داستانوی ادب کا ابتدائی ڈھانچہ
اُردو میں داستان گوئی
ادب/فکشن کے تاریخی حوالہ جات دو ہزار قبل مسیح تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک واضح اور ہیئتی حوالے سے نسبتاً معیاری لکھت کے پیشِ نظر قدیم یونانی شاعر ہومر اورآگسٹن بادشاہوں کے دور میں رومی شاعر ورجل کی تخلیقات کو مانا جاتا ہے۔ ہومر کی”الیڈ اور اوڈیسی“ دو داستانوی منظومے ہیں اور دونوں بیانیاتی سطح پر باہم منسلک ہیں۔ورجل کی ”ایکلاگز اور اینی ایڈ “بھی دانستانوی منظومے یا ایپک پوئمز ہیں اور ان تمام کلاسک لکھتوں کا موضوع جنگ اور سفر رہا ہے۔ہندو مت میں وید اور پراکرت سب سے پرانا لٹریچر متصور ہوتا ہے اور مذہبی / قومی پس منظر میں قدیم یونانی اور مصری مخطوطے بھی ابتدائی فکشن کے نقوش وضع کرنے میں معاون ثابت ہوئے۔ہومر کی ایپک اوڈیسی اور ایلیڈ کلاسک شاہکار کا درجہ اختیار کر گئی اور اس کا سب سے بڑا سبب یہ رہا کہ اس سے قبل اسطور کا اتنی بہتر تکنیک / ہئیت میں اظہارنہیں ہوا تھا۔ اوڈیسیس ایک طویل ترین سفرجس میں” ٹرائے” کا سفر بھی شامل ہے پر روانہ ہوا اور سفر کے دوران ان تمام اساطیری علائم اور سمبلز کے توسط سے کائنات کے گورکھ دھندے کو سمجھنے کی تگ و دو بھی کرتا رہا اور واپسی کے جتن بھی۔
بہرحال سفر کے دوران جوانی کا بڑھاپے میں ڈھلنا اوردس برس بعد واپس اپنے محل پہنچنے پر جوان ہوجانا سب سمبالک پیٹرن پر اسطور کو ایک بہترین نہج پر پیش کیا گیا ہے۔ ہومر کے پیٹرن نے ہی اس ایپک کو ایک معتبر ابتدائی ادبی لکھت کی ذیل میں لاکھڑا کیا۔میرے خیال سے آج ادب کے ضمن میں جو کچھ بھی لکھا جارہا ہے اس کا جوہر ہومر اور ورجل کے عظیم الشان تخلیقی فن پاروں سے کشید ہوا ہے پھر بھلے وہ نثر ہو یا نظم ۔۔۔۔۔ آپ اگر داستانوی / فکشنل نیریشن دیکھنا چاہتے ہیں تو ہومر سے بہترین مثال نہیں ملتی اور اگر رجزیہ / نظمیہ طمطراق اور شکوہ دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بھی موصوف کی لکھتوں کی طرف نظر جاتی ہے۔
آج 2018 ء میں کیا داستان گوئی دوبارہ رواج پا سکے گی؟
انگریزی میں ہیری پوٹر ( سات ناول) جیسے ناول نہ صرف لکھے گئے بلکہ انتہائی مقبول بھی ہوئے ۔ وہاں ہم سے کہیں زیادہ میکانکی سماج ہے ۔ اختصار بھی مغرب کی دین ہے ۔
افسانہ ، ناول ، فلیش فکشن سب ادھر سے تو آیا ۔
شارٹ کٹ کیا ہمارے ہی مزاج میں ہے ؟
کیا یہ پرانے پیرا میٹرز نئے بیانیہ میں نہیں برتے جا سکتے؟
اصل مدعا یہ ہے کہ داستان کے بنیادی خدوخال کیا ہیں اور انہیں عصری نثری / افسانوی ہئیتوں میں کیوں کر پیوند کیا جاسکتا ہے؟
داستان کیا ہے؟
داستان ایسے طویل نثری قصے کو کہتے ہیں، جس کی بنیاد تخیل، رومان، جذبات اور مافوق الفطرت عناصر پر ہو۔ اور اس میں قصہ در قصہ (کئی قصے) بیاں ہوں۔
داستان کسی خیالی اور مثالی دنیا کی کہانی ہے جو محبت، مہم جوئی، سحرو طلسم، جیسے غیر معمولی عناصر پر مشتمل ہوں اور مصنف کے آزاد و زرخیز ذہن کی پیداوار ہو۔
داستان کی خصوصیات
داستان میں مافوق الفطرت عناصر، واقعات، مقامات اور کرداروں کی کثرت ہوتی ہے۔ جادوں کی چیزیں، جادوں کے واقعات، خزانوں، جن ،پریوں، بھوت پریت، شہزادے، شہزادیوں کا ذکر قدم قدم پر نظر آتا ہے۔
داستان میں مافوق الفطرت عناصر، واقعات، مقامات اور کرداروں کی کثرت ہوتی ہے۔ جادوں کی چیزیں، جادوں کے واقعات، خزانوں، جن ،پریوں، بھوت پریت، شہزادے، شہزادیوں کا ذکر قدم قدم پر نظر آتا ہے۔
داستان ناول یا افسانے کے برعکس ہماری خارجی دنیا سے بلند و برتر ایک مثالی اور خیالی دنیا کی کہانی ہوتی ہے، جس میں مثالی کردار بستے ہیں اور مثالی واقعات آتے ہیں جو آخر کار مثالی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔داستان کے سمجھنے کے لیے ہم قریب ترین مثال مغرب سے دے سکتے ہیں جس کا ذکر اوپر ایک سوال کے تناظر میں بھی کیا گیا ہے یعنی ” ہیری پوٹر”گو اسے وہاں ناول کے طور پر پیش کیا گیا لیکن اس کی تمام خصوصیات ہماری داستان سے ملتی جلتی ہیں۔مثلاً:۔
٭ اس میں مافوق الفطرت عناصر، واقعات، مقامات اور کرداروں کی کثرت ہے۔
٭ اس میں قصہ در قصہ (کئی قصے) بیان ہوئے ہیں۔
٭ اس کی کہانی کسی خیالی اور مثالی دنیا کی کہانی ہے جو محبت، مہم جوئی، سحرو طلسم، جیسے غیر معمولی عناصر پر مشتمل ہے۔
٭ اس میں مثالی کردار بستے ہیں اور مثالی واقعات آتے ہیں جو آخر کار مثالی نتیجے پر پہنچتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس ضمن میں ہیری پوٹر کو مثال کے طور پر پیش کرنے کا مقصد اردو داستان کو جدید منظر نامے میں دیکھنے پرکھنے کی ایک کوشش ہے۔یہاں اکثریت نے اردو داستانیں نہیں پڑھ رکھی ہوں گی لیکن “ہیری پوٹر” کو ناول کی صورت پڑھ یا فلم کی صورت ضرور دیکھ رکھا ہو گا۔داستان کے اجزاءِ ترکیبی سے پہلے صنفی بحث سمیٹتا چلوں ادب کی اصناف اپنی مخصوص تکنیکس اور خصوصیات کی بنا پراپنا جدا مقام رکھتی ہیں اور ایک دوسرے سے علیحدہ پہچانی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم صرف اقتباس دیکھ کر ہی پہچان جاتے ہیں کہ یہ کسی ناول کا اقتباس ہے یا کسی کہانی کا یا کسی افسانے کا یا کسی داستان کا ۔میں ادب میں زیادہ سے زیادہ اور جدید سے جدید تر اصناف کے اپنانے اور برتنے کا قائل ہوں۔ تخلیق کار کے پاس تخلیق کرنے کا جتنا وسیع میدان ہوتا ہے اتنے ہی زیادہ تخلیقات کے منظر عام پر آنے اور قاری تک پہنچنے کے امکانات ہوتے ہیں۔مغرب میں بس ادب تخلیق ہوتا ہے وہاں پاپولر ادب اور ادب ِ عالیہ یا سنجیدہ ادب کی کوئی تفریق نہیں ہوتی وہاں زیادہ پڑھا جانے والا ادب پاپولر ادب بھی ہے ،سنجیدہ ادب بھی اور ادب ِ عالیہ بھی وہی ہے جیسے ہیری پوٹر اور اس ہی پر تنقید بھی لکھی جاتی ہے۔اردو میں ایک خاص قسم کی تفریق پائی جاتی ہے۔سنجیدہ اور پاپولر ادب میں یہاں ڈائجسٹ کی سطح کا لکھا جانے والا تمام ادب پاپولر ادب کے کھاتے میں ڈال کر رد کر دیا جاتا ہے نہ تو انہیں سنجیدہ ادبی دوڑ میں شامل کیا جاتا ہے نہ ان پر تنقید لکھی جاتی ہے نہ حوالے کے لیے ہی تذکرہ کیا جاتا ہے ۔پھر چاہے وہ فرحت عباس شاہ یا وصی کی شاعری ہو یا عمیرہ احمد اور نمرہ احمد یا رضیہ بٹ کے ناول کہانیاں ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ان متروک اصناف کو پھر سے برتتا ہے اور ان میں نئی چمک پیدا کر دیتا ہے تو اسے خوش آمدید کہنا چاہیے ناکہ اس کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑ پڑنا چاہیے۔
داستان کے اجزائے ترکیبی
1: طوالت
داستان میں طوالت کی کوئی قید نہیں یہ ایک گھنٹے سے لے کر ایک سال یا ایک عمر تک بھی طویل ہو سکتی ہیں مثلاً مرزا رجب علی بیگ کی داستان فسانۂ عجائب کا شمار مختصر ترین داستانوں میں ہوتا ہے جب کہ نواب امان اللہ خاں غالب کی داستان امیر حمزہ کا شمار طویل ترین داستانوں میں ہوتا ہے۔داستان کو طوالت کے لیے قصہ در قصہ آگے بڑھایا جاتا ہے جن کا مرکزی قصے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
2: پلاٹ
در اصل داستان کا کوئی پلاٹ ہی نہیں ہوتا پلاٹ تو ناول کے ساتھ آیا ہے۔داستانوں میں نہ تو مربوط پلاٹ کا کوئی تصور ہے نہ واقعات میں کوئی ترتیب ۔لکھاری آزاد ہے جب چاہےمرکزی قصہ کو چھوڑ ایک نیا قصہ شروع کر دے لیکن یہ ثانوی قصے جو مختلف وجوہاتے کی بنا پر شروع کیے جاتے ہیں شروع کرنے کے بعد مکمل کرنے لازمی ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ مصنف یا داستان گو گاہے ماہے اپنے مرکزی قصے سے رجوع کرتا رہتا ہے ۔ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ ایک داستان شروع کی جائے اس کے بعد مرکزی قصہ چھوڑ کر قصہ در قصہ داستان آگے بڑھائی جائے اور درمیان میں مرکزی قصے کو نہ شامل کیا جائے اور آخر میں مرکزی قصے پر لوٹ کر داستان ختم کر دی جائے۔
3: کردار نگاری
کہاوت ایک مکمل جملہ ہوتا ہے، جسے تبدیل کیے بغیر لکھا اور کہا جاتا ہے، جبکہ محاورہ مصدر کی شکل میں ہوتا ہے جسے مختلف افعال میں تبدیل کرسکتے ہیں۔مثلا اندھوں میں کانا راجہ ایک کہاوت ہے، اس میں اندھوں کو بہروں سے یا کانا کو سیانا سے تبدیل نہیں کرسکتے جبکہ ڈینگیں مارنا جو کہ محاورہ ہے اسے فاعل یا فعل کے لحاظ سے تبدیل کرسکتے ہیں، جیسے: وہ ڈینگیں مارتا ہے، تم ڈینگیں مارتے ہو، ڈینگیں مت مارو، ہم سب نے ڈینگیں ماری۔
4: مافوق الفطرت عناصر
داستان میں مرکزی کرداروں کے علاوہ فوق الفطری کردار و عناصر بھی ہوتے ہیں جیسے جن۔پری۔دیو۔جل پری۔اڑنے والے گھوڑے۔جادوئی ٹوپی۔نقش تعویز ۔اڑنے والے قالین۔ جادوئی تلوار ،تیر وغیرہ جن کا ہماری عام فطری زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔یہ غیر فطری عناصر ہی داستانوں کا اہم سرمایا ہیں اور ان ہی سے ہماری داستانیں پہچانی جاتی ہیں۔اسی سے داستان کی حیرت انگیز دنیا آباد ہوتی ہے اور داستان کو دوسری اصناف سے ممیز کرتی ہے۔
5: منظر نگاری
منظر نگاری کے حوالے سے بھی داستان بہت زرخیز ہوتی ہے۔ہماری داستانیں اردو ادب کا بیش بہا اثاثہ ہیں منظر نگاری کے نقطۂ نگاہ سے۔داستان نگاروں نے مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات۔ پہاڑ ریگزار۔بندرگاہیں۔شادی بیاہ۔عرس۔موسم۔میلے ۔ دریا۔ ایسے مناظر کا بڑی تفصیل اور سلیقے سے ذکر کیا ہے اپنی داستانوں میں کہ سارے مناظر آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
6: تہذیب و معاشرے کی عکاسی
داستان تہذیب و معاشرے کی عکاس ہوتی ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ ہماری داستانوں سے دکن و شمال ،لکھنو و دہلی کی پوری تہذیبی اور معاشرتی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔داستان نگار اپنی تہذیب اور معاشرت کی مکمل تصویر اپنی داستان میں پیش کرتا ہے۔داستان میں رہن سہن کے آداب۔کھانے پینے کی اقسام۔ملبوسات۔سواریاں۔ ملازم۔چور اچکوے۔زیورات ۔جانور۔غرض ہر چیز کا ذکر تفصیل سے کیا جاتا ہے اپنے ثقافتی رنگ کے ساتھ۔
7: اخلاق کا درس
داستان میں اخلاق کا درس لازمی ہونا چاہیے۔داستان کا انجام طربیہ اور نصیحت وسبق آموز ہوتا ہے۔داستان میں حق کی فتح اور باطل کی شکست ہر جگہ بار بار دکھائی جاتی ہے اور داستان میں ہمدردی۔نیکی۔وفاداری۔شجاعت کا درس بھی لازمی شامل کیا جاتا ہے۔اچھے اخلاق کی تبلیغ۔اور جرأت اور محبت و بھائی چارے کی تلقین کی جاتی ہے۔
8: انجام
داستان کا انجام طربیہ ہوتا ہے ہمیشہ نیکی کی فتح ہوتی ہے اور بدی کو مات ہوتی ہے داستان کا ہیرو ہر مشکل سے گزر کر آخر فتح مند ہوتا ہے ۔داستان میں ہمیں زندگی کی اُمیدیں اُمنگیں حسرتیں آرزوئیں پوری ہوتی نظر آتی ہیں۔
9:زبان و بیان
داستانوں میں دو طرح کے اسالیب کو برتا گیا ہے ایک رنگین مسجع فارسی آمیز اور دوسرا سادہ سلیس اور با محاورہ دونوں اسالیب میں داستان نگاروں نے اپنے اپنے فن کے کمال کا مظاہرہ کیا ہے۔(اس معاملے میں ،میں اسلوب کو تخلیق کار کی صوابدید پر چھوڑنے کے حق میں ہوں کوئی آج کے دور میں داستان لکھے تو کسی نئے جدید اسلوب کو بھی اپنا سکتا ہے)
ان اجزائے ترکیبی کو سمجھ کر ہم اردو داستان کی صنفی حیثیت کو بھی سمجھ سکتے ہیں اور ان کے برتاؤ سے بیانیہ کی جدید صورت گری بھی کر سکتے ہیں ہماری داستانوں نے ہی آنے والے زمانے کے فکشن کی بنیاد فراہم کی ہے جسے کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔۔
اُردو ٹائپنگ
آج سے کوئی تین چار دہائی قبل جب ٹائپ رائٹر کا زمانہ تھا اس وقت امتحانات سے فارغ ہونے والے ہر بچے کو بزرگ یہی مشورہ دیا کرتے تھے کہ بیٹا وقت ضائع نہ کرنا، اسے غنیمت جانو ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ کا کورس ضرور کر لینا مستقبل میں بہت کام آئے گا۔
اور ٹائپنگ سیکھنے والے ہر بچے کو یہ مخصوص جملہ ازبر ہوتا تھا
The quick brown fox jumps over the lazy dog
کیونکہ اس ایک جملے میں حیرت انگیز طور پر انگریزی زبان کے تمام حروفِ تہجی آجاتے ہیں، اسی لئے یہ جملہ ٹائپنگ سیکھنے میں بہت مددگار ثابت ہو تا تھا. اس وقت اردو زبان میں ایسا مختصر اور جامع کوئی جملہ موجود نہ تھا۔
اُس وقت آج کی طرح ایک یا دو انگلیوں سے ٹائپنگ کام نہیں کیا جاتا تھا بلکہ کی بورڈ کو دیکھے بغیر تمام پانچ انگلیوں کی مدد سے حروف لکھے جاتے تھے ہر انگلی کے حروف مخصوص ہوا کرتے تھے اور ٹائپنگ کے ماہرین بنا کسی غلطی کے انتہائی برق رفتاری سے کی بورڈ دیکھے بنا ہی صفحات کے صفحات منٹوں میں ٹائپ کر لیا کرتے تھے۔
اس جملے کی جامعیت کے مدّنظر اردودانوں کو بھی اسی قسم کے کسی اردو جملے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
ہمارے دوستوں کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ہماری زبان میں بھی مکمل حروفِ تہجی رکھنے والے کئی جملے ترتیب دیے جاچکے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:
ممتاز مزاح نگار علی رضا احمد کا کہنا ہے کہ جب انگریزی زبان کا کوئیک براؤن فوکس والا جملہ میری نظر سے گزرا تو میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ایک ایسا جملہ اُردو حروفِ تہجی کا بھی ہونا چاہیے جس میں تمام حروفِ تہجی سما جائیں، چنانچہ تھوڑی تگ ودو کے بعد انھوں نے یہ جملہ ترتیب دیا:
”ایک ٹیلے پر واقع، مزار خواجہ فریدالدین گنج شکرؒ کے احاطۂ صحن میں ذرا سی ژالہ باری، چاندی کے ڈھیروں کی مثل بڑے غضب کا نظارہ دیتی ہے۔‘‘
تمام حروفِ تہجی پر مشتمل اردو کی معروف شاعرہ اور ادیبہ آمنہ عالم کا ترتیب دیا گیا جملہ دیکھیے:
”صاحب! ذرا ژولیدہ سر سفید ڈاڑھی والے ضعیف شخص کا ظرف دیکھیے۔ جج کے غلط فیصلے کے باعث قید کاٹ کر نکلا تو بگڑنے کے بجائے زمین چوم کر بولا، پاکستان زندہ باد”
ان عبارات کے علاوہ تمام حروفِ تہجی پر مشتمل سید عرفان عرفی نے ایک قطعہ بھی تحریر کیا ہے:
نہ ژالہ باری، نہ دھوپ پڑتی، نہ ٹمٹماتی ہے چاندنی اب
نہ کوئی ساغر، نہ آگ برکھا، عجیب طرزِ فنا چلی اب
جدا حلاوت، خفا ظرافت، ضعیف ہر شوق، ڈر نہ صدمہ
ثمر جو ذکرِ حبیب کا ہے، یہ تجھ کو عرفی ملا سبھی اب
اہم قواعد و تعریفات
حمد : نظم جس میں اللہ کی تعریف ہو
نعت : رسول اکرم ص کی تعریفی نظم
قصیدہ/منقبت : کسی بھی شخصیت کی توصیفی نظم
مثنوی :چھوٹی بحر کی نظم جسکے ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر شعر کا قافیہ الگ ہو۔
مرثیہ : موت پہ اظہارِ رنج کی شاعری کی نظم
غزل : عورتوں کی شاعری عشق، حسن و جمال و ہجر و فراق پہ شاعری
نظم: ایک ہی مضمون والی مربوط شاعری
قطعہ: بغیر مطلع کے دو یا دو سے ذیادہ اشعار جس میں ایک ہی مضمون کا تسلسل ہو
رباعی: چار مصرعوں کی نظم جسکا پہلا دوسرا اور چوتھا مصرعہ ہم قافیہ ہوں۔
مخمس: وہ نظم جس کے بند پانچ پانچ مصرعوں کے ہوں
مسدس: وہ نظم جسکے ہر بند کے چھے مصرعے ہوں
داستان: کہانی کی قدیم قسم
ناول: مسلسل طویل قصہ جس کاموضوع انسانی زندگی ہو اور کردار متنوع ہوں
افسانہ: مختصر کہانی
ڈرامہ : کہانی جسکو اسٹیج پہ کرداروں کی مدد سے پیش کیا جائے
انشائیہ: ہلکا پھلکا مضمون جس میں زندگی کے کسی موضوع کو لکھا جائے۔
خاکہ: کسی شخصیت کی مختصر مگر جامع تصویر کشی
مضمون: کسی معین موضوع پہ خیالات و محسوسات
آپ بیتی: خود نوشت و سوانح عمری
سفر نامہ: سفری واقعات و مشاہدات
مکتوب نگاری: خط لکھنا
سوانح عمری: کسی عام یا خاص شخص کی حیات کا بیانیہ بتفصیل…….
اسم نکرہ کا مفہوم:
وہ اسم جو غیر معین شخص یا شے (اشخاص یا اشیا) کے معانی دے اسم نکرہ کہلاتا ہے ــیا
وہ اسم جو کسی عام جگہ، شخص یا کسی چیز کے لئے بولا جائے اسم نکرہ کہلاتا ہے اس اسم کو اسم عام بھی کہتے ہیں۔
اسم نکرہ کی اقسام
اسم ذات
اسم حاصل مصدر
اسم حالیہ
اسم فاعل
اسم مفعول
اسم استفہام
اسم ذات اُس اسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی چیز کی تمیزدوسری چیزوں سے کی جائے۔یا
وہ اسم جس میں ایک چیز کی حقیقت یا اصلیت کو دوسری چیز سے الگ سمجھا جائے اسم ذات کہلاتا ہے۔
اسم ذات کی مثالیں
1۔ قلم، دوات 2۔ صبح، شام 3۔ ٹیلی فون، میز 4۔ پروانہ، شمع 5۔ بکری، گائے 6۔ پنسل، ربڑ 7۔ مسجد، کرسی 8۔ کتاب، کاغذ 9۔ گھڑی،دیوار 10۔ کمپیوٹر، ٹیلی ویژن وغیرہ
اشعارکی مثالیں
زندگی ہو میری پروانہ کی صورت یارب
علم کی شمع سے ہومجھ کو محبت یارب
۔۔۔۔۔۔۔
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمریوں ہی تمام ہوتی ہے
***
اسمِ ذات کی اقسام
1۔اسم تصغیر ( اسم مصغرکا مفہوم)
وہ اسم جس میں کسی نام کی نسبت چھوٹائی کے معنی پائے جائیں اسم تصغیر یا اسم مصغر کہلاتا ہے۔یا
اسم تصغیر وہ اسم ہے جس میں چھوٹا ہونے کے معنی پائے جائیں تصغیر کے معنی چھوٹا کے ہیں۔یا
اسم تصغیر وہ اسم ہے جس میں کسی چیز کا چھوٹا ہونا ظاہرہو۔
اسم تصغیریا اسم مصغرکی مثالیں
گھر سے گھروندا، بھائی سے بھیا، دُکھ سے دُکھڑا، صندوق سے صندوقچہ، پنکھ سے پنکھڑی، دَر سے دَریچہ وغیرہ
2۔اسم مکبر
وہ اسم ہے جس میں کسی چیز نسبت بڑائی کے معنی پائے جائیں اسم مکبر کہلاتا ہے۔یا
اسم مکبر وہ اسم ہے جس میں بڑائی کے معنی پائے جائیں، کبیر کے معنی بڑا کے ہوتے ہیں۔یا
اسم مکبر اس اسم کو کہتے ہیں جس میں بڑائی کے معنی ظاہر ہوں۔
اسم مکبر کی مثالیں
لاٹھی سے لٹھ، گھڑی سے گھڑیال، چھتری سے چھتر، راہ سے شاہراہ، بات سے بتنگڑ، زور سے شہ زور وغیرہ
3۔اسم ظرف
اسم ظرف اُس اسم کو کہتے ہیں جو جگہ یا وقت کے معنی دے۔یا
ظرف کے معنی برتن یا سمائی کے ہوتے ہیں، اسم ظرف وہ اسم ہوتا ہے جو جگہ یا وقت کے معنی دیتا ہے۔
اسم ظرف کی مثالیں
باغ، مسجد، اسکول۔ صبح، شام، آج، کل وغیرہ
اسم ظرف کی اقسام
اسم ظرف کی دو اقسام ہیں
اسم ظرف زماں
اسم ظرف مکاں
1۔اسم ظرف زماں
اسم ظرف زماں وہ اسم ہوتا ہے جو کسی وقت (زمانے) کو ظاہر کرےیا
ایسا اسم جو وقت یا زمانے کے معنی دے اسم ظرف زماں کہلاتا ہے۔
اسم ظرف زماں مثالیں
سیکنڈ، منٹ، گھنٹہ، دن، رات، صبح، شام، دوپہر، سہ پہر، ہفتہ، مہینہ، سال، صدی، آج، کل، پرسوں، ترسوں وغیرہ
2-اسم ظرف مکاں
اسم ظرف مکاں وہ اسم ہے جو جگہ یا مقام کے معنی دے۔یا
وہ اسم جو کسی جگہ یا مقام کے لئے بولا جائے اُسے اسم ظرف مکاں کہتے ہیں۔
اسم ظرف مکان کی مثالیں
مسجد، مشرق، میدان، منڈی، سکول، زمین، آسمان، مدرسہ، وغیرہ
4۔اسم آلہ
اُس اسم کو کہتے ہیں جو کسی آلہ یا ہتھیار کا نام ہو۔یا
اسم آلہ وہ اسم ہے جو کسی آلہ یا ہتھیار کے لئے بولا جائے۔یا
اسم آلہ اُس اسم کو کہتے ہیں جو کسی آلہ یا ہتھیار کا نام ہو، آلہ کے معنی اوزار یا ہتھیار کے ہوتے ہیں۔
اسم آلہ کی مثالیں
گھڑی، تلوار، چُھری، خنجر، قلم، توپ، چھلنی وغیرہ
5۔اسم صوت
وہ اسم جو کسی انسان، حیوان یا بے جان کی آواز دے اسم صوت کہلاتا ہے۔یا
اسم صوت وہ اسم ہے جو کسی جاندار یا بے جان کی آواز کو ظاہر کرے۔یا
ایسا اسم جو کسی جاندار یا بے جان کی آواز کو ظاہر کرے اسم صوت کہلاتا ہے، صوت کے معنی آواز کے ہوتے ہیں۔ اسم صوت کی مثالیں
کُٹ کُٹ مرغی کی آواز، چوں چوں چڑیا کی آواز، غٹرغوں کبوتر کی آواز، ککڑوں کوں مرغے کی آواز، کائیں کائیں کوے کی آواز وغیرہ
***
2: اسم حاصل مصدر
ایسا اسم جو مصدر سے بنا ہو اور جس میں مصدر کے معانی پائے جائیں اسم حاصل مصدر کہلاتا ہے۔یا
وہ اسم جو مصدرنہ ہو لیکن مصدر کے معنی دے حاصل مصدر کہلاتا ہے۔ یا
وہ اسم جس میں مصدر کے معانی پائے جائیں یعنی جو مصدر کی کیفیت کو ظاہر کرے اسم حاصل مصدر کہلاتا ہے۔
اسم حاصل مصدر کی مثالیں
مثلاً: چہکنا سے چہک، ملنا سے ملاب، پڑھنا سے پڑھائی، چمکنا سے چمک، گبھرانا سے گبھراہٹ، پکڑنا سے پکڑ، چمکنا سے چمک، سجانا سے سجاوٹ وغیرہ۔
3۔اسم حالیہ
اسم حالیہ اُس اسم کو کہتے ہیں جو کسی فائل یا مفعول کی حالت کو ظاہر کرے۔
اسم حالیہ کی مثالیں
ہنستا ہوا، ہنستے ہنستے، روتا ہوا روتے روتے، گاتا ہوا، ٹہلتا ہوا، مچلتا ہوا، دوڑتا ہوا،
4۔اسم فائل
ایسا اسم جو کسی کام کرنے والے کو ظاہر کرے اسم فائل کہلاتا ہے۔یا
وہ اسم جو کسی کام کرنے والے کی جگہ استعمال ہو اسم فائل کہلاتا ہے۔یا
وہ اسم جو کسی کام کرنے والے کو ظاہر کرے اور مصدر سے بنے اسم فائل کہلاتا ہے۔
اسم فاعل کی مثالیں
لکھنا سے لکھنے والا، دیکھنا سے دیکھنے والا، سننا سے سننے والا، پڑھنا سے پڑھنے والا، رونا سے رونے والا وغیرہ۔
عربی کے اسم فاعل
اُردو میں عربی کے اسم فاعل استعمال ہوتے ہیں، جو عربی کے وزن پر اتے ہیں۔مثالیں
عالم (علم والا)، قاتل (قتل کرنے والا)، حاکم (حکم دینے والا) وغیرہ۔
فارسی کے اسم فاعل کی مثالیں
باغبان، ہوا باز، کاریگر، کارساز، پرہیز گار وغیرہ
اسم فائل کی اقسام
اسم فائل کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں:
اسم فاعل مفرد
اسم فائل مرکب
اسم فائل قیاسی
اسم فائل سماعی
1۔ اسم فائل مفرد
اسم فائل مفرد وہ اسم ہوتا ہے جو لفظِ واحد کی صورت میں ہو لیکن اُس کے معنی ایک سے زیادہ الفاظ پر مشتمل ہوں۔ مثالیں
ڈاکو( ڈاکا ڈالنے والا)، ظالم (ظلم کرنے والا)، چور (چوری کرنے والا)، صابر (صبر کرنے والا)۔ رازق (رزق دینے والا) وغیرہ
2۔ اسم فائل مرکب
ایسا اسم جو ایک سے زیادہ الفاظ کے مجموعے پر مشتمل ہو اسے اسم فائل مرکب کہتے ہیں۔مثالیں
جیب کترا، بازی گر، کاریگر، وغیرہ
3۔ اسم فائل قیاسی
ایسا اسم جو مصدر سے بنے اُسے اسم فائل قیاسی کہتے ہیں۔مثالیں
کھانا سے کھانے والا، سونا سے سونے والا، آنا سے آنے والا، دوڑنا سے دوڑنے والا وغیرہ
4۔ اسم فائل سماعی
ایسا اسم فائل جو مصدر سے کسی قاعدے کے مطابق نہ بنا ہو، بلکہ اہلِ زبان سے سننے میں آیا ہو، اُسے اسم فائل سماعی کہتے ہیں۔ مثالیں
شتربان، فیل بان، گویا، بھکاری، جادو گر، گھسیارا، پیغامبر، وغیرہ
***
فاعل اور اسم فاعل میں فرق
1۔فاعل
فاعل ہمیشہ جامد اور کسی کام کرنے والے کا نام ہوتا ہےمثالیں
حامد نے اخبار پڑھا، عرفان نے خط لکھا امجد نے کھانا کھایا، اِن جملوں میں حامد، عرفان اورامجد فاعل ہیں۔
2-اسم فاعل
اسم فاعل ہمیشہ یا تو مصدر سے بنا ہوتا ہے۔مثالیں
لکھنا سے لکھنے والا، پڑھنا سے پڑھنے والا، کھانا سے کھانے والا، سونا سے سونے والا یا پھر اس کے ساتھ کوئی فاعلی علامت پائی جاتی ہے۔ مثلا پہرا دار،باغبان، کارساز، وغیرہ
3۔ اسم مفعول
ایسا اسم جو اُس شخص یا چیز کو ظاہر کرے جس پر کوئی فعل (کام) واقع ہوا ہو اسم مفعول کہلاتا ہے۔یا
جو اسم کسی شخص، چیز یا جگہ کی طرف اشارہ کرے جس پر کوئی فعل یعنی کام واقع ہوا ہو اُسے اسم مفعول کہا جاتا ہے۔
اسم مفعول کی مثالیں
دیکھنا سے دیکھا ہوا، سونا سے سویا ہوا، رونا سے رویا ہوا، جاگنا سے جاگا ہوا، پڑھنا سے پڑھا ہوا، سُننا سے سُنا ہوا، وغیرہ۔
اللہ مظلوم کی مدد کرتا ہے، وقت پر بویا گیا بیج آخر پھل دیتا ہے، رکھی ہوئی چیز کام آجاتی ہے، اِن جملوں میں مظلوم، بویا ہوا، رکھی ہوئی اسم مفعول ہیں۔
عربی کے اسم مفعول
عربی میں جو الفاظ مفعول کے وزن پر آتے ہیں، اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ مثالیں
مظلوم، مقتول، مخلوق، مقروض، مدفون وغیرہ
اسم مفعول کی اقسام
اسم مفعول کی دو اقسام ہیں
اسم مفعول قیاسی
اسم مفعول سماعی
1۔ اسم مفعول قیاسی
ایسا اسم جو قاعدے کے مطابق مصدر سے بنا ہو اسم مفعول قیاسی کہلاتا ہے۔یا ایسا اسم جو مقررہ قاعدے کے مطابق بنایا جائے اُسے اسم مفعول قیاسی کہتے ہیں اور اس اسم کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ ماضی مطلق کے بعد لفظ ”ہوا“ بڑھا لیتے ہیں۔مثالیں
کھانا سے کھایا ہوا، سونا سے سویا ہوا، جاگنا سے جاگا ہوا، رکھنا سے رکھا ہوا، پڑھنا سے پڑھا ہوا، وغیرہ
2۔ اسم مفعول سماعی
ایسا اسم جو مصدر سے کسی قاعدے کے مطابق نہ بنے بلکہ اہلِ زبان سے سننے میں آیا ہو اُسے اسم مفعول سماعی کہتے ہیں۔ سماعی کے معنی سنا ہوا کے ہوتے ہیں۔یا
ایسا اسم جو کسی قاعدے کے مطابق نہ بنا ہو بلکہ جس طرح اہلِ زبان سے سنا ہو اسی طرح استعمال ہو اسے اسم مفعول سماعی کہتے ہیں۔مثالیں
دِل جلا، دُم کٹا، بیاہتا، مظلوم، وغیرہ
فارسی کے اسم مفعول سماعی
دیدہ (دیکھا ہوا)، شنیدہ (سنا ہوا)، آموختہ (سیکھا ہوا) وغیرہ
عربی کے اسم مفعول سماعی
مفعول کے وزن پر، مقتول، مظلوم، مکتوب، محکوم، مخلوق وغیرہ
مفعول اور اسم مفعول میں فرق
1-مفعول
مفعول ہمیشہ جامد ہوتا ہے اور اُس چیز کا نام ہوتا ہے جس پر کوئی فعل (کام) واقع ہوا ہو۔مثالیں
عرفان نے اخبار پڑھا، فصیح نے خط لکھا، ثاقب نے کتاب پڑھی، اِن جملوں میں اخبار، خط اور کتاب مفعول ہیں۔
2-اسم مفعول
اسم مفعول ہمیشہ قاعدے کے مطابق مصدر سے بنا ہوتا ہے۔ مثالیں
سونا سے سویا ہوا، کھانا سے کھایا ہوا، پڑھنا سے پڑھا ہوا وغیرہ،
عربی میں مفعول کے وزن پر آتا ہے: مظلوم، مخلوق، مکتوب وغیرہ،
یا پھر فارسی مصدر سے بنتا ہے جیسے شنیدن سے شنیدہ، آموختن سے آموختہ وغیرہ
3۔ اسم استفہام
اسم استفہام اُس اسم کو کہتے ہیں جس میں کچھ سوال کرنے یا معلوم کرنے کے معنی پائے جائیں۔
اسم استفہام کی مثالیں
کون، کب، کہاں کیسے، کیوں، وغیرہ۔