اس مذاکرے میں اردو کے چند معروف قلم کاروں کو ان موضوعات کے حوالے سے دعوتِ فکر دی گئی جن سے اردو انشائیے کا دامن بارہا الجھتا رہا ہے۔ آج بھی انشائیے کے لیبل تلے ایسی تحریریں عام طور پر شائع ہو رہی ہیں جن میں محض حسنِ بیان اور اظہار کا عمومی رنگ دیکھ کر قارئین اس فریب میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ یہ انشائیہ ہے۔ انشائیے کو سمجھنے، برتنے اور اس سے لطف اندوز ہونے والے شائقینِ ادب اب بھی چاہتے ہیں کہ یہ گرہیں کھلیں جس سے انشائیے کی شناخت کا مسئلہ حل ہو۔ یہ مذاکرہ اسی سلسلے کی ایک کوشش ہے۔
انشائیے کو نثری ادب کی ایک صنف کے بجائے محض ایک طرزِ اظہار قرار دے کر معدودے چند ادیبوں نے نہ صرف انشائیے میں موجود تخلیقی امکانات کو محدود کر دیا بلکہ مغربی انشائیے کے تصور سے بھی اسے جدا کر دیا تھا۔ انشائیے کا یہی حشر مشکور حسین یاد کے اس بیان سے بھی ہو ا جس میں انشائیے کو امُّ الاصناف کہا گیا ہے۔
اس مذاکرے میں بھارت کے مشہور نقاد سلیم شہزاد نے انشائیے کو نثری ادب کی ایک صنف اور ثقافتی مظہر تسلیم کرتے ہوئے دیگر اصناف کے ساتھ اس کا تقابلی مطالعہ کیا ہے۔ معروف محقق ڈاکٹر شرف الدین ساحل نے جدید انشائیہ کی شناخت اور اس کے فروغ میں ڈاکٹر وزیر آغا کی خدمات کا جائزہ لیا ہے۔
اردو کی قدیم تصنیف ’سب رس‘ کو انشائیے کا اولین نقش قرار دے کر ایک گمراہ کن خیال پیش کیا گیا تھا جس سے یہ مغالطہ پیدا ہوا کہ یہ صنف مغرب سے مستعار نہیں بلکہ ہمارے ادب سے ابھری ہے۔ دوم یہاں بھی انشائیے کے ساتھ تمثیل، خیال آرائی اور آرائشِ زبان کا تصور جڑ گیا۔ ڈاکٹر یحییٰ نشیط نے پر اس سلسلے میں زور دلائل کے ساتھ یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ سب رس فارسی تصنیف کا ترجمہ ہے جس میں ربط و تسلسل کی کمی ہے، پند و نصائح سے بوجھل یہ تحریر انشائیہ جیسے لطیف ادبی اظہار کا نقش کیسے ہو سکتی ہے؟ انھوں نے سر سید کے مضمون ’امید کی خوشی‘ کو اردو انشائیہ نگاری کا اولین نمونہ تسلیم کیا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ تحقیق کے بعد اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ’امید کی خوشی کو سرسید نے انگریزی کے ایک مضمون سے اپنے انداز میں ترجمہ کیا تھا۔ انشائیے کو محض ایک اسلوبِ بیان ماننے اور دیگر فن پاروں میں پائی جانے والی عبارت آرائی کو انشائیہ قرار دینے سے، ایک نقصان یہ ہوا کہ انشائیے اور ان اصناف کے مختلف ہونے کا تصور دھرا کا دھرا رہ گیا۔
سلام بن رزاق نے افسانے اور انشائیے کے درمیان فرق کو بیان کر کے دونوں کے خد و خال واضح کیے ہیں۔ ڈاکٹر صفدر نے انشائیے میں تخلیقی امکانات کا جائزہ لیتے ہوئے ان عوامل کی طرف اشارہ کیا ہے جو انشائیے کے فروغ میں رکاوٹ کا سبب ہیں۔ جب تک انشائیے کو طنزیہ و مزاحیہ مضمون کے فریم سے باہر نکال کر ایک فن پارے کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا جس میں فنکار ایک تخلیقی جست کے ذریعے معنویت کے نئے دائروں کو جنم دیتا ہے، ہم انشائیے کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔ مزاح نگار شکیل اعجاز نے انشائیے کی داخلی ہیئت اور اس کے اظہار کی نوعیت کو خوبصورت مثالوں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ انشائیے کی مختلف تعریفوں کو نقل کر کے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انشائیہ بہر حال اپنے قاری سے ایک تربیت یافتہ ادبی ذوق اور ذہنی افتاد کا مطالبہ کرتا ہے۔ (م۔ ا۔ ا)
سلیم شہزاد
سوال : انشائیہ طنز و مزاح کی طرح محض ایک طرزِ تحریر ہے یا ادب کی ایک علاحدہ صنف ہے؟
جواب : اگر سوال کے پہلے جز کا جواب نفی میں دیا جائے تو پھر سوال پیدا ہو گا کہ انشائیہ آخر کیا ہے؟
اس سوال کی حد تک انشائیے کی اگر کوئی شناخت یا اس کا کوئی شناختی نام نہیں ہے تو اسے یہاں ادب کی ایک علاحدہ صنف کیوں کہا جا رہا ہے؟ اس سوال در سوال کی کیفیت کو حل کرنے کے لیے (۱) انشائیہ، (۲) طنز و مزاح، (۳) صنف کی اصطلاحی شعریاتی افہام و تفہیم ضروری ہے۔
ہمارے صحیح غلط انشائیہ نگار اور بھلے برے ناقدین طنز و مزاح کو انشائیے سے بے سبب جوڑتے ہیں۔ طنز و مزاح بیانیہ نثر و نظم کا ایک اسلوب/ طرزِ تحریر ضرور ہے لیکن انشائیہ (وہ جو کچھ بھی ہے) غیر تخیلی بیانیہ ہر گز نہیں ہے۔ یہ افسانوی بیانیے کی طرح تخلیقی چیز ہے اس لیے طنز و مزاح کا (وہ چاہے افسانے ہی کا اسلوب ہو جائے) انشائیے سے تعلق نہیں آئے گا۔ جن نام نہاد انشائیوں میں ناقدین طنز و مزاح کے عوامل موجود بتاتے ہیں، وہ طنزیہ و مزاحیہ مضامین تو ہو سکتے ہیں، انشائیے نہیں ہو سکتے۔ اب اس سوال کی تیسری اصطلاح صنف کو لیجیے۔
ادب ایک لسانی مظہر ہے جس کی دو اہم ہیئتیں نظم اور نثر پائی جاتی ہیں۔ ہمارا مسئلہ چونکہ انشائیہ ہے اور یہ نثر میں لکھا جاتا ہے اس لیے ادب میں انشائیے کی شناخت کے تعین کے لیے ہمیں نثر کے لسانی، ساختی ہئیتی، موضوعی اور صنفی عوامل کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے جو انشائیے کو بطور صنف قائم کر تے ہیں یا اس کے برعکس بھی کہ ان عوامل کی موجودگی کے باوجود انشائیہ اپنی صنفی حیثیت قائم نہیں کر پاتا۔ انشائیہ ہماری زبان اور ہمارے عہد میں چونکہ نثر کی ہیئت میں تشکیل ؍ تخلیق پاتا ہے اس لیے انشائیے کی اپنی شناخت کے تعین کے لیے اسے دوسری نثری اصناف کے ساتھ رکھ کر دیکھنا چاہئے کہ یہ ان سے کتنی مشابہت رکھتا ہے یا نہیں رکھتا۔ عام نثری ادبی اصناف ہیں: مضمون، کہانی، سفر نامہ، روداد، ڈراما وغیرہ۔ واضح رہے کہ طنز و مزاح مذکورہ تمام اصناف کا اسلوب ہو سکتا ہے جبکہ انشائیہ طنز و مزاح کے اسلوب کو نہیں اپناتا اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انشائیہ ان اصناف میں کسی سے تھوڑی سی بھی مشابہت رکھتا ہے؟
کہانی کی مختلف ہیئتیں جو ان کی طوالت سے پہچانی جاتی ہیں۔ انشائیے کی ہیئت بھی طوالت ہی سے پہچانی جاتی ہے، مگر یہ کہانی کی طرح زیادہ سے زیادہ طوالت کے بجائے کم سے کم طوالت کو اپنی انفرا دیت بنا تا ہے۔ تخیلی/ تخلیقی ہونا بھی کہانی اور انشائیے دونوں کا مشترک وصف ہے لیکن ماجرا، منظر، ماحول، کردار، طنز و مزاح وغیرہ اضافی عوامل سے انشائیہ کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ اسی طرح انشائیہ کہانی (افسانے ناول وغیرہ) سے الگ شناخت ضرور بناتا ہے۔ انھی خطوط پر دوسری نثری بیانیہ اصناف سے بھی انشائیے کا تقابل ممکن ہے۔ لسانی سطح پر اس کا بیانیہ، موضوع کی اہمیت، اسلوب کی شگفتگی اور صنفی انفرا دیت کا حامل ہوتا ہے اس لحاظ سے نثری بیانیہ اصناف میں انشائیے کی ادبی حیثیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
زیرِ بحث موضوع کی پہلی اصطلاح یعنی انشائیہ جیسا کہ ہم نے دیکھا نثری بیانیہ اصناف میں ایک انفرا دیت یا انفرادی شناخت کی حامل ہے۔ یہ شناخت اسے بعض صنفی نوعیاتی خصوصیات کی وجہ سے حاصل ہے اور وہ یہ کہ شعر و ادب کی ہر صنف کی طرح انشائیہ بھی ایک ثقافتی مظہر ہے۔ جو لسانی اثر آفرینیوں اور معاشرتی عصری ضرورتوں اور شعریاتی تقاضوں کے زیرِ اثر نشو و نما پاتا ہے۔ اردو شعری اصناف کی تاریخ اس وقوعے کی شہادت دیتی ہے۔ ہر ادبی صنف اپنے عصری اور لسانی تقاضوں کے پس منظر سے ظہور کر تی اور اپنی شناخت بناتی اور ایک عرصہ باقی رہ کر یا دوسری صنف میں مبدل ہو جاتی ہے (مثال کے لیے قصیدے کو یاد کیجیے) انشائیہ بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں برگ و بار لایا۔ چند اہم لکھنے والے اسے میسر بھی آئے مگر نصف بیسویں صدی کے حالات نے سیاست کے ساتھ ادب میں بھی اتھل پتھل مچا دی۔ مضمون، افسانہ، روداد اور سفر نامے وغیرہ اصناف نے اس دور میں اہمیت حاصل کر لی اور نتیجے میں انشائیہ بیانیہ اصناف کے پس منظر کا حصہ بن کر رہ گیا۔ اقبال اور اکبر کے طنزیہ اور مزاحیہ اسالیب نے ’’اودھ پنچ‘‘ کے مصنفین کی صف سامنے لا کھڑی کی جس کی وجہ سے سر سید ، مولوی عبدالحق، حسن نظامی، فلک پیما وغیرہ کی انشائیہ تحریریں قہقہہ زا ماحول میں گم ہو گئیں اور سمجھا جانے لگا کہ انشائیے ہنسنے ہنسانے والی تحریریں ہوتی ہیں۔
سوال : کیا اردو میں انشائیہ کی ترقی کے امکانات روشن ہیں؟
جواب : عصری ثقافتی، معاشرتی ماحول، ادبی فلسفہ پسندی، زبانوں پر مشینی ترجموں اور تکنیکوں کے اثرات اردو تعلیمی تربیت کی دھندلاتی فضا، سیاسی جبر و تسلط وغیرہ عوامل کی موجودگی نے لسانی شعریاتی افہام و تفہیم کی ناگزیریت کو ختم کر دیا ہے۔ ایسے ماحول میں انشائیہ کی ترقی کے روشن امکانات پر اظہارِ خیال کرنا عصری ماحول سے روگردانی کرنے کے مترادف ہے۔
ڈاکٹر شرف الدین ساحل
سوال : اکثر قارئین و ناقدین کے ہاں انشائیے کا تصور بہت واضح نہیں ہے، ہر قسم کی تحریروں کو اس میں شامل کرنے کی روش عام ہے، اس کا کیا سبب ہے؟ انشائیہ آخر ہے کیا؟
جواب : انشائیہ مغربی صنفِ ادب ہے جس کی تشریح و تفہیم ابتدا ہی سے اختلاف کا شکار رہی ہے۔ اگرچہ انگریزی میں اس کو Essay کے نام سے موسوم کیا گیا لیکن فرانسیسی ادیب مان ٹین اور انگریزی ادیب بیکن سے لے کر دورِ حاضر تک اس لفظ کے معنی الجھے ہوئے رہے ہیں ناقدین اس سلسلے میں ہنوز کسی یقین کی منزل تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ اردو ادب کے ناقدین بھی اسی کشمکش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مضمون، مقالہ، اور طنز و مزاح ان سب کو انشائیے کی صف میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ان اصناف کا انشائیے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ اردو کے بعض مضمون نگار، مقالہ نگار، اور طنز و مزاح نگار اسی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ وہ اپنی اس قسم کی تحریر کو انشائیہ ہی سے تعبیر کرتے ہیں۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ انشائیہ نہ تو صرف سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے اور نہ ہی طنز و مزاح کا۔ یہ سپاٹ اور سیدھے راستے سے ہو کر نہیں گزرتا بلکہ عنوان کے دائرے میں رہ کر عالمِ مستی میں کسی بھی جانب اپنا رخ کر لیتا ہے۔ وہ حالتِ دیوانگی میں بحر و بر، خشک و تر، صحرا و بیاباں، گلشن و ویراں سب کی سیر کرتا ہے لیکن اپنے بنیادی خیال سے انحراف نہیں کرتا۔ گو یا انشائیہ ذہن کی ایک ایسی مفکرانہ رو ہے جو سب کو سمیٹتے ہوئے چلتا ہے۔ لیکن اپنے محور سے نہیں ہٹتا اور نہ ہی شگفتگی و ادبیت کا دامن اپنے ہاتھ سے چھوڑتا ہے۔ یہ ہنساتا بھی ہے اور رلاتا بھی۔ سنجیدہ بھی کرتا ہے اور مغموم بھی۔ ان سب کے علاوہ طنز بھی کرتا ہے اور غور فکر دعوت بھی دیتا ہے۔ جس تخلیق میں یہ خوبیاں مضمر ہوں گی وہی انشائیہ کہلائے گا۔
سوال : انشائیہ نگاری کے فروغ میں ڈاکٹر وزیر آغا کی کوششوں کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب : اردو انشائیے کی تاریخ میں کئی نام نظر آتے ہیں لیکن ڈاکٹر وزیر آغا وہ پہلے انشائیہ نگار ہیں جنھوں نے اس فن کی تفہیم و تشریح کر کے پورے فنی اور ادبی رکھ رکھاؤ کے ساتھ انشائیے تحریر کیے ہیں۔ ان کے انشائیے حقیقت کے شاہد ہیں۔ انھیں زبان و اظہار بیان پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ ان کے انشائیے جامعیت اور شگفتگی سے آراستہ ہیں۔ انھوں نے اردو ادب میں اس صنف کو عام کرنے کے لیے باقاعدہ مشن چلایا، دوسروں کو اس کی ترغیب دی اپنے رسالے، ماہنامہ اوراق، لاہور میں نئے انشائیہ نگاروں کا دل کھول کر استقبال کیا۔ یوں یہ بے مثال صنف اردو ادب میں عام ہوئی۔
ڈاکٹر یحییٰ نشیط
سوال : بعض ادیبوں اوار ناقدین نے سب رس کو انشائیہ کا اولین نقش قرار دیا ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب : اس سوال کا جواب دینے سے قبل ’سب رس‘ کی ادبی خصوصیات کا جان لینا ضروری ہے۔
۱۔ ’سب رس‘ وجہی کی کوئی مستقل تصنیف نہیں، یہ فتّاحی کی فارسی تصنیف ’دستورِ عشّاق‘ کا ترجمہ ہے۔
۲۔ وجہی نے سن ۱۶۳۵ میں یہ ترجمہ کیا تھا۔ اس زمانے میں دکنی زبان مغربی ادب سے نا آشنا تھی۔ سب رس خالص مشرقی ادب کا نمونہ ہے۔
۳۔ سب رس کی نثر مقفیٰ اور مسجع ہے۔
۴۔ سب رس کے اصل قصے میں ربط وتسلسل کی کمی ہے۔
۵۔ یہ قصہ تمثیلی ہے اور اعضائے جسمانی کو کر دار بنایا گیا ہے۔ وجہی کے بیان کردہ قصے کے اکثر واقعات انسانی نفسیات سے لگّا نہیں کھاتے۔
۶۔ اس میں توہماتی اور اسطوری فکر کی فراوانی ہے جو زندگی سے جڑے روز مرہ کے حقائق کی نقیض ہے۔
۷۔ وجہی نے اپنی اس تصنیف میں نثری اسلوب میں شاعرانہ لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔
۸۔ داستانی طرزِ بیان اپنایا گیا ہے۔
۹۔ وجہی نے اس میں واعظانہ لب و لہجے کو ترجیح دی ہے۔ وجہی کے نصائح و مواعظ تحریر کو بوجھل بنا دیتے ہیں۔
مذکورہ بالا تمام خصوصیات سے انشائیے کا کوئی تعلق نہیں۔ صرف ایک آدھ پیراگراف اگر انشائیہ کی لفظیات اور اس کے تحریر سے اتفاقاً مربوط ہو جانے سے ہم سب رس کو انشائیہ کا اولین نقش نہیں کہہ سکتے۔ بے ساختگی اور روانی انشائیہ کی جان ہے وہ سب رس میں مفقود ہے۔ ذہنی تناؤ سے نکال کر قاری کو فرحت و انبساط سے ہم کنار کروانا جو انشائیہ کا خاص وصف ہے، سب رس میں وہ بات نہیں۔
سب رس میں موہوم دنیا کے تخیلاتی احوال پیش کیے گئے ہیں۔ انشائیے میں موہوم دنیا کا کوئی گزر نہیں۔ مذکورہ بالا تمام شواہد سب رس کو انشائیہ کا اولین نقش ہونے کی نفی کر تے ہیں۔
۱۰۔ اگر سب رس کو انشائیے کا اولین نقش قرار دیا جاتا ہے تو ناقدین کی اس رائے کو مسترد کرنا پڑے گا جس میں وہ انشائیہ کو مغربی صنف سے تعبیر کرتے ہیں۔ در اصل سر سید اور بھارتیندو ہرش چندر کے زمانے میں ہندی اور اردو میں انشائیے کی ابتدا ہوئی۔ دونوں نے ’خوشی‘ کے عنوان پر مضامین لکھے تھے۔ سرسید کی تحریر ’’امید کی خوشی‘‘ ، اردو میں انشائیے کا اولین نمونہ تھی تو بھارتیندو کا نبندھ ’خوشی اس‘ کا ابتدائی نمونہ قرار پایا۔
سوال : انشائیہ مضامین کی دیگراقسام سے کس طرح مختلف ہے؟ اس کی امتیازی خصوصیات کیا ہیں؟
جواب : کسی خاص موضوع پر لکھی گئی وہ تحریر جو ایک نشست میں بارہ پندرہ منٹ میں پڑھی جا سکے، مضمون کہلاتی ہے۔ مضمون چار پانچ صفحات تک، مختصر اور سات آٹھ صفحات تک طویل ہو سکتا ہے۔ مضمون کے موضوعات ادبی، صحافتی، ثقافتی، تاریخی، علمی، سائنسی، سماجی، سیاسی اور تخیلاتی ہو سکتے ہیں۔ مناظرِ فطرت اور حیات و معاشرے پر مضامین لکھے جا سکتے ہیں۔ مضمون نگاری میں تمہید، تفصیل اور اختتام کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ مضمون ذہن کو متحرک اور فکر کو فعال کرتا ہے سنجیدگی اس کا مزاج ہے اور نتیجہ اخذ کرنا وتیرہ۔ خیالات منضبط کرنا مضمون نگاری کی امتیازی خصوصیت ہے۔ مضمون نگاری میں مضمون سے ہٹنے اور خیالات کے بھٹک جانے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ مضمون نگار گویا ناک کی سید ھ میں چلتا ہے۔
۱لف۔ انشائیہ سنجیدگی کا متحمل نہیں ہوتا۔ وہاں شگفتہ روی کو پسند کیا جاتا ہے۔
ب۔ انشائیہ نگار ذہنی فکر اور سوچ میں غلطاں دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے چہرے پر طمانیت چھائی رہتی ہے۔ قاری خود بھی انشائیہ پڑھ کر طمانیت محسوس کرتا ہے۔
ج۔ انشائیہ مرجھائے چہروں کو تبسم ریز کرتا ہے۔ انشائیہ نگار اور اس کا قاری فکر کو ہوا میں اڑا تا چلا جاتا ہے۔
د۔ گنجلک افکار کی انشائیے میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ وہ ثقالت کو پسند کرتا ہے۔
ح۔ انشائیے میں خیالات کی روانی بادِ سحر کے خوشگوار جھونکے کی مانند ہوتی ہے جس سے غنچۂ دل کھل اٹھتے ہیں۔
ط۔ انشائیہ ایسی ہلکی پھلکی تحریر ہے جو سببِ انشراحِ طبائع ہوتی ہے۔
و۔ انشائیہ تھکے ماندے ذہنوں کے لیے سامانِ انبساط ہے۔
ھ۔ انشائیہ میں نہ طنز کی کیفیت ہوتی ہے نہ مزاح کی۔ مگر ان دونوں کے امتزاج سے قاری کو گدگدانے والی چٹکی کا احساس ضرور ہوتا ہے۔
ی۔ انشائیے میں جذبات لطیف، خیالات لطیف، احساسات لطیف حتیٰ کہ زبان اور اس کی لفظیات و تراکیب میں بھی لطافت کا عنصر غالب رہتا ہے۔
سلام بن رزاق
سوال : گزشتہ دنوں ایک افسانہ نگار نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ ہمارے بیشتر افسانے انشائیوں کی طرح لکھے جا رہے ہیں، کیا آپ اس سے متفق ہیں؟
جواب : پچھلے سو سوا سو برسوں میں اردو مختصر افسانہ کئی نشیب و فراز سے گزرا ہے۔ تکنیک اور اسلوب کے اعتبار سے بھی اس میں کئی تجربات کیے گئے۔ ان تجربوں میں بعض یقیناً اردو افسانے کے سفر میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن جدے دیت کے دور میں ایسے افسانے بھی لکھے گئے جن میں ماجرے کے بجائے محض عبارت آرائی کو روا رکھا گیا۔ اس طرح افسانہ انشائیے سے قریب ہوتا چلا گیا، لیکن وہ ایک عبوری دور تھا جو دس پندرہ سال میں اپنے انجام کو پہنچ گیا مگر اس کے اثرات کو زائل ہونے میں ایک عرصہ لگ گیا۔
جہاں تک میرا خیال ہے فی زمانہ کوئی افسانہ نگار ایسے افسانے نہیں لکھ رہا ہے جس پر انشائیے کا گمان ہو، البتہ اکیسویں صدی میں جو نئی نسل ابھر کر سامنے آئی ہے وہ واٹس ایپ، فیس بک، اور انٹر نیٹ کی دلدادہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا کا جادو نئی نسل کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ نیا افسانہ نگار کچے پکے افسانے اور افسانچے لکھ کر ادب میں ہفت خواں طے کر لینا چاہتا ہے، لہٰذا افسانے تو خوب لکھے جا رہے ہیں مگر معیار اور فن مفقود ہے۔
سوال : افسانے اور انشائیے میں کیا فرق ہے؟
جواب : یوں تو ہمارے معتقدین نے افسانے اور انشائیے کی بے شمار تعریفیں بیان کی ہیں یہاں انہیں دہرانا تحصیل حاصل ہے تاہم مختصراً عرض کیا جا سکتا ہے کہ افسانے کی تعمیر میں ماجرا، پلاٹ، کردار نگاری، فضا سازی مکالمے گارے مٹی کا کام کرتے ہیں، اردو ہی نہیں دیگر زبانوں کے بہترین افسانوں پر بھی ایک نظر ڈالی جائے تو ان کی تعمیر و تکمیل میں یہی اجزا کار فرما نظر آئیں گے۔ لیکن انشائیہ ایک ایسا شہ پارہ ہے جس میں انشائیہ نگار خیال کی ڈور پکڑ کر آسمانِ تخیل کی جولانیاں ناپتا ہے اور خود اکتشافی کیفیت سے سر شار ہوتا ہے اگر چہ آزاد تلازمۂ خیال بھی اس کی ایک خصوصیت ہے تاہم انشائیہ نگار اپنی نگاہ سے اس نکتے کو اوجھل نہیں ہونے دیتا جو اس کی فکر کا مقصود ہے۔
ڈاکٹر صفدر
سوال : انشائیہ میں تخلیقی اظہار کے زبردست امکانات ہیں اس بیان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب : وہ تخلیقی عنصر جو مضمون، آپ بیتی، طنز و مزاح، خطوط، داستان اور افسانے میں رچ بس کر ان کی شان بڑھاتا ہے، اسے پہچان کر اس تخلیقی عنصر کو الگ کر کے اہلِ قلم نے ایک نئی شناخت دی ہے، وہ انشائیہ ہے۔
انشائیے کے تعلق سے تعصبات، ضد، مفروضات اور ذاتی پسند و ناپسند کی برف اب پگھلی جاتی ہے۔ اتنا تو ضرور ہوا ہے کہ اب انشائیہ کو ایک صنف کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ ایک کنفیوژن ہنوز باقی ہے۔ لوگوں کو اب بھی انشائیہ کی علاحدہ شناخت کو منظور کرنے میں تامّل ہے۔ طنزیہ مزاحیہ مضامین کو انشائیہ کہہ دیا جاتا ہے۔ پطرس کے مضامین عرصہ تک ’مضامین پطرس‘ کے نام سے شائع ہوتے اور پڑھے جاتے تھے۔ مگر آج انھیں انشائیہ کہا جانے لگا ہے۔
ذی حیات مظہر سے مادّۂ حیات کو علاحدہ شناخت کر کے اسے زندہ جسم کی جین کہا گیا ہے۔ اسی طرح مضمون، آپ بیتی، سفر نامہ، خطوط، داستان اور افسانے میں موجود انشائی عنصر کو پہچان کر اور الگ کر کے اہلِ قلم نے نئی بیانیہ صنف دریافت کی ہے، یہ انشائیہ ہے۔ انشائیہ نگار زیرِ قلم مظہر کے پوشیدہ گوشوں کو حیطۂ اظہار میں لاتا ہے۔ غالب ؔسے مدد لے کر انشائیہ نگار اپنی کار گزاریوں کو یوں بیان کر سکتا ہے۔
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں
انشائی اظہار نا موجود کو وجود میں لانا ہے۔ اس تخلیقی کاروائی کو انگریزی میں A loose sally of mind کہا گیا ہے۔ ایک تخلیقی جست کے ذریعے انشائیہ نگار مخفی معنوی حدود میں پہنچتا ہے اور نئے معنوی گوہر نکال لاتا ہے۔ کنفیوژن یہ ہے کہ انشائیہ کو قبول کر لیا گیا ہے۔ مگر مضمون سے خلط ملط کرنے کا رویہ عام ہے۔ یہ بات بھی قبول کر لی گئی ہے کہ انشائیہ پڑھنے میں مزہ بہت آتا ہے۔ انشائیہ سراسر تخلیقی مظہر ہونے کے سبب قاری کو متحیر وجود میں تبدیل کر دیتا ہے۔ انشائیہ پڑھتے ہوئے ایک نئی دنیا، ایک نئی کائنات قاری کے روبرو ہوتی ہے۔
ہو دلفریب ایسا کہسار کا نظارہ
پانی بھی موج موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو
انشائیہ معلوم اور موجود ہیئت کا بھی انکار کرتا ہے۔ بے ہیئتی ہی انشائیے کی ہیئت ہے۔ ایک بار انشائیے کی بے ہیئتی قلم کار کی گرفت میں آ گئی تو اسے معنی کے نئے پیکر گرفت کرنے میں آسانی ہوتی جاتی ہے۔ چونکہ انشائیہ سر تا سر نئے معنوی پیکروں سے عبارت ہے اس لیے یہ کہنا بالکل درست ہے کہ انشائیے میں تخلیقی اظہار کی بے پناہ قوت موجود ہے۔
انشائیہ نگار مسلسل نئے تخلیقی نکتے بیان کرتا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے انشائیہ غزل کے قریب ہے۔ غزل گو قافیے کے جال میں پھنس کر منظوم بیانات بھی جاری کرنے لگتا ہے۔ اس لیے غزل میں بھرتی کے اشعار بھی در آتے ہیں۔ انشائیہ نگار کو یہ مجبوری لاحق نہیں ہوتی۔ اسے انشائیے کا پیٹ بھرنے کے لیے مظاہر کی فوٹو گرافی سے سمجھوتا نہیں کرنا پڑتا، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انشائیے میں تخلیقی اظہار کے زبردست امکانات موجود ہیں۔
سوال : انشائیے میں اظہارِ ذات کی نوعیت کیا دیگر اصناف ادب سے مختلف ہے؟
جواب : ادب کی تمام اصناف میں تخلیقی جوہر کی رونمائی کا وسیلہ اظہارِ ذات ہی ہے۔ تخلیقی اپروچ فنکار کی انفرادی کاوش ہوتی ہے۔ فنکار کی ذات میں موجودات سے پرے پہنچنے کی قوت، اس کی ذات کے پھیلاؤ کے بقدر ہوتی ہے۔ تخیل کی تخلیقی جست اظہار ذات کو توانائیاں عطا کرتی ہے۔
یہ کہنا درست نہیں کہ ادب کی دیگر اصناف تخلیقی جوہر سے عاری ہوتی ہیں۔ ادب کی ہر صنف تخیلی تخلیقی جست سے وجود میں آتی ہے۔ فنکار کی ذات میں جس قدر ہمہ گیری ہو گی، فن پارہ اسی قدر تخلیقی توانائی کا حامل ہو گا۔ گلشنِ نا آفریدہ کو طول و عرض کا گھیراؤ ذات کے پھیلاؤ کے بقدر ہوتا ہے، اس لیے میں یہ نہیں مانتا کہ دیگر اصناف ادب میں اظہارِ ذات کی نوعیت انشائیہ سے مختلف ہوتی ہے۔ اظہارِ ذات تمام اصناف میں مشترک ہے۔ یہ خوبی سب سے چھین کر انشائیے کی جھولی میں ڈال دینا مناسب نہیں ہے۔
میں یہ بھی مانتا ہوں کہ انشائیے کو تمام اصنافِ ادب کا سر تاج بنا دینا بھی غیر ادبی رویہ ہے۔ اظہارِ ذات کے بہانے بقراطیت انشائیے کے سر منڈھنے کی روش بھی قابلِ قبول نہیں ہے۔ انشائیے نے شگفتگی بھی مضمون نگاروں سے سیکھی ہے۔ انشائیے کو بقراطیت کے حوالے کرنا بھی انشائیہ کے حق میں نہیں ہو گا۔
شکیل اعجاز
سوال : انشائیے کی متعدد تعریفیں پیش کی گئی ہیں پھر بھی لوگ مطمئن نہیں ہیں، کسی نے کہا ہے کہ کثرتِ تعبیر نے اسے ایک خوابِ پریشان بنا دیا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب : اچھا انشائیہ جھلساتی ہوئی دھوپ میں دن گزارنے کے بعد ڈسکو سنگیت کے شور شرابے میں ٹھنڈا میٹھا کلاسیکل سنگیت ہے۔ اسکول اور کالج کی بے باک اور باتونی لڑکیوں کے درمیان یہ ایک خوش شکل، خوش ادا، با حیا، با وقار، معاملہ فہم، پڑھی لکھی، ذہین لیکن کم سخن لڑکی ہے جو کم ملاقاتیں کرتی ہے لیکن جب بھی ملتی ہے اس کی دھیمی شیریں آواز دلکش لفظوں کے انتخاب کے سبب اس کے وجود کی مہک سے دل و دماغ پر ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یہ بہت اپنی محسوس ہوتی ہے کیونکہ یہ زمانے بھر کی خبریں، اپنی قابلیت اور کارنامے سنا سنا کر بور کرنے کی بجائے اپنے دل کی کیفیتیں بیان کرتی ہے۔ اس کے خیالات اتنے نازک ہیں جیسے پھول کی پنکھڑی کی رگیں اپنی خوش حالی کے قصے سنا رہی ہوں۔
اس کی محبت آب و ہوا کی تبدیلی کا احساس دلاتی ہے۔ اس کی باتیں اگست کے مہینے میں ٹھنڈی نشیلی ہواؤں کے جھونکوں کے درمیان تھم تھم کر ہونے والی بارش ہے۔ بولتے بولتے رک جاتی ہے تب بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس گھنے جنگل میں تازے ہرے پتوں سے بارش کی بوندیں ٹپک رہی ہیں اور دور کہیں ندی کے بہنے کی آواز آ رہی ہے۔
ہمارے بزرگوں نے، اچھا انشائیہ کیا ہے، یہ سمجھانے کے لیے بہت کوششیں اور محنتیں کی ہیں۔ ان کی باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ انشا کی توانائی در اصل خیال کی تازگی و تنومندی سے ظاہر ہوتی ہے۔ انشائی قوت سے بات میں بات پیدا ہوتی ہے اور خیالات کی لہریں نکلتی ہیں۔ انشائیہ وہ ہے جس میں مغز و مضمون کی اصل توجہ حسن حسنِ عبارت پر ہو۔ اس میں کسی خاص موضوع کو لے کر اس کے گرد نثر نگار اپنے جذبات و احساسات کا تارِ عنکبوت بنتا جاتا ہے۔ ہمارا انشائیہ عصری زندگی کی سچائیوں کا ایسا مبصر ہے جو طنز و تعریض اور مزاح کے ذریعے تفریح مہیا کرنے یا اس عہد کے قبیح چہرے کو قبیح تر بنا کر پیش کرنے یا اس کے بے ہنگم، بے ڈول رویوں پر قہقہے لگا نے کا کام نہیں کرتا بلکہ ہمہ جہت حقائق کی ان جہتوں کو روشنی میں لانے کا اہتمام کرتا ہے جو عام نظروں سے اوجھل ہیں۔ وزیر آغا نے انگریزی کے Light Essay اور Persona, Essay کے خطوط پر جو تخلیقات پیش کی ہیں اور ان ہی کی بنیاد پر انشائی نگاری کی جو تحریک چلائی ہے ان تحریروں پر وہ عصری انشائی کا اطلاق کرتے ہیں حالانکہ اس عصری انشائیے کے بہت پہلے سے اردو میں انشائیہ موجود رہا ہے۔ جارج سینٹ بری کے نزدیک انشائیہ ایک ایسے دلچسپ قسم کے آدمی کی گفتگو ہے جسے ہر قسم کی معلومات ہے اور انداز ایسا جو عام طور پر کھانے کے بعد پر لطف بات چیت کا ہوا کرتا ہے۔
ہندوستان سے انشائیہ نگاری کی تحریک میں شامل ہونے والے تین اہم ادیبوں میں ایک نام محمد اسد اللہ کا ہے انھوں نے محض انشائیے رقم کرنے کے بجائے اس پر مضامین اور کتابیں لکھیں ہیں۔ ان کی کتاب ’اردو انشائیے کی روایت، مشرق و مغرب کے تناظر میں‘ ، ان کا ایک ادبی کارنامہ ہے۔ ان کے انشائیوں کے مجموعے ’بوڑھے کے رول میں‘ کے پیش لفظ میں اسد اللّٰہ کا یہ جملہ انشائیے کو سمجھنے میں بہت آسانی پیدا کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: قلم سنبھالتے ہی مجھے ذاتی قسم کے احساسات کی تخلیقی صورت گری کے لیے مناسب ذریعۂ اظہار کی جستجو ہوئی اور نظر انتخاب انشائیے پر پڑی۔ محمد اسد اللّٰہ کے اس جملے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ انشائیہ باطن کی سیاحت ہے۔ یہ منصوبہ بند سوچ نہیں بلکہ بکھری ہوئی لیکن دلچسپ سوچ ہے۔
انشائیہ کیا ہے یہ ہم بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اگر ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ انشائیہ کیا نہیں ہے۔ انشائیہ مسلمات کا بیان نہیں بلکہ شخصی نکتۂ نظر کا اظہار ہے اسی لیے گھسے پٹے انداز، چبے چبائے الفاظ اور مخصوص فکر سانچوں سے گریز موضوع سے منحرف ہو کر اس کے اچھوتے پہلو بے نقاب کرنا انشائیہ نگار کا طریقۂ کار ہے۔ بقول اسد اللّٰہ یہ محض ذاتی معاملات یا تجربات کی فہرست سازی کا کام نہیں، زندگی کے متنوع مظاہر کی فنکارانہ پیش کش ہے۔ ہمارے ہاں انشائیے کو محض ذاتی تجربات اور مشاہدات کا کچا چٹھا بیان کر دینے کا سید ھا سادہ عمل خیال کر لیا گیا ہے۔ یہ محض دفترِ معمولات نہیں۔ Lightness انشائیے کی زبان اور خوبی ہے لیکن یہ محض Lightness نہیں بلکہ زندگی کے بارے میں فلسفیانہ سوچ اور زندگی پر گہری نظر کا عکاس بھی ہے۔
سوال : کیا ایک طنزیہ و مزاحیہ مضمون اور انشائیے میں فرق ہے؟
جواب : مضمون معلومات پر مبنی ہوا کرتا ہے جبکہ انشائیہ کیفیت کا حامل ہوتا ہے۔ معلومات ہر خاص و عام آسانی سے قبول کر لیتا ہے، ہضم کر لیتا ہے اس میں اس کے ذہن پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا۔ اس لیے ادبی مضمون سے پیار کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ جب کہ کیفیت (انشائیے) کو محسوس کرنے کے لیے ذہن کا تربیت یافتہ ہونا ضروری ہے۔ لکھنے کے لیے بھی اور پڑھنے کے لیے بھی۔ جسے ہم ’مستند قلم کار‘ کہتے ہیں ویسے ہی انشائیہ کے لیے بھی ’مستند قاری‘ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ مضمون یا مقالے کی بندش مصنف کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ نفسِ مضمون سے بہت دیر کے لیے دوری اختیار کرے جب کہ انشائیے میں بے ترتیبی اپنا الگ حسن ایجاد کرتی ہے۔ انشائیے میں سوچ کا آزادانہ بہاؤ پایا جاتا ہے۔ انشائیہ نگار جب لکھنے بیٹھتا تو اس کے آگے انشائیے کا خاکہ واضح طور پر موجود نہیں ہوتا۔ طنز و مزاح ایک شعوری کاوش کے طور پر تحریر کی مجموعی فضا پیدا کرتا ہے جو اس کے مخصوص ارادوں اور مقاصد کی نمائندگی کرتا ہے۔
انشائیہ کے تعارف میں عموماً یہ کہ جاتا ہے کہ ایک غیر رسمی دوستانہ بات چیت ہے۔ یہLight Essay ہے۔ (یعنی ذہن پر بوجھ نہیں ڈالتا) یہ اپنے خیالات کا ڈھیلا ڈھالا اظہار ہے۔ لیکن عصری انشائیہ پڑھنے کے بعد لگتا ہے کہ معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ انشائیہ کے بعض لکھنے والوں نے اسے اس نئے پڑھنے والوں کے لیے مشکل بلکہ تکلیف دہ بنا دیا ہے۔ محمد اسد اللّٰہ کو اس کا احساس ہے وہ لکھتے ہیں کہ ’عام قاری کی نظر میں نئے انشائیہ نگاروں کی تحریروں کے تئیں ایک بیزاری کا رجحان نمایاں ہے۔ یوں بھی اردو کے تخلیقی ادب کے قارئین کا حلقہ دن بہ دن سکڑ تا جا رہا ہے۔
ہمارا نیا قاری جس نے اردو کا کلاسیکی ادب زیادہ نہیں پڑھا، زبان پر گرفت بھی ڈھیلی ہے اس کے لیے انشائیہ خصوصاً عصری انشائیہ ’زود ہضم کی بجائے ثقیل ثابت ہوتا ہے۔ اس کے لیے انشائیہ‘ محفل میں بات چیت کرنے والا ایک ایسا شخص ہے جو دیر سے سمجھ میں آنے والی باتیں کرتا ہے اور اس پر خوش ہوتا ہے کہ میری باتیں ہر کس و ناکس کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہیں۔ لوگ اس آدمی کی محفل میں آ کر بیٹھ تو جاتے ہیں لیکن باتیں سن کر ان کی طبیعت اچاٹ ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس مضمون اور خصوصاً طنزیہ و مزاحیہ مضمون ایسا شخص ہے جو جلد سمجھ میں آنے والی، بالکل آس پاس کی اور ایسی دلچسپ باتیں کرتا ہے کہ لوگ خوش ہو جاتے ہیں، اپنے غم بھول جاتے ہیں۔ ہنستے اور لطف اٹھاتے ہیں اور آس پاس بیٹھے ہوئے لوگ بھی اس محفل میں آ کر آخر تک بیٹھے رہتے ہیں۔ ہاں ان میں معمولی سوجھ بوجھ والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اس میں دو رائے نہیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر انشائیے کو زندگی کی گہری اور فلسفیانہ سوچ کہنے میں حق بجانب ہیں لیکن مسئلہ بھی یہی ہے کہ ہمارے ہاں بہت اعلیٰ درجے کی اور گہری باتوں میں عوام کو دلچسپی نہیں۔ آرٹ فلمیں بڑے بڑے اوارڈ حاصل کرتی ہیں مگر بزنس نہیں کرتیں یہی وجہ ہے کہ وزیر آغا والا انشائیہ کوششوں کے باوجود قارئین میں زیادہ مقبول نہ ہو سکا وہ اب بھی مخصوص لوگوں کی چیز بنا ہوا ہے۔ ماڈرن آرٹ اعلیٰ درجے کی چیز تسلیم کیا گیا ہے، لاکھوں میں بکتا ہے لیکن عوام کی سمجھ میں نہیں آتا۔ Realistic Art کے خریدا رکم ہیں لیکن عام لوگوں میں اس کی چاہت بہت ہے۔ انشائیہ ماڈرن آرٹ ہے۔ طنزیہ مزاحیہ مضمون Realistic Art ہے۔
٭٭٭