انشائیہ کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے ایک نگاہ ان حالات پر ڈالنا نہایت موزوں ہو گا جن میں انشائیہ کی صنف نے جنم لیا۔ یہ حالات جن کا میں تذکرہ کرنا چاہتا ہوں، ان کے بھیانک پن کو ولیم فاکنزکے یہ الفاظ بہترطریقے پر عریاں کرتے ہیں: ’’آج ہرآدمی کے سامنے ایک ہی سوال ہے کہ میں کہاں بھک سے اڑ جاؤں گا۔‘‘ یہ الفاظ ایک ایسے دور کے عکاس ہیں جس کا ہرفرد لایعنیت کا شکار ہے، اسی لایعنیت نے اسے انسان سے ’شے‘ کی ہیئت میں ڈھال دیا ہے اور یہ کھوکھلا نعرہ زور سے گونجنے لگا کہ man is the measure of all things ناگہانی آفات اور سماوی مصائب سے ممکنہ حد تک بچاؤ کے ذرائع سائنس نے انسان کو مہیا کر دیے پھربھی اسے یہ احساس دیمک کی طرح چاٹے چلا جا رہا ہے کہ وہ پتھر کے دورکے انسان سے بھی کمزور اور لاچار ہے۔
سائنسی ترقی نے جہاں ممالک کے درمیان فاصلوں کو سمیٹا وہاں دلوں کے درمیان خلیج بڑھاتی چلی گئی۔ نئی نئی دریافتوں نے معاشی سطح پر انسان کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ بے چہرگی کا شکار ہو کر رہ گیا۔ انسانوں کا سیلاب دورافتادہ علاقوں سے امڈکر اعدادوشمار کے اسیر شہر میں پھیل گیاجہاں پہنچ کر اس کی انفرا دیت برف کے مانندپگھل گئی اور اس کی ذات ایک ایسی مشین کی ہیئت اختیار کر گئی ہے جسے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے حرکت دی جاتی ہے۔ انسان مادی لحاظ سے خوشحال ہو گیالیکن روحانی طور پر مفلس ہو گیا۔ منشیات کا استعمال عام ہو گیا، ذہنی الجھنیں بڑھ گئیں۔ سماجی ناہمواری نے بے راہ روی، ہیجان انگیزی، جنسی تلذذ، تشدد اور آوارگی جیسے کئی جرائم پیداکیے۔ نئے نئے مسائل پیدا ہونے لگے۔
اس بحران نے منطقی ایجابیت اور وجودیت جیسے قنوطی فلسفے کو خلق کیا۔ مابعد الطبیعات کا انکار کرنے کے بعد امکانات اور احتمالات کو بڑے خوفناک انداز میں پیش کیا گیا۔ پا سکل کے بقول ’’اس کائنات میں میں کیا ہوں، کچھ بھی نہیں اور یہ کہ مجھ ہی میں وہ سب ہی کچھ موجودہے جو کہیں نہیں ہے خود کائنات میں بھی نہیں۔‘‘
میکانکی نظریۂ حیات نے مذہب کو توہم پرستی کے مترادف قرار دے دیا، نطشے نے تو کھلم کھلا اعلان کر دیا کہ ’خدامرچکا ہے۔‘‘ مذہب کے ابطال نے دائمی اقدار کے ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا، الفاظ اپنے معنی کھوبیٹھے۔ روڈلف کارنپ نے تصور، مطلق، غیر مشروط، لامتناہی ہستی موجود، عدم، شے بالذات، وجودبرائے ذات اور صدور جیسی تمام اصطلاحات کو مفہوم سے عاری قرار دے دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اشتہار اور پروپیگنڈہ کے بل پر ایک کھوکھلی تہذیب منصہ شہود پر آئی۔ دوستی، صداقت، خلوص ووفا، شفقت، دیانت اور شرافت کی جگہ ریاکاری، تصنع، مکرو فریب اور دیگر اخلاق سوز حرکات نے لے لی۔
انسان کی انا یا خود اوعائی (self assertion) پر پہلا وار کو پر نیکس نے کیا جس نے کائنات کے مرکز کو ذرے میں تبدیل کر دیا یہ ایک کائناتی وار (cosmologiacal blow) تھا۔ دوسرا وار انیسویں صدی میں ڈارون نے کیا جس نے انسان کا شجرۂ نسب حیوان سے جا ملایا۔ یہ ایک حیاتیاتی وار تھا (biological blow) ۔ تیسرا وار فرائڈ نے کیا جس نے انسانی انا کو محکوم قرار دیا۔ یہ ایک نفسیاتی وار (psychological blow) تھا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ڈارون نے انسان کو حیوان کا جسم دیا اور فرائڈ نے حیوان کی شہوت اور جبلت۔ اور انسان اس انکشاف کی روشنی میں پر انی اقدار کو چھوڑنے پر مجبور ہو گیا۔
یہ ان حالات کامختصر ساناکہ ہے جن کا کتھارس ادبی سطح پر کرنے میں انشائیہ نے بھرپور کردارادا کیا ہے۔ انشائیے نے کمرشیل معیشت کا پردہ چاک کیا۔ جبریت کا خول توڑ کر فرد کو سکہ بندخیالات سے آزادکرایا۔ مجہولیت اور اندھی اجتماعیت کی لغویت کے خلاف جذبۂ جہاد پیدا کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فرد کے ارادے، عمل اور ذہنی توازن اور سچی اقدار کی اشاعت کی اور دوچار سخت مقامات کو حوصلے سے طے کرتے ہوئے بالآخر اس منزل تک آپہنچا جس کی ایک کامیاب جھلک اس وقت اوراق انشائیہ نمبر کی صورت میں سامنے آئی ہے۔
اوراق کے انشائیہ نمبر میں سلیم آغا قزلباش کا ایک مقالہ چھپا ہے جس کا عنوان ہے ’انشائیہ ایک ہمہ جہت صنف نثر!‘ اس مقالہ میں انھوں نے یہ نتائج اخذکیے کہ انشائیہ میں محض خارج کی تصویرکشی نہ ہو، مزاح کا عنصر ہمیں سطحی قہقہے کی تحریک نہ دلائے، علامت کا استعمال اگرہو تو وضاحت طلب نہ ہو، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بے حسی کی مذمت، جبریت کے تدارک کی خواہش، اخلاقی اقدار سے بیگانگی کاماتم، جیسے مسائل اگرانشائیہ میں در آئیں تو ان کا انداز ناصحانہ یا مبلغانہ ہرگز نہیں ہوناچاہیے نیز انشائیہ نگارپرکسی بھی مرحلے سے گزرتے ہوئے جھنجھلاہٹ طاری نہیں ہونی چاہیے کیونکہ جھنجھلاہٹ قنوطیت کی علامت ہے اور بقول پروفیسر جمیل آذر ’’قنوطی شخصی انشائیہ نہیں لکھ سکتا۔‘‘
سلیم آغانے اپنے مقالے میں انشائیے کی تمام تعریفوں کا تجزیہ کیا اور میں نے دیکھا کہ انھوں نے جن تعریفوں کو قابل استحسان جانا ان تمام کا عکس انشائیوں میں جھلملا تا نظر آتا ہے۔ میں ان کی علیحدہ علیحدہ مثالیں ذیل میں پیش کرناپسندکروں گا۔
۱۔ ڈاکٹر جانسن a loose sally of mind (ذہن کی آوارہ مزاجی)
’’میں جب بھی کھیتوں میں لہلہاتے ہوئے گیہوں کے خوشے دیکھتا ہوں، میرے ذہن میں یہ خیال سرسراتا ہے کہ دھرتی ایک شکاری کی طرح اپنے کاندھے پر چھڑی (fishing rod) لٹکائے انسان نمامچھلیوں کے شکارپرنکلی ہے، دھیرے دھیرے لوگ اس کے پیٹ کے تھیلے میں جمع ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی دانۂ گندم کل ابلیس کے ہاتھوں میں کانٹا بن گیا تھا۔ آج زمین ہمیں اس میں پھنسا کر دھیرے دھیرے اپنے حلق تک کھینچ رہی ہے۔ نظر اٹھا کر دیکھیں اور غور کریں تو اس دھرتی پر لذاندارضی کے سینکڑوں کانٹے ہماری گھات میں نصب، ہمارے اندر چھپے ہوئے بھوک اور اشتہاکے نئے نئے چہرے تلاش کر رہے ہیں۔‘‘ (انڈہ، محمد اسد اللّٰہ)
۲۔ ہاوسٹن پیٹرسن:
’’ایسّے مفکرانہ ہو گالیکن سنجیدہ نہیں۔ وہ ہمیں مصنف کی رائے سے اتفاق کی ترغیب دے سکتا ہے لیکن وہ ہمیں اتفاق پر مجبور نہیں کرے گا۔‘‘
اب اس تعریف پر پورا اترنے والی چندمثالیں ملاحظہ فرمائیے:
’’البتہ کسی مذہب یا فرقے کو تولیے کے کفن پر قدغن نہیں لگانی چاہیے بلکہ اسے اپنانے سے قبروں میں مردوں کو گرمیوں میں ایئرکنڈیشن جیسا سرور اور سردیوں میں ہیٹرجیسی حرارت نصیب ہو گی۔‘‘ (تولیہ، ارشدمیر)
’’شہر جتنا بڑاہوتا ہے اتناہی گوں گاہوتا ہے۔‘‘ (آہٹ، شہزاداحمد )
۳۔ سی ڈی پنٹو: انشائیہ کا لب ولہجہ سبک بھی ہو سکتا ہے اور سنجیدہ بھی۔ اس میں کوئی کہانی کسی واقعہ کی منظرکشی یا کسی نظریہ کی تشریح ہو سکتی ہے۔ چندمثالیں:
’’اگرتعلیم کامقصدکچھ اقدار کو برقرار رکھنا ہے تو پھر ہوناتویہ چاہیے تھا کہ تعلیم کے سارے زیریں اور بالائی درجوں کو بلڈگروپ کی طرح الگ الگ خانوں میں بانٹا جاتا اور بچوں کی تعلیمی صلاحیت سے زیادہ ان کی خونی درجہ بندی کو مد نظر رکھا جاتاتاکہ کبوتر باکبوتر، بازباباز والی پالیسی پ رعمل ہو سکتالیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ماہرین تعلیم، تعلیم کے علاوہ انسانی شرافت کے بنیادی کلیوں سے بھی نا آشنا ہیں۔‘‘ (وراثت، غلام جیلانی اصغر)
’’یہاں اس مسئلے کو ذرا پھیلا کر سمجھنے کے لیے مشکل یہ ہے کہ ڈارون کی تھیوری اور د ہوتی ہے کہ دنیا میں وہی رہے گا جو اپنے اندر زندگی کی صلاحیت رکھتا ہے یا زندہ رہنے کے گر سے واقف ہے۔‘‘ (پھرتے ہیں شیرخوار، طارق جامی)
’’بڑھاپے میں انسان کو پہلی مرتبہ صحیح معنوں میں اپنی توانائی کا احساس ہوتا ہے چونکہ جہدالبقار میں اس نے زندہ رہنے کا ثبوت فراہم کر دیا ہے جب کہ ہزارہا لوگ نوجوانی میں ہی زندگی کی صعوبتوں کے آگے ہتھیار ڈال کر پسپاہو جاتے ہیں۔‘‘ (بڑھاپا، حامدبرگی)
’’دوسری طرف (دسترخوان کے برعکس) کسی بھی بونے ضیافت کا تصور کیجئے توآپ کو نفسا نفسی، خود غرضی اور چھینا جھپٹی کا احساس ہو گا اور ڈارون کا نظریہ آپ کو بالکل سچا اور برحق نظر آنے لگے گا۔‘‘ (دسترخوان، وزیر آغا)
’’میں جب بھی انگڑائی کی ماہیت پر غور کرتا ہوں توڈارون کی تھیوری پر میرا شک یقین میں بدل جاتا ہے۔ اس نے محض بندرکو انسان کا جد امجد قرار دیتے وقت نہ جانے اس کی کس خوبی کو مد نظر رکھاحالانکہ انگڑائی جیسی ہمہ گیر صفت کامطالعہ کیا جائے تو انسان کارشتہ بندر سے تو کیا ننھی منی چڑیا سے لے کر شیر تک سے ملایا جا سکتا ہے۔‘‘ (انگڑائی، محمد اقبال انجم)
مذکورہ بالا مثالوں میں جہاں آپ کو نظریے کی تشریح یا اندازدگردکھائی دے گی وہاں (سوائے پہلی مثال کے) آپ کو اس عجیب اتفاق کا احساس ہو گاجوچار مختلف انشائیہ نگاروں نے ایک ہی نظریہ (ڈارون کی تھیوری) کے مختلف انداز میں اپنانے سے ہوا۔ آج ڈارون کے نظریۂ ارتقا نے معاشرے پر جو سنگین اثرات مرتسم کیے ہیں، ان کا شش پہلو انکشاف انشائیہ نگار کی عصری آگہی کا بین ثبوت ہے۔ اب آئیے انشائیہ کی ان دوتعریفوں کی طرف جنھیں میں نے ایک ساتھ لیا ہے۔
۴۔ آرتھر کرسٹوفر:
“He does not see life as the Historian or as the Philospher, or as the Poet, or as Novelist, and yet he has a touch of all these.”
۵۔ جمیل آذر:
’’انشائیہ میں غزل کا سا ایجاز، افسانے کا تاثر، ناول کا فلسفہ اور ڈرامے کے انتظاریے لمحات اور اس کے پس منظر میں طنز و مزاح کی دھیمی دھیمی سمفنی اور ان سب پر مستزاد انکشاف ذات جو خاص انشائیہ کے لیے مختص ہے۔‘‘
چونکہ ان تعریفوں میں انشائیے کے کئی پہلوؤں کی نشاندہی کی گئی ہے لہٰذا مناسب ہو گا کہ ہرپہلو کے لیے الگ الگ مثال مہیا کی جائے شایداس کے بعد یہ بتلانے کے لیے زوربیان یا استدلال کی احتیاج باقی نہیں رہے گی کہ انشائیہ نگارمتفرق موضوعات کو چھوٹے بغیر کیسے مس کرتا ہے اور شاید اس طرح آرتھر کرسٹوفر کے does not اور has a touch کامفہوم بھی واضح ہو جائے۔
الف۔ بحیثیت مورخ (As Historian)
’’مین آف ایکشن ایک عجیب سی غلط فہمی میں مبتلا ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ چیزوں کو درہم برہم کر کے ان کامزاج بدل دے گا لیکن جونہی وہ اس بے کار حرکت سے فارغ ہوتا ہے تواشیاء اپنی عادت کے مطابق پھراپنی اصلی حالت میں آ جاتی ہیں۔ ایسا ہی حادثہ اٹیلا attila کے ساتھ ہواجب وہ اونچے اونچے پہاڑوں کو عبور کر کے اپنے ہاتھیوں سمیت روم پہنچا تو وہ سینٹ senate میں بھاری بھرکم سینٹرز کو پر سکوں بیٹھے دیکھ کرحیران رہ گیا۔‘‘ (اٹھنا بیٹھنا، غلام جیلانی اصغر)
’’بات بڑھاپے کی ہو رہی تھی یہ ذکر قیامت کہاں سے چھڑ گ یا۔ بڑھاپے کی بھی اپنی قدر ہے۔ ٹرائے کی دس سالہ جنگ اور بیس سال کھلے سمندر میں بھٹکنے کے بعد جب یولیسز سفیدداڑھی لہراتا ہوا تھکن سے چورگھر پہنچتا ہے توجذبے کے لحاظ سے پہلے سے زیادہ جوان ہے۔ گھربار، چولہا چوکا، بیوی بچے سب اسے بے عملی کی علامت نظر آتے ہیں۔‘‘ (بڑھاپا، حامدبرگی)
’’ہماری ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی بھی بجھتے ہوئے چراغ کی آخری انگڑائی تھی لیکن یہ انگڑائی ایسے وقت لی گئی جب بادشاہ ضعیف اور قوم مضمحل ہو چکی تھی۔ نتیجتاً یہ انگڑائی پھیل کرنوے برس کو محیط ہو گئی۔ کتنی نسلیں اس صلیب پر آویزاں رہیں کتنے لوگوں نے اسے تاریخ کے دامن سے کھرچنے کی کوشش کی تب جا کر بہادرشاہ کے ہم قوم ہوئے کہ وہ لارڈ کلائیو کے جانشین سے اپنا اقتدار واپس لے سکیں۔‘‘ (انگڑائی، محمد اقبال انجم)
ب۔ بحیثیت فلسفی (As A Philospher)
’’سچ بولنے کے باعث مجھے پاگل خانے میں پناہ ملی تو مجھے سچ بھی جھوٹ معلوم ہونے لگا اور یہی وہ مقام ہے جہاں آدمی پر حقائق منکشف ہونے لگتے ہیں یعنی وہ حقائق کے غیر حقیقی پن سے متعارف ہونے لگتا ہے۔‘‘ (اے ہوشمندو، جوگندرپال)
جیمس کہتا ہے کہ ’’صداقت کسی تصور کو پیش آتی ہے۔‘‘ یعنی یہ کہ یہ تصور اس وقت صادق ہو جاتا ہے جبکہ وقوعات اس کو صادق بنا دیتے ہیں۔ شیلرکا کہنا ہے کہ ’’کسی صداقت کے لیے اس سے زیادہ کچھ اور درکار نہیں ہوتاکہ اسے ایک مخصوص صورت حال کے لیے۔ معقول اقدار کا حامل اور بامقصد ہوناچاہیے۔ (فلسفے کے بنیادی مسائل، قاضی قیصراسلام، ص: ۳۲۰)
’’میں اپنی ذات کو بیچ میں لے آیا ہوں۔ کیا کروں اپنی ذات کو بیچ میں لائے بغیر میں دنیا کی کسی حقیقت کا صحیح طور پر ادراک نہیں کر سکتا۔‘‘ (آوارہ خیالی، غلام الثقلین نقوی)
انسان کے سوچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کا وجود ہو۔ اس لیے تیقن کی اصل اساس یہ ہے کہ ’’اندیشم پس ہشتم‘‘ (میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں cogito irgo sum) (تاریخ فلسفہ، کلیمنٹ سی جی ویب، ص: ۱۱۱)
’’ناموجود سے موجود کی طرف سفر کا آغاز، ایک بے ہیئت، بے سمت، بے کنارصدا کی صورت میں ہوا تھا۔ ایک ایسی صدا جو اپنی ہی صدا کے تعاقب میں تھی اور پھرایک نامعلوم لمحے میں اپنے آپ سے ٹکرائی اور لرزہ خیز دھماکے کے ساتھ ایک سے دومیں تقسیم ہو گئی اور یوں اس نے اپنے الگ وجود کا ادراک کیا اور پھریہیں سے یہ سلسلہ در سلسلہ، صدا اندرصدا بڑھتی اور پھیلتی چلی گئی۔‘‘ (صدائے بازگشت، سلیم آغا قزلباش)
کائنات کی ابتداکے بارے میں سائنس کی جدید ترین تھیوری بھی یہی ہے کہ کائنات ناموجود (nothing) سے جست کر کے وجود میں آئی۔ آئن سٹائن کے ’نظریے مقادیر‘ کا مطمع نظربھی یہی ہے۔
ج۔ افسانے کا تاثر
’’میں بے بس ہو کرڈورپرڈور دیے جاتا ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے اگر ذرا بھی ڈور کر روکا تو میرا ہاتھ کاٹ دے گی، پلٹ کر پیچھے زمین کی طرف دیکھتا ہوں توڈور ختم ہوتی جا رہی ہے …میں کیا کروں اس چھنال کی آنکھیں سیرہی نہیں ہوتیں …لحظہ بہ لحظہ ڈور میرے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے … نکلتی جا رہی ہے۔‘‘ (پتنگ، اکبرحمیدی)
’’ہم بڑے ہشیار ہو گئے ہیں۔ آنکھیں ترس جاتی ہیں کہ کوئی تو ایسا ملے جو اتنا ہوشیار، اتناعیار نہ ہو۔ ہم اس پر ایک دم بھروسہ کر لیں اور اسے بے تحفظ، بے خوف، بے تامل گلے لگالیں اور ہمارے پھٹے ہوئے سینوں میں قرار آ جائے … ارے کوئی تواحمق ہو، کوئی دیوانہ …کوئی محبت کرنے والا… مفت میں محبت کون کرے گا باباپہلے دام نکالو۔‘‘ (اے ہوشمندو، جوگندرپال)
’’ایک دن چند لمحوں کے لیے میں نے اس پر سواری کی تھی مگر اس وقت بہت اندھیرا تھا۔ ایسا اندھیرا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ مجھے یہ تولگا کہ وہ مجھے لے کرایک غارنماراستے میں بہت دور نکل گیا ہے۔ اتنی دور کہ میدان دریاصحرا اور آسمان سبھی ختم ہو گئے ہیں مگر میں ابھی پوری طرح سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ اچانک سورج میرے سامنے آ گیا اور میری آنکھیں بری طرح چندھیاگئیں۔ پھرجب میں نے آہستہ آہستہ دیکھناشروع کیاتومیں وہیں کھڑا تھا جہاں سے تاریکی کا سفر شروع ہوا تھا۔‘‘ (گھوڑا اور میں، شہزاد احمد )
’’پھر میں اس خواب کو بھول گیا مگر مدتوں تک گھوڑے کی ٹاپ میرے کانوں میں آتی رہی۔ اس کا پسینے میں نہایا ہوا جسم میرے روئیں روئیں کو چھو کر تیزی سے گزرتارہا، میں نے بیداری کے عالم میں گھوڑے کو قتل کرنے کی کئی کوششیں کیں اور چندایک میں کامیاب بھی ہوامگر گھوڑا قتل ہونے کے بعد نیا سراگا لینے پر قادر تھا۔‘‘ (گھوڑا اور میں، شہزاداحمد )
د۔ طنز و مزاح
’’آپ کسی معقول شاعرسے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ خود ہی شعر بھی لکھے اور خودہی اس پر عمل بھی کرے یہ توبالکل ایسا ہی ہوا کہ آدمی شادی بھی کرے اور اس کے فوائد پر مضمون بھی لکھے۔‘‘ (اٹھنا بیٹھنا، غلام جیلانی اصغر)
’’یہ اندر والے کے معمولی اشارے پر زبان دانی کا مظاہرہ بیچ چورا ہے پر کر سکتی ہے۔‘‘ (زبان، سلیم آغا قزلباش)
’’اگروہ (غالب) مجبوب سے اجازت طلب کیے بغیر زبان کے جوہر دکھا کر اسے شرمسار کرنے کی زحمت فرماتے تو پھر شاید محبوب بھی بے چون وچرا ان سے غیر مشروط ناطہ جوڑنے پر راضی ہو ہی جاتا۔‘‘ (زبان، سلیم آغا قزلباش)
’’میرا دوست ’ف‘ انسان نہیں فرشتہ ہے، اس کے کام بھی فرشتوں والے ہیں یعنی دوسروں کی برائیوں اور گناہوں کا حساب رکھنا۔‘‘ (بے کار رہنا، محمد یونس بٹ)
’’نہیں شیطان کی کیاہمت کہ ہماری سائنسی قوت کے سامنے دم مار سکے؟ اپنے بچاؤ کے لیے وہ جہنم کی سرحدیں پھلانگ کر ہماری مہذب دنیا میں ہی آچھپا ہے۔ اس نے سوچا ہو گاحالات بہتر ہوتے ہی واپس چلاجاؤں گامگرانسانی ترغیبوں کی تاب نہ لا کر اب وہ مستقلاً یہیں بس گیا ہے۔ ہماری انٹلی جنس کی پکی خبر ہے کہ وہ یہیں ہماری دنیا میں ہے۔ ہم اسے پکڑ تولیں مگر ہماری اطلاع کے مطابق وہ اب اتنا جنٹل میں دکھتا ہے کہ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں اس کے دھوکے میں ہم اپنے ہی معززین میں سے کسی کو نہ دھرلیں۔‘‘ (اے ہوش مند، جوگندر پال)
’’افسوس کہ مغلوں نے برصغیر میں کرکٹ رائج کرنے کے بجائے اپنا ٹھاٹھ ہی سمیٹ لیا اور برصغیر کا طویل وعریض میدان انگریزوں کے لیے خالی کر دیاتاکہ وہ ایل بی ڈبلیو ہو جانے کے خطرے کو خاطر میں لائے بغیر بے تحاشا کرکٹ کھیلیں۔ گیند کو معمولی سبابلہ دکھائیں اور جس سمت میں چاہیں پھینک دیں۔‘‘ (کرکٹ، انورسدید)
’’ممکن ہے وہ (نفسیات دان) میرے شعور اور لاشعور کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ صادر کر کے مجھے شرمندہ کر دے کہ میں نکٹائی باندھنے سے محض اس لیے گریزکرتا ہوں کہ ایسی صورت میں میں اپنی وہ وہ پرانی قمیص استعمال کرنے سے محروم ہو جاتا جس کے پھٹے ہوئے کالر پر مفلر پر وہ ڈالے رکھتا ہے۔‘‘ (نکٹائی، بشیر سیفی)
ح۔ انکشاف ذات
انکشاف ذات کو انشائیہ کی دلالت و صفی یا تضمن connotation کہا جائے توکچھ مضائقہ نہیں ہو گا۔ انشائیہ نمبرکے تمام انشائیے انکشاف ذات کے وصف سے بھرپور ہیں تاہم چندایک انشائیوں میں اس کا اظہار زیادہ شدید ہے۔ مثلاً :
’’آپ مجھے ہی دیکھیں میں پچھلی دودہائیوں سے ایک ہی جگہ بیٹھا ہوں اس لیے جب بھی ’و‘ میرا کسی سے تعارف کراتا ہے تو وہ یہ کہنا ضروری سمجھتا ہے ’’یہ ہیں پروفیسر گل محمد جو پچھلے کئی سالوں سے ذہنی اور جسمانی طور پر ایک ہی مقام پر رکے کھڑے ہیں۔‘‘ یہ تعارف بظاہر تونیم سنجیدہ اور نیم طنزیہ ہوتا ہے لیکن اس سے ایک خاص قسم کی محبت اور یگانگت کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ در اصل دو انسانوں کے درمیان ایک ایسے اعتماد کا اظہار ہے جو اس مفروضہ پر استوار کیا گیا ہے کہ انسان سیل رواں کی طرح نہیں بلکہ کوہ گراں کی طرح ہے۔ وقت اس کے اندر نقب تولگا سکتا ہے لیکن اس کی وفاداریوں کے خد و خال کو نہیں بدل سکتا۔‘‘ (اٹھنابیٹھنا، غلام جیلانی اصغر)
’’خداکی نافرمانی میرے وجود میں کسی چھچھوندر کی طرح روزازل ہی سے گھس بیٹھی ہے۔ میں اسے ڈھونڈکراپنے گھر سے باہر نکال دینے سے بھی قاصر ہوں۔ میں راتوں کی گہری تاریکی اور تنہائی میں اس کی الارم نما چک چک کی آواز سے ڈرتا ہوں۔‘‘ (نافرمانی، محمد اسد اللّٰہ)
’’گھوڑا حسن اور رعنائی کی علامت بن کرہماری زندگی میں ابھرتا ہے۔ اس لیے کہ اس سٹچ سے بنے ہوئے گھوڑے کی شبیہ کو فریم کرا کر میں نے اسے اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنا دیا ہے یقین کیجئے اس میں میری سنابری کا کوئی دخل نہیں یہ میری باطنی تمثیل کا آئینہ دار ہے۔‘‘ (ڈرائنگ روم میں گھوڑا، جمیل آذر)
اب آئیے آخر میں ڈاکٹر وزیر آغاکی تعریف کی جانب۔ وزیر آغا صاحب کی تعریف کی جامعیت کا اندازہ مجھے اس وقت ہواجب میں نے اس تعریف کے حوالے سے انشائیوں کامطالعہ کیا اور پھراقتباسات کے چناؤ کے لیے مجھے اس مشکل نے آن گھیرا کہ پورے کے پورے انشائیوں پر ہی مذکورہ تعریف منطبق ہوتی ہے تاہم مشتے نمونے ازخرد وارے:
’’انشائیہ اس تحریرکا نام ہے جس میں انشائیہ نگاراسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشیاء یا مظاہرے کے مخفی مفاہیم کو اس طرح گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آکر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہوتا ہے۔‘‘ (دوسرا کنارہ، وزیر آغا)
’’ہرکتاب بھی اپنی تیسری آنکھ رکھتی ہے جو کسی ایسے قاری کی تلاش میں رہتی ہے جو اس کی روح معانی میں اتر کر اس کے پس منظر کے نشیب و فراز پر چہل قدمی کرے۔‘‘ (تیسری آنکھ، جان کاشمیری)
’’پیوستگی کا یہ عمل محض انسانوں تک محدود نہیں بلکہ اگرغور کیا جائے تو کائنات کی ہرجاندار اور بے جان چیزحسن معانقہ سے آشنا ہوتی ہے۔ گھڑی کی سوئیاں ڈائل کی گولائی میں سفر کرنے پر مجبور ہیں لیکن وہ وقت کے صحرائے بسیط میں سفر کرتے ہوئے ہرلفظ کے سنگ میل پر ایک دفعہ ضرورگلے ملتی ہیں۔ چیونٹیاں جب کسی مکان کے گوشے میں پڑے ہوئے رزق کے ذخیرے کو اپنے اپنے سوراخوں میں منتقل کرنے کا عمل شروع کرتی ہیں توآمد و رفت کے دوران صورت احوال معلوم کرنے یا اظہار مسرت کے طور پر معانقے کو ضروری سمجھتی ہیں۔ دورافق پر زمین وآسمان کی معانقہ آرائی کا منظرکسی کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہو گا۔‘‘ (معانقہ، محمد اقبال انجم)
’’بعد ازاں جب انگریزقوم کی عادات و اطوار سے آگاہی حاصل ہوئی تو معلوم ہوا کہ چونکہ ان لوگوں کو اپنی اس سلطنت کی حفاظت کے لیے جس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا جنگی مشقتیں کرنے کی اشد ضرورت ہے اس لیے وہ کھانے کی میزپربھی اس سلسلے کو جاری رکھتے ہیں، سوان کے لیے کھانا جسم کو برقرار رکھنے کا بہانہ نہیں بلکہ دشمن کو زیر کرنے کا شاخسانہ ہے۔‘‘ (دسترخوان، وزیر آغا)
’’جہاں تک منڈیر پر بولنے والے کوے یا کاگ کی آواز کا تعلق ہے اسے مہمان کی آمد کا سندیسہ سمجھا جاتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں یہ کوا نہیں بول رہا ہوتا ہماری اداسی متشکل ہو کرمنڈیر پر آ بیٹھتی ہے۔‘‘ (اداسی، منشایاد)
’’سمندر کو دیکھ کر میں فیصلہ نہیں کر سکتاکہ اس میں پانی زیادہ ہے یا اداسی۔‘‘ (اداسی، منشایاد)
’’میری آنکھیں مشرقی افق پر زرد زرد گول گول صاف اور شفاف بڑے صفر کرابھرتے اور بلند ہوتے دیکھتی ہیں۔‘‘
’’یہ سارے ستارے اپنی اپنی جگہ صفر ہیں جو اس صفر سے اگر بڑے نہیں توکسی صورت میں کسی مفہوم میں اس سے چھوٹے بھی نہیں۔‘‘
’’(صفر) جب بھوکے کے سامنے آتا ہے توچپاتی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔‘‘ (صفر، انجم نیازی)
’’گول کیپر میں وہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو کسی بھی سپہ سالار میں ہوتی ہیں مثلاً سپہ سالار کی وردی عام فوج سے مختلف ہوتی ہے اور تمام حفاظتی تدابیر اس کی حفاظت کرتی ہیں۔ گول کیپر کی وردی بھی باقی ٹیم کے کھلاڑیوں کی وردی سے مختلف ہوتی ہے اور پوری ٹیم میں صرف وہی ہوتا ہے جس کے بدن کی حفاظت کے لیے بہت کچھ جتن کیے جاتے ہیں۔‘‘ (گول کیپر، اظہرادیب)
’’ناک ایک اہم عضو ہی نہیں، ایک غیر معمولی معاشرتی سمبل (symbol) بھی ہے اگرآپ شریف آدمی ہیں اور اتفاق سے آپ کا ناک نقشہ اچھانہیں ہے توبھی معاشرے میں آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے۔‘‘ (ناک، نذیراحمد راہی)
’’دوکواڑوں والادروازہ ذہن میں پہلے سے موجودترتیب اور توازن میں کوئی خلل پیدانہیں کرتاجب کہ ایک کواڑ والا دروازہ اس توازن اور ترتیب میں نہ صرف خلل بلکہ انتشار پیدا کرنے کا باعث ہوتا ہے کہ اس کا مجرد وجو دق انون فطرت کی صریح خلاف ورزی کے مترادف ہے۔‘‘ (دروازہ، تقی حسین خسرو)
’’سطح سمندر کا پانی بھی در اصل ایک نقاب ہے جس نے اس کے اندر کی ایک پوری دنیا کو چھپارکھا ہے، پھریہ دھرتی بھی ایک نقاب ہے جس کے اندرچھپے ہوئے پر اسرار خزانے تمام تر معدنی اور آتش فشانی کے باوجود ابھی تک نقاب میں ہیں۔ اس سے بھی آگے دیکھیں تو یہ پوری کائنات ہی ایک نقاب ہے۔‘‘ (نقاب، حیدرقریشی)
’’ہم ظاہرداری کی سنگلاخ دیواریں تعمیر کرتے ہوئے نجانے کیوں یہ بات فراموش کربیٹھے ہیں کہ ان دیواروں کے پہلوبہ پہلو ایسی بہت سی دیواریں بھی ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتیں مگر جو اتنی پائیدار ہیں کہ فطرت بھی انہیں گرانے سے قاصر رہتی ہے، ہرچیز کو اپنے ساتھ بہا کر لے جانے والا وقت کا ریلا ان سے سرپھوڑتا ہے مگرانہیں گرانے میں کامیاب نہیں ہوتا۔‘‘ (دیوار، امجدطفیل)
’’اجالے کی روشنی توبڑی ظالم چیز ہے جو اشیاء کو بالکل ننگا کر دیتی ہے۔ چہرہ ہی نہیں روح تک کے داغ ابھرآتے ہیں۔ دوسری طرف اندھیرے کی روشنی میں سید ھی بے مہرلکیریں بھی نازک سی قوسوں کے روپ میں نظر آنے لگتی ہیں۔ نشیب و فراز کا فرق ملائم ہو جاتا ہے۔ حقیقت کی کرختگی خواب کی خستگی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اجالے کی روشنی میں سائنس فلسفہ اور شماریات کو فروغ ملتا ہے۔ اندھیرے کی روشنی میں فنونِ لطیفہ کے بیج اگتے ہیں۔‘‘ (آنکھیں، وزیر آغا)
ان تعریفوں سے قطع نظرانشائیوں میں اسلوب کی جو خوبیاں ہیں ان میں میں نے دوچیزیں شدت سے محسوس کیں۔ اول تلمیح کا استعمال، دوم اساطیر کے حوالے سے بات کو وسعت عطا کرنا۔ تلمیح بقول ڈاکٹر وزیر آغا ’’تجربے خیال یا حکمت کو کیپسول میں پیش کرنے کا رویہ ہے۔‘‘ (پہلا ورق، اوراق، مئی جون ۱۹۸۳ء) ۔ تو ذرا ایک نظر انشائیوں میں تلمیح اور متھ کے خوبصورت استعمال پر بھی ڈالیے۔
تلمیح
’’ہماری دنیا کی دوسب سے ہوشمند قومیں ایک دوسرے کے خوف سے پاگل ہیں اور ان کے نمائندے کسی صلح جو مہم کے دوران جب گلے ملتے ہیں توبیک وقت اپنی اپنی پیٹھ پر خنجر کی چبھن محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔
(ہوشمند) کل دنیا کو ایک نیادرس دینے کی دھن میں اس قدر سرشار ہوتے ہیں کہ مقامی لوگ انہیں نہایت خطرناک پاگل سمجھ کر ان کے سامنے زہرکے پیالے رکھ دیتے ہیں جنھیں وہ مست فقیر میٹھا پانی سمجھ کر بے تامل ہاتھوں ہاتھ لے لیتے ہیں۔‘‘ (اے ہوشمندو، جوگندر پال)
’’میرے دل کے کسی گوشے میں کوئی آواز مجھے کہتی ہے تم سب کو جانتے ہوکیونکہ پیدائش کے وقت تمھیں سب چیزوں کے نام بتا دیے گئے تھے۔‘‘ (آہٹ، شہزاداحمد )
’’اس عالم میں مجھے ہمیشہ یوں محسوس ہوا ہے کہ وقت کے پر کٹ گئے ہیں یا جیسے ہم اصحاب کہف کے غار میں ارادۃً داخل ہو کر دنیا ومافیہا سے بے خبر ہو گئے ہیں اور اپنی دنیا میں واپس آتے ہیں توکیلنڈر اپنے پانچ اوراق الٹ ہو چکا ہوتا ہے اور دنیا کچھ اور بوڑھی ہو چکی ہوتی ہے۔‘‘ (کرکٹ، انورسدید)
’’روحانی اور شیطانی نعرے توخیر روز ازل سے ہی ستیزہ کار رہے ہیں جب کہ تاریخ عالم میں قم باذفی، انا الحق، لاتلذ جیسے مقدس، پاکیزہ اور مستانہ وارنعروں نے سوچ کے دھاروں کو ایک نئی ڈگر اور سمت عطا کی ہے۔‘‘ (نعرہ، ارشدمیر)
’’کئی بار میں نے سوچا کہ شاید ابتدا میں صرف ’آنکھ‘ تھی… ایک بے کنار، محیط وبسیط آنکھ جو خلا کو گھور رہی تھی پھر اچانک اس آنکھ کے اندر عکسوں کا لامتناہی سلسلہ موجزن ہو گیا۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ عکسوں کا یہ سمندر آنسوؤں میں ڈھل کر اپنے کناروں سے چھلک گیا اور پھر لاتعداد ستاروں اور سیاروں اور کہکشاؤں کی صورت بساطِ فلک پر چمکنے لگا تب آنکھ نے اسے دیکھا مسکرائی اور کہا: اچھا ہے !۔‘‘ (آنکھیں، وزیر آغا)
اساطیر (Myth)
یونانی دیومالا کے مطابق ققنس ایک خوش رنگ اور خوش آواز پرندہ ہے جس کی چونچ میں تین سوسات سوراخ ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک ایک راگ نکلتا ہے۔ جب اسے بھوک لگتی ہے تو کسی بلند پہاڑ پر ہوا کے رخ ہو بیٹھتا ہے جس کے سبب عجیب و غریب سر نکلتے ہیں اور ان کی آواز پر بہت سے پرندے فریفتہ ہو کراکٹھے ہو جاتے ہیں اور ان میں دو چار کو پکڑ کرچٹ کرجاتا ہے۔ اس کی عمر ہزارسال ہوتی ہے۔ ہزاربرس گزرنے کے بعد یہ بہت سی سوکھی لکڑیاں جمع کرتا ہے اور ان پر بیٹھ کرمستی کے عالم میں گاتا اور پروں کو جھڑ جھڑاتا ہے۔ جس وقت دیپک راگ اس کی چونچ سے نکلتا ہے تولکڑیوں کو آگ لگ جاتی ہے اور یہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ اس راکھ پر جب مینہ برستا ہے تو اس میں سے ازخود انڈہ پیدا ہوتا ہے اور انڈے سے قفس دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس دیومالائی واقعے کو دو مختلف انشائیہ نگاروں نے اپنامفہوم واضح کرنے کے لیے دومختلف اندازسے استعمال کیا ہے۔
’’پھریہ کہ چندصدیاں بتانے کے بعد زبان ققنس کی طرح اپنی ہی راکھ سے نیاجنم لیتی ہے اس طرح تاریخ کے نشیب و فراز بھی اس کی زبانی ہم تک پہنچے ہیں۔‘‘ (زبان، سلیم آغا قزلباش)
’’جوانی کے دور کا انسان بھی ققنس ہوتا ہے۔ جوانی گزرنے کے بعد خواہش کرتا ہے کاش وہ اپنی راکھ سے دوبارہ زندہ ہو سکے۔‘‘ (بڑھاپا، حامدبرگی)
’’جب میری گم گشتہ جنت میری ذات کی تجریدی صورت میں میرے سامنے آ گئی تھی تومیں نے طرح طرح کی جنتیں آباد کیں اور ان میں بڑے ہی خوبصورت دیوتاؤں کو لا براجمان کیا۔ کوئی جنت اولمپس کی چوٹی پر آباد ہوئی اور کوئی زمین کے پاتال میں، کسی دیوتا نے چاند میں بسیرا کیا اور کوئی سورج کے رتھ (یونان کا اپالو، سمریا کا شمس، بابل کا مردوخ، مصرکا آمن روح، ایران کا متھرا، ہند کا سریا) پر سوار صبح کی شفق سے برآمد ہواور شام کی شفق میں جاڈوبا پھر ان کے ساتھ دیویاں بھی تخلیق ہوئیں۔ نرم ونازک صبا (فلورادیوی) ونسیم سے بھی زیادہ لطیف اور شبنم (ایوس eos دیوی) کے قطرے سے بھی سبک خرام، کوئی سمندر کی جھاگ (یونان کی ہیرو ڈیتی دیوی) سے برآمد ہوئی اور کسی نے زمین کی کوکھ (یونان کی دیتر، مصر کی عزا، ہند کا درگا، روم کی سریس ماتا) سے جنم لیتا۔‘‘ (آوارہ خیال، غلام الثقلین نقوی)
کون ولسن نے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
روزمرہ کی زندگی اس جنگلے کی مانند ہے جس میں ہرسلاخ کے بعد ایک باریک سی درز ہوتی ہے اگرآپ رک کر ورز کے ساتھ ساتھ اپنی آنکھ لگا کر دیکھیں توآپ کو جنگلے کے دوسری طرف کا ایک محدود حصہ نظر آئے گالیکن اگر آپ سائیکل پر سوار ہو کرتیز رفتاری سے جنگلے کے پاس سے گزریں توتمام درزیں یکجاہو جائیں گی اور آپ کو جنگلے کے پار کا پورا منظر دکھائی دے گا۔‘‘
دیکھا جائے تو یہ بات انشائیہ پر بھی صادق آتی ہے لیکن اس جزوی اختلاف کے ساتھ کہ یہاں ہمیں جنگلے سے پارکا مکمل منظر دیکھنے کے لیے کسی سائیکل کی ضرورت نہیں پڑتی۔ انشائیہ ہماری فکر کو مہمیز لگا دیتا ہے۔ رفتار خودبخود پیدا ہو جاتی ہے۔ اجزاباہم مدغم ہو کر ’کل‘ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ بقول پروفسیر جمیل آذر:
’’انشائیہ زندگی کو اکائیوں میں بٹی ہوئی نہیں دیکھتا بلکہ اسے کلیت کے ساتھ قبول کرتا ہے۔‘‘ (اوراق، مئی جون ۱۹۸۳ء، انشائیہ زندگی سے مربوط)
(ماخوذ: ماہنامہ اوراق، خاص نمبر، مارچ اپریل، ۱۹۸۶ء، ص: ۸۶)
٭٭٭