خوشیوں کی گھڑی آئی
آنکھ کے صحرا میں
یادوں کی جھڑی۔ آئی
تم آم اڑاتے تھے
اور ہم مالی کو
باتوں میں لگاتے تھے
شربت گڑ ، ستّو کا
ٹھیلا ہوتا تھا
ترے بابے پھتوّ کا
ماضی کی دشاؤں سے
کون بلاتا ہے
یادوں کی گپھاؤں سے
دو پہر جوانی تھی
پل میں بیت گئی
پھر شام سہانی تھی
پیپل کی گھنی چھایا
گزرے زمانے کا
سایہ کو ئی لہرایا
وہ نین غزالی تھے
فیصلہ کیا ہوتا
سب اس کے سوالی تھے
اٹھتی ہے کسک پھر بھی
گرچہ ابھی تک ہے
جو بن کی مہک ، پھر بھی
دن وصل کے تھوڑے ہیں
جی بھر کر مل لو
پھر لمبے و چھوڑے ہیں
مرجھائے درختوں کو
دیں گی بہاریں کیا
ہم سوختہ بختوں کو
پت جھڑ کی ہوائیں تھیں
سہمے پرندوں کے
ہونٹوں پہ دعائیں تھیں
مل مہکی فضاؤں سے
یار نکل باہر
اندر کی خلاؤں سے
گَل عشق کی شان کی تھی
لت پت ہونا تھا
یہ فصل ہی دھان کی تھی
نیت تھی مری کھوٹی
تم بھی تھے آمادہ
اور کھلتی گئی چوٹی
چڑھتے ہوئے جامن پر
داغ لگا بیٹھے
ترے پیار کا دامن پر
دونوں ابھی بچے تھے
رَل مل کھا بیٹھے
امرود جو کچے تھے
وہ ہاتھ دعا والے
جسم عطا والا
اور ہونٹ شفا والے
دیکھا جو کمادوں کو
جان گئی سجنی
ساجن کے ارادوں کو
کلیوں کی چٹک بھی تھی
سانولی لڑکی میں
اُپلوں کی مہک بھی تھی
غصہ تری اکھیوں کا
شہد سے لب لیکن
چھتہ بھی ہو مکھیوں کا
اک جانگلی لڑکی سے
پیاس میں لسی ہی
پھر مانگ لی لڑکی سے
کچھ من کی خرابی تھی
کچھ اس چہرے کی
رنگت بھی گلابی تھی
کب دل کی وہ چھوٹی ہے
ہے تو کھرا سونا
بس تھوڑی سی کھوٹی ہے
کوئی عجب سی بھول ہوئی
پیار کے سودے میں
قیمت بھی وصول ہوئی