فاروق ارگلی(دہلی)
اس احساسِ تفاخر کی دولت مجھ جیسے علم و ادب کے ادنیٰ طالبِ علم سے واقعی سنبھالے نہیں سنبھلتی کہ آنے والی نسلیں اس پر اس لئے ناز کریں گی کہ ان آنکھوں نے اُردو زبان و ادب کے ان چراغوں کو جگمگ کرتے دیکھا ہے جن کی تنویریں لازوال ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ میرے قلمروِ فکر و ادراک پر متعدد فرماں روایانِ علم و ہنر کی علمداری ہے ، ذہن و شعورکے طلسم آباد میں فسوں گرانِ شعر و سخن کے جادوئی پیکر رقصاں ہیں ، نگارستانِ آگہی میں زندہ و تابندہ متحرک و فعال خوش قامت مرقعے آویزاں ہیں ۔ہر چہرہ اپنے اپنے خال و خد سے ممتاز و متفخر۔
علم و ادب کے ان درخشندہ و تابندہ چہروں میں ایک نمایاں چہرہ ہے اس ساحرِ حرف و نوا ، جس کی سحر بیانی برس ہا برس سے لاکھوں کے سر چڑھ کر بول رہی ہے اور جسے اُردو دنیا مظفرؔ حنفی کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔
پروفیسر مظفرؔ حنفی (ہسوی) معاصر اُردو ادب کی ایک ایسی ہزار رخی شخصیت ہیں جن کے علمی ، فکری اور فنی پھیلاؤ کا ذکر اخبار کے اس ایک صفحے میں یوں ممکن نہیں کہ دریا کو کوزے میں سمو دینے کا ادعا ہے نہ استطاعت، یوں بھی جناب مظفرؔ حنفی کے ذاکروں کے سامنے سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ موصوف بیک وقت شاعرہیں ، افسانہ نگار ہیں، ادبی صحافی ہیں ، محقق، ناود اور مبصر ہیں ، ماہرِ نصابیات و کتابیات ہیں، غیر زبانوں کے مترجم ہیں ، ہندوی دیومالا اور اساطیری ادب میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں، بہترین مقرر ہیں اور مذاکروں اور مباحثوں میں اپنی قوتِ استدلال اور طلاقتِ لسانی سے دھاک جما لینے جیسی ان گنت خوبیاں کہ ہر خوبی ایک مکمل کتاب کی متقاضی ہے۔
پروفیسر مظفرؔ حنفی کا آبائی وطن کانپور اور الہ آباد کے درمیان واقع اتر پردیش کے ضلع فتح پور کا مردم خیز قصبہ ہسوہ ہے ۔ ان کے والد سرکاری ملازمت کے سلسلے میں طویل عرصہ تک مدھیہ پردیش میں رہے جہاں قصبہ کھنڈوہ میں یکم اپریل 1936ء کو محمد ابو المظفر، مظفرؔ حنفی کی ولادت ہوئی ۔ ان کی ابتدائی تعلیم کھنڈوہ میں ہی ہوئی ۔ان کو والد اگرچہ مازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنے وطن ہسوہ آ گئے لیکن مظفر صاحب کے چچا کا وہاں کاروبار جم گیا تھا اس لئے کھنڈوہ سے ان کا رتعلق برقرار رہا۔ فتح پور سے آٹھویں جماعت پاس کر کے مزید تعلیم کے لئے کھنڈوہ آ گئے ۔ 1952ء میں ناگپور سے ہائر سیکنڈری سر ٹیفکیٹ کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا جس میں اُردو زبان نصابِ تعلیم کا حصہ نہیں تھی لیکن اُردوکتابوں اور جریدوں کے بے پناہ شوقِ مطالعہ نے انھیں اسی عمر میں صاحبِ قلم بنا دیااور وہ بچوں کے لئے کہانیاں لکھنے لگے تھے۔ بعد میں حالات نے کچھ ایسی کروٹ لی کہ وہ پھر ہسوہ واپس آئے اور فتح پور کے گورنمنٹ انٹر کالج میں داخلہ لیا۔ یہ تعلیمی سلسلہ بھی مزید آگے تو نہیں بڑھ سکا لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ جامعہ اُردو کے امتحانات ادیب ، ادیب ماہر اور ادیب کامل میں امتیازی حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔ اسی وسیلے سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انٹر میڈیٹ کی سند حاصل کی۔ یہ دَور اُن کے لئے سخت آزمائشوں کا تھا۔ 1955ء میں انھیں محکمہ تعلیم مدھیہ پردیش میں ٹیچر کی مازمت مل گئی اور وہ سیہور کے مڈل اسکول میں تعینات ہوئے۔ اب تک ان کا لکھنے کا شوق اور علم و ادب سے جنون کی حد تک وابستگی شباب پر آ چکی تھی۔کچھ عرصہ بعد ان کے چچا زاد بھائی نے کھنڈوہ بلوا لیا کیوں کہ کار و بار سنبھالنے کے لئے انھیں ان سے بہتر اور کوئی نظر نہیں آیاتھا۔یقیناً بھائی کے بڑے کاروبار سے جڑ کے ان کے لئے دنیوی ترقی کے نئے راستے کھل سکتے تھے لیکن شعر و سخن اور علم و ادب سے روحانی لگاؤ نے ان کی راہ پہلے ہی متعین کر دی تھی ۔ 1959ء میں انھوں نے کھنڈوہ سے ماہنامہ ’’نئے چراغ‘‘ جاری کیا۔ چند ماہ میں ہی اس رسالے کا شمار اُردو دنیا کے اہم ادبی جرائد میں ہونے لگا۔ اب تک ہندوستان میں متعدد ادبی رسالے نکلے اور بند ہوئے لیکن کھنڈوہ جیسے غیر اُردو علاقے سے شائع ہونے والے ’’نئے چراغ‘‘ اور الہ آباد سے نکلنے والے جناب شمس الرحمٰن فاروقی کے ماہنامہ ’’شب خون‘‘کو بطورِ خاص قابلِ ذکر تصور کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ ’’نئے چراغ‘‘ کی تعمیری ذہن سازی ا ور مثبت ادبی اقدار و روایات کے فروغ کی کامیاب مساعی کی پسندیدگی اور مقبولیت کے آٹھ سال بعد ’’شب خون‘‘ منظرِ عام پر آیا جو ایک خون آشام غنیم کی طرح ادب کی مروجہ روایات اور اقدار پر شب خون مار کر نئے پن کی تلاش میں حدوں سے تجاوز کر جانے اور بانیٔ جریدہ کی فکری انانیت کے مظاہروں کے لئے ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔
مظفرؔ حنفی (ہسوی) نے حالات سے نبرد آزمائی کرتے ہوئے اپنا تخلیقی سفر جاری رکھا۔ وہ ایک اچھے کہانی کار اور شاعر کی حیثیت سے مشہور بھی ہونے لگے تھے مگر زورِ بیان و جوشِ اظہار کے لئے کچھ اور وسعت درکار تھی۔ شاعری کی طرف توجہ کی، یہ رجحان اس حد تک بڑھا کہ استاد شاعر حضرت شادؔ عارفی سے مرسلاتی تلمذ اختیار کیا۔ سخن آرائی کا زر دار آغاز استاد کے رنگ و آہنگ میں کیامگر ذہنِ رسا اور جودتِ طبع نے بہت جلد اپنا الگ راستہ بنا لیااور ایک قادرالکلام سخن ورکے طور پر اپنی جگہ بنا لی ۔ انھوں نے جو کہا وہ دلوں میں اتر گیا۔ شاعر ی اور افسانہ نگاری ،صحافت اور مضمون آرائی جیسے وجدانی مشاغل کے ساتھ ساتھ انھوں نے بی اے اور پھر ایم اے کی سند حاصل کی ۔ اُردو، ہندی اور انگریزی ادبیات کے عمیق مطالعے نے ان کی تخلیقی قوتوں کو بالیدگی عطا کی۔ علم و آگہی کی دولت سمیٹ لینے کی للک نے تحقیق کی طرف مائل کیا تو اپنے استاد علامہ شادؔ عارفی کے لئے جیسے غالبؔ کے حالیؔ بن گئے ۔ شادؔ عارفی کی فکری و فنی جہات پر تحقیقی مقالہ لکھ کر بھوپال کی برکت اللہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے اس یونیورسٹی کے اولین ریسرچ اسکالر بن گئے۔
مظفرؔ حنفی کا عملی و تحقیقی سفر ایک جہدِ مسلسل ہے ۔ لیکن حالات سے جنگ اور ذوق و شوق کی تکمیل کے ہر معرکے میں فتح و ظفر نے ان کے نام ’’ابو المظفر‘‘ کی لاج رکھی ہے ۔ علم و ادب کی خارزار راہوں اور سنگلاخ چٹانوں سے مردانہ وار لڑتے ہوئے ان کے قدم آگے اور مزید آگے ہی بڑھتے گئے ۔ انھوں نے افسانے لکھے ، بچوں کی کہانیاں اور ناول لکھے، ہندی ، انگریزی ،اڑیا اور بنگالی شہپاروں کے کامیاب اور مقبول تراجم کیے۔ہندوؤں کے مذہبی اور دیو مالائی اساطیری ادب کو اُردوکا لباس پہنایا۔ مشہور عالم روسی ادیب الیگزنڈرسولزنسٹن کی شہرۂ آفاق کتاب گلاگ جمع الجزائر کا ترجمہ کر کے اُردو کے خزانے میں قابلِ قدر اضافہ کیا۔ مظفرؔ حنفی نے اُردو تنقید میں منصفی ، وسیع القلبی، دیانت داری اور غیر جانب داری کی روایات کو مستحکمکرنے کی کوشش کی۔ تحقیق کے میدان میں ان کا عدیم النظیر کارنامہ علامہ شادؔ عارفی کے فن کی سچی شناخت ہے ۔ استادِ معظم کی رحلت کے بعد ان کے کلام کی تدوین و اشاعت جس عقیدت اور محبت کا ساتھ مظفرؔ حنفی صاحب نے کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ لیکن مثنوی ’’سحر البیان‘‘ کے خالق میر حسن کی غزل گوئی کو اہمیت اور معنویت عطا کرنے کا سہرا بھی انہی کے تحقیقی جذبے کے سر ہے ۔ میر حسن کی غزل اپنے معاصر شعراء سے کسی طرح کم نہیں جب کہ سحر البیان کی لافانی شہرت نے اس پر خاصے دبیز پردے ڈال دیئے تھے۔
1974 ء میں انھیں پی ایچ ڈی کی سند حاصل ہوئی تھی جس کے بعد نیشنل کونسل آف ریسرچ اینڈ ٹریننگ(NCERT) میں بطور اسسٹنٹ پروڈکشن آفیسر ( اُردو) ان کا تقرر ہو گیا جہاں دو برسوں تک اُردو نصابیات کی تیاری میں قابلِ ذکر خدمات سر انجام دیں۔اس کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں لیکچرار اور پھر ریڈر کے منصب پر فائز ہوئے ۔ یہاں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی ایسوسی ایٹس شپ کے لئے کلیاتِ میرؔ پر تحقیقی کام کے لئے انھیں منتخب کیا گیا۔ اس دوران انھوں نے روسی دانشور سخاروف کی کتاب ’’سخاروف نے کہا‘‘ اُردو زبان میں منتقل کرنے کا کارنامہ بھی انجام دیا۔ نامور نقاد اور محقق پروفیسر گوپی چند نارنگ کے ہمراہ ’’وضاحتی کتابیات‘‘ کے وقیع منصوبے کا آغاز کیا جس کی پہلی جلد 1980ء میں شائع ہوئی ۔ اس کے بعد اس تاریخ ساز دستاویزی سلسلے کی دو درجن سے زائد جلدیں شائع ہوچکی ہیں ۔ جناب مظفرؔ حنفی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ’’ تنقیدی ابعاد‘‘ اپنے تعمیری ، تنقیدی رویوں اور ناقدین کی صحت مند و مدلل گرفت کے لئے اُردو تنقید کی تاریخ میں مایاں مقام حاصل کر چکا ہے ۔اُردو غزل کے ارتقائی سفر کی عملی تفہیم کے لئے انھوں نے ’’روحِ غزل‘‘ کے عنوان سے گزشتہ نصف صدی کے چھ سو سے زائد مقتدر شعراء کا انتخاب مرتب کر کے نہ صرف اُردو ادبیات کے طلباء اور شائقین غزل ہی کے لئے مفید علمی وسیلہ فراہم کیا ہے بلکہ اُردو غزل پر کام کرنے والے محققین کی راہ بھی آسان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندی کے کلاسیکی وطن پرست شاعر بھارتیندو ہریش چندر کی شخصیت اور شاعری کو اُردو لباس پہنا کر بھی اُردو کو مالا مال کیا۔یہ کتاب ساہتیہ اکادمی نے شائع کی ہے۔ پروفیسر مظفرؔ حنفی اپنے طلباء کی علمی رہنمائی کے لئے ہمیشہ پر خلوص اور سر گرم رہے ہیں ۔ ان کی نگرانی میں ڈاکٹر شمع افروز زیدی ، ڈاکٹر خوشحال زیدی اور ڈاکٹر خالد محمود جیسے متعدد معروف ریسرچ اسکالرز نے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے ۔
1989ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے سبکدوش ہونے کے بعد کلکتہ یونیورسٹی کی اقبال چیئر میں بطور سینئیر پروفیسر ان کا تقرر ہوا جہاں ان کی خدمات یونیورسٹی کی تاریخ کا اہم حصہ بن گئیں ۔ اس قدر مصروف اور سر گرم زندگی کے ساتھ ساتھ مظفرؔ صاحب نے اپنا شعری سفر جس تخلیقی تسلسل کے ساتھ جاری رکھا ہے وہ انھیں نہ صرف ہم چشموں اور ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے بلکہ ایک عہد آفریں شاعر کی حیثیت سے ان کی شخصیت کو اس درجہ نمایاں کرتا ہے کہ ان کا ثانی بہ ہزار کوشش بھی تلاش کرنا اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔
دو ہزار سے زائد غزلوں کے ساتھ ساتھ دیگر اصنافِ سخن میں پورے فنی و فکری اجتہاد ، جدت طرازی، غیر معمولی قوتِ مشاہدہ ، انفرادی اسلوب اور شعر اقدار و روایات کی پاسداری کے ساتھ طبع آزامائی دنیائے اُردو کے سخن شناسوں کی نظر میں کھری اوریجنل تخلیقی شاعر کادرجہ پہلے ہی حاصل کر چکی ہے ۔ اپنے حسنِ بیان ، لفظیات ، رفعتِ فکر و نگاہ، فنی اجتہاد اور غزل کی نرم و نازک پنکھڑیوں میں ہیرے کے جگر کو کاٹ دینے والی تیز دھار پیدا کرنے والے مظفرؔ حنفی کا کلام سنتے اور پڑھتے ہوئے یہ خیال اکثر سر اٹھانے لگتا ہے کہ مظفرؔ حنفی کی تعلیمی، تنقیدی اور تخلیقی کامرانیوں اور شہرتوں نے ان کیشاعرانہ عظمتوں کو نقصان ضرور پہنچایا ہے لیکن ان کی شاعری کا کوئی بھی باشعور سامع یا قاری یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ مظفرؔ حنفی کی شاعری کا دائرۂ اثر مرورِ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گااور ایک دن وہ پورے عصری اُردو ادب کو اپنے حصار میں لے لے گا۔ یہ اور بات ہے کہ ابھی شاعر مظفرؔ حنفی کی پرت در پرت جہتوں کی دریافت اور شناخت کا کام ہونا باقی ہے۔
عہدِ حاضر کے مشہور نقاد پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں ، ’’ مظفرؔ حنفی کی غزل نے محض ایک موضوع یا واقعات کے کسی ایک سلسلہ تک خود کو محدود نہیں رکھا۔ ان کے ہاں بیک وقت سوچ کے کئی سلسلے کارفرمانظر آتے ہیں ۔ مثال کے طور پر سیاسی اور معاشرتی جبر کا موضوع لیجئے جو جدید اُردو غزل گو شاعر کے ہاں مقبول ہوا ہے مگر عام طور پر اس نے یا تو نظریاتی سطح اختیار کر کر کسی ایک سیاسی ، مذہبی یا معاشرتی نظریے کی ترویج و اشاعت کے لئے کام کیے یا پھر آمرانہ عصبیت کے خلاف آواز بلند کی ہے ۔ ‘‘
پروفیسر مظفرؔ حنفی اب 73کے پیٹے میں ہیں لیکن بحمدا للہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر نوجوانوں کی طرح چاق و چوبند ہیں ۔ ان کے قلم کی روانی اور فکر کی جولانی میں ابھی تک کوئی واضح کمی دکھائی نہیں دیتی ۔ ان کی ریاضتوں اور محنتوں کی جس طرح پذیرائی ہوئی ، اُردو دنیاانھیں جس طرح سرّنکھوں پر بٹھایا، بڑے بڑے اداروں نے انھیں لا تعداد اعزازات و انعاامت سے نوازا۔ ان کی اکثر کتابیں یونیورسٹی میں پڑھائی جا رہی ہیں ۔ ان سب کا میابیوں کو وہ عطائے ایزدی قرار دیتے ہیں ۔ اب تمام منصبی ذمہ داریوں سے انھیں فراغت حاصل ہے ۔ انھوں نے ہر دم جواں ، پیہم رواں زندگی گزاری ہے ۔ انھیں ایسی نیک بخت شریکِ حیات ملیں جو قدم قدم پر اُن کا سہارا بنیں ۔ پانچ لائق بیٹے ، جن میں تین انجینئر، ایک تعمیراتی فرم کے مالک اور ایک برطانیہ میں بڑے عہدے پر فائز ، ایک دخترِ نیک اختر پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر، ناتی پوتوں سے بھرے پرے کنبے کے سر براہ پروفیسر مظفرؔ حنفی کی ذاتِ گرامی بجائے خود اپردو کا ایک ایسا ’’جامِ جہاں نما‘‘ ہے جس میں ہر وہ رنگ و آہنگ دیکھا اور سنا جا سکتا ہے جس سے ہماری تمام تر علمی ، ادبی ، تہذیبی ، ثقافتی اور معاشرتی قدریں عبارت ہیں ۔
ان کی 73ویں سالگرہ پر سہارا خاندان اور اُردو دنیا کے لاکھوں تشنگانِ علم و ادب کی پر خلوص دعائیں !