نادیؔ خلاؤں میں تیرنے جیسی کیفیت میں تھی ۔زمین پر پاؤں دھرنے کو من کسی طور بھی نہیں مان رہا تھا اور آسمان تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔حویلی میں پہلے سرگوشیاں ہوئیں پھر واضح لفظوں میں ظہیر شاہ کی آمد بارے باتیں ہونے لگیں۔یوں اس کی اچانک آمد بارے وجہ بھی سبھی کو معلوم تھی۔بات حویلی کی چاردیواری کے اندر ہی تھی۔کیونکہ پیر سائیں نہیں چاہتے تھے کہ ظہیر اور نادیؔ کی شادی بارے ابھی کسی کو معلوم ہو۔وہ خاموشی سے دونوں کا نکاح کر دینا چاہتے تھے۔انہیں اپنے بیٹے کی تعلیم مکمل ہونے کی بھی فکر تھی۔وہ جو خود تعلیم حاصل نہیں کر پائے تھے،اپنے بیٹے میں وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل کر رہے تھے۔نادیؔ کے لہجے میں جو انہوں نے بغاوت کی ہلکی سی رمق محسوس کی تھی۔اسی کو بھانپ کر خود رو کونپل کو وہ اگتے ہی ختم کر دینا چاہتے تھے۔دادی اماں کی وساطت سے حویلی کے افراد کے درمیان ہی چھوٹی سے تقریب کا اہتمام ہو رہا تھا۔وہاں روپوں یا گہنوں کی کہاں کمی تھی جو کوئی رکاوٹ آڑے آتی۔نادیؔ کا عروسی جوڑا تیار ہو چکا تھا۔ان تیاریوں میں فرح پیش پیش تھی۔اسے یقین تھا کہ نادیؔ کا فقط یہی نکاح پر ہی جو اہتمام ہونا ہے،وہی ہو گا۔دھوم دھام سے شادی کا خیال محض ایک خیال ہی تھا۔پھر کہاں کس نے کچھ پوچھنا تھا۔نادیؔ یہ سب دیکھ رہی تھی اور بے بس تھی۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ جو عمر قید اسے دی جا رہی ہے۔اس پر اگر کوئی احتجاج کیا تو یہی ہو گا کہ اس کی سزا مزید بڑھا دی جائے گی۔اور کچھ بھی نہیں ہو گا۔وہ فقط خوابوں اور خیالوں ہی میں آزادی کے بارے میں سوچ سکتی تھی۔یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ ازحد بے بس ہو جاتا ہے تو پھر کسی کرامت یا معجزے کا منتظر ہو جاتاہے۔نادیؔ کی حالت بھی کچھ ایسے ہی تھی۔
پھر ایک شام ظہیر شاہ آ گیا تو حویلی میں جیسے رونق آگئی۔زہرہ بی اور فرح کی خوشی تو دیدنی تھی۔دادی اماں کے چہرے پر بھی بہار آ گئی تھی۔کیونکہ وہ ان لوگوں کی خوشی میں خوش تھی۔پیر سائیں بھی سر شام ہی آ گئے اور رات دیر تک ان کی محفل جمی رہی۔ایک نادیؔ تھی جو اپنے کمرے تک محدود تھی۔کسی نے اس سے پوچھا تک نہیں تھا کہ وہ بھی ان کے درمیان میں آ کر بیٹھ جائے۔ویسے نادیؔ نے اپنے طور پر یہ سوچ لیا تھا کہ اگر وہ لوگ اسے بلائیں گے تو وہ ظہیر شاہ سے یہ سوال ضرور کرے گی کہ وہ اچانک پاکستان کیوں آ گیا ہے؟یہ تو اسے معلوم تھا کہ کیوں بلوایا گیا ہے لیکن اس استفسار کا مقصد فقط یہی تھا کہ سب کے سامنے بات کھل جائے اور وہ ایک بار سہی سب کے سامنے کھل کر اپنا انکار ظاہر کردے۔پھر اس کے بعد جو ہونا تھا،وہ ہوتا رہتا۔اس کے دماغ میں یہ خیال کئی دنوں سے پک رہا تھا ۔اس طرح کم از کم ظہیر شاہ پر تو عیاں ہو جاتا کہ اس نکاح میں اس کی مرضی شامل نہیں ہے۔پھر جو بھی طوفان اٹھتاوہ اس کا سامنا کر لیتی۔اب اس سے بڑی قیامت اور کیا ہوگی کہ اسے زندہ ان حویلی کی دیواروں میں چنا جا رہا تھا اور وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔اسے کسی نے بھی نہیں بلایا تھا اور وہ اپنے کمرے کے بیڈ پر پڑی سلگتی رہی۔کئی بار اس کا جی چاہا کہ وہ خود چلی جائے مگر اس کے اندر جو انا پرورش پا چکی تھی ،اسی نے نادیؔ کا ہاتھ پکڑے رکھا اور وہ کمرے ہی میں جمی رہی۔یہ ایک طرح سے اچھا ہی ہوا تھا کہ وہ ان کے سامنے جا کر پھٹ نہیں پڑی تھی۔حویلی کا سکون ویسا ہی رہا مگر اس کے اندر دھواں بڑھتا ہی گیا جس سے نادیؔ کو اپنی کم مائیگی کا احساس شدت سے ہونے لگا۔کبھی کبھی نظر انداز ہو جانے کا دکھ پاگل کر دیتا ہے۔
وہ اپنے بیڈ پر یوں بیٹھی ہوئی تھی جیسے کوئی بت ایستادہ ہو۔وہ یوں بے حس و حرکت خیالوں میں گم تھی کہ جیسے اس میں روح نام کی کوئی شے نہ ہو۔وہ سوچ رہی تھی کہ اگر اس کے والدین زندہ ہوتے تو شاید یہ لوگ اسے یوں نظرانداز نہ کر سکتے۔اور نہ ہی اتنی بے بسی سے وہ ان کے حکم پر یوں سر جھکا دیتی۔شام ڈھل کر رات میں بدل گئی تھی۔حویلی کی خاموشی سناٹے میں بدلتی جا رہی تھی۔حویلی کے باہر جھینگوں کی آوازیں اسے یوں لگ رہی تھی جیسے وہ اس کا نوحہ پڑھ رہے ہوں۔اچانک اسے یوں لگا جیسے کسی پیڑ پر سے بہت سارے بیٹھے ہوئے کبوتر ایک دم سے پھڑپھڑاتے ہوئے اُڑ جائیں۔اس پھڑ پھڑاہٹ میں ایک خیال کو کی مانند لپکا۔اس ایک لمحے میں نادیؔ نے ایک ایسا فیصلہ کر لیا،جیسے کوئی پل صراط سے گذرنے کے لیے تیار ہو جائے۔اس نے حویلی سے بھاگ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔لمحہ بہ لمحہ یہ فیصلہ اس قدر پختہ ہو گیا کہ خود اسے اپنے آپ پر اختیار نہ رہا۔
اس کی خاص ملازمہ ابھی تک حویلی ہی میں تھی۔ظہیر شاہ کی آمد پر جو اہتمام کیا گیا تھا ۔اس کی وجہ سے کام کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا تھا۔اسے یقین تھا کہ وہ اسے کھانے پر بلانے کے لیے ضرور آئے گی۔اس دوران وہ اپنی جو تیاری کر سکتی تھی وہ ہی کرنا تھی۔کافی دیر بعد اس کی ملازمہ نمودار ہوئی۔تب تک وہ اپنی طرف سے تیاری کر چکی تھی۔ملازمہ نے اس کا کھانا میز پر رکھا اور بولی
’’بی بی حضور ۔!یہ کھانا۔۔۔‘‘تاجاں مائی نے کہنا چاہا تو وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
’’سنو۔!میں نے حویلی سے جانا ہے ۔تم کیا بندوبست کر سکتی ہو۔‘‘
تاجاں مائی نے سنا تو حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔اسے خود پر قابو پانے میں کچھ وقت لگا۔
’’بی بی حضور ۔!یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔‘‘
’’وہی ،جو تم نے سنا ہے۔مجھے آ ج رات ہی اس حویلی سے بہت دور جانا ہے۔اگر ابھی نکل سکو تو۔۔‘‘نادی ؔ نے اعتماد سے کہا۔
’’آپ سچ کہہ رہی ہیں بی بی حضور۔!‘‘ملازمہ کے لہجے میں ابھی تک بے یقینی تھی۔
’’بالکل ،سچ کہہ رہی ہوں۔تم اگر مدد نہ کر سکو تو کوئی بات نہیں،مگر میں نے تو جانا ہے۔لیکن پھر کل صبح تک اپنی زبان بند رکھنا۔‘‘اس نے سخت لہجے میں کہا۔
’’بی بی حضور۔!میں آپ کو اکیلا تو نہیں چھوڑ سکتی۔آپ کے لئے جان بھی دینا پڑی تو دے دوں گی۔مگر آپ جائیں مت۔۔‘‘وہ روہانسا ہوتے ہوئے بولی۔
’’تم کیا یہی چاہتی ہو کہ میں یہاں سسک سسک کر مر جاؤں۔‘‘نادی کے لہجے میں دکھ یوں چھلکا کہ وہ خود حیران رہ گئی۔
’’نہیں بی بی حضور ۔!‘‘تاجاں مائی نے جھجکتے ہوئے کہا۔وہ سارے حالات اچھی طرح سمجھتی تھی۔
’’تو پھر میری آزادی میں میری مدد کرویا پھر یہیں میرے مر جانے کا تماشہ کرنا۔۔میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یہ صبح میں نے حویلی میں نہیں دیکھنی۔‘‘نادیؔ نے درشت لہجے میںیوں کہا جیسے وہ اب سب کچھ کر گذرنے کو تیار ہے۔ملازمہ سوچ میں پڑ گئی۔چند لمحے یونہی کھڑی رہی ۔پھر بولی
’’چلیں ،میں آپ کو حویلی سے نکال کر باہر اڈے تک چھوڑ آؤں،پر بی بی سائیں اگر آپ کو بس بھی مل جائے آپ جائیں گی کہاں؟‘‘
’’میں جانتی ہوں کہ مجھے کہاں جانا ہے۔تم مجھے حویلی سے باہر نکالنے کا بندوبست کرو۔‘‘نادیؔ نے حتمی انداز میں کہا۔
تاجاں مائی نے سنا اور چند لمحے سوچتی رہی ،پھر اچانک بولی،
’’بی بی سائیں۔!تو پھر یہی وقت ہے ۔وہ سب لوگ کھانے میں مصروف ہیں اور باتیں کر رہے ہیں۔پر۔۔‘‘یہ کہہ کر وہ نادیؔ کے چہرے پر دیکھنے لگی۔
’’پرکیا۔۔؟‘‘اس نے تیزی سے پوچھا تو تاجاں مائی گھبراہٹ میں بولی۔
’’اس وقت تو کوئی بس وغیرہ یہاں سے نہیں جاتی۔کار کا بندوبست کریں گے تو پتہ چل جائے گا۔‘‘
’’اس وقت یہاں سے ٹرین کی آواز روزانہ آتی ہے۔میں بچپن سے سنتی آئی ہوں۔۔وہ کدھر جاتی ہے؟‘‘نادیؔ نے اس سے پوچھا تو وہ بولی۔
’’بی بی سائیں ۔وہ تو لاہور کو جاتی ہے۔‘‘
’’تو چلو،نکلو،میں نے اسی ٹرین سے جانا ہے۔‘‘نادیؔ نے تیزی سے بے تابی کے ساتھ کہا۔
’’آپ ابھی رکیں۔میں ابھی دیکھ کر آتی ہوں کہ آپ نکل بھی سکتی ہو یا نہیں۔‘‘تاجاں مائی نے کہا اور فوراً وہاں سے پلٹ گئی۔نادیؔ امید و بیم کی کیفیت میں یوں وہاں کھڑی رہ گئی جیسے کوئی ہاں اور ناں کی صلیب پر لٹک جائے۔کچھ دیر بعدتاجاں مائی تیر کی طرح اندر آئی اور اسے چلنے کے لئے کہا۔اس نے جلدی سے اپنا تیار کیا ہوا بیگ اٹھایا اور اس کے پیچھے چل دی۔پچپن سے دیکھی بھالی حویلی سے نکلتے ہوئے اس کا دل کس طرح دھڑکا تھا،یہ وہ ہی جانتی تھی۔وہ مردان خانے کے پہلو سے نکلتی ہوئی حویلی سے باہر آ گئی۔پھر جب وہاں سے چلتے ہوئے وہ کافی دور آ گئیں تو تاجاں مائی نے پوچھا۔
’’آپ کب تک پیدل چلیں گی۔اسٹیشن تو یہاں سے کافی دور ہے۔‘‘
’’تو پھر کیا کریں؟‘‘اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’کسی سواری پر بھی نہیں بیٹھا جا سکتا۔ورنہ ان کو معلوم ہو جائے گا۔چلو جلدی سے چلو بی بی سائیں۔‘‘تاجاں مائی نے کہا۔
’’تم مجھے چھوڑ کر واپس حویلی چلی جاؤ۔کسی کو شک تک نہ ہو کہ تم نے میر ی مدد کی ہے۔‘‘وہ بولی
’’نہیں بی بی حضور ۔!میں آپ کے ساتھ جاؤں گی۔‘‘وہ ضدی لہجے میں بولی۔
’’میں جو کہہ رہی ہوں۔اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔جاؤ واپس۔۔‘‘اس نے سختی سے کہا۔
’’نہیں،میں آپ کو اسٹیشن تک چھوڑ کر ،گاڑی میں بیٹھا کر آؤں گی۔‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے قدم بڑھا دیئے۔
وہ دونوں اسٹیشن آن پہنچیں۔گاڑی آنے میں ابھی تھوڑا وقت تھا۔دونوں ایک اندھیرے کونے میں جا بیٹھیں۔پھر جیسے ہی ٹکٹیں ملنے لگیں۔تاجاں مائی سکون سے اٹھی ،اپنا منہ لپیٹا اور ٹکٹ لے آئی۔نادیؔ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ یہ سب کچھ دیکھتی رہی اور اپنا دل کڑا کرنے کی کوشش کر تی رہی۔جب نادیؔ گاڑی میں سوار ہوئی تو اسے اپناہوش نہیں تھا۔پہلی بار یوں ٹرین میں سفر کر رہی تھی۔اسے سب کچھ ہیبت ناک لگ رہا تھا لیکن جونہی اسے اپنی ہتک اک خیال آتا تو سارا ڈر دور ہو جاتا۔اس نے ایک سیٹ دیکھی اور اس پر ڈھے گئی۔اس نے تاجاں مائی کے آنسوں بھرے چہرے کی ایک جھلک دیکھی تھی پھر تاجاں ما ئی آہستہ آہستہ نگاہوں سے کیا اوجھل ہوئی ۔پورا سلامت نگر کہیں بہت پیچھے رہ گیا۔اس کی منزل وہاں تھی۔جہاں اختر رومانوی رہتا تھا۔ بہت دن پہلے اس نے ایڈیٹر سے اس کا ایڈریس معلوم کر لیا تھاجو اب زبانی یاد ہو چکا تھا۔وہ بھیگی ہوئی آنکھوں اور سلگتے ہوئے دماغ کے ساتھ محو سفر ہو گئی۔
***
حویلی کے ڈرائینگ روم میں خوشگوار باتوں کا احساس پھیلا ہوا تھا۔ایک صوفے پر پیر سائیں برا جمان تھے ۔جس کے ساتھ ہی ظہیر شاہ بڑے اعتماد سے بیٹھا ہوا تھا۔بالکل سامنے زہرہ بی اور فرح سمٹی ہوئی بیٹھی تھیں اور ایک طرف دادی اماں تھیں۔پیر سائیں دھیمے لہجے میں ظہیرشاہ سے سوالات کر تا چلا جا رہا تھا اور وہ دبے لہجے میں جواب دیتا جا رہا تھا۔ایسے میں کسی کو بھی خیال نہیں تھا کہ اوپر کمرے میں نادیؔ کا وجود بھی ہے۔وہ بھی اس حویلی کی،اس خاندان کی فرد ہے۔جب سوال ختم ہو گئے اور جواب میں بھی کمی ہونے لگی توایک دم سے پیر سائیں نے دادی اماں سے پوچھا۔
’’اماں بی۔!کیا آپ نے نادیہ کو بتا دیا ہے کہ کل اس کا نکاح ظہیر شاہ سے ہو گا؟‘‘
’’اس سوال پر وہاں موجود تینوں خواتین نے ایک دوسری کی طرف دیکھا۔ان سے کوئی جواب نہیں بن پا رہا تھا۔تبھی دادی اماں نے دھیرے سے کہا۔
’’ابھی تک تو نہیں،بتا دیں گے اسے۔‘‘
’’کبدادی اماں کب۔۔خیر۔!آپ اسے بلوائیں تاکہ میں خود اسے بتا دوں۔‘‘وہ سکون سے بولا تو قریب کھڑی ایک ملازمہ کو اشارہ کیا۔‘‘جاؤ ۔!نادیہ کو بلا کر لاؤ۔‘‘
حکم سنتے ہی وہ ملازمہ پلٹ گئی اور وہ اپنی باتوں میں مصروف ہو گئے۔کافی وقت گذر گیا ۔پیر سائیں کو بے چینی ہونے لگی ۔لیکن اظہار نہیں کیا۔سبھی کے ذہن میں تھا کہ وہ کیوں نہیں آ رہی۔اس سے پہلے کہ کوئی سوال کرتا ملازمہ آ گئی ۔اس نے لرزتے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’پیر سائیں ۔!نادیہ بی بی تو اپنے کمرے میں نہیں ہے۔ان کا کھانابھی ویسے ہی پڑا ہوا ہے۔‘‘
’’کیا بکواس کر رہی ہو،ادھر ادھر کہیں دیکھواندر۔ اُسے اپنے ساتھ لے کر آؤ۔‘‘زہرہ بی بی نے فوراً کہا۔
’’میں نے ادھر ادھر سب جگہوں پر دیکھ لیاہے ۔لیکن وہ نہیں ہے۔میں نے تاجاں مائی کو بھی تلاش کیا ہے،لیکن وہ بھی نہیں ہے۔‘‘ملازمہ نے ایک ہی سانس میں کہہ دیا۔
’’ارے وہ کدھر۔۔۔‘‘پیر سائیں نے کہنا چاہا مگر فوراً ہی چونک کر خاموش ہو گیا۔اس نے دادی اماں کی جانب دیکھا جو ہونق سی اس کی طرف دیکھنے لگی تھی۔وہ سارے ہی ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔تبھی پیر سائیں نے کہا۔
’’ساری حویلی چھان مارو۔۔۔۔کہیں تو ہو گی۔۔۔فوراً۔۔۔فوراً ۔۔تلاش کرو۔۔‘‘
اسی وقت پوری حویلی چھان ماری گئی لیکن نادیہ وہاں ہوتی تو ملتی۔گھڑی بھر بعد ہی معلوم ہو گیا کہ تاجاں مائی سمیت نادیہ یہاں پر نہیں ہے۔پیر سائیں فوراً ہی اپنے حجرے کی جانب چلے گئے اور جاتے ہی دیوان کو طلب کر لیا اور اسے ساری صورت حال بتا دی۔
’’سائیں۔!میں کرتا ہوں کچھ۔۔اپنے مخصوص لوگوں کو تو یہ بات بتانا پڑے گی۔۔تا کہ وہ تلاش کر سکیں۔‘‘
’’ہاں ۔!مگر یہ بات انہی تک محدود رہے۔بہت ہی مخصوص بندے۔۔۔‘‘پیر سائیں نے دھیرے سے کہا تو دیوان فوراً ہی باہر کی جانب پلٹ گیا ۔اس نے اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق چند لوگ بلوائے اور انہیں سلامت نگر میں پھیلا دیا ۔پھر ایک خاص آدمی کو اپنے پاس بلا کر کہا۔
’’تاجاں مائی کو تلاش کرو۔۔فوراً اور جب بھی ملے۔۔اسے ادھر یہاں لے آؤ۔۔ابھی جاؤ اس کے گھر۔۔۔‘‘
وہ شخص دیوان کا حکم سن کر چل دیا۔پیر سائیں سے اپنے حجرے میں نہیں بیٹھا گیا۔وہ پھر حویلی چلا گیا جہاں سبھی لوگ ڈرائینگ روم میں موجود تھے۔
دادی اماں پر تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا تھا۔وہ کسی کا بھی سامنا نہیں کر پا رہی تھی۔اس لئے اپنے بیڈ پر جو گئی تو پھر اٹھ ہی نہ سکی۔وہ حیرت و شدت غم سے اس قدر نڈھال ہو گئی تھی۔فرح بظاہر حیران و غم زدہ دکھائی دے رہی تھی مگر اندر سے وہ خوش تھی کہ چلو کسی نے تو ان روایات کو توڑا۔ظہیر شاہ اپنے آپ سے شرمندہ ہو رہا تھا کہ نادیہ نے اسے اس قدر بری طرح سے ریجیکٹ کیا تھا۔زہرہ بی کے اپنے کہاں جذبات تھے۔وہ خاموش اور افسردہ ضرور تھی۔پیر سائیں ڈرائینگ روم میں بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا۔رات کے دوسرے پہر جب تاجاں مائی کو اس کے سامنے لایا گیا تو وہ پر اعتماد تھی۔
’’کہاں سے لائے ہو اسے؟‘‘پیر سائیں نے غضب ناک انداز میں پوچھا۔
’’اس کے اپنے گھر سے۔۔‘‘دیوان نے آہستگی سے کہا۔
’’نادیؔ کہاں ہے؟‘‘پیر سائیں نے براہ راست ملازمہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا،جہاں خوف نہیں تھا۔
’’وہ لاہور چلی گئی ہے۔‘‘ملازمہ نے انتہائی سکون سے کہا تو اس کا دماغ گھوم گیا اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’اور تم نے اسے جانے دیا۔۔۔تم جانتی ہو کہ کیا کہہ رہی ہو۔کیوں جانے دیا اسے۔‘‘
’’وہ جانا چاہتی تھی۔میں نے تو ان کاحکم مانا۔میں نے انہیں جانے دیا۔بلکہ خود چھوڑ کر آئی ہوں۔‘‘ملازمہ کا اعتماد اب تک نہیں ٹوٹا تھا۔اور یہی بات پیر سائیں کے لئے حیرت کا باعث بن رہی تھی۔اس نے غصے میں لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’تم یہ جانتی ہو کہ تم نے کتنا بڑا جرم کیا ہے؟‘‘
’’یہ جرم ہے یا نہیں۔لیکن اس کی سزا ضرور جانتی ہوں۔آپ مجھے اسی طرح قتل کر دیں گے۔جیسے میری ماں کو کیا تھا۔ہم لوگ تو آپ کے ہاتھوں مرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں۔‘‘ملازمہ کے منہ سے نکلے ہوئے لفظ نفرت میں بھیگے ہوئے تھے۔وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کی یہ ملازمہ اپنے دل میں انتقام لیے بیٹھی ہے۔ایک ہی لمحے میں اسے ہوش آ گیا۔اس پر اگر سختی کی تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔تب اس سے پوچھا۔
’’یہ میں تمہیں بعد میں بتاتا ہوں۔بتاؤ۔وہ گئی کس کے پاس ہے۔کو ن ہے وہ؟‘‘
’’میں اس بارے قطعاً نہیں جانتی۔ہاں اس کا کوئی دوست ہے،جس کے بارے میں آپ کی بیٹی فرح جانتی ہے۔اس سے پوچھ لیں۔‘‘ملازمہ نے کہا تو پیر سائیں کو اپنی ساری بنیادیں ہلتی ہوئیں دکھائی دیں۔مریدین کے دلوں پر حکومت کرنے والا،اپنے گھر کے بارے میں اس قدر لا پرواہ ہو گیا کہ وقت نے دیمک کی طرح اس کی عزت کو چاٹ لیا۔
’’کہاں چھوڑا ہے تم نے اسے۔‘‘اس نے بحث کرنا مناسب نہ سمجھا بلکہ وقت کو قابو کرنے کے لیے نادیہ کے بارے میں پوچھا۔
’’اسٹیشن پر۔۔اب تو وہ آدھے سے بھی زیادہ سفر کر چکی ہو گی۔‘‘تاجاں مائی نے یوں کہا جیسے وہ اس کی بے بسی کا تماشہ کر رہی ہو۔پیر سائیں سوچ میں پڑگیا۔اس نے پہلے فرح کی طرف دیکھا۔جو سہمی ہوئی لرز رہی تھی اور پھر تاجاں مائی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں تو میں بعد میں آ کر پوچھتا ہوں۔پہلے میں اسے تو لے آؤں۔۔‘‘اس نے کہا اور دیوان کی طرف دیکھ کر بولا۔’’فوراً لاہور کے لئے نکلنے کی تیاری کرو۔۔‘‘یہ کہہ کر وہ خاموش ہوا۔اس سے پہلے کہ دیوان پلٹتا وہ تیزی سے بولا۔’’نہیں ،تم نہیں۔۔تم یہیں رہو گے۔۔میں جاتا ہوں۔تم یہاں خیال رکھو۔۔‘‘
دیوان کچھ کہے بنا تیزی سے باہر کی جانب لپک گیا۔
پیر سائیں آنا فاناً وہاں سے نکلا تھا۔اس کے ساتھ چار بندے تھے۔راستے میں پیرسائیں نے اپنے تعلقات آزمانا شروع کر دیئے۔اسے ہر طرح سے یہ یقین دلادیا گیا کہ جیسے ہی وہ لاہور اسٹیشن پر پہنچے گا۔اسے ہر طرح کی مدد مل جائے گی۔وہ ٹرین پہنچنے سے پہلے ہی وہاں پہنچ جانا چاہتا تھا۔وہ راستے میں کسی بھی جگہ پر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔اگر چہ فرح نے تھوڑی بہت اسے معلومات دی تھیں،جو اسے معلوم تھیں۔وہی اس کے پاس تھیں ،جن کے سہارے وہ اسے تلاش کر سکتا تھا۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...