’’اُن کے مزاج میں بھی وہی طنطنہ تھا جو اُس جاگیردار کے مزاج میں پایا جاتا ہے جو ایک سیکنڈ کے تردّد کے بغیر اپنے مزارع کے پچاس جوتے لگوا سکتا ہو۔ انہیں اپنی اعلیٰ نسبی پر بڑا فخر تھا اور انہوں نے بھی اپنے آباء کی مانند ہزار جتن سے خون کی ہر طرح کی آمیزش سے محفوظ رکھا تھا۔ ‘‘۶۵
اصول کی یہ بات اور اصول پسندی کا یہ دعویٰ اپنے اندر وہ کڑا طنز لئے ہوئے ہے جو اِس کردار کی ذہنیت کے حوالے سے مصنف کے شعور کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ اصول کی بات سے فوراً قاسمی صاحب کے افسانے ’’اصول کی بات‘‘ کی طرف دھیان بھی جاتا ہے۔
انوار احمد ۷۰کی دہائی میں ضیائی مارشل لاء کے خلاف علامتی کہانی کاروں میں ایک اہم نام ہیں۔ اُن کی کہانیوں کا اختصاصی پہلو اُن کا اختصار ہے۔ وہ کہانی کو ضمنی موضوعات یا مختلف مظاہر اور واقعات کی مدد سے طول دینے کی بجائے نظموں کے کڑے انتخاب کے قائل ہیں۔ اِسی لئے وہ اپنے موضوع کو کم سے کم الفاظ میں افسانے میں ڈھالنے کے متمنی نظر آتے ہیں۔ اُن کی کہانیوں میں واقعے کے طلسم سے زیادہ جملے کی کاٹ اثر رکھتی ہے۔ اُن کے جملوں میں جبر کی اُس فضا کے ساتھ ساتھ ہمارے سماج میں موجود طبقاتی تفاوت اور استحصالی قوتوں کے خلاف بھی کڑا طنز دکھائی دیتا ہے۔ ’’گونگی غراہٹ‘‘ بھی اُن کا ایسا ہی افسانہ ہے جس کا متکلم ایک جاگیردار حاجی خواجہ کا ملازم ہے اور افسانے میں حاجی خواجہ کے روز و شب کی روداد ایک ایسے راوی کی حیثیت سے بیان کر رہا ہے جو حاجی صاحب کا تابع فرماں بھی ہے اور وظیفہ خوار بھی۔ تاہم متکلم کے پیچھے دراصل افسانہ نگار کا وہ سماجی شعور بول رہا ہے جو بخوبی جانتا ہے کہ حاجی خواجہ ایسے کرداروں کے روز و شب کیسے گزارتے ہیں اور کس کس انداز میں نچلے طبقے کا استحصال کرتے ہیں :
’’حاجی خواجہ جھوم جھوم کر موٹر چلا رہے تھے اور میں پچھلی نشست پر بیٹھا دن بھر میں خالی ہونے والی بوتلوں اور پائمال عزتوں کا حساب کر رہا تھا۔ ‘‘۶۶
’’وہ دریا دل بھی ہے اور مہربان بھی، شہر کی کئی طوائفوں اور صحافیوں کے اس نے وظیفے مقرر کر رکھے ہیں۔ ‘‘۶۷
’’حاجی خواجہ بے پنا ہ پیتا اور کھاتا ہے۔ بدیسی شراب کی پیٹیاں دنوں میں ختم ہو جاتی ہیں۔ ‘‘۶۸
’’حاجی خواجہ کی چاروں بیویاں گھر کے نوجوان ملازموں کو حقارت کی بجائے محبت سے دیکھتی ہیں اور راتوں کو اُن کے یہ کردار کپڑوں کی میلی جیبوں میں معطر اور اُجلے نوٹ ٹھونستی رہتی ہیں۔ ‘‘۶۹
مندرجہ بالااقتباسات حاجی خواجہ کے اندر اُس جاگیر دار کا تصور واضح کر رہے ہیں جو شہروں میںا کر اب سرمایہ دار کی حیثیت سے بھی اپنے رویوں میں اُسی ذہنیت کی عکاسی کر رہا ہے جو ایک جاگیردار کی ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر عبدالرشید تبسم کی کہانیاں ’’دہقان زادے‘‘ جاگیردارانہ سوچ و مزاج سے ہم آہنگ روایت کا ایک ایسا بیان قرار ایا جا سکتا ہے جو اپنے اندر تجسّس، سادگی، دلچسپی اور خیر و شر کی موجودگی کے باعث داستانوی رنگ لئے ہوئے ہیں۔ ’’دوست دشمن‘‘ ایک ایسی ہی سادہ بیانیہ کی حامل کہانی ہے کہ جو جاگیردارانہ نظام اور رسوم ورواج کے ساتھ سوچ کے حوالے سے بھی ہمیں آگاہی فراہم کرتی ہے:
’’میں زمیندار ہوں۔ میرا گاؤں میرے باپ دادا کی میراث ہے۔ یہ گاؤں میرے اجداد کے قبضے میں پہلے پہل کب اور کیسے آیا؟ اس کا مجھے علم نہیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ گاؤں پہلے میرے باپ کے پاس تھا، اب اِس کا مالک میں ہوں۔ جب میں مر جاؤں گا تو میری اولاد اِس کی مالک ہو گی۔ میرے گاؤں کے لوگ مجھے ’’سرکار‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ میرا ادنیٰ سا اشارہ اِن کی قسمت کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ ‘‘۷۰
ذرا جاگیردارانہ ظلم کو جواز فراہم کرنے والے طنز کو ملاحظہ فرمائیں :
’’ہرطبقہ کے لوگ دوسرے لوگوں کو اپنے سے نیچا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی بات اگر ہم میں بھی موجود ہے تو محلِ اعتراض نہیں۔ ہم زمیندار اپنی کسی خاص آسامی کو فارغ البال ہوتے دیکھیں تو اُسے اعتدال پر لے آتے ہیں۔ ہمارے خاص آدمی اُس کے یہاں چوری کر کے اُسے نانِ شبینہ کو محتاج کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔ آسامی لٹ لٹا کر ہمارے نام کی دہائی دیتی ہے۔ ہم سے فریاد کرتی ہے، ہم اُسی کی نقدی میں سے چند سکے خیرات کے طور پر اُسے واپس دے کر اُس کی آئندہ سات پشتوں پر احسان کر دیتے ہیں۔ ہماری دریا دِلی ضرب المثل بن جاتی ہے۔ ہم فرشتۂ رحمت تصور کئے جاتے ہیں۔ علاقے میں ہماری داد و دہشت کی دھاک بیٹھ جاتی ہے۔ ‘‘۷۱
ایم۔ صادق قریشی کا شمار اُردو کے اُن افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جو فنی اعتبار سے بہت پختہ کہانی کار نہیں کہلائے جا سکتے۔ زراعت کے پیشے سے وابستہ، صحافی اور زرعی موضوعات پر مضامین لکھنے والے صادق قریشی نے دیہی سماج پر بہت سی کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کا ایک افسانہ ’’کیما تیلی ‘‘ماقبل تقسیم پنجابی دیہات کی کہانی ہے جس میں فنی پختگی تو شاید اُس سطح کی نہیں جیسی ایک خلاق افسانہ نگار کے ہاں ہوسکتی تھی مگر چودھری، مولوی یا طبقاتی معاشرے کی جھلکیاں ضرور دیکھی جا سکتی ہیں۔
یہ جاگیردار کا وہ مجموعی تاثر ہے جو اُردو افسانے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے علاوہ بھی بعض افسانوں میں جاگیردار کے یہ کردار موجود ہیں جن میں رشید امجد کے ’افسانے مکھن کے بال، (کاغذ کی فصیل )، ’ آدھے دائروں کا نوحہ، (کاغذ کی فصیل )، غلام الثقلین نقوی کے افسانے ’سید نگر کا چودھری، (بند گلی ) اور مسعود اشعر کے افسانے ’مجھے چہرہ دکھا‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ لیکن مجموعی طور پر جاگیردار کا تصور طاقت اور ظلم کے ساتھ مشروط ہے جو اُردو افسانے میں جا بجا نظر آتا ہے۔