وہ رات کے کھانے کے بعد پڑھائی کرنے لگی تو شہیر کا پیغام آیا اُس کے موبائل پر۔
” کال پر بات ہو سکتی ہے؟”
شہیر کا پیغام پڑھ کر عبیر کی جان جانے لگی۔ اگر یہ پیغام علی یاں اُس کے والد پڑھ لیٹی تو۔۔۔
” آپ پلیز مجھے اس وقت میسیج نہ کیا کریں اچانک سے۔ میرے والد اور بھائی میرا موبائل اچانک مانگ لیتے ہیں۔ اور مجھے فون میں پاسورڈ بھی لگانے نہیں دیتے۔” عبیر نے لکھا۔
” کیوں؟ کیا اُنہیں تم پر اعتبار نہیں ہے؟” شہیر نے لکھا۔
” نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔” عبیر نے لکھا۔
” ایسی ہی بات ہے۔ وہ دونوں تم اور یقین نہیں کرتے۔ ورنہ ایسا نہ کرتے۔ موبائل میں پاسورڈ ہر انسان کا حق ہے۔ ہر کسی کی ذاتی پرائیویسی ہوتی ہے۔یہ تو بہت غلط بات ہے کہ وہ تمہیں موبائل میں پاسورڈ نہیں لگانے نہیں دیتے۔ اور تم کو موبائل میں لے لیتے ہیں اچانک سے۔اس کا مطلب ہے کہ تمہارے گھر والوں کو تم پر اعتبار نہیں ہے۔” شہیر نے لکھا۔
” نہیں، مجھے نہیں لگتا کہ وہ یہ سب شک کی وجہ سے کر رہے ہیں۔میرے خیال میں وہ اچھے گارڈین ہیں۔ اور محتاط رہنا چاہتے ہیں۔اسی لیے۔” عبیر نے لکھا.
” تم بہت معصوم ہو عبیر۔تمہیں لوگوں کی پہچان نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ لوگ تم پر شک کرتے ہیں۔ بہت افسوس ہو رہا ہے کہ تم ایسے لوگوں کے بیچ میں رہ رہی ہوں جنہیں تم پر اعتبار ہی نہیں ہے۔ کسی بھی رشتے کی بنیادی شرط اعتبار ہوتا ہے۔اور جب رشتوں میں اعتبار نہ ہو تو وہ کسی کام کے نہیں ہوتے۔” شہیر نے کہا۔
” پتہ نہیں۔۔۔” عبیر نے اتنا ہی لکھا۔
” تم مجھے کہہ رہی تھیں کے میں جلدی رشتا بھیجوں۔ یہ بات بھی ظاہر کرتی ہے کہ تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں۔ لیکن اب تم اپنے گھر والوں کو دیکھو۔ اُنہیں بھی اعتبار نہیں ۔ ان سے تو میں سچا ہوں۔تمہیں دیکھا تمہیں پسند کیا۔تم سے فوراً نکاح کا کہہ دیا۔ورنہ میں چاہتا تو فلٹر کر سکتا تھا۔لیکن میں نے پہلی بات ہی نکاح کی گئی تھی۔ لیکن میری کچھ ذاتی مجبوریاں ہیں اس وقت۔ میرے گھر میں کچھ ٹینشن چل رہی ہے اس لیے میں اپنا گھر چھوڑ کر الگ رہا ہوں۔ جب تک میری فیملی کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا تب تک میں ان سے بات نہیں کر سکتا۔کیونکہ وہ مجھ سے ناراض ہیں اور میں ان سے۔جب میری فیملی میں سب کچھ سہی ہو جائے گا تب میں اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیجوں گا۔میں خود ابھی تنہا رہا ہوں صرف ایک ملازم کے ساتھ۔عبیر مجھے تمہارے ساتھ کی ضرورت ہے اس وقت میں بہت اکیلا ہوں۔اسی لیے تم سے بات کرنا چاہ رہا تھا۔” شہیر نے کہا۔
” ٹھیک ہے آپ گیارہ بجے کے بعد کال کرنا۔ تب سب سو جاتے ہیں ” عبیر نے لکھا۔
ٹھیک گیارہ بجے اس کی کال آنی شروع ہوئی تو عبیر پریشان ہوگی۔
اس نے کمرہ لاک کیا اور دھڑکتے دل کے ساتھ کال اٹھائی۔
” عبیر۔۔۔” آگے سے وہی گھمبیر آواز۔ عبیر کے دل کی رفتار تیز ہونے لگی۔
“جی” وہ اتنا ہی بولی۔
” میں بہت اکیلا ہوں عبیر۔مجھے تمہاری ضرورت ہے۔” وہ جیسے خمار میں بولا۔
عبیر کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کی باتوں کا کیا جواب دے۔ صبح کو اس کا لہجہ ٹھیک ہوتا لیکن رات کو عجیب ہی ٹون ہوتی تھی اس کی۔
” آپ کی فیملی میں کیا مسئلے چل رہے ہیں اور وہ کب تک حل ہو جائیں گے؟” عبیر نے محتاط ہو کر بات کی۔وہ ابھی تک تو اپنے حواسوں میں تھی اور محتاط ہی رہنا چاہتی تھی۔
” میرے والد نے خفیہ طور پر کسی بری عورت سے نکاح کر رکھا تھا۔جس کا میری والدہ کو معلوم ہوا۔تب سے لے کر گھر میں بہت لڑائی جھگڑا ہوا۔جو کے اب تک چل رہا ہے۔ میرے گھر کا ماحول اتنا ٹینس تاکہ میں وہ گھر ہی چھوڑ آیا۔اب اکیلا رہ رہا ہوں۔میرا بھی گھر واپس نہیں جانا چاہتا۔جب حالات صحیح ہو جائیں گے تو واپس جاؤں گا۔اب تم خود ہی بتاؤ کہ ان حالات میں میں اپنے رشتے کی بات کیسے کر سکتا ہوں اپنے والدین سے جب کہ ان کے اپنے جھگڑے چل رہی ہیں۔تب تک تمہیں میرا ساتھ دینے ہوگا عبیر۔۔۔ ” شہیر نے کہا۔
” اچھا ، میری خدا سے دعا ہے کہ آپ کے گھر کا ماحول جلدی سے صحیح ہو جائے۔” عبیر نے دعا دی۔
” ہاں میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ سب کچھ صحیح ہوجائے جلدی تاکہ میں تمہیں اپنا سکوں۔بتاؤ میرا ساتھ دوگی نا عبیر؟” وہ بولا۔
” جی دونگی۔” عبیر نے مختصر سا جواب دیا۔
” اچھا اب میں کال بند کر رہی ہوں۔نیند آ رہی ہے۔” عبیر بولی۔
” میری نیندیں چرا کر خود سونا چاہتی ہو؟” وہ بولا تو عبیر کا دل پھر سے تیز رفتار میں دھڑکنے لگا۔
” نہیں میں پڑھائی کر رہی تھی اس کی وجہ سے آنکھیں بوجھل ہو گئیں۔” عبیر نے کہا۔
” میں نے تم سے کہا نہ میں بہت تنہا ہوں۔تم سے باتیں کرنا چاہتا ہوں۔تم سے بات کر کے مجھے سکون ملتا ہے۔کیا مجھے تھوڑا سا بھی سکون نہیں دے سکتی ہو تم؟” وہ بولا۔
نجانے کیوں عبیر کو یہ سب اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ابھی شروعات تھی شاید اس لیے۔۔۔ شہیر جانتا تھا کہ وہ جھجھک رہی ہے بات کرنے سے۔۔وہ اسکی جھجھک جلدی ختم کرنا چاہتا تھا۔
” ٹھیک ہے آپ تھوڑی دیر کہہ لیں جو کہنا چاہتے ہیں میں سن رہی ہو آپ کی باتیں۔” عبیر نے کہا۔
” اچھا یہ بتاؤ تمہارے کمرے کی لائٹ آن ہے؟” اُس نے پوچھا۔
عبیر کو حیرانی ہوئی کہ وہ یہ سب کیوں پوچھ رہا ہے۔
” جی آن ہے۔سوتے وقت آف کرتی ہوں۔” وہ بولی۔
” اچھا ایک کام کرو کمرے کی لائٹ آف کر دو۔” شہیر نے عجیب قسم کی فرمائش کی تھی جسے عبیر سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
” لیکن کیوں؟” وہ بولی۔
” جیسا میں نے کہا ہے ویسا کرو۔” شہیر نے کہا تو عبیر نے کمرے کی لائٹ آف کر دی۔
” کر دی لائٹ آف۔” وہ بولی اور بیڈ پر آکر بیٹھ گئی۔
” تم جانتی ہو میں نے ایسا کیوں کہا؟” وہ بولا۔
” کیوں؟” عبیر نے کہا۔
” کیونکہ مجھے اندھیرا پسند ہے۔روشنی مجھے الجھن میں ڈال دیتی ہے۔میں خود بھی نیم اندھیرے کمرے میں رہتا ہوں ہر وقت۔ ” وہ بولا۔
” مجھے بھی اندھیرا پسند ہے۔” وہ بولی۔
عبیر کی اپنی عادت تھی کہ کمرے میں زیادہ تر اندھیرا کیے رکھتی تھی۔ احساس کمتری کا شکار لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔۔۔
” عبیر” اس نے پھر خمار آلود لہجے میں اس کا نام پکارا۔ وہ جانتا تھا کہ ایک لڑکی کا جب اس طرح سے نام پکارا جائے تو اس کے دل کی کیفیت عجیب ہو جاتی ہے۔اسی لیے وہ بار بار اس کا نام پکار رہا تھا۔
” جی۔” وہ بولی۔
” آئی لو یو عبیر۔” وہ اپنی گھمبیر آواز میں بولا تو عبیر کی دھڑکنیں پھر سے بے ترتیب ہونے لگی تھیں۔ لیکن وہ خاموش رہی آگے سے کوئی جواب نہیں دیا۔
” میں نے جو جملہ بولا ہے اس کا ایک جواب ہوتا ہے اور مجھے تم سے جواب چاہیے۔تمہاری خوبصورت آواز میں وہ جواب سننے کا منتظر ہوں میں۔” شہیر نے اپنے جادوئی الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا۔
عبیر پھر بھی خاموش رہی۔وہ اچانک سے اتنی بے باک نہیں ہو سکتی تھی۔
” عبیر” اس نے پھر اس کا نام پکارا ہولے سے۔
” جی” عبیر نے کہا۔
” میں کہہ رہا ہوں آئی لو یو۔ ” وہ بولا۔
” جی میں نے سن لیا۔” عبیر نے کہا۔
” مجھے اس کا جواب چاہیے۔” وہ بولا تو عبیر نے کال کاٹ دی گھبراہٹ کے مارے۔
شہیر شیرازی اس کی اس حرکت پر بہت حیران ہوا تھا۔ عموماً تو لڑکے ایسا کرتے ہیں۔ وہ کال کاٹنے ہی والا تھا کہ عبیر نے کاٹ دی۔
تھوڑی دیر اس نے انتظار کیا کہ عبیر کال کرے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔شہیر کو غصہ آنے لگا تھا۔ غصے سے لگ رہا تھا کہ اس کے دماغ کی نسیں پھٹ جائیگی۔
جب کافی دیر تک عبیر کی جانب سے خاموشی رہی تو اس نے پھر سے کال کی۔
” عبیر، “میری جان” کیا ہوا؟” وہ بےباک ہو کر بولا۔
” مجھ سے اس طرح کی باتیں مت کیا کریں۔” وہ سختی سے بولی تو شہیر شیرازی کو لگا کے یہ کام اتنا بھی آسان نہیں ہے جتنا آسان وہ سمجھ رہا تھا۔ یہ لڑکی کردار کی اتنی “کچی” نہیں تھی جتنا اس نے سوچا تھا. وہ سمجھ گیا تھا کہ اس لڑکی پر بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
” میں تو صرف محبت کا اظہار کر رہا تھا۔تمہیں شاید اچھا نہیں لگا۔” وہ محتاط ہوا۔ وہ کھیل کو شروع کرنے سے پہلے ختم کرنا نہیں چاہتا تھا۔
” آپ محبت کا اظہار کریں لیکن مجھ سے ایسی باتوں کی توقع نہ کریں۔” وہ سپاٹ لہجے میں بولی تو شہیر اس کی دیدہ دلیری پر حیران ہو کر رہ گیا تھا۔ وہ اسے بزدل سمجھ رہا تھا لیکن شاید وہ تھی نہیں۔
” ٹھیک ہے تم مجھ سے اظہار محبت نہ کرو لیکن مجھے تو کھل کر اپنی محبت کا اظہار کرنے دو۔” وہ بولا تو عبیر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یعنی کہ پھر سے بات کرنے کے لیے ہری جھنڈی دکھا دی تھی اس نے شہیر شیرازی کو۔۔۔
” تم جانتی ہو تمہاری آنکھیں کتنی خوبصورت ہیں؟” شہیر نے اس کے حسن کی تعریف شروع کی۔ اور دنیا میں کونسی ایسی لڑکی تھی جسے اپنے حسن کی تعریف اچھی نہ لگتی ہو۔ اسی لئے عبیر احسان کو بھی اچھا لگ رھا تھا۔
” جب میں نے تمہیں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔۔۔ تو میرا دل کیا کہ میں تمہیں ساری دنیا سے چرا لوں۔۔۔ تمہیں دور کہیں لے جاؤ سب کی نظروں سے۔۔۔ بہت دور۔۔۔ وہاں پر ایک گھر بنا لوں۔ اور تمہیں سب سے چھپا کر وہاں رکھوں۔۔۔ پھر دن رات صبح شام تمہارا یہ حسین چہرہ دیکھتا رہوں۔” اور پھر سے ہمارا لہجے میں بولا۔
عبیر کشمکش کا شکار تھی۔اس کی باتیں سنے یا نہ سنے۔۔۔ دماغ کہہ رہا تھا کہ رک جاؤ۔۔۔ دل کہہ رہا تھا کہ سنتی جاؤ۔۔۔ آج بھی دل میں دماغ کی آواز کا گلا گھونٹ دیا تھا۔۔۔ دل نے اس کے ضمیر کو گہری نیند سلا دیا تھا تھپک کر۔۔۔ نامحرم کا نشا ہی کچھ ایسا تھا۔۔۔
شہیر شیرازی سمجھ گیا تھا کہ عبیر ابھی کچھ نہیں بولے گی۔ ابھی اُسے ہی بولنا تھا ۔۔ اور وہ سنے گی۔
” میرا دل کر رہا ہے کہ تمہارے پاس آ جاؤں اس وقت۔” وہ بولا۔
ایک تو کمرے میں اندھیرا تھا۔ کھڑکی سے ہلکی سی روشنی اندر داخل ہو رہی تھی۔اس روشنی میں تھوڑا بہت کمرے کو دیکھنے کے قابل کیا ہوا تھا۔۔۔ آدھی رات کا وقت۔۔۔ ایسا سماء ۔۔۔ اور ایک نامحرم کی مدہوش کر دینے والی باتیں۔۔۔ بہت مشکل تھا۔۔۔ ایک پارسا لڑکی کا بچ کر نکلنا۔۔۔
” اچھا یہ بتاؤ تم نے کس رنگ کا لباس پہنا ہوا ہے؟” اُس نے پوچھا۔ یونیورسٹی میں تو اس نے سبز رنگ کا برانڈڈ سوٹ پہنا ہوا تھا۔ لیکن اب وہ سیاہ رنگ کے آپ سے قمیض شلوار میں تھی۔
” بلیک” وہ بولی۔
” اففففف ظالم ۔۔۔ گوری نے سیاہ پہن لیا۔۔۔ گویا قیامت ڈھا دیا۔” وہ بولا تو عبیر کی بیٹ مس ہوئی تھی۔
” سوچ رہا ہوں۔۔۔ اتنے گورے رنگ اور جو تم نے سیاہ رنگ پہنا ہوا ہے۔ تو تمہارا حسن کتنا دلکش ہو رہا ہوگا اس وقت۔ عبیر میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ کے کیسے اس سیاہ رنگ میں تمہارا حسن دھمک رہا ہے۔ مجھے اپنی تصویر بھیجو۔” اس نے کہہ کر اچانک سے فرمائش کی تو عبیر پریشان ہوگئی۔ عبیر نے کال کاٹ دی۔ شہیر نے فوراً اسے دوبارہ کال کی۔
” ایک تصویر ہی تو مانگی ہے۔تم مجھ سے اگر میری جان بھی مانگ لو تو میں دے دو اور میں تو صرف ایک تصویر مانگ رہا ہوں۔” وہ بولا۔
” مجھے کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔ کیسے اپنی تصویر بھیج دوں۔آپ روزانہ تو مجھے دیکھ سکتے ہیں اب۔” وہ بولی۔
” یونیورسٹی میں تو سب سے نظر بچا کر تمہیں دیکھتا ہوں۔۔۔ وہ بھی تھوڑے سے وقت کے لئے۔مجھے تمہاری “عزت” کا خیال ہے۔کہ کہیں میرا دیکھنا تمہارے لیے بدنامی کا باعث نہ ہو جائے۔یقین کرو مجھے اپنا نہیں تمہارا خیال ہے۔تم میری عزت ہو عبیر۔میری ہونے والی بیوی ہو۔تمہاری عزت کا خیال میں نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا.”وہ بولا تو عبیر سوچ میں پڑ گئی۔
” ہاں یہ بات بھی ٹھیک ہے آپ کی۔” عبیر نے کہا۔
” تو پھر بھیجو اپنی تصویر۔ میں بھی دیکھوں۔ کوئلے کی کان سے ہیرا کیسے نکل رہا ہے۔” وہ بولا۔
” اچھا آپ کال بند کریں تو میں بھیجو نا۔” وہ بولی۔
پھر لائٹ آن کرکے اپنی تصویر لی۔ اور واٹس ایپ کے ذریعے بھیج دی۔
شہیر نے پھر سے کال کی۔
” عبیر۔۔۔ اتنی حسین ۔۔۔ مر جاؤں گا میں۔۔۔ قسم سے مر جاؤں گا۔ تم میری ہو عبیر۔ یہ حسن میرا ہے اس حسن پر صرف میرا حق ہے۔ ” وہ مدہوش ہو کر بولا۔ ۔۔ پھر کئی گھنٹوں تک اس کے حسن کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیے تھے اس نے۔ عبیر کو پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔ گیارہ بجے کی جانے والی کال۔۔۔ تین گھنٹیے طویل ہو چکی تھی۔۔۔
__________________
عصر کا وقت گزرے کئی ساعتیں بیت چکی تھیں۔ ہر گھر سے لکڑیاں توڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔ یعنی کہ رات کے کھانے کی تیاری شروع۔
سرور کی موٹر سائیکل اندر داخل ہوئی۔
” میں کہہ رہا ہوں یونیورسٹی جانے کی تیاری کرو۔کل صبح مجھے تمہاری شکل نظر نہیں آنی چاہیے۔میری جاگنے سے پہلے یہاں سے دفع ہو جاؤ اور نہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔” سجاد حسین نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔
” اب میں نے کیا کیا ہے؟” موٹر سائیکل سے اتر کر وہ شانے اُچکاتا ہوا پوچھنے لگا۔ اور دل ہی دل میں یاد کرنے لگا کے آج اس نے کسی کو مارا تو نہیں۔۔۔ یا پھر کوئی اور خطا تو اس سے سرزند نہیں ہوگئی جو اس کی یونیورسٹی جانے کا فتوی صادر ہو چکا تھا۔
” تین لڑکے ان کے اسپتال میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور تم کہہ رہے ہو کہ تم نے کیا کیا ہے؟ ” سجاد حسین نے کہا۔
” تو ہمارے لڑکے کونسا فٹبال کا ورلڈ کپ کھیلنے گئے ہوئے ہیں۔۔۔ ان کے تین لڑکے اسپتال میں ہے اور ہمارے چھے۔ ” وہ آستین فولڈ کرتا ہوا کہنے لگا اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر چھت پر آ گیا۔
” میں آخری بار کہہ رہا ہوں صبح مجھے تمہاری شکل نظر نہیں آنی چاہیے ورنہ میں یہ گھر چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔۔۔ ” سجاد حسین نے چیختے ہوئے کہا تھا کہ اس کی آواز پر موجود اس کی اکلوتے سپوت کے کانوں تک پہنچ سکے۔
” میں کہے دیتا ہوں ابا۔۔۔ کل جاؤں گا تو واپس نہیں آؤں گا۔۔۔ پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے مجھے واپس نہ بلانا۔۔۔ اور اگر اس بار مجھے واپس بلایا تو پھر میری بس ہے اس پڑھائی سے۔۔۔” وہ چھت سے جھانکتا ہوا بولا۔
” اگر تم وہاں انسانوں کی طرح ہوں گے تو میں نہیں بلاؤں گا۔لیکن تمہارے ہاتھوں میں تو ہر وقت کھجلی رہتی ہے کسی کو مارنے کے لیے۔” سجاد حسین نے کہا۔
” کتنی بار کہا ہے مجھ سے غلط بات برداشت نہیں ہوتی ہے۔۔۔ یونیورسٹی میں کوئی کسی لڑکی کو چھیڑتا ہے تو میرا ہاتھ اٹھ جاتا ہے۔۔۔ کوئی استاد کی نقل اتارتا ہے تو میرا ہاتھ اٹھ جاتا ہے۔۔۔ کوئی کسی غریب کو پریشان کرتا ہے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔۔ سرور کبھی کسی کے ساتھ ناانصافی ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا۔” سرور بھی اونچی آواز میں بول رہا تھا۔
” بس والے کو فون کر کے تمہارے صبح فجر کے وقت والے ٹکٹ کروا دیے ہیں میں نے۔اپنا سامان باندھا اور یہاں سے چلے جاؤ۔ اور اس مرتبہ ڈگری لے کر ہی آنا۔” سجاد حسین نے کہا۔
” ہائے میرا بچہ کل چلا جائے گا۔” حلیمہ اداس ہو گئی۔
” بس۔۔ گود میں بٹھا کر رکھو اپنے بچے کو۔” حلیمہ کی بات پر سجاد کو غصہ آگیا۔
” نہیں میں تو بس ایسے ہی کہہ رہی تھی۔” حلیمہ نے فوراً پینترا بدلا۔
دونوں میاں بیوی کی بحث شروع ہوچکی تھی۔
سرور نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا۔
” جا مروں کل یونیورسٹی ۔۔۔ ورنہ یہاں تیسری جنگ عظیم شروع ہو جائے گی میری وجہ سے۔”
وہ اپنے آپ سے کہتا ہوں نیچے آیا اور اپنا سامان پیک کرنے لگا۔
گھر میں صرف وہ تین ہی نہیں تھے بلکہ بہت زیادہ افراد تھے۔ جن میں اس کے دو چچا۔ ان کی اولادیں۔دادی شامل تھیں۔۔۔ لیکن گھر کافی بڑا تھا۔ بہت سارے کمرے تھے ایک قطار سے۔۔۔ کھلا میدان تھا۔ جہاں ایک طرف سبزہ اگ آیا گیا تھا۔دوسری طرف سبزیاں۔ پھولوں کی شوقین زہرہ نے ایک طرف گلاب کے پھول اگائے ہوئے تھے۔اور وہاں کسی کا بھی جانا ممنوع تھا۔اس کی گلابوں کو ذرا سا بھی نقصان پہنچے تو اس نے سارا گھر سر پر اٹھا لینا تھا۔
سکینہ اُس کی چاچی تھی جو زہرہ کی ماں تھی۔ بڑی چاچی کا پچھلے سال انتقال ہوگیا تھا جن کا ایک بیٹا تھا فیاض ۔ اور دو بیٹیاں شادی شدہ تھیں۔ بڑے چچا بستر سے لگ گئے تھے بیماری کے باعث۔
چھوٹے چچا کی ایک بیٹی زہرہ تھی اور تین بیٹے تھے۔ جو کے شہر میں رہتے تھے وہاں چھوٹی موٹی نوکریاں کر رہے تھے۔
لیکن سرور سجاد حسین کا تو مزاج ہی شاہانہ تھا۔ چھوٹی موٹی نوکری کرنے والوں میں سے وہ نہیں تھا۔۔۔ اور بڑی نوکری کے آثار اسے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔۔۔۔ پچھلے تین سال سے یونیورسٹی میں اس نے تعلیمی میدان میں کسی قسم کی کوئی ترقی نہیں کی تھی۔۔۔
فیاض کو زہرہ پسند تھی۔۔۔ زہرہ کو سرور پسند تھا ۔۔۔ اور سرور کو کوئی بھی پسند نہیں تھی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...