وہ اپنے ڈپارٹمنٹ’ اپنی یونیورسٹی کی خوب صورت ترین لڑکی قرار دی جانے لگی… اسے رک رک کر’ مڑ مڑ کر دیکھا جاتا… پہلے وہ بےچاری تھی… بسوں میں رکشوں میں دھکے کھانے والی’ کاؤنٹر کے پیچھے سے فاسٹ فوڈ کی ٹرے دینے والی… دیکھنے والے اس پر حق سمجھ کر دیکھتے تھے… اب وہ لمبے کرتوں اور تنگ پاجاموں میں’ بیگ کو کندھوں پر لٹکائے’ فائل کو ہاتھ میں پکڑے دیکھنے والوں کو پہنچ سے دور نظر آتی… اس کے ڈپارٹمنٹ کے لڑکے اس سے بہانے بہانے سے بات کرنا چاہتے تھے… اس کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے… چند ایک لڑکیوں سے اس کی اچھی دوستی ہو گئی تھی اور ان سے بات چیت ہوتے ہی وہ انہیں بتا چکی تھی کہ وہ مس نہیں’ مسز ہے… اس سے مسز کا سنتے ہی لڑکیاں اس پر سوالوں کی بوچھاڑ کر دیتیں…… انہیں بہت بےچینی ہوئی تھی’ یہ جاننے کے لیے کہ اگر یہ ایسی دکھتی ہے تو وہ کیسا ہو گا…
لڑکوں کو جب یہ معلوم ہوا تو انہیں جھوٹ لگا… کئی ایک نے اسے سفید جھوٹ کہا… وہ جانتے تھے کہ کچھ لڑکیاں لڑکوں سے دور رہنے کے لیے یی مشہور کر دیتی ہیں کہ ان کا نکاح ہو چکا ہے یا منگنی… اب اگر یہ سفید جھوٹ بھی تھا تو افق کا انداز ایسا تھا کہ کوئی لڑکا اس کے قریب جانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا… فرزام سے شادی ہونے کے باوجود وہ لڑکوں سے سخت نفرت کرتی تھی… جہاں لڑکے اسے موبائل ہاتھ میں پکڑے یا باتیں کرتے نظر آ جاتے’ اس کا خون کھول جاتا… لڑکوں کے گروپ میں ہنسی کے فوارے پھوٹ رہے ہوتے تو اس کے پسینے نکلنے لگتے… اسے یقین ہو جاتا کہ کسی لڑکی کا مذاق اڑایا جا رہا ہو گا… وہ لڑکوں سے نفرت کرتی تھی یا ان سے خوف زدہ تھی… اس کا تاثر اس نے اپنے چہرے پر کبھی نہیں آنے دیا تھا… ہاں اس کی ذات میں ایک واضح نشان ضرور بن کر ابھر آیا تھا…
“دور رہو…”
جب وہ اور مسز گوہر کسی ہوٹل میں منعقد کسی نمائش میں جاتیں تو لوگ اسے کوئی بڑی ڈیزائنر سمجھتے… وہ دونوں دوسروں کے کام کا بغور مشاہدہ کرتی تھیں… اس سے انہیں اپنے کام میں جدت لانے کے نئے نئے آئیدیاز ملتے تھے… فیشن سے متعلق ہونے والے ایونٹ میں وہ دونوں اکثر جایا کرتی تھیں… فیشن سے متعلق ہونے والے ایونٹ میں وہ دونوں اکثر جایا کرتی تھیں… ان کا اپنا ارادہ بھی ایک ایونٹ کروانے کا تھا… لیکن ابھی نہیں…
آج کل وہ کرائے پر ایک کارنر یا دکان حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں… اب وہ ایک اور دکان کا کرایہ افورڈ کر سکتے تھے… ایڈوانس بھی ان کے پاس تھا… دوسری طرف مسز گوہر کا خیال تھا کہ اگر کوئی مناسب دکان نہیں ملتی تو کسی اچھی سوسائٹی یا ٹاؤن میں وہ لوگ ماہوار قسط پر ایک اچھا گھر لے لیں…
افق اس کے خلاف تھی… اس کا کہنا تھا کہ فی الحال بزنس کو ہی ترقی دی جائے… فرزام کا ووٹ مسز گوہر کے حق میں گیا اور اس نے گھر لینے کے لیے کہہ دیا… اس کا مشورہ یہ تھا کہ جو ادائی گھر کے کرائے کے سلسلے میں کی جاتی ہے’ وہی گھر کی قسط کی مد میں ادا کر دی جائے گی اور دکان کے ایڈوانس کے لیے وہ کچھ اور انتظار کر سکتے تھے…
لاہور کے مرکز سے ذرا سا دور ایک اچھے ٹاؤن میں انہوں نے ایک بنگلے کی ایڈوانس پےمنٹ کر دی… باقی رقم انہیں دو سال کے اندر اندر ادا کرنی تھی… مسز گوہر کی خوشی دیکھنے لائق تھی… جیسے انہیں ان کا بیچا ہوا گھر واپس مل گیا ہو… وہ بےحد خوش تھیں… جمال اور اسد کو الگ الگ کمرے مل گئے… افق کو اپنے شوہر کا اپنا گھر مل گیا…
……… ……………… ………
سیاہ لانگ کوٹ پہنے وہ ٹرالی گھسیٹتی شیشے کے دروازے کے پار دیکھ رہی تھی… اس کی فلائٹ وقت پر آئی تھی… لیکن اس کا سامان گم ہو گیا تھا… اسے اپنے سامان کو ڈھونڈنے میں کافی وقت لگا… وہ لوگن انٹر نیشنل ایرپورٹ پر موجود تھی… ایسا تو ہو نہیں سکتا تھا کہ فرزام اس کا انتظار کر کر کے چلا گیا ہو… اس نے کل ہی کہا تھا کہ اگر فلائٹ کے ساتھ کچھ ہوا تو وہ ایر پورٹ پر سو جائے گا… وہاں سے جائے گا نہیں اور وہ ہنسنے لگی تھی…
“اتنے شور میں نیند آ جائے گی؟”
وہ علامہ اقبال ایرپورٹ نہیں ہے’ جہاں آدھے سے زیادہ لوگ پکنک منانے آ جاتے ہیں… امریکیوں کا ہوائی اڈہ ہے… ہزار کیا’ لاکھ بھی ہوں تو شور نہیں ہوتا…
“کتنے اچھے ہیں امریکی….. پاکستانیوں کو تو کچھ آتا ہی نہیں…”
“طنز مت کرو… سامان باندھ لو…”
“وہ تو ماں نے کب سے باندھ دیا…”
“میرے لیے کیا لا رہی ہو؟”
“شلوار سوٹ…”
“ہیں….. اور…..؟”
“اور بس….”
“جہاز میں بس لانے دیں گے کیا؟” دیر تک قہقہہ گونجتا
رہا…
امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی نے ایک نمائش کا اہتمام کیا تھا… فرزام نے ان کے لیے بھی ایک اسٹال بک کروا دیا تھا… ان دنوں افق کے ایم اے پارٹ ون کے امتحان چل رہے تھے… اس کا خیال تھا کہ دونوں ہی آ جائیں’ لیکن صرف مسز گوہر کو ہی جانا پڑا… دو ماہ امریکا فرزام کے پاس رہ کر اور کامیاب نمائش نپٹا کر وہ واپس آ گئیں… کارخانے میں ان میں سے کسی ایک کا ہونا بھی ضروری تھا…
امتحانات کے باوجود افق نے کارخانہ سنبھالے رکھا… اس بار ویسی ہی ایک اور نمائش کے لیے افق جا رہی تھی… اس کا ایم اے ہو چکا تھا… رزلٹ آنے والا تھا… فرزام بھی ایم ایس سی کر چکا تھا… جاب وہ پہلے ہی رک رہا تھا… آج کل ایک’ دو کورسز کر رہا تھا… امریکا میں اس نے چند جگہ اپلائی کیا ہوا تھا اور اسے امید تھی کہ اسے ایک آدھ کال تو ضرور آئے گی…
افق کا ذہن وہ پہلے سے ہی بنا چکا تھا کہ ایم اے کے بعد وہ ڈریس ڈیزائننگ کا کورس امریکا سے کرے گی… مسز گوہر اس کی ایسی باتیں سن لیتیں تو بہت ہنستیں…
“ہاں’ ہاں! بھاگ جاؤ’ بھاگ جاؤ’ سب بھاگ جاؤ’ پہلے تم بھاگے’ اب افق کو تیار کر رہے ہو…”
“یہ میری ماں نے کہا یا افق کی ساس نے؟”
“دونوں نے…” وہ کھلکھلائیں…
افق کافی دیر سے کھڑی تھی… فرزام نظر آ کر نہیں دے رہا تھا… اس کا خیال تھا کہ وہ نکلتے ہی اسے سامنے کھڑا ملے گا… لیکن اب….. ہاں! ذرا دور سے آتا وہ اسے نظر آ گیا تھا… وہ تیزی سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا… ڈھائی سال دونوں نے ایک دوسرے کو آن لائن دیکھا تھا… ڈھائی سال لیپ ٹاپ سے آمنے سامنے رہے تھے… اس نے اس کی ہر ہر بات سنی تھی… بہت سے لطیفوں پر ہنسی تھی… اس کی خریدی گئی بہت سی چیزوں کو ناپسند کیا تھا… بخار اور زکام میں اس کی سرخ ناک کا مزاق اڑایا تھا…. اور اب…… وہاں کھڑے’ بھاگتے ہوئے ایک شخص کو اپنے قریب آتے دیکھتے افق کو عجیب سا لگ رہا تھا… اس کا دل دھڑک رہا تھا… اس پر اس کی پہلی نظر پڑی اور اس کے دل نے چاہا کہ چھلانگ لگا کر باہر آ جائے… اس پر اس کی نظر پڑی تو جی نہیں چاہا کہ وہ نظر واپس لوٹ آئے…
دونوں کی نظریں ملیں… فرزام خوش دلی سے مسکرایا… اس کے ایک ہاتھ میں پھول تھے… اس کے قریب آ کر وہ بریک لگانے کے سے انداز میں رکا…
“اوہ میری افق!” پھول اس کے ہاتھ میں دیے… “ایک ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا… ایک گھنٹے سے سڑک جام تھی…”
اس نے پھول پکڑ لیے… فرزام نے ٹرالی سنبھال لی…
“کسی نے تمہیں جہاز سے اتر جانے کے لیے تو نہیں کہا؟”
“ایک نے مشورہ دیا تھا کہ اتر جاؤ… کیوں پاگلوں کے ملک میں جا رہی ہو…”
فرزام کا قہقہ ایرپورٹ کی عمارت میں بکھر گیا… وہ بہت خوش نظر آ رہا تھا… اس کی طرف دیکھ کر لگ رہا تھا کہ وہ بہت دل لگا کر تیار ہوا ہے… اس کے بالوں کا اسٹائل’ اس کا نیا نیا لیا کوٹ’ نیا مفلر’ نئی گھڑی’ خاص پرفیوم…
اس نے ان میں سے ایک بھی چیز اسے آن لائن نہیں دکھائی تھی… وہ سب کا حال چال پوچھتا’ اس کا سامان کار میں رکھنے لگا…
“سفر میں بور ہی ہوئی ہو گی…… ہے نا؟”
“نہیں….. میں یہ کتاب پڑھتی رہی…” اس نے پھولے ہوئے بیگ کی طرف اشارہ کیا… فرزام کا خیال تھا’ وہ کہے گی کہ وہ اس کے بارے میں سوچتی رہی… ان گزرے سالوں میں دونوں میں بہت اچھی دوستی ہو چکی تھی… فرزام جیاے لڑکے پر افق کو بہت ناز تھا… افق جیسی لڑکی فرزام کو بہت پیاری ہو گئی تھی…
فرزام کا چھوٹا سا فلیٹ بہت پیارا تھا… شروع میں وہ ہاسٹل میں رہتا تھا… پھر چار لڑکوں کے ساتھ اپارٹمنٹ شیئر کیا… جب اسے اچھی جاب مل گئی تو اس نے اپنا الگ فلیٹ لے لیا… اس فلیٹ میں سامان کم ہی تھا… افق کے لیے اس نے ذرا اچھی طرح سے اسے ڈیکوریٹ کر لیا تھا… وقت نکال نکال کر مارکیٹوں میں دھکے کھاتا رہا تھا… پردے’ صوفے’ ٹیبل’ برتن آہستہ آہستہ اس نے بہت کچھ لے لیا
تھا… فلیٹ دو بیڈ رومز’ لاؤنج’ کچن اور ڈائننگ ایریا پر مشتمل تھا…
“یہ ماں کے گھر جتنا بڑا نہیں ہے… لان بھی نہیں ہے… الگ ڈرائنگ روم بھی نہیں ہے… یہ بڑے بڑے باتھ روم بھی نہیں ہیں’ لیکن یہ جتنا بھی ہے’ سارے کا سارا تمہارا ہے…”
افق فریش ہو گئی تو وہ اسے ڈنر کے لیے لے گیا…
“کیسا لگ رہا ہے یہاں آ کر؟”
“اچھا ہے…” افق نے فرزام سے نظر بچا کر ہال پر ایک نظر دوڑائی…
“اور میں……؟”
اس نے جیسے سنا ہی نہیں… مسکراہٹ چھپا گئی…
“اور میں….؟” اس بار چلا کر پوچھا…
“ٹھیک ہی ہیں…” دانتوں میں ہونٹ کا دائیں طرف کا کونا دبا کر کہا… ہنسی کا فوارہ نکلنے کو تھا…
“پورے سو ڈالر دینے کے بعد میں ٹھیک ہی ہوں بس…”
افق نے سو ڈالر پر سوالیہ دیکھا…
“جی ہاں…… Men’s Spa سے آ رہا ہوں….. سو ڈالرز میں تیار ہو کر…”
انداز میں خفگی تھی… سو ڈالرز ضائع جانے پر یا تعریف نہ کیے جانے پر… وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی تو دیر تک ہنستی ہی رہی… وہ کوئی لیڈی ڈیانا تھی’ جس کے آنے پر وہ اس طرح سے بن ٹھن رہا تھا… افق نے آتے ہوئے لپ گلوز لگایا تھا’ جو اتنی لمبی فلائٹ میں کب کا گم ہو چکا تھا… یہاں آتے ہوئے بھی اس نے صرف کپڑے ہی تبدیل کیے تھے… بلیک شیفون کا سوٹ جس کے تنگ بازوؤں پر سفید موتیوں کی تین لائن بنی تھیں اور ایسی ہی تین لائنیں دوپٹے کے چاروں طرف تھیں… سامنے سے بال اٹھا کر انہیں چند بل دے کر پیچھے پن لگا لی تھی اور بالوں کی ڈھیلی چوٹی بنا کر انہیں پیچھے سے لا کر بائیں کندھے پر رکھا تھا… دائیں کندھے پر دوپٹا سلیقے سے جمایا ہوا تھا…
“اب تمہیں بہت ہنسی آیا کرے گی…”
“کیوں؟”
“میں اب بہت الٹا پلٹا سا بچہ بن گیا ہوں…”
اس انداز پر وہ اور ہنسی…
“دیکھا….. مجھے معلوم تھا… تمہیں بھی بتا دیا ہے…”
ساتھ ساتھ وہ دونوں کھانا کھا رہے تھے…
“تمہارے پاس ایک ہفتہ ہے گھومنے پھرنے کے لیے…”
“پھر؟” وہ سمجھی کہ شاید ایک ہفتے بعد وہ کہیں چلا جائے گا…
“پھر تمہیں نہیں معلوم؟ ایونٹ پر نہیں جانا تمہیں نمائندگی کرنے؟”
“جی ہاں!” اسے یاد آیا کہ یہاں وہ چنر کی آؤٹ لیٹ (Out let) لے کر آئی ہے اور کچھ پاکستانی بوتیک مالکان تھے’ جن سے ان کی بات چیت چل رہی تھی… اسے فرزام کے ساتھ مل کر یہاں مستقل ایک کارنر ڈھونڈنا تھا… ان کے جو مستقل کسٹمرز بوسٹن میں رہتے تھے… انہوں نے وعدہ کیا تھا ہر طرح کی مدد کرنے کا… ایونٹ دس روزہ تھا اور اس کے بعد ہی کچھ ہو سکتا تھا… ابھی تو فی الحال فرزام کو شپ منٹ لانا تھی…
پاکستانی اور انڈین کمیونٹی نے مل کر اس ایونٹ کا اہتمام کیا تھا… ان کے ایک کلائنٹ نے ہی انہیں اس کے بارے میں بتایا تھا… باقی معلومات فرزام نے حاصل کر لی تھی… بکنگ انہیں آسانی سے مل گئی تھی…
دس روزہ ایونٹ ٹھیک ٹھاک رہا… جاب کے ساتھ ساتھ فرزام نے اس کی مدد بھی کی… اسی ایونٹ کے دوران ان سے ایک بڑی اور فعال این جی او کا نمائندہ ملا… وہ انہیں این جی او کی طرف سے کروائے جانے والے دوسرے ایونٹ میں شامل ہونے کے لیے راضی کر رہے تھے… جس کا مقصد فنڈز اکٹھا کرنا تھا… این جی او تھرڈ ورلڈ میں بچوں کی عام وبائی بیماریوں کی ویکسین مفت سپلائی کرنے کا کام کرتی تھی اور اس کے لیے وہ کمیونٹیز کو اکٹھا کر رہی تھی… این جی او کے ساتھ کام کرنے والے مجموعی منافع کا پچیس فیصد رکھ سکتے تھے… باقی کا منافع انہیں این جی او کو فنڈ دینا تھا…
افق نے پاکستان میں مسز گوہر سے بات کی… انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا… وہ مطلوبہ آرڈر تیار کروا کے امریکا بھجوا سکتی تھیں… افق نے معاہدے پر دستخط کر دیے… معاہدے کی رو سے اگر وہ ایک خاص شرح سے زیادہ فنڈز اکٹھا کر کے دیں گی تو اسے این جی او کا رکن جانا جائے گا اور وہ این جی او کو اپنی آراء اور مشوروں سے نواز سکتی ہے… ایونٹ کے باقاعدہ شروع ہونے میں ایک مہینہ تھا… ہفتہ اور اتوار’ دو دن انہیں شہر کے مختلف کمیونٹی سینٹرز میں نمائش منعقد کرنی تھی… ہر ہفتے نئی جگہ ہو گی…
این جی او نے اسے دو رضاکار بھی دے دیے… کام کرنے اور کسی بھی مسئلے سے نبٹنے کے لیے… مقامی اور غیر ملکی پچاس سے زیادہ گروپس شرکت کر رہے تھے… پمفلٹ پر “چنر” کو بھی نمایاں جگہ دی گئی تھی… اخبارات میں اشتہارات دیے گئے… ٹی وی میں فنڈز ریزنگ کے لیے تشہیر کی گئی…
اسے معلوم نہیں تھا امریکا آ کر وہ پاکستان سے بھی زیادہ مصروف ہو جائے گی… کارخانے میں ان کی ایک اسسٹنٹ تھی’ مس سندس… افق سارا وقت اس سے آن لائن رابطے میں رہتی… دونوں آپس میں ڈسکس کرتی رہتیں کہ کس ڈیزائن اور کس مٹیریل کو لے کر کام کرنا ہے’ رنگ کون سے اچھے رہیں گے اور کس کپڑے کو بوسٹن کے لوگ پسند کریں گے… وہ پاکستانی مخصوص روایتی لباس ہی بنا رہے تھے… لیکن کیونکہ اس ایونٹ میں ہر ملک کے لوگ آنے والے تھے تو انہوں نے جینز پر پہننے کے لیے مختلف ڈیزائن کے کرتوں پر بھی کام کیا تھا اور چھوٹے کراس بیگ پر ٹین ایج لڑکیوں کے اسٹائلز پر بھی…
یہ ایونٹ تین مہینے تک جاری رہنا تھا… ان کے پاس کام کے لیے وقت تھا پہلا اسٹاک جلد ہی مل جانا تھا… این جی او کی طرف سے انہیں بریفنگ دی جا رہی تھی اور ٹرینڈ کیا جا رہا تھا… انہیں بتایا جاتا کہ انہیں کیسے اپنی مصنوعات کو ڈسپلے کرنا ہے… کم سے کم پرائز ٹیگ کیا ہونے چاہئیں اور زیادہ سے زیادہ کیا… انہیں پہلے جمع کیے گئے فنڈز کے بارے میں بتایا گیا… انہیں اچھی طرح بریف کیا گیا کہ کس طرح وہ پہلے سے زیادہ فنڈز اکٹھا کر سکتے ہیں… این جی او کے ریکارڈ کو توڑ سکتے ہیں… ان سے سوالات کیے جاتے… مشورے مانگے جاتے… انہیں تھرڈ ورلڈ کے بیمار بچوں کی مختصر ڈاکومنٹریز دکھائی جاتیں… یوں انہیں فنڈ ریزنگ کے لیے اچھی طرح تیار کر لیا گیا…
……… ……………… ………
“ایک بار ماما نے کہا تھا کہ افق “خیر” ہے… تم تو زیادہ ہی “باعث خیر” بن گئی ہو…” بات اچھی تھی’ لیکن انداز ذرا افسردہ سا تھا…
وہ ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر بیٹھی اپنا کام رک رہی تھی… قریب ہی پاکستان سے بھیجا گیا پہلا اسٹاک بکھرا پڑا تھا… وہ انہیں جانچ رہی تھی اور الگ الگ کر رہی تھی’ ساتھ ساتھ پیڈ پر نوٹس لکھتی جا رہی تھی… ایونٹ کے پہلے ہفتہ کے لیے وہ خاص الخاص کلیکشن کا انتخاب کر رہی تھی…
“کیا مطلب…..؟” پین کو تیزی سے چلاتے اس نے پوچھا… فرزام نے آگے بڑھ کر اس کا پین اچک لیا…
“کہو تو میں نہ جاؤں…” قریب ہی کی کرسی پر وہ بیٹھ گیا…
بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی… “کہاں؟”
“کینیڈا…” دونوں ہاتھوں کو اداسی سے ٹھوڑی کے نیچے رکھا…
“آپ کے آفس والے بھیج رہے ہیں؟”
“نہیں….. آٹھ ماہ پہلے میں نے وہاں کی ایک کمپنی کو درخواست دی تھی… ساتھ ہی اپنے کام کی تفصیل اور سی ڈی بھی بھیجی تھی… کمپیوٹر سے متعلق کچھ نئی اصلاحات پر کام کیا ہے میں نے… چند سوفٹ ویئرز بھی میں سمجھتا ہوں کہ میں کامیابی سے بنا سکتا ہوں… وہ مجھے انٹرویو کے لیے بلا رہے ہیں…” باتیں وہ اچھی کر رہا تھا… لیکن منہ بگڑتا ہی جا رہا تھا…
“تو جائیں نا…” دراصل وہ سمجھ ہی نہیں پائی تھی وہ اداس کیوں ہو رہا ہے…
“ہاں تو جا ہی رہا ہوں…” وہی لالی پاپ نہ ملنے کا انداز… افق کو حیرانی تھی کہ وہ خوش کیوں نہیں ہے…
“تم مجھے پسند نہیں کرتیں؟” اس نے اچانک پوچھا جیسے دراصل یہی پوچھنا چاہ رہا ہو… افق نے الجھ کر اس کی طرف دیکھا کہ اس نے یہ سوال کیوں کیا اور یہ کیوں سمجھا کہ وہ اسے پسند نہیں کرتی…
“یہ کیا سوال ہے……؟” وہ واقعی حیران تھی…
“تم مجھے روک ہی نہیں رہیں… تمہیں کہنا چاہیے تھا کہ نہ جائیں نا….. تم نے کہہ دیا کہ جائیں نا…”
“اوہ…..” افق کی سمجھ میں اب بات آئی تھی… اس کی نگاہیں جھک گئیں اور اس نے سامنے رکھے پیڈ پر انہیں گاڑ دیا…
وہ جو دونوں کے تعلق کے درمیان ایک فاصلہ بنیاد سے ہی چلا آ رہا تھا’ وہ اب بھی وہیں تھا’ وہ کم ضرور ہو رہا تھا لیکن ابھی تک موجود تھا… فرزام اس کے ساتھ چہل قدمی کرتا تھا… لیکن اس کی کمر میں اپنے بازو حمائل نہیں کرتا تھا… نہ ہی اس کا بازو تھامتا تھا… جب افق کچن میں کام کر رہی ہوتی اور وہ اس کے پاس آ کر کھڑا ہو جاتا تو کچھ نہ کچھ ضرور افق کے ہاتھ سے گر جاتا اور وہ مسکراہٹ دباتا کچن سے چلا جاتا… اگر انہیں ایک ہی صوفے پر بیٹھنا ہوتا تو وہ ذرا فاصلہ رکھ کر بیٹھتے… ورنہ الگ الگ صوفوں پر ہی بیٹھتے… وہ رومانس کے دور میں داخل ہو رہے تھے… لیکن رومانس کرتے نہیں تھے…
افق جب اکیلی ہوتی’ بس میں بیٹھے….. ٹیوب میں….. این جی اور کی بریفنگ لیتے…… سبزی اور گوشت کی خریداری کرتے….. ڈھیر سارے بیگز کو ہاتھ میں پکڑے…… فٹ پاتھ پر چلتے….. سڑک کو پار کرتے….. ٹکٹ لیتے…… گھر کا لاک کھولتے…. وہ اسی کے بارے میں سوچ رہی ہوتی… وہ دن رات اسے سوچتی… کام کے دوران بھی اسے کھوجتی… پاکستان میں وہ اس کے آن لائن آنے کا انتظار کرتی تھی… یہاں وہ اسے بار بار دیکھنے کا انتظار کرتی تھی… پاکستان میں وہ انتظار کم تھا… یہاں بہت بڑھ گیا تھا… فرزام اس کا شوہر تھا… جس کے کھو جانے کا اسے کوئی خوف نہیں تھا… جس کے چلے جانے کا کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا… وہ اسے بہت بہت پسند کرتی تھی… بہت یاد کرتی رہی تھی…
“نہ جائیں…..” اس نے اعتماد سے کہہ دیا… وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ سمجھے کہ وہ اسے پسند نہیں کرتی اور وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ جس کام کے لیے اس نے اتنی محنت کی ہے’ وہ صرف اس کی وجہ سے اس محنت کا ثمر نہ کھائے… اگر وہ امریکا نہ آئی ہوتی تو وہ چلا ہی
جاتا… اس طرح اس کے کہنے پر وہ بہت خوش نظر آنے لگا… جیسے جانا تو اسے بھی ہے… لیکن روکے جانے کی اسے بہت خواہش ہے…
“میں تمہیں یہاں بلا کر خود یہاں سے جانا نہیں چاہتا… میں جانتا ہوں… انٹرویو تو بہانہ ہے… میرا کام انہیں پسند آ گیا ہے… وہ میرے آگے کانٹریکٹ رکھ دیں گے…” ٹیبل پر رکھے اس کے ہاتھ پر اس نے ہاتھ رکھ دیا…
افق کا دل چاہا کہ وہ ہاتھ اٹھا لے اور یہ بھی کہ وہ اس کے ہاتھ پر ہی رہے… وہ سمجھ گئی کہ وہ جانا بھی چاہ رہا ہے اور رکنا بھی…
“ایسے سنہری موقعے بار بار نہیں ملتے…”
اس بات پر وہ خاموشی میں سمٹ گئی… وہ چاہتی تھی کہ فیصلہ وہ خود کرے… اگر وہ اسے جانے کے لیے کہے تو شاید وہ برا جان جائے اور اگر روک لے تو اس کا خواب توڑ دے…
دو دن وہ ایسے ہی الجھا رہا…
“اس پروجیکٹ پر کام کرنے سے مجھے اچھے خاصے پیسے ملیں گے… میں کافی امیر ہو جاؤں گا… بہت زیادہ اپنے پیسوں والا… پھر تم میرے ساتھ پیرس چلو گی؟”
یہ صرف ایک سوال تھا… لیکن سر ہلانے سے پہلے جب اس نے اس کی طرف دیکھا تو جانا کہ یہ صرف ایک عام سا سوال نہیں ہے یہ ان دونوں میں چھپی ہوئی “محبت” ہے… مدھم سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں اور آنکھوں میں چمکی… فرزام کی نظریں اسی چمک دمک پر ٹکی تھیں…
“ٹھیک ہے… طے ہوا…. ابھی تو ایسا ہے کہ زندگی افراتفری کا شکار ہے… تم فنڈ ریزنگ کے لیے کام کر رہی ہو… بوسٹن میں تمہیں ایک کارنر بھی چاہیے… ماں مجھے بار بار فون کر کے کہہ رہی ہیں کہ ان کے کارنر کا کیا بنا… ایک دو لوگوں سے بات چل رہی ہے… ساتھ چلنا… تم بھی مل لینا اور میرے آنے سے پہلے ہر کام سے فارغ ہو جانا… ٹھیک ہے…” ساتھ سر بھی ہلایا…
“پروجیکٹ پر ہی کام کروں گا… کمپنی مجھے جاب بھی دے گی… لیکن مجھے کینیڈا میں نہیں رہنا… وہاں کا موسم نہیں پسند مجھے… اگر وہ مجھے برطانیہ میں اپنی کمپنی کی برانچ میں سیٹ کر دیں تو ٹھیک ہے… میرے بھی کچھ خواب ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میں برطانوی حکومت کو یہ بتا سکوں کہ انہوں نے کس قدر لائق فائق لڑکے کو نکال باہر کیا… ویزا دینے سے انکار کر دیا…اس بار انہیں مجھے اعزاز سے ویزا دینا ہو گا…”
ماما کہتی تھیں کہ وہ پریشانی اور خوشی میں بولتا بہت ہے…اب افق کی یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ خوشی میں بول رہا ہے یا پریشانی میں… افق نے سوچا کہ اسے ایک بار پھر فرزام کو روکنا چاہیے… شاید وہ یہی چاہتا ہے…
“اگر دل نہیں چاہ رہا تو نہ جائیں…”
بولتے بولتے رک کر وہ اسے دیکھنے لگا… “مذاق کر رہی ہو؟”
سر نفی میں ہلایا… “روک رہی ہوں…”
“اب میں تمہیں پیرس گھوما کر ہی رہوں گا… چند دنوں کی بات ہے’ میں سیٹ ہو جاؤں گا…” آخری بات کہتے کہتے منہ کو زیادہ لٹکایا…
ہفتے کے اندر اندر وہ چلا گیا… وہ اپنے کام میں بےحد مصروف تھی… لیکن اس بار یہ مصروفیت اسے اچھی نہیں لگی…بوسٹن آنے کے بعد دو ہفتہ وہ گھومتے رہے تھے… وہی ٹھیک تھا… وہ کام سے نہیں تھکتی تھی لیکن اب اسے اپنے آس پاس فرزام چاہیے تھا… جیسے وہ ٹیبل پر بیٹھی کام کر رہی ہوتی تو وہ اچانک سے اس کا پین آ کر اچک لیتا… سندس کو “بائے بائے” کہتا…چاکلیٹ دودھ کا گلاس اس کے سامنے لا کر رکھتا اور ایم پی تھری کے ایر فون اس کے دونوں کانوں میں لگاتا…
“پہلے گلاس ختم کرو… پھر کم سے کم تین گانے سنو… پھر کام شروع کرنا…” وہ گلاس پی جاتی… تین گانے سن لیتی اور پھر سے پین پکڑ لیتی… رات گئے سندس کے ساتھ وڈیو چیٹ پر جب وہ ڈسکشن کر رہی ہوتی تو قریب ہی صوفے پر آڑا ترچھا لیٹے وہ اپنی جمائیاں روک رہا ہوتا…بظاہر وہ ٹی وی دیکھ رہا ہوتا… لیکن دراصل اسے الارم دے رہا ہوتا کہ اب بس کرو کام…… اور دوسری تیسری بار جب وہ اس پر نظر ڈالتی تو وہ صوفے سے لڑھک کر نیچے کارپٹ پر سو رہا ہوتا… اس نے ٹھیک کہا تھا کہ وہ الٹا پلٹا سا بچہ بن گیا ہے…
اور افق جیسے اقوام متحدہ کی سفیر بن گئی تھی… کام اس کی طرف کھینچے چلے آتے… گھر کے کام اور کھانا وہ پہلی فرصت میں ہی بنالیتی تھی… باقی کے اپنے کام سارا وقت کرتی…
“کیا تم روز کھانا بنا لیتی ہو یار!” ایک دن وہ آفس سے آ کر بولنے لگا…
“نہ بنایا کروں؟”
“کبھی کہہ ہی دیا کرو کہ “فرزام جی! مجھ سے نہیں ہوتے اتنے کام….یہ کھانا وانا میں نہیں بنا سکتی اب….. چلیں! کہیں باہر چل کر کھاتے ہیں…” وہ اس کی آواز اور انداز کی بھرپور نقل اتار رہا تھا…
“فرزام جی!” اسی کی طرح “فرزام جی” کو تان میں کھینچا… “ہم یہ کھانا باہرچل کر کھا لیں؟”
“یہ کھانا…..باہر کہاں؟”
“اس بلڈنگ کے گارڈن میں…….” ہاتھ کھڑکی کی طرف اشارہ کیا…
“تمہارا خیال ہے کہ باہر کھانا کھانے سے میرا یہ مطلب ہے… گھر میں پکاؤ اور باہر جا کر کھا لو… ہو گیا باہر جا کر
کھانا… ایسا کرتے ہیں’ کسی ہوٹل کی پارکنگ میں اپنی چمچ پلیٹیں اور گلاس لے کر چلتے ہیں اور وہاں کھاتے ہیں کھانا… ایسے ہو جائے گا’ ہوٹل میں کھانا کھانا…”
وہ خوب ہنسی اور منٹوں میں تیار ہو کر آ گئی…
“چلیں…”
“کہاں؟” فرزام کو معلوم تو تھا… لیک. اسے چڑا رہا تھا…
“ہوٹل کی پارکنگ میں کھانا کھانے…”
دونوں جی جان لگا کر ہنسے…
……… ……………… ………
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...