پری زندگی میں پہلی بار شاہ زر کے کمرے میں آئی تھی وہ بھی ایک ان چاہے رشتے کے ساتھ ۔ کیوں کہ شاہ نے کسی کو بھی یہ حق نہیں دیا تھا کے کوئی بھی اس کی کمرے کے اندر کی زندگی میں مداخلت کر ے۔ اس نے کمرے کا جائزہ لیا کمرہ بہترین طریقے سے سجایا گیا تھا کمرے میں ایک جہازی سائز کا بیڈ پڑا تھا جس پر خوبصورت بیڈ شیٹ پڑی ہوئی تھیں پاس میں دو کرسیاں پڑی ہوئی تھی کمرہ ہر لحاظ سے ایک بہترین کمرہ تھا ۔وہ اپنے ہی خیالوں میں بیٹھی کمرے کا جائزہ لے رہی تھی کے اچانک دروازہ کھلنے کی آواز پر چونک گئی اور خیالوں کی دنیا سے لوٹ آئی۔
وہ کمرے کے بیچ میں ناجانے کب سے کھڑی تھی ایک دن میں ہی اسکی زندگی میں اتنا سب کچھ ہو گیا کہ اس کو سمجھنے کا وقت ہی نہ ملا وہ تو ابھی جی بھر کر رونا چاہتی تھی جی بھر کر اپنی قسمت پر ماتم کرنا چاہتی تھی
یہاں کھڑی کیا سوگ منا رہی ہوں ارحم کے نہ آنے کا افسوس کر رہی ہوں تو اس کے لیے پوری عمر پڑی ہے میری جان وہ کہتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس کے بےجان ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور پری ہوش کی دنیا میں واپس آئی اور اپنا ہاتھ اس ظالم انسان کے گرفت سے آزاد کرانے کی کوشش کی پر اگلا بھی شاہ زر تھا
می میرا ہا ۔۔ ہاتھ چھوڑ ے اس کی آنکھوں میں آنسوں اور نگاہوں میں التجا تھی شاہ کی جگہ اس ٹائم کوئی اور ہوتا تو اتنے مکمل وجود پر عاشق ہو گیا ہوتا وہ لگ بھی آج کمال رہی تھی
نہ چھوڑوں تو ۔۔۔کیا کر لوں گی تم وہ آج کس بھی حال میں ترس کھانے کے موڈ میں نہیں تھا
دیکھے شاہ زر آپ جانتے ہیں بابا نے یہ شادی کس وجہ سے کی ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ اپنی حد میں رہے میں اس وقت بات کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں آپ اور میں ایک دوسرے کے لیے بچپن سے اجنبی رہے ہیں بہتر ہے اب بھی جب تک معاملہ حتم نہیں ہو جاتا مجھ سے دور رہے وہ غصّے سے گویا ہوئی اور اپنا ہاتھ چھوڑنا چاہا پر آگلے کی گرفت بھی مضبوط تھی
شاہ زر نے جھٹکا دے کر اسے کھینچا وہ اس حملے کے لیے تیار نہیں دی جا کر شاہ زر کے سینے سے ٹکرائی شاہ زر نے ہاتھ چھوڑ کر اسے خود سے دور کیا
تم لوگوں نے مجھے الو کا پٹھا سمجھ رکھا ہے کہ جب دل کیا مجھے استعمال کیا جب مقصد پورا ہوا تو مجھے راستے سے ہٹا دوں گے نہیں پری صاحبہ یہ تمہاری بھول ہے اب تم تمام عمر یوں ہی جیو گی مرو گی بھی وہ غصّے سے ڈھارا
میں ابھی جا کر پاپا کو تمہاری اصلیت بتاؤ گی پاپا سچ کہتے ہے جسی ماں ویسا بیٹا ماں نے تو پتا نہیں کس کے ساتھ منہ کالا۔۔۔۔
اس سے پہلے کے وہ اپنی بات پوری کرتی شاہ زر کا ہاتھ اٹھا اور پوری قوت سے پری کو تھپڑ مارا وہ لڑکا رہ کر دو قدم پیچھے ہوئی ۔
کم زاد عورت تمہیں میں جان سے مار دوں گا اگر اپنی اس گندی زبان سے میری ماں کا نام بھی لایا تو یہ زبان کاٹ کر رکھ دوں گا
وہ غصے سے بے قابو ہو رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سامنے کھڑے انسان کا قتل کر دے
سامنے سے ہٹو میرے اس نے دھکا دے کر پری کو اپنے سامنے سے دور کیا وہ جا کر دیوار کے ساتھ لگی ۔ وہ واش روم کے اندار کھس گیا
پر روکا واپس مڑا اور پری کو کے پاس روکا
اور ایک بات اب اگر طلاق کی بات بھی کی نا تو خدا کی قسم میں تمھارے ماں باپ کا جینا حرام کر دوں گا اور تمہیں جان سے مار دوں گا سمھجی ۔۔۔۔۔۔۔
اور ہاں میری کسی چیز کو ہاتھ مت لگانا تم یہاں زمین پر سو گی اج سے
ایک تھپڑ کھانے کے بعد پری میں ہمت نہیں تھی کہ وہ آگے سے کچھ کہ سکتی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارحم شکستہ دل کے ساتھ گھر میں داخل ہوا اس کی ساری فیملی ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہوئی تھی وہ تھے ہی کتنے لوگ ایک باپ ماں ایک بہن اور ارحم ٹوٹل چار لوگ کتنے خوش تھے وہ سب آج ان اکلوتے بیٹے کی شادی تھی پر پتا نہیں کس کی نظر ان کے ہستے بستے گھر کو لگ گئی سب کچھ ہی ختم ہو گیا
صبح تک جس گھر میں شادی کے ہنگامے تھے اب وہاں موت کا سماں تھا۔
کہاں تھے ارحم سب سے پہلے اس کی ماں اٹھ کر اس کے پاس آئی ارحم کو دیکھ کر ان کا دل تڑپ اٹھا کتنا خوش تھا ان بیٹا پھر آخر ایسا کیا ھوا کہ سب کچھ ایک دم سے حتم ہو گیا
ارحم نے اپنی ماں کو دیکھا اور ضبط گھو گیا وہ ان کے گلے لگ کر رو رہا تھا باپ اور بہن بھی بےقرار ہو کر اس کے قریب آئے
صفا بیٹا جاؤ بھائی کے لیے پانی لاؤ ماں نے ارحم کو خود سے الگ کر کے صوفے پر بیٹھایا ۔صفا نے جلدی سے ارحم کو پانی دیا جو اس نے ایک سانس میں پی لیا ۔
اب بتاؤ کیا ہوا تھا بیٹا ایسا کہ تم نے اتنا بڑا قدم اٹھایا صمد صاحب نے دھیرے سے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا جیسے تسلی دے رھے ہوں کے ہم ہے نہ تمھارے ساتھ۔
ارحم نے سہارا ملتے ہی دھیرے دھیرے سب بتایا جو اس کے ساتھ ہو چکا تھا ۔
جیسے سنتے ہی سب سکتے میں چلے گئے۔ یہ سب شاید ان کی قسمت میں لکھا گیا تھا۔
تم پریشان مت ہوں بیٹا ہم صبح ہی جا کر دانیال صاحب سے بات کرے گے وہ ضرور ہماری بات سمجھے گے تم اب جاؤ آرام کرو پری ضرور تمہیں ہی ملے گی ۔
وہ سب لوگ اپنے کمرے کی طرف چلے گئے اور ارحم واہی بیٹھا ماضی میں کھو سا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پری کا یونیورسٹی کا پہلا دن تھا ہر نئے آنے والے کی طرح وہ بھی تھوڑی بہت گھبرائی ہوئی تھیں۔ اگر چہ وہ کافی حد تک خوداعتماد تھی پر بھی تھوڑہ سا گھبرانا فطرتی عمل تھا ہر نئی جگہ پر خود کو ایڈجسٹ کرنا مشکل ضرور ہوتا ہے ناممکن نہیں اور پری جیسی لڑکیاں جنہیں گھر میں ہر قسم کی آزادی ملی ہو ان میں اعتماد کافی حد تک پایا جاتا ہے وہ ہر میدان میں اپنا آپ منوا لیتے ہیں ۔
واس نے جینز کے ساتھ کرتا پہنا ہوا تھا یہ اس کی فیورٹ ڈریسنگ تھی اکثر اوقات وہ اسے ہی کپڑے پہنتی دوپٹا گلے میں ہوتا بالوں کو پونی میں بند کیا ہوتا وہ اس سٹائل میں بھی بہت منفرد لگتی تھی ۔۔
اس نے بہت کم وقت میں اپنے ڈیپارٹمنٹ میں اپنا نام بنا لیا تھا وہ پڑھائی میں اچھی تھی ۔
ارحم بھی پری کا کلاس فیلو تھا اپنے کام سے کام رکھنے والا ۔۔ ایک دن سر اجمل نے گروپ پریزنٹیشن دی جس میں ارحم اور پری کا گروپ تھا وہی سے ان دونوں کی دوستی کا آغاز ہوا۔۔
آج پری نےبلک لانگ فراق پہنا ہوا تھا بالوں کو جوڑے کی شکل میں اونچا باندھا ہوا تھا ۔اور دونوں سائیڈوں سے کچھ آوارہ لٹے بار بار اس کے چہرے کا طواف کر رہی تھی ۔
آج یونی میں مینابازار تھا بہت سارے سٹوڈنٹس نے سٹال لگایا تھا پری صرف ارحم کے کہنے پر آئی تھی ورنہ اسے اس قسم کے فنکشن میں آنا پسند نہیں تھا وہ یہ وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ گزارنا پسند کرتی تھی
“شکر پری تم آ گئی کب سے انتظار کر رہا تھا تمہارا”ارحم نے پری کو دور سے آتے دیکھ لیا تھا تبھی جلدی سے اس کے پاس آیا
“ہاں اور ارحم تم جانتے ہو میں صرف تمہاری وجہ سے آئی ہو یو نو نہ مجھے اسے فنکشن میں آنا بلکل پسند نہیں”وہ ناراضگی سے گویا ہوئی۔ ارحم نے نظر اٹھا کر پری کو دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا وہ آج بہت بدلی ہوئی لگ رہی تھی۔ ہمیشہ سے جینز پہننے والی لڑکی آج مشرقی لباس میں نظر لگ جانے کے حد تک پیاری لگ رہی تھی ۔۔ آج ارحم نے اپنا دل پری کے خوبصورتی اور اس کی معصومیت پر ہار دیا تھا “ارحم کیا ہو گیا ہے ایسے کیوں دیکھ رہے ہوں” ارحم ہوش کی دنیا میں واپس آیا ۔ “یار آہی گئی تو موڈ ٹھیک کرو بلکل چڑیل لگ رہی ہوں”وہ شرارت سے گویا ہوا۔ “سچ میں کیا ارحم میں پیاری نہیں لگ رہی ماما نے زبردستی مجھے یہ ڈریس پہنے کو دیا میں یہ پہنا نہیں چاہتی تھی دیکھوں کتنی آور لگ رہی ہوں نہ” وہ رو دینے کو تھی ۔
“ارے بیوقوف لڑکی کس نے کہا تم پیاری نہیں لگ رہی تم تو آج بہت منفرد لگ رہی ہوں بہت پیاری بلا میری دوست بری لگ سکتی ہے کیا” وہ ایک دم سے کھل اٹھی “تھینک یو ارحم تم بہت اچھے ہوں”وہ سچے دل سے بولی ۔”اور تم بھی چڑیل ” ارحم وہ چلائی ہاہاہا ارحم نے قہقہہ لگایا پری بھی اس کے ساتھ ہی ہسنے لگی ۔ آج کا پورا دن ان دونوں نے مل کر بہت انجوائے کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پری اور ارحم اس وقت یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھیں چونکہ اب فائنل ہونے والے تھے تو زیادہ تر سٹوڈنٹس گھروں میں بیٹھ کر پیپرز کی تیاری کر رہے تھے۔ پری اور ارحم ساتھ بیٹھے پڑ رہے تھے آخری سمیسٹر تھا پری اس بار بھی ٹاپ کرنے کے لیے بے چین تھی ۔
“پری میں تم سے اج ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں” ارحم نے کتاب بند کر کے گھاس پر رکھی اور پری کی طرف متوجہ ہوا۔
“ہاں بولو میں سن رہی ہوں”اس نے کتاب سے نظریں ہٹائے بنا جواب دیا”نہیں تم پہلے کتاب بند کرو ارحم نے خود ہی اس کی بک لے کر سائیڈ پر رکھی پری نے سوالیہ نظروں سے ارحم کو دیکھا”ایسی بھی کیا بات ہے ارحم جانتے بھی ہوں کچھ روز بعد پیپرز ہے اور تم ہو کے سیریس ہی نہیں ہو رہے”پری نے کھا جانی والی نظروں سے ارحم کو دیکھا۔۔
“میری بات بھی بہت ضروری ہے پری “وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔ “ہاں کہو سن رہی ہوں میں”۔ تم جانتی ہوں پری میں نے پاپا کا بزنس جوائن کیا ہے یونی کے بعد اب واہی ہوتا ہوں کچھ دنوں بعد ہم یہاں سے فارغ ہو جائے گے ماما پاپا چاہتے ہیں کے میں شادی کر لوں اب ”
“واہ زبردست یہ تو بہت خوشی کی بات ہے ارحم “وہ خوشی سے چلائی اس پاس کے کچھ سٹوڈنٹس نے عجیب نظروں سے انہیں دیکھا
“ہاں اور آج میں ارحم صمد پریشے دانیال سے کہنا چاہتا ہوں کیا پری تم مجھ سے شادی کرو گی “وہ پری کے آنکھوں میں دیکھ کر بولا
پری کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی “دیکھوں پری میں آج سے نہیں بہت پہلے سے تمہیں پسند کرتا ہو بتایا اس لیے نہیں کے ہم دونوں ہی پڑھ رہے تھے تم مجھے جانتی ہوں اور میں تمہیں کیا میں ماما پاپا کو تمہارے گھر بھیج دوں”
“دیکھوں ارحم تم میرے بہت اچھے دوست ہو رہی شادی کی بات تو اس کا فیصلہ ماما پاپا کرے گے “پری نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔ “ٹھیک ہے پری مجھے یقین ہے انکل آنٹی ضرور راضی ہو گئے آخر کو اتنا ہینڈسم بندہ ہو اور کون کرے گا تم چڑیل سے شادی سوچا میں ہی قربانی کا بکرا بن جاؤ”اب اس کی آنکھوں میں شرارت تھی “میں تمہارا سر پھوڑ دوں گی ارحم” پاس پڑی کتاب لے کر پری نے ارحم کے سر پر ماری “ظالم چڑیل” ارحم نے منہ بنایا پری کھلکھلا کر ہنسی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں کے گھر والے آپس میں ملے دنوں کو ایک دوسرے کے رہن سہن بہت پسند آئے کچھ چھان بین کے بعد رشتہ پکا کر لیا گیا تھا اور آج ارحم کے گھر والے پری کو رنگ پہنانے آئے تھیں۔
پری نے لائٹ پنک لانگ مکسی پہنی تھی وہ آج پارلر سے تیار ہوئی تھی خوبصورت میک اپ کے ساتھ بہت پیاری لگ رہی تھی دیکھنے والے بس دیکھتے رہ گئے ۔ارحم بھی بلک ڈریس میں کسی سے کم نہیں لگ رہا تھا دونوں کی جوڑی بہت پیاری لگ رہی تھی۔
آج خلاف معمول شاہ زر گھر پر ہی تھا ۔ وہ اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑا نیچے ہونے والی تقریب دیکھ رہا تھا ۔ “ماں آ کر دیکھیے ناں آج بھی آپ کا بیٹا بلکل اکیلا ہے کوئی بھی تو نہیں ہے میرا یہاں آکر دیکھے نا سب کتنے خوش ہے وہ لوگ جنہوں نے ہمارے ہستے بستے گھر کو آگ لگا دی وہ آج بھی جشن منا رہے ہیں ماں ۔۔۔۔ ۔ ۔ ” وہ اج پھر سے پانچ سال کا بچہ لگ رہا تھا وہی بچہ جس کی ماں اس کے سامنے تڑپ تڑپ کر مر رہی تھی اور وہ کچھ نہیں کر سکا تھا ۔ پر اب زندگی میں وہ لمحہ آ گیا تھا کہ وہ اپنے ماں کے ساتھ ہوئے ہر زیاتی کا بدلہ لے سکے ۔
ایک سرد نگاہ نیچے لان میں ڈالی جہاں ارحم پری کو انگھوٹی پہنا رہا تھا اور پری اس کی کسی بات پر ہنس رہی تھی اس نے یہ منظر نفرت سے دیکھا اور پردے برابر کر کے اپنے بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔” بہت ہوا اب میری باری ہے “ابھی میں بتاؤ گا تم سب کو زندگی عذاب ہونا کیسے کہتے ہیں” وہ نہایت نفرت سے خود سے گویا ہوا ۔ نیچے موجود لوگ اپنی خوشیوں میں اتنے مگن تھے کہ اس گھر میں موجود ایک جیتے جاگتے انسان کی غیر موجودگی کو فراموش کر چکے تھے ۔۔ مگر وہ نہیں جانتے تھے آنے والا وقت کیا مذاق کرنے والا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...