بیڈ پر وہ خاموش لیٹی بس چھت کو گھور رہی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے کون یوسف کے گھر سے لایا تھا۔۔۔ کیسے لایا تھا۔۔ جب اس کی آنکھ کھولی تو وہ اپنے کمرے میں اپنے نرم و گرم بستر پر موجود تھی۔
ارشیہ دو دن سے اپنے کمرے میں بند تھی۔ وہ اپنی گزری زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔ اس نے کتنی نافرمانی کی طرف اپنے پروردگار کی۔ کتنے گناہ کیے تھے۔۔۔
آج سب گناہ ایک ایک کر کے اس کے ذہین کے پردے پر پورے آب و تاب سے دیکھائی دیے رہے تھے۔۔ آج شاید وہ اپنا احتساب کر رہی تھی۔۔۔
“ارشیہ بیٹے کہا ہوا ہے“ وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب جیا بیگم سوپ کا باؤل لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔ اسے چت لیٹے دیکھ انہوں نے اس سے پوچھا تھا۔
“کچھ نہیں “ چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ سجائے بیڈ پر اٹھتے ہوئے کہا۔ اور پھر بیڈ کرؤان سے ٹیک لگائے بیٹھ گئی۔
“چلو اٹھو سوپ پی لوں۔۔ کچھ دن بعد تمہاری منگنی ہے۔۔۔ اور تم بیمار ہو کر بیٹھ گئی ہوں“ جیا بیگم نے اسے پیار سے ڈانٹا تھا۔
“ماما پلیز مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کرے“ جیا بیگم اسے سوپ پلا کر واپس چلے جاے لگی جب ارشیہ نے انہیں کہا تھا جس پر وہ سر ہلاتی باہر چلی گئی۔ ان کے جانے کے بعد ارشیہ دوبارا سے لیٹ گئی۔
کچھ سوچتے ہوئے اس نے اپنا موبائل اٹھایا اور سائیڈ ڈرا سے ولی کا دیا گیا کارڈ نکال کر اس پر موجود نمبر ڈائل کیا۔
“اسلام و علیکم! کون“ فون اٹھانے پر دوسری جانب سے نرم سی آواز گونجی تھی۔
“ارشیہ حیدر۔۔۔ کیا زینب سے بات ہوں سکتی ہے“ ہلکی سی آواز میں ارشیہ نے اپنا نام بتاتے ہوئے پوچھا تھا۔
“میں زینب ہی بات کر رہی ہوں۔۔۔ لیکن میں آپ کو نہیں جانتی “ دوسری جانب سے زینب نے تصدیق کرتے ہوئے سکون سے اس سے پوچھا تھا۔
“آپ مجھے نہیں جانتی۔۔ ولی نے مجھے آپ کا نمبر دیا تھا۔۔۔ کیا میں آپ سے مل سکتی ہوں“ ارشیہ نے لیٹے لیٹے بتایا اور پھر تھوڑا ہچکچاتے ہوئے ملنے کا بولا۔
“ہاں ولی۔۔۔ ولی نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا تھا۔۔ ٹھیک ہے میں ایڈریس سینڈ کر دیتی ہوں“ دوسری طرف سے یاد آنے پر انہوں نے اسی نرمی سے کہا تھا اور پھر اللّٰہ حافظ کہہ کر کال کاٹ دی گئی تھی۔
تھوڑی دیر بعد ارشیہ اٹھ کر اپنا ایک ڈریس لے کر باتھروم میں گھس گئی۔ جلد ہی تیار ہو کر وہ نیچے آئی اور کسی کو کچھ بھی بتائے بغیر اپنی گاڑی لے کر منزل کی جانب بھگالی۔
ارشیہ نے گاڑی اس چھوٹے سے گھر کے باہر روکی تھی۔ دروازا کھٹکھٹا کر وہ متذبذب سی کھڑی تھی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس نے انہیں کال کیوں کی اور ملنے کا کہا۔
“پتہ نہیں کیوں آئی ہوں میں یہاں۔۔ مجھے نہیں آنا چاہیے تھا“ ارشیہ نے خود سے سوچتے ہوئے کہا تھا اور جانے کے لیے مڑی تھی کہ ایک لڑکی نے دروازا کھولا۔
“اسلام و علیکم! آپ ارشیہ ہیں۔۔۔ آ جائے اندر“ دوپٹے سے چہرے کو چھپائے حائقہ نے اسے سلام کرکے کنفرم کیا جس پر ارشیہ نے سر ہلا کر اس کی تصدیق کی تو اس نے اسے اندر آنے کہا۔
زینب حائقہ کو ارشیہ کے آنے کے بارے میں پہلے سے بتا چکی تھی۔ ارشیہ تذبذب کا شکار اس کے پیچھے چل دی۔ وہ اندر آئی تو حائقہ نے دروازا بند کرکے اپنے چہرے سے دوپٹہ ہٹا دیا۔ ارشیہ اسے دیکھی رہ گئی۔ وہ خوبصورت تھی۔ ارشیہ نے بے اختیار سوچا۔ حائقہ اسے لے کر اندر زینب کی طرف بڑھ گئی۔
“اسلام و علیکم! کیا حال ہے بیٹا“ زینب نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ ولی نے ان سے ارشیہ کے بارے میں بات کی تھی۔ ولی زینب کا ہی سٹوڈنٹ تھا۔ ولی زینب سے ہی قرآن پڑھا تھا۔ زینب کی ولی کی وادہ کے ساتھ سلام دعا تھی۔
“وعلیکم اسلام“ ارشیہ نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا تھا۔ ایک تو یہ گھر اور زینب اس کے لیے نئے تھے۔ نہ ہی وہ ان کو جانتی تھی اور نہ ہی پہچانتی تھی۔ اسے بار بار اپنی یوں جلد بازی پر غصہ آ رہا تھا۔
“کیا پوچھنا چاہ رہی ہوں بیٹا“ زینب نے اس سے سوال پوچھ کر اس کی مشکل آسان کی تھی۔
“میں۔۔ آپ کو کیا کہہ کر بولوں۔۔ میرا مطلب ہے۔۔ کہ“ ارشیہ حیدر کی پہلی دفعہ زبان لڑکھڑائی تھی۔
“تم مجھے زینب ہی کہہ لوں یا آنٹی کہ لو“ زینب اس کے یوں پوچھنے پر مسکرا دی۔ تھوڑی دیر تک خاموشی چھائی رہی۔ تب حائقہ ٹرے میں لوازمات رکھے اندر داخل ہوئی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ ان سے بے تکلف ہو گئی تھی۔
” مجھے ایک بات پوچھنی تھی آپ سے ۔۔۔ ولی کہتا ہے کہ میں دو دلوں کے ساتھ جی رہی ہوں۔۔۔ کیا واقعی میرے دو دل ہیں“ ارشیہ نے حیرانی کے ملے جلے تاثرات سجائے انگلیاں چٹخاتے ہوئے پوچھا۔ جس کے جواب میں زینب نے نرم سی آواز میں سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 4 کا کچھ حصہ سنایا تھا۔
Surat-ul-Ahzaab (33)
Ayat no. (4)
“مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنۡ قَلۡبَیۡنِ فِیۡ جَوۡفِہٖ ۚ“
اللہ نے کسی بھی شخص کے سینے میں دو دل پیدا نہیں کیے,
“تم بس کشمکش کا شکار تھی۔۔۔ کہ ایک طرف تم اپنا روبہ دبدبہ سب پر ڈالنا چاہتی تھی۔۔ جو تم شروع سے دیکھتے آئی ہوں۔۔۔ ایک طرف تمہارا دل۔۔۔ تمہارا دل تمہیں نرم رہنے کا کہتا تھا۔۔۔۔ ایک طرف تمہارا دل تھا تو دوسری طرف تمہارا دماغ۔۔۔ اور کھبی کھبی دماغ جو دلیلیں پیش کرتا ہے نہ بیٹا اس کے نتیجے میں دل کو ہار تسلیم کرنی پڑتی ہے۔۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دل کمزور ہے۔۔ بس اس دل کے پاس کھبی اتنی ٹھوس دلیل نہیں ہوتی۔۔۔ پھر اس لمحے ہمارا دماغ ہم پر حاوی ہو جاتا ہے۔۔۔ اور دل۔۔ یہ دل کوئی بھی دلیل پیش کر لے۔۔ دماغ نہیں مانتا“ زینب نے نرمی سے اسے سمجھایا تھا جس پر ارشیہ نے ان کے چہرے کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا۔
“میں کسی سے محبت کرنے لگی ہوں۔۔ لیکن وہ مجھے اپنانے پر نہیں راضی“ ارشیہ نے نم لہجے میں کہا تھا۔ یہ سن کر اس پر کپکپی طاری ہونے لگی تھی۔ مشکلوں سے اس نے خود پر بندھ باندھے تھے۔۔ لیکن لہجے میں نرمی گھل گئی تھی۔۔ اس کے حلق میں آنسوں کا گولہ اٹکا تھا۔
“وجہ بتائی اس نے نہ اپنانے کی“ زینب اس کے لہجے کی نمی کو اچھی طرح بھانپ گئی تھی۔ اسی لیے دھیمے لہجے میں پوچھا تھا۔
“میں اس کے معیار پر پورا نہیں اترتی۔۔ وہ نیک ہے۔۔۔ لیکن میں۔۔ میں تو نیک نہیں ہوں۔۔ لیکن پھر بھی اس سے محبت ہو گئی“ ارشیہ نے انہیں اپنا حالِ دل سنایا تھا۔ شاید وہ ولی کے بعد دوسری شخصیت تھی جس کے سامنے یوں ارشیہ نے اپنے دل کا حال بیان کیا تھا۔
“میں کیا کروں آنٹی۔۔ میں اسے پانا چاہتی ہوں۔۔ اس سے نکاح کرنا چاہتی ہوں“ ارشیہ نے ان کی خاموشی کو نوٹ کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
“تو تم نیک بنو۔۔۔ اگر بن نہیں سکتی تو کوشش تو کر کے دیکھو“ زینب نے اسے امید کی ایک ڈور تھمائی تھی۔ جس پر ارشیہ کی آنکھوں کی چمک واپس آئی تھی۔ جو شاید پچھلے دو دنوں سے گم تھی۔
“میں نیک کیسے بنو گئی“ ارشیہ نے آہستہ آواز میں پوچھا تھا جس کے جواب میں زینب نے سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 205 کا ترجمہ سنایا۔
Surat-ul-Aeyraaf
Ayat no. 205
وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ فِیۡ نَفۡسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیۡفَۃً وَّ دُوۡنَ الۡجَہۡرِ مِنَ الۡقَوۡلِ بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ وَ لَا تَکُنۡ مِّنَ الۡغٰفِلِیۡنَ ﴿۲۰۵﴾
“اور اپنے رب کا صبح و شام ذکر کیا کرو ، اپنے دل میں بھی ، عاجزی اور خوف کے ( جذبات کے ) ساتھ ، اور زبان سے بھی ، آواز بہت بلند کیے بغیر ! اور ان لوگوں میں شامل نہ ہوجانا جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔”
جس کے جواب میں ارشیہ بس مسکرائی تھی۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
“زینب آنٹی میں اور عبیرہ چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں“ حائقہ نے چہرے پر نقاب کیے عبیرہ کا ہاتھ پکڑے کمرے کے دروازے پر ارشیہ کے ساتھ کھڑی زینب کو اطلاع دیے کر جانے لگی۔
“روکو میں بھی ساتھ چلتی ہوں“ زینب نے حائقہ نے جاتے دیکھ روکا۔
“نہیں آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ میں اور عبیرہ چلے جائے گئے۔۔ ابھی تھوڑی دیر میں واپس آ جئے گئے“ حائقہ نے انہیں پیار سے منع کیا تھا۔ کل زینب کو ہلکا سا بخار ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے حائقہ کو ٹال دیا۔
“اگر آپ کو مناسب لگے تو میں ساتھ لے جاؤں۔۔۔ میری گاڑی باہر ہی کھڑی ہے“ ارشیہ نے حائقہ کو پیشکش کی۔
“نہیں شکریہ۔۔ کوئی بات نہیں ہم چلے جائے گئے“ حائقہ نے انکار کیا۔
“چلے جاؤں۔۔۔ کچھ بات چیت ہی ہو جائے گئی“ زینب نے حائقہ کو کہا جس پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی ارشیہ کے ساتھ چلی گئی۔ ارشیہ دوبارا آنے کا وعدہ کر کے چلی گئی۔
گاڑی میں خاموشی کا راج تھا۔ ارشیہ بار بار بیک مرر سے حائقہ اور عبیرہ کو دیکھ رہی تھی۔
” میرا نام ارشیہ ہے۔۔۔ آپ دونوں کا کیا نام ہے“ ارشیہ نے مسکراتے ہوئے اپنا نام بتا کر ان دونوں کا نام پوچھا۔ اسے عجیب بھی لگ رہا تھا لیکن بول کر چپ ہو گئی۔
“حائقہ۔۔۔۔ میرا نام حائقہ ہے۔۔ اور یہ میری دوست عبیرہ احمد“ حائقہ نے تھوڑی دیر بعد نام بتائے۔ عبیرہ کا نام سن کر اس نے ایک نظر عبیرہ کو دیکھا۔
“رکیں میرے ساتھ میری ایک دوست نے بھی جانا ہے۔۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو ہم انہیں بھی ساتھ لے لیں“ حائقہ نے ارشیہ سے پوچھا جس پر اس نے مسکراتے ہوئے گاڑی ایک طرف روک دی۔
حائقہ، عبیرہ، حائقہ کی دوست جب اندر جانے لگی تو ارشیہ بھی ان کے ساتھ اندر آ گئی۔
حائقہ نے کو گمان گزرا کہ کوئی ان کا پیچھا کر رہا ہے۔۔اس نے ارشیہ کو بتایا تو اس نے نظریں گھما کر دیکھا تو وہاں اسے بھی لگا۔ جس پر انہوں نے پلین بنایا اور حائقہ عبیرہ کو لے کر وہاں سے بچتی باہر چلی گئی۔ جبکہ ارشیہ اور حائقہ کی دوست اندر ڈاکٹر کے پاس چلی گئی۔
””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””’
“سر۔۔۔ سر وہ اس لڑکی کا پتہ چل گیا ہے“ زوہیب کے ایک آدمی نے آ کر اسے اطلاع دی تھی۔
“کس کا“ زوہیب نے ہنوز لیٹے لیٹے پوچھا تھا۔ اس وقت اس کے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔
“سر وہ حجاب والی لڑکی“ زوہیب کے آدمی نے عبیرہ کا نام نہیں لیا تھا۔
“کہاں ہے وہ؟“ زوہیب نے جلدی سے اٹھتے ہوئے پوچھا۔ جس پر آدمی نے جلدی سے کسی کلینک کا ایڈریس بتایا تھا۔ جس پر زوہیب جلدی سے گاڑی لے کر نکلا تھا۔
گاڑی ہواؤں سے باتیں کرتی تھوڑی دیر میں کلینک کے باہر روکی۔ زوہیب جلدی سے اندر کی جانب بھاگا۔ اطلاع دینے والا آدمی بھی اس کے ساتھ ہی تھا۔ اس نے ڈاکٹر کے روم کی طرف اشارہ کیا تو وہاں ڈاکٹر کے سامنے ایک نقاب کیے لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔
ڈاکٹر اس کا معائنہ کر رہی تھی۔ جب ہی دروازا کھولا۔ سب نے مڑ کر دروازے کی جانب دیکھا تو وہاں زوہیب اس لڑکی کے نقاب زدہ چہرے پر نظریں جمائے کھڑا تھا۔
زوہیب نے ایک طرف دیکھا تو وہاں ارشیہ بیٹھی تھی۔ اسے دیکھ کر زوہیب نے نظر انداز کیا اور آگے بڑھ کر لڑکی کو بازو سے پکڑا۔ اس سے پہلے وہ اسے پکڑتا ارشیہ اس کے درمیاں میں آئی تھی۔
“پیچھے ہٹو“ زوہیب نے غصے سے ارشیہ کو کہا۔ جس پر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی اور اپنے بازو سینے پر لپیٹ کر کھڑی ہو گئی۔
“جاؤں یہاں سے“ ارشیہ نے بازو سینے پر لیپٹتے یوئے سکون سے زوہیب سے کہا تھا۔
“ارشیہ ہٹو میرے راستے سے“ زوہیب نے دانت پیستے ہوئے کہا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے تھے۔ وہاں موجود ڈاکٹر اور وہ چہرے پر نقاب چڑھائے لڑکی خاموش بس دونوں کو دیکھ رہے تھے۔
“چلو“ ارشیہ نے زوہیب کی بات کو نظر انداز کیے لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور باہر جانے لگی تو زوہیب نے ارشیہ کا وہ ہاتھ جس سے اس نے لڑکی کی کلائی پکڑی تھی پکڑ لیا۔
“آئندہ اگر تم میرے راستے میں آئے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوں گا زوہیب“ ارشیہ نے اپنے ہاتھ سے زوہیب کا ہاتھ ہٹایا اور وہاں لڑکی کو ساتھ لیتے ہوئے وہاں سے باہر آ گئی۔
حائقہ کی دوست کو اس کے گھر چھوڑنے کے بعد وہ واپس گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔
جبکہ دوسری طرف عبیرہ اور حائقہ کسی کلینک میں بیٹھی اپنا چیک اپ کروا رہی تھیں۔
“یہ میں کچھ ٹیسٹ لکھ کہ دے رہی ہوں۔۔۔ آپ یہ کروا لیں۔۔۔ باقی اگر اللّٰہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہوں گا“ ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں کہہ کر ایک پیپر پر کچھ لکھا اور حائقہ کی طرف بڑھایا۔ جیسے لے کر وہ دونوں وہاں سے آ گئی۔
“چلو عبیرہ تمہارا چیک اپ بھی کروا لیں“ حائقہ نے عبیرہ سے کہا اور اسے لے کر آئی سپیشلسٹ کے پاس چلی گئی۔
“ان کی آئی سائیڈ کیسے گئی۔۔ آئی مین حادثاتی طور پر یا پیدائشی“ ڈاکٹر نے عبیرہ کی آنکھوں کا معائنہ کرتے ہوئے حائقہ سے پوچھا۔
“حادثاتی طور پر۔۔۔ بچپن میں یہ گر گئی تھیں۔۔۔ تب سے آئی سائیڈ ویک ہونا شروع ہوئی اور پھر نظر آنا ہی بند ہوگیا“ حائقہ نے تفصیل بتائی تھی جس پر ڈاکٹر نے سمجھنے سے انداز میں سر ہلایا تھا۔
“ہممم۔۔۔ اسے معجزہ ہی کہہ سکتے ہیں۔۔۔ ان کی آنکھوں کی پوری بینائی نہیں گئی تھی۔۔۔ اوپریٹ کے ذریعے ان کی آئی سائیڈ شاید ٹھیک ہوں جائے۔۔ ٪30 چانسز ہیں ان کی آئی سائیڈ واپس آنے کے“ ڈاکٹر نے وہاں بیٹھی دونوں کو خوشی کی نوید سنائی تھی۔
“اگر آپ آپریٹ کروانا چاہتی ہیں۔۔ تو آپ وہاں ڈیٹ اور ٹائم لے لیجیے باقی اللّٰہ بہتر کرے گا“ ڈاکٹر نے انہیں مشورے دیا جس پر دونوں اٹھ کر باہر کی طرف چلی گئی۔
“حائقہ آپی اب میں بھی دیکھ سکوں گئی۔۔۔ میں آج ہی بھائی کو کال کر کے بتاتی ہوں“ عبیرہ نے خوش ہوتے ہوئے کہا تھا۔
“نہیں انہیں نہ بتانا۔۔۔۔ ہم سرپرائز دیے گئے۔۔۔ ویسے بھی کچھ دنوں بعد ہم واپس جا رہے ہیں“ حائقہ نے اسے ٹوکا اور اسے یوسف کو سرپرائز دینے کا کہا جس پر وہ اور خوش ہوئی۔
کاؤنٹر سے سب کچھ دن بعد آپریشن کی ڈیٹ لے کر وہ دنوں با خوشی واپس گھر کی طرف چلی گئی۔
””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””’
“زینب آنٹی۔۔۔ کیا آپ میری مدد کر سکتی ہیں“ ارشیہ آج پھر زینب کے گھر آئی تھی۔ ارشیہ نے زینب کے ہاتھ پکڑتے ہوئے پوچھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے ارشیہ کی ڈریسنگ میں فرق آیا تھا۔ اب جینز شرٹ کی جگہ وہ لمبی فراک شرٹ کے ساتھ ٹراؤزر یا قمیض شلوار پہنتی تھی۔
“کیا مدد کر سکتی ہوں میں تمہاری“ زینب نے نرم سے لہجے میں پوچھا تھا۔
“میری مدد کریں نیک بننے میں“ ارشیہ نے امید بھرے لہجے میں زینب سے پوچھا۔ ان چند دنوں میں ارشیہ زینب، حائقہ اور عبیرہ سے مانوس ہو گئی تھی۔
” میں صرف تمہیں گائیڈ کر سکتی ہوں۔۔۔ مدد تمہیں اپنی آپ ہی کرنی ہوں گئی۔۔۔ انسان اگر خود اپنی مدد نہیں کرسکتا تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا“ زینب نے اس کے ہاتھ پر دباؤ ڈالتے ہوئے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔
“آپ مجھے نماز پڑھنا سیکھا دیں گئیں “ یہ الفاظ بامشکل ارشیہ کے حلق سے نکلے تھے۔ اسے شرمندگی محسوس ہوئی تھی۔
“بلکل۔۔۔ مجھے خوشی ہوں گئی“ زینب نے مسکراتے ہوئے اسے کہا تھا جس پر ارشیہ بھی مسکرا دی۔
“جاؤں تم وضو بنا آؤں۔۔۔حائقہ سے پوچھ لینا اگر پوچھنا ہوا… پھر میں تمہیں نماز سکھاتی ہوں“ زینب نے پیار سے اسے کہا جس پر وہ مسکراتے ہوئے اٹھی اور وہاں سے باہر چلی گئی۔ حائقہ اسے بیسن کے پاس ہی کھڑی نظر آئی تھی۔
حائقہ کی طبیعت دن بدن گرتی جا رہی تھی۔ عبیرہ کے آئی آپریشن کے چکروں میں وہ اپنے ٹیسٹ کروانا بھول گئی تھی۔ ابھی بھی وہ بیسن کے پاس کھڑی تھی۔ اسے خون کی الٹیاں آ رہی تھی۔
عبیرہ تو زیادہ وقت کمرے میں بیٹھی رہتی تھی جبکہ زینب یا تو بچوں کو پڑھا لیتی یا پھر سارا دن قرآن مجید کی تلاوت کرتی۔
“کیا ہوا حائقہ آپی “ ارشیہ نے اسے الٹیاں کرتے دیکھ پوچھا تھا۔
“نہیں کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ تم بتاؤں تم یہاں کیسے۔۔۔ کچھ چاہیے تھا“ حائقہ نے اسے ٹالتے ہوئے پوچھا۔
“وضو کرنا تھا۔۔۔ پلیز کروا دوں “ ارشیہ نے آہستہ سی آواز میں کہا جس پر حائقہ نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر اسے وضو بنانے کا طریقہ سکھانے لگی۔
وضو بنا کر ارشیہ زینب کے پاس آ گئی۔ زینب نے آہستہ آہستہ اسے نماز پڑھنے کا طریقہ بتایا۔ پچھلے دنوں میں زینب اسے نماز میں پڑھی جانے والی سورتیں اور دعا سیکھا چکی تھی۔ ارشیہ نے نماز پڑھی اور اپنے رب کے حضور سر جھکا کر اپنے گناہوں کی معافی کی دعا کی۔ آخر میں اس کی آنکھ سے ندامت کا ایک قطرہ بہہ کر اس کی ہتھیلی میں جذب ہوا تھا۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
اس دن زوہیب نے اپنے آدمیوں کو مارا تھا۔ اس دن کے بعد وہ واپس اپنے گھر نہیں گیا۔ وہ وہی فارم ہاوس میں اپنے کمرے میں بیٹھا شراب پی رہا تھا۔
پچھلے کچھ دنوں یہ اس کا معمول بن چکا تھا۔ نجمہ بیگم کے بار بار فون کر کے پوچھنے پر اس نے اپنا موبائل اوف کر دیا تھا۔
ابھی وہ شراب کے نشے میں بیٹھا شراب گھونٹ گھونٹ پی رہا تھا جب ایک دم زور کی آواز سے کسی نے دروازا کھولا۔
زوہیب نے ڈرنے سے انداز میں اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر دروازے کی طرف دیکھا۔ وہاں اکرام صاحب کو دیکھ وہ یک دم ہنس پڑا تھا۔
“ارے پاپا یہ آپ ہیں۔۔ میں ڈر گیا تھا پتہ نہیں کون ہے۔۔“ زوہیب نے نشے میں دھت ہنستے ہوئے اکرام صاحب کو دیکھ کر کہا اور پھر وائن کا گلاس اٹھا کر منہ کو لگانے لگا تھا کہ اکرام صاحب نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے گلاس جھپٹا اور پھر اسے زمین پر دے مارا۔
“چلو میرے ساتھ زوہیب۔۔۔ چلو“ اکرام صاحب نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ چلنے کا کہا تو اس نے منع کیا جس پر اکرام صاحب نے غصے سے اسے کہا تھا۔
“آپ جائے ڈیڈ میں آ جاؤں گا“ زوہیب نے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے اکرام صاحب سے کہا۔
“چلو میرے ساتھ زوہیب۔۔۔ کل تمہاری منگنی ہے ارشیہ کے ساتھ۔۔۔ اگر تمہاری یہی حرکتیں رہیں تو کوئی باپ اپنی بیٹی نہیں دیے گا“ اکرام صاحب نے غصے سے کہا اور اسے کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ فارم ہاوس سے باہر لائے۔
“آئندہ دھیان رکھنا عدیل۔۔۔ یہ مجھے یہاں نظر نہ آئے “ اکرام صاحب نے عدیل کو حکم سنایا اور پھر اسے کچھ اور ہدایت کرتے زوہیب کو لے کر گھر چلے گئے۔
اسے لے کر اس کے کمرے میں چھوڑا۔ شراب کا اثر تھا کہ زوہیب غنودگی میں جانے لگا اور جلد ہی اپنے بستر پر لیٹے لیٹے سو گیا۔ اکرام صاحب نے تاسف سے سر ہلا کر اسے دیکھا نجمہ بیگم ایک نظر اسے دیکھ آنکھوں میں نمی لیے واپس اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
اگلا دن پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔ یوسف کی زندگی بلکل معمول پر تھی۔ صبح دحیہ کو نعمان صاحب کے گھر پڑھانے جاتا تھا اور پھر وہاں سے اکیڈمی اور پھر شام کو گھر واپسی۔ اسے عبیرہ کی کمی محسوس ہو رہی تھی لیکن وہ یہاں سے زیادہ وہاں محفوظ تھی۔ یہی سوچ کر وہ چپ ہو جاتا۔
آج صبح سے ہی حیدر صاحب کے گھر میں گہما گہمی تھی۔ ارشیہ نے مندی مندی آنکھیں کھولی تو وہاں سامنے جیا بیگم اس کی الماری میں کچھ ڈھونڈ رہی تھیں۔
“ارے اٹھ گئی میری بیٹی۔۔۔ چلو اٹھو تیار ہو جاؤں۔۔۔ آج تمہاری منگنی ہے زوہیب کے ساتھ“ جیا بیگم نے مڑ کر دیکھا تو ارشیہ کو اٹھا دیکھ انہوں نے مسکرا کر کہا تھا جس پر ارشیہ نے انہیں ناسمجھی سے دیکھا تو انہوں نے اسے یاد دلوایا۔
“اور میں نے آپ کو منع بھی کیا تھا کہ میں زوہیب سے منگنی نہیں کروں گئی“ ارشیہ نے غصے پر قابو کرتے ہوئے اونچی آواز میں کہا۔
“آواز آہستہ رکھو ارشیہ۔۔میں ماں ہو تمہاری۔۔۔ اور یہ تمہارے ڈیڈ کی مرضی سے ہو رہی ہے۔۔۔۔ چلو اٹھو اور تیار ہو جاؤں“ جیا بیگم نے غصے سے کہا اور پھر ایک ڈریس اس کی جانب بڑھاتے ہوئے اسے تیار ہونے کا کہہ کر باہر چلی گئی
جس پر ارشیہ غصے سے اس ڈریس کو دیکھا اور پھر بے بسی سے چھت کی جانب دیکھا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ سب نمازیں پڑھ رہی تھیں۔ کل بھی اس نے نماز پڑھیں تھیں۔۔ آج صبح بھی اس نے اللّٰہ کے حضور سجدہ بجا لایا تھا۔ اس کی دعا کا مرکز یا تو یوسف ہوتا یا پھر اپنی نیک بننے کی خواہش۔
“یا اللّٰہ جیسے میں نے اپنے دل میں جگہ دی ہے۔۔ بس اسے میری زندگی میں بھی شامل کر دینا“ ارشیہ نے دعا سے انداز میں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور اٹھ کر تیار ہونے چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد بیوٹیشن کمرے میں داخل ہوئی اس نے آ کر ارشیہ کے حسن کو مزید نکھارا تھا۔ تھوڑی دیر بعد نمرا اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔ نمرا کے ہمراہ وہ نیچے لاؤنچ میں آئی۔
سامنے سٹیج پر ہی نک سک سا تیار ہو کر زوہیب سنجیدہ چہرا لیے کھڑا تھا۔ پہلے پہل تو ارشیہ سے منگنی اور شادی اس کی خواہش تھی لیکن اب۔۔۔ اب اس کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو چکا تھا۔ وہ دن رات عبیرہ کو تلاش کر رہا تھا۔ لیکن ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے وہ اس تک پہنچ نہیں پا رہا تھا۔
شاید یہ اللّٰہ کی عبیرہ کی طرف مدد تھی کہ زوہیب اسے ڈھونڈ نہیں پا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد منگنی کی رسم ہوئی۔ رسم ہونے کے بعد زوہیب تھوڑی دیر وہاں روکا اور پھر بہانا بنا کر وہاں سے نکل آیا جبکہ ارشیہ زبردستی مسکراہٹ سجائے وہاں کھڑی رہی۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
“آنٹی ہم چلیں جائے گئیں۔۔۔۔ آپ بس دعا کرے گا کہ کامیاب رہے“ آج عبیرہ کا آئی آپریشن تھا۔ وہ جانے لگے تھے جب اچانک سے ان کی طبیعت خراب ہو گئی تو حائقہ نے انہیں منع کیا اور پھر انہیں دعا کرنے کا کہہ کر عبیرہ کو لے باہر چلی گئی۔
تھوڑی دیر بعد جب دونوں وہاں پہنچی تو کچھ دیر انتظار کے بعد عبیرہ کو آپریشن کے لیے لیجایا گیا۔
“کوئی بات نہیں۔۔ بس اللّٰہ پر بھروسہ رکھو“ جانے سے پہلے حائقہ نے عبیرہ کا ہاتھ تھام کر اسے تسلی دی تھی۔ اس کا دل۔خود ڈر رہا تھا۔ انہوں نے اللّٰہ پر یقین رکھتے ہوئے آپریشن کرنے کی حامی بھری تھی۔
زینب نے بہت بار کہا تھا کہ۔یوسف کو بتا دوں لیکن ہر بار عبیرہ نے منع کیا تھا کہ وہ انہیں سرپرائز دینا چاہتی ہے۔۔ اگر آنکھیں ٹھیک ہوں گئیں تو وہ کتنا خوش ہوں گئے۔
اندر عبیرہ کا آپریشن جاری تھا جب حائقہ کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی۔ زینب کو آج کل بخار رہنے لگا تھا اور اوپر سے عبیرہ کا آپریشن اسی لیے ان دنوں میں حائقہ خود کو فراموش کر چکی تھی۔
وہاں بیٹھے بیٹھے وہ بے ہوش ہو گئی۔ جلدی سے وہاں سے گزرتے کسی شخص نے اسے گرتے دیکھ سنھبالنے کی کوشش کی تھی۔ اور پھر نرس کو بلوا کر اسے چیک کرنے کا کہا۔ جس پر نرس نے اسے ڈاکٹر کے کمرے میں لیجانے کا کہا اور اس کے ساتھ اس کمرے کی طرف چلی گئی۔
“کیا ہوا ہے انہیں “ ڈاکٹر نے حائقہ کا چیک اپ کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
“پتہ نہیں ڈاکٹر یہ باہر بے ہوش ہو گئی تھیں اسی لیے میں انہیں آپ کے پاس لے آیا تھا“ ولی نے ڈاکٹر کو حقیقت بتائی تھی۔ جس پر انہوں نے ایک نظر اسے دیکھا۔
“یہ ٹیسٹ ان کے کروائے ابھی“ ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر نرس کی جانب بڑھائے اور اسے کروانے کا کہا تھا جس پر نرس حائقہ کی طرف بڑھی اور اس کا بلڈ سیمپل لے کر ٹیسٹ کروانے چلی گئی۔
ولی اپنی والدہ کے ڈاکٹر سے ملنے آیا تھا۔ اب اسے کچھ سمجھ نہیں ایا تو اس نے ارشیہ کو کال کرکے وہاں بلوا لیا کیونکہ ڈاکٹر بار بار اس سے اس کے بارے میں پوچھ رہیں تھیں۔ ارشیہ آتے ہی ولی سے ملنے کے بعد جب اندر گئی تو وہ حائقہ کو پہچان چکی گئی۔
“ڈاکٹر کیا ہوا ہے انہیں “ ارشیہ نے آتے ہی ڈاکٹر سے پوچھا تھا۔ اس وقت وہ قمیض شلوار میں ملبوس دوپٹہ گلے میں لیے وہاں کھڑی تھی۔
“ابھی رپورٹس آنے سے پہلے میں کچھ کنفرم نہیں کہہ سکتی“ ڈاکٹر نے اسے کہا تبھی نرس رپورٹس لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔
“انہیں بلڈ کینسر ہے۔۔ جو کہ۔لاسٹ سٹیج پر ہے“ ڈاکٹر نے افسوس بھرے انداز میں بتایا تھا۔ ارشیہ نے حیرانی سے ڈاکٹر کو دیکھا اور ایک نظر وہاں پاس بیڈ پر لیٹی حائقہ کو دیکھا۔ ڈاکٹر انہیں بتا کر وہاں سے باہر چلی گئی۔ جلد ہی حائقہ کو ہوش آ گیا۔
“ارشیہ میں یہاں کیسے۔۔۔ میں تو وہاں تھی۔۔۔ عبیرہ کا آپریشن ہو رہا تھا“ حائقہ نے ہوش میں آتے ہی سامنے ارشیہ کو دیکھ پوچھا تھا۔
“حائقہ آپی آپ کو کیسنر تھا۔۔۔ آپ کو پتہ ہے“ ارشیہ نے اس کی بات کا جوا دیے بنا اس سے پوچھا جس پر وہ بے یقین سی اسے دیکھنے لگی۔
اور پھر تھوڑی دیر بعد حائقہ آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھی تھی۔ چپ گم سم سی۔ اس نے زینب اور عبیرہ کو بتانے سے منع کر دیا تھا۔
“تم انہیں جانتی ہوں۔۔۔ یہ کون ہیں“ ولی نے آہستہ سے ایک طرف کھڑی ارشیہ سے پوچھا۔
“ہممم۔۔۔ زینب آنٹی کی جاننے والی ہیں“ ارشیہ نے مختصر سا جواب دیا تھا۔
“ڈاکٹر عبیرہ کیسی ہے“ تھوڑی دیر بعد آپریشن ختم ہوا تو ڈاکٹرز باہر آتے دیکھ حائقہ نے آگے بڑھ کر ان سے پوچھا۔
“انہیں دو گھنٹے بعد ہوش آ جائے گا۔۔ تب ہم کچھ بتا سکتے ہیں کہ آپریشن ٹھیک ہے یا۔۔۔ آیکس کیوز می پلیز“ یہ کہہ کر ڈاکٹر وہاں سے چلا گئی۔ حائقہ واپس وہی بیٹھ گئی۔ ولی نے اسے ایک نظر دیکھا اور واپس مڑ گیا۔ ارشیہ وہی اس کے پاس بیٹھ گئی تھی۔
”””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””””
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...