گل دستہ
صنعتِ مثلث
رباعی کے تین مصرعے اس طرح لکھے جائیں کہ ہر مصرع کے ابتدائی چند الفاظ کو جمع کریں تو چوتھا مصرع بن جائے۔
تجھ سا نہیں کوئی پیارا اے رشک قمر
محبوب کوئی نہ ہوگا تجھ سے بہتر
اے دلبر نازنین تجھے کہتے ہیں سب
تجھ سا نہیں محبوب کوئی اے دلبر
پہلے مصرع سے ۔۔۔تجھ سا نہیں دوسرے مصرع سے۔۔۔ محبوب کوئی تیسرے مصرع سے۔۔۔ اے دلبر اب دیکھیے ان تین مصرعوں سے چوتھا مصرع بن گیا ہے۔ (حوالہ کتاب : “منصف خان سحاب”۔ “نگارستان”۔ ص : 178)
استعارہ
مدیر اعلیٰ
اردو لغت میں استعارہ کے معنی ’عارضی طور پر مانگ لینا، مستعار لینا، عاریتاً مانگنا، اُدھار مانگنا، کسی چیز کا عاریتاً لینا ‘ہیں۔ علم بیان کی اصطلاح میں ایک شے کو بعینہ دوسری شے قرار دے دیا جائے، اور اس دوسری شے کے لوازمات پہلی شے سے منسوب کر دئیے جائیں، اسے استعارہ کہتے ہیں۔ استعارہ مجاز کی ایک قسم ہےجس میں ایک لفظ کو معنوی مناسبت کی وجہ سے دوسرے کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی کسی لفظ کو مختلف معنی میں استعمال کرنے کے لیے ادھار لینا۔ استعارہ میں حقیقی اور مجازی معنی میں تشبیہ کا تعلق پایا جاتا ہے، لیکن اس میں حرف تشبیہ موجود نہیں ہوتا۔ جیسے’ لبِ لعل‘ اور ’سروقد‘ یہاں لب کو لعل سے اور قد کو سرو سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور کبھی مشبہ کہہ کر مشبہ بہ مراد لیا جاتا ہے جیسے:’چاند ‘کہہ کر چہرہ اور’ شیر‘ کہہ کر شجاع مراد لینا۔ لیکن تشبیہ میں واضح الفاظ میں موازنہ موجود ہوتا ہے۔ مثلاً: زید کالاسد (زید شیر کی طرح ہے)تشبیہ اور زیداسد (زید شیر ہے) استعارہ ہے۔ اسی طر ح اگر ماں اپنے بچے کو یہ کہے کہ میرا چاند آگیا یا کوئی شخص یہ کہے کہ خالد شیر ہے۔ پہلے جملے میں بچے کو چاند سے اور دوسرے میں خالد کو شیر سے تشبیہ دی گئی ہے، لیکن دونوں جملوں میں حرف تشبیہ موجود نہیں ہے۔ اسی طرح چاند اور شیر کو حقیقی معنوں میں استعمال نہیں کیا گیا۔ تشبیہ کے اس انداز کو استعارہ کہتے ہیں۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں موجود ہوتے ہیں لیکن استعارہ میں مشبہ بہ کو عین مشبہ تصور کرلیا جاتا ہے، اور مشبہ بہ کی تمام صفات کو مشبہ کے ساتھ منسوب کر دیا جاتا ہے۔
بعض اوقات استعارہ کا استعمال زبان میں اتنا عام ہو جاتا ہے کہ حقیقی معنی میں اس لفظ کا استعمال ختم یا بہت کم ہو جاتا ہے۔ جیسے لفظ متقی کا معنی ’محتاط شخص‘ ہے، لیکن اسے بطور استعارہ خدا کے معاملے میں محتاط شخص یا ’پرہیزگار‘ کے معنی میں اتنا زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اس کا استعمال اپنے اصل معنی میں بہت کم رہ گیا ہے۔ اسی طرح لفظ ’فاسق‘ کا لغوی معنی ’کاٹنے والا‘ ہے، لیکن یہ ’سرکش اور گناہ گار‘ کے معنی میں عام استعمال ہوتا ہے، کیونکہ گناہ گار خدا سے اپنا رشتہ کاٹتا ہے۔ یہ لفظ اب اپنے لغوی معنی میں بہت ہی کم استعمال ہوتا ہے۔
سجادمرزابیگ استعارہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’وہ لفظ جو غیر وضعی معنوں میں استعمال ہو اور حقیقی و مجازی معنوں میں تشبیہ کا علاقہ ہو، نیز مشبہ یا مشبہ بہ کو حذف کر کے ایک کو دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہیں لیکن کوئی ایسا قرینہ بھی ساتھ ہی ظاہر کرتے ہیں جس سے معلوم ہو جائے کہ متکلم کی مراد حقیقی معنوں کی نہیں ہے۔ ‘‘
استعارہ اور تشبیہ میں یہ فرق ہے کہ تشیبہ میں حرف تشبیہ کا ہونا لازمی ہے۔ جسے وہ شیر کی مانند ہے۔ استعارے میں حرف تشبیہ نہیں ہوتا جیسے شیر خدا۔ استعارے کی دو قسمیں ہیں۔ استعارہ بالتصریح جس میں فقط مشبہ بہ کا ذکر کریں۔ مثلاً چاند کہیں اور معشوق مراد لیں۔ دوسرے استعارہ بالکنایہ جس میں صفر مشبہ کا ذکر ہو مثلاً موت کے پنجے سے چھوٹے۔ موت درندے سے استعارہ بالکنایہ ہے اور لفظ پنجہ قرینہ ہے۔
ارکانِ استعارہ
مستعار لہ
وہ شخص یا چیز جس کے لیے کوئی لفظ یا خوبی ادھار لیا جائے۔ مثلاً اوپر کے جملوں میں بچہ اور خالد مستعار لہ ہیں۔
مستعار منہ
وہ شخص یا چیز جس سے کوئی لفظ یا خوبی مستعار لی جائے۔ مثلاً اوپر کی مثالوں میں چاند اور شیر مستعار منہ ہیں۔ مستعار لہ اور مستعار منہ کو طرفین استعارہ بھی کہتے ہیں۔
وجہِ جامع
مستعار لہ اور مستعار منہ میں جو وصف اور خوبی مشترک ہو اسے وجہ جامع کہتے ہیں۔ مذکورہ بالا مثالوں میں بچے اور چاند کے درمیان خوب صورتی اور خالد اور شیر کے درمیان بہادری وجہ جامع ہے۔
اقسامِ استعارہ
استعارہ مطلقہ
وہ استعارہ جس میں مستعار لہ اور مستعار منہ میں سے کسی کے کسی قسم کے مناسبات کا ذکر نہ کیا جائے۔
استعارہ مجردہ
جس میں مستعارمنہ کے مناسبات کا ذکر ہو۔
استعارہ تخییلیہ
وہ استعارہ جس میں متکلم ایک چیز کودوسری شے کے ساتھ دل ہی میں مماثلت طے کرکے سوائے مستعار لہٗ کے کسی کا ذکر نہ کرے۔
استعارہ وفاقیہ
وہ استعارہ جس میں مستعار لہ اور مستعار منہ دونوں کی صفات ایک ہی چیز یا شخص میں جمع ہو جائیں۔ یعنی ان دونوں کا ایک ساتھ ہونا ممکن ہو۔
استعارہ عنادیہ
وہ استعارہ جس میں مستعارلہ اور مستعار منہ کی صفات کا کسی ایک چیز میں جمع ہونا ممکن نہ ہو۔
استعارہ عامیہ
وہ استعارہ جس میں وجہ جامع بہت واضح ہو۔ اسے مبتذلہ بھی کہتے ہیں۔
استعارہ خاصیہ
وہ استعارہ جس میں وجہ جامع غیر واضح ہو۔ جسے لوگ آسانی سے نہ سمجھ سکیں۔
استعارہ کی مثالیں
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
اس شعر میں مستعار لہ محبوب ہے اور مستعار منہ گل ہے اور وجہ جامع خوب صورتی ہے۔
پلکوں سے گر نہ جائیں یہ موتی سنبھال لو
دنیا کے پاس دیکھنے والی نظر کہاں
اس شعر میں مستعار لہ آنسو اور مستعار منہ موتی ہیں۔ اور چمک وجہ جامع ہے۔
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں ایک چراغ تھا نہ رہا
اس شعر میں مستعار لہ قابل آدمی ہے اور مستعار منہ چراغ اور وجہ جامع روشنی ہے۔
طالع سے کسے تھی ایسی امید
نکلا ہے کدھر سے آج خورشید
اس شعر میں مستعار لہ محبوب، مستعار منہ خورشید اور وجہ جامع خوب صورتی ہے۔
فلک یہ تو ہی بتا دے کہ حسن و خوبی میں
زیادہ تر ہے تیرا چاند یا ہمارا چاند
اس شعر میں محبوب کو چاند کہا گیا ہے۔ محبوب مستعار لہ اور چاند مستعار ہے۔ وجہ جامع چاندنی یا خوب صورتی ہے جو دونوں میں قدر مشترک ہے۔
تشبیہ اور استعارہ میں فرق
۱۔ تشبیہ حقیقی ہوتی ہے اور استعارہ مجازی ہوتا ہے
۲۔ تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ کا ذکر ہوتا ہے اور استعارہ میں مشبہ بہ کو مشبہ بنا لیا جاتا ہے۔
۳۔ تشبیہ میں حروف تشبیہ کے ذریعے ایک چیز کو دوسری چیز کی مانند قرار دیا جاتا ہے، جبکہ استعارہ میں وہ ہی چیز بنا دیا جاتا ہے۔
۴۔ تشبیہ کے ارکان پانچ ہیں اور استعارہ کے ارکان تین ہیں۔
۵۔ تشبیہ علم بیان کی ابتدائی شکل ہے اور استعارہ اس علم کی یک بلیغ صورت ہے۔
۶۔ تشبیہ کی بنیاد حقیقت پر ہوتی ہے اور استعارہ کی بنیاد خیال پر ہوتی ہے
***
علم ِ ادب
ادب کا لُغوی معنی
’’ادب ‘‘ عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے ابواب سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ لفظ’’ ادب ‘‘ باب ’’کَرُمَ‘‘ سے بھی آتا ہے اور ’’ضَرَبَ‘‘ سے بھی، کَرُمَ سے اس ’’ادب ‘‘ عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے ابواب سے مصدر اور اردو میں بطور حاصل مصدر مستعمل ہے۔ لفظ’’ ادب ‘‘ باب ’’کَرُمَ‘‘ سے بھی آتا ہے اور ’’ضَرَبَ‘‘ سے بھی، کَرُمَ سے اس کا مصدر ا دَباً (دال پر زبر کے ساتھ) آتا ہے، ’’ادب والا ہونا‘‘ اور اسی سے’’ ادیب‘‘ ہے جس کی جمع ادباء ہے اور باب ’’ضَرَبَ‘‘ سے اس کا مصدر اَد’باً (دال پر جزم کے ساتھ) دعوت کا کھانا تیار کرنے اور دعوت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی سے اسم فاعل ’’آداب‘‘ ہے۔ ’’ادب ‘‘ باب ’’افعال‘‘ سے بھی اسی معنی میں بولا جاتا ہے، باب ’’تفعیل‘‘ سے علم سکھلانے کے معنی میں مستعمل ہے۔ باب ’’استفعال‘‘ اور باب ’’تفعل‘‘ دونوں سے ادب سیکھنے اور ادب والا ہونے کے معنی میں آتا ہے۔
اردو میں سب سے پہلے ۱۶۵۷ء کو”گلشنِ عشق ‘‘ میں مستعمل ملتا ہے۔ اردو لغات میں ادب کے معنی :کسی کی عظمت و بزرگی کا پاس و لحاظ، حفظ مراتب، احترام، تعظیم، پسندیدہ طریقہ، ضابطہ یا سلیقہ، قاعدہ، قرینہ، وغیرہ ہیں۔
ادب کا اصطلاحی مفہوم
ادب کی اصطلاحی تعریف میں علماء کی مختلف آرا ملتی ہیں۔ علامہ مرتضیٰ زبیدی کے بقول: الادب ملکۃ تعصم من قامت بہ عما یشینہ۔
’’ادب ایک ایسا ملکہ ہے کہ جس کے ساتھ قائم ہوتا ہے ہر ناشائستہ بات سے اس کو بچاتا ہے۔ ‘‘
ابو زید انصاری نے ادب کی تعریف کچھ یوں کی ہے:
الادب یقع علی کل ریاضہ محمودہ یتخرج بھا الاانسان فی فضیلہ من الفضائل۔
’’ادب ایک ایسی اچھی ریاضت ہے جس کی وجہ سے انسان بہتر اوصاف سے متصف ہوتا ہے۔ ‘‘
ابن الاکفانی کے نزدیک:
وھو علم یتعرف منہ التفاھم عما فی الضمائر بادلۃ الالفاظ والکتابۃ۔ وموضوعہ الفظ والخط ومنفعتہ اظھار مافی نفس انسان۔
’’(علم ادب )ایسا علم ہے جس کے ذریعےسے الفاظ اور کتابت کے ذریعے اپنا ما فی الضمیر دوسروں تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ اور اس کا موضوع لفظ اور خط ہے۔ اس کا فائدہ ما فی الضمیر کا اظہار ہے۔ ‘‘
معروف عربی لغت ’’المنجد‘‘ میں علم ادب کی تعریف یوں بیان کی گئی ہے:
ھو علم یحتر زبہ من الخلل فی کلام العرب لفظاً وکتابۃ۔
’’علم ادب وہ علم ہے جس کے ذریعہ انسان کلام عرب میں لفظی اور تحریری غلطی سے بچ سکے۔ ‘‘
یعنی اپنے ما فی الضمیر کو قرینے اور سلیقے سے بیان کرنا۔ کلام خواہ نثر ہو یا نظم، اس کے الفاظ جچے تلے ہوں، مفہوم واضح، اچھوتا اور دلنشین ہو، اسے ادب کہا جاتا ہے۔
علمِ ادب کی اہمیت
ادب خوب صورت پیرائے میں اظہار مدعا کا نام ہے۔ ادب، دراصل اخلاق کے چہرے کا حسن اور زبان کی زینت کا نام ہے۔ کسی زبان کا ادب اس کی ثقافت کا بہترین عکس ہوتا ہے۔ ادب ہی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں کسی قوم کی ثقافت تہذیب و تمدن، اس کے اخلاق، ماحول کا معیار اور اس معاشرے کی بلندی یا پستی دیکھی جا سکتی ہے۔ بقول صاحبزادہ خورشید گیلانی:
’’ادب معاشرے کی آنکھ، کان، زبان اور ذہن ہوتا ہے، انسانی زندگی میں پھیلے ہوے ہزاروں بے جوڑ و سنگین واقعات، طبقاتی امتیازات، روزمرہ کے معمولات، رموز و کنایات، سنگین حادثات، فطرت کی نوازشات، یہ سب کچھ ایک ادیب کو دکھائی اور سنائی دیتے ہیں، جس سے اس کا ذہن منفی یا مثبت طور پر متاثر ہوتا ہے، ان مناظر کو وہ زبان عطا کرتا ہے اور پھر سے وہ معاشرے کو لوٹا دیتا ہے۔ ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے شعر سنتے اور اچھے اشعار پر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرماتے۔ کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ کا قصہ مشہور ہے، یہ فتح مکہ سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف اشعار کہا کرتے تھے۔ جب مکہ فتح ہوا تو ان کے بھائی بحیر نے ان کو پیغام بھیجا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے ایسے شعراء کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے، سوائے اس کے کہ کوئی تائب ہو کر مسلمان ہونے کا اعلان کر دے۔ کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں اپنا لافانی قصیدہ ’’بانت سعاد ‘‘ کہا جو آج بھی عربی ادب کے ماتھے کا جھومر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی چادر انعام کے طور پر مرحمت فرمائی۔
***
علوم ِ ادب
علم ادب، دراصل مختلف علوم پر مشتمل ہے۔ ان سب علوم کا مقصد کلام میں حسن اور تاثیر پیدا کرنا ہوتا ہے۔ علامہ عبدالرحمٰن ابن خلدون نے چار علوم، لغت، نحو، بیان اور ادب کو عربی زبان کا رکن قرار دیا ہے۔
ابن الاکفانی (م۸۴۹ھ)نے علم الادب کو دس انواع میں تقسیم کیا ہے۔ اسی طرح صاحب منتہی الادب نے دو اور علوم کا اضافہ کر کے درج ذیل بارہ علوم علوم ادب میں شامل کیے ہیں۔
1:علمِ لغت
الفاظ کی حقیقت، مادے اور ہیئت سے متعلق جاننے کا علم ’’علم لغت‘‘ کہلاتا ہے۔ اس میں مفرد الفاظ پر بحث کی جاتی ہے اور اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کس لفظ کو کس معنی کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ کسی بھی ادیب، شاعر یا نثرنگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس زبان کے الفاظ، ان کے مادوں اور استعمالات سے پوری طرح آگاہ ہو۔
2:علمِ صرف
یہ علم کلمات اور صیغوں کے متعلق ہے۔ جب تک انسان کلمات، صیغوں اور تصریف و تعلیل سے واقف نہ ہو تو اس کے لیے کلام کی مراد کوسمجھنا مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہوتا ہے۔
3:علمِ اشتقاق
علم اشتقاق مادہ اصلی سے مشتق ہونے والے الفاظ سے بحث کرتا ہے۔ جب تک الفاظ کے اصلی مادوں اور ان کے استعمال سے واقفیت نہ ہو تب تک کلام کے معنی و مفہوم کوسمجھنا ممکن نہیں ہوتا۔
4:علمِ نحو
علم نحو کو علم الاعراب بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ عربی زبان کے الفاظ کا دارومدار اعراب پر ہوتا ہے۔ اعراب کی معمولی تبدیلی سے الفاظ کے معانی میں نہایت بنیادی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس علم کی مدد سے عربی زبان کے الفاظ کی حرکات، مرکب کلمات، ان کی ہیئت ترکیبی اور ان کے معانی پر بحث کی جاتی ہے۔
5:علمِ معانی
علم معانی علوم بلاغت کی اہم شاخ ہے اور اس کا تعلق الفاظ کے ان استعمالات سے ہے جن کے لیے وہ بنیادی طور پر تخلیق کیے گئے ہوں۔ اس علم کی مدد سے گویا الفاظ کو ان کے حقیقی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
6:علمِ بیان
یہ علم بھی بلاغت کی ایک شاخ ہے۔ کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور مجازی معنوں میں بھی۔ اس علم کے ذریعہ تشبیہ، استعارہ، کنایہ اور مجا زمرسل کی مدد سے ایک معنی کو کئی انداز سے بیان کیا جاتا ہے، جن کے لیے لغت سے استناد نہیں کیا جا سکتا۔
7:علمِ بدیع
فصیح و بلیغ کلا م کو مختلف لفظی یا معنوی خوبیوں سے آراستہ کرنے کو بدائع اور صنائع کہتے ہیں۔ اس علم سے کلام کو مزین کرنے اور خوش نما بنانے کا سلیقہ آتا ہے۔ یعنی اس علم کی بدولت ’سجع‘، ’تجنیس‘، ’ترصیع‘ اور ’توریہ‘ اور اسی قبیل کے دوسرے محاسن کلام کے ذریعے سے انسان اپنے کلام کو آراستہ کرتا ہے۔
8:علمِ عروض
علم عروض دراصل صنف نظم میں اس علم کو کہتے ہیں جس میں بحر یعنی شعر کے وزن اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا مکمل ذکر کیا جائے۔
9:علمِ قافیہ
قافیہ کے لغوی معنی ’’پیچھے آنے والے‘‘ کے ہیں۔ قافیہ شعر کے آخری کلمے کو کہتے ہیں۔ بعض کے نزدیک ساکن مقدم سے پہلا حرف مع حرکت قافیہ کہلاتا ہے۔ خلیل بن احمد کے نزدیک:
’’ شعر میں سب سے آخری ساکن سے پہلے جو ساکن آئے اس کے ماقبل متحرک سے آخر تک سب قافیہ ہے‘‘۔ جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے یہ تعریف صحیح ہے لیکن اردو زبان کے معاملے میں یہ درست نہیں ہے۔ اردو میں قافیہ ان حروف اور حرکات کا مجموعہ ہے۔ جو الفاظ کےساتھ غیرمستقل طور پر شعر یا مصرعے کے آخر میں بار بار آئے۔ یہ مجموعہ کبھی کبھی مہمل معلوم ہوتا ہے لیکن اس کا کچھ مضائقہ نہیں بالعموم اس پورے لفظ کوجس میں یہ مجموعہ آتا ہے قافیہ کہہ دیتے ہیں چونکہ قافیہ ابیات کے آخر میں واقع ہوتا ہے یا ایک قافیہ دوسرے قافیہ کے پیچھے آتا ہے لہذا اس نام سے موسوم ہوا۔ چنانچہ قافیہ وہ مجموعہ حروف و حرکات ہے جو اواخر ابیات میں دو یا زیادہ لفظوں کی صورت میں بطور وجوب یا استحسان مقرر لایا جاتا ہے۔
10:علمِ رسم الخط
اس علم میں وہ تمام تر علوم زیر بحث لائے جاتے ہیں جو رائج رسوم الخط پر مبنی ہوں۔ علاوہ ازیں ا س علم میں طرز تحریر کا مکمل تذکرہ کیا جاتا ہے۔
11:علمِ انشا
علم انشاء دراصل نثر میں اس بحث کو کہتے ہیں جس کا موضوع عبارت لکھنے یا مضمون نویسی پر مبنی ہو۔ مزید یہ کہ علم انشاء میں خط و کتابت کے تمام تر قواعد کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
12:علمِ محاضروات و تاریخ
محاضرات کہتے ہیں عربی زبان میں گزری ہوئی کہانیاں بیان کرنے کو، لہٰذا اس علم میں تاریخ سے متعلق مکمل بحث کی جاتی ہے اور عموماً ماضی سے مکمل آگاہی کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے۔
***
زبان
مدیر اعلیٰ
زبان بذات خود فارسی کا لفظ اور اسم مونث ہے زبان ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جس کے ذریعہ ہم کھاتے پیتے ہیں۔
زبان میں اللہ تعالی نے بولنے کی صلاحیت رکھی ہے۔
جس طرح انسان کا ہر عضو باکمال ہے جیسے آنکھوں دیکھنے کان کو سننے اسی طرح زبان کو بولنے کی صلاحیت بخشی ہے۔
قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتا ہے:
ترجمہ:” پس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے”
اللہ تعالی نے تمام جانداروں کو زبان جیسی نعمت سے نوازا ہے لیکن انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کی زبان کو بولنے کی صلاحیت بخشی ہے کسی اور جاندار کو نہیں۔
زبان کے ذریعے انسان اپنے خیالات جذبات اور احساسات کو ایک فرد سے دوسرے فرد تک منتقل کر سکتا ہے۔
زبان کی اقسام
مادری زبان
وہ زبان جو ماں باپ سے ورثے میں ملتی ہے جن سے بچہ بولنا سیکھتا ہے یا جس ماحول میں بچہ پرورش پاتا ہے اس کے اردگرد کے رہنے والے لوگوں کی زبان کو مادری زبان کہتے ہیں۔
قومی زبان
وہ زبان جو پورے ملک میں بولی اور سمجھی جا سکے جس کے ذریعے لوگ اپنے ملک میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جیسے اردو ہماری قومی زبان ہے۔
لہجہ
کسی زبان میں گفتگو کرتے وقت لہجہ بڑی اہمیت رکھتا ہے یہ لہجہ ہی ہے جو زبان میں جاذبیت دلکشی اور حلاوت پیدا کرتا ہے ہے لہجے ہیں سے اہل زبان ہونے اور غیر اہل زبان ہونے کا پتہ چلتا ہے کہ کوئی شخص زبان کا کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو اور زبان دانی کا کتنا ہی دعوی کیوں نہ کرے لیکن کسی غیر اہل زبان کے لہجے پر قادر ہونا ممکن نہیں ہوتا ان کی زبان دان ادائیگی الفاظ پر تو قادر ہو سکتا ہے لیکن لہجہ اس کے بس کی بات نہیں ہوتی۔اہل زبان جب آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو ان کے بولنے کی رفتار تیز ہوتی ہے ۔کیوں کہ کلمات و الفاظ جاز ان کی زبان سے بے ساختہ اور ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتیوں کی صورت میں نکلتے چلے جاتے ہیں۔انہیں کسی لفظ کے مترادف یا متضاد مذکر یا مونث کے لئے رکنا نہیں پڑتا بلکہ یہ سب ان کے لاشعور میں پہلے سے موجود ہوتا ہے ہے جو بلاکسی رکاوٹ کےادا ہوتا چلا جاتا ہے۔
***
لفظِ زبان کا تلفظ
مدیر اعلیٰ
زبان کا تلفظ زَبان ہے یا زُبان، یا دونوں طرح سے درست ہے؟ یہ مختلف فیہ مسئلہ بنا لیا گیا ہے۔
بعض لوگ تخصیص کرتے ہیں کہ زَبان (Zabaan) جِیبھ کے لیے ہے اور زُبان (Zubaan) بولی (Language) کے لیے۔ لُغَت کے کچھ اساتذہ اور طلبہ مُصر ہیں کہ زُبان جیبھ کے لیے ہے اور زَبان بولی کے لیے۔ اہلِ علم کی غالب اکثریت اس تخصیص کو نہیں مانتی۔ اس صورتِ حال میں تحقیق کے طالبِ علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ لغوی مصادر کی طرف رجوع کرے۔ اس بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ ’’زبان‘‘ پہلوی (فارسی) لفظ ہے اور ایران سے ہندوستان میں آیا ہے۔ فارسی اور اردو کی کچھ لغات (فرہنگیں) میں سے’’زبان‘‘ کے تلفظ، اَعراب اور معنی و مفہوم کے حوالے سے حاصل مطالعہ قارئین کی نذر ہے۔ چوں کہ ایک ہی لفظ ’’زبان‘‘ کا تلفظ، اعراب اور معنی زیرِ بحث ہیں، لہٰذا اس تحریر میں لفظی اور معنوی تکرار غیراختیاری امر ہے۔
1: ایران سے شائع ہونے والی سہ جلدی فرہنگِ عمیدکی جلد دوم میں زَبان (بفتحِ اوّل) اور زُبان (بضمِ اوّل) مندرج ہیں۔ یہ بھی وضاحت موجود ہے کہ پہلوی میں اس کی اصل زقان ہے۔ اس کے دو مفہوم رقم کیے گئے ہیں:
۱۔ عضوِ گوشت و متحرک کہ در دَہانِ انسان و حیوان قرار دارد۔ وآں مزۂ چیز ہا چشیدہ می شود و بہ جوع بدن غذا بلع آں کمک می کندو انسان بوسیلۂ آں حرف می زند۔
۲۔ بہ معنی لہجہ و طرزِ تکلّم و گفتار ہر قوم و ملت نیز می گویند۔
2: لغاتِ کِشَوَری (کِشْوری نہیں) برصغیر پاک و ہند میں فارسی کی مستند لغات مانی جاتی ہے۔ اس میں زَبان (بفتحِ اوّل) مندرج ہے جس کا اردو میں معنی لکھا گیا ہے: ’’بولی اور مُنْہ میں جو زبان (جیبھ) ہے‘‘۔
3: فیروزاللغات (فارسی) میں زَبان اور زُبان، ہر دو طرح سے درست مانا گیا ہے۔ جیبھ اور بولی دونوں معنی لکھے گئے ہیں لیکن زَبان (بفتحِ اوّل) کا ایک اور معنی بتایا گیا ہے جو کسی اور لغات میں مندرج نہیں:
’’دشمن کی فوج میں سے گرفتار کیا ہوا آدمی جس سے دشمن کی فوج کے حالات اور تعداد معلوم ہو سکے۔‘‘
4: جامع فارسی لغات میں ’’زبان‘‘ بغیر کسی اعراب کے مرقوم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زبر اور پیش دونوں کے ساتھ لکھا اور پڑھا جاسکتا ہے۔ یہاں تین معنی لکھے گئے ہیں۔ جیبھ، بول چال کا ذریعہ اور بول چال۔
اب اردو کی فرہنگوں میں موجود لفظ ’’زبان‘‘ کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ نوراللغات اردو کی جامع اور مستند فرہنگوں میں سے ایک ہے۔ اس لغات میں ’’زبان‘‘ کے اعراب کے بیان میں ایک سنگین سہو ہوا ہے۔ نوراللغات میں مرقوم ہے: زبان (بفتحِ اوّل و نیز بضمِ دوم)جس کا مطلب اور مفہوم صرف یہی نکلتا ہے کہ زاء پر زبر اور باء پر پیش، لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ’’زبان‘‘ کے باء کے آگے الف ہے جس کی وجہ سے باء پر پیش لکھی اور بولی نہیں جاسکتی۔ صاحبِ نور اللغات کے پیشِ نظر غالباً یہ عبارت ہو گی:
’’زبان (بفتحِ اوّل نیز بضمِ اوّل) یعنی زبان کے پہلے حرف زاء پر زبر اور پیش دونوں آسکتے ہیں۔‘‘
اس کے معانی کی فہرست کچھ اس طرح ہے: جیبھ، بول چال، روز مرہ بولی جس کے ذریعے سے انسان اپنے دل کی بات ظاہر کر سکے۔ اقرار اور وعدہ وغیرہ۔
5: فرہنگِ آصفیہ میں زَبان اور زُبان ہر دو طریقے سے مرقوم ہے۔ جیبھ، لسان، بول چال، گویائی، نطق، بولی، محاورہ، بات، قول و قرار، وعدہ اور بیان اس کے معانی بتائے گئے ہیں۔
6: اردو لغت بورڈ (ترقی اردو بورڈ) کراچی کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والی معروف فرہنگ اردو لُغَت میں زبان (بفتحِ اوّل و نیز بضمِ اوّل) یعنی زَبان اور زُبان دونوں طرح سے مُندرج ہے۔ اس کے معانی ہیں: مُنہ کے اندر کا وہ عضو جس میں قوتِ ذائقہ ہوتی ہی اور جو نطق کا آلہ ہے یعنی جیبھ۔ بولی، جس کے ذریعے انسان تکلم یا تحریر کی صورت میں اپنے خیالات اور جذبات کو ظاہر کرتا ہے۔ بول چال، روزمرہ بات، قول، اقرار، وعدہ، اندازِ بیان، قلم کی نوک، تیر و خنجر کی نوک وغیرہ۔
7: جامع اللغات میں زَبان اور زُبان، دونوں طرح سے لکھا ہوا ہے۔ معانی کی فہرست کچھ اس طرح ہے: گوشت کا سُرخ ٹکڑا جو منہ میں ہوتا ہے۔ اس میں قوتِ ذائقہ ہوتی ہے اور انسان اس کے ذریعے بولتا ہے یعنی جیبھ۔ بولی، جس سے انسان اپنے خیالات ظاہر کرتا ہے۔ بول چال، روز مرہ، بدزبانی، اقرار، وعدہ، بیان کرنے کا انداز، شعلہ، تیغ و خنجر سے استعارہ کرتے ہیں۔
شان الحق حقی نے فرہنگِ تلفظ میں زُبان (بضمِ اوّل) لکھنے کے بعد ’’زبان‘‘ سے تشکیل پانے والے محاوروں میں زَبان (بفتحِ اوّل) لکھا ہے۔ زباں (غُنّہ کے ساتھ) کو بھی زَباں (بفتحِ اوّل) اور زُباں (بضمِ اوّل) رقم کیا ہے۔
8: محمد عبداﷲ خان خویشگی کی فرہنگِ عامرہ میں بھی زَبان اور زُبان، دونوں مرقوم ہیں۔
آخر میں دو ایسی فرہنگوں کا ذکر بہت اہم ہے جن میں زبر کے بجائے پیش سے زُبان مرقوم ہے۔ ان میں پہلی وارث سرہندی کی علمی اردو لغت اور دوسری ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی رافع اللغات ہے۔ ان دونوں فرہنگوں میں زَبان کے بجائے زُبان ہے۔ علمی اردو لغت کا اختصاص یہ ہے کہ اس میں زبان کی ذیل میں اڑھائی سو کے لگ بھگ زبان سے تشکیل پانے والے محاوروں اور کہاوتوں میں زُبان کی زاء پر بڑی التزام کے ساتھ پیش لگایا گیا ہے۔
اس پورے جائزے سے درج ذیل نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں:
۱۔ اس تخصیص کا تاثر زائل ہو جاتا ہے کہ زَبان اور زُبان میں سے ایک جیبھ کے لیے ہے اور دوسرا بولی (Language) کے لیے۔
۲۔ زیر، زبر اور پیش کی ترتیب کے لحاظ سے فرہنگوں میں پہلے زبر کے ساتھ زَبان اور پھر پیش کے ساتھ زُبان مرقوم ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں کہ ’’زَبان‘‘ زبر کے ساتھ لکھنے اور بولنے کو ترجیح حاصل ہے۔
۳۔ فارسی اور اردو کے دستیاب مصادر میں سے دو کے علاوہ باقی میں زَبان اور زُبان دونوں درست ہیں۔ علمی اردو لغت اور رافع اللغات میں زبر کے بجائے پیش کے ساتھ زبان لکھا ہوا ملتا ہے لیکن ان دونوں میں یہ بھی نہیں لکھا ہوا ہے کہ زبر کے ساتھ زَبان غَلَط ہے۔
***
اُردو سے محبت
سابق صدرِ جمہوریہ ہند، گیانی ذیل سنگھ فرید کوٹ کے جیل میں تھے، اس کے متصل کمرے میں قاضی عبیداللہ صاحب بند تھے۔۔
گیانی ذیل سنگھ نے دیوار کی ایک اینٹ نکال کر سوراخ کے ذریعے قاضی عبیداللہ صاحب سے اردو سیکھی۔۔اور آج کے اردو نوجوان اردو کی دیوار میں سوراخیں کر رہے ہیں۔
(بحوالہ “سب کے لئے” از پروفیسر ابن غوری، انتخاب و تلخیص ڈاکٹر شبیر احمد پرے)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...