نصرت ظہیر(دہلی)
(یہ مقالہ ممبئی یونی ورسٹی کے 15 0سال پورے ہونے کی تقریب پراس کے شعبۂ اردو کی جانب سے منعقدہ سیمینار(5,6,7th March, 2007)میں پڑھا گیا جس کا موضوع یہ تھا کہ کیا اردو زبان ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک تہذیبی پل بن سکتی ہے؟تحریر ایک سال سے بھی زیادہ پرانی ہونے کے باوجود موضوع کے لحاظ سے بالکل تازہ اور اتفاق سے غیر مطبوعہ ہے۔)
خواتین و حضرات!
سب سے پہلے میں اپنی اس حیرت کا اظہار کرنا چاہوں گا جو مجھے اس سیمینار کے لئے مقالہ لکھنے کی دعوت ملنے پرہوئی تھی۔اگرچہ یہ حیرت اب ایک سال پرانی ہو چکی ہے پھر بھی اتنی جینوئن حیرت ہے کہ ابھی تک تازہ ہے۔یہ حیرت مجھے گزشتہ سال اس وقت ہوئی تھی جب آج کا یہ سیمینار دسمبر کی سردیوں میں ہونے والا تھااور پروفیسر معین الدین جینا بڑے کا فون ملتے ہی میں سوچنے لگا تھا کہ آخریہ کیا سوچ کر مجھے مقالہ پڑھنے کے لئے بلا ر ہے ہیں۔ حیرت کی کئی وجہیں، بلکہ وجوہات تھیں۔ایک تو یہ کہ مجھے یہی معلوم نہیں تھا کہ مقالہ کیا ہوتا ہے۔ کبھی لکھا ہو تو معلوم بھی ہو۔دوسرے یہ کہ میری جو تھوڑی بہت پہچان ہے وہ ایک معمولی مزاح نگار کی ہے۔ویسے مزاح نگاری اپنے آپ میں خودبڑا بھاری سنجیدہ کام ہے، اور اس قدر مشکل بھی کہ ڈھائی من ادب تولئے تو مشکل سے چھٹانک بھر مزاح ہاتھ آتا ہے۔پھر بھی کسی مزاح نگار سے سیمیناروں جیسے نام نہاد سنجیدہ موضوع پر لکھوانا ایسا ہی ہے جیسے استرے سے کمر کھجانا۔یعنی موضوعِ سخن کا خون ہو نا ہی ہونا ہے۔
پھر یہ بھی کہ سیمیناروں اور نقادوں کی اردودنیا میں ایک سے ایک پڑھے لکھے پروفیسر ، ڈاکٹراور کمپاؤنڈر صاحبان وافر مقداراورتعداد میں پہلے سے موجود ہیں، پھر مجھ پس ماندۂ ادب کو مقالہ لکھنے کی دعوت کیوں دے دی گئی۔اپنے ہم وطن ڈاکٹر اطہر فاروقی سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا گھبراتے کیوں ہو۔ سیمیناروں میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے وہ سب مقالے تھوڑا ہی ہوتے ہیں۔جو جی میں آئے کاغذ پر لکھ ڈالو۔ لوگ اسے مقالہ ہی سمجھیں گے۔ایک بار لالچ ہوا کہ خود ان ہی سے درخواست کر لوں کہ ایک مقالہ میرے لئے بھی لکھ دیں۔لیکن دو وجہوں سے خاموش رہا ۔ایک تو یہ کہ ان سے کسی بے ضرر مضمون کی امید رکھنا غلط تھااور میں یہ قطعی نہیں چاہتا تھا کہ ممبئی سے میری واپسی غیر یقینی ہو جائے۔ دوسرے مجھے یہ ڈر تھا کہ کہیں وہ سچ مچ میری درخواست منظور نہ کر لیں اور مجھے ان کا لکھا ہوا پڑھنا ہی نہ پڑ جائے۔ بہر حال میں نے اپنی سمجھ کے مطابق ایک آڑا ترچھا سا مضمون اس موضوع پر لکھ مارا ہے ،اسے ایک کچے پکے مزاح نگار کا مضمون سمجھ کر برداشت کر لیں۔خدا آپ کو اس کا اجر دے گا۔ اور پروفیسر معین سے درخواست ہے کہ مضمون کو مقالہ سمجھیں اور دعائے خیر میں یاد رکھیں۔
اس تمہیدکے بعد میں پروفیسر معین اور دیگر منتظمین کوسیمینار کے موضوع کے لئے مبارک باد دینا چاہتا ہوں ۔ اور یہ مبارک باد میں مزاحیہ طور پر نہیں بلکہ پوری غیر مزاحیہ سنجیدگی سے دے رہا ہوں۔
تقسیم شدہ ہندوستان کو وجود میں آئے ہوئے ساٹھ برس ہو رہے ہیں،اور ایک تقسیم شدہ پاکستان کا وجود بھی اب چھتیس برس کا ہو چکا ہے۔ اس دوران دونوں ملکوں کے فاصلے مٹانے کے لئے کبھی ہم شملہ گئے، کبھی ڈھاکہ پہنچے،کبھی لاہور پر حملہ آور ہوئے، کبھی کرگل کی پہاڑیوں پر جا بیٹھے، کبھی پارلیمنٹ کو نشانہ بنایا کبھی مسجدوں مندروں میں خون بہایا،کبھی سمجھوتے کی ریل چلائی کبھی دوستی کی بسیں دوڑائیں۔
اس کے علاوہ دونوں ملکوں میں دوستی اوربھائی چارہ بڑھے ، اس کے لئے پشاور سے کلکتہ تک، لاہور سے لکھنؤ تک ، کراچی سے ممبئی تک اور اسلام آباد سے نئی دہلی تک نہ جانے کتنے مباحثے ،مذاکرے، مشاعرے اور سیمینار ہوئے، طرح طرح کے موضوعات اور قسم قسم کے بہانوں سے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا گیا۔لیکن یہ بات کسی کے ذہن میں نہ آئی کہ اردو زبان بھی دونوں کو جوڑ سکتی ہے۔حالاں کہ یہ بالکل سامنے کا موضوع تھا۔اگر ایسا کرنا ممکن نہ بھی ہو تو کم سے کم اس پر بات تو کر ہی لی جاتی۔مگر شائد یہ موضوع ہی خطرناک تھا ،کیونکہ یہاں کم از کم ہندوستان میں صورتِ حال یہ ہے کہ اسلام آباد والا پاکستان کبھی کا الگ ہو چکا مگر اردو کے تعلق سے ایک ڈھکا چھپا پاکستان ناگ پوری چشمے سے دیکھیں توابھی تک ہمارے ذہنوں میں کنڈلی مار کر بیٹھا ہوا ہے ،جو وقتاً فوقتاً ہمیں ڈستا رہتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق یہ پہلا بین الاقوامی سیمینار ہے جس میں ان دونوں عجوبۂ روزگار ملکوں کے درمیان اردو کو ایک قدرِ مشترک مان کر اسے رابطے کا پُل بنانے کے امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔اس کے لئے میں منتظمین کے حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ انہوں نے ناگ پوری فسطائیت کے تخلیق کردہ وسوسوں کے اس سانپ کواس کی دُم سے نہیں بلکہ پھن کی طرف سے پکڑنے کی ہمت دکھائی ہے۔
دوستو!میں ایک عام آدمی ہوں اور اسی کی طرح سوچتا ہوں۔ مجھ سے آپ کسی دانش ورانہ ،فلسفیانہ اور پروفیسرانہ ڈسکورس کی امید نہ رکھیں۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے مشترکہ پس منظر میں جب بھی میں اردو زبان کے بارے میں سوچتا ہوں تو اکثر الجھ کر رہ جاتا ہوں۔
اردو پورے بر صغیر کی واحد رابطے کی زبان یا لنگوا فرانکا ہے، اردو ہماری گنگا جمنی تہذیب کی پیداوار ہے،اردو کسی ایک مذہبی فرقے کی زبان نہیں ہے،اردو محض ایک زبان نہیں بلکہ اپنے آپ میں ایک مذہب اور ایک تہذیب ہے،اردو ہمارے مشترکہ تہذیبی ورثے کی نشانی ہے،ہمارے سیکولر کردار کی اصل پہچان ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہ ایسے جملے ہیں جنہیں بچپن سے میرے کان سنتے آرہے ہیں، آنکھیں جنہیں پڑھ پڑھ کر تھک گئی ہیں اورشعور جنہیں سوچ سوچ کر جماہیاں لینے لگتا ہے۔اگر یہ سب جملے سچ ہیں، اور میرا ایمان ہے کہ سچ ہیں،اور اردو واقعی ہمیں جوڑنے والی زبان ہے، تومیں کیا مجھ جیسا کوئی بھی طالبِ علم یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گاکہ پھر یہ زبان ہمیں توڑ پھوڑ کرپورا شیرازہ منتشر کیوں کر رہی ہے؟ کیوں اس ملک کی سب سے تکلیف دہ تقسیم کے بعدنام نہادبابائے اردو نے یہ دعویٰ کر دیا کہ پاکستان مسلم لیگ نے نہیں اردو نے بنوایا ہے؟بعد میں کیوں یہی اردو ڈھاکہ میں محمد علی جناح کی تقریر کے بعدبالآخرپاکستان کی بھی تقسیم کابہانہ بن گئی؟ کیوں سب کوجوڑنے والی اردوآج بھی پاکستان کومتحد رکھنے والی قوت نہیں بن پا رہی ہے؟ کس لئے یہ آج کے ہندوستان میں ، اپنے پیدائشی گھر میں لوگوں کی آنکھ کا کانٹا بنی ہوئی ہے ؟ کیوں اس کے حروف میں تحریرکئے گئے خط دوسرے خطوں کے مقابلے میں دیر سے اپنے ٹھکانے پرپہونچتے ہیں؟کیوں اس ملک میں ہر طرح کے لاڈ پیار دلار، تحفوں اور کھلونوں کی مسلسل بارش کے باوجوداسے پھر سے پنپنے نہیں دیا جارہا ہے؟اور نفرت اور شک کا یہ عالم ہے کہ کسی مسلمان جیب کترے کی تلاشی لینے پر اردو میں تحریرشدہ کوئی شعربھی برآمد ہو جائے تو اسے پاکستانی خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ اور اردومیں چھپا ہواکوئی کتابچہ مل جائے تو اسے القاعدہ کا دہشت گرد مان کر ٹاڈا،پوٹا یا ایسے ہی کسی قانون میں بند کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے؟
میں مانتا ہوں کہ اردو مسلم حملہ آوروں کی ایجاد کردہ زبان نہیں بلکہ ہندوستان کے اس عظیم الشان تہذیبی سلسلے ،اور فلسفۂ حیات کی پروردہ ہے جس کا اصل نام ہندوستانیت ہے اور جسے اس کی صورت بگاڑ کر آج ہندوتوا کا نام دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔مسلمان حملہ آور بن کر اس ملک پر قبضہ نہ کرتے تب بھی افغانستان ،ایران اور وسط ایشیا کے دوسرے خطوں کی زبانوں اور تہذیبوں کا اثر یہاں پڑنا لازمی تھا اور ان کے آنے کے بہت پہلے یہ اثراندازی شروع بھی ہو چکی تھی۔چنانچہ اس زبان کو تو وجود میں آنا ہی تھا۔ہاں یہ ہو سکتا ہے تب اس کا نام کچھ اور ہوتا۔یا اس میں دوسری زبانوں کے الفاظ کا تناسب کسی قدر مختلف ہوجاتا۔ تو میں یہ قطعی نہیں مانتا کہ یہ حملہ آوروں کی زبان ہے۔اس کے برعکس یہ اس تہذیب اورجغرافیائی وحدت کی پیدا کی ہوئی زبان ہے جس نے تاریخ کے کسی بھی دور میں دوسرے خطوں اور قوموں پر حملہ نہیں کیا۔حملہ آوروں کی زبان تو فارسی تھی۔اور،اورنگ زیب کی وفات کے ساتھ اس کا خاتمہ بالخیر ہو گیا تھا۔
سچ یہ ہے کہ اردو اپنے ارتقا کے کسی بھی دور میں حکومت کی یا اسٹیبلشمنٹ کی زبان نہیں رہی۔ حیدرآباد کے نظام نے اسے سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کی منظم کوشش ضرور کی ، مگر بیچ میں پاکستان اور پٹیل آگئے۔ پاکستان میں اردو کو پھلنے پھیلنے کا خوب موقع ملا لیکن سرکاری زبان وہاں بھی نہ بن سکی۔ ہاں اسے زبر دستی رائج کرنے کے چکرمیں مشرقی پاکستان ضرور ہاتھ سے نکل گیا۔ محمد علی جناح ڈھاکہ میں تقریر کے دوران یہ اعلان کرتے ہوئے کہ آج سے ہم ایک قوم ہیں جس کی ایک زبان( اردو) ہوگی تووہ یہ اندازہ کرنا بھول گئے کہ پاکستان بنوا کر برِ صغیر کے مسلمانوں کے حق میں سب سے ہولناک غلطی کر بیٹھنے کے بعد اب وہ خود پاکستان کو تقسیم کرنے کی بنیاد ڈال کردوسری تاریخی حماقت فرماگئے ہیں۔سچ ہے صاحب۔ لمحوں کی خطاؤں کو صدیاں بھگتتی ہیں۔
مغربی پاکستان کے حکمراں یہ بھول گئے کہ حکومتیں زیادہ سے زیادہ رسم الخط رائج کر سکتی ہیں ،زبان نہیں۔ زبان کو تو عوام رائج کرتے ہیں۔ یہ کسان یہ مزدور یہ لوہار یہ ترکھان یہ موچی یہ نائی ، زبان یہ لوگ تخلیق کرتے ہیں۔کوئی میر یا کوئی غالب زبان کو پیدا نہیں کرتا۔ زبان خود انہیں پیدا کرتی ہے اور خود ان کے ہاتھوں اپنے آپ کو سجاتی اور سنوارتی ہے۔ مختصر یہ کہ جناب ،کل ملا کر اردو پہلے بھی عوام کی زبان تھی اور آج بھی یہ عوام ہی کی زبان ہے۔ جھگڑا جو ہے تو رسم الخط کا ہے۔ دائیں سے بائیں لکھو تو پاکستان شروع ہوجاتا ہے اوربائیں سے دائیں لکھو توکفرستان کی سرحد آ جاتی ہے۔تو پھر ہندوستان پاکستان کے درمیان اردو کا پُل کھڑاکیسے ہو؟
مجھے یہ ماننے میں تامل ہے کہ اردو بحیثیت زبان دونوں ملکوں کے درمیان کوئی پل بن سکتی ہے یا بنا سکتی ہے۔ اس کی وجہیں صاف ہیں۔ پاکستان میں جو درجہ قومی قبولیت کااردو کو ملا ہے وہ ہندوستان میں ہندی نے حاصل کر لیا ہے۔ وہاں کے لوگ ہندی کا رسم الخط نہیں جانتے اور یہاں اردو کو اس کے رسم الخط میں پڑھنے والے گھٹتے جا رہے ہیں۔ تو اس حالت میں جو پل بنے گا وہ ظاہر ہے دونوں طرف سے لنگڑا ہو گا۔ یعنی ہوا میں لٹکا ہوا۔
مشکل یہ ہے کہ زبان کے معاملے میں ، خاص طور سے اردو زبان کے معاملے میں ہماری سوچ شروع سے جذباتی رہی ہے۔ اردو کو ہم دماغ سے نہیں صرف دل سے سوچتے ہیں۔ چنانچہ شاعری کریں گے اردو میں۔ سائنس پڑھیں گے انگریزی میں۔ اور یہ مجموعی صورت آج کی نہیں۔ برسوں سے یہی چل رہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے انگریزی کی جگہ فارسی تھی۔ اردو والے غزل اردو میں لکھتے تھے اور طبی نسخے فارسی میں۔ اردو کو ہم نے دل کی طرح دماغ سے بھی انگیز کیا ہوتا تو دل کا بوجھ کافی کم ہو جاتا۔ یہ قبول کرنے میں آسانی ہوتی کہ زبان بہر حال رابطے کا اوزار ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی یا ملٹی میڈیا فنکشنز کا پہلا ٹول toolجسے آدمی نے ہزاروں یا شائد لاکھوں سال پہلے بنایا تھا۔
اُس وقت ڈجیٹل Digitalسے زیادہ یہ ایک طرح کا انالوجیکل Analogicalعمل تھا۔سیدھے سادے خیالات کی ترسیل جسمانی اشاروں سے زیادہ ہوتی تھی صوتی اشاروں سے کم۔دھیرے دھیرے سوچنے کے عمل کو فروغ ملاتو خیالات میں پیچیدگی بڑھی۔ اشارے ناکافی پڑ گئے۔ صدائیں حرف بننے لگیں۔ حرف سے لفظ بنے۔ لفظ سے زبانیں وجود میں آئیں اور انسان جسمانی اشاروں کے بغیر بھی باتیں کرنے لگا۔ پھر جب باتوں کا ذخیرہ آدمی کے میموری کارڈMemory Cardکی گنجائش سے بڑھ گیا اور معاملات کو یاد رکھنے کی ضرورت پیش آئی توہوا میں تحلیل ہو جانے والے لفظ تصویروں اور خاکوں میں محفوظ ہونے لگے۔ یہی تصویریں اورخاکے مختصر ہو کر نقطے،دائرے اور لکیربن گئے اور زبانیں بولے جانے اور سنے جانے کے علاوہ لکھی بھی جانے لگیں۔
ہزاروں سال بعد آج کمپیوٹر کی بدولت زبانو ں کے ارتقا کا اینالوجیکل عمل ڈجیٹائز digitiseہو گیا ہے ، اوران کی شکل کچھ کی کچھ ہوئی جا رہی ہے۔ایس ایم ایس، ای میل اور انٹرنیٹ کی ضرورتوں نے لفظوں اور لکھاوٹوں کو سکیڑنا شروع کر دیا ہے۔دنیا کی سینکڑو ں زبانیں کمپیوٹر کی وجہ سے چار پانچ رسم الخطوں میں سمٹتی جا رہی ہیں۔ڈجیٹل کمپیوٹنگ digital computingکی اس آندھی میں اگلے سو پچاس برسوں کے دوران اردو کا کیا حشر ہو گا کہنا مشکل ہے۔ختم تو یہ ظاہر ہے کہ نہیں ہو گی کیونکہ آج بھی اس کے بولنے والے کروڑوں کی تعداد میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ رسم الخط اس کاعربی اورفارسی سے آیا ہے، اورعربی، فارسی والے چونکہ تیل بیچتے ہیں،لہٰذا اس طرف سے بھی زیادہ خطرہ نہیں اورکل ملا کرمیں سمجھتا ہوں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سے اردو کو کسی قسم کا نقصان پہونچنے والا نہیں ہے۔ خطرہ اسے اگر ہے تو اس کی محبت کا دم بھرنے والوں سے ہے۔ جو لفاظی تو سب سے زیادہ کرتے ہیں لیکن عمل کے نام پر صفر ہیں۔ اور ان میں بھی سب سے خطرناک وہ لوگ ہیں جو اردو کو کلمہ پڑھا کر مسلمان کرنے کے چکر ہیں۔بہر حال یہ ایک الگ بحث ہے جسے میں دوسروں کے لئے چھوڑتا ہوں۔
بات ہے اردو کو دونوں ملکوں کے درمیان ایک وایامیڈیا بنانے کی۔جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں اور جیسے کہ حالات نظر آتے ہیں،اردو ایک زبان کی حیثیت سے تو نہیں البتہ ایک تہذیبی وراثت کے طور پر ضرور دونوں ملکوں کے درمیان ایک پُل بن سکتی ہے۔اور بن کیا سکتی ہے ، مجھے تو لگتا ہے کہ بنتی جا رہی ہے۔اور اس تہذیبی پُل کو کھڑا کرنے میں سب سے بڑا کردار میرے خیال سے ماس میڈیا کر رہا ہے۔
حالات دونوں طرف ایسے بن گئے ہیں کہ سیاست دانوں کی بجائے عوام کے ذہنوں پر فلم، اخبار ،ٹی وی اور ابلاغ کے دوسرے مظاہر کا اثر زیادہ پڑنے لگا ہے۔ہندوستانی فلموں نے جن میں 90فیصد سے زائد کی زبان اردو ہوتی ہے، پاکستانیوں کے دلوں پر اپنا سکہ جما کر اس تہذیبی پُل کی تعمیر کافی پہلے شروع کر دی تھی۔ کوئی اسے مانے یا نہ مانے مگر ہندوستانی فلموں کے اردو مکالموں اور گانوں میں اتنی جان ہے کہ اس کا اثر افغانستان اور خلیج کے ملکوں میں بھی پڑا ہے۔ آج اگر آدھا افغانستان اردو میں بات کر سکتا ہے تو اس میں سب سے بڑا ہاتھ ہندوستانی فلموں کا ہے، انجمن ترقی اردو ہند یا انجمن ترقی اردوپاکستان کا نہیں۔ فلموں کی بدولت اردو جنوبی ایشیا میں نہیں بلکہ خلیج عرب میں بھی ایک بڑی لسانی طاقت بنتی جا رہی ہے۔
ہندوستانی فلموں کے بعدآتی ہیں پاکستانی فنکاروں کی گائی ہوئی غزلیں اور قوالیاں۔ جو ظاہر ہے اردو تہذیب و ثقافت ہی کی دین ہیں۔ ہندوستانی فلموں کی آندھی کے جواب میں پاکستان کی طرف سے آنے والی اس بادِ نسیم نے بلا لحاظِ مذہب و ملت سب کے دلوں کو تراوٹ سے بھردیا ہے اور اس کی بدولت ایک زبر دست میوزک انڈسٹری کھڑی ہو گئی ہے۔ اس میں تازہ اضافہ صوفی سنگیت کا ، بلکہ صوفیانہ پاپ میوزک کا ہے اور یہ بھی ماشاا ﷲ مارشل لاکا عادی سمجھے جانے والے پاکستان ہی سے آیا ہے۔
لیکن اس دوران ٹیلی ویژن نے دونوں ملکوں کو جس طرح اپنی گرفت میں لیا ہے اس کا اثر فلم اور موسیقی سے بھی کہیں زیادہ پڑ رہا ہے۔دونوں طرف کی نیوز چینلوں نے خبریں دینے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی روش کے تحت اوربریکنگ نیوز کی کٹ تھروٹ cut throatمقابلہ آرائی کی بدولت، شعوری طور پر نہ سہی غیر شعوری طور پر ہی سہی، دونوں ملکوں کے عوام کو پہلے سے زیادہ باخبر رکھنا شروع کر دیا ہے۔ پہلے دونوں ملکوں کے عوام خود اپنا حال جاننے کے لئے ریڈیو پر بی بی سی لندن ٹیونtuneکیا کرتے تھے اور بگ بین کی جھنکار کے بعد سنائی جانے والی خبروں پر آسمانی وحی کی طرح یقین کر لیا جاتا تھا۔ آج لندن میں ایشیائیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تصویریں خود ہمارا ٹی وی دن رات گھربیٹھے دکھا دیتا ہے۔ پاکستان میں تو جیسے غضب ہی ہو گیا ہے(یاد رہے مضمون ایک سال پہلے کا لکھا ہوا ہے)وہاں چشمِ فلک حیران نگاہی سے ایک ایسے فوجی ڈکٹیٹر کو اقتدار پر قابض دیکھ رہی ہے جس نے ہر طرح کے میڈیا کو کھلی چھوٹ دے رکھی۔ جس کی چاہے خبر دو جس کی چاہے خبر لو۔اور یہاں ہندوستان میں تو ذرائعِ ابلاغ پہلے ہی بے لگامی کی حد تک آزاد ہیں۔چنانچہ خبروں کی اس یلغار کا دھیرے دھیرے سب پر اثر ہو رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے جذباتی عوام پہلے سے زیادہ باخبر چنانچہ پہلے سے زیادہ ہوشیار اور پہلے سے بڑھ کر حقیقت پسند ہوتے جارہے ہیں۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ صرف ایک سال پہلے تک صورتِ حال یہ تھی کہ دونوں ملک جب بھی ایک دوسرے کے کچھ قریب آتے دکھائی دیتے تھے تو کہیں نہ کہیں کوئی بم پھٹتا تھا اور قربت پھر دوری میں بدل جاتی تھی۔ اب وہ حالات بھی بدلتے دکھائی دے رہے ہیں۔سمجھوتہ گاڑی کوجلا دیا گیا مگر مذکرات کی ریل پٹڑی سے نہیں اتری۔دونوں میں سے کسی نے بھی دوسرے کے خلاف ویسی بیان بازی نہیں کی جیسی پہلے ہوا کرتی تھی۔دہلی کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج پاکستانی زخمیوں کو جب ان کا اپنا وزیرہوائی جہاز سے واپس لے جانے کے لئے آیا تو وہ اپنی مرضی سے واپس نہیں گئے۔ انہیں ہندوستانی ڈاکٹروں پر بھروسہ تھا اور وہ علاج کے بعد ہی واپس جانا چاہتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ بعض پر اسرار مصلحتوں کی وجہ سے پاکستانی حکومت ان کی واپسی چاہتی تھی، چنانچہ اس عمل میں ہونے والی تاخیرکے سبب کو فوجی طیارے میں تکنیکی خرابی کی آڑ لے کرچھپایا گیا اور یہ زخمی پاکستانی، زبردستی اسٹریچروں پر لٹا کر طیارے میں لے جائے گئے۔ ظاہر ہے عوام اور حکومتوں کے برتاؤ میں ان تبدیلیوں کے پیچھے اطلاعات کی ترسیل میں آنے والی تیزی اورماس میڈیا کا ہی بڑا ہاتھ ہے جو ہر واقعے کے ہر پہلو کو دن رات ،لگاتار، باربار سامنے لا رہاہے اور لوگوں کی سوچ کے دائروں کو پھیلارہا۔
اس عمل کا اردو سے سیدھا تو نہیں لیکن بالواسطہ تعلق ضرور ہے ،اور وہ اس طرح کہ دونوں طرف کے مین اسٹریم الیکٹرانک میڈیا کی زبان آج کی تاریخ میں اردو سے اتنی قریب ہے کہ آپ اسے اردو کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دے سکتے۔نہ اس میں عربی فارسی کے مشکل لفظ ہیں نہ سنسکرت کے۔ ایسی زبان کو آپ اردو نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟
ہاں اس میں، خاص طور سے ہندوستانی ٹی وی کی اردو میں آپ کو خلافت اورخلاصا جیسے لفظوں کی ٹانگ ٹوٹنے کی آوازیں ضرور سنائی دیں گی جن پر آپ کو ہنسنے اور اناؤنسروں کے شین قاف پر ترس کھانے کا موقع بھی مل جائے گا لیکن اُن کی اِس سنجیدگی کا مذاق اڑانا یقیناًآپ کو ایک ظلم محسوس ہوگا جو وہ اردو کے زیادہ سے زیادہ الفاظ کو اپنی ووکیبلریVocabularyمیں جگہ دے کر اپنے بیانئے کوزیادہ عام فہم اور زیادہ پر اثر بنانے کے سلسلے میں دکھا رہے۔ یہاں یہ پہلو قابلِ غور ہے کہ ہندی والوں میں اتنی فراخ دلی اور دور اندیشی بہر حال موجود ہے کہ وہ اردو کے ڈکشن سے قدرے مشکل لیکن مترنّم الفاظ اپنی جھولی میں ڈال کرہندی کو اورمٹھاس دینے اور قابلِ قبول بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، جب کہ اردو والے اس معاملے میں بے حد ذکی الحس ،اور سچ کہنے دیں تو خاصے متعصب نظر آتے ہیں۔انہیں جب بھی عربی یا فارسی کی مشکل تراکیب اور اصطلاحات سے پنڈ چھڑانا ہوتا ہے وہاں وہ جھٹ انگریزی کا ہم معنی لفظ ڈال دیتے ہیں۔ ہندی کے آسان ترین لفظوں سے بھی اچھوتوں جیسا برتاؤ کرنا ہندوستانی اردو دانوں کی ایک عام روش ہے۔ اور یہاں بھی عجیب بات یہ ہے کہ پاکستانی اردو لکھاریوں میں یہ مزاج نہیں پایا جاتا۔ وہ پوری بے تکلفی سے ہندی پنجابی اور اپنے یہاں کی دوسری علاقائی زبانوں کے لفظ اپنے بیان میں داخل کرتے چلے جاتے ہیں۔
بہر کیف کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ ہندوستانی ٹیلی ویژن نے جس طرح ہندی زبان کو ، کوٹنا، پیسنا اور چھاننا شروع کیا ہے اس سے وہ مسلسل اردو کے زیادہ قریب ہوتی جارہی ہے اور سنتھیسس synthesisکا یہ عمل یوں ہی جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب پاکستانی اور ہندوستانی الیکٹرانک میڈیا کی زبان میں کوئی فرق نہیں رہ جائے گا۔ اور عملاً دونوں طرف کی عوامی زبانیں رسم الخط کے فرق کے باوصف ایک ہو جائیں گی۔
تو جناب! اس طرح اردو یقیناً دونوں ملکوں کے درمیان ایک تہذیبی پُل بنا رہی ہے جس سے مستقبل کے بہت سے معاملات کو سلجھانے میں کچھ نہ کچھ مدد ضرور ملے گی۔ اچھا ہوتا اگر پرنٹ میڈیا بھی اس عمل میں شریک ہو جاتا۔ دونوں طرف کے اخبارات و رسائل میں ایک دوسرے کے حالات کے بارے میں آج بھی زیادہ رپورٹنگ نہیں ہوتی۔ جتنی ہوتی ہے وہ معاملات کو ایک کٹّر قسم کی وطن پرستی کے چشمے سے دیکھ کر کی جاتی ہے۔ اطلاعات کو ایک خاص رنگ یا رُخ دے دیا جاتا ہے اور غیر جانب دار انہ و حقیقت آمیز جائزے بہت کم پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اس ضمن میں اردو کا کردار آدھا اور یک طرفہ نوعیت کاہے۔ یعنی پاکستان میں تو پرنٹ میڈیا پر اردو کی حکومت ضرور ہے ۔لیکن یہاں ہندوستان میں پورے ملک کی صحافت پر بس انگریزی کا راج چل رہا ہے۔ اور اخباری سرکولیشن کے لحاظ سے اردو ، ہندی کے بعد تیسرے مقام پر بھی نہیں ہے۔
ہاں اردو کی کتابیں دونو ں طرف خوب چھپ رہی ہیں۔لیکن ان کا ایک دوسرے کے یہاں پہونچناتقریباً یک طرفہ سا ہوکر رہ گیا ہے۔ پاکستان میں ڈاک کی شرحیں ہندوستان کے مقابلے میں اتنی زیادہ ہیں اور ترسیلِ زر دونوں ملکوں کے درمیان اتنی مشکل ہے کہ کتابیں بس ذاتی رابطوں سے آتی جاتی ہیں۔ دونوں طرف ایک دوسرے کی اردو کتابوں اوررسائل و جرائد کی اچھی خاصی مانگ ہے لیکن ان کی عوامی تقسیم و ترسیل کا کوئی معقول، سستا اور آسان بندو بست نہ ہونے کی وجہ سے پرنٹ میڈیا دونوں ملکوں کو قریب لانے میں وہ رول ادا نہیں کر پا رہا ہے جو وہ ادا کر سکتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس سیمینار کے ذیعے دونوں ملکوں کی حکو متوں کو یہ سمجھایا جا سکے کہ پرنٹ میڈیا کا ایک ریم چھپا ہوا کاغذ یہاں سے وہاں آ جاکردونوں کے لئے کروڑوں روپے کے ایک ٹینک کی ضرورت کم کرسکتا ہے تو یہ بھی ہند پاکستان دوستی کے عظیم کاز کی ایک عظیم خدمت ہوجائے گی۔
میں یہ نہیں کہتا کہ اردو زبان کے جس تہذیبی پُل کی بات میں ماس میڈیا کے تعلق سے کر رہا ہوں وہ ہمارے آپس کے تمام جھگڑوں کو حل کر دے گا۔کل سے بم پھٹنا بند ہو جائیں گے۔ جماعتِ اسلامی اپنی دوکان بند کر لے گی۔آرایس ایس کے سپیرے اپنی پٹاریاں لپیٹ لیں گے۔دونوں طرف کا کشمیر آزاد ہو جائے گا۔ جی نہیں۔ ایسے کسی چمتکار کی توقع کرنا حماقت کی حدوں سے بھی آگے نکل جانے والی خوش امیدی ہو گی۔لیکن اس تہذیبی ارتباط سے ہمارے تمام مسٗلوں کی جڑ ،یعنی دونوں ملکوں کی سیاسی مفاد پرستی ضرور کم زور ہو گی یہ بات میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں۔خدا حافظ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ تقسیم بّرِ صغیر کے بعد ہندوستان میں دیو ناگری رسم الخط کو رائج کرنے کے لئے اردو ،ہندی تنازعہ میں شدت پیدا کرائی گئی۔ ہندی کو قومی زبان قرار دلوانے کے لئے شدید بھاگ دوڑ کے باوجود اسمبلی میں ووٹ برابر پڑے ۔تب اسپیکر کے کاسٹنگ ووٹ سے اردو کے مقدر کا فیصلہ کیا گیا۔ہندی کو ،در اصل دیو ناگری رسم الخط کو ہندوستان کی قومی زبان کا درجہ مل گیا۔ پھر بات یہیں ختم نہیں ہوئی،ہندوستان بھر کی رابطہ کی زبان کو علاقائی زبان بنا کر اس کے اپنے علاقوں میں بھی دوسرے درجہ ،بلکہ تیسرے درجہ کی زبان بنا دیا گیا ۔اردو کو یہ سزا قیام پاکستان کے ’’جُرم‘‘میں دی گئی۔اُدھر پاکستان میں بھی اگرچہ اردو کو سرکاری زبان تو بنا لیا گیا تاہم وہاں کی اشرافیہ کی زبان انگریزی ہی رہی۔اور گزشتہ تریپن برسوں سے وہاں ہماری بیوروکریسی اورسیاست تک کالے انگریزوں کا ہی عمل دخل رہا ہے۔یوں اردو زبان کو اس کے اپنے گھر سے بھی بے دخل کر دیا گیا اور پاکستان میں بھی اسے جائے اماں نہ مل سکی ۔ہندوستان ہو یا پاکستان ،یہ زبان صرف اپنے بولنے والوں اور لکھنے والوں کے بل پر نہ صرف زندہ ہے بلکہ قائم و دائم ہے۔‘‘ (حیدر قریشی کے مضمون اردو زبان اور ادب کے چند مسائل مطبوعہ ۲۰۰۰ء۔سے اقتباس
بحوالہ حاصلِ مطالعہ صفحہ نمبر ۱۸، ۱۹)