برق نظروں کو بادِ صبا چال کو اور زُلفوں کو کالی گٹھا کہہ دیا
میری آنکھوں میں ساون کی رُت آئی جب دیدہ اے یار کو میکدہ کہہ دیا
میں کہاں جراتِ لَب کشائی کہاں توبہ توبہ جنوں کی یہ بے تابیاں
روبرو جِن کے نظریں بھی اُٹھتی نہ تھی اُن کے منہ پر اُنہیں بیوفا کہہ دیا
اُن کی یادوں کے جو آخری تھے نشان دِل تڑپتا رہا ہم مٹاتے رہے
خط لِکھے تھے جو اُس نے کبھی پیار میں اُن کو پڑھتے رہے اور جلاتے رہے
اُن پہ خوشیوں کے بادل برستے رہے حسرتوں کے مُجھے ناگ ڈستے رہے
میں اِدھر خلوتوں میں تڑپتا رہا وہ اُدھر محفلوں کو سجاتے رہے
وفا کی آخری حد سے گذر لیا جائے
ستم گروں کے محلے میں گھر لیا جائے
جدھر نگاہ اُٹھے آپ ہی کے جلوئے ہوں
جییں تو ایسے جییں ورنہ مر لیا جائے
میں جِد ھر بھی گیا جِس طرف بھی گیا روگ ہی روگ تھے سوگ سوگ ہی سوگ تھے
وہ بھی تھے لوگ جو زخم دیتے رہے وہ بھی تھے لوگ جو زخم کھاتے رہے
کُچھ تو مُردہ پرستی کا دستور تھا یوں تو ہر کوئی رَسموں سے مجبور تھا
زندہ لوگوں کے گھر میں اندھیرہ رہا لوگ قبروں پہ شمیں جلاتے رہے
اُن کا کوئی پیغام نہ آیا دِل کا تڑپنا کام نہ آیا
تُو نہ ملا تو درد ملا ہے در سے تیرے ناکام نہ آیا
حُسن نے کی جی بھر کے جفائیں اُس پہ مگر الزام نہ آیا
تیرے بغیر اے جانِ تَمنا دِل کو کہیں آرام نہ آیا
ہائے وہ پیار کے پُر خطر سلسلے اُف او ناکامیوں کے کٹھن مرحلے
غیر تو غیر ہیں اُن سے شکوہ ہی کیا ہم سے اپنے بھی نظریں چُرانے لگے
لاکھ سمجھایا صادقؔ نے تُم کو صنم آجکل پیار کی جنس نایاب ہے
پاگلوں کی طرح تُم نگر دَر نگر خاک گلیوں میں یونہی اُڑاتے رہے