افشین اپنے کام سے جا چکی تھی اور اشعر بھی وہیں اس کے ساتھ تھا۔ دانین ایک گھنٹے تک تو وہیں بیٹھی اس کا انتظار کرتی رہی پھر اُکتا کر اسے میسج بھیج کر گاڑی لیے باہر کی خاک چھاننے نکل گئی ۔اس کا ارادہ صرف ایک لمبا چکر لگا کر واپس آنے کا تھا۔ ابھی اسے شہر میں مٹر گشت کرتے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک جگہ اسے سگنل پر گاڑی روکنا پڑی۔ بوریت سے بچنے کے لیے دانین نے آگے ڈیش بورڈ پر رکھا اپنا موبائل اٹھایا اور میسجز دیکھنے لگی۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ پیچھے سے ایک گاڑی ٹھیک اس کے بالکل برابر آ رکی۔ وہ جو افشین کو دوبارہ سے میسج ٹائپ کر رہی تھی اپنے برابر سے کسی کی کھنکتی ہوئی ہنسی کی آواز پر چونکی اور جب اس نے اپنی نگاہ اس سمت ڈالی جہاں سے آواز آئی تھی تو چند پل کے لیے وہ بھونچکا کر رہ گئی۔ گاڑی میں ارتضی کے ساتھ وہی لڑکی بیٹھی تھی جس کو اس نے ارتضیٰ کی بہن کہہ کر طیش دلایا تھا۔ دونوں ہی کسی بات پر ہنس رہے تھے ۔ یہ سب دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھا ۔ سگنل آن ہوا تو ارتضی کی گاڑی آگے چلی گئی جبکہ وہ پیچھے اس کو گھورتی ہی رہ گئی۔ کچھ پل سوچنے کے بعد اس نے بجائے کسی اور طرف جانے کے گاڑی ان کے پیچھے ہی لگادی ۔ وہ جلتی بھنتی سخت غصے میں ان کے پیچھے جا رہی تھی۔ ان کی گاڑی ایک شاپنگ مال کے سامنے رکی ۔ وہی لڑکی ایک ادا سے گاڑی سے باہر نکلی اور وہیں کھڑی ہو کر ارتضی کا انتظار کرنے لگی۔ ارتضیٰ گاڑی کو پارکنگ ایریا میں پارک کر کے لڑکی کی جانب مسکراتا ہوا آیا اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر وہ دونوں مال کے اندر چلے گئے۔ ان کو یوں ایک دوسرے میں مگن اندر جاتا دیکھ کر وہ پیچ و تاب کھا کر رہ گئی۔ کچھ سوچ کر اس نے گاڑی میں رکھی ایمرجنسی کے لیے استعمال ہونے والی چھوٹی سی نوٹ بک کا پیج پھاڑا اور اس پر کچھ لکھ کر تیزی سے اپنی گاڑی سے باہر نکلی اور ارتضی کی گاڑی کے بونٹ پر وہ نوٹ چپکا دیا اور خود اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ان دونوں کا انتظار کرنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افشین مکمل تیاری کے ساتھ ریسٹورینٹ کے باہر پہنچ چکی تھی ۔ ڈارک بلو جینز پر ریڈ ٹی شرٹ اور کانوں میں بالی نما جھمکے پہنے وہ کافی حسین دکھائی دے رہی تھی ۔ اس نے میک اپ کرتے ہوئے غیر ملکی حلیہ اپنایا تھا۔ اسے ریسٹورینٹ کے باہر کھڑے ابھی کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ عدیل اپنے دوستوں کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔ وہ لوگ اس کے پاس پہنچے تو اس نے ایک خوبصورت سی مسکان ان کی طرف اچھالی اور باقی سب کو چھوڑ کر عدیل سے مخاطب ہوئی۔
“ہیلو ہینڈسم! کین یو ہیلپ می؟”
“یس شیور۔ “وہ باچھیں پھیلاتا ہوا بولا۔
“ایکچولی آئی ایم اے ٹورسٹ اینڈ ۔۔۔۔۔اپنے ہوٹل کا ۔۔۔۔۔۔راستہ۔۔۔۔۔ بھولتی۔ کیا تم ۔۔۔۔ہم کو لفٹ دیتا؟” افشین نے مزید کیوٹ لگنے کے لیے انگلش میں اردو کا تڑکا لگایا۔ اس کا یہ انداز دیکھ کر عدیل افتخار دل و جان سے اس پر فدا ہوا۔
“اوکے۔ ان وچ ہوٹل آر یو سٹیئنگ؟”
“ہم آپ کو راستہ بتاتا۔” افشین نے شکار تیار دیکھ کر مسکراہٹ دبائی۔
” اوکے لیٹس گو۔ ٹھیک ہے۔ دوستو پھر ملتے ہیں.” عدیل نے پہلے افشین کو اور پھر اپنے دوستوں سے کہا اور فرنٹ ڈور کھول کر افیشن کو بٹھا کر دوسری جانب سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر کے روڈ پر ڈالی۔
“شکریہ۔۔۔۔ پاکستانی میل ۔۔۔۔ بہت ہینڈسم۔۔۔۔ ہوتے اینڈ یو آر سو چارمنگ لائک اے پرنس۔” افشین نے ایک ادا سے کہا اور وہ اس پر سو جانوں سے نثار ہوا۔
“تھینک یو تھینک یو۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ افشین نے جان بوجھ کر گاڑی خالی سڑک کی جانب موڑنے کو کہا۔ اشعر کی گاڑی بھی کچھ فاصلے پر ان کے پیچھے ہی آ رہی تھی۔ جیسے ہی وہ لوگ قدرے سنسان جگہ پر پہنچے تب افشین اچانک چیخی۔
“سٹاپ سٹاپ،سٹاپ۔”
“واٹ؟”ایک دم سے بریک لگنے کی وجہ سے ٹائروں کے چرچرانے کی آواز دور دور تک سنائی دی تھی۔
“ڈونٹ موو ۔ یہاں ۔۔۔کچھ ہے ۔ہم دیکھتا ہے ” اس نے اس کی گردن کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔اس کے شیریں اور فکرمند لب و لہجے پر اس کی آنکھیں چمکیں گویا کہ وہ اس کو پھانسنے میں کامیاب ہوچکا ہو۔ وہ اسی سرشاری میں بیٹھا تھا کہ اچانک اسے اپنی گردن پر چبھن سی محسوس ہوئی۔ اس کا ہاتھ بے اختیار اپنی گردن پر گیا اور ساتھ ہی اسے اپنا سر گھومتا محسوس ہوا ۔
“یہ مجھے کیا ہو رہا ہے؟” اس نے برابر بیٹھی افشین کو دیکھتے ہوئے کہا مگر اس کے ہونٹوں پر پراسرار سی مسکراہٹ دیکھ کر چونکا۔ اس سے پہلے وہ مزید کچھ بولتا اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اس نے سر جھٹک کر آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مگر سب بےسود۔ بند ہوتی آنکھوں اور ڈوبتے ذہن کے ساتھ آخری سوچ جو اس کے ذہن میں لہرائی تھی وہ یہی تھی کہ وہ خطرے میں پڑ چکا ہے۔ اس سے پہلے کہ اس کا سر سٹیئرنگ پر لگتا افشین نے اس کو گردن سے پکڑ کر پیچھے سیٹ کے سہارے بٹھایا۔
“اُف! انگلش اردو بول بول کر میرا تو منہ بھی ٹیڑھا ہو گیا ہے۔” اس کی ڈھلکی گردن دیکھ کر وہ منہ بناتے ہوئے بڑبڑائی اور باہر نکل کر اشعر کو انگوٹھے سے کام ہونے کا اشارہ کیا۔ اس نے تیزی سے گاڑی لا کر ان کی گاڑی کے ساتھ لگائی اور پھر باہر نکل کر جلدی جلدی اسے اپنی گاڑی میں منتقل کرنے لگا۔ افشین کو گاڑی میں بیٹھنے کا بول کر اس نے جیب میں رکھی چھوٹی سی سپرے کی بوتل نکال کر افشین کی سیٹ ، ڈیش بورڈ اور اس کی جانب والے گیٹ پر سپرے کیا اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنی گاڑی میں آ بیٹھا اور فوراً سٹارٹ کر کے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ چند ہی لمحوں میں ان کی گاڑی ہوا سے باتیں کرتی کیٹس ہاؤس کی جانب جا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں شاپنگ مال سے نکل کر پارکنگ ایریا میں کھڑی اپنی گاڑی کے پاس آئے تو ارتضیٰ کو اپنی گاڑی کے بونٹ پر ایک نوٹ چپکا ہوا دکھائی دیا۔
” یہ کیا ہے؟” اس نے بڑبڑاتے ہوئے نوٹ اٹھایا۔
” کہتے ہیں پرہیز علاج سے بہتر ہوتا ہے تو اس سے پہلے میں تمہارا علاج کروں ۔تم پرہیز شروع کر دو۔ آج کے بعد اگر تم دوبارہ اس لڑکی کے ساتھ تو دور کی بات ہے آس پاس بھی دکھائی دیے تو یقین کرو اس پرکٹی کبوتری سے تمہاری اگلی ملاقات ہسپتال میں ہوگی۔ اسے محض میری دھمکی سمجھنے کی غلطی مت کرنا۔ میں بس ایک بار ہی وارننگ دیتی ہوں دوسری بار سیدھا عمل کرتی ہوں ۔
“فرام وائلڈ کیٹ۔”
“یہ کیا بکواس ہے؟”وہ کاغذ کو مٹھی میں دباتے ہوئے بڑبڑایا اور ارد گرد دیکھتے ہوئے تحریر لکھنے والے کو ڈھونڈنا چاہا مگر کسی کو نہ پا کر اسے مایوسی ہوئی۔پارکنگ ایریا میں کھڑے گارڈ کی بھی ان کی گاڑی کی طرف پشت تھی سو اس سے پوچھنا بھی فضول تھا کہ آیا اس نے کسی کو دیکھا ہے یا نہیں۔
“کیا ہوا؟” اس کے بگڑے تیور دیکھ کر علیزا نے پوچھا۔
“کچھ نہیں! تم گاڑی میں بیٹھو۔” اس نے چاروں طرف نظریں دوڑاتے ہوئے کہا اور خود بھی ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔ ان کے پارکنگ لاٹ سے نکلنے کے بعد دانین بھی گاڑی ریورس کر کے وہاں سے نکلی۔ اب اس کا رخ کیٹس ہاؤس کی طرف تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فروا بھابھی، رابیل اور ایان کے ساتھ باہر لنچ کے لیے آئی ہوئی تھیں۔ وہ لوگ لنچ سے فارغ ہو کر باہر نکلے تو انہیں پارکنگ میں تین چار لڑکے کھڑے دکھائی دیے جو شکل اور حلیے سے ہی آوارہ اور لفنگے لگ رہے تھے۔ ان میں سے ایک ان کی گاڑی کے بونٹ پر چڑھ کر بیٹھا تھا۔ وہ تینوں گاڑی کے پاس آ کر رکے تو انہوں نے مڑ کر دیکھا اور اگلے ہی لمحے ان لڑکوں کے ہونٹوں ہر ایک خباثت سے بھرپور مسکراہٹ دوڑ گئی۔
” ارے واہ کیا آئیٹم ہے؟” ایک نے معنی خیزی سے باقیوں کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو انہوں نے زور سے قہقہ لگایا۔
” اپنی بکواس بند کرو! تمیز نہیں ہے لڑکیوں سے بات کرنے کی؟” فروا بھابھی نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔
” کیا غضب کے تیور ہیں بھئی خوبصورتی اور تیکھا پن ایک ساتھ۔” ان میں سے ایک نے فروا کے دائیں جانب کھڑی رابیل کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا جب چٹاخ کی آواز کے ساتھ وہ آدمی لڑکھڑا کر پیچھے ہٹا۔ فروا کا نرم و نازک ہاتھ اس کے گال پر اپنی چھاپ چھوڑ گیا تھا۔ وہ حیرت سے اس کا ہاتھ دیکھ رہا تھا جو دکھنے میں تو نازک سا لگ رہا تھا مگر اس کے سارے طبق روشن کر گیا تھا۔
” یہ غلطی بھی مت کرنا ورنہ بہت بری طرح سے پیش آؤں گی۔” وہ انگلی اٹھا کر انھیں وارن کرتے ہوئے غرائی ۔پارکنگ میں آتے جاتے لوگ بھی اب ان کے ارد گرد اکھٹے ہوگئے تھے۔
“تمہاری تو۔” وہ اتنے سارے لوگوں کے سامنے لڑکی سے تھپڑ کھا کر اپنی خجالت مٹانے کو غصے سے اس کی طرف بڑھا۔
” شٹ اپ۔” فروا نے اسے غصے سے پیچھے دھکیلا۔ رابیل اور ایان موجودہ صورتحال پر سہمے ہوئے کھڑے تھے۔
” لڑکیاں سمجھ کر ہراس کرنے کی غلطی مت کرنا ورنہ وہ حال کروں گی کہ تمہارے گھر والے بھی نہیں پہچان سکیں گے ”
کچھ اس کے تیور اور کچھ ارد گرد لوگ اکھٹے دیکھ کر اس کے ساتھی نے اسے پیچھے کھینچا۔
” ایڈیٹ۔” فروا بھابھی بڑبڑاتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھیں اور گاڑی کا دروازہ کھول کر رابیل اور ایان کو بیٹھنے کو بولا اور خود بھی گاڑی میں بیٹھ کر تیزی سے سٹارٹ کرتے ہوئے ریورس کر کے وہ پارکنگ سے نکل گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان لوگوں نے راستے سے ارسل کو اکیڈمی سے پک کیا اور گاڑی گھر کی جانب جاتے راستے پر ڈال ڈی۔ ابھی وہ تھوڑا آگے ہی پہنچے تھے کہ فروا کو ایک گاڑی اپنے پیچھے آتی دکھائی دی۔ اس نے چیک کرنے کے لیے کہ آیا وہ گاڑی ان لوگوں کا ہی پیچھا کر رہی ہے یا نہیں اس نے گاڑی شہر سے باہر جانے والی سڑک کی طرف موڑی تو وہ گاڑی بھی ان کے پیچھے ہی مڑی جس سے اس کو یقین ہوگیا کہ ان کا پیچھا کیا جا رہا ہے۔ اس نے تھوڑی سپیڈ کم کی اور سائیڈ مرر سے دیکھا تو پتا چلا کہ پیچھا کرنے والے وہی لوگ تھے جن کے ساتھ پارکنگ میں تلخ کلامی ہوئی تھی۔ وہ گہری سانس لے کر رہ گئی۔ اس نے اپنے چہرے کے تاثرات کو حتی المکان نارمل رکھنے کی کوشش کی اور ڈیش بورڈ سے اپنا موبائل اٹھا کر ایک ہاتھ سے میسج ٹائپ کر کے دانین کو بھیجا۔ دانین کی جانب سے اوکے کا میسج دیکھ کر موبائل واپس رکھتی فروا اب گاڑی کی سپیڈ بڑھا گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو کیٹس ہاؤس کی طرف جارہی تھی فروا بھابھی کا میسج دیکھ کر لب بھینچتی ان کی لوکیشن کی جانب گاڑی موڑی۔ شکن آلود پیشانی کے ساتھ وہ خطرناک حد تک گاڑی کی رفتار تیز کر چکی تھی۔وہ تیز رفتاری سے فروا بھابھی شو ہوتی لوکیشن کی جانب رواں دواں تھی کہ ایک جگہ ناکے پر اسے رکنا پڑا۔ اپنے آگے گاڑیوں کی لمبی قطار دیکھ کر وہ باہر نکل کر چیکنگ کرتے سپاہی کے پاس آئی اور نرمی سے گویا ہوئی۔
” سر پلیز پہلے میری گاڑی چیک کر لیں ۔ مجھے کہیں ارجنٹ پہنچنا ہے۔”
” میڈم یہاں پر سب کو ہی جلدی ہے۔ آپ جا کر انتظار کریں۔ باری آنے پر آپ کو بھی بھیج دیا جائے گا۔” سپاہی نے تندی سے کہا۔
” سر پلیز مجھے واقعی ہی بہت جلدی ہے ” اس نے ملتجی لہجے میں کہا تو پاس ہی کرسی رکھے انسپکیٹر بیزاری ںسے گویا ہوا۔
” جائیں بی بی فضول میں دماغ خراب نہ کریں۔ پہلے ہی عوام نے بہت تنگ کیا ہوا ہے۔”
“شٹ اپ ایڈیٹ ۔ کسی کی جان خطرے میں ہے اور تم بکواس کیے جا رہے ہو۔” اس نے جینز کی پاکٹ سے کارڈ نکال کر انسپیکٹر کے آگے غصے سے پھینکا۔ کارڈ کو دیکھ کر وہ بوکھلاتے ہوئے ایک جھٹکے سے کرسی سے اٹھا۔
“سوری میڈم۔” اس نے سلیوٹ کرتے ہوئے کہا ۔اس کی دیکھا دیکھی باقی سپاہیوں نے بھی سلیوٹ کیا۔
“پلیز تشریف رکھیے۔ جاؤ میم کے لیے کچھ پینے کے لیے لے کر آؤ” انسپیکٹر نے ادب سے کہتے ہوئے سپاہی کو کیبن میں بھیجا۔ گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں نے حیرت سے ان سب کو دیکھا جو پہلے ماش کے آٹے کی طرح اکڑے جا رہے تھے اور اب ایک دم سے ہی مؤدب ہوگئے تھے۔
” اس کی ضرورت نہیں جاکے میری گاڑی چیک کرو مجھے کہیں پہنچنا ہے” دانین نے سخت لہجے میں کہا۔
“ارے میڈم کیوں شرمندہ کر رہی ہیں۔” انسپکیٹر نے کھسیا کر کہا۔
“شرمندگی والی بات نہیں۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں۔ آپ کسی کو بھیج کر چیک کر لیں۔” دانین نے حتمی لہجے میں کہا تو اس نے کانسٹیبل کو اشارہ کیا تو وہ سر ہلاتا پھرتی دکھاتا اس کی گاڑی کی طرف چلا گیا۔ دانین جو اپنی گاڑی کی طرف جا رہی تھی جاتے جاتے رکی اور پلٹ کر انسپیکٹر سے مخاطب ہوئی۔
” جب تک میں واپس آؤں یہ لوگ مجھے یہاں کھڑے نظر نہیں آنے چاہیں۔ ان کو جلدی سے فارغ کرو ۔ہر کسی کو اپنے کام سے جانا ہوتا ہے۔”
“یس میڈم۔” اس نے فرمانبرداری سے سر ہلاتے ہوئے دوبارہ سلیوٹ کیا۔ سپاہی کے اوکے کے اشارے پر وہ تیز تیز قدموں سے چلتی گاڑی کی طرف آئی اور گاڑی میں بیٹھ کر زن سے بھگا کر لے گئی ۔
جب وہ شہر سے باہر جانے والی سڑک پر پہنچی تو اس کو دو گاڑیاں آگے پیچھے آتی دکھائی دیں۔ آگے فروا بھابھی کی گاڑی تھی اور پیچھے ایک جیپ تھی ۔اس نے گاڑی ترچھی کر کے سڑک کے درمیان اس طرح کھڑی کر دی کہ دونوں اطراف سے گاڑی نہ نکل سکے۔ برابر والی سیٹ تھوڑی سی اٹھا کر اس نے ایک بڑا سا رومال نکالا اور اس سے اچھی طرح اپنا منہ لپیٹ کر ڈیش بورڈ سے گن نکال کر ہاتھ میں لیے باہر نکلی۔ فروا بھابھی نے نزدیک پہنچ کر گاڑی روک دی اور ن کے رکنے پر پیچھے جیپ بھی رکی۔ دانین چلتی ہوئی فروا کے پاس آئی جو گاڑی سے نکل رہی تھی۔
“بچوں کو بھی باہر بلائیں۔” وہ ان کو گن تھماتی آہستگی سے کہتی آگے بڑھ گئی۔ فروا بھابھی نے رابیل اور ارسل کو باہر آنے کا کہا۔
“ہاں بھئی کیا تکلیف ہے؟ کیوں ایک شریف فیملی کو تنگ کر رہے ہو؟” دانین نے ان لڑکوں کے پاس پہنچ کر نرمی سے کہا۔
” تم کون ہوتی ہو پوچھنے والی؟ ہٹو آگے سے ۔” ایک نے آگے بڑھ کر اس کو بازو سے پکڑ کر دھکیلنا چاہا مگر وہ اپنی جگہ سے انچ بھر بھی نہیں ہلی تھی۔
“میں اس ملک کی شہری ہوں، ٹیکس دیتی ہوں اور یہاں پر ہونے والی کسی بھی قسم کی بری حرکت پر پوچھنے کا حق رکھتی ہوں۔” اس نے اطمینان سے جواب دیا۔
“جا جا بی بی۔ ہمیں قانون نہ پڑھا۔ ہمارا تم سے کوئی جھگڑا نہیں ہے اس لیے شرافت سے اپنی شکل گم کر لو ورنہ ان کے ساتھ ساتھ تم کو بھی اٹھا کر لے جائیں گے۔ ویسے آنکھیں تو تمھاری لگ ہی قاتل رہی ہیں بس ذرا یہ چہرے پر سے پردہ تو ہٹاؤ ۔مکمل دیدار کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے ” اس نے خباثت زدہ لہجے میں کہا۔
“کیوں مار کھانی ہے؟میرے ہوتے ہوئے تو تم لوگ ایسا کچھ کر نہیں سکتے اس لیے چپ چاپ نکل لو یہاں سے ۔” اس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملا کر ہاتھ سیدھے کرتے ہوئے کہا۔
” چل اوئے! پہلے اس کو اٹھا کر گاڑی میں ڈال۔ لگتا ہے آج کا دن کافی اچھا اور رنگین گزرے گا۔” سب سے پیچھے کھڑے بھینسے نما آدمی نے حکم دیا۔ وہ شاید ان کا باس تھا۔
“ابے او بھینسے کے انسانی ورژن۔ اپنا وزن دیکھ اور اپنا حکم دیکھ۔ چلتے ہوئے تم کسی گیند سے کم نہیں لگتے ہوگے ۔” دانین نے مسکراتے ہوئے اسے چڑایا۔ تینوں میں سے ایک نے اس کی بات پر زور دار قہقہ بھی لگایا جس پر وہ طیش میں آکر دانین کی طرف بڑھا۔ اس سے پہلے کہ وہ حملہ کرتا دانین کا ہاتھ گھوما اور وہ اچھل کر زمین پر یوں جا گرا جیسے واقعی ہی کوئی گیند ہو۔ کچھ نیچے گرنے اور کچھ اس کے مکے سے اس کی ناک سے خون کی لکیر نکلی تھی ۔
“لڑکیوں کو تماشا سمجھ رکھا ہے؟ یا وہ تمہارا کھلونا ہیں جو تم جب چاہے نوچ کر پھینک دو۔” وہ نیچے جھک کر اس کو گریبان سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے شیر کی مانند غرائی۔ کچھ اس کا دماغ اس بچی والے واقعے سے خراب تھا اور رہتی کسر اب پوری ہوگئی تھی۔ اس کا چہرہ تو نظر نہیں آ رہا تھا مگر اس کی لہو رنگ ہوتی آنکھیں اور لب و لہجہ اس کے سخت غضب ناک ہونے کا پتہ دے رہا تھا ۔ باقی دو لوگ کسی مجسمے کی طرح ساکت و جامد کھڑے تھے۔ ان کی آنکھیں اپنے سائز سے دوگنا ہوچکی تھیں شاید انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے ۔ اس کا اچانک بدل جانے والا لہجہ اور اس کے چلتے ہاتھ دیکھ کر وہ لوگ اتنی بھی ہمت نہ کر سکے کہ اپنے آدمی کو چھڑوا لیں۔
“الو کے پٹھے! ہم لڑکیاں تمہارے باپ کا مال نہیں ہیں جو تم جب چاہو جسے چاہو اٹھا لو۔” اس نے ایک زور دار تھپڑ اس کے دوسرے گال پر بھی دے مارا۔ اپنے باس کی چیخ سے باقی دو ہوش میں آ کر اس کی طرف بڑھے تو اس نے اس کو گریبان سے پکڑ کر ان کی طرف اچھال دیا۔
“آجاؤ کمینو! تمہارا آج کا دن میں رنگین بناتی ہوں۔” وہ جیکٹ اتار کر جیپ کے بونٹ پر پھینکتے ہوئے ان کی طرف آئی اور بغیر ان کو سنبھلنے کا موقع دیئے اس نے اچھل کر آگے آنے والے کے سینے پر کک ماری تو وہ قلابازیاں کھاتا ہوا سڑک سے نیچے چلا گیا۔ تیسرا جو اپنے دو ساتھیوں کا حشر دیکھ کر بھاگنے لگا تھا دانین نے لپک کر اس کو گردن سے پکڑا اور پوری قوت سے اس کا سر جیپ کے بونٹ میں دے مارا۔ اس کے حلق سے نکلنے والی دل خراش چیخ اور بونٹ پر اس کا سر لگنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آواز سے گھبرا کر اپنی گاڑی کے پاس کھڑی رابیل نے بے ساختہ اپنی آنکھیں میچیں البتہ پانچ سالہ ایان پورے جوش و خروش سے تالیاں بجا رہا تھا۔ بونٹ سر میں لگنے سے وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوچکا تھا ۔اس کا سر اچھا خاصا پھٹ چکا تھا اور خون بہنے سے اس کا سارا منہ سرخ ہوچکا تھا۔ اس کو چھوڑ کر وہ پہلے کی طرف آئی ۔ اس کو پاؤں کی ٹھوکر سے سیدھا کرتے ہوئے اس نے اس کے سینے پر اپنا شوز میں مقید پاؤں رکھا اور اس پر جھکی۔
“ہاں بھئی! اندر کی آگ اور ہوس ٹھنڈی ہوئی یا نہیں؟” دانین اس کے سینے پر دباؤ بڑھاتے ہوئے بولی۔ اس کے شوز کی ہیل اس کو اپنے سینے میں اترتی محسوس ہو رہی تھی۔ چونکہ یہ سب شہر سے باہر ایک سنسان سڑک پر ہو رہا تھا اس لیے وہ تسلی سے اپنا کام کر رہی تھی۔
“تم ہمیں جانتی نہیں ہو ابھی۔ ہمارا باس تمہیں چھوڑے گا نہیں۔” اس نے اٹک اٹک کر کہا۔
“چل بے ! یہ ٹکے ٹکے کے باس ڈی اے نے بہت دیکھ رکھے ہیں۔” اس نے حقارت سے اس کو پاؤں سے ٹھوکر ماری اور مڑ کر آواز بدل کر فروا بھابھی سے مخاطب ہوئی۔
“کس نے بدتمیزی کی تھی؟” جواباً اس نے اس کے پاؤں کے پاس پڑے کراہتے ہوئے لڑکے کی جانب اشارہ کیا۔ وہ اس کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی لائی اور لا کر رابیل کے قدموں میں پھینکا۔ وہ جو ہونق بنی کھڑی سب دیکھ رہی تھی ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹی۔
“چل پیر چٔھو کر معافی مانگ ۔”
رابیل جو یک ٹک اسی کو دیکھ رہی تھی اس کے ہاتھ میں گھڑی دیکھ کر چونکی جس کے بیلٹ کے ایک سائیڈ پر ڈی لکھا ہوا تھا ۔
” یہ گھڑی تو دیکھی دیکھی سی لگ رہی ہے۔” وہ بڑبڑائی۔
“بہت غلط کر رہی ہو تم، بہت پچھتاؤ گی۔ باس تمہیں اور اس لڑکی کو چھوڑے گا نہیں ۔” اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر دانین نے پیر سے ٹھوکر لگاتے ہوئے اس کے بال مٹھی میں جکڑے۔ اس کا ہاتھ اوپر آیا تو دائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں اس کی منگنی کی انگوٹھی بڑی شان سے جگمگا رہی تھی ۔ رابیل ابھی تک گھڑی پر ہی غور کر رہی تھی کہ کہاں دیکھی ہے اس کی انگلی میں انگوٹھی کو دیکھ کر ٹھٹھکی ۔
“دانین آپی !” اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
اس لڑکے کے بالوں کو سختی سے پکڑ کر جھنجھوڑتی دانین کو لگا جیسے اس پر کسی نے بمب پھوڑ دیا ہو ۔ اگلے ہی لمحے اس کی نظر اپنے ہاتھ میں موجود انگوٹھی پر گئی تو اس کا دل کیا کہ اب جا کر اسی جیپ کے بونٹ پر اپنا سر مار لے۔ وہ کیٹس ہاؤس سے تو بس گھومنے کے لیے نکلی تھی مگر پہلے ارتضی اور پھر اس چکر میں پڑ گئی تھی ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...