کیا ہوا مما؟” وہ اُن کو پریشان دیکھ کر بولی۔ وہ پریشانی میں کبھی کسی کمرے میں جاتیں اور کبھی کسی چیز سے اُلجھتیں۔ وہ اُن کے پاس آ بیٹھی۔اور ان کا چہرہ تکنے لگی جو اس روز روز کی ٹینشن سے مرجھاتا جا رہا تھا۔دل کو ٹھیس سی لگتی تھی۔
” مما !” اُس نے اُ ن کا ہاتھ تھاما ۔
” کُچھ نہیں” وہ بولیں تو ایسے لگا جیسے رونے کو تیار ہوں۔
“یعنی نہیں بتائیں گی” وہ اُن کے ہاتھ کی پُشت پر اپنی شہادت کی اُنگلی سے 8 کا ہندسہ بنا رہی تھی کہ ٹینشن ریلیز ہو۔
“کیا بتاؤں؟” وہ اُسکے جھکے ہوئے سر کو دیکھتی ہوئی بولیں۔ وہ خاموش رہی۔
” اپنے بابا کا رویہ دیکھ رہی ہو ناں۔ کیا کر رہے ہیں وہ۔ میں ماں ہوں تو کیا مجھے دُکھ نہیں ہوتا؟ کیا میں بھی یوں ری ایکٹ کرنے لگوں ؟” اُن کی آواز میں نمی شامل ہو چُکی تھی۔
” آنی سے بات کی آپ نے مما؟” وہ ہولے سے بولی۔
” ہاں ۔ اُنہوں نے عُنید سے بات کی تھی۔ کُچھ امید تو لگی ہے نُور”
وہ تو امید لگائے بیٹھی تھیں مگر نُور کو جو گِلے تھے وہ کبھی ختم نہ ہونے والے تھے۔ وہ ٹھنڈی سانس لیتی ہوئی کھڑی ہوئی۔
“ایک طرف امید ٹوٹنے کا بھی سوچ کر رکھیں مما! اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ آپ کے بھانجے کے علاوہ بھی آپشنز مل جائیں گے۔ ڈر کو نکال دیں ذہن سے۔ میں پانی لاتی ہوں آپ کے لیے” اُس نے کہا اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
جبکہ سعدیہ بیگم گم سُم رہ گئی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دروازے کے پاس پہنچ کر اُس نے مُڑ کر اُس کے ہونے کی یقین دہانی کی تھی۔ اور وہ جو پہلے حیران پریشان سا اُس کے ساتھ چلا آ رہا تھا اُس کی اِس حرکت پر مسکرا دیا۔
وہ آگے بڑھی اور چابی سے دروازہ کھولنے لگی۔ دروازہ کُھلتے ہی وہ آگے بڑھی اور اُسے بھی ساتھ آنے کا اِشارہ کیا۔
“نینی!” اُس نے اونچی آواز میں اُن کو آواز دی۔
“آرہی ہوں۔ تمہارے ڈیڈ کا کمرہ سیٹ کر رہی تھی۔توبہ تم کیا کرتی رہی ہو اُس کے کمرے کے ساتھ اِن دو تین ماہ میں ۔ میرابچہ بیچارہ۔۔۔” وہ مسلسل بولتی ہوئی باہر آئی تھیں مگر جیسے ہی اُس کے ساتھ لڑکے کو دیکھا تو چُپ ہو گئیں۔ ذہن میں آیا کہ وہی لڑکا ہوگا جس کا اکثر ذکر کرتی رہتی ہے ۔ پھر تصدیق کرنے کو پرِیا کی طرف دیکھا جو اُس سے ایزل لےکر ایک سائیڈ پر رکھ رہی تھی۔ وہ مُڑی اور نینی کو سکتے کے عالم میں دیکھ کر بولی” ہے ناں اپالو جیسا؟”
“نہیں! اپالو تو انتہائی جنگجو آدمی تھا بھئی۔ حد ہے ایک سادھے سیدھے بندے کو تُم اپالو کہتی رہی ہو” نینی اُسے ٹھک سے جواب دیتی ہوئیں آگے آئیں اور اُس کا کندھا تھپتھپایا ۔ وہ جو خاموش کھڑا تھا ، نینی کی اس بات پر مُسکرا دیا۔ جبکہ پرِیا منہ بنا کر کچن کی طرف گئی فریج سے پانی نکالا اور واپس صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔
“اُسے بھی بیٹھنے کا کہہ دینا تھا اگر گھر لے ہی آئی ہو۔” نینی نے اُسے گھورا اور خود اُسے لیے صوفے کی طرف آئیں ۔ پرِیا بس منہ بنائے اُن کو دیکھ رہی تھی۔ نینی اُس سے اب اُس کا حال دریافت کر رہی تھیں۔
“نینی وہ ہمارا مہمان ہے آپ کو کافی لانی چاہیے” جب بہت دیر اُس سے چُپ نہ رہا گیا تو وہ بول پڑی۔
“ہاں بناتی ہوں ” وہ اُٹھ کر کچن کی طرف چل دیں تو اُس نے عُنیزہ کو بھی کال ملائی۔ مگر اُس کا نمبر بند جا رہا تھا۔ وہ اُداس سی ہو کر بیٹھ گئی۔
” میں نیمو کو تُم سے ملوانا چاہتی تھی مگر وہ بزی ہو گی شاید۔” وہ اُسے بتانے لگی تو وہ مُسکرا دیا۔
نینی کافی لے آئیں تو وہ لوگ ہلکی پھلکی گفتگو کرنے لگے کیونکہ وہ اُن کی کسی بھی بات کا ہاں ہوں سے زیادہ جواب نہیں دے رہا تھا ۔
ڈور بیل کی آواز آئی تو نینی مُسکرا دیں۔” لو بھئی میری بچی آگئی ۔ کب سے انتظار کر رہی تھی میں تو”
“جی جی اب تو خواب میں بھی آتی ہوگی” وہ اُنہیں چِڑاتے ہوئے دروازے کی جانب چل دی۔ دروازہ کھول کر وہ عُنیزہ کے قریب ہوئی۔
“اپالوآیا ہے” عُنیزہ نے ہونٹ گول کر کے ‘اوو’ کیا جس سے وہ شرمندہ ہوئی۔
“بدتمیز وہ صرف میری کافی کی آفر پر آیا ہے” اُس نے اُس کے بازو پر چُٹکی بھری۔ وہ ہنس دی ۔
دروازہ بند کر کے وہ دونوں ایک دوسرے کو آنکھیں دِکھاتی ہوئی لاؤنج تک آئی تھیں۔ عُنیزہ فوراً نینی کے پاس گئی ۔ اپنی کتابیں اور بیک پیک ایک سائڈ ٹیبل پر رکھا اور اُن کی طرف دیکھا۔ اُنہوں نے بانہیں وا کیں تو وہ اُن میں سما گئی۔
“اتنی دیر کیوں لگائی” وہ ناراضگی سے پُوچھنے لگیں۔
“شٹل رہ گئی تھی تو مجھے ٹیکسی کروانی پڑی” وہ شرمندہ سی بتا رہی تھی۔
“ہاں اور جو میں نے کہا تھا کہ پِک کر لونگی؟” پرِیا نے اُسے گھورا تو وہ ہنس دی۔
“خیر ۔ دیکھو یہ اپالو ہے۔ اور اپالو ! یہ میری نیمو۔۔۔ آہم آئی مین عُنیزہ ہے” وہ اُسے لیے اپالو کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی اور تعارف کروانے لگی۔ وہ سر جھکائے اُن کی باتیں سُن رہا تھا۔ مگر پرِیا کے ‘عُنیزہ’ کہنے پر اُس نے جھٹکے سے سر اُٹھایا ۔ جبکہ عُنیزہ جوپرِیا کی طرف مُسکرا کر دیکھ رہی تھی اُس نے اُسے اب ہی دیکھا تھا۔
اُس کی مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔ اُسکی انکھوں میں کِرچیاں بھر گئیں۔ وہ جھٹکے سے اُٹھی اور منظر سے غائب ہوگئی۔
نینی فکر مندی سے اُسے پُکارنے لگی تھیں مگر وہ اپنے کمرے میں گم ہوچُکی تھی۔
پرِیا گم سم سی بیٹھی اُن دونوں کے تاثرات نوٹ کرچُکی تھی۔ ابھی وہ اپنی سوچوں میں ہی تھی جب وہ اُٹھا اور نینی سے مل کر دروازے کی طرف بڑھا ۔ وہ اُس کی پیچھے گئی۔ اُسےآواز دی وہ رُک تو گیا مگر مُڑا نہیں۔ وہ اُس کے سامنے آئی۔
” اب تو اپنا نام بتا دو ۔بیلرینا کو منانا ہےآخر اِتنی فیور تو میں دے ہی سکتی ہوں” وہ سنجیدگی سے اُسے گھورتے ہوئے بولی۔
“عُنید علی” اُس نے کہا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔
‘دونوں ہی نمونے ہیں یار’ وہ بس گھورتی رہ گئی۔ اُسے اب عُنیزہ کی طرف کی کہانی سننی تھی سو وہ اُس کے کمرے کی جانب چل دی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“ناراض ہو مجھ سے ؟” وہ اُسے تلاش کرتی ہوئی لان میں آئی تو اُسے وہاں گم سُم بیٹھے پایا ۔ وہ اُسکے پاس چلی آئی ۔ وہ لان چئیرز کی بجائے ایک طرف پھولوں کی باڑ کے پاس گھاس پر بیٹھا ہوا تھا۔ سر جھکایا ہوا تھا اور اپنے سامنے اُگی ہوئی گھاس بے دھیانی میں کھینچ کھینچ کر اُتار رہا تھا ۔ وہ حیران ہوئی۔ کہاں تو وہ اُسے اِس کام سے روکا کرتا تھا اور کہاں اب خود ایسا کر رہا تھا۔
وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اُس کے پاس آئی اور اُس کے سامنے بیٹھ گئی۔ اُس نے اُس کے آنے کا کوئی ناٹس نہیں لیا تھا۔ وہ یقیناً بہت پریشان تھا یا بہت اُلجھا ہوا تھا۔ وہ سمجھ گئی۔
اُس نے اُس کے کان کے پاس چُٹکی بجائی تو اُسنے چونک کر سر اُٹھایا اور سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگا۔
“کیا ہوا ہے؟ یہاں کیوں آئے بیٹھے ہو؟” اُس نے مُتفکر سے انداز میں پُوچھا ۔
“نُورالعین کہاں ہے؟” اُس نے بات بدلنے کو کہا۔
“چائے بنا رہی ہے۔ تُم بات تو بتاؤ” وہ واپس اُسی بات پر آئی۔ وہ کم از کم اُسے نہیں گھما سکتا تھا۔ یہ وہ خود بھی جانتا تھا۔
” تم اسکی ہیلپ کروا دیتیں” اُس نے اُسے وہاں سے اُٹھانا چاہا۔ اشارہ تو وہ صاف سمجھ چُکی تھی کہ’اٹھ جاؤ کیونکہ بات تو میں مر کر بھی نہیں بتاؤں گا’
“عُنید!” اُس نے پھر سے پُکارا۔ مگر وہ گھاس اُکھاڑتا رہا۔
“جب سے آنی تمہیں نکاح کے سلسلے میں لائی ہیں تم خاموش ہو۔ کیا وجہ ہے؟” اُس نے کریدنا چاہا مگر وہ خاموش ہی رہا تو وہ چِڑ گئی مگر خود کو نارمل کرتے ہوئے بولی
“تمہیں اگر مسئلہ تھا کوئی بھی تو مجھ سے شئیر کرتے۔ ہم مل کر مما اور آنی کو سمجھا لیتے” اُس نے اُسے بولنے پر اُکسایا۔ مگر وہ بس اُسے دیکھنے لگا۔
“عُنید” وہ چیخ ہی پڑی۔
” عُنیزہ مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے پلیز تنگ نہیں کرو ۔ مجھے بس تنہائی چاہیے” وہ اٹھنے لگا تھا مگر عنیزہ نے اس کا بازو جکڑ لیا۔ گرفت تو ڈھیلی ہی تھی مگر وہ عادتاً بھی اُس کی گرفت سے اپنا بازو نہ نکال پایا اور اُسے دیکھنے لگا۔
” سب سمجھ رہی ہوں۔ سُدھر جاؤ۔ بُرا کروں گی ورنہ” اُس نے کھڑے ہوتے ہوئے شہادت کی اُنگلی اُٹھا کر اُسے وارن کرتے ہوئے کہا۔
“جان چھوڑو” اُس نے ناگواری سے اُسکا ہاتھ جھٹکا اور اندر چلا گیا۔
یہ ابتداء تھی۔ دو دن پہلے اُن کا نکاح ہوا تھا ۔ سعدیہ اور عائشہ کی ان دو اولادوں میں بہت انڈرسٹینڈنگ تھی ۔ نُورالعین دونوں سے چھوٹی تھی ۔ اور عُنید کی لاڈلی بھی۔ سب اُسے پیار سے نُور کہتے تھے جبکہ عُنیزہ ‘عینی’ کہتی تھی جبکہ واحد عُنید اُس کا پُورا نام لیا کرتا تھا۔
سعدیہ اور عائشہ نے دونوں کی انڈر اسٹینڈنگ دیکھتے ہوئے اُن کے نکاح کا فیصلہ کیا تھا۔ شوہر تو راضی تھے بس اولاد سے پُوچھنا تھا۔ عُنیزہ نے تو سب ماں پر چھوڑا ہوا تھا مگر عُنید نے بہت ہنگامہ کیا تھا۔ وہ اُسے ‘سو کالڈ فرینڈ ‘ سمجھتا تھا ۔ عائشہ نے اُسے مجبور کیا تو اُسے آنا پڑا وگرنہ اُسکا دِل تھا کہ گھر چھوڑ کر بھاگ جاتا۔
اگلے دن عُنیزہ پھر اُس کے پاس چلی آئی۔
“عُنید تمہیں مسئلہ کیاہے؟” وہ اُس کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔بکھرے بال، بڑھی ہوئی داڑھی اور آف وہائٹ شلوا قمیص میں وہ یوں بیٹھا تھا گویا کسی نے ما رکر بٹھایا ہو۔
“یہی کہ تُم میرے سامنے مت آؤ” اُس نے رُکھائی سے کہا تو وہ منہ کھولے اُسے دیکھنے لگی۔ اُسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ نکاح کے بعد اِتنا بدل جائیگا کہ ا ُن کی اِتنی اچھی دوستی بھی جاتی رہے گی۔
“نہیں آتی ۔ وجہ بتا دو بس” اُس نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے کہا۔
“برداشت نہیں ہوتی تُم مجھ سے “اُس نے غصے سے کہا۔ وہ خاموشی سے اُسے سُننے لگی کہ شائد اصل وجہ کوئی اور ہو وہ بتا دے گا مگر وجہ جان کروہ بول پا رہی تھی اور نہ اپنی تکلیف کم کر پا رہی تھی۔ وہ اُس سے بچ رہا تھا کیونکہ پہلی بار ، زندگی میں پہلی بار عُنید علی کسی لڑکی کی وجہ سے ڈسٹرب ہوا تھا اور لڑکی بھی وہ ،جو اب اُس کی بیوی تھی۔ معاملہ محبت کا نہیں تھا۔ معاملہ ضد کا تھا ، انا کا تھا۔ اُس کی سُنی نہیں گئی تھی بلکہ اُس پر تھوپی گئی تھی۔ اُس نے سُنا وہ کہہ رہا تھا۔
“میرے سامنے تُم نہیں آؤ گی ورنہ میں۔۔۔” وہ سختی سے اُسے وارن کر رہا تھا جب نُور اندر چلی آئی ۔ وہ خاموش ہو گیا۔
“بھائی ! بڑے پپا بُلا رہے ہیں آپ کو” اُس نے عُنید کو پیغام دیا ۔ وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔ نُور حیرانی سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ اُن میں کبھی یُوں تلخ کلامی نہیں ہوا کرتی تھی۔
“کیا ہوا؟” اُس نے پُوچھا مگر عُنیزہ نے رُخ موڑ لیا۔
“کیا کہا ہے بھائی نے؟” اُس نے پھر سے پُوچھا۔
“کُچھ نہیں عینی۔ دِماغ کے نَٹ ڈھیلے ہوئے ہیں اُس کے ۔کسنے والے ہیں” اُس نے مزاحیہ انداز میں ٹالا۔ مگر ووہ سمجھ چُکی تھی کہ اُس کی بہن اُسے اِس معاملے سے دُور رکھنا چاہتی ہے۔ جو بھی تھا، نور العین عنید کی لاڈلی تھی اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ نور العین اور عنید کے درمیان کے تعلقات خراب ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ تیسرا دن تھا اور عُنیزہ اُسے ہر معاملے میں تین بار ہی موقع دیا کرتی تھی یہ بات سب لوگ جانتے تھے۔
“تم نے وجہ نہیں بتائی” وہ لوگ آج چلے جانے والے تھے اور عُنید اپنی پیکنگ کر رہا تھا جب وہ اچانک اُس کے سامنے آئی تھی۔ وہ گڑبڑا گیا۔
“وجہ پُوچھی ہے” اُسنے اُسے کڑے تیوروں میں رکھتے ہوئے کہا۔ اور بیڈ پر بیٹھ گئی۔ وہ کچھ نہ بولا۔
” تمہارے سامنے ہی رہوں گی جب تک وجہ نہیں بتا دیتے” و ہ اُسے دیکھنے لگا۔ پھر جا کر کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا۔
” مما بابا نے بُرا کیا میرے ساتھ ۔ یہ بول دو” وہ اُس کے پاس آکر کھڑی ہوگئی اور اچانک سے بولی۔ اُس کی اِس بات پر وہ حیران ہوا اُسے دیکھنے لگا۔
” ہاں ناں ۔ یہی بات ہے۔ تُم بولو گے نہیں مگر میں بھی بچی تو نہیں ہوں عُنید!” وہ بولی۔
” نکاح گن پوائنٹ پر نہیں ہوا تھا تم مجھے اُس دن بھی بتا سکتے تھے”
“ہاں بالکل ٹھیک۔ اب جاؤ کیونکہ اب کچھ نہیں ہو سکتا ۔ اب مت آنا سامنے ” وہ بولا اور باہر جانے کو مُڑا جب اُسکی آواز نے اُسکے پاؤں زنجیر کیے تھے۔
“دیکھ لو اور سوچ لو عُنید علی۔ تُم مجھے اب تو دیکھنا نہیں چاہتے۔ مگر ایک وقت میں تُم مجھے سوچا کرو گے کیونکہ تب صرف سوچوں کی گُنجائش ہوگی”
اُس نے کہا اور اُس سے پہلے کمرے سے نکل گئی۔ وہ جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا رہ گیا اور باہر کھڑی نُور بھی منہ کھولے یہ تماشا دیکھتی رہ گئی تھی۔ وہ واپس جاتے ہوئے اُسے ڈھونڈتا رہا مگر وہ اُسے کہیں نہیں دِکھی۔
عُنید کو اسکالر شپ ملا تو وہ باہر چلا گیا۔ اور اُس دن کے بعد اُن میں کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ عُنید نے بھی شعوری کوشش نہیں کی تھی۔ عائشہ اور جمال کو بھی وہ ٹالتا رہا تھا۔ عُنیزہ بھی اسکالر شپ پر باہر چلی گئی تاکہ شادی کے معاملے میں اُس پر زور نہیں ڈالا جائے۔کبیر صاحب چاہتے تھے کہ عُنیزہ کے آتے ہی اُس کا فرض ادا کر دیں لیکن عُنید کی طرف سے مکمل خاموشی تھی جس کی وجہ سے کبیر صاحب اُس سے متنفر ہو چکے تھے۔دوسری طرف عنیزہ بھی واپس آنے پر تیار نہیں تھی۔ کسی نہ کسی کورس کے بہانے وہ وہیں ٹکی ہوئی تھی۔ نہ وہ واپس آتی اور نہ ہی عنید پر زور دیا جاتا۔ اگر عنید انا اورضد کا پکا تھا تو عنیزہ کو بھی اپنی عزتِ نفس بہت عزیز تھی۔
جبکہ وہ اب پچھتاووں کی زَد میں تھا ۔ اب اُسے ہر صورت میں منا لینا چاہتا تھا۔ وہ اُٹھا اور فون لے کر لان میں چلا آیا۔ اُس نے جمال صاحب کو کال ملائی۔ پاکستان میں یقیناً صبح کا وقت تھا۔ وہ اُنہیں خوشخبری سُنانا چاہتا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...