آپ اردوافسانے کے سو سالہ سفر کوکس نظر سے دیکھتے ہیں؟
نوٹ:اردو افسانہ کے سو سال پورے ہونے پر ایک سوال کی صورت میں روزنامہ جناح اسلام آبادنے ایک ادبی مذاکرہ کا اہتمام کیا تھا۔منشا یاد کے توسط سے مجھے اس میں شرکت کی دعوت ملی تھی۔تب میں نے اختصار کے تقاضا کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو کچھ لکھا تھا،اتفاق سے ایک فائل میں مل گیا ہے ۔انتہائی مختصر ہونے کے باوجود اپنے ان تاثرات کو یہاں شامل کر رہا ہوں۔(ح۔ق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو افسانے کی اولیت کا مسئلہ اپنی جگہ تاہم اردو مےں افسانے کے تین ابتدائی مرکزی نام ہےں راشد الخیری،سجاد حیدر یلدرم اور منشی پریم چند۔ان مےں سے اولیت کا اعزاز بے شک اول الذکر دونوں ناموں کو علی الترتیب دیا جا سکتا ہے لیکن افسانے کے باب مےں پریم چند کی جو تخیلقی خدمات ہےں ان کے باعث افسانے کے باوا آدم بہر حال پریم چند ہی ہےں۔بعینہ جیسے اردو غزل امیر خسرو سے لے کر قطب شاہی دور تک پنپتی رہی لیکن غزل کے باوا آدم ولی دکنی ہی ٹھہرے۔
اردو افسانہ ایک عرصہ تک مختلف اخلاقی،سیاسی اور سماجی و معاشی قسم کے مقاصد کے تابع رہا۔تاہم ایسے رویوں مےں بھی کئی اہم تخلیقات سامنے آئےں۔اخلاقی مقاصد کے تحت لکھنے والوں نے تہذیبی روایات کی بقا کے لئے جدو جہد کی ،تو رومان نگاروں نے خوابوں کی دنیا سجائے رکھی۔ترقی پسندوں نے سماجی اور معاشی انقلاب کی جدوجہد مےں تخلیقی طور پر بھر پور شرکت کی تو کسی حد تک حقیقت پسندوں نے جنسی نفسیات کی گرہےں کھولنے مےں قدم قدم پر چونکایا۔۱۹۴۷ءمےں تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے نتیجہ مےں جو انسانی المیہ سامنے آیا اسے دونوں طرف کے افسانہ نگاروں نے گہرے کرب کے ساتھ لیکن تخلیقی سطح پر بیان کیا۔اس کے بعد اردو افسانہ سارے پرانے رجحانات کے ملے جلے انداز کے ساتھ اپنا سفر کرتا رہا۔ اس سفر مےں کمزور تخلیقی یا تقلیدی اذہان نے ان افسانوی رویوں کے بے تکے اظہار کے کئی نمونے بھی پیش کئے۔ اخلاقی موضوعات کو برتنے والے مصلحین غیر تخلیقی المیے سے دوچار ہوتے دکھائی دئیے تورومان نگاروں کی رومانویت بھی مریضانہ حد تک گئی۔معاشی انقلاب لانے والے نعرے بازی کی سطح پر اترآئے تو جنسی نفسیات پر لکھنے والوں نے جنسی چکا چوند پیدا کرنے کو ہی مطمح نظر بنالیا۔اس کے باوجود اردو افسانے کو قارئین کی ایک بڑی تعداد میسر رہی۔
پھر یوں ہوا کہ 1958 ءمےں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے معاََ بعد اردو افسانہ معمول سے زیادہ علامتی پیرایۂ اظہاراختیار کرنے کی طرف مائل ہوا۔سیاسی جبر کی فضا مےں دل کی بات کہنے مےں احتیاط کے باعث علامتی پیرایہ تجریدی افسانے کی سطح تک چلا گیا۔اور یہےں سے قاری کا رشتہ افسانے سے ٹوٹ گیا۔چند برسوں کی تجریدی مارا ماری کے بعدکہانی نہ صرف افسانے مےں واپس آئی بلکہ افسانہ مغربی دین ہونے کے باوجود اپنی مشرقی روایات (داستانوںاورحکایات وغیرہ)سے فیضیاب ہو کر بہتر روپ اختیار کرنے لگا۔آج کے افسانہ نگار کے سامنے جدید عہد کے مسائل اور ان سے متعلق اہم سوالات ہےں۔آج کے سارے اہم افسانہ نگار اپنے اپنے تخلیقی دائروں مےں ان سوالات کے جواب تلاش کر رہے ہےں۔
بحیثیت کہانی کار اپنے مقامی مسائل سے لے کر عالمی صورتِ حال تک بہت کچھ ہمارے سامنے ہے۔ کمپیوٹر اور دیگر جدید تر ایجادات کے ذریعے ہم خود قدیم داستانوں کے کردار بن چکے ہےں ۔یوں ہمےں داستانوں سے بھی آگے کا بہت بڑا سفر درپیش ہے۔ اس سفر مےں کون کتنا سرخرو ہوتا ہے؟اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا۔ایک بات بہر حال طے ہے کہ آج اردو مےں اتنی ہی بڑی کہانی لکھی جا رہی ہے جتنی بڑی کسی دوسری زبان مےں لکھی جا رہی ہے۔بلکہ بعض ”بڑی عالمی کہانیوں “سے بڑی کہانی اردو مےں لکھی جا رہی ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ افسانے کے ناقدین اپنی اپنی مصلحتوں کے دائرے مےں اسیر ہےں اوران کہانیوں کے بیشتر اصل قاری ٹی وی چینلز کی بھول بھلیاں مےں کھوئے ہوئے ہےں ۔اردو افسانہ سو سالہ سفر مےں تخلیقی طور پر سرخرو ہونے کے باوجود دیانتدار ناقدین اور اپنے کھوئے ہوئے قارئین کی تلاش مےں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر کردہ:مورخہ 6 فروری 2004ء
مطبوعہ:ادبی صفحہ۔روزنامہ جناح اسلام آباد۔۱۰فروری ۲۰۰۴ء