(Last Updated On: )
کاوش عباسی
عمر کا میل تو ہے دور کی بات
کوئی آئے نبھائے رات کی رات
یادِ یار آکہ تیرے عکس بنیں
حسن و زنگ آفرینِ تشبیہات
کُھل ہی جائے گی آگے بڑھنے کی رَہ
اور کچھ دیر سر کھپائے حیات
بے حسی مجھ کو کھائے جاتی ہے
درد ، اے درد ، کوئی راہِ نجات!
تُو بھی سو جااَے میرے جاگتے دل
ہوگئی صبح سوئی جاگتی رات
کیسے آئینے چکنا چور ہوئے
وائے،اَے دہر سنگدل، تِرے ہات
وصل تو فنگِ وصل تھا کاوشؔ
ہجر میں کون سی ہے ہجر کی بات