نوٹ: خبر نامہ کا سارا انحصار خبروں کی دستیابی پر ہوتا ہے۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے اب خبروں میں ایک ٹھہراؤسا آگیا ہے۔اس لئے احتیاطاً لکھ رہا ہوں کہ اگر کسی ہفتہ میں خاطر خواہ خبریں جمع نہ ہو سکیں تو خبر نامہ کو دو ہفتوں پر پھیلا دیا جائے گا۔ (حیدر قریشی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ قومی اسمبلی کی اکثریت ایل ایف او کے حق میں ہے۔
(جنرل پرویز مشرف کی واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو)
٭٭ جنرل پرویز مشرف بہت ہی گمراہ قسم کے مشیروں میں پھنس گئے ہیں ۔لیگل فریم ورک آرڈر(ایل ایف او)کو آئین کا حصہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔بس صرف سلیقے سے کام کرنے کی ضرورت تھی۔ایم ایم اے کی تائید کے ساتھ دو تہائی اکثریت آسانی سے مل سکتی تھی اور آئینی طریقے سے آئین میں ایل ایف او کو شامل کیا جا سکتا تھا۔لیکن آپ کے وہ مشیر بڑے ہی بد بخت ہیں جو ڈنڈے کے زور پر ایل ایف او کو آئین کا حصہ بنوا رہے ہیں ۔ان کا تو بعد میں کوئی نام بھی نہیں لے گا اور تاریخ میں آپ کا نام بہت افسوسناک طریقے سے یاد کیا جائے گا۔کاش ابھی بھی آپ قومی اسمبلی کی اکثریت پر بھروسہ کرتے ہوئے اسمبلی سے ہی اسے آئین کا حصہ بنوا لیں ۔ جنرل ضیاع الحق نے بھی اپنے سارے فوجی احکامات کو آئین کا حصہ بنایا تھا لیکن کاغذی کارروائی کرکے اسمبلی سے ہی اسے منظور کرایا تھا۔انہوں نے آئین کے ساتھ جو غلط کام”بالرضا“ کیا تھا، آپ وہی کام ”بالجبر“کر رہے ہیں ۔مجھے افسوس صرف اتنا ہے کہ آپ جیسا اچھا،بلکہ بہت اچھا انسان تاریخ میں آئین کے حوالے سے بہت برے نام سے یاد کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ گیارہ ستمبر کے واقعے میں اسرائیلی ملوث ہیں ۔مہاتیر محمد کا ملائیشیا نیشنل آرگنائزیشن کی سالانہ تقریب میں خطاب۔ (اخباری خبر)
٭٭ ملیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد اس سے پہلے بھی یہ بات کہتے رہے ہیں ۔ان کا یہ الزام دستیاب شواہد کی بنا پر بڑی حد تک درست ہے۔ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارتیں یہودیوں کی ملکیت تھیں ،اس تباہی سے ان کو اصل لاگت سے زیادہ کی انشورنس مل گئی(انشورنس کمپنی کا دیوالیہ نکل گیا،سارا ملبہ اٹھانے کا ٹھیکہ بھی بہت بڑی قیمت پر ایک یہودی فرم کو دیا گیا۔یہودیوں کی ملکیت اتنی بڑی عمارتیں صفحۂہستی سے مٹ گئیں مگر اس میں کام کرنے والے ایک بھی یہودی کا بال بیکا نہ ہوا۔کوئی مذہبی تقریب نہ ہونے کے باوجود اُس دن سارے یہودیوں نے معنی خیز چھٹی کی۔۔چار جہازوں کے ہائی جیک کا ڈرامہ کیا گیا۔ٹریڈ سنٹر والی عمارتوں سے ٹکرانے والے جہازوں کے بلیک بکس نہیں ملے۔۔پینٹاگان کی عمارت سے ٹکرانے والے جہاز کا بلیک بکس ملا تو بہانہ بنا لیا گیا کہ اس کا ریکارڈنگ سسٹم گڑبڑ کر گیا ہے۔مگر چوتھے جہاز کے بلیک بکس کا کسی نے ذکر ہی نہیں کیا جو ایک ویران جگہ پر ہی گر کر تباہ ہو گیا تھا۔یہ چند شواہد تو بالکل سامنے دکھائی دے رہے ہیں ۔ان کے مقابلہ میں کسی القاعدہ یا کسی بھی اسلامی جہادی تنظیم کے خلاف خاص اس حوالے سے ان کے مقابلہ میں چوتھائی شواہد بھی نہیں ملتے ہیں ۔پھر بھی الزام ان کے سر تھوپ دیا گیا ہے۔
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ امریکہ میں بد فعلی کرنے میں ملوث پائے جانے والے کئی پادری برطرف کردئیے گئے۔
(اخباری خبر)
٭٭ امریکی کیتھولک چرچ کی جانب سے اس سلسلہ میں باقاعدہ مہم شروع کی گئی ہے۔آرک بشپ ہیری فلائن کو اس کا انچارج بنایا گیا ہے کہ وہ جنسی بد فعلی کے مرتکب پادریوں کا کھوج لگا کر ان کے خلاف کاروائی کریں ۔چنانچہ اس کے نتیجہ میں انہوں نے متعدد پادریوں کو اس کا مرتکب پایا اور ان کے خلاف کاروائی کی گئی۔ان کے بقول ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔مغربی معاشرے میں یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ اپنے مخصوص دائروں میں پائے جانے والے معائب کی بے جا پردہ پوشی نہیں کرتے ۔ ہمارے اسلامی معاشروں میں دینی تدریس کے خصوصی مراکز میں بھی یہ وباکسی نہ کسی حدتک موجود ہے۔ لیکن ہم رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر بھی اسے جھوٹا الزام قرار دے دیتے ہیں ۔ویسے پادری صاحبان کی بد فعلیوں کے ساتھ ان کی خوش فعلیوں کی بھی تحقیق کی جانی چاہئے۔خوش فعلیوں سے لطیفہ یاد آگیا۔کسی نے ایک پادری سے پوچھا: Father! What are your hobbies?
پادری نے جواب دیا:Non ۔۔(اسے نَنNun= کی طرح پڑھیے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ قومی اسمبلی کے اسپیکر کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جماعت اسلامی کے نائب ا میر اور ایم ۔ایم ۔اے کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ”ہم سب امید سے ہیں “۔(اخباری خبر)
٭٭ پاکستان کے سابقہ ادوار کی تاریخ گواہ ہے کہ جماعت اسلامی اور اس طرز کی دوسری جماعتیں جب بھی اس انداز میں ”امید سے‘ ‘ہوئی ہیں ،ملک میں مصائب اورمشکلات نے ہی جنم لیا ہے۔خدا کرے اس بار کوئی خیر اور بھلائی جنم لے لے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پیکنگ میں بھارتی پردھان منتری واجپائی جی کی چینی رہنماؤں سے ملاقاتیں اور امن کی طرف پیش قدمی۔ (اخباری خبر)
٭٭ یہ بہت اچھی بات ہے کہ واجپائی جی نے ایک بار پھر ہند چینی بھائی بھائی کے نعروں کا امکان بنا دیا ہے۔ہم تو ہند ،چین،پاکستان،بنگلہ دیش،سری لنکا،نیپال ،اس خطے کے سارے ممالک کو بھائی بھائی دیکھنا چاہتے ہیں ۔واجپائی جی پیکنگ یونیورسٹی میں جو تقریر کی ہے اس میں انہوںنے چین کے بزرگ رہنما ڈینگ ژیاؤپنگ کا ایک عمدہ حوالہ دیا ہے کہ”اکیسویں صدی ایشیا کی صدی بنائی جائے“۔۔۔یہ تبھی ممکن ہے کہ پورے خطے میں امن اور بھائی چارہ کی فضا پیدا کی جائے۔واجپائی جی نے ایک اور بہت اچھی بات یہ کہی کہ ہمیں صحت مند مسابقت اور انتشارپسندانہ رقابت کے درمیان فرق کو سمجھنا چاہئے۔یہ بڑی اہم بات ہے لیکن فی الوقت پاکستان اور انڈیا دونوں طرف کے انتہا پسند ہندو اور مسلم مذہبی رہنما اس فرق کو ملحوظ رکھنے کو تیار نہیں ہیں ۔ تاہم امید کا ایک دیا ابھی روشن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ہندوستان نے تبت پر چین کے حق کو تسلیم کر لیا۔واجپائی جی کے دورۂچین کااعلامیہ ۔
(اخباری خبر)
٭٭ برصغیر اور اس کے ارد گرد کے ممالک کے لئے یہ بہت ہی خوش کن اور اچھی خبر ہے۔اس سے اس علاقے کے دوسرے جغرافیائی تنازعات کو حل کرنے میں اعتماد باہمی اور وسعت قلبی کے جذبات بڑھیں گے۔اس خبر سے ایک تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اب کشمیر کا دیرینہ اور بے حد اہم تنازعہ بھی حل ہو سکتا ہے اور اس کا وہی حل مناسب ہوگا جو کشمیری عوام کی رضامندی کے ساتھ کیا جائے گا۔دوسرا یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انڈیا نے امریکہ کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ تو قائم رکھنی ہے لیکن اس کا تابع مہمل نہیں بننا۔چین کے ساتھ اپنے معاملات ٹھیک کرکے انڈیا نے امریکہ کو بڑا واضح پیغام دے دیا ہے۔اس وقت کے عالمی منظر نامہ میں یہ ایک جرأت مندانہ اقدام ہے جس کی ستائش کی جانی چاہئے۔ہند چین تعلقات میں آنے والی اس گرمجوشی سے شمالی کوریا کے معاملہ میں امریکہ کو اب نئے بہانے ڈھونڈنے پڑیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پاکستان کا غیر سرکاری دورہ کرنے والے ہندوستانی دانشوروں کے خیر سگالی وفدکو سرکاری طور پر نظر انداز کیا گیا۔ (اخباری خبر)
٭٭ ہندوستان کے اس غیر سرکاری وفد کے سربراہ معروف ہندوستانی صحافی کلدیپ نیر تھے۔انہوں نے کہا ہے کہ ویسے تو پاکستان کے مختلف طبقات میں ہماری بڑی آؤبھگت ہوئی ہے۔لوگ محبت کے ساتھ ملے ہیں ۔یہاں تک کے قام مقام صدر نے ان سب کے اعزاز میں ضیافت بھی دی ہے۔لیکن سرکاری طور پر اس وفد کو نظر انداز کیا گیا ہے۔اس بیان کے ساتھ ہی کلدیپ نیر نے کہا کہ جب پاکستان سے غیر سرکاری وفد آیا تھا تو اسے بھی سرکاری سطح پر نظر انداز کیا گیا تھا ۔شاید اسی لئے ہندوستانی وفد کے ساتھ بھی ویسا سلوک کیا گیا ہے۔کلدیپ نیر صاحب نے اپنے گلہ یا اعتراض میں خود ہی اس کا جواب دے دیا ہے۔در اصل انہیں یہ مسئلہ تب چھیڑنا چاہئے تھا جب پاکستانی دانشوروں کا وفد انڈیا کا دورہ کر رہا تھااور انڈین گورنمنٹ سرکاری سطح پر ان کو نظر انداز کر رہی تھی۔اس کے باوجود خوشی کی بات ہے کہ دونوں اطراف کے اچھے لوگوں میں صلح اور دوستی کا جذبہ بڑھ رہا ہے۔یہ نیک فال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بدقسمتی کی بات ہے کہ اب جلدی جلدی وفاداریاں بدلی جاتی ہیں ۔
( وزیر اعظم پاکستان میر ظفر اﷲ خان جمالی کا بیان)
٭٭ جمالی صاحب نے ملک معراج خالد کی یاد میں منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے اس افسوس کا اظہار کیا کہ اب لوگ آئے دن سیاسی وفاداریاں بدل لیتے ہیں ۔ان کا افسوس بجا ہے لیکن یہ آج کی بات نہیں ہے ۔۔۔یہ سلسلہ تو ساٹھ کی دہائی میں ہی مقبول ہو گیا تھا۔خود جمالی صاحب ایک وقت میں فوجی حکمران ایوب خان کے مقابلہ میں محترمہ فاطمہ جناح کے حامی تھے اور اب ایک فوجی حکمران کوفخریہ طور پر اپنا باس کہتے ہیں ۔وہ پاکستان پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ تک پارٹیاں بدلنے کا طویل سفر کر چکے ہیں ۔مسلم لیگ میں بھی جونیجو کو داغِ مفارقت دے کر نواز شریف کے ساتھی بنے اور ان کے زوال کے بعد کوہ قاف کی سیر بھی کر لی۔اس میں شک نہیں کہ میر ظفر اﷲ جمالی ذاتی طور پر مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں ۔لیکن انہیں ذاتی طور پر اس طرزِ عمل پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے تھا۔کیونکہ یہ تو اوروں کو نصیحت۔۔والی بات ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ جنرل پرویز مشرف کا دورۂامریکہ کامیاب رہا۔صدر بُش کی جانب سے توقع سے زیادہ گرمجوشی کا اظہار۔ (اخباری خبر)
٭٭ پاکستانی اپوزیشن نے جس طرح صدر بُش کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ جنرل مشرف کو مسلح افواج کے سربراہ کے طور پر ملیں ،صدرِ پاکستان کے طور پر نہیں ملیں ۔وہ پیغام تو رد ہو گیا۔ ظاہری اعتبار سے جنرل مشرف کا یہ دورہ کسی بھی پاکستانی سربراہ کے دورۂامریکہ سے کہیں زیادہ کامیاب رہا ہے۔لیکن اس کےside effectsاورafter effects کیا نکلتے ہیں ؟یہ بعد میں ہی معلوم ہو سکے گا۔موجودہ عالمی حالات میں شاید ابھی اتنا بھی غنیمت ہے۔جہاں تک اندرون ملک سیاست کا تعلق ہے ،اب اپوزیشن کو اُسی تنخواہ پر گزاراہ کرنا پڑے گا۔ورنہ کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ صدر بُش کو جنرل پرویز مشرف کا جمہوریت کو پروان چڑھانے کا انداز پسند آگیا ہے۔اس لئے اپوزیشن اب احتیاط سے ہی کام لے تو بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ جنرل پرویز مشرف کے دورۂامریکہ کے دوران پاکستان کے لئے تین ارب ڈالر کی امداد کا اعلان۔ (اخباری خبر)
٭٭ پاکستان کے تمام منظور نظر صنعتکاروں ،سیاستدانوں ،جنرلوں اور بیوروکریٹس کو لاکھوں لاکھ بلکہ کروڑوں کروڑ مبارک ہو۔اب نئے قرضے لینے اور انہیں پھر سے معاف کرانے کا مبارک دور آ گیا ہے۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں اٹھارہ ارب روپے کے قرضے معاف کرنے کا جو ظلم ہو چکا ہے اس کے بعد ان سے اس حوالے سے کسی خیر کی امید نہیں رہ گئی۔اب تو وہ بھی اقتدار کے اسی کھیل کا حصہ ہیں جو گزشتہ نصف صدی سے پاکستان میں جاری ہے۔جس میں سیاستدانوں ،جرنیلوں ،بیوروکریٹوں ، جاگیرداروں اور صنعتکاروں نے مل جل کر لوٹ مار کا سلسلہ چلا رکھا ہے۔اقتدار کا حصول کی میوزیکل چیئر گیم جاری ہے ۔ جو بھی آتا ہے ملک کی دولت دوسروں کو بھی لٹاتا ہے اور خود بھی حسبِ توفیق لوٹتا ہے۔
لے جا سب کچھ لوٹ کر
لے جا لوٹ کا مال ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ جنرل پرویز مشرف کے دورۂامریکہ،اور بھارتی پارلیمانی وفد کے دورۂپاکستان کے دوران بھارت کی جانب سے چار دن میں چار میزائل تجربے۔۔ پاکستان میں جماعت اسلامی کی طرف سے ہندوستانی پارلیمانی وفد کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب۔
(اخباری خبر)
٭٭ چار دن میں چار میزائل تجربے اتنے بے معنی تھے کہ خود بھارت میں بھی اس پر کسی خوشی یا جوش کا اظہار نہیں کیا گیا۔عین ان دنوں میں جب ایک طرف جنرل پرویز مشرف پاکستان کے صدر کی حیثیت سے صدر بُش سے مل رہے تھے اور دوسری طرف انڈیا کا پارلیمانی وفد خیر سگالی کے دورہ پر پاکستان آیا ہوا تھا ایسے بے معنی تجربے کرنے والوں نے صرف جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کی کاوشوں کونقصان پہنچانا چاہا ہے۔اگر بی جے پی کے انتہا پسند عناصر کی وجہ سے ایسا کیا گیا ہے تو یہ بہت افسوسناک ہے۔بی جے پی کی قیادت کو ہندو انتہا پسندوں اور پاکستان کی انتہا پسند اسلامی جماعتوں کے کردار کے فرق کو اسی بنیاد پر دیکھ لینا چاہئے کہ جب انڈیا کی طرف سے غیر ضروری جارحیت کا اظہار کیا جارہا تھا پاکستان میں جماعت اسلامی کی طرف سے ہندوستانی وفد کو استقبالیہ دیا جا رہا تھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی انتہا پسند دینی جماعتیں بھی اعتدال کی طرف آرہی ہیں جبکہ انڈیا کی بی جے پی کی اپنی اندر کی انتہا پسند لابی اشتعال انگیزی کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ایسے موقعہ پر پھر کہنا ہی پڑتا ہے کہ بی جے پی کا مجموعی کردار بغل میں چھری منہ میں رام رام والا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے ایک جہاز پر ملک واپس آنے کا پروگرام بنا لیا۔
(اخباری خبر)
٭٭ لگتا ہے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتمادکو موثر بنانے کے لئے اور حکومت پر دباؤبڑھانے کے لئے یہ پروپیگنڈہ کیا گیا ہے۔ورنہ بی بی اور بابو میں سے کوئی بھی پکی یقین دہانیوں کے بغیر واپس نہیں آئے گا۔ جنرل پرویز مشرف کے کیمپ ڈیوڈ وزٹ کے اثرات دیکھنے کے بعد بی بی کے سلسلے میں تو فرحت اﷲ بابر کی باضابطہ تردید بھی آ گئی ہے کہ وہ ابھی واپس نہیں آ رہیں ۔رہ گئے نواز شریف ۔۔۔ان میں اگرجیل کی صعوبت برداشت کرنے کی زیادہ نہ سہی شہباز شریف جتنی ہمت بھی ہوتی تو وہ ملک سے باہر ہی نہیں جاتے۔ان کی وجہ سے تو بے چارے شہباز شریف بھی بلا وجہ مارے گئے۔بلکہ بھائی چارے میں ”چارہ “ان کو بنایا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ فوجی حکومت کے ساتھ ڈیل کی خبریں غلط ہیں ۔ (نواز شریف کا بیان)
٭٭ نوائے وقت کی ۲۶جون کی اشاعت میں چھپنے والا نواز شریف کا بیان خاصا سخت ہے۔جس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں جنرل پرویز مشرف کی پذیرائی سے اور جمہوریت کے حوالے سے امریکی رویے میں کوئی سختی نہ آنے سے نواز شریف کی توقعات کو شدید ٹھوس پہنچی ہے۔بہر حال سیاست میں تو ایسا چلتا رہتا ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ” شالا مسافر کوئی نہ تھیوے،ککھ جنہاں تھیں بھارے ہُو“۔ ہماری دعا ہے کہ نواز شریف اور بے نظیر دونوں وطن واپس جا سکیں لیکن انہیں بھی چاہئے کہ اپنی ذاتی غلطیوں اور قومی نوعیت کے گناہوں کا ادراک کریں اور خدا سے ان کی معافی مانگیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ شہباز شریف کی اہلیہ اور دو بیٹیوں کو ۲۴گھنٹے کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم۔(اخباری خبر)
٭٭ شہباز شریف کی اہلیہ اور دو بیٹیاں گزشتہ ایک ماہ سے پاکستان آئی ہوئی تھیں۔ جنرل پرویزمشرف نے اس طرح سے شریف فیملی کی ملک بدری کے حکم میں کچھ ریلیف دیا تھا۔ لیکن نواز شریف کے حالیہ حکومت مخالف سخت بیان کے بعد جنرل پرویز مشرف کی جانب سے یہ ریلیف واپس لے لیا گیا ہے۔اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ۔
٭٭