مضامین پر بحث و تنقید کی کھلی اجازت تھی۔ انجمن کے اس طریقہ کار کی وجہ سے شرکائے جلسہ کو بحث میں حصہ لینے علمی نقطہ پیداکرنے اور صحت مند تنقید کو برداشت کرنے کی تربیت ملی۔ ہندوستان میں مجلسی تنقیدکی اولین روایت کواسی انجمن نے فروغ دیا۔ علمی امور میں عالی ظرفی، کشادہ نظری اور وسعت نظر کے جذبات کی ترویج کی گئی۔ چنانچہ بیسویں صدی میں جب حلقہ ارباب ذوق کی تحریک چلی تو اس میں بھی مجلسی تنقید کے اسی انداز کو اپنایا۔ جس قسم کے تنقید کی بنیاد انجمن پنجاب نے ڈالی تھی، اسی کے نتیجے میں پھر حالی نے اردو تنقید کی پہلی باقاعدہ کتاب”مقدمہ شعر و شاعری“ لکھی۔
ادب پر اثرات
انجمن پنجاب کے مشاعروں کی وجہ سے اردو میں نیچرل شاعری کا رواج ہوا۔ نیچرل شاعری سے مراد یہ ہے کہ ایسی شاعری جس میں مبالغہ نہ ہو، صاف اور سیدھی باتوں کو اس انداز سے بیان کیا گیا جائے کہ لوگ سن کر لطف اندوز ہوں۔ چنانچہ انجمن پنجاب کے مشاعروں میں محمد حسین آزاد اور مولانا حالی نے اپنی نظمیں پڑھ کر اردو میں نیچرل شاعری کی بنیاد ڈالی جس کا بعد میں اسماعیل میرٹھی نے تتبع کیا۔ حالی کی نظم برکھا رت سے اس کی مثال ملاحظہ ہو۔
گرمی سے تڑپ رہے تھے جاندار
اور دھوپ میں تپ رہے تھے کہسار
تھی لوٹ سی پڑی چمن میں
اور آگ سی لگ رہی بن میں
بچوں کا ہواتھا حال بے حال
کملائے ہوئے تھے پھول سے گال
اردو شاعری میں انقلاب
انجمن کے مشاعروں نے اردو شاعری میں ذہنی، فکری اور تہذیبی انقلاب پیدا کیا۔ حب الوطنی، انسان دوستی، مروت، محنت، اخلاق اور معاشرت کے مختلف موضوعات کو ان مشاعروں کا موضوع بنایا گیا۔ چنانچہ ان مشاعروں نے فرضی، خیالی اور رسمی عشقیہ شاعری کو بدل کر رکھ دیا۔ مبالغہ آمیز خیالات کو چھوڑ کر ہر قسم کی فطری اور حقیقی جذبات کو سادگی اور صفائی سے پیش کرنے پر زور دیا جسے اس زمانے میں نیچر ل شاعری کا نام دیا گیا۔
مناظر قدرت
مناظر قدرت کا نظموں میں بیان اگرچہ کوئی نئی چیز نہیں اور نہ ہی یہ انجمن پنجاب کے مشاعروں کی پیداوار ہے۔ اس کے متعدد نمونے ہمیں نظیر اکبر آبادی کے ہاں ملتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انجمن پنجاب کے مشاعروں سے قبل مناظر قدرت نے کوئی مستقل حیثیت پیدا نہیں کی تھی۔ اور نظیر کے علاوہ کسی دوسرے شاعرے نے اس طرف توجہ نہیں کی تھی۔ لیکن اُس میں مناطر قدرت کے بیان نے ایک مستقل صورت اختیار کی اور س کا سنگ بنیاد سب سے پہلے انجمن پنجاب کے مشاعرہ میں مولانا حالی نے رکھا۔ مولانا حالی نے برکھا رت کے نام سے جو نظم لکھی اس میں برسات کے مختلف پہلوئوں کی تصویر کھینچ کر فطرت کی ترجمانی کی۔ جبکہ آزاد نے ابر کرم میں قدرت کے مناظر کی عکاسی کی۔ بعد کے شعراءمیں اسماعیل میرٹھی، شوق قدوائی، بے نظیر نے مناظر فطرت پر اچھی نظمیں لکھیں۔
برسات کا بج رہا ہے ڈنکا
اک شور ہے آسماں پہ برپا
پھولوں سے پٹے ہوئے ہیں کہسار
دولہا بنے ہوئے اشجار
چلنا وہ بادلوں کا زمیں چوم چوم کر
اور اٹھنا آسماں کی طرف جھوم جھوم کر
بجلی کو دیکھو آتی ہے کے ا کوندتی ہوئی
سبز ے کو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا روندتی ہوئی
حُب وطنی
حب وطن کے جذبات قدیم شاعری میں محدود پیمانے پر ملتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ وطنی شاعری کی وسیع پیمانے پر بنیاد انجمن پنجاب کے مشاعروں کی مرہون منت ہے۔ اس عنوان پر مولانا حالی اور محمد حسین آزاد نے نظمیں لکھیں۔ ان بزرگوں کے بعد چکسبت ،علامہ اقبال اور سرور جہاں آبادی نے حب وطن کے جذبات کو بڑے موثر انداز میں بیا ن کیا ذیل میں حالی کی نظم حب وطن کے چند شعر ملاحظہ ہوں
تم ہر ایک حال میں ہو یوں تو عزیز
تھے وطن میں مگر اور ہی چیز
آن اک اک تمہاری بھاتی تھی
جو ادا تھی وہ جی لبھاتی تھی
اے وطن ای میر بہشت بریں
کیاہوئے تیرے آسمان و زمین
اخلاقی شاعری
اردو میں اخلاقی شاعری کا عنصر زمانہ قدیم سے چلا آ رہاہے۔ لیکن حالی اور آزاد کے دور میں برصغیر کے حالات و واقعات نے بڑی تیزی کے ساتھ پلٹا کھایا ان بزرگوں نے قوم کو اخلاقی سبق سکھانے اور افراد قوم کو سعی کوشش، صبر و استقلال اور محنت و مشقت سے کام لینے کی تلقین کرنی پڑی۔ چنانچہ محمد حسین آزاد، مولانا حالی اور اسماعیل میرٹھی نے ان عنوانات پر بکثرت نظمیں لکھیں۔
حالی کے ادبی مزاج میں تبدیلی
انجمن پنجاب کے مشاعروں کے اثرات نے مولانا حالی کے مزج کو بدلنے میں اہم کردار اداکیا۔ ان مشاعروں ککے آغاز سے قبل مولانا حالی مسیحی پادری عماد الدین کے ساتھ مناظروں میں الجھے ہوئے تھی۔ لیکن ان مشاعروں نے ان کا مزاج بدلا اور وہ شاعری کی طرف متوجہ ہوئے اور مدوجزر اسلام جیسی طویل نظم لکھ ڈالی۔
اس طرح مجموعی طور دیکھا جائے تو انجمن پنجاب نے اردو ادب میں جدید شاعری اور تنقید پر دور رس اثرات مرتب کیے اردو نظم کی موجودہ شکل اسی ادارے کی بدولت ہے۔ اور بعد میں آنے والے شعراءاسی روایت کو آگے لے کر چلے اور اُسے مزید آگے بڑھایا۔
نئی شاعری کی تحریک
ساٹھ کی دہائی پاکستان میں اردو شعروادب کی تاریخ میں ادبی مباحث، خیالات اور رویوں کے حوالے سے ہل چل کی دہائی ہے۔۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۵ء تک پاکستان میں جدید، جدیدیت، جدید شاعری جیسے موضوعات بھی زیر بحث رہے۔ان موضوعات کے پس منظر میں در اصل ایک خیال یا نظریہ کارفرما تھا جو’’لسانی تشکیلات‘‘ کے نام سے جاناگیا۔بعد ازاں یہ نظریہ اور اس کے تحت کی جانے والی ادبی و تخلیقی کاوشیں ’’لسانی تشکیلات کی تحریک‘‘کے نام سے موسوم ہو گئیں۔
لسانی تشکیلات کی ضرورت محسوس کرنے والوں کا خیال تھا کہ قدیم شعری لسانی پیمانوں نے شاعری کو ہی نہیں شاعر وادیب کی فکری و تخلیقی قوت کو بھی متأثر کیا۔ نئی فکری و فنی جدت و سہولت اور نئے انسانی ردِ عمل کو شعروادب میں داخل ہونے سے روک دیا۔مثلاً اکیسویں صدی کاشاعر خصوصاً غزل گو مجبور ہے کہ وہ میر تقی میرؔ اور سوداؔ کے زمانے کے لسانی ڈھانچوں اور پیمانوں میں اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرے۔اسی طرح اکیسویں صدی کا مرثیہ گو پابند ہے کہ وہ انیسؔ اور دبیرؔ کے قائم کردہ اصولوں اورلسانی و جذباتی پیمانوں کے مطابق مرثیہ لکھے۔ صدیوں کے زمانی فاصلے انسانی سوچ، جذبات اور احساسات کے طرز و انداز میں کچھ تو تبدیلیاں ضرور پیدا کرتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کو شعروادب میں منعکس کرنے کے لیے لسانی پیمانوں اور لفظیات، علائم، ترکیبات وغیرہ کی تشکیلِ نو کرنے کی ضرورت ہے۔ شاعری کے
قدیم اور کلاسیکی مزاج نے شاعری کو کلاسیکی موسیقی بنا دیا ہے جس کے مطابق صدیوں سے راگ کی جو درو بست اساتذہ نے مقرر کی ہے اُسی درو بست میں سُروں کی اُسی تعداد میں راگ گایا جائے گا۔یہ صورت حال شعرو ادب کو بے روح اور غیر متحرک بنا دیتی ہے۔
ان ادیبوں کا طرز فکر اور مدعا یہ تھا کہ شعر و ادب میں مافی الضمیر کے اظہار کے لیے جتنے بھی لسانی پیمانے اب تک رائج رہے ہیں وہ اپنے اپنے زمانے کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق وجود میں آئے ہیں۔ ہمارا زمانہ قدیم زمانے سے اپنی ایک الگ حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے تقاضے اور لسانی ضرورتیں اور ہیں لہٰذا شعروادب کی لسانیات میں ہمیں اپنے وقت کے تقاضوں کے مطابق تغیر و تبدیلی لانی چاہیے۔
اس کا حل ۱۹۶۰ء میں بعض اہلِ فکرو تخلیق نے تحریک کی صورت میں ڈھونڈا۔انھوں نے ضرورت محسوس کی کہ شاعری کے اسلوبیاتی عمل اور پیمانۂ اظہار میں تبدیلیاں لانے کی تحریک چلائی جائے۔اس تحریک کی کامیابی اورپھیلاؤکے مختلف امکانات پر غور کرنے کے بعد انھیں موضوعاتی شکل دے کر ان پر قلم اٹھایا جائے۔ اس ضمن میں شعراء میں سے سب سے زیادہ بلند آواز میں لسانی تشکیلات کا نعرہ افتخار جالب نے اپنی کتاب ‘‘مآخذ’’ کے دیباچے میں لگایا۔اس مقصد کے تحت لکھے یا لکھوائے گئے مقالات کی تعداد ۲۵ ہے جن معروف اہلِ قلم و دانش نے مقالات لکھے یا ان سے لکھوائے گئے اُن میں ڈاکٹر سید عبد اللہ، ڈاکٹر گوہر نوشاہی، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، احمد ندیم قاسمی، پروفیسر فتح محمد ملک، انیس ناگی، پروفیسر جیلانی کامران، پروفیسر صفدر میر، ظہیر کاشمیری اور افتخار جالب کے نام شامل ہیں۔ ان تمام مقالات کو افتخار جالب نے “نئی شاعری” کے نام سے کتابی شکل دی۔ افتخار جالب کی اس کتاب اور ان کے شعری مجموعے ’’مآخذ‘‘ کے دیباچے کو لسانی تشکیلات کی تحریک کے اصل مقصد و مدعا کی تفہیم کے حوالے سے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
۱۹۵۸ءکے مارشل لاء ۱۹۶۵ءکی پاک بھارت جنگ اور لسانی تشکیلات کی تحریک سے شاعری کے رائج اسلوب و الفاظ اور مقبول نظریات کے خلاف ایک زبردست رد، عمل سامنے ٓیا جس سے نہ صرف نئی بحثوں کا آغاز ہوابلکہ غزل کی ہیٔت و مستقبل کے بارے میں بعض تنقیدی حلقوں کی طرف سے خدشات کا اظہار بھی کیا گیا۔ کم و بیش یہی صورت حال ستر(۷۰ء) کی دہائی میں بھی برقرار رہی۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلی سیاسی گھٹن، سماجی بے ضابطگیاں ، ادبی سطح پر ہیئت واسلوب کے مروجہ معیارات سے انحراف، رائج لسانی و شعری ڈھانچوں میں توڑ پھوڑ جیسے رویوں نے مجموعی طور پرساٹھ کی دہائی کے تاثر کو جدلیاتی رنگ دیا۔
فنی سطح پر ساٹھ اورستر کی دہائیوں میں جو نمایاں تبدیلیاں ہوئیں ان میں اول تو نئی لسانی تشکیلات کے اثرات ہیں جن کے تحت فارسی مزاج کی بجائے اردو کا پاکستانی مزاج وجود میں آیا۔تراکیب سے گریز اور اضافتوں سے بچنے کی شعوری کوششوں نے شاعری کی زبان کو خاصا تبدیل کر دیا۔
لسانی تشکیلات کی تحریک سے محض دو سال پہلے یعنی۱۹۵۸ء کے مارشل لاء نے آزادئ فکر و قلم قدغن لگانے کی کوشش کی جسکے نتیجے میں ادیبوں کے ہاں علامتوں اور استعاروں میں بات کرنے کا رجحان فروغ پایا۔ فرد اپنے آپ کو ہر میدان میں محبوس اور مقید محسوس کرنے لگا۔ اظہار کے نئے طور طریقوں اور بیان کے جدید و موثر انداز اپنانے کی شعوری کوششیں عمل میں آنے لگیں۔ اہلِ فن و قلم کے ہاں اظہار کا ایمائی انداز پیدا ہو گیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو غزل میں ترقی پسند تحریک کے زیرِاثرجو راست طرزِاظہار رواج پا گیا تھا وہ مائل بہ زوال ہونے لگا۔تمثال کاری، علامت سازی اور علامتوں کے استعمال کا رجحان فروغ پانے لگا۔اس صورت حال کا مجموعی فائدہ اردو غزل کو یہ ہوا کہ اس کی رمزیت و ایمائیت اور اشاریت کو تقویت ملی جو کہ غزل کی داخلی اور خارجی جہات کو مزید نکھارنے اور چمکانے کا سبب بنی۔اردو غزل کے اسلوب،
موضوعات اور ڈکشن میں تغیر ضرور پیدا ہوا۔ ڈاکٹر رشید امجد نے اپنے مضمون”پاکستانی ادب کے نمایاں رجحانات” میں لکھا ہے : ۱۹۶۰ء کے قریب نئی لسانی تشکیلات کی بحث نے نظم کو زیادہ اور اس کے بعد افسانے کو
متاثر کیا۔غزل پر یہ اثر قدرے کم پڑا۔[۲]
ادبی سطح پر موضوعات و اسلوب دونوں میں تبدیلیاں واقع ہونے لگیں۔ غزل میں جدید موضوعات کو نئے عہد کے اسلوب بیان کے مطابق برتنے کا رجحان فروغ پانے لگا ہے۔ پاکستان میں بعض تخلیقی ادیبوں نے اپنے مشاہدات اور مافی الضمیرکے اظہار کے لیے نظم و غزل کے قدیم رائج الوقت لسانی پیمانوں میں بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس کی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ ہم جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ ایک خاص قدیم لسانی ڈھانچے کے مطابق ہے۔یہ قدیم لسانی پیمانہ صدیوں پہلے وجود میں آیا تھا اور صدیوں سے اس نے اردو شاعری کو خاص طور پر اردو غزل کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اس لسانی ڈھانچے کے سامنے آج کا شاعر مجبور ہے کہ وہ اپنے دور کے احساسات و مشاہدات و جذبات کواُس شکل و صورت اور ہیئت و لفظیات میں پیش کرے جو اسے قابلِ قبول ہو۔
افتخار جالب کے نزدیک شعر و ادب کی لسانیات کی از سر نو تشکیل اس لیے ضروری تھی کہ اب تک کی رائج الوقت زبان پر گرامر کی حکمرانی رہی ہے۔ بے شمار تبدیلیوں سے ہمکنار ہونے والی اردو مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے آج جبکہ ہمارے درمیان ہے تو تبدیلی کا یہ عمل رکنا نہیں چاہیے۔ زبان میں موجود تمام مواد کونئے سرے سے منظم ومربوط طور پربروئے کار لایا جانا چاہیے تاکہ شعر و ادب کی لسانیات میں وسعت آجائے۔ ان کے شعری مجموعے “مآخذ” کے دیباچے سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے :
شعر و ادب پر کب تک گرامروالے حکمران رہیں گے۔ ان سے نجات حاصل کرنا ہی چاہیے۔ وہ زبان جو ادبی وراثت میں مختلف ادوار کی ٹھوکروں ، ترقیوں ، پابندیوں اور زیبائش وآرائش سے مختلف طبائع کی ہنگامہ پروری، کور ذوقی یا خوش ذوقی سے ، تخریب، تعمیر، محنت، دسترس، نارسائی، کم فہمی اور ہیچ مدانی سے اور سننے والوں کی اجتماعی تلازماتی کیفیتوں ، گردوپیش، رنگارنگیوں ، طوائف الملوکیوں ، پریشانیوں اور مختلف مقامی اور غیر ملکی وسیلوں ، امنگوں ، سانچوں ، حکائتوں ، داستانوں اور ضرب المثلوں سے ہم تک پہنچی ہے اسے بعینہ برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔۔۔ لسانی طور پر جذب شدہ تمام مواد جب نئے سرے سے منظم ہوگا اور آج کی معنویت قبول کرے گا تو نئے راہیں کھلیں گی۔ نئی آواز اور پرانی سرگوشیوں کے ربط باہم سے جذبات کی لسانی حدود ایک نئے وسعت سے ہمکنار ہوں گی۔[۳]
متذکرہ بالانقطۂ نظرنے پاکستانی اردونظم اور افسانے پرواضح اثرات مرتب کیے۔۔ ‘‘اگرچہ افتخار جالب کی یہ تحریک اپنی شدت کے باعث کامیاب نہ ہو سکی تاہم غزل پر اس تحریک کے اثرات پڑے۔’’[۴]
اس تحریک سے بعض ادیبوں میں احساس کی کم از کم زیریں سطح پرزبان سازی اور لسانی تشکیلات کی ایک لہر ضرور پیدا ہوئی۔شعری زبان اور ڈکشن کی تشکیل ِنو کا ایک احساس جزوی طور پر پاکستانی غزل کو ضرور عطا کیا۔ لسانی و فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو لسانی تشکیلات کی تحریک نے غزل کی پرانی لغت میں نئے الفاظ کی شمولیت نے بھی غزل کی زبان کو وسعت دی۔امیجز، پیکر تراشی اور تمثال کاری نے پرانے استعاراتی نظام کو یکسر بدل دیا۔[۵]
چنانچہ بعض شعرا کے یہاں اس نقطۂ نظر کو شعوری طور پر اپنانے کا رویہ بھی سامنے آیا اور کچھ کے یہاں لسانی تشکیلات کی ایسی صورتیں بھی پیدا ہوئیں جو ناقابلِ قبول حد تک نامانوس نہیں۔
ظفر اقبال کے شعری مجموعے ‘‘ گلافتاب’’ میں کیے گئے شاعرانہ تجربات اس ضمن میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ یہ تجربات خود ظفر اقبال کے بقول ‘‘ سیلف پیروڈائزیشن ’’[۶] کی ایک صورت تھی۔سلیم احمد کے ہاں غزل کے جارحانہ انداز و آہنگ اور انجم رومانی کی غزل میں لفظیاتی اتار چڑھاؤ نیز جلیل الدین عالی کی غزلوں میں ‘‘فکِ اضافت’’ کی جو صورتیں ظہور پذیر ہوئیں انھیں بھی لسانی تشکیلات کی تحریک کے بنیادی مدعا کے تناظر میں دیکھنا بے جا نہ ہوگا۔
ظفر اقبال کا شعری مجموعہ ‘‘گلافتاب’’ لسانی تشکیلات کے حوالے سے قابلِ توجہ ہے۔ اس مجموعے میں شاعر نے شعوروادراک کی سطح پر شعری لسانیات اور زبان کے رائج الفاظ واسلوب میں تصرف کیا ہے۔ اس تصرف کو ظفر اقبال نے باقاعدہ طور پر نظریاتی اساس بھی فراہم کی۔ان کا نقطۂ نظر اس حوالے سے یوں سامنے آیا۔
جن چشموں سے اس(اردو) زبان نے ابتدا میں توانائی حاصل کی اورجو ایک مدت تک اس پر روک دیے گئے تھے، میں نے انھیں پھر سے رواں کر دیا ہے کچھ کُلیوں کا احیا کیا ہے، کچھ وضع کیے ہیں۔۔۔[۷]
‘‘گلافتاب’’ میں اضافت کے رائج طریقے، مصادر کی بناوٹ کے مرسوم پیمانے اور بعض لسانی اصولوں سے انحراف کی واضح صورتیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ شاعر پورے شعور وادراک کے ساتھ لسانی تشکیلات کے عمل کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ‘‘گلافتاب’’ لسانیات کی اصطلاح میں ایک ایسا لفظ ہے جسے Portmenseauکہا جاتا ہے۔ اس میں در اصل دو مختلف لفظ آپس میں مل کر مرکب بننے کے بجائے ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک نیا لفظ بنا لیتے ہیں۔ ادغام کے اسی عمل سے ظفر اقبال نے استفادہ کیا اور اردو میں لفظ سازی کی سعی کی۔ادغام کایہ عمل عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں کے حوالے سے بھی نامانوس نہیں۔ ظفر اقبال نے اپنے لسانی تجربات کے لیے جو تخلیقی مساعی کیں ان میں پہلی قابل ذکر کوشش فکِ اضافت ہے۔
الف کو حرف اضافت کے طور پر استعمال کرنا کسی لسانی اصول سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ظفر اقبال کے ہاں یہ رویہ بھی نظر آتا ہے مثلاً
سیدھے سیدھے شعر کہتے سب کو خوش آتے ظفر
کیا کیا جائے کہ اپنی عقل میں ا فتور تھا
۔۔۔
ویراں تھی رات چاند اپتھر سیاہ تھا
یا پردۂ نگار سراسر سیاہ تھا
الف کا بطور حرف اضافت استعمال کسی لسانی اصول کے پیش نظر نہیں کیا گیا اور یہ زبان کی شکست و ریخت کے سلسلے میں ایک انتہا پسندانہ رویہ ہے۔
یہاں اس نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ متذکرہ بالا رویہ اردو ہی کے ایک شاعر کا رویہ ہے۔شاعر اپنی زبان کے ساتھ بقولِ شمس الرحمن فاروقی اس طرح کھیل سکتا ہے جس طرح بچہ اپنی ماں کے بدن سے کھیل سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر وہ زبان میں تشدد اور توڑ پھوڑ بھی روا رکھتا ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ لسانی تشکیلات کے تجربات کے نتیجے میں کچھ ایسی صورتیں بھی سامنے آئیں جو غزل کے قارئین و ناقدین کے لیے نامقبول رہیں تا ہم مجموعی طور پر ان لسانی تجربوں نے اردو غزل کو فائدہ پہنچایا اور اسے اظہار کی نئی صورتوں سے روشناس کرایا۔ان تجربات کے نتیجے میں جدید غزل کو بیان کے وہ قرینے میسر آئے جن کے ذریعے اسے ماحول کی استبدادیت، سیاسی انتشار، سماجی گھٹن، اخلاقی قدروں کے زوال اور جنسی و معاشی مسائل جیسے موضوعات کوتمام تر شدتوں کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت حاصل ہوئی۔
کتابیات:
۱۔ رشید امجد، ڈاکٹر، پاکستانی ادب کے نمایاں رجحانات[مضمون]، مشمولہ:پاکستان میں اردو ادب کے پچاس سال، مرتب: ڈکٹر نوازش علی، اشاعت دوم ۲۰۰۲ء، گندھارا، سید پور روڈ راولپنڈی، ص ۲۳
۲۔ ایضا، ص ۲۳
۳۔ افتخار جالب (دیباچہ)، مآخذ، مکتبہ ادب جدید، لاہور، س ن، ص ۱۳
۴۔ ارشد محمود ناشاد، ڈاکٹر، اردو غزل کا تکنیکی، ہیٔتی اور عروضی سفر، مجلس ترقی ادب،
لاہور، ۲۰۰۸، ص۲۴۷
۵۔ رشید امجد، ڈاکٹر، پاکستانی ادب کے نمایاں رجحانات[مضمون]، مشمولہ:پاکستان میں اردو ادب کے پچاس سال، مرتب: ڈکٹر نوازش علی، اشاعت دوم ۲۰۰۲ء، گندھارا، سید پور روڈ راولپنڈی، ص ۲۳
۶۔ ظفر اقبال، شاعری میں کومک ریلیف کا معاملہ(مضمون)، مطبوعہ: (سہ ماہی) ادبیات، جلد ۱۸، شمارہ: ۷۶، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۷ء، ص۹۷
۷۔ ظفر اقبال، (فلیپ) گلافتاب، گورا پبلشرز لاہور، بار دوم ۱۹۹۵ء
۸۔ ارشد محمود ناشاد، ڈاکٹر، اردو غزل کا تکنیکی، ہیٔتی اور عروضی سفر، مجلس ترقی ادب ، لاہور ، ۲۰۰۸ء، ص ۱۷۶
۹۔ ایضاً، ص ۱۸۲
۱۰۔ فاروقی، شمس الرحمن، طبع رواں منظر معنی اور بے شمار امکان(مضمون)، مشمولہ: اب تک،
[کلیات ]ظفر اقبال، ص ۳۸
جاری ہے