شہرِ آشوب
آشوب کے معنی ہیں بربادی، فتنہ، بگاڑ وغیرہ اصطلاح میں شہر آشوب وہ نظم ہے جس میں کسی شہر یا ملک کی بربادی یا مختلف طبقوں، پیشوں یا لڑکوں کے حسن و جمال کی وجہ سے ہونے والے فتنے بگھاڑ وغیرہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔
معانی
مسعود حسن رضوی ادیب کہتے ہیں کہ ابتدا میں یہ صنف نظم اُن رباعیوں اور قطعوں پر مشتمل تھی، جن میں لڑکوں کے حسن و جمال کی باتیں کی جاتی تھیں۔ چونکہ وہ فتنہ پھیلاتے تھے اس لیے اس کا نام شہر آشوب پڑگیا۔شہر آشوب مذکر ہے۔
ابتدا
پروفیسر گِب (Gibb) کا کہنا ہے کہ شہر آشوب کی ابتدا ترکی سے ہوئی ہے۔ اور اس کا پہلا شاعر اس کا موجد “مسیحی” نامی ترکی شاعر ہے جس نے شہر آشوب کی ابتدا کی۔لیکن مسعود حسن رضوی ادیب کا کہنا ہے کہ مسعود سعد سلمان شہر آشوب کا موجد ہے۔ مسعود سعد سلمان کے بارے میں مسعود حسن رضوی ادیب لکھتے ہیں کہ ان کی جو فارسی کلیات ہے اس میں 92 قطعے ایسے تھے جو شہر آشوب کہلائے جاسکتے ہیں۔
غالب
عام طور پر تو یہ طنز و مزاح پر مشتمل ہوتا ہے لیکن 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد اس کا رنگ مرثیے اور نوحے والا ہوگیا ہے۔
اقسام
شہر آشوب کی تین اقسام ہیں۔
لڑکوں کے فتنوں کے بارے میں۔
سیاسی واقعات پر مشتمل۔
مختلف طبقوں اور پیشوں کے بارے میں۔
ان تینوں میں طبقوں اور پیشوں والی بات مشترک ہے۔ یعنی لڑکوں کا ذکر کیا جائے تو ان کے پیشوں کا ذکر بھی کیا جاتا ہے، سیاسی واقعات میں مختلف پیشوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
ان میں سب سے اہم قسم دوسری ہے سیاسی واقعات والی۔
ہیئت کزائی
اس کے لیے کوئی ہیئت متعین نہیں ہے۔ البتہ جو ہیئت زیادہ استعمال ہوئی ہے وہ مخمس ہے۔
آگرہ اور دلی کے بارے میں سب سے زیادہ شہر آشوب کس نے لکھے ؟
آگرہ کے بارے میں سب سے زیادہ شہر آشوب نظیر اکبر آبادی نے لکھے۔
دلی کے بارے میں سب سے زیادہ شہر آشوب مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر، غالب، داغ دہلوی اور الطاف حسین حالی نے لکھے۔
مشہور نظم
اس کا عنوان ہے “مخمس شہر آشوب”
علامہ اقبال کی معروف نظم
وہ نظم “صِقلِیَہ” ہے۔
صقلیہ روم کا ایک جزیرہ تھا جس پر مسلمانوں نے ہانچ سو سال تک حکومت کی تھی بعد میں وہ دوسروں کے حوالے ہوگیا یعنی اس پر قبضہ ہوگیا۔ علامہ اقبال کا گزر اِدھر سے ہوا تو انھیں افسوس ہوا تو انھوں نے پھر درد بھرے لہجے میں “صقلیہ” نامی شہر آشوب لکھا۔
مختلف صنائع
صنعتِ فوقانیہ
اس بات کا التزام کرنا کہ شعر میں کوئی لفظ ایسا استعمال نہ کیا جائے جس کے نیچے نقطے ہوں۔
مظہر صدق وصف قدر شناس مردم
معدن عدل و سخا مظہر الطاف و عطا
صنعتِ تحتانیہ
اس بات کا التزام کرنا کہ شعر میں کوئی لفظ ایسا استعمال نہ کیا جائے جس کے اوپر نقطے ہوں۔
بجلی کی طرح دور کبھی گاہ پاس ہے
عالم کو اس کے ڈر سے عجب اک ہراس ہے
مرثیہ
مرثیہ کے 9 اجزا ہیں۔
چہرہ۔ سراپا۔ رخصت۔ آمد۔ رجز۔ جنگ۔ شہادت۔ بین۔ دعا۔
چہرہ
مرثیہ کی جو ابتدا ہوتی ہے وہ تمہید ہوتی ہے اسے چہرہ کہتے ہیں۔ مرثیہ میں جو چیز چہرہ ہے وہ قصیدہ میں تشبیب ہے۔ قصیدہ کی تمہید تشبیب کہلاتی ہے۔ جب کہ مرثیہ کی تمہید چہرہ کہلاتی ہے۔
سراپا
سراپا خاص طور پر ہیرو کے بارے میں ہوتا ہے۔ یعنی جس کا مرثیہ لکھا جارہا ہے۔ اس کے خد و خال بیان کیے جاتے ہیں۔ اس کا سراپا بیان کیا جاتا ہے۔
رخصت
اس میں وہ شعر بیان کیے جاتے ہیں کہ جب ہیرو اپنے اہلِ خانہ سے اجازت لے کر میدانِ جنگ میں جاتا ہے۔
آمد
جب ہیرو میدانِ جنگ میں پہنچ چکا ہوتا ہے تو آمد کے شعر کہے جاتے ہیں۔
رجز
اب جو ہیرو ہے وہ اپنے خاندان کے اپنےآباؤ اجداد کے اوصاف بیان کرتا ہے، اسے رجز کہتے ہیں۔
جنگ
اس میں وہ شعر بیان کیے جاتے ہیں جو جنگ کی صورت حال کو بیان کرتے ہیں۔
شہادت
: اس میں ہیرو جنگ کرتے کرتے شہید ہوجاتا ہے۔ تو شہادت کے شعر ہوتے ہیں۔
بین
بین : جو ہیرو کے اہلِ خانہ ہوتے ہیں وہ گِریہ و زاری کرتے ہیں۔ تو اس میں وہ شعر آتے ہیں۔
دعا
دعا : آخر میں وہ شہید ہونے والوں کو دعا دیتے ہیں۔
مختصر مگر جامع
انشائیہ اور مضمون
انشائیہ اچانک شروع ہوکر اچانک ختم ہوجاتا ہے جبکہ مضمون تمہید، دلائل اور نتائج پر مشتمل ہوتا ہے۔ انشائیہ میں بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے جب کہ مضمون میں ساری توجہ موضوع پر رکھنا ضروری ہے۔
اسلوب
ایسا اندازِ تحریر جو ایک ادیب کو دوسرے ادیب سے ممتاز کرے۔
سماجی حقیقت نگاری
سماجی رسم و رواج کو جیسے دیکھنا ویسے ہی بیان کردینا۔
دیباچہ
کتاب کی تمہید اور ابتدائی تعارف کو دیباچہ کہتے ہیں۔
دیباچہ اور مقدمہ
دیباچہ میں تعارف ہوتا ہے جب کہ مقدمہ میں تنقید بھی شامل ہوتی ہے۔
سفرنامہ
واقعات سفر کو ندرت و جدت کے ساتھ ایسے بیان کرنا کہ اندازِ بیان میں تازگی ہو۔
تحریف یا پیروڈی
کسی سنجیدہ کلام کی مضحک نقالی تحریف کہلاتی ہے۔
تذکرہ
ایک ترتیب سے شاعروں کے حالاتِ زندگی ، نمونہ کلام درج کرنا۔
حقیقت نگاری
ادب میں اشیا، اشخاص اور واقعات کو بلا تعصب من و عن پیش کرنے کی کوشش حقیقت نگاری کہلاتی ہے۔
آفاقیت
کسی ادب یا ادیب میں ہر دیار اور ہر دور کے لوگوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت آفاقیت کہلاتی ہے۔
دبستان
جب بہت سے ادیب اور شعرا ادب میں ایک ہی طرزِ فکر اور اندازِ نظر اپناتے ہیں تو اسے دبستان کہا جاتا ہے۔
عمرانی تنقید
ہر تخلیق اپنے سماجی حالات کا عکس ہوتی ہے، لہذا جو تنقید زمانے کے حالات و واقعات کو مدںظر رکھتے ہوئے کی جائے وہ عمرانی تنقید کہلاتی ہے۔
معاملہ بندی
معاملات عشق کا شاعرانہ اظہار معاملہ بندی کہلاتا ہے۔
خارجیت
اشعار کی صورت میں ظاہری خدوخال اور حسن بیان کرنا
داخلیت
داخلیت سے مراد ہے کہ قلبی جذبات کا اظہار کرنا یعنی دلی جذبات کا اظہار کرنا، باطنی کیفیات کا اظہار کرنا۔
رمزیت
اشارے کنائے میں بات کرنا، یعنی یعنی علائم رموز غزل کی خاص صفت ہے۔
روز مرہ
اہل زبان کی بول چال جس کے خلاف بولنا درست نہ مانا جائے روز مرہ کہلاتا ہے۔
آئے دن کی بجائے آئے روز بولنے سے معانی تبدیل نہیں ہوتے لیکن اہل زبان اس طرح نہیں بولتے ۔ اہل زبان کی پیروی ضروری ہے۔
محاورہ
محاورہ کےلفظی معنی بات چیت کے ہیں۔ اصطلاح میں محاورہ الفاظ کا مجموعہ ہے جو اہل زبان کی بول چال میں اصلی معنی کے بجائے مجازی معنوں میں بولا جاتا ہے، محاورہ کہلاتا ہے۔
روزمرہ اور محاورہ میں فرق یہ ہے کہ روزمرہ میں الفاظ اپنے اصلی معنوں میں بولے جاتے ہیں جبکہ محاورہ میں مجازی معنوں میں۔ روزمرہ میں زیادہ الفاظ بھی ہوسکتے ہیں اور ایک لفظ بھی مگر محاورہ میں کم از کم دو الفاظ کا ہونا ضروری ہے۔
محاورہ گرائمر کی ذیل میں آتا ہے جبکہ روزمرہ قواعد کی حدود سے بالاتر ہوتا ہے۔
روزمرہ اور محاورہ میں کسی قسم کی تبدیلی روا نہیں رکھی جاتی۔ محاورہ میں امدادی افعال سے مشتق افعال بن سکتے ہیں مگر اسم میں تبدیلی نہیں کی جاتی۔ مصدر سے بھی حاصل مصدر بنائے جاسکتے ہیں۔ حالی نے جس تبدیلی کی طرف اشارہ کیا ہے وہ مصدر کی ہی تبدیلی ہے اور یہ تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔