شعری معائب
شتر گربہ
“شتر” کے معنی اونٹ اور “گربہ” کے معنی بلی کے ہیں۔
یہ ایک عمومی اصطلاح ہے جو کہ دو غیر متناسب چیزوں کو یکجا کرنے یا متضاد صفات کو جمع کرنے یا قول و فعل میں مخالفت ہونے کے یا پھر ایسے ہی کسی موقع پر بولی جاتی ہے۔
ادب کے حوالے سے بھی اسے عیوبِ سخن میں میں شمار کیا جاتا ہے ، ادب اور بالخصوص شعر میں اس کا مطلب یہ یوتا ہے کہ ایک ہی کلمے کے لیے کسی خاص مقصد کے بغیر دو مختلف ضمیروں کو یا تحقیر و تعظیم کے الفاظ کو استعمال کیا جائے۔ مثلا شعر میں کسی کو مخاطب کرکے “تو” کا صیغہ لایا جائے پھر اسی شعر میں اسی مخاطب کے لیے “تم” یا “آپ” کا ذکر کیا جائے۔ یا کسی غائب کے لیے پہلے “اس” کا لفظ لاکر اسی شعر میں اسی غائب کے لیے “ان” یا “انھی” لایا جائے۔مثال:
کبھی میری تربت پہ آجانا تم بھی
ترے ہجر میں جاں سے جانے لگا ہوں
اس شعر میں مخاطب کے لیے پہلے مصرع میں “تم” کی ضمیر استعمال کی گئی ہے ، جبکہ دوسرے مصرع میں اسی مخاطب کے لیے “ترے” ہے ، اس شترگربگی کو ختم کرنے کے لیے یا تو پہلے مصرع میں “تو” لانا ہوگا یا دوسرے مصرع میں “تمھارے”
اس لحاظ سے یہ شعرمیرے خیال میں درست نہیں ہے اور عیوب سخن میں سے ہے، اس کو شتر گربہ کہا جاتا ہے ۔ شعر میں خطاب کا قرینہ ہونا چاہیے، ایک شعر میں ایک جگہ اگر آپ سے مخاطب کر رہے ہیں تو اسی شعر میں دوسری جگہ تم یا تو سے مخاطب کرنا شتر گربہ ہوگا، اسی طرح اگر تم ہے تو تُو یا آپ بھی شتر گربہ ہوگا۔ ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
جرم کیا میں نے کیا جس کی سزا دی تم نے
جانے والے مجھے اتنا تو بتا کر جاتے
پہلے مصرع میں سزاد دی تم نے ( تم کا استعمال ہوا ) دوسرے مصرع میں اتنا تو بتا کر جاتے درست ہے ( جاتے کی جگہ اگر (جاتا ) لگایا جائے گا تو
جرم کیا میں نے کیا جس کی سزا دی تم نے
جانے والے مجھے اتنا تو بتا کر جاتا
جرم کیا میں نے کیا جس کی سزا دی تو نے
جانے والے مجھے اتنا تو بتا کر جاتے
اس شعر میں دونوں صورتوں میں شتر گربہ کا عیب ہے۔اب دیکھئے
جرم کیا میں نے کیا جس کی سزا دی تو نے
جانے والے مجھے اتنا تو بتا کر جاتا
اب درست ہے
تو کے ساتھ جاتا آئے گا جب کہ تم کے ساتھ جاتے آئے گا۔ایک مثال احباب کیلئے دوسرے انداز میں پیش کی جا رہی ہے۔ جیسےغالب کا شعر ہے:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تُم کہ “تو کیا ہے”
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے ؟
غالب کا جو شعر درج کیا ہے اس میں مخاطب کو دونوں جگہ تم ہی کہا ہے اور مخاطب کی زبان میں شاعر کیلیے تُو ہے نہ کہ مخاطب تُو ہےاس لئے یہ شتر گربہ کے زمرے میں نہیں آتا۔اس شعر کے پہلے مصرع میں “تم” بھی ہے اور “تو” بھی ، مگر یہ شترگربہ نہیں ہے ، اس لیے کہ “تم” غالب کی طرف سے اس کے مخاطب کے لیے ہے ، جبکہ “تو” غالب نے اپنے مخاطب کی طرف سے اپنے لیے کہا ہے ، یعنی تم ہر بات میں مجھ سے کہتے ہو کہ تو کیا ہے؟ گویا غالب تو اپنے مخاطب کے لیے کلمۂ خطاب “تم” لائے ہیں جس سے خاص تعلق ظاہر ہوتا ہے جبکہ غالب کا مخاطب غالب کو بقول غالب “تو” کہہ کر مخاطب کرتا ہے جوکہ انسانوں کے حق میں کلمۂ تحقیر ہے۔
اسماعیل اعجاز خیالؔ صاحب اس بارے فرماتے ہیں:
“تو کے ساتھ تیرے تیری تجھ تجھے تری ترے ، تیرا ترا کا اسلوب ہو گا/ تم کے ساتھ تمہاری تمہارے تمہیں تمہی کا صیغہ آئے گا۔”
محمد وارث صاحب اس بارے فرماتے ہیں:
ی”ہ تو تھی اصولی بات، عملی طور پر اساتذہ کے ہاں بھی شتر گربہ کی مثالیں موجود ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اتنا بڑا عیب نہیں ہے، اور اساتذہ بھی ضرورتِ شعری کے تحت اس کو استعمال کرتے رہے ہیں۔سو دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ حرام تو نہیں مگر مکروہ ضرور ہے، جس سے اجتناب اُولیٰ ہے۔”
مزمل شیخ بسمل اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
” شتر گربہ بیسویں صدی سے پہلے کے یعنی متاخرین کے زمانے میں بہت پایا جاتا تھا، پھر حسرت موہانی کے دور اور بعد کے ادوار میں اس کو مکمل طور پر متروک جانا گیا۔ مصحفی، جرات وغیرہ کے کلام میں اس قسم کی مثالیں عام پائی جاتی ہیں۔ پھر بعد کے اساتذہ مثلاً داغ دہلوی اور اس زمانے کے دیگر شعراء نے اسے بالکل ختم کر دیا۔ تو اب مکروہ تحریمی ہی جانا جاتا ہے۔
زحافات اور مانوس بحور
آج ہم زحافات اور مانوس بحور کے بارے میں بات کریں گے تاکہ لوگ جان سکیں کہ مختلف بحور کون کون سی ہیں جن میں شاعری کی جاتی ہے اور مختلف بحور میں پائے جانے والے افاعیل و ارکان مختلف کیوں ہیں ۔ آپ سب نے بنیادی اراکین پڑھے ہیں جنھیں اراکین عشرہ بھی کہا جاتا یعنی دس ہی بنیادی افاعیل ہیں تو پھر باقی افاعیل کیسے آئے اور کیسے بنے؟
زحاف
زُحاف لفظ زُحف سے نکلا ہے جس کے لفظی معنی ہیں کسی چیز کا اپنی اصلی حالت سے گِر جانا اور اس میں کسی قسم کی کمی بیشی کا ہوجانا اس کو ہم تغیر کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں مگر علمِ عروض کی اصطلاح میں زُ حاف ان تغیرات کو کہتے ہیں جو کسی بھی بحر کے ارکان میں لائے جاتے ہیں اگرچہ اصل لفظ زُحف ہے اور زحاف اس کی جمع ہے مگر عروض میں ایک چیز کےلئے بھی جمع کا صیغہ ہی استعمال کرتے ہیں جن ارکان میں یہ زُحاف واقع ہوتے ہیں ان کو ہم مزاحف کہتے ہیں بلکہ جس بحر میں یہ مزاحف ارکان استعمال ہورہے ہیں اس بحر کو بھی ہم مُزاحف ہی کہتے ہیں۔
مثالیں
زحافات جن الفاظ پہ لگائے جاتے وہ الفاظ اپنے اصل کی مزاحف شکل کہلاتی ہے۔ ہم زحافات کو لے کر بہت زیادہ تفصیل میں نہیں جائیں گے چونکہ یہ ایک پیچیدہ تفصیل ہے اور ہمارے مقصد سے بہت آگے کی چیز ہے۔ ہم صرف اتنی بات کریں گے جس میں ہمیں سمجھ آ جائے کہ شاعری میں چند ارکان کے بجائے بقایا تمام ارکان کیسے بنائے جاتے۔ اور انیس مانوس بحروں کے ہوتے ہوئے ایسا کیوں ہے کہ تعداد میں انیس سے کہیں زیادہ بحور دیکھنے کو ملتی ہیں۔
زحافات کسی بھی سالم رکن پر لگانے کے مختلف طریقے ہیں جنھیں شناخت کرنے کے لیئے مختلف نام دیئے گئے ہیں جیسے خبن، قصر ، تشعیث، قبض ، قطع وغیرہ،۔
یہ ارکان پہ کیسے لگائے جاتے یا کس طریقے پر زحافات بنائے جاتے ان کی تفصیل کی یہاں چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ہاں البتہ چند مثالوں کے ذریعے واضح کیا جائیگا تاکہ منطق سمجھی جا سکے۔
خَبَن زحاف لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ بحر کے کچھ مخصوص افاعیل کے دوسرےحرف کو نکال دیا جاتا ہے۔ یہ نیا رکن جو خَبَن زحاف کے نتیجے میں بنتا ہے مخبون زحاف کہلاتا ہے جیسے کہ فاعلاتُن کا دوسرا حرف گرا دیا جائے تو نتیجتاً جو رکن برآمد ہوتا فَعِلاتُن کہلاتا ۔
ایسے ہی اگر قَبض کا زحاف لگایا جائے تو یہ عمل رکن کے پانچویں حرف کو گرا دیتا ہے اور بننے والا رکن اس اصل رکن کا مقبوض زحاف کہلائے گا جیسے کہ اگر مفاعیلُن پر مقبوض زحاف لگایا جائے تو مفاعلُن برآمد ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا دو مثالوں سے بس اتنا سمجھنا کافی ہے کہ زحاف کے عمل سے مختلف ارکان وجود میں آتے ہیں اور مختلف بحور جنم لیتی ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس کا مکمل جاننا بس ان کے لیئے ضروری ہے جو علمِ عروض پر مکمل دسترس حاصل کرنا چاہیں ۔ شاعروں کے لیئے اہم بات یہ ہے کہ زحاف کی وجہ سے شاعری میں جو چند اجازتیں اور چھوٹ ملتی ہے بحر و وزن کے حوالے سے وہ کیا کیا ہیں۔
زحافات کے حوالے سے اہم امور
زحاف کے مختلف عمل ہر رکن پر استعمال نہیں ہو سکتے بلکہ مخصوص ارکان پر ہی لگائے جا سکتے سو پہلے سے بنائی گئی بحروں سے استفادہ کیا جائے اور ان پہ نت نئے تجربات کر کے اپنی شاعری کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ جس کو نئی بحروں اور نئے ارکان یا نئے تجربات کرنے ہوں ، ہم ان کا مکمل خیر مقدم کریں گے مگر شاعر بننے کی گارنٹی نہیں دے سکیں گے۔
زحافات کے استعمال میں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ زحاف کا اختیار کرنا غیر لازم ہے یعنی اگر ایک مصرع میں زحاف اختیار کیا گیا ہو تو دوسرے میں بھی اختیار کیا جانا لازم نہیں یعنی اختیار شدہ زحاف کا اصل رکن بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اردو عروض میں یہ قاعدہ بھی مخصوص جگہ پر کار آمد ہے۔ سو سبق میں دی گئی مانوس بحروں میں بتائی گئی اجازتوں تک ہی محدود رہنا سود مند ہوگا۔
معروف بحور اور ان کے اسما
بحر متدارک بحر متقارب بحر رمل بحر رجز بحر ہزج
بحر منسرح بحر مجتث بحر مضارع بحر وافر بحر کامل
بحر مدید بحر طویل بحر خفیف بحر سریع بحر مقتضب
بحرجمیل بحر مشاکل بحر جدید بحر قریب بحر بسیط
ان تمام بحور میں مختلف زحافات لگائے جاتے ہیں اور بے شمار بحریں وجود میں آتی ہیں۔ ذیل میں صرف مانوس بحروں کا تذکرہ ہے جو مبتدی شعرا کے لیے بہت ہی فائدہ مند ہوں گی ان شاءاللہ۔
مانوس بحور کے اسما اور افاعیل
1 ۔ بحر متقارب مثمن سالم: فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
2۔ بحر متقارب مثمن محذوف: فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعَل
3۔ بحر متدارک مثمن سالم: فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
4۔ بحر ہزج مثمن سالم: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
5۔ بحر ہزج مسدس سالم: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
6۔ بحر ہزج مسدس محذوف: مفاعیلن مفاعیلن فعولن
7۔ بحر ہزج مثمن مقبوض: مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
8۔ بحر ہزج مثمن اشتر: فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
9 ۔بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف: مفعول ُمفاعیل مفاعیل فعولن
10۔ بحر ہزج مثمن اخرب سالم : مفعول ُ مفاعیلن مفعول ُ مفاعیلن
11 ۔ بحر رجز مثمن سالم : مستَفعِلن مستَفعِلن مستَفعِلن مستَفعِلن
12 ۔ بحر رجز مثمن مطوی مخبون : مفتَعِلن مفاعلن مفتَعِلن مفاعلن
13۔ بحر رمل مثمن محذوف: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
14۔ بحر رمل مسدس محذوف: فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
15۔ بحر رمل مثمن مخبون محذوف: فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعلن/فعِلن
فعلاتن فعلِاتن فعِلاتن فعلُن/فَعِلن
16۔ بحر رمل مثمن مشکول مسکن: مفعولُ فاعلاتن مفعولُ فاعلاتن
17۔ بحر رمل مثمن مشکول: فعلات فاعلاتن فعلات فاعلاتن
18۔بحر متدارک مثمن مخبون مسکن: فعلن فعلن فعلن فعلن
19۔ بحر کامل مثمن سالم: مُتَفَاعِلُن مُتَفَاعِلُن مُتَفَاعِلُن مُتَفَاعِلُن
20۔ بحر مجتث مثمن مخبون محذوف: مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن/ فعِلن
21۔ بحر منسرح مثمن مطوی مکسوف: مفتَعِلن فاعلن مفتَعِلن فاعلن
22۔ بحر مدید مثمن سالم : فاعلاتن فاعلن فاعلاتن فاعلن
23۔ بحر جمیل مثمن سالم: مفَاعِلاتُن مفَاعِلاتُن مفَاعِلاتُن مفَاعِلاتُن
چند اغلاط کی نشان دہی
(1) عموماً کہا جاتا ہے:
مجھے اسٹیشن پر ریل گاڑی کے لیے کافی انتظار کرنا پڑا۔
لیکن درست جملہ یوں ہوگا:
مجھے اسٹیشن پر ریل گاڑی کے لیے خاصا انتظار کرنا پڑا۔
اس لیے کہ:
”کافی“ کا مطلب ہوتا ہے کفایت کرنے والا، جو ضرورت کے مطابق ہو، لہذا اس لفظ کو زیادہ کے معنی میں استعمال نہیں کرنا چاہیے،
اس کی بجائے ”بہت، زیادہ، خاصا“ جیسے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
(2) عموماً کہا جاتا ہے:
عوام اسے تسلیم نہیں کرتی۔
لیکن درست جملہ یوں ہوگا:
عوام اسے تسلیم نہیں کرتے۔
اس لیے کہ:
اردو میں لفظ ”عوام“ کو مؤنث استعمال کرنا سنگین غلطی ہے، یہ لفظ ”عامّہ“ (واحد مؤنث) اور ”عام“ (واحد مذکر) کی جمع ہے لہذا اسے جمع مذکر کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔
(نور اللغات)
(3) عموماً کہا جاتا ہے:
اس لفظ کی املا غلط ہے۔
لیکن درست جملہ یوں ہوگا:
اس لفظ کا املا غلط ہے۔
اس لیے کہ:
اردو میں لفظ ”املا“ کو مؤنث نہیں، مذکر استعمال کیا جاتا ہے۔ (بحوالہ نور اللغات)
(4)عموماً کہا جاتا ہے:
وہ گھڑی آپہنچی جس کا انتظار تھا۔
لیکن درست جملہ یوں ہوگا:
وہ گھڑی آگئی جس کا انتظار تھا۔
اس لیے کہ:
”آپہنچنا“ کا محاورہ ہندی والوں نے عام کیا ہے،
اردو میں یہ محاورہ حیرت، ناخوشی یا تنبیہ کے مواقع پر استعمال ہوتا ہے۔
چنانچہ عام مواقع پر اس کا استعمال خلاف محاورہ اور واجب الترک ہے۔
(بحوالہ لغات روزمرہ)
(5) عموماً لکھا جاتا ہے:
ہمارے آس پڑوس کے ممالک۔۔۔
لیکن بہتر ہو گا کہ اسے اس طرح لکھا جائے:
ہمارے پاس پڑوس کے ممالک۔۔۔
اس لیے کہ:
”آس پڑوس“ ہندی کی تحریری زبان میں ہے، اب اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے
لیکن تحریر کی حد تک ”پاس پڑوس“ بہتر اور ”آس پڑوس“ سے احتراز انسب ہے۔
(بحوالہ لغات روزمرہ)
(6) عموماً کہا جاتا ہے:
اس لفظ کی تحقیق کے لیے ہم نے فلاں لغت دیکھی۔
لیکن درست جملہ یوں ہوگا:
اس لفظ کی تحقیق کے لیے ہم نے فلاں لغت دیکھا۔
اس لیے کہ:
”لفظ“ لغت بہ معنی فرہنگ مذکر ہے، مؤنث نہیں۔
(7) عموماً کہا جاتا ہے:
ہم وہاں سے بے نیل و مرام آئے۔
لیکن درست جملہ یوں ہوگا:
ہم وہاں سے بے نیل مرام آئے۔
اس لیے کہ:
” نیل“ یعنی پانا، حاصل کرنا اور ”مرام“ یعنی مقصد، ”نیل مرام“ کا مطلب ہوتا ہے حصول مقصد۔
لہذا ان دونوں لفظوں کے درمیان ”و“ کا استعمال درست نہیں۔
(8) عموماً کہا جاتا ہے:
ہم نے کپڑے دھلے۔
لیکن درست جملہ یوں ہوگا:
ہم نے کپڑے دھوئے۔
اس لیے کہ:
”دھلنا“ فعل لازم ہے جبکہ ”دھونا“ فعل متعدی؛ واضح رہے کہ فعل لازم میں کوئی مفعول نہیں ہوتا۔
(9) عموماً کہا جاتا ہے:
مطالعہ کے دوران یہ واقعہ نظر سے گزرا۔
لیکن درست جملہ یوں ہوگا:
مطالعہ کے دوران میں یہ واقعہ نظر سے گزرا۔
واضح رہے کہ:
لفظ ”دوران“ کو ”میں“ کے بغیر استعمال کرنا ہندی زبان میں رائج ہے، نیز ”دوران میں“ کا استعمال اردو کے تمام مسلم الثبوت اساتذہ کے یہاں ملتا ہے۔
(10) عموماً کہا جاتا ہے:
اردو نفاذ بارے۔۔۔
لیکن درست جملہ یوں ہوگا:
اردو کے نفاذ کے بارے میں۔۔۔
اس لیے کہ:
”بارے“ کا مطلب ہوتا ہے کے متعلق، چنانچہ جس طرح اردو نفاذ متعلق جملہ غیر واضح اور غلط معلوم ہوتا ہے اسی طرح ”بارے“ کو مذکورہ بالا طریقہ سے استعمال کرنا غلط ہے،
لہذا جب بھی لفظ ”بارے“ کا استعمال کریں تو اس سے قبل ”کے“ اور اس کے بعد میں ”کا“ استعمال ناگزیر سمجھیں، یہی درست اور فصیح ہے۔
(11) عموماً کہا جاتا ہے:
مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی۔
لیکن درست جملہ یوں ہوگا:
مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔
اس لیے کہ:
”سمجھ“ کا مفہوم ہوتا ہے عقل و فہم، چنانچہ اگر مذکورہ غلط جملہ میں سمجھ کی بجائے ”عقل“ کا استعمال کریں تو جملہ یوں ہو جائے گا: مجھے اس بات کی عقل نہیں آئی، اور ظاہر ہے یہ جملہ درست نہیں ہے۔
نیز اردو میں ”سمجھ آنا“ محاورہ نہیں ہے، بلکہ ”سمجھ میں آنا“ محاورہ ہے اور یہی درست ہے۔
(12) صرف، ہی اور فقط کا استعمال:
مثال:
صرف نئی تعلیم ہی سماجی شعور پیدا کر سکتی ہے۔
لیکن درست جملہ یوں ہو گا:
صرف نئی تعلیم سماجی شعور پیدا کر سکتی ہے۔
اس لیے کہ:
”صرف“ اور ”ہی“ ایسے لفظ ہیں جو ایک ہی مفہوم کو ادا کرتے ہیں، چنانچہ اگر مذکورہ غلط جملے میں ہی نکال دیا جاتا: صرف نئی تعلیم سماجی شعور پیدا کر سکتی ہے، تب بھی بات مکمل ہو جاتی اور تکرار کا عیب پیدا نہ ہوتا۔
نیز ”فقط“ اور ”ہی“ ایک ہی مفہوم کو ادا کرتے ہیں، جس طرح ”صرف“ اور ”ہی“ کو ایک ساتھ نہیں لا سکتے اسی طرح فقط اور ہی کو ایک ساتھ نہیں لانا چاہیے۔
حوالہ: رشید حسن خان، انشا اور تلفظ، صفحہ31،
اُردو کہاوات
پاؤں کی موچ اور چھوٹی سوچ ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیتی
ٹوٹا قلم اور دوسروں سے جلن۔ ہمیں اپنی قسمت لکھنے نہیں دیتی۔
کام کا آلس۔ اور پیسے کا لالچ ۔ ہمیں ترقی کرنے نہیں دیتی۔
دنیا میں سب چیزیں مل جاتی ہیں۔ صرف اپنی غلطی نہیں ملتی۔
جتنی بھیڑ بڑھ رہی ہے زمانے میں ۔۔لوگ اتنے ہی اکیلے ہوتے جا رہے ہیں۔
اس دنیا کے لوگ بھی کتنے عجیب ہیں نا۔ سارے کھلونے چھوڑ کر جذبات سے کھیلتے ہیں۔
کنارے پر تیرنے والی لاش کو دیکھ کر یہ سمجھ میں آیا ۔۔بوجھ جسم کا نہیں سانسوں کا تھا ۔
سفر کا مزہ لینا ہو تو، ساتھ سامان کم رکھئے۔اور زندگی کا مزہ لینا ہو تو دل میں ارمان کم رکھئے۔
زندگی کو اتنا سیریس لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں سے زندہ بچ کر کوئی نہیں گیا ۔
جن کے پاس صرف سکٌے تھے وہ مزے سے بھیگتے رہے بارش میں ۔۔۔
جن کے پاس نوٹ تھے وہ چھت کی تلاش میں رہ گئے۔۔۔
پیسہ انسان کو اوپر لے جا سکتا ہے ۔۔۔۔ لیکن انسان پیسہ اوپر نہیں لے جاسکتا ۔۔۔
کمائی چھوٹی یا بڑی ہوسکتی ہے ۔۔۔۔ پر روٹی کا سائز لگ بھگ سبھی گھروں میں ایک جیسا ہی ہوتا ہے ۔۔۔
انسان چاہتا ہے، اڑنے کو پر ملے ۔۔ اور پرندے سوچتے ہیں کہ رہنے کو گھر ملے ۔۔۔
کام سے ہی پہچان ہوتی ہے انسان کی ۔۔۔۔ مہنگے کپڑےتو “پُتلے” بھی پہنتےہیں دوکانوں میں ۔۔۔۔
غزلِ مسلسل
بعض اوقات شاعر ایک ہی موضوع پر پوری غزل کہہ دیتا ہے، وہ پورا مضمون ایک ہی موضوع پر ہوتا ہے۔ سارے شعر ایک موضوع پر ہوتے ہیں۔
ویسے غزل کا ہر شعر اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر شعر الگ مفہوم رکھتا ہے لیکن غزل مسلسل کا ہر شعر ہی ایک موضوع پر ہوتا ہے۔ اور اس کا عنوان بھی رکھا جاتا ہے یعنی یہ وہ واحد غزل ہے جس کا عنوان ہوتا ہے۔ ویسے تو نظم کا عنوان ہوتا ہے۔ لیکن غزل مسلسل کا عنوان بھی رکھا جاسکتا ہے۔
غزل مسلسل کے زیادہ تجربات اُردو میں الطاف حسین حالی اور جوش ملیح آبادی نے کیے ہیں۔
فارسی میں شیخ سعدی نے کیے ہیں۔
کلیم الدین احمد اور جوش کے غزل پر اعتراضات
کلیم الدین احمد کہتے ہیں غزل میں ربط اور اتفاق کی کمی ہوتی ہے۔ اس وجہ سے یہ نیم وحشی صنفِ سخن ہے۔
جوش کہتے ہیں کہ غزل کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہم کسی ایسے گھر میں چلے گئے جہاں ابھی ابھی لڑائی ہوئی ہے۔ اور سارے منہ پھیلائے، منہ موڑے بیٹھے ہوئے ہیں۔
اب ان دونوں نے یہی اعتراض کیا ہے کہ غزل کا ہر شعر الگ مفہوم رکھتا ہے۔
اب ان کے بارے میں ظ۔انصاری نے بہترین رائے دی ہے، وہ کہتے ہیں چونکہ غزل کی یہ صفت ہے یہ غزل کا تقاضا ہے کہ ہر شعر جو ہے وہ الگ مفہوم رکھتا ہو۔ لیکن یہ ضرور ہونا چاہیے کہ ایک ہی غزل میں بالکل متضاد شعر نہ ہوں۔ یعنی یہ نہ ہو کہ پہلا شعر محبوب کی رحمدلی کا ہو اور اس سے اگلا شعر سنگ دلی کا ہو ۔ البتہ یہ ہے کہ الگ الگ غزلوں میں رحم دلی اور سنگ دلی کا مضمون ہوسکتا ہے۔
غزل کے پانچ شعر
مرزا مظہر جانِ جاناں کے شاگرد “انعام اللہ خاں یقین” کی ہر غزل پانچ (5) شعروں کی ہے۔
رام بابو سکسینہ
رام بابو سکسینہ نے “تاریخ ادب اردو” ایک انگریز پروفیسر سینی گری کی کتاب “مختصر تاریخ علم و ادب” کی طرز پر لکھی تھی۔
صنعتِ توشیح
ایسے اشعار کہنا کہ ان کے مخصوص حروف کو یکجا کرنے سے کوئی معنی خیز جملہ یا عبارت یا نام بن جائے۔
درد و غم داغ ہجر رنج فراق
وقف دل بل بے حوصلہ دل کا
سخت تڑپے ہے اب کروں کس سے
تجھ سوا ہجر میں گلہ دل کا
چاروں مصرعوں کا پہلا حرف ملانے سے لفظ “دوست” بنتا ہے۔
حوالہ کتاب : منصف خان سحاب از”نگارستان”صفحہ نمبر: 175
قلب
قلب (ANAGRAM): قلب کے معنی الٹ دینے کے ہیں کلام میں دو ایسے لفظ لانا کہ ایک کو الٹا کرنے سے دوسرا لفظ بن جائے۔ مثلاً بارش کو الٹنے سے شراب، حورسے روح، تاب سے بات، خاک سے کاخ وغیرہ۔اس کی تین صورتیں ہیں۔
1۔ قلب کل 2۔ قلب بعض 3۔ قلب مستوی
1۔ قلب کل: حروف یکساں ہوں لیکن ترتیب الٹ ہو۔
فقط اس لفافے پر ہے کہ خط آشنا کو پہنچے
تو لکھا ہے اس نے انشا یہ ترا ہی نام الٹا
آشنا کو انشا بنادیا گیا ہے۔
2۔ قلب بعض: حروف کی تعداد اور نوعیت تو یکساں ہو مگر وہ ایک دوسرے کا عین الٹ نہ ہو۔ مثلاً قرابت رقابت، علم عمل، کمال کلام، قریب رقیب وغیرہ۔
اٹھ گیا پاس اب رفاقت کا
رشتہ پیدا ہوا رقابت کا
3۔ قلب مستوی: ایک ہی لفظ مصرع یا شعر کو الٹنے سے وہی لفظ، مصرع یا شعر حاصل ہو۔
مثلاً ابا، درد، شاباش، نادان وغیرہ۔ (حوالہ کتاب : منصف خان سحاب از”نگارستان”صفحہ نمبر: 174)
مرثیہ کی تین اقسام
1۔رسمی مرثیہ 2۔شخصی مرثیہ 3۔کربلائی مرثیہ
رسمی مرثیہ میں فدایانے ملت، قومی شہید، قومی رہنما ان کا ذکر خیر کیا جاتا ہے۔ جیسے : علامہ اقبال، فیض احمد فیض، قائد اعظم، راشد منہاس وغیرہ پر لکھے مرثیے رسمی مرثیے کہلاتے ہیں۔
شخصی مرثیہ وہ ہوتا ہے جو اپنے عزیز، رشتہ دار، استاد، دوست کے بارے میں لکھا جاتا ہے۔ مثلاً علامہ اقبال نے اپنی والدہ کے بارے میں لکھا “والدہ مرحومہ کی یاد میں” ۔
کربلائی مرثیہ یہ مرثیے کی وہ قسم ہے جو سب سے زیادہ مشہور ہے۔ یعنی جو واقعہ کربلا کے بارے میں امام حسین کے بارے میں اور ان کے خاندان کے بارے میں جو مرثیے کہےجاتے ہیں۔