(Last Updated On: )
طبقہ امرا سے جن کو اللہ تعالی شانہ نے دولتِ اولاد سے بہرہ کامل عطا فرمایا ہے، ان کو لازم ہے کہ اپنی اولاد کی تربیت کے واسطے یا تو اپنے اخلاق کو مزکی کریں یا ان کو کسی نیک مرد کی اتالیقی میں دے دیں۔ وہ شبانہ روز اس کی صحبت میں رہے اور ان کے اخلاق سیکھیں، ورنہ یہی حالت پیش آنے والی ہے جو اس خاندان کے ناہموار لڑکوں کی ہے۔ یا قوم قولوا إنا للہ وإنا إلیه راجعون۔ اگرچہ اس احاطے میں مزارات بہت سے ہیں مگر سب سے اونچا مزار جو مقبرے کے وسط میں ہے، وہ حضرت خواجہ محمد ناصر متخلص بہ عندلیبؔ کا ہے رحمۃ اللہ علیہ۔ یہ حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کے والد اور پیر ہیں۔ آپ کی ولادت ۲۵؍ شعبان ۱۱۰۵ ہجری میں ہے، اس مصرع سے آپ کی تاریخ ولادت نکلتی ہے۔ مصر؏
وارثِ علم امامَین و علی
اور رحلت آپ کی روز شنبہ بعد العصر قریب شام دوم شعبان ۱۱۷۴ ہجری کو واقع ہوئی۔ طریقہ آپ کا نقشبندیہ مجددیہ ہے۔ چونکہ آپ کے مرشد پاک کا نام مبارک شاہ گلشن رحمۃ اللہ علیہ تھا، اس لیے آپ نے اپنا تخلص عندلیب کیا اور ایک بہت بڑی مبسوط کتاب تصوف میں لکھی اور اس کا نام نالۂ عندلیب رکھا۔ اور اس کی شرح نہایت واضح حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہے جس کا نام علم الکتاب ہے۔ دوسرا مزار حضرت خواجہ محمد ناصر رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں مغرب کی طرف آپ کے فرزند رشید حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ آپ کے مزار مبارک کی لوح پر لکھا ہوا ہے: هو الناصر نور الناصرین اول المحمدئین خواجہ میر علی محمدی المتخلص بہ درد تحیات الله علیه ووالديه و علی من توسل إلیه۔ اور یہ ایک رباعی لوح کے نیچے کندہ ہے۔رباعی ؎
خورشید ضمیر خواجہ میر درد است
ہم بدرِ مُنیر خواجہ میر درد است
ہم میر و فقیر خواجہ میر درد است
ہم مرشد و پیر خواجہ میر درد است
ولادت آپ کی نوزدہم ذی قعدہ ۱۱۳۳ ہجری روز سہ شنبہ کو واقع ہوئی اور رحلت آپ کی ۲۴؍ صفر قبل صبح صادق ۱۱۹۹ ہجری کو واقع ہوئی۔ عمر شریف ۶۶ برس کی ہوئی۔ تیسرا مزار جو حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں مغرب کی طرف کو ہے، وہ آپ کے چھوٹے بھائی جناب خواجہ اثر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ اس مزار مبارک کی لوح پر یہ رباعی کندہ ہے۔ رباعی ؎
از بسکہ غلامِ خواجہ میریم اثر
از رحمتِ حق زندۂ جاوید شوم
زیرِ اقدام خواجہ میریم اثر
ہر گاہ بنامِ خواجہ میریم اثر
إنا لله وإنا إليه راجعون و برضائه راضون وبلقائه راجون رضی الله تعالى عنه وأرضاه عنّا۔
کیا کہیں یہاں بہت دل لگا لیکن دھوپ نہایت سخت تھی، دو گھنٹے بھی نہ بیٹھ سکے۔ نیک بخت اولاد نے دو پیڑ بھی سایہ کے واسطے نہ چھوڑے۔ حالانکہ یہ مقام حضرت خواجہ میر درد کی بغیا مشہور ہے ؎
اولاد نبی کہ بر طریقش نبود
چون آیہ منسوخ کلام اللہ است
اب ہم یہاں سے سیدھے فتحپوری مسجد کو جاتے ہیں۔ وہاں کچھ لوگ داخل سلسلہ ہونے والے ہیں اور منشیِ مسجد یعنی محبی منشی نیاز علی صاحب کے ہاں دعوت ہے۔ ترکمان دروازے سے ایک بہت تیز گاڑی کرایہ کی اور بہت جلد فتحپوری میں پہنچ گئے۔
فتحپوری مسجد کا حال قابلِ ملاحظہ
بانی اس مبارک مسجد کی شاہجہاں بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک بیگم ہیں جن سے بادشاہ نے فتحپور سیکری میں نکاح کیا تھا۔ یہ بی بی نہایت نیک بخت اور نیک نیت تھی۔ اس کی مسجد ہمیشہ سے آباد بھی چلی آتی ہے۔ آج کل اس کی ماہانہ آمدنی پانچ سو ستر روپے دو آنے ہیں۔ ایامِ غدر میں اس مسجد کی جائداد ضبط ہوکر نیلام ہوگئی تھی جس کو چُھنّا مل نے ۲۹ ہزار روپیہ کو خرید لیا تھا۔ لیکن دربار قیصری کے زمانہ واقع ۱۲۹۵ھ مطابق ۱۸۷۷ء میں گورنمنٹ نے اسے واگذاشت کر دیا۔ جب سے اس مسجد کا انتظام مسلمانوں کی ایک جماعت نے اپنے ذمہ لے لیا۔ آج کل اس کے یہ دس ممبر ہیں: شاہزادہ ثریا جاہ صدر انجمن، حافظ عزیز الدین وکیل، محمد اکرام اللہ خاں، حکیم لطیف حسین خاں، منشی کرم اللہ خاں، حکیم محمد اجمل خاں، منشی محمد فخر الدین، مولوی محمد انوار الحق، ڈپٹی محمد الہی بخش خاں، شیح اللہ دیا۔ اس مسجد میں ایک مدرسہ اسلامی بھی ہے جس میں بہت طلبہ پڑھتے ہیں۔ فقہ، تفسیر، حدیث وغیرہم سب علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ ۱۲۹۵ھ سے ۱۳۱۰ھ تک چھپن طالب العالم فارغ التحصیل ہو کر اس مدرسہ سے نہایت احترام کے ساتھ اپنے اپنے وطنوں کو روانہ ہوئے اور اس وقت بہت سے طالب العلم جماعت اول کے جو فن حدیث میں بخاری اور مسلم پڑھتے ہیں جو ان شاء اللہ تعالی سال آئندہ دستارِ علم زیب فرق فرمائیں گے، الحمد للہ علی احسانہ۔
اس مدرسہ کے مدرس اول مولوی محمد عبد الحق ہیں جو اسی مدرسہ میں فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ ان کی تنخواہ چالیس روپیہ ہیں اور مدرس دوم مولوی حبیب احمد ہیں، ان کی تنخواہ پندرہ روپیہ ہیں۔ مدرس سیوم حافظ محمد عمرہ ہیں، یہ صرف نحو پڑھاتے ہیں، اِن کی تنخواہ دس روپیہ ہیں۔ مدرسِ چہارم الہ بخش ہیں، یہ فارسی پڑھاتے ہیں، ان کی تنخواہ گیارہ روپیہ ہیں۔ پانچویں مدرس حافظ رحیم بخش ہیں، یہ معلم القرآن ہیں، ان کی تنخواہ چھ روپیہ ہیں۔ افسوس کہ ہمارے شہر اکبر آباد کی جامع مسجد کے تین سو روپیہ ماہوار سے زیادہ آمدنی ہے اور اس میں مدرسہ بھی ہے مگر معلوم نہیں کہ کیسی تعلیم ہوتی ہے کہ اب تک دو چار لڑکے بھی عالم ہو کر نہ نکلے۔ ہم مسلمانوں کی حالت بہت قابلِ افسوس ہے۔ علی الخصوص تعلیم کی طرف سے دنیا میں مسلمان ہی کی وہ قوم ہے کہ جس نے علمی ترقی کا نشان تمام دنیا میں گاڑ دیا تھا۔ خلفاے عباسیہ کے عہد میں ابو نصر فارابی یونانی اور سریانی زبان کا ماہر تھا۔ اس نے ان زبانوں سے علوم کی بہت سی کتابیں ترجمہ کیں۔ مہدی بن جعفر منصور کے زمانہ میں خاندان برامکہ کے اہتمام سے ژند، یونانی، شامی و سنسکرت زبانوں سے طب و حکمت کی کتابیں ترجمہ ہوئیں۔ یونانی فلسفہ کی کل کتابیں قسطنطین قیصرِ روم کے زمانہ سے ایک مکان میں بند تھیں اور اس کے بعد سے جو بادشاہ ہوتا گیا وہ ایک قفل اُس مکان پر بڑھاتا گیا۔ خیال یہ تھا کہ فلسفہ کے جاری ہونے سے دین مسیحی کو سخت ضرر پہنچے گا۔ مامون رشید نے قیصرِ روم کو خط لکھا کہ وہ کتابیں دار الخلافت بغداد میں بھیج دے۔ اس نے یہ سمجھ کر کہ فلسفہ جوشِ اسلام کو سرد کردے گا، اس طلب کو بہت غنیمت سمجھا اور وہ کل کتابیں اونٹوں پر لدوا کر بھیج دیں۔ مامون رشید کے زمانہ میں سب سے بڑا مترجم یعقوب کندی تھا۔ اس زمانہ میں بہت سی کتابیں یونانی، فارسی، کالڈی، قبطی، شامی زبانوں سے ترجمہ ہوئیں۔ متوکل باللہ کے زمانہ میں سب سے بڑا مترجم حنین بن اسحاق تھا۔ ان خلفا کے زمانہ میں مترجموں کی تنخواہ ماہانہ پانچ سو اشرفیاں تھیں۔ دو سو برس تک ترجمہ کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ بعض علما نے سنسکرت سے بھی ترجمہ کیا ہے جیسے ابو ریحان بیرونی، قاضی رکن الدین سمرقندی۔ سلطان فیروز شاہ والی ہندوستان نے بھی جوالا مکھی کے بت خانہ سے سنسکرت کی کتابیں نکلوا کر ترجمہ کروائیں۔ ۴۱۰ ہجری میں غازی سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے متھرا کی فتح سے واپس جاکر غزنین میں ایک عالی شان مدرسہ کی بنیاد قائم کی اور ہندوستان کی دولت کا ایک بڑا حصہ اس میں صرف کیا۔ ایک کتب خانہ اس کے شامل تھا جس میں مختلف زبانوں کی کتابیں کثرت سے تھیں۔ اس مدرسہ کے خرچ کے لیے ایک بہت بڑی جاگیر وقف کر دی تھی۔ اس زمانہ کے امرا زمانۂ حال کے اُمرا کی طرح علم سے بے خبر نہ تھے، ایسے علما اور حکما سے محبت رکھتے تھے۔ مسلمانوں میں تعلیم کا بہت بڑا جز سفر تھا، کوئی طالب العلم ایسا نہ تھا کہ جس نے تحصیلِ علم کے لیے کم سے کم چار چانچ سو کوس کا سفر نہ کیا ہو۔ مسلمانوں نے جس سرگرمی سے تحصیلِ علوم کے لیے سفر کیا ہے اس کی نظیر کسی قوم کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ ابن خلّکان لکھتے ہیں کہ قاضی ابو یوسف نے علما کا ایک خاص لباس ایجاد کیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو ایم اے والوں کو جُبّہ علم دیا جاتا ہے، ضرور ایسا لباس علما کا تتبع ہے۔ مختلف اسلامی ملکوں میں مختلف علوم کی ترقی ہوئی۔ ایران نے معقولات و منقولات میں کمال حاصل کیا۔ مصر و شام میں فقہ، حدیث، اسماء الرجال پر توجہ زیادہ ہوئی۔ اسپین میں زبان دانی و شاعری کو فروغ ہوا۔ ابن الناصر محمد بن قلاؤن نے مصر میں جو مدرسہ قائم کیا وہ رفعت و شان کے اعتبار سے علمی دنیا میں بے نظیر سمجھا گیا ہے۔ تین برس میں اس مدرسہ کی تعمیر ہوئی، ۵۴ لاکھ روپیہ خرچ ہوئے تھے۔ اس کا بڑا کمرہ ۶۵ گز لمبا اور ۶۵ گز چوڑا تھا۔ مَراغہ میں ہلاکو خاں نے محقق طوسی سے ایک رصد گاہ بنوائی تھی۔ مامون رشید نے ۲۱۵ ہجری میں خالد بن عبد الملک وغیرہ سے قاسیون اور بغداد میں رصد گاہیں بنوائیں، پر شرف الدولہ دیلمی نے دوبارہ بغداد میں رصد گاہ بنوائی۔ نظام الملک نے نیشاپور میں مدرسہ نظامیہ قائم کیا جہاں ابو المعالی امام الحرمین اس کے مدرس اعظم تھے اور امام غزالی سے فخر روزگار اس کے مستعد طالب العلم تھے۔ نظام الملک طوسی نے جو شاہانِ آلِ سلجوقی الپ ارسلان ملک شاہ کا وزیر تھا، نظامیہ بغداد کی بنا ڈالی۔ چھ لاکھ دینار خزانہ شاہی اس مدرسہ کے خرچ کے لیے مقرر کیے اور اپنے کل جاگیر کا دسواں حصہ وقف کر دیا۔ اس کے مدرس اعظم علامہ ابو اسحاق شیرازی رحمۃ اللہ علیہ تھے اور اس کے اخیر زمانہ کے طالب العلم حضرت سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ اس کے متعلق ایک بہت بڑا کتب خانہ تھا جس کے منتظم علامہ ابو زکریا تبریزی تھے۔ سب سے پہلے اسی مدرسہ میں طلبہ کی تنخواہیں اور وظیفے مقرر ہوئے۔
چھٹی صدی میں ممالک اسلامیہ کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا کہ جہاں کثرت سے مدارس اور دار العلوم نہ ہوں۔ ایک بغداد میں بیس بڑے نامی مدارس تھے جن میں سے بعض کے اسما یہ ہیں: تاجیہ، مستوفیہ، کمالیہ، بہائیہ، فخریہ، مستنصریہ وغیرہ۔
سلطان صلاح الدین کو اگرچہ جنگ صلیب نے بہت کم مہلت دی، جس پر بھی اس نے ممالک مصر و شام وغیرہ میں بہت سے مدرسے قائم کیے۔ ۵۷۸ھ میں دمشق میں بیس دار العلم تھے۔ اس سلطان کے زمانہ میں یہ حکم تھا کہ اسکندریہ کے مکان مدرسہ میں جو طالب العلم آئے اس کو مکان، خوراک، شفا خانہ، حمام سب کچھ سلطنت کی طرف سے مہیا ملے۔ اس بادشاہ کے عہد میں علما کی تنخواہوں کی تعداد تین لاکھ دینار سالانہ تھے، جس کے پندرہ لاکھ روپیہ سالانہ ہوتے ہیں۔ اس بادشاہ کے زمانہ میں یہ بات بڑے عیب کی سمجھی جاتی تھی کہ کوئی امیر دنیا سے رحلت کرے اور کوئی علمی یادگار نہ چھوڑ جائے۔ اندلس میں کوئی مستقل مدرسہ نہ تھا، مسجدوں کے صحن درس گاہیں تھیں، لیکن اس پر بھی اندلس کے مسلمانوں کو تمام یورپ کی تعلیم کا فخر حاصل ہے۔ اے مسلمان بھائیو! مری اس بے ربط تحریر کو پڑھنا اور اس پر ذرا غور بھی کرنا، دیکھو تمھاری کیا حالت تھی اور تم کس حالت کو پہنچ گئے، یہ تو پسندیدہ امر نہیں ہے کہ تم ہمیشہ ایسی حالت میں مبتلا رہو۔ خدا کے واسطے بیدار ہو جاؤ، کب تک یہ خواب غفلت۔
اب میں اکبر آباد کے مسلمان بھائیوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ مسجد فتحپوری دہلی کے مدرسہ کی نظیر کے موافق آپ اپنے جامع مسجد کے مدرسہ کی ترقی میں کوششیں کریں وباللہ التوفیق وعلیہ التکلان وھو نعم المولی ونعم النصیر۔ اب میں منشی محمد نیاز علی صاحب کی دعوت سے فراغت حاصل کرکے اپنی فرود گاہ کوٹھی نمبر ۴ واقع محلہ دریا گنج کو واپس جاتا ہوں۔
آج رجب المرجب ۱۳۱۱ ہجری کی اکیسویں اور دو شنبہ کا روز ہے۔ صبح کی نماز پڑھی، وظیفہ سے فرصت کی۔ ٹھیک نو بجے کوٹھی کی برساتی میں سواری حاضر ہے۔ حضرت محبوب الہی شیخ المشائخ سلطان نظام الدین اولیا زری زر بخش بدایونی قدس اللہ تعالی سرہ العزیز کے سلام کو جاتے ہیں۔ دل یہ کہتا ہے کہ جب حضرت کے سلام کو جاتے ہو تو اور مکانوں کو نہ دیکھو اور یہی ارادہ پختہ ہو گیا۔ سواری پر بیٹھے، مگر دل نے قبول نہ کیا۔ آخر سواری ساتھ لی اور پیدل ہو گئے۔ بزرگوں کی زیارت کے آداب بچپنے سے تعلیم کیے گئے تھے، وہ سب مزاج ہوگئے ہیں (جب لڑکپن سے بچوں کو اخلاقی تعلیم ہوگی تو پھر ان شاء اللہ تعالی تا دم مرگ اس کا اثر باقی رہے گا)۔ ہمارے یمین و یسار عمدہ عمدہ پرانی عمارتیں نظر آرہی ہیں، مگر دل عاشق کی طرح سے شکستہ اور ویران پڑی ہیں۔ پہلے دہلی دروازہ سے نکل کر الٹے ہاتھ کی طرف کوٹلہ ملا، ٹوٹا پھوٹا پڑا ہوا ہے۔ جب ایسی مضبوط و مستحکم پتھر کی عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر مسمار ہو گئیں تو اس عمارت کا بنانے والا جو ایک مشت استخوان تھا اس کی ہڈیوں کا کیا ٹھیک ہے۔ اول تو پتا ہی نہیں لگتا کہ وہ کون تھے اور اگر فرض کرو کہ ان کا کچھ حال معلوم بھی ہو جائے تو کیا اس وقت ہماری تعریف و توصیف انھیں فائدہ پہنچا سکتی ہے، کل مرء بما کسب رھین۔ ہر آدمی اپنے کیے کی سزا یا جزا پائے گا، اصل خیر اور ثواب وہی ہے کہ جو آدمی اپنے ہاتھ سے دے لے جائے۔ یہاں پر ہمیں دور سے چند قبریں نظر آئیں، کچھ پتا نہیں کس کی ہیں۔ کوٹلہ سے آگے بڑھے اور یمین ویسار ہزاروں قبریں اور بیسوں بروج سنگ سرخ اور سنگ مرمر کے نظر آرہے ہیں۔ عمارت کی شان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ امرا کے مقابر ہیں، مگر جب کسی کا نام نہیں معلوم تو ایک گدا سے زیادہ گمنام ہیں۔ اندازاً دو گھنٹے میں ہم روضہ شریف میں پہنچے، وضو تھا مگر پھر تازہ وضو کیا۔ پہلے حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کے مزار منور پر حاضر ہوئے اور فاتحہ پڑھی پھر داخل مسجد ہو کر تحیۃ المسجد ادا کی اور استغفار کی تسبیح پڑھ کر درود پڑھتے ہوئے حضرت سلطان المشائخ کی تربت پاک پر حاضر ہوئے۔ تربتِ محبوب کو بوسہ دیا، آنکھوں سے لگایا، جالی شریف کے باہر آکر فاتحہ پڑھی اور آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئے۔ ان بادشاہوں کے دربار میں بھیک مانگنے کا یہی طریقہ رکھا گیا ہے۔ ایسی شفقت فرمائی کہ راستہ کی تھکن سب جاتی رہی۔ آقا اور مالکوں کا یہی دستور ہے ؎
خواجہ آن نیست کہ موے و میانے دارد
خواجہ آنست کہ باشد غم خدمت گارش
آپ کی تعریف اس سے زیادہ کیا کوئی کرسکتا ہے کہ آپ محبوبِ الہی ہیں۔ اہلِ تذکرہ نے لکھا ہے کہ آپ کے بزرگوار کا اسم گرامی احمد بن دانیال ہے۔ غزنین سے ہندوستان میں تشریف لائے اور حضرت محبوب الہی قصبہ بدایوں میں بماہ صفر ۶۳۴۔ہجری میں پیدا ہوئے اور پچیس برس کی عمر میں دہلی تشریف لائے اور علمِ ظاہر کی تحصیل کی اور چندے شیخ نجیب الدین متوکل سے صحبت رہی۔ پھر بمقام قصبہ اجودھن حضرت بابا فرید الدین گنج شکر قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پنج شنبہ کے روز شرفِ بیعت سے مشرف ہوئے اور زمانۂ دراز تک حاضر حضور رہے۔ آخر الامر آپ کو سندِ ولایتِ دہلی عطا ہوئی اور حضرت قطب جمال ہانسوی قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت میں روانہ کیے گئے۔ آپ نے دل میں خیال کیا کہ میں برادرِ بزرگ کی خدمت میں بھیجا گیا ہوں، مجھے کچھ تحفہ ان کے واسطے لے جانا ضرور ہے۔ آپ نے صحرا میں سے خشک لکڑیاں چن کر جمع کیں اور ان کا پشتارہ باندھ کر اپنے سر مبارک پر رکھا اور مٹی کے کلوخ جمع کیے اور ان کو اپنے سینہ بے کینہ پر رگڑ کر چکنا اور مدوّر کرکے جھولی میں بھرا اور اس کو دوش مبارک پر لٹکا لیا۔ جب حضرت قطب جمال قدس سرہ کے حضور میں حاضر ہوئے تو یہ دونوں تحفے پیش کیے اور عرض کی کہ لکڑیاں تو آپ کا حمام گرم کرنے کو ہیں اور یہ کلوخ طہارت کو ہیں۔ مساکین کا تحفہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ حضرت قطب جمال رحمۃ اللہ علیہ آبدیدہ ہوئے اور اپنے خدام کو حکم کیا کہ یہ لکڑیاں ہماری قبر پاٹنے کے لیے ہیں اور یہ کلوخ قبر میں ہمارے سرہانے رکھے جائیں گے۔ اور حضرت سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ بھائی! دہلی کے لیے ایسے ہی شخص کی ضرورت ہے ؎
فروتنی است دلیل رسیدگانِ کمال
کہ چون سوار بمنزل رسد پیادہ شود
خاکساری بھی نہ چھوڑے دے خدا جس کو عروج
آسمان پر ماہ تاباں ہے زمین پر چاندنی
وہ اولیاء اللہ جن کو مرتبہ نبوت کا خاص فیض آتا ہے وہ اسی طرح سے عروج کے بعد نزول فرماتے ہیں تاکہ مخلوق سے شیر و شکر ہو کر ان کی ہدایت کریں، جیسے جب کوئی فاضلِ اجل کسی مبتدی کو پڑھاتا ہے تو ناگزیر ابجد کی طرف توجہ کرنی پڑتی ہے۔ یہ اُسی شان کے ولی تھے کہ آسمان ہو کر زمین بن گئے تھے۔ نزول سے عروج کرنا دشوار ہے اور پھر عروج سے نزول کرنا دشوار تر ہے۔ جبروتی اور ملکوتی کیفیتیں کچھ ایسا لطف دکھاتی ہیں کہ اس کو چھوڑنا انبیا ہی کا کام ہے، ہر ولی اس مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا۔ ایسے ہی اولیا کی شان میں حضرت نے ارشاد فرمایا ہے: علماء أمتي کأنبیاء بني إسرائیل۔ حضرت محبوب الہی نے ۱۸؍ ربیع الثانی روز چہار شنبہ ۷۲۵ ہجری میں وفات فرمائی ہے۔ اکانوے برس کی عمر آپ کی ہوئی۔ تاریخ وفات آپ کی یہ ہے ؎
نظامِ دو گیتی شہ ما و طین
چو تاریخ فوتش بجستم ز غیب
سراج دو عالم شدہ بالیقین
ندا داد ہاتف: شہنشاہ دین
متفرق زمانوں میں اس قدر عمارتیں آپ کے مزار مبارک کے حلقے میں بنی ہیں کہ یہ مختصر کتاب اس کی تفصیل کی متحمل نہیں۔ جہاں مزار مبارک سے پہلے اس کا نام غیاث پور تھا، اب یہ مقام آپ کے نام نامی سے مسمیٰ ہو گیا ہے اور بیسوں شاہزادے اور شاہزادیاں آپ کے مزار مبارک کے پائیں خوابِ ناز میں ہیں۔ جہاں آرا بیگم بنت شاہجہاں بادشاہ نور اللہ مرقدہا کی قبر بھی آپ کے پائیں ہے اور اُس پر یہ کتبہ ہے:
ھو الحی القیوم ؎
بغیر سبزہ نپوشد کسے مزارِ مرا
کہ قبر پوش غریبان ہمیں گیاہ بس است
الفقیرۃ الفانیۃ جہان آرا مرید خواجگان چشت( ) بنتِ شاہجہاں بادشاہ غازی انار اللہ برہانہ ۱۰۹۲ ہجری۔
محمد شاہ بادشاہ بھی اسی درگاہ عالی کے ایک کونے میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان کی تاریخِ انتقال ۱۰۶۱ ہجری ہے۔ اس محجر میں اور بھی قبریں ہیں اور حضرت محبوب الہی کے گنبد کے ٹھیک پائیں حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے، آپ کا اصل نام ابو الحسن ہے اور آپ کے والد ماجد کا نام سیف الدین محمود ہے۔ آپ بڑے امراے نامدار سے تھے، آخر الامر امیر سے فقیر ہو گئے اور اس فقیری کا وہ دبدبہ ہوا کہ آپ خود ہی فرماتے ہیں ؎
دبدبۂ خسرویم شد بلند
زلزلہ در گور نظامی فگند
ایسا عاشقِ زار پیر کا جیسے آپ تھے، سواے مولانا مظفر بلخی قدس سرہ کے دوسرا نہ ہوا۔ جب حضرتِ محبوب الہی نے رحلت فرمائی تو آپ سب مال لٹا کر فقیر ہو گئے اور تقریباً ساتویں مہینے ۲۹؍ ذیقعدہ ۷۲۵ ہجری روز جمعہ کو آپ نے بھی وفات فرمائی۔
اب حضرت قطب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کا تہیہ ہے۔ کچھ تھوڑی دور پیدل چل کر گاڑی پر سوار ہوئے۔ جب ایک میل مزار مبارک رہا ادباً سواری چھوڑ دی۔ تازہ وضو کیا اور مسجد میں ظہر پڑھی۔ پھر آستانہ شریف کی طرف آنکھوں سے روانہ ہوئے۔ پہلے حضرت مولانا محمد فخر الدین فخر جہاں قدس سرہ کا مزارِ مبارک ملا، اسے بوسہ دیا اور آنکھوں سے لگایا ؎
اگر بوسہ بر خاک مردان زنی
بہ مردی کہ پیش آیدت روشنی
فاتحہ پڑھی اور بیٹھ گئے ؏
زینہ زینہ رفت باید تا ببام
ہم ابو العلائیوں کو حضرت مولانا قدس سرہ سے کمال نیازمندی کے علاوہ اتحاد طریقت ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب آپ اجمیر شریف حاضر ہوئے اور احاطۂ نور میں مراقبہ فرمایا تو یہ حکم ہوا کہ ہم سے فیض یاب ہوا چاہتے ہو تو ہمارے پاس اکبر آباد ہو کر آؤ۔ بس آپ کو معلوم ہو گیا کہ آپ حضرت سیدنا امیر ابو العلا اکبر آبادی رضی اللہ عنہ کی طرف بتمامہ متوجہ ہیں۔ حضرت مولانا نے فوراً اکبر آباد کا تہیہ فرما دیا، جب آپ اس آستانہ ملائک آشیانہ پر حاضر ہوئے تو آپ نے مزار مبارک کی چہار دیواری بالکل منہدم پائی اور باغ بھی خشک ہو گیا تھا۔ آپ نے چہار دیواری میں فوراً کام لگا دیا۔ چند ماہ آپ اس آستانہ شریف پر حاضر رہے مگر معتکف۔ اور غایت ادب سے کبھی مزار مبارک کے چبوترے پر قدم نہ رکھا۔ دروازہ شریف کی کوٹھری میں معتکف رہتے تھے۔ واقعی امر یہ ہے کہ ادب انھیں حضرات کو آتا تھا اور جس نے ادب سیکھا انھیں سے سیکھا ؎
کر دم از عقل سوالے کہ بگو ایمان چیست
بے ادب را بسمٰوات بقا منزل نیست
چند روزے تو در ایں خانۂ تن مہمانے
عقل در گوشِ دلم گفت کہ ایمان ادبست
بسمٰوات بقا منزل پاکان ادبست
با ادب باش کہ خاصیت مہمان ادبست
بزرگوں نے فرمایا ہے کہ ادب را در خانوادۂ فقرا بجو یا در خزانہ بادشاہ۔
فائدہ
شیخ ابو نصر سراج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل ادب کے تین طبقے ہیں: ایک تو اہل دنیا سو اکثر ادب اِن کا فصاحت و بلاغت، حفظ علوم و اسمار ملوک و اشعارِ عرب میں ہوتا ہے۔
دوسرے اہلِ دین سو اکثر ادب اِن کا ریاضتِ نفس، تادیب جوارح، حفظِ حدود، ترکِ شہوات میں ہوتا ہے۔ تیسرے اہلِ خصوصیت، سو اکثر ادب اِن کا قلوب کی طہارت، اسرار کی مراعات، عہود کی وفا، وقت کے حفظ میں ہوتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آدمی کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ علما۔ عرض کیا گیا کہ بادشاہ کون ہے؟ کہا: زہّاد۔ استفسار ہوا: سفلی کون ہیں؟ فرمایا کہ جو دین کے عوض میں کھاوے یعنی جو دین کے پیرایہ میں دنیا کماوے ؎
فرصت اگرت دست دہد مغتنم انگار
زنہار ازان قوم نباشی کہ فریبند
ساقی و صراحی و مغنی و سرودے
حق را بسجودے و نبی را بدرودے
باز آمدم باصلِ سخن، الغرض مولانا محمد فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ کو اس فیض طریقہ ابو العلائیہ نے وہ رتبۂ اعلی بخشا کہ فخر جہاں ہو گئے۔ غزل فقیر محمد اکبر ابو العلائی ؎
ہر شے میں دیکھتا ہے جلوا ابو العلا کا
جب بند کر کے آنکھیں دیکھا اوسی کو پایا
ہے سب سے بڑھ کر جوش و خروش اپنا
کیوں کر کوئی سمائے اپنی نظر میں یارو
اکبرؔ میں آپ اپنی آنکھوں کا شیفتہ ہوں
رکھتا ہے اور آنکھیں شیدا ابو العلا کا
سینے میں دل بنا ہے روضا ابو العلا کا
اس دل میں موجزن ہے دریا ابو العلا کا
ان آنکھوں نے ہے دیکھا جلوا ابو العلا کا
دیکھا ہے میں نے اِن سے روضا ابو العلا کا
اب ہم مولانا کی تربت سے رخصت ہوئے اور حضرت قطب صاحب قدس سرہ خاکِ پاک پر آنکھیں مل رہے ہیں ؎
خاک مردان خدا باش کہ در کشتیِ نوح
ہست خاکے کہ بہ آبے نخرد طوفان را
سبحان اللہ و بحمدہ انھیں بزرگواروں کے اجساد نازنین ہیں کہ جن کو زمین نے گلدستۂ باغ جنت سمجھ کر اپنے دل میں رکھ چھوڑا ہے۔ اگر ایسے گلہاے باغِ قطبیت و ولایت زیرِ زمین نہ ہوتے تو کوئی پھول زمین سے معطر اور خوش رنگ ہو کر نہ نکلتا۔ انھیں کے اجساد نازنین کی عطریت گلاب میں ہے اور انھیں اجسام معطر کی بُو باس نسرین و نسترن میں ہے۔ یہی وہ ارواح متبرکہ ہیں کہ زمانے نے جن کی قبروں پر اپنے ہاتھوں سے پھول برسائے ہیں اور تا قیامت برستے رہیں گے۔ دنیا بھر کے اہلِ کمال بادشاہوں کے مجرائی اور سلامی ہونے کی تمنا رکھتے ہیں اور ان کی وہ ذات پاک ہے کہ بادشاہان اولو العزم اِن کے جوار رحمت میں دفن ہونے کے آرزو مند ہیں، ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ۔ اس آستانہ عالی میں بھی الہی دروازہ کے پہلو میں شمس الدین التمش سا بادشاہ پڑا ہوا ہے اور اس کی قبر پر کوئی فاتحہ کے لیے کھڑا بھی نہیں ہوتا ؎
یہ خانقاہ توکل وہ فقر عالی ہے
پڑے ہیں شاہ فقیروں کے آستانے میں
اکبر بادشاہ سا سلطان اللہ اسے جنت میں جگہ دے اور وہ اکبر آباد سے اجمیر شریف پیدل حاضر ہوا، اللہ اکبر اللہ اکبر لا إله إلا اللہ واللہ اکبر واللہ اکبر وللہ الحمد۔ یہ اِن حضرات کے بے ریا فقر کا اثر تھا جو ان کے انتقال کے کئی سو برس بعد رنگ لایا۔ واقعی جو خاص اللہ کے واسطے بے نام ونشان ہوتا ہے اللہ تعالیٰ شانہ اس کے نام و نشان کو یوں عروج دیتا ہے۔ ہمارا مشامِ جان تو اِن خوشبوؤں سے معطر ہے ؎
اپنی خاطر میں کب آتی ہے گلستاں کی بو
ابھی کنگھی نہ کرو اور بھی کھولے رہو سر
ہم نے سونگھی ہے کسی گل کے گریباں کی بو
دل کو غش کرتی ہے اس زلف پریشاں کی بو
حضرتِ محبوب الہی کے مناقب تو اس صفت پر ختم ہیں کہ وہ اللہ کے محبوب ہیں اور حضرت قطب صاحب کی تعریف اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ یہ محبوب الہی کے پیر کے پیر ہیں۔ حضرت قطب صاحب کی وفات ۱۴؍ ربیع الاول ۶۳۲ ہجری میں واقع ہوئی ؎
ز عشقِ ناتمامِ من جمالِ یار مستغنی ست
بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زیبا را
آپ کے مزارِ مبارک کے حلقہ میں بڑی بڑی عمدہ عمارتیں ہیں۔ منجملہ ان کے مسجد قوت الاسلام کا ایک منارہ ہے جسے اب قطب صاحب کی لاٹ کہتے ہیں، اِس کی رفعت اہلِ سخا کی بلندیِ ہمت کی تصویر ہے۔ اسی کے سامنے سنگ سرخ کی بہت اونچی ایک محراب ہے جسے الہی دروازہ کہتے ہیں۔ اس کے حسن کی کیفیت استادانِ فنِ عمارت جانتے ہیں۔ بعض نادرہ فن معمار کہتے ہیں کہ یہ محراب اندلس یعنی اسپین کی اسلامی عمارتوں کا ایک نمونہ ہے جو اپنی گردن بلند کو خم کیے ہوئے نہایت حیرت سے اپنے بنانے والے کا خیال کر رہی ہے کہ یا الہی وہ عالی حوصلہ آج زمین کے کس پردے میں نہاں ہیں کہ میں سیکڑوں برس سے اس کا انتظار کر رہی ہوں، اُس کی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ یورپ کا جو سیاح اس مینار اور محراب کو دیکھتا ہے متحیر ہو جاتا ہے۔ اور بعض متعصب تو گھبرا کر یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تعمیریں اٹلی کے استادوں کے ہاتھ کی بنائی ہوئی ہیں۔ بس یہ اصول خوب ہے: بری بری چیزیں تمھاری اور اچھی اچھی ہماری۔ دنیا بھر میں جہاں کوئی کسی فن کا اچھا کاریگر ہو وہ ہمارا اور جو برا بد سلیقہ ہو وہ بے چارہ ہندوستان کے سر ٹھونک دیا گیا۔ اگرچہ یہ بات تلخ تو معلوم ہوتی ہے مگر واقعی درست بھی ہے۔ ہم مفتوح وہ فاتح۔ وہ جو کچھ کہیں درست ہے، ہم جو کچھ کہیں سراسر غلط۔ ہم نے جو اس باب میں خوب غور کی تو معلوم ہوا کہ ہمارے کردار ہی ایسے ہیں، جہاں ہماری قوم کو تمول ہوا اور عیش و آرام نے کاہل وجود کر دیا۔ نہ کبھی اپنا حساب دیکھتے ہیں، نہ انتظام کی طرف نظر۔ جائداد و املاک لوٹنے والوں کے ہاتھ میں ہے۔ مال لٹ رہا ہے، ہم بے خبر ہیں۔ پھر ہم مسلمانوں کے دن کیوں کر پھریں۔ بادشاہی اپنے ملک کی وہ کرے گا جو بیدار ہوگا۔ جب بادشاہ بیدار ہوگا تب رعیت ٹھنڈی نیند سوئے گی اور جب ہمارا بادشاہ ہی ہر وقت خواب ناز میں ہوگا تو پھر ہماری بد نصیبی کا کیا پوچھنا ہے۔