ڈاکٹر حامد اشرف(اودگیر)
ایک مرتبہ کچھ لوگ سقراط کے پاس کسی مسئلہ کے حل کرنے کی غرض سے گئے۔جواب میں سقراط نے کہا کہ میں کچھ نہیں جا نتا۔لو گوں نے اس سے کہا کہ ہم میں اور تم میں کیا فرق رہا ۔ہم بھی نہیں جا نتے اور تم بھی نہیں جا نتے۔سقراط نے کہا ۔مجھے یہ معلوم ہے کہ میں کچھ نہیں جا نتااور تم لوگ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ تم کچھ نہیں جانتے۔یہاں ایسی ہی ایک مشہورِ زما نہ ہستی کا ذکر مقصود ہےٗ جو شعبہ ہا ئے علوم و فنون کا ما ہر تھاٗ لیکن اس کا کہنا تھا کہ زمین آسمانٗ سورج چاندٗ تو جاہل بھی جانتا ہےٗ کسان بھی زمین سے دو بارٗ اناج نکالنا جانتا ہےٗ لیکن عالم بھی خدا کو نہیں جان سکتا۔اس لیے عالم کو اپنی لا علمی پر ناز کرنا چا ہیئےٗکیو نکہ ہر آدمی لا علمی کے مرتبے پر نہیں پہنچ سکتا۔
فلسفہٗ ادب اور تاریخ میں جس خیام کوٗ بو علی سینا کی ہمسری حاصل ہےٗوہٗ 44 0ہجریٗ مطابق 101 9 عیسوی اپنے وطن نیشا پور میں پیدا ہوا۔نام عمرٗ اور والد کا نام ابراہیم تھا۔آ با ئی پیشہ چو نکہ خیمہ دوزی تھاٗ جس کی وجہہ سے لقب خیام پڑا۔تاریخ میں آتا ہے کہ خیامٗحسن بن صباح اور نظام الملک طوسی کا بچپن ایک ساتھ بسر ہوا۔درسِ یو نانی تینوں نے ایک ساتھ حاصل کیا اور آ پس میں تینوں نے ایک معا ہدہ کیا تھا کہ جو بھی مستقبل میں بڑے عہدے پر پہنچے اور دو لتمند بنےٗ وہ اپنی دولت میں دو نوں دوستوں کو بھی شریک کرے گا۔چنا چہ نظام الملک طوسیٗ الپ ارسلان کا وزیرِ سلطنت ہو گیا تو اس نے دونوں دوستوں کو سالانہ وظیفہ مقرّر کر دیاٗ لئکن حسن بن صباح نے سازش کے ذریعے نظام الملک کو ختم کروا یا۔
عمرخیام کی شہرت کی وجہہ فنِ ادب و شاعری و تا ریخ میں یکتاٗ ایک زبر دست حکیمٗ یو نا نی علوم کا فلسفیٗعلمِ نجومٗ علمِ ریا ضی و علمِ ہیئت کا ما ہر ہو نے سے ہے ۔ خیام کا مطالعہ کرنے پر مذکورہ علوم و فنون میں اس کی ذہانت و فطانت کو تسلیم کرنے کو جی چا ہتا ہے۔علا و ہ از ایں مذہبی معلو مات کا اندازہ اس واقعے سے ہو تا ہے کہ ایک مر تبہ قاضی عبد الر شید سے خیام کی بات چیت چار قل پر حمام میں ہوئیٗ خیام نے جو تفسیر بیان کی اگر اسے ضبطِ تحریر کیا جا ئے تو ایک کتاب تیار ہو جا ئے۔علمِ نجوم کے با رے میں یہ کہا جاتا ہے کہ با دشاہِ وقت شکار پر جاتے تو خیام سے پو چھ کر جاتے کہ کہیں راستے میں بارش تو نہیں ہوگی ؟ایک مرتبہ خیام نے کہا کہ آئندہ پانچ دنوں تک با رش نہیں ہو گیٗ لیکن راستے میں بارش ہوئی پھر بادل چھٹ گئے اور پانچ دن تک با رش نہ ہوئی۔حافظہ بھی خیام نے غضب کا پایا تھا ۔ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ خیام نے اصفہان میں ایک کتاب سات مرتبہ پڑھی اور نیشاپور آ کر حرف بہ حرف لکھا دی۔خیام میں ایک عادت یہ اچھّی نہیں تھی کہ اسے اپنی زبان پر قا بو کبھی نہ رہا۔اس ذیل میں یہ وا قعہ ملتا ہے کہ سلطان سنجر نے جب اپنا علاج اس سے کروایا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ آثار اچھّے نہیں ہیں ۔اس کے بر تا ؤ سے سلطان کبھی خوش نہ رہے۔مگر امرا ئے سلطنتٗخیام سے برابر کا سلوک کرتے تھے اور اسے” قنا عت کا شہنشاہ” کہتے تھے۔خیام کے طبیبِ بے مروّت ہو نے کے سلسلے میں یہ واقعہ بے محل نہ ہو گا کہ خلیفہ ہا رون رشید نے ایک مرتبہ خواب دیکھا تھا کہ اس کے سبھی دانت گر گئے ہیںٗ اس نے ایک نجو می سے تعبیر پو چھی تو اس نے کہا ۔سب مر جا ئیں گے تمہارے سامنے۔ اسی خواب کی تعبیر دوسرے نجو می نے یوں بیان کی تھی کہ خدا نے تمہاری عمر دوسروں کے مقا بلے میں زیادہ کی ہے۔خلیفہ نے اسے انعام و اکرام دے کر رخصت کیا۔
ایک عرصے سے خیام سے متعلق یہ غلط فہمی عام ہو گئی ہے کہ ا س کی فارسی شاعری چونکہ خمریات سے بھری پڑی ہےٗ اس لیے وہ ایک عادی شرابی رہا ہو گا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جس وقت وہ نیشا پور میں یو نا نی فلسفے کا درس دے رہا تھاٗ تب لو گوں نے اسے بے دین سمجھ کر قتل کرنا چاہا۔اس نے جان بچا نے کی خاطر مکّہ شریف کا سفر اختیار کیا اور فریضہء حج بھی ادا کیا۔ویسے بھی یہ ضروری نہیں کہ جو آدمی خمریات کی شاعری کرے وہ شرابی ضرور ہو ۔ سید سلیمان ندوی اس سلسلے میں رقمطراز ہیں کہ
ـ”خیام کے شرابی ہو نے کی دلیل کسی صورت و ہیئت سے نہیں ملتیٗ البتہ حکیم ہو نے کی سند ضرور ملتی
ہے اور خیام کے ماحول میں عالم شراب نہ پیتا تو بولتا ضرور تھا۔”(خیام اور اس کی سوانح و تصانیف پر نا قدانہ نظر)
دیدہء بینا سے عاری لو گوں نے شیکسپیئر کے با رے میں بھی ایسی ہی با تیں اڑائی تھیں کہ اس نے اپنے ڈرا موں میں ایک کا میاب وکیل کا رول نہا یت انداز سے پیش کیا ہےٗ اس لیے وہ اپنی زندگی میں وکیل ضرور رہا ہو گا۔کسی نے کہا کہ وہ کسانٗ سپا ہیٗ یامعلّم رہا ہو گا اور ایک مشہور ایکٹریس نے ان با توں کا جواب یہ کہہ کر دیا کہ وہ اس لحاظ سے وہ عورت ضرور رہا ہوگا۔ تا ریخ کے معلّمِ اوّل علآمہ شبلی نعمانی کی محققانہ رائے یہ ہے کہ
“ایک دن خیام بو علی سینا کی کتاب الشّفا کا مطا لعہ کر رہا تھا کہ وحدت و کثرت کی بحث آ گئی تو اٹھ کھڑا ہوا ۔عادت تھی کہ ہر وقت خلال پاس رکھتا تھا۔اس کو ورق میں رکھ کر اٹھاٗ نماز پڑھی ۔وصیت کی ۔شام تک کچھ نہ کھا یا ۔نمازِ عشاء پڑھ کر سجدہ کیا اور کہا ۔اے خدا جہاں تک میرے بس میں تھاٗ میں نے تجھ کو پہچانا۔اس لیے مجھے بخش دے۔یہی کہتے کہتے جان گئی۔”( مضامینِ شبلیؔ۔شبلی نعما نی )
خیام کی موت کے علاوہ دفن کا واقعہ بھی حیرت انگیز ہے۔اس نے اپنے ایک شاگرد نظامیؔ عروضی کو بہت پہلے بتایا تھا کہ بعد وصال اس کی قبر ایسی جگہ بنے گی کہ جہاں ہر سال دو بار درخت اس پر پھول بر سا ئیں گے۔اس نے دیکھا تو واقعی خیام کی قبر امرود اور زرد آلو کے درخت کے نیچے باغ کی دیوار سے متصل تھی۔خیام کو شعر و ادب و تا ریخ کی خدمت کے صلے میں علّا مہ خرا سااور علا متہ الز ماں کے خطا بات بھی ملے۔اس کے علا وہ وہ اپنے دور کا ما ہر ہیئت داںٗ اور قابلِ قدر نجومی بھی کہلایاٗ اور ایسا حکیم بھی کہلا یاٗ جس کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ اس کے برستے بادل بو سیدہ ہڈیوں کو بھی آبِ حیات پلا تے ہیںٗ لیکن آج اس کا نام صرف فارسی شا عری کی وجہہ سے زندہ اور باقی ہے۔ خیام ان دنوں انگریزی ادب میں بہت زیادہ زیرِ مطالعہ ہے۔اس کی وجہہ یہ ہے کہ اس کی فارسی شاعری کا فٹز جیرالڈ نے انگریز ی میں تر جمہ کیا تھاٗ مگر کسی نے اس تر جمے کی جانب تو جہہ نہیں کی ۔بعدِ از آں مشہور نقاد و شا عر جان کیٹس نے فٹز جیرالڈ کے ترجمے پر ایک تنقیدی کتاب لکھیٗ جس کی اس قدر پذیرا ئی ہوئی کہ عمر خیام مغربی شعر و تنقید کی دنیا کا اہم نام بن گیا۔
خیام کی جملہ (۱۲) تصانیف میں عربی اور فارسی شعری مجمو عوں کے علا وہ جو کتب ہا ئے علم و فن اس کی یادگار ہیںٗ ان میں آسمان و ستا روں کی حرکات میں ” زیچِ ملک شاہی” ٗگھو ڑا تلوار اور قلم کے با رے میں “نو روز نامہ” دنیا اور عبا دتوں کے لزوم کے مو ضوع پر” کون و تکلیف “اور” جبر و مقا بلہ” اہم ہیں ۔دیگر تحریروں میں مثلثٗ اور مربع کے ضلعےٗمو سم اور آب و ہوا اور خیام کے خطوط قا بلِ ذکر ہیں۔ذیل میں خیام کی فارسی ربا عیاتِ شاعری کا اردو ترجمہ پیش ہے۔
: اطاعت کے بد لے بہشت دے گا تو یہ خرید و فروخت کا معاملہ ہوا ۔میں سینکڑوں برس جا ن کر گناہ کروں گاٗ دیکھنا یہ ہے کہ میرے گناہ زیادہ ہیں یا تیری رحمت زیادہ ہے۔
: دنیا میں اکثر بے و قو فوں کو دولت ملتی ہے۔آسمان والا بے وقو فوں سے محبت کرتا ہے تو میں بھی کچھ زیادہ عقلمند نہیں ہوں۔
: مشہور ہے کہ انسان جیسا کام کرے گا ٗ ویسا ہی قیامت میں اٹھے گا ۔میں شراب اس لیے پیتا ہوں اور معشوق کے ساتھ اس لیے رہتاہوں کہ اسی حالت میں قیامت میں اٹھوں ۔
:شرابی کو پیالے سے ذرا سا تعلق ہو نے پر وہ اس کو توڑنا نہیں چاہتاٗ پھرخدا اپنے بندے کو دوزخ
میں ڈال کر اس کو خراب کیسے کرے گا۔
:لوگ کہتے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے۔صحیح بولنے پر تلخی ہو تی ہے۔گوا رہ کرنا چا ہیے۔پس شراب تلخ اور کڑوی ہو تی ہے۔پھر کسی اور نصیحت کی کیا ضرورت؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشنو از نَے چوں حکایت می کند و ز جدائیہا شکایت می کند
(مولانا جلال الدین رومیؒ)