نصرت ظہیر (دہلی)
طنزو مزاح
اردو زبان و ادب کی جتنی خدمت ادبی معموں نے کی ہے اتنی ہمارے خیال سے کسی نے بھی نہیں کی ہو گی۔ یہاں معموں سے ہماری مراد وہ چلتی پھرتی محترم شخصیتیں ہرگز نہیں ہیں جن کے نام کے ساتھ پروفیسر یا ڈاکٹر کا لا حقہ جڑا رہتا ہے اور جنہوں نے جدیدیت ، ما بعد جدیدیت اور ساختیات و پسِ ساختیات کے چکر میں ڈال کر خود اردو ادب کو ایک معمہ بنا ڈالا ہے(نوٹ: یہاں لفظ’ لاحقہ‘ کو ’کا ‘سے الگ رکھ کر پڑھیں ورنہ پتہ نہیں اس سے کیا مطلب نکل آئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا حقہ کسی پروفیسر یا ڈاکٹر کی عرفیت یا چڑ ہو اور وہ خواہ مخواہ آپ سے ناراض ہو جائے۔)
ادبی معموں سے ہمارا اشارہ ان علامتی افسانوں اور جدید نثری نظموں کی طرف بھی قطعی نہیں جنہیں خواہ آپ اوپر سے نیچے کی طرف پڑھیں یا نیچے سے اوپر کی طرف، ان کے لطف و جاذبیت اور غیر معنویت میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا۔بالکل ان آرٹ فلموں کی طرح جن کا کویٔ بھی ریل غلطی سے شروع یا آخر میں پروجیکٹر پر چل جائے تب بھی فلم کی کہانی میں کوئی فرق نہیں آتا اورناظرین ہدایت کارکی اعلیٰ فنکاری سے یکساں طور پرمحظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ بلکہ نثری نظم کے معاملے میں تو میاں عبدالقدوس ہمیں یہ عملی تجربہ کر کے بھی دکھا چکے ہیں کہ ایک نثری نظم کوانہوں نے متعلقہ ادبی رسالے سے پھاڑ کر الگ کیا ، بیچ سے قینچی چلا کر نظم کے دوٹکڑے کئے اور اس طرح ایک شاہکار نثری نظم سے یکلخت دو شاہکار نثری نظمیں تخلیق کر ڈالیں۔اس روز ہمیں قلم کے مقابلے میں قینچی کی عظمت و افادیت کا بھر پور اندازہ ہوا اور ہم نے جانا کہ حجاموں کے اس مفید آلے سے صرف تنقیدی کتابیں ہی تصنیف نہیں کی جاتیں بلکہ تخلیقی ادب بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔
نثری نظم سے میاں عبدالقدوس کو خدا واسطے کا بیر ہے۔بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ شاعری کی یہ اعلیٰ صنف ان کی چڑ بن چکی ہے۔تنقیدی سیمیناروں میں بھی صرف اس لئے شرکت نہیں کرتے کہ بعض اوقات انہیں نقادوں کی تقریر وں پر نثری نظم کا شبہ ہو جاتا ہے۔ ایک مرتبہ کسی مشاعرے میں انہوں نے نثری نظمیں سن لیں تو رہا نہیں گیا۔مشاعرہ ختم ہوتے ہی اسٹیج کے پیچھے گئے اور شاعر کو دبوچ لیا۔پہلے توہاتھ مِلااور ہِلا ہِلاکر خوب اس کی نظموں کی تعریف کی ،پھر بولے․․․’’مگرمعاف کیجئے آپ کی نظموں میں ذراسا عیب ہے۔ میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ ہو سکے تونظم کہنے کے بعد کسی استاد سے اصلاح لے لیاکریں‘‘
یہ سنتے ہی شاعر کا چہرہ فق ہو گیا۔’’کک کک کیا مطلب؟‘‘
’’ مطلب یہ کہ آج آپ نے جو نثری نظمیں پڑھیں ان میں کئی مصرعے پوری طرح بحر اور وزن میں تھے ۔ میرے خیال سے نثری شاعری میں عَروض کی ایسی غلطیاں نہیں ہونی چاہئیں۔‘‘
کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سن کر شاعر کا چہرہ اور بھی فق، بلکہ فق فق ہو گیا۔
سچ پوچھئے تو ان پر اسرار اور قابلِ نا تشریح نظموں اور افسانوں کی بدولت ہی ہمارے ادب کی شان برقرار ہے ۔ ادب کی تعریف بھی فی زمانہ یہی ہے کہ جو زیادہ سمجھ میں نہ آئے وہ ادب ہے اور جو بالکل سمجھ میں نہ آئے وہ اعلیٰ ادب کہلاتا ہے۔
دراصل ہمارا مقصد اُن ادبی معموں کی خدمات پر روشنی ڈالنا ہے جنہیں حل کرنے پر خطیر رقم بطور انعام ملا کرتی تھی، اور جن کا گزشتہ صدی کے آخری برسوں تک اردو دنیا میں اچھا خاصا رواج تھا۔
بعض ناقدین کہتے ہیں کہ ادبی معمے لوگوں نے اردو کی نہیں بلکہ خود اپنی خدمت کے لئے جاری کئے تھے۔ ہو سکتا ہے یہ بات درست ہو۔ لیکن یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس سے بالواسطہ اور با دلِ ناخواستہ طور پر ہی سہی اردو زبان اور اردو ادب کی بھی اچھی خاصی خدمت ہو گئی ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ دہلی میں انصاری روڈ سے لے کر آصف علی روڈ تک پھیلے ہوئے معمہ سازوں نے ان معموں کی بدولت کئی کوٹھیاں اور کاریں کھڑی کر لیں۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ معمہ بازوں نے جس جوش و خروش سے معموں کو حل کرنے میں دلچسپی لی اس سے یہ کاروبار ایک اچھی خاصی اردو صنعت میں تبدیل ہو گیاتھا۔ورنہ اس سے پہلے اردو کی صنعتیں استاد شاہ نصیرؔ کے دیوان اور عَروض کی کتابوں میں ہی ملا کرتی تھیں۔
اس کے علاوہ ہم سوچتے ہیں اور سوچ کر کافی دیرلرزتے رہتے ہیں کہ معمہ بازوں نے اپنا جو قیمتی وقت ان معموں کے اشاروں پر بحث کرنے اور ان کے خاکے بھرنے میں صرف کیا وہ خدا نخواستہ ادب کی تخلیق میں لگ گیا ہوتا تو نہ جانے کیا ہوتا۔ پتہ نہیں کتنے نثری شاعر اورعلامتی افسانہ نگار اور پیدا ہو گئے ہوتے۔چنانچہ ہم سمجھتے ہیں کہ لاٹری اور شٔیر بازار کے دور میں اگرچہ یہ صنعت ماضی کی داستان بن چکی ہے لیکن جو بھی خدمت اس نے انجام دی ہے اس کی تاریخ اردو کا مستقبل یقینا تحریر کرے گا۔
ہمیں یاد ہے کہ ساٹھ ستر کے عشرے میں جب ادبی معموں کی صنعت شباب پر تھی توملک کے مختلف حصوں سے مشہور ادبی معموں کے اشاروں کی تفسیریں اور ان پر بحثیں لکھنے والے سینکڑوں اردو رسالے شائع ہوا کرتے تھے۔ معموں کے خاکے بھرنے اور انہیں آخری تاریخ سے پہلے جمع کرانے، پوسٹل آرڈر اور معموں کے ٹوکن خریدنے بیچنے یا بلیک کرنے کے کام میں سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ لگے ہؤے تھے اور اردو سچ مچ لوگوں کی روزی روٹی سے جڑ ی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔
اس صورت حال سے معمہ باز ہی نہیں ہم جیسے ادب سے بے بہرہ لوگ بھی فایٔدے میں تھے جنہیں معمہ تو کیا روزگار دفتر کا فارم بھی ان دنوں ٹھیک سے بھرنا نہیں آتا تھا ۔معمہ بازوں کا یہ تھا کہ ہر مہینے تنخواہ کا ایک معقول حصہ برباد کرنے کا موقع مفت میں ہاتھ آ جاتا تھا اور ہمیں معموں کے ٹوکنوں کی بدولت چار پانچ روپے کی قیمت والے فلمی رسالے تین چار آنے میں مل جاتے تھے۔ اورخدا کے فضل سے اردو کے یہی فلمی رسالے تھے جنہوں نے آگے چل کر ہمارے ادبی ذوق کو جلاء بخشی۔
اصل میں ہوتا یہ تھا کہ معمہ کمپنی اپنے فلمی رسالے کی اشاعت بڑھانے کے لئے اس کے ہر شمارے میں چند ٹوکن چھاپ دیتی تھی اور معمے کے ہر ایک حل کے ساتھ ایک ٹوکن نتھی کرنا لازم ہوا کرتا تھا تاکہ معمے کے ساتھ رسالہ بھی چلتا رہے۔لیکن معمے باز بھی بڑے کا ئیاں واقع ہوئے تھے۔وہ پورا رسالہ خریدنے کے بجا ٔے کم قیمت میں صرف ٹوکن خرید لیتے اور دکاندار باقی رسالہ الگ سے بیچ کر مزید منافع کما لیا کرتا ۔لیکن ظاہر ہے بازار اور منڈی کی اپنی ایک طاقت ہوا کرتی ہے۔چنانچہ انعام کی رقم کے ساتھ رسالے کے ٹوکن کی قیمت بھی یو ٹی آ یٔ کے شیٔر کی طرح ہر مہینے گھٹتی بڑھتی رہتی تھی اور ہمارے شہر کے معمہ بازوں کے سردار مانے جانے والے بھائی سعید جنرل اسٹور صاحب راہ چلتے روک کرہمیں بتا دیا کرتے تھے کہ برخوردار اس مہینے رسالے کا سائرہ بانو نمبر صرف پچیس پیسے میں مل رہا ہے۔سعید صاحب کے نام کے ساتھ جنرل اسٹور ہم نے اس لئے لکھا ہے کہ یہ لفظ کاروبار کی طرح ان کے نام کا بھی حصہ بن گیا تھا۔ اور جب تک کویٔ ان کے نام میں جنرل اسٹور نہیں جوڑتا تھا تب تک پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کن سعید صاحب کا ذکر ہو رہا ہے۔ ویسے بھی علاقے میں کیٔ سعید صاحبان رہتے تھے جن میں سے کویٔ جنرل اسٹور نہیں چلاتا تھا ۔اس لئے اندیشہ رہتا تھا کہ اگر جنرل اسٹور نام میں لگا کر نہ پکارا تو پتہ نہیں کس گھر سے کون سے سعید صاحب باہر نکل آئیں۔ بہرکیف قصہ یہ ہے کہ ٹوکن کی قیمت جتنی زیادہ بڑھ جاتی تھی اس کے بغیر رسالہ اتنا ہی سستا مل جاتا تھا۔
ہمیں یاد ہے کہ ایک مرتبہ ٹوکن کی قیمت بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھی کہ سعید جنرل اسٹور نے ہمیں بلایا اور ایک تازہ رسالہ تھما کر دو آنے ہمارے ہاتھ پر رکھ دئے۔ ہم نے پوچھا یہ کیا، تو بولے کہ اس مرتبہ ٹوکن کی قیمت رسالے کی قیمت سے دو آنہ آگے نکل گیٔ ہے۔ ہم وہ دو آنے جیب میں رکھ کر سیدھے ہمالیہ بک ڈپو پہونچے اور خوشی کے مارے ابن صفیؔ اور کرشن چندر کے دو تازہ ناول کراے پر لے آئے جو ان دنوں ایک آنہ روز میں پڑھنے کو ملتے تھے۔
افسوس آج کے جنرل اسٹوروں میں یہ کردار دیکھنے کو نہیں ملتا۔آج آپ صابن بھی خریدنے جائیے تو جنرل اسٹور ہر ٹکیہ پر آٹھ آنے بڑھا کر ایک روپیہ زیادہ کاٹ لیتا ہے۔اور حساب پوچھو تو کہتا ہے کہ پچھلے جمعے جو ٹکیہ آپ نے لی تھی وہ آٹھ آنے سستی تھی اس لئے ایک اٹھنی اس کی بھی کاٹ لی ہے۔ کہئے تو ایک اٹھنی اگلی ٹکیہ کی بھی کاٹ لوں جو آپ اگلے جمعے خریدنے آئیں گے۔
اس زمانے میں ادبی معمے اردو والوں کو اور بھی کئی خرافات سے دور رکھتے تھے۔ نہ انہیں اس کی فکر رہتی تھی کہ کس اردو اکادمی نے اس مرتبہ کس غیر مستحق ادیب کوایوارڈ سے نوازا ہے اور نہ وہ اس بحث میں پڑتے تھے کہ ما بعدالجد ید یت اور ساختیات و پسِ ساختیات کی اولین دریافت کا سہرہ کس کے سر باندھا جائے۔نیز یہ کہ جدیدیت کے بعد ما بعد جدید یت آئی ہے تو کیا اس اصول کے تحت ما بعد جدیدیت کے بعد ما ما بعد جدیدیت آئے گی؟ اور کیا سَن۵۵۱۲تک آتے آتے اردو ادب میں ما ما ما ما ما ما ما بعد جدیدیت پڑھی جا رہی ہو گی؟
اُن دنوں ہمارے شہروں و قصبوں کے ہوٹلوں اور چاء خانوں میں صرف یہ موضوع زیر بحث رہتے تھے کہ کتنے اشارے آؤٹ ہو چکے ہیں، کتنے اشاروں میں کمپائلر نے الجھانے کی کوشش کی ہے۔ فلاں اشارے میں نالہ بھرا جائے یاسالہ ۔فلاں اشارے میں مقدر کا سکندر ٹھیک رہے گا یا سکندر کا مقدر۔ یہ بحثیں دیر رات گئے تک جاری رہتیں ا ور اردو چاء خانے صبحِ کاذِب تک آباد رہتے تھے۔
کہنے کو ہمارے چاء خانے اب بھی صبحِ کاذِب تک آباد رہتے ہیں ۔ مگر آج موضوع بحث ادبی معمہ نہیں ہوتا۔ آج کل لوگ اس بات پرلڑتے جھگڑتے اور منھ سے جھاگ نکالتے ہیں کہ مسجد کی جگہ مندر بھرا جائے یا کچھ او ر۔
آج ہندستان کی تقریباًہردوسری ریاست میں ایک عدد اردو اکادمی موجود ہے۔اور ان میں سے کئی نے تو یہ ضد پکڑ رکھی ہے کہ اردو کو ترقی دے کر ہی دم لیں گی۔ لوگ انہیں سمجھا تے ہیں کہ بس بھئی بہت ہوا ۔آزادی کے بعد سے اب تک ہم اردو کو ترقی ہی دیتے آرہے ہیں۔اب اس سے زیادہ اور کیا ترقی دیں۔علاوہ ازیں اردو بھی اپنی ترقی سے کافی تنگ آچکی ہے۔خدا کیلئے اب تو باز آ جائیں۔مگر اکادمیاں مُصِرہیں کہ نہیں جی ،ترقی توہماری گھٹّی میں پڑ ی ہوئی ہے۔اسے بھلا ہم کیسے چھوڑ دیں؟اور پھر ابھی اردو کی اصلی ترقی ہوئی کہاں ہے ۔ابھی تو اس کے لئے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔سیمینار ، مشاعرے، قوالیاں․․․․․صرف ان سے کام نہیں چلنے کا! اسی طرح کے اور بہت سے کام کرنے ہوں گے ۔اگر آپ کے ذہن میں کچھ نئی قسم کے کام ہوں تو بتائیے تاکہ جلد از جلد اردو کو ترقی نصیب ہو سکے۔
ایسی اردواکادمیوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ اب وہ ادبی معموں کے احیاء کی طرف تو جہ دیں۔کیا ہی اچھا ہو اگر ہر اردو اکادمی ا پنا ایک انعامی معمہ شروع کردے۔ذرا تصور کیجئے۔ملک کی تمام اردو اکادمیوں نے انعامی معمے شروع کر رکھے ہیں۔ہر شہر سے ان معموں کے اشاروں پر بحث چھاپنے والے رسالے شائع ہو رہے ہیں۔چاء خانوں، کافی گھروں، ہوٹلوں،بسوں اورٹرینوں میں لوگ دائیں سے بائیں اور اوپر سے نیچے اشاروں کی بحث میں لگے ہوئے ہیں۔
اشارہ ہے ․․․․
․․․․․․․ــــــ․․․ل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنّم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
بحث اس پر ہے کہ خالی جگہ میں کیا لفظ بھرنا چاہئے۔عمل ، خلل،ادل، بدل یا بی جے پی کا چناؤ نشان کمل یا پھر کچھ اور۔ ہر لفظ کی تائید میں طرح طرح کی دلیلیں اور تاویلیں دی جا رہی ہیں۔ تبھی ایک طرف سے فلک شگاف آواز آتی ہے۔’’مل گیا ! مل گیا!‘‘
لوگ بیک آوازپوچھتے ہیں۔’’بھئی کیا مل گیا؟‘‘
جواب آتا ہے۔’’اشارے کا حل۔ ذرا غور سے سنئے․․․․‘‘
آنکھیں ابل آتی ہیں، کان کھڑے ہو جاتے ہیں۔
’’ صحیح لفظ ہے․․․․حمل!‘‘
محفل میں بھونچا ل آجاتا ہے۔سب ایک دوسرے کا منھ تکنے لگتے ہیں۔ہر منھ سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔آواز کچھ کہتی سنائی دیتی ہے۔
’’صاحبان،علامہ اقبال غلطی پر تھے۔حمل ہی در اصل وہ عمل ہے جس سے آدمی کی زندگی جنّت یا جہنّم بن جایا کرتی ہے۔ ذرا غور فرمائیے۔بے اولاد کو حمل کس قدر خوشی دیتا ہے اور کثیرالاولادکے لئے کیسی زحمت بن جاتا ہے۔ پھر دوسرے مصرعے میں ناری بھی ہے اور ناری ہندی میں عورت کو کہتے ہیں!‘‘
ظاہر ہے یہ آواز میاں عبدالقدوس کی یا انہی کی قبیل کے کسی معمہ باز کی ہوگی۔
لیکن ضروری نہیں کہ اکادمیاں اپنے معموں میں اسی قسم کے اشارے شامل کریں جنہیں تھوڑی بہت محنت سے حل کیا جا سکتا ہو۔انہیں کچھ ایسے اشارے یا سوال معمے میں دینے ہوں گے جو لاکھ سر پٹخنے پر بھی حل ہونے میں نہ آئیں اور انعام کی رقم اکادمی والوں کے پاس ہی بچی رہے۔آخر ہمارا مقصد اردو کو ترقی دینا ہے۔ انعام کی رقم یوں ہی چلی گئی تو اس سے تو اردو والوں کی ترقی ہو جائے گی جو ہر گز ہر گز ہمارا مقصد نہیں ہے۔
ہماری رائے میں معموں کے اشارے یا سوال نامے کچھ اس طرح کے ہونے چاہئیں․․․․
اشارہ نمبر ۱۔(دائیں سے بائیں) دلہن کے چلے جانے پراُس کا ․․․․․․ بجھا بجھا سا رہنے لگا(دولہا/چولہا/حقہ)
اشارہ نمبر۲۔(بائیں سے دائیں) دادا با کی گھڑکی سے ان کے ہاتھوں کے ․․․․․اُڑ گئے (طوطے/توتے/پوتے )
اشارہ نمبر۳۔(اوپر سے نیچے) لوگ اسے ․․․․․․․کہتے تھے کیونکہ وہ بہرا بھی تھا اور کاہل بھی!(بے وقوف/ جاہل /بحرالکاہل)
اشارہ نمبر۴۔(نیچے سے اوپر) اور پھر بڑے اداس لہجے میں اس نے یہ شعر پڑھا-
کس کو فرصت ہے کہ کوئی داستانِ غم پڑھے
لاکھ تم اترا ہوا ․․․․․․․ لئے پھرتے رہو
(چہرا /چشمہ/کرتا/کچّھا)
اشارہ نمبر۵۔یہ شعر کس شاعر کا ہے ؟ ذہن پر خوب زور دے کر بتائیے۔
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
(غالبؔ /آتشؔ)
اشارہ نمبر۶۔ مندرجہ ذیل علامتی نظم میں شاعر کاروئے سخن کس کی طرف ہے؟
سفید چادر پہ بکھرے رنگوں کے درمیاں
وہ چمکتی آنکھیں
ستارے جیسے تلاش کرتے ہوں کہکشاں میں
شہابِ ثاقب کی رہگزاریں
وہ اس کے انفاس کی حرارت
کہ جیسے بسترکی سلوٹوں میں لپیٹ لی ہو
کسی نے گزرے حسین لمحوں کی ہر شرارت
وہ اس کے ریشم سے بھی ملائم بدن کی خوشبو
کہ جیسے لوبان کا دھواں ہو
فضاء میں قائم․․․
وہ آج کی شب پھر آ گئی ہے
خفیف قدموں سے میرے کمرے میں
حسبِ عادت!
( الف=شاعر کی محبوبہ /ب=شاعر کی پالتو بلّی)
ہمیں امید ہے کہ اس نمونے کی طرزپراور بھی بہت سے مفید ادبی معمے تیار کئے جا سکتے ہیں جنہیں جاری کر کے اردو اکادمیاں نہ صرف اردو زبان کو ترقی دے سکتی ہیں بلکہ اردو ادب کو بھی اس مقام تک پہونچا سکتی ہیں جہاں وہ آج تک نہیں پہونچا ہے۔ اس کے علا وہ یہ معمے چونکہ قریب قریب ناقابلِ حل ہوں گے اس لئے انعام کی رقم بھی بچی رہے گی جو اردو اکادمی اوراس کے ممبروں کے کام آئے گی۔لہٰذااردو زبان و ادب کسی مقام تک نہ بھی پہونچے تو کیا مضائقہ ہے!