“آپی کتنی پیاری یونیورسٹی ہے ناں”سفھاء نے ستائشی نظروں سے یونیورجٹی کو دیکھا
”ہاں اور بڑی بھی” وجیہا بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی آج یونی میں انکا پہلا دن تھا سفھاء اور وجیہا نے بڑی مشکل سے اپنے والد یوسف صاحب کو اس یونیورسٹی کے لئیے راضی کیا تھا وہ اپنی بیٹیوں کو جو ان کی کل کائنات تھیں اتنی دور نہیں بھیجنا چاہتے تھے کراچی کے حالات میں وہ نہیں چاہتے تھے کۂ وہ دونوں روز اتنی دور آئیں لیکن تعلیم بھی ضروری تھی آخر کار انہوں نے اپنی بیٹیوں کی “بابا اسی یونی جانا ہے” کی ضد کے آگے ہتھیار ڈال لئیے تھے انہیں یقین تھا کہ وجیہا ہے تو کیا فکر وھ سمجھدار تھی چھوٹی عمر سے گھر سنبھالتی آرہی تھی جب اسکی اممی کا انتقال ہوا تو وہ چودہ سال کی تھی اوڑ سفھاء نو سال کی….
“چلو میرا ذیپارٹمنٹ تو آگیا میں جارہی ہوں” میڈیکل ڈیپارٹمنٹ آیا تو وجیہا سفہاء کو ھدایات دیتی اندر کی طرف بڑھ گئی
فزکس کی کلاس ختم ہوئی تو اس نے نوٹ بوک بند کی اسکی ساتھ والی بینچ خالی تھی کلاس میں ایک طرف لڑکے بیٹھے تھے تو دوسری طرف لڑکیاں کچھ لڑکیوں کو اس نے لڑکوں سے ہاتھ ملاتا دیکھ کر اسنے بیزاری سی منہ موڑا تو اسکی نظر ایک لڑکے ٹکرائی وہ لڑکا مسکرایا تو اسکی بگڑی شکل مزید بگڑ گئی اسنے دوبارہ نوٹ بوک کھول لی….
“اسلام علیکم” ایک لڑکی اسکے برابر آبیٹھی
”وعلیکم اسلام”وجیہا نے اسکا جائزہ لیتے ہوۓ جواب دیا وہ قمیض شلوار میں ملبوس تہی اور اسکارف چہرہ کے گرد سلیقے سے لپٹا تھا جبکہ وجیہا عبائے میں بیٹھی وہ بغیر عباۓ گھر سے نہ نکلتی تھی جبکہ سفھاء چادر لے کر جیسے احسان کرتی تھی وہ دونوں ایک دوسرے سے بہت مختلف تھیں
”میں بھی آپ کی طرح اکیلی بیٹھی تھی سوچا ساتھ بیٹھ جاؤں” اسنے مسکراتے ہوۓ کہا تو وجیہا بھی مسکرادی
”میرا نام ساریہ خان ہے اور میں یہاں اسلام آباد سے پڑھنے آئی ہوں” اس لڑکی نے اپنا مختصر تعارف کرایا
”میرا نام وجیہا علی ہے یہیں کراچی سے ہوں”وجیہا نے بھی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ تعارف کرایا
””friends? ساریہ نے آنکھ دباتے ہوۓ کہا
”sure” وجیہا بھی مسکرادی
سر کلاس مییں داخل ہوۓ تو ان دونوں نے کتابیں کھول لیں کلاس لینے کے بعد وہ ساریہ کے ساتھ ہی کلاس سے نکلی اسے سفھاء کی تلاش تھی وہ ساریہ کو لے کر انجینئرنگ ذیپارٹمنٹ کی طرف بڑہ گئی وہ ساریہ کو سفھاء سے ملوا کر اور سفھاء کی دوستوں سے مل کر ساریہ کے ساتھ کینٹین آگئی بریک نہ ہونے کی وجہ سے رش بہت کم تھا ان کے آس پاس کی ٹیبلز خالی تھیں
”اور سناؤ کتنی بہن بھائی ہو” ساریہ باتونی تھی جبکہ وجیہا کم گو
”گھر میں بس بابا میں اور سفھاء ہیں ماما کے انتقال کو کئی سال ہوگۓ جب سفھاء نو سال کی تھی بھائی نہیں ہے” وجیہا نے بتایا تو ساریہ کو افسوس ہوا
”میں اور ایک بھائی ہیں بڑے اور ماما پاپا ہمارا اپنا بزنس ہے بھائی اور پاپا سنبھالتے ہیں” ساریہ نے تفصیل بتائی
”میرے بابا کالج میں پروفیسر ہیں” وجیہا نے مسکراتے ہوۓ کہا “واہ پھر تو پڑھائی میں مسئلہ ہی نہیں ہوتا ھوگا ناں” ساریہ نے جلدی سے پوچھا تو وجیہا نے اثبات میں سر ہلادیا
”آآآہ کیا پرفیوم ہے” ساریہ نے خوشبو اپنے اندر اتارتے ہوۓ دوسری ٹیبل کی طرف دیکھا جہاں ابھی ابھی دو لڑکے آکر بیٹھے تھے پر افسوس وہ اس پرفیوم کی دوکان کو نہ دیکھ پائی تھی کیونکہ اسکی پشت ساریہ کی جانب تھی البتہ خوشبو والے کا دوست دانت نکالے ساریہ کو دیکھ رہا تھا اسنے ناگواری سے گردن آگے موڑلی
”پاگل” وجیہا نے مسکراتے ہوے چاۓ کا کپ تھام لیا جبکہ ساریہ برگر کھانے لگی….
تھرڈ ایئر والوں کا آج پہلا دن تھا تبھی آج رش معمول سے ذیادہ لگ رہا تھا. وہ کار پارک کر کے کلاس کی طرف بڑھا تو ایک لڑکا اس کے سامنے آیا “بھائ یہ انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کس طرف ہے؟” اس نے اشارے سے لڑکے کو بتایا تو وہ شکریہ کہتا آگے بڑھ گیا اور بس پھر کیا تھا کلاس تک پہنچتے پہنچتے کوئ دس لوگ اس سے اپنی مطلوبہ جگہ پوچھ چکے تھے. وہ بیزار سی شکل بنائے کلاس میں داخل ہوا تو اریبہ سے ٹکراؤ ہوا وہ اسے دیکھ کر مسکرائ اسکی بگڑی شکل اور بگڑ گئ. وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اپنی سیٹ تک پہنچا جہاں وہ نکما کتاب میں سر دیئے بیٹھا تھا. وہ لوگ اسکول کے زمانے کے دوست تھے اور اب وہ میڈیکل کے دوسرے سال میں تھے.
“کتنی تیاری ہوئ؟” وہاج نے بیگ بینچ پر رکھا. احد نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا “لوگوں کو شرم تو آتی نہیں ہے اپنا کام دوسروں سے کرواتے ہوئے اب بندہ اپنا کام کرے یا ان نوابوں کا” احد جو کب سے بھرا بیٹھا تھا بول پڑا.
“ہاں بیٹا دکھا دے اپنی اوقات پہلی بار زندگی میں کوئ کام کہا ہے اس پر بھی موت آرہی ہے. وریشہ آپی کی شادی نہ ہوتی تو کبھی نہ لیتا تیرا احسان.” وہاج بھی تپ گیا تھا.
“ہاہاہاہا” احد ان لڑکیوں کی کسی بات پر ہنسا تو وہاج نے اشارے سے وجہ پوچھی. “ایسے ہنس کیوں رہے ہو گدھوں کی طرح؟” وہاج کو اسکا یوں بلاوجہ ہنسنا پسند نہیں آیا تھا.
“تو بھی اگر اس لڑکی کی بات سنتا تو ضرور ہنستا.” احد نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا جو وہاج کی طرف پیٹھ کیئے بیٹھی تھی. “کیا کہہ رہی تھی؟” وہاج نے نہ چاہتے ہوئے بھی پوچھ ہی لیا. “کہہ رہی تھی آہ کیا پرفیوم ہے اور پھر اس نے تجھے دیکھا تھا پر تو اسکی طرف پیٹھ موڑے ہوئے تھا پھر اس بیچاری نے بھی منہ ادھر کر لیا.” احد کے کہنے پر وہاج نے گردن موڑی اور بس پھر کیا تھا نظروں نے واپس مڑنے سے انکار کردیا تھا. کالے اسکارف میں لپٹا اسکا پرنور چہرہ وہ کوئ حور لگتی تھی. وہ جو اس کے اس طرح دیکھنے پر گڑبڑا کہ چائے کو گھورنے لگی تھی وہاج نے منہ موڑ لیا.
“کیا ہوا ہیرو کوئ چڑیل دیکھ لی؟” احد نے چھیڑا.
“نہیں یار حور دیکھ لی.” اسکی زبان پھسلی تو احد کا قہقہہ بڑا جاندار تھا. “اچھا وہ عبایا والی؟” احد نے وجیہہ کو بغور دیکھتے ہوئے کہا. “ایسے نہ دیکھ غیر محرم ہے.” وہاج کو نہ جانے کیوں برا لگا تھا. “تیری محرم تھی کیا؟” احد نے طنز کیا. “نہیں میری تو پہلی نظر تھی نہ پھر ہٹا لی تھی.” وہاج نے وضاحت دی اور پھر پریزینٹیشن ڈسکس کرنے لگا….
وہ دونوں گھر پہنچی تو یوں محسوس ہور ہا تھا کہ گویا مزدوری کر کی آئی ہوں۔۔۔۔ اتنی بڑی یونیوسٹی میں اتنے بڑے بڑے پر دور دور بلاکس ۔۔۔۔
افّفف____ صفاء نے یونیورسٹی کا منظر کھینچنا شروع کیا تو انکے والد دلچسپی سے سننے لگے ۔۔۔۔ جبکہ وجیہہ کچن میں آگئ۔
بیٹا آج رات کا کھانا تھوڑا زیادہ بنا لینا تاکہ کل دوپہر میں محنت نا کرنی پڑے تھکی ہوئی آتی ہو ۔۔ یوسف صاحب نے پیار سے اپنی بڑی بیٹی وجیہہ کو دیکھا۔۔۔۔
جی بابا میں بھی یہی سوچ رہی ہوں ! وجیہہ نے ڈائننگ ٹیبل پر پانی کا جگ رکھتے ہوئے کہا۔۔
چلو سست لڑکی جلدی سے فریش ہو کر آؤ کھانا لگ گیا ہے”
وجیہہ نے صفاء کو اٹھاتے ہوئے کہا جو صوفے پہ نیم دراز تھی۔
ارے میری نکمی بیٹی بہن کی کام میں مدد ہی کروا دیا کرو سارا دن اکیلے ہی کام کرتی ہے ۔۔۔
اب وہ تینوں لنچ کررہے تھے۔۔۔ تو یوسف صاحب صفاء کی کلاس لینے لگے تو اسنے منہ بنایا۔
بابا کھانا تو کھانے دیں صفاء کی بات پر وجیہہ اور یوسف صاحب ہسنے لگے ۔۔۔
کھانے کے بعد صفاء تو آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ یوسف صاحب ٹی وی دیکھنے لگے اور وجیہہ کچن سمیٹنے کے ساتھ ساتھ یوسف صاحب کے لیے ادرک والی چائے بھی بنانے رکھ دی ۔
“جب سے یوسف صاحب کو دل کی بیماری لگی تھی وہ انھیں ہر کھانے کے بعد ادرک والی چائے ضرور بنا کر دیتی تھی”
گھر کے کام سے فارغ ہوکے وہ بھی آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں آکر سو گئی۔ ایک گھنٹے کی نیند لینے کے بعد وہ کچن میں آکر رات کا کھانا بنانے لگی ۔۔کھانا بنا کر باہر نکلی تو مغرب کی اذانیں ہو رہی تھیں وہ مغرب کی نماز پڑھ کر اپنا لیپٹاپ کھول کر بیٹھ گئ ۔۔
آن لائن تفسیر کلاس لی پھر کچھ نوٹ کر کے یوسف صاحب کے پاس چلی آئ ۔ “جو کالج کا کوئی کام کررہے تھے”
وہ انکے قریب ہی بیٹھ گئی ۔بابا کھانا لگا دوں؟
نہیں بیٹا میں کچھ کام کرلوں عشاء بھی ہونے والی ہے نماز پڑھ کر ہی کھانا کھاؤں گا۔ وہ کچھ مصروف سے انداز میں بولے ۔۔
وجیہہ لیپ ٹاپ لے کر کمرے میں آگئی جہاں صفاء اپنی نئی دوستوں کے ساتھ چیٹنگ میں مگن تھی…. “آپی آپ کو کوئی اسائمنٹ ملی ہے کیا” سفھاء نے کتابیں کھولتے ہوئے سوال کیا تو وجیہا نے نفی میں سر ہلادیا
“ہمیں تو پہلے دن ہی کام مل کیا نہ جانے آگے کیا ہونے والا ہے” اس نے منہ بنایا تو وجیہا مسکرانے لگی
“چلو میرے ساتھ کھانا لگواؤ بابا آنے والے ہیں” وجیہا نے کہا تو وہ کتابیں بند کرکے اس کے ساتھ کچن میں چلی آئی
“یہ نکمے لوگ کب سے کام کرنے لگے ہیں وجی بیٹا؟” یوسف صاحب نے سفھاء کو کام کرتے دیکھا تو وجیہا سے بولے جس پر وہ دونوں ہنس دیں…..
صبح وہ یونی پہنچی تو کلاس شروع ہونے میں کافی وقت تھا موسم اچھا ہورہا تھا تو وہ گراونڈ میں آبیٹھی
“میں گراونڈ میں ہوں اور پہلی کلاس فری ہے تم یہیں آجانا” وہ ساریہ کو پیغام بھیج کر گھاس پر بیٹھ گئی کچھ دیر بعد اسے ساریہ سامنے سے آتی دکھائی دی
“یہاں کیوں بیٹھی ہو اکیلے” ساریہ اسکے پاس بیٹھ گئی
“کلاس میں کافی شور تھا موسم بھی اچھا تھا تو میں یہاں آگئی” وجیہا نے جواب دے کر سامنے دیکھا جہاں وہ دونوں لڑکے بھاگ رہے تھے وجیہا نے بیزاری سے منہ پھیرا ساریہ اسکی اس حرکت پر زور سے ہنس دی صبح وہ یونی پہنچی تو کلاس شروع ہونے میں کافی وقت تھا موسم اچھا ہورہا تھا تو وہ گراونڈ میں آبیٹھی
“میں گراونڈ میں ہوں اور پہلی کلاس فری ہے تم یہیں آجانا” وہ ساریہ کو پیغام بھیج کر گھاس پر بیٹھ گئی کچھ دیر بعد اسے ساریہ سامنے سے آتی دکھائی دی
“یہاں کیوں بیٹھی ہو اکیلے” ساریہ اسکے پاس بیٹھ گئی
“کلاس میں کافی شور تھا موسم بھی اچھا تھا تو میں یہاں آگئی” وجیہا نے جواب دے کر سامنے دیکھا جہاں وہ دونوں لڑکے بھاگ رہے تھے وجیہا نے بیزاری سے منہ پھیرا ساریہ اسکی اس حرکت پر زور سے ہنس دی “کیا ہے ایسے کیوں ہنس رہی ہو” وجیہا نے تیوریوں کے بل اسے دیکھا
“تمہاری حرکت پر” ساریہ نے ان لڑکوں کو دیکھا جو جن میں سے ایک دوسرے کو کتاب سے مار رہا تھا وہ مسکرادی
“یار وہ ہیرو کل کتنے انہماک سے تمہے دیکھ رہا تھا ناں”ساریہ نے وجیہا کو تنگ کرنا شروع کیا
“اور ہیرو کا دوست بھی تو تمہیں بتیسی نکالے گھورنے میں مصروف تھا” اب چھیڑنے کی باری وجیہا کی تھی
“ہاں تو میں ہوں ہی اتنی خوبصورت” ساریہ بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی
“خوبصورت اور تم اللہ کا خوف کرو کچھ” وجیہا نے تاسف سے اسے دیکھا
“بس بس تم تو جلتی ہو مجھسے” ساریہ نے ادا سے کہا جس پر وجیہا نے افسوس سے اسے دیکھا “چلو یار کلاس میں چلتے ہیں” وجیہا ایک دم کھڑی ہوگئی ساریہ نے حیرت سے اسے دیکھا پھر آس پاس نظر دوڑائی تو جیسے ساری کہانی سمجھ آگئی
“یار وجی آج تو وہ تمہیں نہیں گھور رہا” ساریہ نے شکایتی نظروں سے اسے دیکھا جو اتنے اچھے لڑکے کو غلط سمجھ رہی تھی
“اسکا تو مجھے نہیں پتہ البتہ اسکا دوست بتیسی نکالے تمھیں گھورنے میں مصروف ہے اور مجھے بلکل اچھا نہیں لگ رہا” وجییہا نے مدہم آواز میں کہا
“کم آن یار نہیں دیکھ رہا وہ” ساریہ کا کلاس میں جانے کا کوئی موڈ نہیں تھا کراچی میں موسم کم ہی اچھا ہوتا تھا وہ اس موسم کو کلاس میں بیٹھ کر ضایع نہیں کر سکتی تھی
“ٹھیک ہے تم بیٹھو یہاں میں جارہی ہوں” ساریہ نے پانی کی بوتل لبوں سے لگائی
“ہاں ہاں جانتی ہوں ہیرو کی وجہ سے نھیں بیٹھ پارہی ناں تم” ساریہ نے شرارت سے کہا اسکا کہنا تھا کہ وجیہا نے پانی کی بوتل اس پر الٹ دی ساریہ کی دبی دبی سی چیخ نکلی اس سے پہلے کے ساریہ بدلہ لیتی وجیہا دور بھاگی
“یار دیکھو سب کیسے دیکھ رہے ہیں” وجیہا بینچ کے بیچھے کھڑے ہوکر لمبے لمبے سانس لینے لگی “تو دیکھنے دو” ساریہ نے سنجیدگی سے کہا
“یار میں عباۓ میں گر جاؤنگی ناں” وجیہا روہانسی ہوئی
“تو گر جاؤ” لاپرواہی سے جواب آیا
“یار” وہ رونے کو ہوگئی
“جاؤ معاف کیا” ساریہ نے کہا تو وجیہا نے سکون کا سانس لیا
“ہاۓ شکریہ میری پیاری دوست” وجیہا کہتے ہوۓ اسکے قریب آئی ساریہ جو بھاگنے کی وجہ سے تھک کر وہیں بیٹھ کر پانی پینے لگی تھی ساری بوتل وجیہا پر الٹ دی ساریہ کلاس کی طرف بھاگی پر اب تو پانی بھی نہ بچا تھا کہ وجیہا جوابی کاروائی کرتی وہ بیگ اٹھا کر کلاس کی طرف بڑھ گئی
“ایسا منہ کیوں بنایا ہوا ہے” وجیہا نے کلاس سے کچھ دور کھڑی ساریہ کو غور سے دیکھا جو پریشان لگ رہی تھی
ساریہ نے اپنی رسٹ واچ والا ھاتھ اسکے سامنے کیا
“اوووہ…” سر تقی کی کلاس شروع ہو ۓ پانچ منٹ ہوچکے تھے اور وہ دو منٹ لیٹ برداشت نہیں کرتے تھے…. مطلب کہ بےعزتی طے تھی
وہ دونوں جلتو جلال تو پڑھتیں ہوئیں کلاس کی طرف بڑھیں….
یونیورسٹی میں داخلہ لیے انہیں ایک سال ہونے کو تھا۔ دوسرے سمسٹر کے پیپرز شروع ہوچکے تھے اور آج ان کا تیسرا پیپر تھا۔ وجیہہ گراؤنڈ میں چکر لگا لگا کر کا فارمولے رٹنے میں مصروف تھی۔ یکدم ہی وہ پیچھے مڑی تو زوردار ٹکر ہوئی۔
“اففف۔” وجیہہ کی سسکی نکلی جبکہ آنے والے شخص کا پارہ ہائی ہوگیا۔
“آندھی ہو کیا دیکھ کر نہیں چل سکتی۔ وہ اس پر ایک نگاہِ غلط ڈالے بغیر اسے سناتا آگے بڑھ گیا۔
“پتہ نہیں یونیورسٹی میں لوہے کا ڈبہ کون لے کر گھومتا ہے۔” اس نے اپنا سر مسلتے ہوئے نیچے سے کتاب اٹھائی پھر اپنی انگلی پر خون کا ہلکا سا دھبہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔ جو لوہے کا کونہ لگنے سے اس کے سر پر ہلکی سی چوٹ آگئی تھی۔ وہ جلدی سے واش روم کی طرف بھاگی۔ شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھا تو ایک انچ کا کوئی تھوڑا گہرا سا زخم آ گیا تھا۔ وہ ٹشو سے ہلکا سا آیا خون صاف کر کے منہ پر پانی ڈال کر پیچھے مڑی تو وہ فون پر بات کرتا نظر آیا۔ شاید باہر شور ہونے کی وجہ سے یہاں چلا آیا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر ٹھٹکا پھر نظر انداز کر کے دوبارہ باتیں کرنے لگا۔ وہ اسے اگنور کرکے باہر کی طرف بڑھ گیا تھا اور وہ اس کے عجیب و غریب رویے کی وجہ جاننے لگی۔
“جاہل انسان۔” وہ بھی جملہ کستے گراؤنڈ کی طرف بڑھی جہاں اسے ساریہ نظر آئی تھی۔
پیپر شروع ہونے کی گھنٹی بجی تو وہ دونوں کلاس کی طرف بھاگیں۔ وجیہہ آخری منٹ تک پیپرحل کرنے میں مصروف تھی پھر پیپر دیکھ کر انگلیاں چٹخا کر سر ڈیسک پر گرا لیا۔
“آوووچ!” اسکی مدہم سی چیخ اگلی دو بینچوں تک ضرور گئی تھی کیونکہ آگے کے اسٹوڈنٹس اسے گھور رہے تھے۔ چوٹ سے ہلکا ہلکا خون رسنے لگا تھا وہ باہر آئی اور سائیڈ پر کھڑی ہوکر سنی پلاس ڈھونڈنے لگی جو ہر وقت اس کے بیگ میں موجود ہوتا تھا۔
لیکن آج نہ جانے کیوں نہیں مل رہا تھا۔ ساریہ بھی پیپر دے کر گھر چلی گئی تھی کیونکہ اسے مارکیٹ سے کچھ کام تھا۔ وہ موبائل بیگ سے نکالتے کینٹین کی طرف آگئی۔
“بھائی ذرا سنی پلاس دیجیئے گا۔” اس نے ساریہ کو میسج ٹائپ کرتے ہوئے کہا۔ ساتھ کھڑے لڑکے نے منہ موڑ کر اسے دیکھا اور پھر اپنے ساتھ کھڑے اپنے دوست کو جو موبائل پر کوئی ویڈیو دیکھ رہا تھا۔
“سوری باجی سنی پلاس ختم ہوگئی ہے۔” دکاندار نے مصروف سے انداز میں جواب دیا۔ وجیہہ نے بے بسی سے اس باجی کہنے والے کو دیکھا کہ اتنی اہم چیز نہیں ہے۔ احد نے اپنا والٹ نکالا اور سنی پلاس ڈھونڈنے لگا مگر وہاں بھی ختم ہوچکی تھی۔
“میرے پاس ہمیشہ ہوتی ہے آج ختم ہوگئی۔” اس نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
” ارے کوئی بات نہیں میں نے مانگی بھی نہیں ہے۔” وجیہہ نے ایک ہاتھ سے موبائل اور دوسرے ہاتھ میں ٹشو لیے اپنے سر سے لگایا ہوا تھا۔
“اسے روک کے رکھ میں لاتا ہوں۔” وھاج نے احد کے کان میں سرگوشی کی اور کلاس کی طرف دوڑا۔
“ہوا کس طرح یہ؟” احد نے اسے باتوں میں لگایا جو شائد کچھ کھانے کا آرڈر کر کے انتظار کر رہی تھی۔
“ایک بندے سے ٹکر ہوگئی ان کے ہاتھ میں آئرن کا کوئی ڈبہ یا پتہ نہیں کیا تھا وہ سر سے لگ گیا۔” وجیہہ نے بمشکل مسکراتے ہوئے جواب دیا
“ویسے یہ اندھا تھا کون؟” احد کا سوال وھاج نے بھی سن لیا تھا۔ اس نے احد کی طرف سنی پلاس بڑھائی جو اس نے وجیہہ کو دی۔
“وہ اندھا آپ کے برابر کھڑا ہے۔” وجیہہ نے چبا چبا کر کہا اور چائے اٹھا کر میز کی جانب بڑھ گئی۔ پیچھے احد کا قہقہہ بلند ہوا۔
وھاج کو دکھ ہوا کہ اس کی وجہ سے اس لڑکی کو تکلیف پہنچی پر اگلے ہی لمحے احد کو گدھوں کی طرح ہنستے دیکھ کر اس کی ہمدردی ہوا ہوئی۔
“منحوس انسان۔” وہ دانت پیستا سینڈوچ اور چائے لے کر ایک میز کی جانب بڑھا۔ احد نے بھی اپنا لنچ اٹھایا اور وہاج کے پیچھے چل پڑا پر راستہ میں رک وجیہہ کی میز کی جانب آیا جو ان کی میز کے برابر والی خالی میز پر بیٹھی تھی۔ وھاج اس کے برابر والی میز پر ہی بیٹھ گیا تھا کیونکہ پورے کینٹین میں ایک وہی خالی تھی۔
“آج آپ اکیلی کیوں بیٹھی ہیں آپ کی دوست نظر نہیں آرہیں؟” اس نے مسکراتے ہوئے سوال کیا
“ہاں جی وہ چلی گئی ہے۔” وجیہہ نے کتاب سے سر اٹھا کر جواب دیا اور ساتھ میں ایک گھونٹ چائے کا بھی لیا۔
“تو آپ ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ جائیں۔” احد نے دعوت نامہ پیش کیا۔ پہلے تو وہ اسکی بے باکی پر حیران رہ گئی پھر دل چاہا ساری گرم چائے اس پر انڈیل دے۔
“جی نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں۔” بڑے تحمل سے جواب آیا اور وہ حسن کی دیوی کتاب میں گھس گئی۔
“میرا دوست اتنا بھی برا نہیں ہے بہنا۔” احد بھابھی بولتے بولتے رکا تھا۔ وھاج نے سر اٹھا کر وجیہہ کی جانب دیکھا جو اسے بالکل نہیں دیکھ رہی تھی بلکہ وہ تو احد کو بھی نہیں دیکھ رہی تھی بلکہ کتاب بند کرکے موبائل ہاتھ میں لے لیا تھا۔
“اگر وہاں کوئی میرا پسندیدہ لڑکا بھی بیٹھا ہوتا تو میں وہاں بھی نہ جاتی۔” وجیہہ نے موبائل میں ٹائپ کرتے ہوئے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔
“لیکن ایسا کیوں؟” احد کو حیرت ہوئی۔ وھاج بھی جواب سننے کو بے تاب تھا۔
“میں آپ کو بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔” وہ کہہ کر چائے کا سپ لینے لگی۔ احد کچھ اور بھی کہنا چاھتا تھا مگر وجیہہ نے کال ملا کر موبائل کان سے لگا لیا تھا۔ احد اپنی میز کی جانب بڑھ گیا۔
“کیا ہوگیا ہیرو؟” وھاج نے ایک نظر اٹھا کر احد کو دیکھا پھر دوبارہ موبائل میں لگ گیا۔
“میں تم سے بات کر رہا ہوں۔” احد کو طیش آیا۔
“چپ کر کے لنچ کرو۔”حکم آیا۔
“جاہل آدمی۔” احد نے زیر لب بڑبڑایا۔
“کیا فرمایا؟” وھاج نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔ احد نے زور زور سے سر نفی میں ہلا دیا۔
“اچھا یہ بتا گھڑی کیسی ہے؟” تھوڑی دیر بعد وھاج کی آواز ابھری۔
“ارے واہ تو مجھے گفٹ دینے کے لیے رسٹ واچ دیکھ رہا ہے پر میری سالگرہ تو کافی دور ہے یار۔” احد کی بات پر وھاج نے اسے ایسے دیکھا کہ جیسے اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔
“ابراہیم بھائی کو گفٹ دینے کے لئے ڈھونڈ رہا ہوں۔”وھاج کے کہنے پر احد بد مزہ ہوا۔
“چل یار شاپنگ پر میں نے گھر والوں کی کہی گئی کچھ چیزیں لینی ہے آخری پیر والے دن پشاور جانا ہے۔” وھاج کے اعلان پر احد نے حیرت سے اسے گھورا۔
“مطلب تو فیئرویل پارٹی میں نہیں آرہا؟” احد نے حیرت سے کہا۔
” آؤنگا یار۔” احد کے سوال پر اسے یاد آیا کہ سر نے کتنی تاکید کی تھی پارٹی میں آنے کی۔ احد نے شکر کیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وھاج کے فینز کے منہ لٹکے۔ آدھی یونیورسٹی اس کی فین تھی جس کی بڑی وجہ اس کی ذہانت، شخصیت اورحسن تھا شاید۔ اللہ کچھ لوگوں کو سب کچھ عطا کرتا ہے مال، ذہانت، خوبصورتی اور کشش شخصیت۔ وھاج کو بھی اللہ نے سب کچھ عطا کیا تھا لیکن وھاج نے بھی اپنے رب کو مایوس نہیں کیا تھا وہ ان سب خوبیوں کا غلط استعمال نہیں کیا کرتا تھا۔
” ویسے یار تو کسی ایک لڑکی کی طرف بھی نگاہِ غلط نہیں ڈالتا کیا کوئی پسند ہی نہیں آئی اب تک؟” احد اس سے یہ سوال کوئی ہزار دفعہ کرچکا تھا۔
“میرے بھائی مجھے شاپنگ پر جانا ہے اور کتنی بار بتاؤ نہیں آئی کوئی پسند۔” وہاج کے سامنے کچھ مناظر گھومے تھے مگر بڑی آسانی سے وہ اسے فراموش کر گیا تھا۔
“چلو۔” احد نے منہ بنایا اور وہ دونوں ایک نظر وجیہہ کی خالی میز پر ڈال کر پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ گئے۔
☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆☆ ☆ ☆
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...