وہ نور دیکهتے ہوئے ہی جا رہا تها۔۔۔۔کہ اس کی ٹکرہمایوں سے ہو گئ۔۔
ہمایوں کہ ہاته میں موجود مہمانوں کے لیےجوس سنار پرالٹ چکا تها ۔ گهر رنگ برنگی روشیوں سے جگ مگا رہا تها۔۔۔۔ سب نے اپنے خاص دوستوں کو انوئٹ کیا تها۔۔۔
گهر مہمانوں سے بهرا پڑا تها۔۔سب اب ان کی طرف متوجہ تهے۔۔۔ وہ کبهی اپناکرتا چهاڑتا تو کبهی۔۔بند ہوتی کهولتی آنکهوں سے ہمایوں کو دیکهتا۔۔۔
او سوری سوری۔۔۔
اسے دیکه کہ نور کا قہقہہ بلند ہوا تھا۔
۔۔ہمایوں کی بچے۔۔۔
میری کیا غلطی ہے۔۔۔۔آپ خود ہی پتہ نہیں کون سی دنیا میں گم۔۔۔جا رہے تهے۔۔۔اس نے نور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ شرما کہ رہ گئ۔۔۔نور پنک کلر کا فراک پہنے جوسنار ہی کی پسند تهی۔۔ہلکا میک اپ کیے بہت پیاری لگ رہی تھی۔ ۔
نور دیکھ لو میرے بھائی کا ابھی سے یہ حال ہے تو بعد میں کیا ہو گا۔۔۔۔۔ سهراب وائٹ شلوار سکائے بلیو کرتا پہنے۔۔۔اپنی شاندار پرسنلٹی کہ ساته اپنے روم سے باہر نکتے ساته ہی بولا تها۔۔۔
او تمہارہ اتنے پہلے لڑکی والوں کہ گهر پہ کیا کام اپنے گهر میں ہی رہو۔۔۔کم از کم اس کی مہندی تو خشک ہونے دیتے۔۔۔۔
وہ دراصل لڑکےکے اپنے گهر میں کچه لوگوں نے کافی شور مچا رکها تها تو لڑکے نے سوچا کیوں نہ لڑکی کہ گهر ہی چلا جائے۔۔۔ویسے پردہ تو لڑکی کو کرویا جاتا ہے اور تم سب نےمل کر صبح سے مجهے ہی پردے میں بیٹھائے رکها ہے۔۔۔سهراب سر تا پا سجی سنوری سکائے بلیو لہنگےمیں ملبوس خنساء کہ پاس بیٹهتے ہوے بولا۔۔۔اس کہ ہاتهوں کی مہندی ابهی گیلی تهی۔۔۔جو ماحول میں مسرور کن خوشبو پھیلا ہوءے تهی۔۔۔
☆☆☆☆
سنار کهانا کهانے کے لیے بیٹه چکا تها۔۔اس کی نظر بار بار دیوار پہ لگی تصویر پہ جا رہی تهی۔جیسے وہ اس پہ مسکرا رہا ہو جیسے اس پہ طنز کر رہا ہو۔۔۔سنار اس تصویر کو دیکهنے سے خود کو روکتا ۔۔۔لیکن وہ تصویر اسے خود پہ دیکهنے کہ لیے مجبور کر رہی تهی۔۔۔
اتنے میں انکل بھی نماز پڑھ کر آ گئے۔۔۔
ویسے انکل آپ کے یہ دونوں بیٹےکرتے کیا ہیں۔۔۔
وہ کرسی پہ بیٹهنے کے بجائے۔۔۔تصویر کہ سامنے جا کهڑے ہوئے۔۔۔۔
یہ میرا بیٹا امجد ہے۔۔یہ کراچی میں جاب کرتا ہے۔۔۔اس کی شادی کو پانچ سال ہو گئے ہیں یہ اپنی بیوی بچوں کہ ساته وہیں سیٹل ہو گیا تها۔۔۔
اور یہ دوسرا بیٹا۔۔۔اس کا نام اسفند ہے۔۔۔۔
سنار کا گلاس کی طرف جاتا روکا تها۔۔۔۔اسے ٹیبل پہ ہر چیز گومتی ہوئ محسوس ہوئ۔۔۔اس کا مطلب یہ اس کی نظر کا دھوکہ نہیں۔۔۔۔
اس کے کانوں میں کسی کے قہقہہ کی آواز گونجی تهی۔۔۔
تم نے چیلنج کیا تها نہ۔۔۔
دیکهو سنار امدانی میں جیت گیا ہوں۔۔۔
تم ہار گئے ہو۔۔۔
یہ پڑهائ کرنے امریکہ گیا تها۔۔۔اور پهر وہیں کا ہو کہ رہ گیا ۔۔۔ دو سال پہلے اس نے وہیں پہ کسی لڑکی سے شادی کر لی۔۔۔۔
سنار نے تکلیف سے آنکھیں بند کر لی۔۔۔
لیکن اگلے ہی لمحہ خود پہ قابو پاتے ہوئے آنکھیں کهولی۔۔۔اپنے ساتھ بیٹهی نور کو دیکها۔۔۔جو افسوس بهری آنکھیں لیےفاروق انکل کی کہانی سن رہی تهی۔۔۔۔
قسمت انسان کو گھما پهرا کر وہیں لے جاتی جہاں سے انسان دور بهاگتاہے۔۔۔
ہم پہلے کشمیر میں رہتے تهے پهر ہم لاہور آگئے۔۔۔وہاں بچوں سے جڑی یادیں جینے نہیں دیتی تهی۔۔
وہ آنسو بهری آنکھیں لیے آ کران کہ سامنے والی کرسی بیٹه گئے۔۔۔۔
ہائے آئ ایم اسفند فرام کشمیر۔۔۔۔اس کہ کانوں میں ایک اور آواز گونجی۔۔۔۔
پاکستانی ہو پهر تو آج سے ہم بیسٹ فرینڈ۔۔۔۔
کرو گے نہ مجه سے دوستی۔۔۔
نور کی آواز پہ چونکہ۔۔۔
کدهر گم ہو۔۔۔۔
تو انکل آپ کی کوئ بیٹی ۔۔۔۔
نہیں میرے بس دو ہی بیٹے تهے۔۔۔
او ہو
نور۔۔۔ ٹھیک ہے انکل آج سے میں آپ کی بیٹی ہوئ۔۔۔
یہ تو میرے لیے خوشی کی بات ہے۔۔۔ پھر تو ہفتے میں ایک دن تو آنا ہی ہو گا میرے گهر۔۔۔
کیوں سنار بیٹا۔۔۔۔
سنار جو دل میں کبهی دوبارہ نہ آنے کے دعوے کر رہا تها۔۔۔۔۔چونک کر رہ گیا۔۔۔۔
کیا باتیں ہو رہی ہیں اسے کچه نہیں پتہ تها۔۔ وہ تو ایک مجسمے کی طرح بیٹها کہیں دور سات سمندر پار گم تها۔۔۔
کیا فاروق آپ نے بچوں کو کن باتوں میں لگا دیا۔۔۔کهانا شروع کریں۔۔۔ٹهنڈا ہو رہا ہے۔۔۔۔فائزہ آنٹی کہ کہنے پہ انهوں نے کهانا سٹارٹ کیا۔۔۔۔۔
سنار نے پہلا نوالا نور کہ منہ میں ڈالا۔۔۔
نظریں بچا کر پهر تصویر کو دیکها۔۔۔
اس تصویرکی مسکراہٹ اب طنز کے بجائے رشک میں بدل چکی تهی۔۔۔۔
☆☆☆☆
ایکسکیوزمی۔۔۔۔!
وہ گردن جھکائے بینچ پہ بیٹها تهادنیا سے غافل اپنی سوچوں میں گم تها۔۔ایک نسوانی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائ۔۔۔۔
اس نے گردن اوپر اٹهائ تو ایک معصوم سی لڑکی سر پہ کهڑی تهی۔۔۔
وہ بہت دیر بعد اپنے خیالوں سے باہر آیا۔۔ اس نے ایک نظر اس پہ ڈالی پهر اردگرد کا جائزہ لیا۔۔۔
سٹوڈنٹس ادهر ادهر کهڑے تهے۔۔ کچه نیچے بیٹھے۔۔۔ اپنی اپنی باتوں میں مصروف تهے۔۔۔۔
آر یو انڈین۔۔۔
اس کی آواز پهر اس کی سماعت سے ٹکرائ۔۔۔
نو پاکستانی۔۔۔ اس نے لڑکی کی طرف متوجہ ہوئے جواب دیا۔۔۔
لیکن اس کے لیے اس کے چہرے سے نظریں ہٹانا مشکل ہو گیا۔۔۔۔
وہ بهی کسی سے جلدی امپرس ہونے والا نہیں تها۔۔
لیکن اس کے کہ چہرے پہ پهیلی معصومیت نے۔۔۔۔اسے اس کے چہرے پر سےنظریں نہ ہٹانے پہ مجبور کر دیا۔۔۔
او پاکستانی۔۔نائس ٹو میٹ یو۔۔۔ اس نے ہاتھ آگے بڑهایا۔۔۔ میں تانیہ
ویسے میں بهی پاکستانی ہوں۔۔
اس نے چونک کہ اسے دیکها۔۔۔۔
او اچها۔۔۔۔
اچها ۔۔۔کیا میں یہاں بیٹه سکتی ہوں۔۔
جی بیٹھیے۔۔۔۔۔
میں کافی دیر سے آپ کو دیکه رہی تهی آپ کچه پریشان لگ رہے ہیں۔۔اوراکیلے بیٹھے ہو۔۔۔۔کوئ مسلہ ہوا ہے کیا۔۔؟
نہیں وہ آج میرا دوست نہیں آیا نہ۔۔ تو
ویسے بھی میں نیا ہوں تو کوئی اور دوست نہیں تو میں نے سوچا۔۔۔۔
کیوں نہ اکیلے ہی بیٹھا جائے۔۔۔وہ زمین پہ دیکهتے ہوئے باتیں کر رہا تها۔۔۔ اکیلے۔۔۔یونی بهری پڑی ہے۔۔۔لوگوں سے اور تم اکیلے پاگلوں کی طرح بیٹھے ہو۔۔۔
وہ آپ سے تم پہ آ گئ۔۔۔
مسٹر گهومو پهرو گے تو تو کوئ دوست ملے گی۔۔کوئ خود آ کہ تو نہیں کہے گا مسٹر گم سم ہم سے دوستی کر لو۔۔۔
ہاہاہا۔۔۔۔
تانیہ کہ چہرے پہ جو مصومیت تهی وہ اسے اس کی باتوں میں بلکل نظر نہیں آ رہی تهی۔۔۔۔
اس نے کچه کہنے کہ لیے منہ کهولا تو۔۔۔ تو وہ فورن بول پڑی۔۔۔۔
مسٹر گم سم مزاق کر رہی ہوں مائنڈ نہیں کرنا۔۔ وہ ابهی بھی ہنس رہی تھی۔۔
اس نے اس بار اسے غور سے دیکھا۔۔۔۔ بے بی کاٹنگ کیےبراؤن کلر میں ڈائے بال۔۔۔
بلیو جینز کہ ساته یلو شارٹ وائٹ جاگرز۔۔ گلے میں زپ کلائ میں گهڑی۔۔۔۔
اور کانوں میں رس کهولتی ہنسی کہ ساته وہ کسی کو بهی اپنی طرف متوجہ کرنے کی پوری طاقت رکهتی تهی۔۔۔۔۔
لیکن اسے یوں کسی لڑکی کا پہلی ملاقات میں اتنا فرینک ہونا نا گوار سا گزرا تها۔۔۔
وہ ہنس رہی تھی اور وہ اسے دیکهے جا رہا تها۔۔۔
اس نے ہنستے ہنستے کسی کو پکارہ تها۔۔۔
اس نے بھی اسی سمت دیکها تو۔۔۔
اس نے ہنستے ہنستے ہی کسی کو پکارہ۔۔۔
اس نے بهی اسی سمت دیکھ۔۔۔۔
وہ ایک لڑکا کو پکار رہی تهی جو اپنے ہی خیالوں میں گم جا رہا تها وہ سنے بغیر آگے بڑھ گیا۔۔
اس نے ہنسی روکتے ہوئے پهر سے پکارہ۔۔۔۔
اسفند۔۔۔
اب کی وہ روک کہ پیچهے کو گهوما۔۔۔
یس۔۔۔
آنکھوں پہ گلاسز ۔۔۔کلین شیو کیے ہوے۔۔۔بازوؤں پہ کوٹ ڈالے۔۔۔۔وہ رک کر ان کی طرف بڑها۔۔۔۔
او تانیہ تم۔۔۔ ویسے میں تمہیں صبح سے تلاش کر رہا تهاتم نظر ہی نہیں آئ۔۔
وہ گلاسز اتارتے ہوے تانیہ سے مخاطب ہوا۔۔۔
اچها کیوں خیریت۔۔۔
ہاں ہاں خیریت ہی ہے بس ویسے ہی۔۔۔
اچها اسسے ملو یہ میرا دوست ہے اسفند۔۔۔کشمیر سے ہے۔۔۔۔۔
وہ بھی تانیہ کے ساته بیٹھے لڑکے کی طرف متوجہ ہوا موٹی موٹی ذہین آنکهیں پر کشش مغرور پرسنلٹی لیے۔۔۔جو اس کی طرف پہلے سے ہی دیکه رہا تها
اسفند یہ بهی پاکستانی ہے۔۔۔۔
اوسوری میں آپ کا نام پوچهنا تو بهول ہی گئی۔۔۔
جی میں سنار بن جمال امدانی۔۔۔
او پاکستانی ہو۔۔۔۔اسفند اس کی طرف ہاته بڑهاتے ہوئے بولا ۔۔۔پهر تو ہم آج سے بیسٹ فرینڈ۔۔۔۔
کرو گے نہ مجه سے دوستی۔۔۔
وہ بھی اٹهتے ہوئے بولا۔۔۔
آف کورس۔۔۔ویسے بهی یہاں میرے دوستوں کی کمی ہے۔۔۔سنار نے اسے ہاته ملا کر گلے لگا لیا۔۔۔۔۔
دوسرے دن ریحان کو بھی ان سے ملوایا۔۔۔
شغل شرارتوں اورمستیوں میں کب چار سال گزرےانهیں پتہ ہی نہ چلا۔۔۔تانیہ اچهی تهی۔۔
لیکن تهوڑمعصوم تهی۔ہر بات پہ بغیر سوچے سمجهے یقین کرنے والی۔۔۔۔
اسفند تانیہ کو پسند کرتا تها۔۔۔۔لیکن وہ زیادہ سانار کے قریب ہو گئی۔۔۔۔
سنار بھی اسے چاہنے لگا۔۔۔
اٹهتے بیٹهتے۔۔ کهاتے پیتے بس تانیہ۔۔۔۔
ریحان بهی اس کی باتوں سے تنگ آ جاتا۔۔۔وہ اسے منع کرتااس کہ اتنے قریب نہ ہو لیکن اس کے دل و دماغ پہ تو سوار ہو چکی تهی۔۔
اتنی لمبی کال کی کال تهی سنار۔۔۔۔
کال پہ بات کر کہ کافی دیر بعد آیا تو۔۔۔ریحان نے پوچها۔۔
وہ گهر سے تهی نور کی تهی۔۔
اب یہ نور کون ہے تم نے پہلے کبھی ذکر نہیں کیا۔۔۔ تانیہ نے پوچها ۔ اس نے ایک نظر تانیہ پہ ڈالی
۔پهر کچھ سوچتے ہوئے بولا۔۔۔وہ میری کزن ہے۔۔۔کافی دنوں بعد کال کی ہے نہ تو اس لیے۔۔۔کال لمبی ہو گئی۔۔۔
ریحان اس کا منہ دکه کر رہ گیا۔۔
وہ اس کا روم میٹ تها۔۔۔ اور روز نور سے بات ہوتی تهی۔۔اگر وہ لیٹ ہو بھی جائے تو نور خود کال کر لیتی تھی۔۔۔۔آج اسفند کی پارٹی تهی اور اس وجہ سےوہ لیٹ ہو گیا تها۔۔۔
☆☆☆☆
سنار تم نے جهوٹ کیوں بولا۔۔ اس نے واپسی پہ سنار سے پوچه ہی لیا۔۔
یار میں نہیں چاہتا تانیہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے مجھ سے دور ہو۔۔۔
کیا مطلب اور اگر نور دور ہو گئی تو۔۔۔
ہممم نور۔۔ نور وہ تو کبھی دور نہیں ہو گی۔۔۔ وہ تو میرے سانسوں کی طرح ہے میرے اندر بستی ہے۔۔
تو کل کو جب اسے یہ سب پتہ چلے گا کہ تم کسی اور کہ ساته تو اس پہ کیا گزرے گی۔۔
سنار روکا اور اسے غور سے دیکها۔۔۔
او او کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔
نور میری دوست میری بیسٹ فرینڈ ہم لوگ ایک ہی گهر میں رہے ہیں۔۔اس کا ہر دکھ میرا دکھ رہا ہے اس کے آنسو اس کی آنکهوں سے نکلتے بعد میں ہیں میرے دل پہ پہلے گرتے ہیں۔۔۔
ہم لوگ بچپن سے ایک دوسرے کہ ساته مانوس ہیں بچپن سے۔۔۔۔گهر میں وہ کسی کہ اتنے قریب نہیں جتنے میرے۔۔۔۔گهر میں وہ صرف مجه سے شیئر کرتی ہے ہر بات اور پھر میرے یہاں آ جانے سے وہ خود کو اکیلا فیل کرتی ہے۔۔۔ وہ اداس رہتی ہے ہر وقت لیکن مجه سے چهپاتی ہے اسے لگتا ہے مجهے پتہ نہیں چلے گا۔۔اسی لیے اس کہ ساتھ دیر تک باتیں کرتا ہوں۔۔ویسے بھی اس کا تو کوئی بهی نہیں۔۔۔۔۔
او تو یہ تمہاری ہمدردی ہے مجهے لگا تها تم دونوں۔۔۔۔۔
نہ نہ نہ۔۔۔
ہمدردی نہیں میں اسے چاہتا ہوں اور شاید خود سے بہی زیادہ میری۔۔۔۔
مجه سے زیادہ اسے کوئ نہیں جانتا اور شاید مجهے اس سے زیادہ کوئ نہیں جانتا۔ میری چوئس اس کی چوائس ہے۔اور۔۔اس کی چوائس میری چوائس۔۔ تم اس سے ملو باتیں کرو تو شاید تمہیں لگے تم سنار سے باتیں کر رہے ہو۔ دادا جی ہم دونوں کو ایک دوسرے کی پرچهائ کہتے ہیں۔ ۔۔۔اور اگر میں اسے تانیہ کہ بارے میں بتا بهی دوں تو مجهے پورا یقین ہے وہ اس سے ملنے کہ لیے بے تاب ہو جائے۔۔۔
لیکن جو تم سمجهے ہو ویسا کچھ نہیں
اس فیلنگ کو تم محبت کا نام تو دے سکتے ہو پر وہ نہیں جو تم سمجه رہے ہو ۔۔۔۔۔
او اچها مجهے لگا تم دونوں شاید شادی کر رہے ہو۔۔۔۔۔
نہیں یار ایسا کچھ نہیں ۔۔
شادی تو دور کی بات ہم نے ایسے کبھی سوچا بھی نہیں نہ کبهی ایسی کوئ بات کی ہے۔۔ نہ میں نے نہ اس نے۔۔۔۔
اور ویسے بھی دنیا میں مجهے نور سے زیادہ پیارہ کوئ نہیں اس کہ لیے تو میں خود کوئ شہزدہ ڈھونڈوں گا جو اسے بہت خوشیاں دے وہ گردن ٹیڑھی کیے آسمان کی طرف دیکهتے ہوے بول رہا تها۔۔۔
☆☆☆☆☆
تانیہ آو ہمارے ساته ہم ڈارپ کر دیں گے تمیں۔۔۔ سنار نے اپنے پیچهے باہر نکلتی تانیہ سے بولا۔۔
نہیں آپ لوگ جاو میں تانیہ کو خود چهوڑ آوں گا۔۔۔اسفند اپنی گاڑی کی کی طرف جاتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
تانیہ بهی روکے بغیر اس کہ پیچھے چل دی۔۔
ریحان گاڑی میں بیٹه چکا تها۔۔۔۔
سنار وہیں کهڑا انهیں دیکهتا رہا۔۔۔
گاڑی اس کہ سامنے سے گزری۔۔۔۔
تانیہ نے ہاته ہلا کر باے باے کیا۔۔اسفند نےسنار کو سمائل پیش کی۔۔
سنارکا دل ڈوبنے لگا۔۔۔۔وہ وہیں کهڑا نظروں سے اوجهل ہوتی گاڑی کو دیکهتا رہا۔۔۔
اسفند کا سمائل بهرا چہرا اسے بہت کچه سوچنے پہ مجبور کر گیا تها۔۔۔
اس کی سمائل میں آخر کیا تها۔۔۔۔
نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔۔
او ہیلو آ جاو۔۔۔ گاڑی میں بیٹھے ریحان نے اسے پکارا۔۔۔۔
وہ آ کر گاڑی میں بیٹھا۔۔۔روز سے گیٹ بند کیا۔۔غصے سے سٹیرنگ پہ ہاته مارا۔۔۔
ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔وہ کیسے ایسا کر سکتی ہے۔۔۔ چی۔۔ میں نہیں مانتا۔۔۔ کیوں۔۔۔
او بھائی تو کیا ہوا اس میں اوور ری ایکٹ کرنے والی کون سی بات ہے۔۔ جیسی وہ ہماری دوست ویسی وہ اس کی۔۔۔
ویسے بھی آج اسفند کی برته ڈے تها۔۔۔ اگر وہ ایک رات گزار لے گا اس کہ ساته تو کیا۔۔۔
بس ریحان آگے ایک لفظ نہیں بولنا۔۔۔
ریحان کا گریبان سنار کہ ہاته میں تها۔۔۔
وہ مجھ سے محبت کرتی ہے اس نے صبح بهی تم دونوں کہ سامنے بولا تها مجهے۔۔۔
مجهے نہیں لگتا وہ تمہارے ساته سیریس ہے۔۔ وہ سنار کو پیچهے کرتے ہوئے بولا۔۔۔
نہیں وہ میرے ساته سیریس ہے مجهے پورا یقین ہے۔۔۔۔
نہیں نہیں وہ ایسا نہیں کر سکتی۔۔ اور کرے گی بھی کیوں۔۔۔
کیوں کہ وہ تم سے پہلے اسفند سے ملی تهی اور وہ۔۔۔
اچها چهوڑو چلو چلتے ہیں۔۔۔ ریحان اپنی شارٹ ٹهیک کرتے ہوئے بولا۔۔۔
سنار تهوڑی دیر اسے دیکھتا رہا۔۔
اچها یار سوری۔۔۔سنار نے گاڑی اسٹارٹ کی۔۔۔۔
سوری ۔۔۔سوری ریحان اس کی طرف موڑ کر بیٹهتے ہوئے بولا۔۔ ایک لڑکی کی وجہ سے میرے گریبان تک آ گئے ہو۔۔۔۔
اور سوری۔۔
یار اس وقت میں غصے میں تها۔۔۔۔غصے میں تم کچه بهی کر جاو گے اور میں برداشت کروں گا۔۔۔
بتا دوں میں یہ پہلی اور آخری بار تها۔۔۔
آئنده اگر ایسا کچه ہو تو۔۔۔۔۔
اچها با با سوری نہ۔۔۔غلطی ہو گئی ہے اب معاف کر دو۔۔ سنار نے ہاته چهوڑے۔۔۔
ریحان سیدهے ہو کر بیٹهتے ہوے۔۔۔۔
اچها اچها ٹهیک ہے۔۔۔۔
☆☆☆☆
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...